اللہ رب العالمین نے انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت کو قرار دیا ہے۔ اس عبادت سے مراد یہ نہیں کہ دن اور رات آپ رکوع و سجود کی حالت میں رہیں بلکہ عبادت سے مراد یہ ہے کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ رب العالمین کی اطاعت کے گوش گزار یںاور اس عبادت کا حق بھی بندہ جب ادا کر سکتا ہے جب وہ اپنی بندگی کی حدود میں رہے انسان کی عزت بھی اسی میں ہے کہ وہ بندہ بن کر زندگی گزارے۔ بندگی کا صحیح حق یہ ہے کہ تخلیق کے مقصد عبادت کو پہچان لے جب انسان زندگی کے شب وروز میں قرآن و سنت کو اپنا ترازو بنا لے گا تو گویا اس کا ہر عمل عبادت بن جائے گا۔ پھر ہر عمل اسے نیک اعمال کی توفیق دے گا۔ہر عمل اس کے قرب الٰہی میں مدد گار ہوگا۔ عبادت کا دائرہ بہت وسیع ہے مسلمان کی زندگی کا ہر عمل صبح اٹھنا ہو یا رات کو سونا ہو، کھانا ہو یا پینا ہو، لباس پہننا ہو یا اتارنا ہو، بازار جانا ہو یا سفر کرنا ہو غرض ہر عمل حدود الٰہی میں رہ کر سنت کے مطابق اخلاص کے ساتھ کیا جائے گاتو وہ عبادت بن جائے گا۔

بغیر کسی تاخیر کے ہم اپنے اس عنوان کی طرف آتے ہیں جو آج ہمیں زیر بحث لانا ہے اللہ رب العالمین بذاتِ خود مجھے سب سے پہلے اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے۔ اس کے بعد آپ سب کو پڑھ کر سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ میرا اس عنوان کو اختیار کرنے کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ آئندہ آنے والے رمضان المبارک میں ہم اس فتنے سے خود کو محفوظ رکھیں اور قبل از وقت تیاری کریں ۔

اگر عمومی طور پر خواتین سے پوچھا جائے آپ کی نگاہ میں زندگی کیسی ہونی چاہیے تو جواب سو فیصد تو یہ نہیں لیکن 90 فیصد یہی آتا ہے ایک آئیڈیل زندگی یہ ہے کہ اچھا گھر، گاڑی، بہترین آسائشیں ، اولاد، شوہرغرض یہ کہ پیسہ ہو۔ میرا ہر گز کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ پیسہ ضرورت نہیں ، پیسہ ایک ضرورت ہے اور جتنا اللہ آپ کو حلال طریقے سے دے یہ آپ کی تقدیر ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کو پیسے کی اتنی ہوس کیوں ہوتی ہے؟ جواب بڑا سادا سا ہے ہم اس پیسہ کو خرچ کر کے اپنی زندگی کو آرام دہ اور پر سکون بنانا چاہتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے اللہ رب العالمین انسان کو جو نعمت عطا کرتا ہے انسانی کمزوری ہے کہ اس پر تکبر کرتے ہوئے وہ فخر کا رویہ اختیار کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے بڑے غرور کے ساتھ اس نعمت کا اظہار اس طرح کرتا ہے جیسے یہ نعمت لینے پر وہ خود قادر تھا اسی طرح انسان کے پاس اگر پیسہ ہوتا ہے تو اس کا دل یہ بھی کرتا ہے کہ اس کو دکھائے اور خواتین عمومی طور پر اس کا برملا اظہار اپنے لباس اور دیگر اشیاء سے کرتی ہیں اور یہی وہ بیمار سوچ ہوتی ہے جس سے ہمارے روز وشب بازار کی زینت بن جاتے ہیں بازار وہ مقام ہے جہاں ضرورت پڑھنے پر آپ کو ضرورت کی اشیاء میسر آسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بازار وہ جگہ ہے جو اللہ کی نگاہ میں بد ترین مقام ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کوشش کر کہ تو بازار میں داخل ہونے والا پہلا انسان نہ ہو اور نہ ہی سب سے آخر میں نکلنے والا ہو کیونکہ بازار شیطان کا میدان(جنگ) ہے جہاں وہ ہر وقت اپنا جھنڈا گاڑھے رکھتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی ناپسندیدگی کی اصل وجہ کیا ہے اور اس جگہ پر کثرت سے کبیرہ گناہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ جھوٹ بول کر جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنا ، دھوکہ دہی ، ملاوٹ ، فریب، آنکھ کان اور دل کی زنا کاری وغیرہ۔ اور جس جگہ شیطان کا گھیرا ہو وہاں فرشتے اترتے ہیں اور نہ ہی وہاں پر مومن مرد و عورتیں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ اپنی زندگی کا عظیم سرمایہ ایسی بد ترین جگہوں پر لگانے سے بہتر اپنی زندگی کی سرمایہ کاری وہاں پر کرتے ہیں جو ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔ صحیح مسلم میں امام مسلم اس روایت کو لے کر آتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاں روئے زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ مقام مساجد ہیں جبکہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ مقام بازار ہیں۔ اس کی ایک اصل وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر ذکر الٰہی کم یا تو پھر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ وہ مجالس تک ہمارے لئے قیامت کے دن باعث حسرت ہونگی جس میں اللہ رب العالمین کا ذکر نہ کیا جائے۔ تو پھر ایسا مقام جس میں 24 گھنٹے اللہ کی نافرمانی کے کام ہو ں تو اللہ کو وہ جگہ کیسے پسند آسکتی ہے۔ نہ ہی اسکے بندوں کے لئے پسندیدہ جگہ ہو سکتی ہے لیکن بوقت ضرورت بازار جانا اللہ رب العالمین نے جائز قرار دیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ عمل ہمارے لئے کیسے عبادت بن سکتا ہے۔ قرآن و سنت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں وہ کون سی حدود ہیں جنہیں اختیار کرکے بازار جانے کی اجازت دی گئی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی بازار میں داخل ہوا اور اس نے کہا

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ حَیُّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ

تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتے ہیںدس لاکھ غلطیاں معاف کرتے ہیں دس لاکھ درجات بلند کرتے ہیں ( حسن) یہ عمل ہمارا عبادت کے دائرہ کے اندر آجائے گا اگر ہم مندرجہ ذیل حدود کا بھی خیال رکھیں۔

پہلی حد : محرم کے ساتھ جانا

سب سے پہلا اصول یا قرینہ ہر ممکن حد تک اس بات کی کوشش یقینی بنائی جائے کہ بغیر محرم کے بازار نہ جائیں تاکہ باوقار اور محفوظ طریقے سے آپ خریداری کر سکیں ۔ ان انسان نما بھیڑوں کی خطرناک چالوں سے آپ محفوظ رہ سکیں جو ان بازاروں کے ہر کونے میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہر آنے والی خاتون کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں کسی عذر کے بغیر اس طرح بغیر محرم کے جانا اور غیر مردوں کے ساتھ آزادنہ اختلاط کئی برائیوں کو جنم دیتا ہے اور اگر محرم نہ ہو تو بھی اکیلے جانے سے بہتر ہے دو تین عورتوں کو ساتھ لے لیجئے لیکن مسئلہ اتنا سا ہے کہ ہم میں سے بعض خواتین اپنے محرم کے ساتھ بازار کا سفر نا پسند کرتی ہیں اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ اکیلے جائیں اپنی مرضی سے آزادی سے گھومیں گھنٹوں گزاریں، کھائیں پئیں، کوئی رکاوٹ نہ بن سکے۔ درحقیقت یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔

دوسری حد: پردہ عورت کا تحفظ

ہر مسلمان عورت پر لازم ہے کہ وہ گھر سے جب بھی نکلے مکمل با پردہ ہو کر نکلے خواہ اسے ضرورت کے تحت کہیں بھی جانا ہو۔ اللہ رب العالمین کا فرمان مبارک ہے۔

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ ( باہر نکلا کریں تو ) اپنے (مونہوں)پر چادر لٹکا( کر گھونگٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت ( و امتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (الاحزاب 59)

مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں لمحہ بھر کو صرف اسی نکتہ پر اپنی توجہ مرکوز کیجئے اس حکم کی اولین مخاطب کون صحابیات رضی اللہ عنھن ہیں وہ جن میں سے کسی کے تقدس کی گواہی خود قرآن نے دی یا وہ جن میں سے کسی کا نکاح اللہ نے عرش پر کیا یا وہ جن کو جنت کی سردار کہا گیا یا وہ جن کو اللہ کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اگر ان کو یہ حکم دیا گیا تو پھر میں اور آپ ہمارے لئے یہ حکم کس قدر ضروری اہم اور فرض کے درجے پر ہوگا اگر ہمیں یہ نکتہ سمجھ آجائے تو اللہ کی قسم آج سے ہماری زندگیوں کے رخ بدل جائیں۔ امت مسلمہ کی آج بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری اکثر مائیں بہنیں اس پردے کو بوجھ اور قدامت پسندی سمجھتی ہیںاور اگر آج اکثریت نے جو حجاب اختیار کیا ہے وہ بے پردگی اور دلکشی کا باعث ہوتا ہے مروجہ برقعہ اور جدید فیشن کے نقاب اسی کا عکس ہیں۔ سعودیہ عرب کے ممتاز عالم دین ابن عیمثین رحمۃ اللہ علیہ نے فیشن ایبل نقاب کو حرام قرار دیا ہے جس میں عورت مزید پر کشش نظر آئے اور جسم کی بناوٹ نمایاں ہو۔ غور کریں تو ایسا پردہ پردے کے مقاصد کے خلاف اور اس کی روح کے منافی ہے ۔

تیسری حد : حیاء کی چارد آنکھوں پر

اے امت مسلمہ کی بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں ضرورت کے تحت اگر بازار جانا ہے تو اللہ کے اس خاص حکم کے مطابق اپنی آنکھوں کو جھکا کر رکھنا، خاص کر امت مسلمہ کی بیٹیاں اس باطل خیال اور شیطانی وسوسے کو دل سے نکال دینا کہ کوئی نا محرم مجھے دیکھے یاد رکھیں فرمان باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ: وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو ( باتیں) سینوں میں پوشیدہ ہیں ( ان کو بھی) (المومن)اللہ رب العالمین نے مومن مرد اور عورتوں کو اپنی نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: مومن مرد سے کہہ وہ کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں(النور) ۔

ترجمہ: اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ نگاہیں نیچی رکھا کریں۔(النور)

امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فتویٰ ابن تیمیہ میں فرماتے ہیں نیچی نگاہ رکھنے والا ( مرد و عورت) تین پاکیزہ اور اعلیٰ اوصاف کی حلاوت ضرور محسوس کرتا ہے۔ ۱۔ ایمان کی مٹھاس ۲۔ ثابت قدمی اور بلند ہمتی ۳۔ دل کا نور اور ایمان۔ ہم خود کو پرکھیںکہیں ہمارا شمار ان لوگوں میں تو نہیں ہوتا جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر غیر محرم رشتے کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا پھر کہیں ہماری عزت کا معیار یہ تو نہیں کہ ہمارا دل غیر محرم مردوں کو اپنا آپ دکھا کر خوشی محسوس کرتا ہے ہر ایسے موقع پر جب شیطان آپ کو وسوسہ دلائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک کو یاد رکھیں : عورت (پوری کی پوری) پردہ ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو اس پر شیطان جھانکتا ہے۔(ترمذی)

چوتھی حد: گفتگو کا انداز

جب آپ بازار جائیں تو دکاندار سے خریداری کے دوران نہ ہی اونچی آواز میں بات کریںنہ ہی اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کریں نرم اور دل کو لبھانے والا انداز گفتگو اختیار مت کریں ۔ شیطان کے جال میں پھنس کر ہم میں سے اکثریت جب بازار جاتی ہے۔ تو بلا کی بناوٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔ منہ و چہرے کے عجیب و غریب زاویے بناتی ہے اور ذہن میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شاید اس طرح دکاندار سستے داموں میں چیز فروخت کر دے گا یا پھر غیر محرموں کو متاثر کرنے کے لئے ہر ممکنہ طور پر متوجہ کرنے کے لئے اتنی بلند آواز سے بات کرنا کہ ہر کوئی ہمیں دیکھے اس تناظر میں صرف اتنی سی نصیحت ہے کہ کم سے کم گفتگو اختیار کرتے ہوئے فطر ی انداز میں بات کریں اس کو خود سے بے تکلف نہ کریں ۔ ہماری گفتگو کا انداز ایسا ہو کہ ایمان کے بیمار افراد ان میں دلچسپی نہ لے سکیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

ترجمہ: اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پر ہیز گار رہنا چاہتی ہو تو ( کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید ( نہ ) پیدا کرلے اور (ان میں ) دستور کے مطابق بات کیا کرو۔ (الاحزاب)

پانچویں حد : حیاء ایمان کا زیور

بے پردہ بازار جا کر فیشن کے نام پر غیر اخلاقی حرکات کا مظاہرہ کرنا ۔ اپنی عزت و آبرو کو گرا کر جسمانی زینت کا اظہار کرنا یہ ایک انتہائی پست اور برے درجہ کی حرکت ہے یہ جسمانی زیب و زینت اسلامی شریعت میں صرف شوہر کا حق ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو معاشرے میں فحاشی کو پھیلاتے ہیں اور عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ: جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی ( یعنی تہمت بد کاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النور) نبی کریم ﷺنے فرمایا فحاشی کسی بھی چیز (انسان) کی قدر و قیمت کم کر دیتی ہے جبکہ حیاء کسی بھی چیز کی قدر میں اضافہ کا باعث ہے ۔ (ترمذی)

چھٹی حد:زیب و زینت ترک کرکے جانا

ہم میں سے اکثر بہنیں اپنے محرم رشتوں کے لئے زیب و زینت اختیار نہیں کرتیں مگر جب انہیں بازار جانا ہوتا ہے تو ان کی تیاری قابل دید ہوتی ہے نئے کپڑوں سے لے کر میچنگ کے جوتوں تک کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے یہ سوچ انتہائی خطرناک اور ناقابل فہم ہے ۔ معزز اسلامی ماؤں اور بہنوں ہم پر واجب ہے کہ زیب و زینت کو ترک کر کے بازار جائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ: اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت ( کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بیشک خدا بریک بیں اور با خبر ہے۔ (الاحزاب)

ساتویں حد : مناسب لباس

کس قدر قابل فخر ہیں وہ بہنیں جو قدامت پسند، دقیانوس، غیر مہذب اور شدت پسند جیسے الفاظوں والقابوں کے تیر، نشتر برداشت کرلیتی ہیں لیکن وہ مناسب لباس اور اشیاء ہی کو اختیار کر تی ہیں جو یا تو رب کے قرآن میں ہوں یا رسول اللہ کے فرمان میں ہوں ذہنی کوفت اٹھانے کے باوجود اسلامی اصولوں پر سختی سے کار بند رہنا اپنے پرور دگار کو راضی کرنا دنیا کی چند روزہ زندگی کو بیچ کر آخرت کی زندگی کا سودا کر لینا۔ اس کے برعکس کس قدر بد قسمت ہے وہ بہن بیٹی یا ماں جو خود کو ترقی پزیر قوم کہلوانے کے فخر میں اپنا لباس اپنی حیاء اور اپنا ایمان فروخت کر دے بے ہودہ لباس اختیار کر کے آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں فانی زندگی کو ترجیح دے گئی ۔ رب العالمین کی ناراضگی کی مستحق ٹھہرے جنت کی خوشبو تک سے خود کو محروم کروالے۔ صحیح مسلم میں امام مسلم اس حدیث کو لے کر آتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل جہنم کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے دیکھا نہیں ایک تو وہ جن کے ہاتھ میں گھوڑے کی دم کی طرح لاٹھیاں ہوں گی جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے ( اور دوسرا) وہ عورتیں جو (کپڑے پہننے کے باوجود )ننگی ہوں گی ( ان کے کپڑے باریک یا تنگ ہوں گے) وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خود بھی مردوں کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہان کی طرح ہونگے یہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو ( کتنی دور کی) مسافت سے آتی ہے۔ مغربی کافرات اور فاسقت کی نقالی حقیقت میں احساس محرومی عیاں کرتی ہے اور دین اسلام محرومیوں سے بے شک پاک ہے یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جب تو بے حیاء ہوجائے تو جو مرضی کر۔ ( صحیح بخاری)

آٹھویں حد: نماز ایک فریضہ ہے

سب سے بڑا نقصان جو ہم اپنا کرتے ہیں وہ ایمان اور حیاء کے نقصان کے ساتھ ساتھ بازار کی چکا چوند میں اپنے فرائض کا نقصان جو کسی مسلم یا غیر مسلم میں تفریق کرتا ہے وہ مصروفیت بازار کی وجہ سے ضائع کر دیتے ہیں۔ قیامت کے روز سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہو گا اور یہ وہ فرض جس کو اللہ تعالیٰ نے بتائے ہوئے اوقات میں فرض کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ: بے شک نماز مومنوں پر مقررہ اوقات میں فرض ہے۔ (النساء)

نویں حد :خوشبو لگا کر نہ جانا

بازاروں میں خوشبوؤں کا ایک سمندر ہوتا ہے جو عام طور پر امڈ کر آتا ہے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسے استعمال کر کے ہم خود کو بہت Well Educated طبقہ Show offکرتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمیں اپنی حیثیت کا الگ ہی آئینہ دکھاتا ہے ’’ جو عورت خوشبو لگائے اور غیر مردوں کے پاس سے گزرے کہ ان کو اس کی خوشبو پہنچے تو وہ زانیہ ہے‘‘ ( سنن نسائی)

کچھ اور حدود: احتیاط کا دامن ہر گز نہ چھوٹے

٭بازار جانے کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کیجئے ۔ کسی ایسے وقت کو اختیار نہ کیجئے جب دوکاندار اکیلا ہو یا پھر آپ کی عزت کے نقصان کا خطرہ ہو۔

٭چوڑیاں اور زیورات کی پیمائش کا مسئلہ ہو یا درزی کے پاس جانا ان دونوں میں حدود اللہ کا خیال رکھیں۔ نا محرم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ اور پیر دینے سے گریز کیجئے یاد رکھیں آپ کا نازکی اور اترا کر چوڑی یا جوتے پہننے کے بہانے ان کا اپنے نفسوں کو تسکین پہنچانا کس قدر شرم ناک اور بے حیائی کا عمل ہے۔ اعاذ نا اللّٰہ منہ۔ درزی کو ناپ دینے میں بے حیائی اختیار نہ کریں جسم کے ہر عضو کا انتہائی کھلے الفاظوں میں ناپ دینے سے گریز کریں۔

٭بازار میں عصمت و عفت کے پیکر بن کر چلیں نامحرموں سے ٹکراؤ سے بچیں ۔ رش کے اوقات میں بازار جانے سے پرہیز کریں۔

٭ونڈو شاپنگ صرف وقت کا ضیاع ہے اس سے گریز کریں۔

٭گرمی کے باعث اگر خوشبو کا استعمال کریں تو صرف ایسی خوشبو جو آپ تک محدود ہو ۔

٭اونچی ایڑی والا جوتا نہ پہنیں ان کی آواز سے مرد متوجہ ہوتے ہیں اور یہ جسمانی تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔

٭بازار میں وقت ضائع نہ کریں وہاں بیٹھ کرخوش گپیاں، لطف اندزوی یاد رکھیں یہ نا پسندیدہ جگہ ہے اور جو اللہ کے ہاں نا پسندیدہ جگہ ہے وہاں اس طرح بیٹھ کر اس کی ناراضگی کیوں مول لی جائے۔

دیکھا جائے تو اکثریت ہم میں سے قناعت کا درس بھول چکی ہے ہر شخص خود غرض ہے لیکن قرون اولیٰ کی عورتوں نے جن میں اولین صحابیات رضی اللہ عنھم انہوں نے خود غرضی کی بجائے اپنے حق سے کم پر اکتفا کیا اخوت اور باہمی ہمدردی کا وہ درس دیا جس کی نظیر نہیں ملتی دوسروں کی محرومی دیکھ کر اپنا سب کچھ ان پر لٹا دیا ایثار ایسا کیا کہ خود فاقے سے رہے لیکن دوسروں کو نواز دیا۔ اس وقت وہ عورت ہی بازار جاتی تھی جس کی ضرورت پوری کرنے والا مرد نہ ہوتا تھا یا پھر مریض یا پاگل ہوتا یا مطلوبہ چیز نہ خریدنے کا اہل ہوتا اور خود بھی جانے سے کتراتا آج بازار جانا بھی ایک فیشن ہے پھر ان میں بھی حد یہ ہے کہ انتہائی فضول خرچی کرنا یا تو غیر ضروری اشیاء خرید کر لے آنا اپنی چادر دیکھے بغیر پاؤں پھیلانا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ان المبذرین کانو اخوانا الشیطن ، وکان الشیطن لربہ کفورا۔ ترجمہ: کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار ( کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا ( یعنی نا شکرا) ہے(بنی اسرائیل)

دسویں حد : بازار کب نہیں جانا

عید الفطر کی تیاری کے لئے عمومی طور پر ہمارے ہاں معروف ہے رمضان کے مہینے کو بازاروں میں گزارنا یہاں تک کہ آخری عشرے میں بازاروں کے چکر لگانا یاد رہے رمضان شھر القرآن ہے اور جو سلوک آپ اس کے ساتھ کریں گے اسی سلوک کے اور اسی مہمان نوازی کے اللہ کے پاس مستحق ہوں گے یا پھر ذوالحجہ (عید الاضحیٰ) کے پہلے دس دن اس پہلے عشرے کو بازاروں کی زینت بنا دینا یاد رہے آج عمل ہے کل حساب ہے کل عمل کی مہلت نہ ملے گی ہم میں سے کتنے ہی ایسے تھے جو کل ہمارے ساتھ تھے لیکن آج نہیں ۔ خدارا رمضان کو بازار کا مہینہ نہ بنائیں بلکہ کوشش کریں رمضان میں مندرجہ ذیل کام اپنائیں۔

———-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے