خوابوں کی نگری رنج والم اورفرحت وانبساط کی ملی جلی کیفیت سے آباد ہوتی ہے۔ علمائے نفسیات کہتے ہیں کہ دن کے اجالے میں تشنہ رہ جانے والی تمنائوں، شکستہ آرزئوں اور دل میں مچلتی خواہشات کی تکمیل انسان خوابوں کی دلفریب دنیا میں کرلیتا ہے۔حقیقت جو بھی ہو، مگر خواب ہر انسان دیکھتا ہے، اس پر نہ کوئی پابندی ہے نہ ٹیکس۔ اب تو خواب ہی ایسی چیز رہ گئی ہے جو ہر مردوزن مفت میںدیکھ سکتاہے۔ ورنہ جاگتی آنکھوں تو سبزی کے دام پوچھتے ہوئے خوف آتا ہے، مبادا وہ برا مان جائے اور پوچھ بیٹھے کہ جب خریدنے کی استطاعت نہیں تو ہماری طرف دیکھتا کیوں ہے؟ جا اپنی راہ لے! خوابوں کی اس حسین دنیا میں غریب امیر اور رنگ ونسل کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ جس طرح کہتے ہیں ناں! ’’عشق نہ پچھے ذات‘‘ اسی طرح خواب بھی ہر قید وبند اور ذات پات کی تفریق سے آزاد ہوتے ہیں۔ بس جونہی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئیں اور یہ پلکوں پر اتر آئے اور دبے قدموں آنکھوں میں سرائیت کرگئے، بالکل ایسے جیسا کے دور فضائوں میں اڑتاکوئی کبوتر تھک کر گھر کی منڈیر پر خاموشی سے آکر بیٹھ جائے۔

خوابوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے۔ اس کا اپنا ہی ایک طرز عمل ہوتا ہے کبھی یہ انسان کو رلاتے ہیں، کبھی ہنساتے ہیں اور کبھی خوف زدہ کردیتے ہیں۔ اکثر ان کی اڑان انسانوں کو آسمانوں کی بسیط پنہائیوں میں اڑا لے جاتی ہے تو کبھی فضا میں قلابازیاں دے کر زمین پر لا پٹختی ہے۔ بعض لوگ جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ سہانے اور دلگداز خوابوں کے سہارے ہی زندگی گزارتے ہیں اور گھر کے دروازے بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں کہ خوشیاں خود چل کر آئیں گی اور ان کے دروازے پر دستک دیں گی اور انہیں مالا مال کردیں گی۔ دراصل یہ لوگ خود زندگی نہیں گزارتے بلکہ زندگی انہیں گزار دیتی ہے۔ بقول منیر نیازی   ؎

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا

عمر میری تھی اور اسے بسر اس نے کیا

کہتے ہیں جھونپڑیوں میں رہنے والے ہی محلوں کے خواب دیکھا کرتے ہیں، اس لئے کہ محلوں میں رہنے والوں کو تو نیند ہی نہیں آتی۔ پھر بھی بعض خواب ایسے ہوتے ہیں جو برسوں اپنی تعبیر ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اور کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوئے۔ خواب محض خواب ہی رہتے ہیں۔ آسمان پر چمکتا چودھویں کا چاند آنگن میں رکھے پانی سے بھرے تھال میں بھی اتر آتا ہے، مگر کون نہیں جانتا کہ یہ فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور ایسے بے تعبیر خواب اکثر انسانی معاشرے کے پسے ہوئے اور کچلے ہوئے لوگوں کے نصیب میں ہی ہوتے ہیں،اور ان کے کئی رخ ہیں، مثلاً اچھے دنوں کے خواب، مفلسی اور مفلوک الحالی دور ہونے کے خواب، بیٹیوں کے ہاتھ پیلے ہونے کے خواب، کبھی مناسب جوڑ نہ ملنا اور کبھی وسائل کی کمیابی جس کے سبب بیٹیوں کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے۔ آنکھیں روتے روتے خشک ہوجاتی ہیں اور خواب ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتے ہیں۔ جن کی آرزئوں کے خوشنما پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ اس لئے کہ:

ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لئے بھی

اس بے چارگی اور احساسِ محرومی کی سعادت حسن منٹو نے کیا خوب نقشہ کشی کی ہے وہ لکھتے ہیں: ’’جوان اوربن بیاہی بیٹی گھر میں بیٹھی ہو تو اسے دیکھ کر ماں باپ کو یوں لگتا ہے گویا ڈھیر ساری بیسن کی روٹی کھالی ہو، پانی کا گھڑا دور رکھا ہو اور اچانک نوالہ حلق میں پھنس جائے‘‘۔ زندگی ایسے ہی ایک کڑے امتحان کا نام ہے۔ روزانہ نہ جانے کتنے بادل برسے بنا ہی گزر جاتے ہیں۔ کتنے انسان ایک لمحے کی خوشیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندگی ہار جاتے ہیں۔ کتنی ہی بچیاں اپنی مانگ میں افشاں سجانے کی آس میں بیٹھے بیٹھے پتھر ہوجاتی ہیں۔ یہ زندگی کا عجیب تضاد ہے کہ مانگنے سے پتھر بھی نہیں ملتا اور کبھی بن مانگے موتیوں سے دامن بھرجاتا ہے۔ اسی مقام پر یہ احساس قوی ہوتا ہے کہ ’’کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلارہاہے‘‘ تقدیر وتدبیر کا فلسفہ اسی مقام پر سمجھ میں آتا ہے۔

خوابوں کا ایک دوسرا روپ بھی ہے۔ ہر قوم میں کچھ ایسے بصیرت افروز، دانشور، فلسفی اورمصلحین بھی ہوتے ہیں۔ جن کے خواب ان کے کردار کی طرح عظیم ہوتے ہیں۔ قوم کا سچا درد ان کے رگ وپے میں سرائیت کرچکا ہوتاہے۔ چنانچہ ان کے خواب بھی ان کے فکرونظر کی عکاسی کرتے ہیں۔ مفکر اسلام علامہ اقبال نے بھی ایک خواب دیکھا تھا۔ امن وسکون کی دنیا کا خواب، اسلامی نظام کی برکتوں، نعمتوں اور حریت وآزادی کی زندگی کا خواب۔ ایک ایسی جداگانہ سرزمین اور خطہ ارض کے حصول کا خواب، جس میں سیاست، معیشت، معاشرت،

عقائد ونظریات سب کچھ اپنا ہو، اپنے دائرہ اختیار میں ہو۔ جہاں دھرتی اپنی ہو، فصل اپنی ہو، لہلہاتی کھیتیاں، سبزہ زار، دریا، نہریں، آبشار، خزاں بہار اور لیل ونہار کی گردشیں، سب کچھ اپنا ہو، سیاسی اور معاشی فیصلے ملک وقوم کی فلاح وبہبود کے آئینہ دار ہوں۔ انفرادی اور اجتماعی امور اور اصول وضابطہ اخلاق اپنے ہوں، انفرادیت اور اجتماعیت کے دونوں گوشوں میں قدرت کے فیصلوں کو اولیت حاصل ہو۔ لیکن جب خواب ٹوٹتے ہیں تو چھناکے کی آواز بھی نہیں آتی بس روح کی گہرائیوں میں ریزے ریزے بکھرجاتے ہیں۔ اور وہ لہولہان ہوجاتی ہے۔ اقبال کا خواب بھی کچھ اس طرح ٹوٹ کر بکھرا ہے کہ اگر زندگی نے انہیں مہلت دی ہوتی اور وہ اپنے خواب کو یوں پارہ پارہ ہوتے دیکھتے تو شاید اپنی آنکھیں ہی پھوڑلیتے۔ آج نہ سیاست ہماری ہے، نہ معیشت اخلاقیات پر غیروں کی ثقافت کا قبضہ ہے۔ میراثی، میراثنیں، بھانڈ اورگویئے آج عزت واحترام سے نوازے جاتے ہیں بازاری عورتوں اور فاحشائوں کو معاذاللہ نبیﷺ کے گھر کی بیٹی قرار دیاجاتا ہے۔ امتِ مسلمہ کی اخلاقی گراوٹ اور اللہ تعالیٰ سے بے خوفی کی اور کیا انتہا ہوگی۔ آج انسانیت تعفن کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے… دوسری طرف ہم فرقہ واریت، لسانیت، علاقائیت اور غیر ضروری رسم ورواج میں پابندِ سلاسل ہیں۔ سیاسی مغلوبیت، ذہنی انتشار ، اخلاقی بے راہ روی اور تہذیبی پراگندگی آج پاکستان کی اصل شناخت ہے۔ اس لئے آج ہر سچا اور درد مند پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا خواب یوں بھی پریشاں ہوتے ہیں؟

اجڑا ہے یوں چمن کہ گزرا ہے یہ گماں

اس کام میں شریک، کہیں باغباں نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے