کتاب : داماد رسول ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ
تحریر : ڈاکٹر مظہر معین
محمد بن علی بن ابی طالب (ابن حنفیہ) رحمہ اللہ
تحریر: خورشید احمد فارق
اموی خلفاء وامراء اور اتباع قرآن وسنت
تحریر : ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
صفحات : 109
ناشر : حارث پبلی کیشنز کراچی
تبصرہ : محمد سلیمان جمالی
قارئین کرام ! حارث پبلی کیشنز کراچی نے مختصر وقت میں بہت منفرد اور نایاب کتب منظر عام پر لائے ہیں ۔ اسی تسلسل میں ادارے سے ایک تازہ کتاب شائع ہوئی ہے جو درج ذیل تین اہم عنوانات پر مشتمل ہے ۔
1 داماد رسول ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ
2 محمد بن علی بن ابی طالب (ابن حنفیہ) رحمہ اللہ
3 اموی خلفاء وامراء اور اتباع قرآن وسنت
کتاب کا پہلا حصہ جلیل القدر صحابی سیدنا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کی سیرت پر مشتمل ہے ۔
آپ کا نام ابوالعاص بن الربیع بن عبدالعزی بن عبدالشمس القرشی ہے ۔
آپ کو «جرو البطحاء» وادی بطحا کا شیر بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ کو رسول اللہ ﷺکی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کا شرف حاصل ہوا ہے ۔
آپ کی والدہ ہالہ بنت خویلد ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں اور آپ کے ماموں عوام بن خویلد نبی ﷺکی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ہیں جن کے بیٹے زبیر رضی اللہ عشرہ مبشرہ میں شامل اور ابوالعاص کے ماموں زاد ہیں ۔ جب کہ نبی اكرم ﷺآپ کے خالو اور ان کی بیٹیاں زینب ، رقیہ اور ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنھن آپ کی خالہ زاد ہیں ۔
آپ نے مکہ مکرمہ میں بعثت سے کم بیش بیس سال قبل ولادت پائی ۔ مکہ میں ہی پرورش پائی اور وہیں جوان ہوئے آپ خوبصورت وجیہ متناسب جسم اور عمدہ قدو قامت والے شخص تھے ۔
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں : ابوالعاص مال وامانت وتجارت کے لحاظ سے مکہ کے چند گنے چنے لوگوں میں سے تھے وہ ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ تھیں ۔ پس خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نزول وحی سے پہلے درخواست کی کہ ان کی شادی زینب رضی اللہ عنہا سے کر دی جائے رسول اللہ ﷺخدیجہ رضی اللہ عنہا کی کسی بات سے اختلاف نہیں کرتے تھے پس آپ نے ان کی شادی کردی ۔
کانت تعدہ بمنزلة ولها
خدیجہ ابو العاص کو اپنے بیٹے کا مقام دیتیں تھیں ۔(ابن ہشام : 263/2)
جب رسول اللہ کو نبوت ملی تو کفار قریش ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے کہ آپ اپنی بیوی چھوڑ دیں تم قریش کی جس عورت سے کہوگے ہم تمہاری شادی کرادیں گے۔ تو وفادار شوہر نے جواب دیا :
لا والله ! إني لا أفارق صاحبتي .
نہیں ! اللہ کی قسم ! میں اپنی بیوی نہیں چھوڑ سکتا ۔
وکان رسول اللہ يثني عليه في صهره خيرا
رسول اللہ ﷺان کی دامادی کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ (ابن ہشام : 263/2)
یہاں تک کہ آپ شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کی محصوری کے تین سالوں میں بھی غلہ اور کھجور سے لدے اونٹ شعب ابی طالب میں پہنچاکر بنو ہاشم کے خورد ونوش کا انتظام کرتے رہے ۔
آپ رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں اسیر ہوکر آئے تھے علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ابوالعاص بن ربیع ان لوگوں میں سے تھے جو کفارقریش کے ساتھ غزوہ بدر میں موجود تھے اور ان کو عبد اللہ بن جبیر بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ نے قید کر لیا تھا ۔ پس جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو ابوالعاص کے بھائی عمر و بن ربیع بھی بطور فدیہ اس مال کے ساتھ مدینہ آئےجو زینب بنت رسول اللہ ﷺنے انہیں دیا تھا ۔ اس میں وہ ہار بھی تھا جو ان کی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت انہیں دیا تھا جب انہیں ابوالعاص کے پاس بطوردلہن بھیجا تھا، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا : إن رأيتم أن تطلقوا لها أسيرها وتردوا الذي لها ، فافعلوا ، فقالوا : نعم .
اگر تمہاری رائے ہو کہ اس ( زینب ) کے قیدی کو رہا کر دو اور جو مال اس نے بھیجا ہے ، واپس کر دو تو ایسا کرلو ۔ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : جی ضرور ! فأطلقوه و ردوا عليها الذي لها
پس انہوں نے ان کو رہا کر دیا اور جو کچھ ان ( زینب کا تھا ، ان کو واپس کر دیا ۔ (الاستيعاب : ٢٤٦/٢)
بالآخر آپ رضی اللہ عنہ نے سنہ 6 ہجری میں اسلام قبول کر لیا ۔
آپ رضی اللہ عنہ کو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے ایک بیٹا علی بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا تھیں صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺدوران نماز انہیں اٹھا لیا کرتے تھے جب سجدہ کرتے تو انہیں بٹھا دیتے جب قیام کے لیے اٹھتے تو انہیں اٹھا لیتے ۔ (صحیح بخاری : ٤٩٤)
اور آپ کو اپنے دیگر نواسوں کی طرح سیدنا علی بن ابوالعاص سے بھی محبت تھی اس محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ نے اپنے پیارے نواسے کو اپنے پیچھے ردیف بٹھا لیا تھا۔
بعض کے نزدیک : سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے سنہ 12 ہجری میں سیدنا ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔ ملاحظہ ہو : (الإكمال في أسماء الرجال : ٥٨٥)
قارئين کرام ! یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺکے پیارے داماد اور صحابی ابوالعاص بن ربیع ، آپ کی زوجہ محترمہ اور آپ کی اولاد کے متعلق بہت کم ہی لکھا گیا ہے ممکن ہے بعض عام الناس کو پتہ بھی نہ ہو کہ ابوالعاص نامی کوئی شخصیت بھی رسول اللہ ﷺکے داماد رہے ہیں جن سے اللہ تعالی نے آپ کو پھول جیسا نواسہ اور نواسی عطا فرمائی تھی ۔ یہ امتیاز حارث پبلی کیشنز کو جاتا ہے کہ انہوں نے اردو دان طبقے کے لیے اس جلیل القدر صحابی کا تعارف پیش کیا کتاب کا یہ حصہ ڈاکٹر مظہر معین صاحب کے رشحات پر مشتمل ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہ کا نام و نسب ، ولادت، غزوہ بدر میں اسیری ورہائی ، ہجرت سیدہ زینب بعد غزوہ بدر ، آپ کی خدمات و اولاد ، آپ کی شاعری، آپ کی وفات اور آپ کی مناقب پر مشتمل ہے ۔ یقینا ایک نایاب عنوان پر ایک بہترین مقالہ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔
کتاب کا دوسرا حصہ ایک جلیل القدر شخصیت کی سیرت پر مشتمل ہے جن کا نام جناب محمد بن علی بن ابی طالب ابن حنفیہ رحمہ اللہ ہے ۔
یہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے غیر فاطمی صاحبزادے تھے جو بقول علامہ ابن سعد آپ رضی اللہ عنہ کی لونڈی خولہ بنت جعفر کے بطن سے تھے جن کا تعلق قبیلہ بنی حنیفہ سے تھا اسی وجہ سے آپ کو بنی حنیفہ بھی کہا جاتا ہے خولہ بنت جعفر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ میں گرفتار ہوکر آئیں تھیں ابن سعد امام بخاری کے استاد فضل بن دکین کی سند سے لکھتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر نے خولہ بنت جعفر کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ہبہ کر دیا تھا ۔ اسماء بنت ابی بکر کا کہنا ہے کہ :
رأيت أم محمد بن الحنفية سندية سوداء
ميں نے ام محمد بن الحنفیہ یعنی خولہ بنت جعفر کو دیکھا تھا وہ کالی سندھی خاتون تھیں ۔(الطبقات الکبیر : 91/5)
یہی بات علامہ ابن کثیر نے بھی البدایہ میں جناب محمد بن حنفیہ کے ترجمہ میں لکھی ہے کہ : کانت سوداء سندية من سبي بني حنيفة اسمها خولة
ابن قتیبہ دینوری نے المعارف میں آپ کی کنیت ابوالقاسم لکھی ہے جب کہ حافظ ابن کثیر نے ابوالقاسم کے ساتھ ابو عبداللہ کنیت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ (البداية والنهاية: ٤٦/٩)
علامہ ابن سعد لکھتے ہیں عبدالاعلی کا کہنا ہے کہ :
كان كثير العلم ورعا
آپ بڑے عالم اور نہایت متقی وپرہیزگار شخص تھے ۔
جبکہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :
وکان محمد بن علي من سادات قريش، ومن الشجعان المشهورين ومن الأقوياء المذكورين .
جناب محمد بن علی قریش کے سادات میں سے اور مشہور بہادروں میں سے تھے اور انہیں بہت طاقت اور شہ زور سمجھا جاتا تھا ۔ (البداية والنهاية: ٤٦/٩)
علامہ ابن سعد نے جناب محمد بن علی کا ذکر ان طبقات رواة میں کیا ہے جنہوں نے سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا عبدالرحمان بن عوف سیدنا طلحہ سیدنا زبیر سیدنا سعد بن ابی الوقاص سیدنا ابی بن کعب سیدنا سہل بن ابی حنیف سیدنا حذیفہ بن الیمان سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کتب ستہ میں آپ کی متعدد روایات موجود ہیں جن میں سے ایک روایت بخاری میں حدیث نمبر 3671 ہے جس کو وہ اپنے والد سیدنا علی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد علی سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ ، میں نے پوچھا پھر کون ہیں ؟ فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ ۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب ( اگر میں نے پوچھا تو ) کہہ دیں گے کہ عثمان ۔ اس لیے میں نے خود ہی کہہ دیا کہ ، اس کے بعد آپ ہیں ؟ تو فرمانے لگے : میں عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں ۔
علامہ ابن قتیبہ الدینوری لکھتے ہیں : جناب محمد بن علی رحمہ اللہ کے دس بیٹے تھے : حسن ، عبداللہ ، ابو ہاشم ، جعفر الاکبر ، جعفر الاصغر ، حمزہ، علی ، عون ، قاسم اور ابراہیم ۔ تا ہم ہمارے خیال میں یہاں ابن قتیبہ سے تسامح ہوا ہے اور وہ دو بیٹوں عبد الرحمن اور عبداللہ الاصغر کا نام لکھنا بھول گئے ہیں ۔ کیونکہ علامہ ابن سعد نے طبقات میں محمد بن علی رحمہ اللہ کے مذکورہ دس بیٹوں کے علاوہ عبد الرحمن اور عبداللہ الاصغر نامی دو بیٹوں کا مزید ذکر کیا ہے ۔ جن میں عبدالرحمن کی والدہ ام عبدالرحمن برة بنت عبدالرحمن بن حارث بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم تھیں ۔ ان ام عبد الرحمن کے بطن سے عبدالرحمن کے علاوہ قاسم بن محمد اور ایک بیٹی ام ابیھا تھی ۔ یوں قاسم اور عبد الرحمن دونوں ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہاشمی تھے ۔ قاسم اورعبد الرحمن دونوں کی ہی نسل نہ چلی ۔ ابن قتیبہ اور ابن سعد بتاتے ہیں کہ ابو ہاشم ، حمزہ ، علی اور جعفر الاکبر جناب ابن حنفیہ کی ایک ام ولد کے بطن سے تھے ۔ اہل بیت کے اس عظیم المرتبت فرزند ارجمند نے سنہ 81 ہجری میں وفات پائی ۔ قارئین کرام ! سیدنا ابوالعاص بن ربیع کی طرح جناب ابن حنفیہ کی سیرت پر بھی بہت کم ہی لکھا گیا ہے یقینا حارث پبلی کیشنز نے اس حوالے سے بھی سبقت حاصل کر لی ہے اور جناب خورشید احمد فارق صاحب کا آپ کی سیرت پر ایک بہترین مقالہ اس کتاب کی زینت بنایا ہے ۔ یہ مقالہ مطبوعہ اقبال اکتوبر 1959 ء میں سائع ہوا تھا اس کے بعد اب جدید طرز طباعت میں اسے حارث پبلی کیشنز نے اسے اشاعت کا زیور پہنایا ہے جس آپ رحمہ اللہ کی زندگی کا بڑے خوبصورت انداز سے احاطہ کیا گیا ہے ۔ اہل بیت سے محبت کرنے والے اس رسالہ کا ضرور مطالعہ کریں ۔
اسی طرح کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ (اموی خلفاء و امراء اور اتباع کتاب و سنت) کے عنوان پر مشتمل ہے اس میں خلفاء بنو امیہ کی سنت نبوی پر عمل اور استقامت کی خوبصورت تصویر پیش کی گئی ہے کہ بنو امیہ کہ خلفاء دیگر خلفاء کی طرح سنت رسول ﷺکو مقدم رکھتے تھے اور سنت کے مطابق ہی اپنے فیصلے کیا کرتے تھے جس کے کئی ایک مثال موجود ہیں جس طرح جناب سیلم بن عامر کا بیان ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان علاقوں کی طرف کوچ کیا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی ان پر حملہ کردیں ۔ لیکن سیدنا عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حدیث سنائی کہ مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد اس کو منسوخ کرنے کی اطلاع دینے کے بعد ہی ان پر حملہ کیا جا سکتا ہے ۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث سن کر فوج لیکر فورا واپس ہوئے ۔ (سنن أبي داؤد: ٢٧٥٩)
یہ آپ کا اعزاز تھا کہ آپ جن مسائل وامور میں لاعلم ہوتے تھے ان کے متعلق اہل علم سے معلومات حاصل کرکے فیصلہ کرتے ۔ چنانچہ ایک بار ایک قاتل کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پا کر قتل کا ارتکاب کیا تھا سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اور دادا کے حصہ ترکہ کے بارے میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا اور پھر اسی کے مطابق عمل کیا ۔ اس طرح کے دیگر مثالوں پر مشتمل یہ حصہ جناب ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی صاحب کی تحریر پر مشتمل ہے ۔ جو مطالعہ سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کی ایک اور خصوصیت مشہور مضمون نگار جناب محمد فہد حارث حفظہ اللہ کا بہترین پیش گفتار ہے جو ان تینوں عنوانات پر ایک پر مغز اور جاندار دستاویز ہے جس میں ایک ایک لفظ تحقیق اور تدقیق کا مظہر ہے جس نے کتاب کی اہمیت کو حد درجہ بڑھا دیا ہے الغرض یہ کتاب ایک نایاب عنوانات پر مشتمل شہ پارہ ہے جو ہر قاری کےمکتبے کی زینت ہونی چاہیے ۔
یاد رہے کہ تبصرہ کے لیے اقتباسات اسی ہی کتاب سے بتصرف اخذ کیے گئے ہیں ۔