اسرائیل کو تسلیم کرنے پرپاکستان میںسابق صدر مشرف نے اگست۲۰۰۳ء میں بحث مباحثہ کا آغاز کیاتھا جو تاحال مختلف پہلوؤں سے جاری ہے۔جنرل پرویز مشرفنے’ہم خیال ممالک کا گروپ‘ تشکیل دینے کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے ۵ ممالک کا دورہ بھی کیا تھاجس کے نتیجے میں اسلام آباد میں ایران اور شام کو نظرانداز کرکے باقی مسلم ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ – سابق صدر کے دورے کے فوراً بعد فروری ۲۰۰۷ء میں ایک بار پھر مسجد ِاقصیٰ کو صہیونی جارحیت کا نشانہ بننا پڑا۔ ان حالات میں مناسب سمجھا گیا کہ مسلمانانِ پاکستان کے سامنے مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں یہودیوں کے موقف اور صہیونیوں کے اس کردار کو پیش کیا جائے جو بوجوہ نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔زیر نظر مضمون سے مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں بعض ضروری حقائق سے مطلع کرنا ہی مقصود ہے-جہاں تک اس موضوع کے دیگر پہلو اور بعض دینی رسائل میں مسجد ِاقصیٰ کی تولیت پرایک شرعی بحث کا تعلق ہے تو اس کے لئے مستقل مضمون درکار ہے-

سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے اوائل دورِ خلافت (14ھ/ ۶۳۶ء) میں سیدنا ابو عبید ہ رضی اللہ عنہ بن جراح کی زیر قیادت مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا- اس کے بعد لگاتار ۱۴ صدیوں (۱۹۶۷ء) تک بیت المقدس کا شہر اور مسجد ِاقصیٰ مسلمانوں کی نگرانی میں ہی رہے- درمیان میں ۱۰۹۹ء سے ۱۱۸۷ء(۱۵/رجب۵۸۳ھ) تک کے ۸۸ برس ایسے گزرے جب بیت المقدس پر عیسائیوں نے قبضہ کرلیا اورسلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے ان کے قبضہ سے واگزار کرایا- ۷ جون ۱۹۶۷ء کو یہودیوں نے پورے بیت المقدس پر اپنے قبضہ کو توسیع دے لی جبکہ اس سے قبل ۱۹۴۸ء میں برطانیہ کے تعاون سے وہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست بھی قائم کرچکے تھے-

۱۸۹۷ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر سوسیرابال میں منعقد ہ عالمی کانفرنس کے نتیجے میں بپا ہونے والی صہیونی تحریک کے دو بنیادی اہداف تھے: ایک تو ارضِ مقدس میں یہودیوں کے لئے مستقل وطن کا قیام اور دوسرا مسجد ِاقصیٰ کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر- صہیون کا لفظ دراصل بیت المقدس یا اس پہاڑی کے لئے بولاجاتا ہے جس پر مسجد اقصیٰ موجودہے، اس لحاظ سے ارضِ مقدس کے علاقہ کو اپنے وطن کے لئے منتخب کرنا اور مسجد اقصیٰ کی جگہ اپنے معبد کو تعمیر کرنا ہی تحریک ِصہیونیت کے بنیادی اہداف ہیں-

اس تحریک کے پہلے ہدف یعنی ارضِ مقدس کو یہودی وطن قرار دینے کے بارے میں یاد رہنا چاہئے کہ برطانیہ نے اس مقصد کے لئے پہلے پہل یہود کو براعظم افریقہ کے بعض ممالک:ایتہوپیا، تنزانیہ وغیرہ دینے کی پیش کش بھی کی تھی کیونکہ بیت المقدس کویہ مقدس حیثیت تمام یہودیوں کے ہاں حاصل نہیں بلکہ بعض یہودی مثلاً فریسی فرقہ یہ حیثیت افریقی ملک ایتہوپیا کے ایک مقام کو دیتے ہیں اوران کے نزدیک تابوتِ عہد بھی وہیں ہے- یہ فرقہ نہ بیت المقدس کو یہ حیثیت دیتا ہے اور نہ ہی ہیکل کوتعمیر کرنے کا داعی ہے جبکہ سامری فرقہ نابلس شہر کو مقدس حیثیت دیتا ہے لیکن آخر کار یہود کے تسلیم نہ کرنے کی بنا پر ۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے یہاں سے واپس جاتے ہوئے فلسطین کی سرزمین اس کے اصل باشندوں کی بجائے یہود کے حوالے کردی- اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی طرح قضیہ فلسطین… جو دنیاکے دو اہم مسئلے اور جنگوں کی بنیادی وجہ رہے ہیں او رہردو مسلمانوں کے ساتھ ظلم روا رکھا گیا ہے… کو پیدا کرنے والی حکومت برطانیہ ہی ہے، جن کو بعد میں حل کرنے کی بجائے ظالم کی سرپرستی کرکے امریکہ مزید پنپنے کے مواقع فراہم کررہا ہے-

جہاں تک اس سرزمین پر یہودی قبضے اور اسے ان کا وطن قرار دینے کا تعلق ہے تو عالمی قوتوں کی کھلم کھلا تائید کے بعد ہی یہود کا اس پر غاصبانہ قبضہ ہواجس میں اِنہی قوتوں کی مدد سے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے بیت المقدس تک مزید توسیع کرلی- یہ اس مسئلہ کا ایک سیاسی پہلو ہے اور ایک مستقل موضوع ہے کہ یہودیوں کو یہاں بساتے ہوئے عالمی قوتوں نے یہاں کے باشندوں سے کونسی زیادتیوں کا ارتکاب کیا- اس پہلو کو ہم فی الحال موٴخر کرتے ہیں-

جہاں تک تحریک ِصہیونیت کے دوسرے نظریے کا تعلق ہے یعنی مسجد اقصیٰ کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر تو یہ واضح رہنا چاہئے کہ نہ صرف سپر قوتیں، عالمی رائے عامہ بلکہ خود اسرائیلی حکومت نے بھی کبھی موجودہ ’مسجد ِاقصیٰ‘ پر قانونی حق رکھنے کا دعویٰ نہیں کیا- صہیونیوں کے پاس محض ایک پروپیگنڈہ ہے کہ اس مسجد کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثار موجود ہیں، اس بنا پر جذباتی طورپر وہ اس مسجد کو نعوذ باللہ منہدم کرکے یہاں ہیکل سلیمانی بنانا چاہتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس پریہود کے غاصبانہ قبضہ کو ۳۹ برس پورے ہونے کے باوجود اُنہوں نے کھلم کھلا سرکاری طورپر اس کو منہدم کرنے کا عزم کبھی ظاہر نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ سے ہی بظاہر اس کی حفاظت کا ہی دعویٰ کرتے رہے ہیں- چونکہ مسجد ِاقصیٰ اس وقت بیت المقدس (یہودیوں کا دیا ہوا نام:یروشلم) کی انتظامیہ کے زیر نگرانی ہے، اس بنا پر یہود کوکئی ایسے جوازحاصل ہوجاتے ہیں کہ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے عملاً مسجد پر جارحیت کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں- اس مسجد پر مسلمانوں کے قانونی استحقاق کو یہودیوں کے تسلیم کرنے کا پتہ اس امر سے بھی چلتا ہے کہ ۱۹۶۷ء میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے بعد اُنہوں نے اس مسجد کا متولی اُردن کے ہاشمی خاندان کو قرار دیا اوراس کے بعد سے احاطہ قدس کا کنٹرول بظاہر یروشلم کے مسلم وقف کے ہی حوالے ہے- (’الشریعہ‘ بابت ستمبر۲۰۰۳ء، ص ۴۰)

ایسے ہی جب بھی اس مسجد کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوئی تو اسرائیلی حکومت بظاہر اس کا مداوا کرنے کی کوششیں بھی کرتی رہی ہے- مثال کے طورپر ۲۱/اگست ۱۹۶۹ء میں جب آسٹریلیا کے ایک یہودی ڈینس مائیکل (یا ڈینس روہان) کے ذریعے مسجد میں آگ لگائی گئی جو ۴۰۰ مربع میٹر تک پھیل گئی تو اسرائیلی انتظامیہ نے عملاً آگ بجھانے کی کاروائیوں کو ممکنہ حد تک موٴخر کرنے کی کوشش کی تاکہ مسجد کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچ سکے، لیکن دوسری طرف اس یہودی کے خلاف اسرائیلی عدالت میں مقدمہ بھی چلایا اور آخرکار اس کو جنونی قرار دے کر بری کردیاگیا- اس موقعہ پر مسجد کا کافی حصہ جل جانے کے علاوہ کئی نوادرات بھی شدید متاثرہوئے جن میں وہ منبر بھی شامل تھا جو سلطان صلاح الدین ایوبی نے بطورِ خاص اس مسجد میں رکھوایا تھا- اس وقت بھی یہودی حکومت نے اس سازوسامان کی از سر نو اصلاح کرانے کا دعویٰ کیا اور اُردن کے ہاشمی خاندان سے ملنے والا ایسا ہی ایک منبر دوبارہ نصب بھی کرایا- ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنی تمام تر انتہاپسندی اور تعصب کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ اس مسجد پر وہ من مانے تصرف کی مجاز ہے-

مسجد ِاقصیٰ کا انہدام تحریک ِصہیونیت کا مرکزی نکتہ ہے لیکن اسرائیلی حکومت کو باضابطہ طورپر اس پر اپنا حق جمانے کی آج تک جرات نہ ہوسکی، اس مسجد پر مسلمانوں کے استحقاق کی وجہ تاریخی طورپر یہ ہے کہ جب مسلمانوں نے اس مقام پر مسجد کو تعمیر کیا تھا تواس وقت یہ جگہ ویران تھی، سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے خود یہاں سے کوڑا کرکٹ صاف کرکے اس مسجد کو قائم کیا تھا- خلیفہ راشد سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ آپ جیسا عادل حکمران کسی اور قوم کی عبادت گاہ پر اسلامی مرکز تعمیر کرکے کسی دوسری قوم کا مذہبی حق غصب کریں گے- بعض روایات میں تویہاں تک آتا ہے کہ جب سیدنا عمررضی اللہ عنہ بیت المقدس میں آئے تو یہاں موجود عیسائیوں کے گرجاؤں میں بھی آپ کو جانے کا موقع ملا، اور وہاں آپ سے نماز ادا کرنے کو کہا گیا تو محض اس بنا پر آپ نے وہاں نماز نہیں پڑھی کہ آپ کے اس فعل کو مبارک سمجھ کر بعد میں آنے والے مسلمان اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کا خیال دل میں نہ لے آئیں- بعدازاں مسلمانوں نے چودہ صدیوں میں مسجد ِاقصیٰ کی کئی بار اصلاح اور تعمیر کی اور ہمیشہ ا س مرکز کو بھرپور تقدس فراہم کیا-

علاوہ ازیں تحریک ِصہیونیت جس ہیکل کی تعمیر کی دعویدار ہے، ۳۹ برس کی مسلسل کوششوں اور کھدائی کے باوجود اس سرزمین میں اس کے آثار بھی کہیں دریافت نہیں کئے جا سکے- اس بنا پر بھی یہودیوں کو سرکاری طورپر یہ اس مسجد پر اپناحق جمانے کی جرات نہیں ہوتی-

لیکن جہاں یہ حقیقت ہے کہ مسجد ِاقصیٰ پر اہل کتاب کا کوئی گروہ اپنا دعویٰ کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا، وہاں عملاً صہیونی تحریک کے پیدا کردہ جنون کے زیر اثراسرائیل کے قیام کے دن سے یہ مسجد یہودیوں کی شر انگیزی کا نشانہ ہے- جب ۱۹۶۷ء میں ابھی بیت المقدس پراسرائیل کا غاصبانہ قبضہ نہیں ہوا تھا، اس سے پہلے ریاست ِاسرائیل کے قیام کے بعد ہی اس مسجد پر گولہ باری کا آغاز ہوگیا، جس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کے مداوا کے لئے ۱۹۵۸ء میں مسلم ممالک کے مشترکہ چندے سے مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا- یاد رہے کہ ابھی اس سے چند برس قبل ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۲ء کے دوران مسجد کی اصلاح وتعمیر کا کام برطانوی استعمار کے زیر نگرانی مکمل کیا گیا تھا – بعد ازاں ۲۷ جون ۱۹۶۷ء کو بیت المقدس کو جب قانونی طور پر اسرائیلی حکومت نے اپنے تسلط میں لے لیاتو اس کے بعد سے یہودیوں کی شرانگیزیوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا اور انہوں نے اس سے اگلے مہینے جولائی میں ہی مسجد سے ملحقہ عمارتوں کو مسمار کرنا شروع کردیا-

مسجد ِاقصیٰ کا احاطہ ۴۴۰۰ مربع میٹر پرپھیلا ہوا ہے جس میں قبہ صخرہ، قبہ سلسلہ، قبہ موسیٰ، جامع نساء، جامع عمر، مصلی مروانی، سبیلیں، کنویں، درسی چبوترے، وضوخانہ اور اسلامی میوزیم وغیرہ شامل ہیں- اس احاطے میں داخل ہونے کا مرکزی راستہ احاطے کی جنوب مغربی دیوار میں واقع ہے جسے باب المغاربہ کہتے ہیں- یوں تو اس احاطے میں داخل ہونے کے اور بھی کئی دروازے ہیں جن کی تعداد ۱۱ ہے، لیکن یہ دروازہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ احاطے میں موجود مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کا اصل دروازہ یہی ہے- اس دروازے میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ اسلامی میوزیم ہے، اور سامنے مسجد ِاقصیٰ ہے جس کے دائیں پہلو میں خواتین کے لئے جائے نمازہے اور بائیں پہلومیں وہ ہال ہے جس کو جامع عمر کہا جاتا ہے- اس مرکزی مسجد سے قدرے ہٹ کر احاطے کے دوسرے نصف میں قبہ صخرہ موجود ہے- یہ وہی سنہرا گنبد ہے جسے میڈیا میں عموماً مسجد اقصیٰ کے طورپر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت ایسا نہیں- اس گنبد کے جنوبی سمت ایسی ہی ایک چھوٹی عمارت بھی ہے جو قبہ موسیٰ کے نام سے مشہور ہے-مسجد ِاقصیٰ کا مرکزی دروازہ جو اس احاطے کے جنوب مغرب میں واقع ہے، کے ساتھ ہی وہ دیوار بھی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں معراج کی رات نبی کریم نے براق کو باندھا یا کھڑا کیا تھا- اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد ایک تو ان اُمور کی اصلاح ہے جو میڈیا پر پیش کئے جاتے ہیں، دوسرے اس زمینی حقیقت کو جاننے کے بعد ہی مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں حالیہ اقدامات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے- چونکہ مسجد ِاقصیٰ کا یہ مرکزی دروازہ ہے اور اس کے ساتھ دیوارِ براق بھی واقع ہے، جسے یہودی دیوارِ گریہ کا نام دیتے ہیں، اسلئے اس سارے احاطے میں اس جنوب مغربی حصہ کے اہمیت کئی لحاظ سے کافی بڑھ جاتی ہے اور حالیہ جارحیت کی طرح پہلے بھی برسہا برس مسجد کا یہی حصہ یہودی شورشوں اور سازشوں کا مرکز رہا ہے-

اس دروازہ کے باہر واقع رہائشی علاقہ کا نام حی المغاربہ (مراکشی محلہ) ہے- جون ۱۹۶۷ء میں بیت المقدس پر یہودی تسلط کے فوراً بعد جولائی میں جن عمارتوں کومسمار کیا گیا، وہ یہی مراکشی محلہ تھا- تاریخی طورپر یہ علاقہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کوعیسائیوں سے واگزار کرانے کے بعد مراکشیوں کی خدمات کے اعتراف میں ان کو عطا کیا تھا- جب جولائی ۱۹۶۷ء میں اس علاقے کو مسمار کیا گیا تو اس کے نتیجے میں تین ہزار گھرانے بے گھر ہوگئے اور اس میں موجود چار مسجدیں اور ایک مدرسہ افضلیہ بھی ڈھا دیا گیا- اسی علاقے میں مسجد ِاقصیٰ کے زائرین اور حصولِ علم کے لئے آنے والے طلبہ واساتذہ سکونت پذیر ہوتے تھے- اب اس مقام پر گذشتہ ۳۹ برسوں میں یہودیوں نے جدید عمارتیں تعمیر کرلی ہیں –

بیت المقدس پر تسلط کے پہلے ماہ میں ہی ایسی جارحانہ کاروائیوں کا نوٹس لیتے ہوئے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے فوری طورپر ۴/جولائی ۱۹۶۷ء کو یہ قرار داد منظور کی کہ بیت المقدس کی سابقہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی-یہ بھی قرار دیا گیا کہ مسجد اقصیٰ میں موجود تمام آثار کے متولی مسلمان ہی ہیں، کوئی اور قوم اس میں شریک وسہیم نہیں-اسلامی تصورات سے قطع نظر مسلمانوں کے اس مقدس مقام پر تاریخی استحقاق کی یہ تیسری بنیاد ہے کہ عالمی رائے عامہ بھی اسے تسلیم کرتی ہے-

چنانچہ صہیونی تحریک نے جب یہ جان لیاکہ وہ نہ تو خود اپنے اساسی نظریہ کو برملا کہنے کی قوت رکھتے ہیں اور عالمی رائے عامہ بھی اس سلسلے میں اُنہیں کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کررہی تو اُنہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے ہدف کی طرف پیش قدمی جاری رکھی- چنانچہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً بھی مخالفت کی گئی اور درپردہ بھی، مثلاًبیسیوں مرتبہ مختلف بہانوں سے مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کروا کر سرنگیں نکالی گئیں حتیٰ کہ ۲۸/اگست ۱۹۸۱ء کو یہ انکشاف ہوا کہ یہ سرنگیں مسجد کے صحن تک پہنچ چکی ہیں جو ۱۹۸۸ء میں مزید آگے بڑھتے ہوئے قبہ صخرہ کے نیچے تک جا پہنچیں- ۱۹۹۶ء میں ایریل شیرون نے باقاعدہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ایک سرنگ کا افتتاح کیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے عبرانی روزنامہ یدیعوت احرنوت نے اپنی ۲۱/مارچ ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں برملا کہا کہ یہودی ۲ ہزار برس قدیم اس راستے کی تلاش میں ہیں جو شہر کے اندرونی حصہ سے ہیکل سلیمانی کی طرف جاتا ہے-بڑے پیمانے پر کھودی جانے والی ان سرنگوں کا مقصددراصل یہ ہے کہ کسی طرح یہ مسجد از خود منہدم ہوجائے او را سے قدرتی آفت قرار دے دیا جائے-

مزیدبرآں مسجد سے ملحقہ مقبرہ میں ۴۱۷ قبروں کو مسمار کرکے اسے سکیڑ دیا گیا، دائرہ اوقافِ اسلامیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۸ء تک ۳۵۷۰ کے لگ بھگ اسلامی آثار کو منہدم کردیا گیا- یہ تو وہ اقدامات ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے صریحاً متصادم ہیں، البتہ مسجد اقصیٰ کو براہ راست نقصان پہنچانے کی وہ پھر بھی ہمت نہیں کرسکے لیکن ا س کے لئے موزوں فضا کی تیاری میں اُنہوں نے کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی، مثلاً انتہاپسند تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کو مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے کے نظریے کی کھلے عام ترویج کرنے کی اجازت اور ترغیب دینا، بیت المقدس میں کھلے عام گاڑیوں میں ایسے اعلانات اور نغمے / ترانے نشر کرنا جن میں مسجد ِاقصیٰ کے خلاف عوامی غیض وغضب کو بھڑکایا جائے- انہی اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ ۱۱/ مئی ۱۹۸۰ء، ۲۵/ جولائی۱۹۸۲ء، ۱۰/اگست ۱۹۸۴ء اور ۱۰/ ستمبر۱۹۹۸ء کی تاریخوں میں چار مرتبہ اس مسجد کو بموں اور دہماکہ خیز مواد سے مسمار کرنے کی کوششیں کی گئیں جبکہ مسجد کی بے حرمتی کے واقعات تو اَن گنت ہیں-

مزعومہ ہیکل کی تعمیر کا جنون

فروری ۲۰۰۷ء میں مسجد ِاقصیٰ میں ہونے والی جارحیت یوں تو اس تمام کاروائی کا ایک تسلسل ہے جو کم وبیش ۳۹ برس سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے لیکن بعض پہلوؤں سے اب یہ کوششیں حتمی مرحلہ میں داخل ہوتی نظر آرہی ہیں-صہیونیوں کی یہ خواہش ہے کہ بیت المقدس پر قبضہ کے چالیس سال پورے ہونے پر وہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا آغاز کردیں، یاد رہے کہ ۱۸ برس قبل ۱۷/اکتوبر ۱۹۸۹ء کو وہ مسجد اقصیٰ کے ساتھ تین سو پانچ ٹن وزنی پتھر رکھ کر اس کاسنگ ِبنیاد رکھ چکے ہیں- اور اس سے اگلے برس ۱۸/اکتوبر ۱۹۹۰ء کو مسجد اقصیٰ کے اندر بھی اس ہیکل کی تعمیرکی کوشش کرچکے ہیں-اب عوامی پیمانے پر ہیکل کی تعمیر کے لئے پھیلایا جانے والا جنون اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس منصوبے کو مزید موٴ خر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں فضا کو مزید سازگار بنانے کے لئے یہودی علما سے شرعی رائے (فتوے) لیے گئے ہیں، صہیونی تنظیموں نے ہیکل کے چھوٹے ماڈل تیارکرکے دنیا بھر کے یہودیوں میں تقسیم کردیے ہیں تاکہ اس اقدام پر اسرائیل کو مالی اور معنوی ہرطرح کی امداد اورتعاون حاصل ہوسکے، وہ کپڑا بھی سیا جا چکا ہے جو ہیکل سلیمانی کی مختلف عمارتوں پر چڑھایا جائے گا، ہیکل کے وسط میں لٹکانے کے لئے فانوس بھی تیار کیا جاچکا جس میں ’قادم بینوچز‘ نامی یہودی تاجر نے ۴۲ کلوگرام سونا عطیہ دیا ہے، اس یہودی قبیلہ کا تعین بھی کرلیا گیا ہے جو مزعومہ ہیکل کے انتظامی اُمورسنبھالے گا، قبیلہ کانام ’لیفی‘ ہے- ہیکل کی حفاظت کے لئے گارڈز اور یہودی علما کا انتخاب بھی عمل میں آچکا ہے- ہیکل کے سلسلے میں حتمی اقدامات کے لئے ۳۰کے قریب انتہاپسند یہودی تنظیموں نے جنوری۲۰۰۷ء کے آخر میں اتحاد کرلیا تھا۔

حالیہ جارحیت :

اس مہم میں تیزی اس وقت آئی جب ۲۴ جنوری ۲۰۰۷ء کو اسرائیل کی آثارِ قدیمہ اتھارٹی نے یہ دعویٰ کیا کہ مسجداقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کی وہ سڑک دریافت کرلی گئی ہے جو دیوارِ براق سے دیوارِ سلوان کی طرف جاتی ہے-

ایک طرف صہیونیوں کے خود ساختہ دعووں اور یکطرفہ اقدامات کی یہ کیفیت ہے اور دوسری طرف مسجد ِاقصیٰ کے علاقے میں نہ صرف مسلمانوں کی آزادانہ آمد ورفت پر پابندی اور سرکاری اجازت کے بغیر مسجد اقصیٰ میں داخلہ بھی بند ہے بلکہ اس علاقے کی تصویر وغیرہ لینابھی ممنوع ہے- اقصیٰ فاؤنڈیشن اور معتبر مسلم ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی دیوا رکے نیچے واقع دوحجروں کو شہید کردیا ہے جبکہ اسرائیلی میڈیا مثلاً عبرانی روزنامہ یدیعوت احرنوت کا دعویٰ ہے کہ یہ حجرے اور دیوارِ براق سے ملحقہ مسجدتو تین برس قبل شہید کی جا چکی ہے اور اس کی تائید میں اسرائیلی ماہر آثار قدیمہ کی یہ رپورٹ پیش کر دی جاتی ہے کہ تین برس قبل مراکشی دروازے کے پاس ایک مسجد کے آثار ملے تھے جسے اعلان کئے بغیر مسمار کردیا گیا- اس کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ جب میڈیا میں چند ماہ قبل یہ خبر شائع ہوئی کہ سابق اسرائیلی صدر موشے کستاف نے ایک یہودی معبد کا افتتاح کیا ہے تو اُس وقت فلسطینی مسلمانوں کوعلم ہوا کہ مسجد اقصیٰ سے بالکل ملحق اس مسجد کی جگہ پر ایک یہودی معبد تعمیر کردیا گیا ہے جس میں مرد وزن کیلئے دو علیحدہ ہال بنائے گئے ہیں-

مزید برآں ۱۰ جنوری ۲۰۰۷ء کو انتہاپسند یہودی تنظیم عطیرت کوہنیم نے بیت المقدس کی بلدیہ سے مسجد اقصیٰ کے ایک اور دروازہ ’باب واد‘ (جو قبہ صخرہ کے بالمقابل ہے) سے متصلاً باہر قطانین بازار میں ۲۰۰ مربع فٹ پر ایک اور یہودی معبد خانہ بنانے کا این او سی بھی حاصل کیا ہے جب کہ اس مقام پر بھی کئی اسلامی یاد گاریں موجود تھیں-

حالیہ اقدامات کا تعلق دراصل اس منصوبہ سے ہے جس کی رو سے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے- سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے ۱۱/اپریل ۲۰۰۵ء کو واشنگٹن میں اس منصوبہ کی دستاویزات اور تصاویر امریکی حکومت کے سامنے پیش کیں، امریکی حکومت نے اس منصوبہ کو سراہا اور اپنا کردار ادا کرنے کی حامی بھری- اس منصوبہ کی رو سے مسجد اقصیٰ کے جنوبی اور مغربی حصہ کو (جہاں درحقیقت مسجد اقصیٰ واقع ہے) شہید کرکے وہاں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنا ہے-

اس منصوبہ کوسامنے رکھتے ہوئے حالیہ جارحیت کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے: مسجد اقصیٰ کے جنوب مغرب میں واقع مغاربہ سڑک کو منہدم کرنا، اس سٹرک کی جگہ ایک پل تعمیر کرنا اور تیسرے مرحلے میں دیوارِ گریہ کی توسیع کرتے ہوئے جنوبی دیوار تک کے علاقہ کو اپنے قبضے میں کرنااور وہاں دیوارِ براق (گریہ) کے ساتھ ایک بڑا یہودی معبد تعمیرکرنا-

یاد رہے کہ مغاربہ محلہ کی طرح مغاربہ سٹرک کو بھی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے تعمیر کرایا تھا اور فلسطینیوں کے لئے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کا فی الوقت واحد راستہ یہی ہے- یہودیوں نے اس سٹرک کے نیچے کھدائی کرکے اس کو کمزور کردیا جس کے نتیجے میں ۱۵/فروری ۲۰۰۴ء کو سٹرک کا کچھ حصہ بارشوں کے باعث گرگیا-اسرائیلی حکومت نے اس سڑک کو خود تعمیر کرنے یا مسلمانوں کو تعمیر کی اجازت دینے کی بجائے ۱۳/اگست ۲۰۰۶ء کو اسے مسمار کرنے کا فیصلہ کیا- جب ۶ فروری ۲۰۰۷ء کو بلدیہ کے کئی بلڈوزروں نے اس سڑک اور اس سے ملحقہ رکاوٹوں کو مسمار کرنا شروع کیا تو ہزاروں فلسطینی مسلمان اس کو بچانے کے لئے جمع ہوگئے-اور ۹ فروری کو جمعہ کے بعد مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں بلدیہ کو کھدائی روکنا پڑی- ۱۱/ فروری کو اسرائیلی کابینہ نے اپنے اجلاس میں یہ قرار دیا کہ اس کھدائی سے مسجد اقصیٰ کو کوئی خطرہ نہیں،اس کا مقصد تو دراصل ایک پل تعمیر کرنا ہے جس سے مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کاراستہ فراخ ہوجائے گا-

لیکن اسرائیلی حکومت کی اس توجیہ کو باخبر فلسطینی تنظیمیں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، کیونکہ ماضی میں اسرائیل نے مسجد میں مسلمان زائرین کے داخلے کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ مسجد کو پہنچنے والے نقصان کی اصلاح کی اجازت تک نہیں دی جاتی اور سامان مرمت لے جانے سے روک دیا جاتا ہے-یہودیوں کے اس مسلسل رویے کی بنا پر مسلمانوں کے تاریخی راستہ (مغاربہ سٹرک) کو مسمارکرکے اس کے اوپر سے بڑا پل بنانے کے بارے میں مسلمانوں میں گہرے شبہات پائے جاتے ہیں جنہیں کئی پہلوؤں سے تقویت بھی ملتی ہے اور اس کی تصدیق بعض شواہد اور خفیہ تصاویر سے بھی ہوتی ہے ، یہ مختلف اندیشے حسب ِذیل ہیں :

1          دراصل یہودی اس طرح دیوارِ براق کو اپنے تصرف میں لاکر اورجنوبی دیوار کو مغربی دیوار سے ملاتے ہوئے وہاں ایک یہودی معبد (سینی گاگ) تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جیساکہ آثار قدیمہ کمیٹی کے چیئرمین میئربن دوف نے صہیونی پارلیمنٹ کی داخلی کمیٹی کے اجلاس میں اس امر کا خود تذکرہ کیا ہے- ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کاراستہ تو معمولی اخراجات اور انتظام کے ذریعے تعمیر ہوسکتا ہے، اس قدر بڑے منصوبے کی وجہ یہ ہے کہ باب المغاربہ سے متصل تمام علاقے میں کھدائی کرکے مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچایا جائے- ان کے ہمراہ مزید ۳۶ دیگر ماہرین آثار قدیمہ نے بھی بلدیہ کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے اور حکومت سے یہ کام فوری طورپر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے- یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہودیوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ میں اس وقت سب سے متبرک مقام دیوار براق (گریہ) ہے، جسے وہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی واحد یادگار قرار دیتے ہیں- دیوار کے بارے میں مزید حقائق آگے آرہے ہیں-

2          سابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین مزار کی بیٹی ایلات مزار جو خود آثارِ قدیمہ کی ماہر ہے ، نے انکشاف کیا ہے کہ سڑک کو گرانے اور مسجد کے مغربی سمت میں کھدائی کرنے کا مقصدہیکل سلیمانی کے اہم تاریخی دروازے بارکلیز کو تعمیر کرنا ہے- اپنے عقیدے کے مطابق یہودی پہلی مرتبہ ہیکل میں اسی دروازے سے داخل ہوں گے-

3          یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پل کے ذریعے ایک کشادہ راستہ تعمیر کرنے کا مقصددراصل مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے کسی بڑے اقدام کو ممکن بنانا ہے تاکہ بڑی تعداد میں وہ بآسانی وہاں داخل ہوسکیں اور بعد ازاں اس راستے کو مجوزہ ہیکل سلیمانی کے لئے استعمال کیا جائے- تحریک ِاسلامی، فلسطین کے سربراہ شیخ زائد صلاح الدین کے بقول حالیہ کاروائیوں کا مقصد مغربی دیوار کے نیچے موجود مٹی کے ٹیلے ’تل ترابیہ‘ کو منہدم کرناہے ، یہ ٹیلہ زمین سے ۲۰ میٹر بلند ہے اوراسے اُموی دور میں تعمیر کیا گیا تھا-ان کا کہنا ہے کہ ٹیلے کومنہدم کرنے کا مقصدیہودیوں کا مسجد میں براہ راست داخلہ کو ممکن بنانا ہے اور اس ٹیلے کے انہدام کے ساتھ دیوار براق کا تعلق مسجد سے منقطع ہوکر یہودیوں کے نوتعمیرشدہ محلے سے جاملتا ہے-صہیونی تنظیم عیرعامیم کی رپورٹ کے مطابق اس نئے پل کی تعمیر سے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ۳۰۰ اہل کار بیک وقت مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر فوجی کاروائی کرسکیں گے- یاد رہے کہ نئے پل کی لمبائی ۲۰۰ میٹر ہے اور یہ آٹھ ستونوں پر کھڑا کیا جائے گا- اس قدر مضبوط پل کی تعمیر کا مقصد محض انسانوں کے عبورکرنے کے بجائے فوجی سازوسامان، بڑے ٹرکوں اور بلڈوزروں کے گزرنے کا راستہ بنانا ہے-

4          مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ تک رسائی کا آسان طریقہ یہ تھا کہ سٹرک کی تعمیر کردی جاتی یا ضروری حد تک پل تعمیر کردیا جاتا، جس کی لاگت بھی معمولی ہوتی لیکن ایک بڑے پل کے نام پر لمبی چوڑی کھدائی کرکے بالکل قریب واقع مسجد اقصیٰ کی عمارت کو زمین سے مزید کھوکھلا کرنا مقصود ہے- دوسری طرف اس پل کا بوجہ اس قدر زیادہ ہے کہ جس مقام پر اس کا بوجہ ڈالا جارہا ہے ، مسجد ِاقصیٰ کا وہ حصہ اتنا بوجہ سہنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اس کے نتیجے میں بھی عمارت کے جلدی منہدم ہوجانے کا اندیشہ ہے-

مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد پہلے پہل بیت المقدس کی بلدیہ نے کھدائی کا کام روکنے کا اعلان کیا اور آثارِ قدیمہ کے کام کو جاری رکھنے کا کہا تھا لیکن آخرکار کھدائی روک دینے کا اعلان بھی واپس لے لیا- تحریک اسلامی،فلسطین کے نائب سربراہ شیخ کمال الخطیب کا کہنا ہے کہ درپردہ کھدائی کا کام بھی تک جاری ہے، ٹریکٹروں کی بجائی چھوٹی مشینوں اور اوزاروں کے ساتھ کھدائی کی جارہی ہے، عالمی میڈیا سے اس امر کوچھپانے کے لئے وہاں موجود خیموں کے اندر سے کھودا جارہا اور مٹی کو پلاسٹک بیگوں میں ڈال کر دور پھینکا جارہا ہے- مسجد کی بنیادوں کو کھوکھلاکرنے کے لئے کیمیکل بھی بہایا جارہا ہے تاکہ اسکی دیواریں شدید کمزور ہو جائیں اقصیٰ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ کھدائی کی وجہ سے جنوبی دیوار میں کئی دراڑیں پڑچکی ہیں اور اسرائیلی فوجیوں نے وہاں لوہے کی باڑ لگا دی ہے اور فلسطینی شہریوں کووہاں جانے بھی نہیں دیا جارہا۔

دیوارِبراق

یہود کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس ہیکل دوم (ہیرود) کی باقی ماندہ آخری یادگار ہے جسے دوہزار برس قبل ۷۰ء میں شاہ ٹیٹوس نے مسمار کردیا تھا- اس اعتبار سے یہ دیوارِ گریہ Wailing Wall ان کے نزدیک موجودہ آثار میں واحد شے ہے جو مقدس ترین حیثیت رکھتی ہے- جبکہ مسلمان اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے، اور حالات وواقعات سے بھی اس کی نفی ہی ہوتی ہے-

صہیونیت نے یوں تو باقاعدہ ایک تحریک کے طورپر ۱۸۹۷ء میں جنم لیا، مگر اس تحریک کے افکار اس سے ایک دو صدی قبل یہود کے ہاں متعارف ہونا شروع ہوچکے تھے، عین انہی سالوں میں یہود نے اس دیوار سے تقدس کو منسوب کیا- یہی وجہ ہے کہ سولہویں صدی سے قبل یہود کے ہاں اس دیوار کی زیارت کا کوئی تصور نہیں ملتا-’انسا ئیکلو پیڈیا یہود اور یہودیت‘ میں اس دیوار پر لکھے جانے والا مقالے میں درج ہے کہ

والواقع أن کل المصادر التی تتحدث عن یھود القدس حتی القرن السادس عشر تلاحظ ارتباطھم بموقع الھیکل وحسب ولا توجد أیة إشارة محددة إلی الحائط الغربی. کما أن الکاتب الیھودی نحمانیدس (القرن الثالث عشر) لم یذکر الحائط الغربی فی وصفھ التفصیلی لموقع الھیکل عام ۱۲۶۷م. ولم یأت لھ ذکر أیضا فی المصادر الیھودیة التی تتضمن وصفا للقدس حتی القرن الخامس عشر ویبدوا أن حائط المبکی قد أصبح محل قداسة خاصة ابتداء من ۱۵۲۰م فی أعقاب الفتح العثمانی                      

”امرواقعہ یہ ہے کہ ایسے تمام مصادر ومراجع جن سے ۱۶ویں صدی عیسوی سے قبل یہود کے مقام ہیکل سے کسی تعلق کا علم ہوتا ہے، ان میں حائط غربی (دیوارِ گریہ) کے بارے میں کوئی متعین اشارہ بھی نہیں ملتا- جیسا کہ ۱۳ویں صدی کے یہودی محقق نحمانیدس نے ۱۲۶۷ء میں ہیکل کے مقام کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے اس دیوار کا تذکرہ تک نہیں کیا- چنانچہ ۱۵ویں صدی عیسوی تک یہود کے وہ مراجع جن سے بیت المقدس کی تفصیلات کا علم ہوتا ہے، ان میں اس دیوار کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے- یوں لگتا ہے کہ دیوارِ گریہ کے تقدس کی ابتدا ۱۵۲۰ء میں خلافت ِعثمانیہ کے قیام کے بعد ہوئی-“

آگے لکھتے ہیں کہ دراصل اس موقع پر یہود کا ایک انتہاپسند قبیلہ بیت المقدس میں فروکش ہوا تھا جو حلولی عقائد کا حامل تھا، حلولی نظریہ عموماً بعض مقدس اشیا اور مقامات میں اپنا مظہر تلاش کرتاہے- عین ممکن ہے کہ مسلمانوں میں جس طرح حجر اسود اور کعبہ کو خاص تقدس حاصل ہے، ا سی کو سامنے رکھتے ہوئے اس دیوار کو بھی مصنوعی مقامِ تقدس عطا کردیا گیا ہو- دیوارِ براق پر یہ ایمان ۱۹ویں صدی میں پختہ ہونا شروع ہوا اور صہیونی ذہنیت میں اس کا تقدس آہستہ آہستہ راسخ ہوا – یاد رہے کہ اس دیوار کا تقدس بھی یہودیوں کے ہاں متفقہ امر نہیں ہے بلکہ آج بھی اس دیوار سے تھوڑے فاصلے پر قیام پذیر ناطوری جماعت کا سربراہ زائرین کو اس کی زیارت سے روکتا رہتا اور برملا کہتا ہے کہ یہ صہیونی حیلوں میں سے محض ایک فریب ہے ، اس سے زیاہ اس کو مقدس قرار دینے کی کوئی حیثیت نہیں- اس مقالہ میں پھر ان کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ آخری دو صدیوں میں بیسیوں بار یہود نے انفرادی اور اجتماعی طورپر مسلمانوں سے اس دیوار کوخریدنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے-

مایوس ہوکر صہیونیوں نے دہونس اور دہاندلی سے اپنا مقصد پورا کرنے کا راستہ اپنایا اور فلسطین پر انگریز کے دورِ استعمارمیں اس دیوار پر اپنا حق جمانا شروع کیا اور مسلمانوں سے تقاضا کیا کہ وہ اس سے دستبردار ہوجائیں- اپنے انگریز سرپرستوں کی حکومت میں اس اختلاف نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ۱۹۲۹ء میں برطانیہ کو باقاعدہ تحقیقاتی کمیشنShaw Commissionقائم کرنا پڑا جہاں دونوں فریقوں کے بیانات لئے گئے- مسلمانوں نے اپنے حق کے حصول کے لئے ثورۃ البراق کے نام سے ایک تحریک شروع کی، یہی مسئلہ اس وقت کی اقوام متحدہ ’لیگ آف نیشنز‘ میں بھی زیر بحث آیا- یہودی چونکہ اپنے دعوے کا کوئی دستاویزی ثبوت مہیا نہیں کرسکے، اسلئے دسمبر ۱۹۳۰ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ دیوار یہودکی بجائے مسلمانوں کی ملکیت ہے اور مسجد اقصیٰ کا حصہ ہے، یہود کا اس پر کوئی حق نہیں-فلسطین پر مسلط برطانوی سامراج نےفریقین کا موقف سننے کے بعدیہ فیصلہ سنایا :

وقد قررت اللجنة أن المسلمین ھم المالک الوحید للحائط وللمناطق المجاورة وإن الیھود یمکنھم الوصول إلی الحائط للأغراض الدینیة

”برطانوی کمیشن نے قرار دیا کہ مسلمان ہی اس دیوار اور اس سے ملحقہ علاقوں کے اکیلے مالک ہیں، اور یہود کویہاں صرف اپنی دینی اغراض پوری کرنے کیلئے آنے کی اجازت ہے- “

اُنہوں نے یہ بھی قرار دیا کہ یہود یہاں اختلاف پیدا کرنے والی عبادتیں کرنے کے مجاز نہیں اور اپنی عبادت کے لئے کسی ضروری چیز کو وہاں رکھنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ وہ جگہ یہود کی ملکیت میں آگئی ہے- جیسا کہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ اس دیوار کے بارے میں بھی یہودکا موقف متفقہ نہیں بلکہ صہیونی یہودیوں کے دونوں گروہوں میں اس کے حوالے سے کئی ایک اختلافات پائے جاتے ہیں- حتیٰ کہ لادین صہیونی اس دیوار کو عبرانی میں’کوٹیل‘کانام دیتے ہیں جس کا مطلب نائٹ ڈانس کلب ہے، تصور کے اسی اختلاف کا نتیجہ ہے کہ اب آخری چند سالوں میں یہ مقام اباحیت، آزاد روی اور فحاشی کا مرکز بنتا جارہا ہے-

اس تمام حقائق کے باوجود صہیونی اس امر کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے ہیکل سلیمانی کا بقیہ ماندہ حصہ قرار دینے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں- چنانچہ اپنے زیر اثر میڈیا میں انہوں نے اس دیوارکو دیوارِ براق کی بجائے دیوارِ گریہ کے نام سے مشہور کیا-جب اس مسئلہ کودلائل کی بنا پر تسلیم کروانا ممکن نہ رہاتو طاقت اورہٹ دہرمی کا طریقہ بروئے کار لایا گیا اور جس طرح جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی حکومت نے ایک قرارداد کے ذریعے مشرقی اور مغربی بیت المقدس کو متحد کرکے یروشلم کانام دیا تھا، عین اسی طرح ۲۶مئی ۱۹۹۸ء کو اسرائیلی پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا جس کی رو سے دیوارِ براق کو مسلمانوں کی بجائے یہود کی ملکیت قرار دے دیا گیا-

اب وہی دیوارِ براق جس کی لمبائی ۵۰ میٹر اور چوڑائی ۲۰ میٹر ہے اور جو باب المغاربہ سے ملحق ہے کے ساتھ یہودی مختلف کھدائیوں کے بہانے اپنا معبد تعمیر کرنا چاہتے ہیں-

یہودی جارحیت کے مضمرات اور اُمت ِ مسلمہ کا فرض

پیچھے زیادہ ترمسجد اقصیٰ کے بارے میں صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں اور عزائم کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن صہیونیوں کی ان کوششوں کے پس منظر میں کیا مقصد پوشیدہ ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ مسجد اقصیٰ کی چار دیواری بہت وسیع ہے- اس میں بنیادی طورپر دو بڑی عمارتیں ہیں، مغربی سمت میں مسجد ِاقصیٰ او رمشرقی سمت میں قبہ صخرہ-یہود کی عرصہ دراز سے یہ کوشش چلی آرہی ہے کہ وہ قبہ صخرہ کو مسجداقصیٰ بنا کر مسلمانوں میں اس سے وابستگی کو ہی فروغ دیں- دوسری طرف وہ احاطہ جہاں مسجد ِاقصیٰ واقع ہے اور باب المغاربہ جو مسجد ِاقصیٰ کا براہ راست واحد راستہ ہے جس کے ساتھ دیوار گریہ بھی واقع ہے، اس حصہ کے بارے میں ان کے عزائم خطرناک ہیں جیسا کہ اپریل ۲۰۰۵ء میں ہونے والی ملاقات میں ایریل شیرون نے واشنگٹن کو یہ منصوبہ پیش کیاہے کہ مسجد اقصیٰ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ؛ جنوب مغربی کو منہدم کردیا جائے اورمشرقی حصہ کو باقی رہنے دیا جائے- اس منصوبہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جس عمارت کا انہدام صہیونیوں کے پیش نظر ہے وہ عین مسجد ِاقصیٰ ہے-اسی لئے قبہ صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے طورپر مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اس کی موجودگی میں عام مسلمان شدید ردعمل کا شکار نہ ہوں-

بنیادی سوال یہ ہے کہ اگریہود اس علاقے میں کوئی ہیکل تعمیر کرنا بھی چاہتے ہیں جس سے ان کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں تواس کے لئے مسجد ِاقصیٰ کا انہدام کیوں ضروری ہے اور وہ عین اس مقام پر ہی کیوں تعمیرہوتا ہے جہاں یہ مقدس عمارت موجو دہے؟ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں شمال مغربی حصہ اور دیگر بہت سے حصے بالکل خالی ہیں، وہاں وہ قبہ بھی ہے جس کے بارے میں اکثر مسلم علما کا موقف یہ ہے کہ اس قبہ صخرہ کی کوئی شرعی فضیلت نہیں حتیٰ کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہاں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا- یوں بھی یہود کے ہاں قبلہ کی حیثیت اس کو حاصل رہی ہے کیونکہ اُنہوں نے خیمہ اجتماع کو اپنا قبلہ بنایا ہوا تھا جو قبہ صخرہ کے مقام سے اُٹھالیاگیا چنانچہ قبہ صخرہ کواس کا آخری مقام ہونے کے ناطے اُنہوں نے اسے ہی اپنا قبلہ قراردے لیا-پھرکیا وجہ ہے کہ یہود قبہ صخرہ پر کوئی تصرف کرنے کی بجائے سارا زور مسجد ِاقصیٰ پر ہی صرف کررہے ہیں؟

ہماری نظر میں اس مسئلے کی حیثیت مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے، بالفرض بیت المقدس کو یہودی کا مرکز ِعبادت تسلیم بھی کر لیا جائے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں مختلف اقوام کی مرکزی عبادت گاہیں ان کے زیر انتظام نہیں ہیں-اس کی بڑی مثال خود پاکستان میں ننکانہ میں سکھوں کا مذہبی مرکز(دربار گورونانک صاحب) ہے- اگر سکھ یہاں آکر باقاعدگی سے عبادت کرتے ہیں اور مسلمانوں نے اس کی اُنہیں اجازت دی ہوئی ہے، تواس سے یہ مسئلہ قطعاً پید ا نہیں ہوتا کہ سکھ قوم کا لازماً ننکانہ شہر پر سیاسی قبضہ بھی ہونا چاہئے- گویا مرکز ِعبادت ہونا اور سیاسی قبضہ ہونا دو ایسی چیزیں نہیں جوباہم لازم و ملزوم ہوں- جس طرح سکھ ننکانہ صاحب میں آکر اپنی رسومات ادا کرتے ہیں، اسی طرح مسلمان مسجد ِاقصیٰ میں جاکر عبادت کرتے ہیں جو یہودیوں کے زیر انتظام ہے … گوکہ یہودیوں کا اس علاقے پر قبضہ بھی ایک مستقل سیاسی تنازعہ ہے جوعالمی تنازعوں میں سرفہرست ہے… اگر کسی قوم کا مرکز عبادت ہونا انکے سیاسی قبضہ کو بھی مستلزم ہے تو ہمیں کل کلاں سکھوں کو بھی یہ حق دینے کیلئے تیار رہنا چاہئے-

ان حالات میں صہیونیوں کا درپردہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے عین اسی مقام پر ہیکل کی تعمیر کا دعویٰ دراصل ایسا اقدام ہے جس کی عالمی قوانین اور تہذیب واخلاق کسی بھی اعتبار سے تائید نہیں کی جاسکتی-اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں کو اس علاقے سے کلی طورپر بے دخل کیا جائے اوربیت المقدس کو مسلم ذہنیت سے اسی طرح خارج کردیا جائے جیسے اندلس پر مسلمانوں کے دورِ حکومت تاریخ کا ایک باب بن کررہ گیاہے-صہیونیوں کا خیال ہے کہ بیت المقدس پر ان کے دائمی تسلط میں مسجد ِاقصیٰ کا وجود ایک مستقل رکاوٹ ہے جس کو ختم کئے بغیر وہ اس علاقے سے مسلمانوں کی دلچسپی کو ختم نہیں کرسکتے-مسلمانوں کے مذہبی شعور سے بیت المقدس کو کھرچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یہاں سے مسجد ِاقصیٰ کو سرے سے ہی منہدم کردیا جائے- یہ مسجداقصیٰ کی ہی اہمیت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان فلسطین کے دیگر شہروں تل ابیب یا بیت اللحم وغیرہ کے یہودیوں میں قبضہ میں چلے جانے سے اس طرح برافروختہ نہیں ہوتے جو سنگین صورتحال بیت المقدس کے سلسلے میں پیدا ہوتی ہے-

مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل کے آثار کا دعویٰ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں انتہا پسند ہندوں نے بابری مسجد کے عین نیچے مندر کے وجود کا دعویٰ کیا تھا اور اب ہندوستان کی انتہاپسند تنظیموں نے مزید سینکڑوں ایسی مساجد کے انہدام کا دعویٰ بھی کرڈالا ہے کہ وہ سب مندروں پر تعمیر کی گئی ہیں- اس نوعیت کے دعووں کے ذریعے دراصل کسی قوم میں مذہبی اشتعال اور احساسِ محرومی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ وہ پوری جذباتی وابستگی اور بھرپور قوت کے ساتھ اپنے مرکز عبادت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے مجتمع ہوجائے- اگر یہود مسجد اقصیٰ کے احاطے سے باہر کوئی بھی ہیکل تعمیر کرناچاہتے ہیں تواس میں مسلمانوں کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ البتہ جہاں تک مسجد اقصیٰ کے احاطے کی بات ہے تو اس میں موجود مسجد اقصیٰ شرعی طورپر اور دیگر آثار تاریخی طورپر مسلمانوں کی ہی ملکیت ہیں- عالمی اداروں نے بھی انہیں مسلمانوں کاحق ہی قرار دے رکھاہے، ا س لحاظ سے یہود کو انہیں نقصان پہنچانے کا اخلاقاً وقانوناًکوئی حق نہیں-

ان حالات میں جہاں اُمت ِمسلمہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے مقاماتِ مقدسہ کاشعور رکھے، ان پر ہونے والی جارحیتوں سے آگاہ ہو تاکہ وہ امہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے اپنے اوپر عائد شرعی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکے اور اس فرض کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈال سکے وہاں مسلم اُمہ کے قائدین کا یہ براہ راست فرض بنتاہے کہ وہ مخالف کو سنگین جارحیت سے باز رکھنے کے لئے ہرممکنہ اقدام بروئے کار لائیں- ہمارا فرض محض اس قدر نہیں ہے کہ ہم حقائق کو جاننے کے بعدمطمئن ہو کر بیٹھ جائیں بلکہ ان ظالمانہ اور تلخ حقائق کو بدلنے کے لئے ہرممکنہ کوشش کرنا بھی ہم پر فرض ہے- مسلمانوں کا قبلہ اوّل اور بیت اللہ کے بعد تعمیر ہونے والا دوسرا مبارک ترین اللہ کا گھر صہیونیوں کی سازشوں کے نرغے میں ہے- سلطان ایوبی نے تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنے کی قسم کھائی تھی جب تک وہ بیت المقدس کو عیسائیوں کے تسلط سے آزاد نہ کرالیں، اُسی اُمت ِمسلمہ کے فرزندآج ۴۰ برس گزرنے کے بعد بھی نہ صرف مطمئن وپرسکون ہیں بلکہ آہستہ آہستہ کوتاہی اور مداہنت یوں اپنا اثر دکھا رہی ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کرما فرما بھی پیدا ہوگئے ہیں جو مسجد ِاقصیٰ کواسی طرح یہود کی تولیت میں دے دینے کے داعی ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس بیت اللہ الحرام کی تولیت ہے-

انا للہ وانا الیہ راجعون!

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ذمہ عائد فریضے کو ادا کرنے کی قوت عطا فرمائے- آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے