بحیثیت مسلمان ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ ہم اپنی زندگی اس سانچہ میں ڈھال لیں جو کہ رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ تھی۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جس کی راہنمائی کے لیے رسول اللہ کے اقوال وافعال موجود نہ ہوں۔ ہدیہ لینا دینا بھی انہی میں سے ہے۔ ہدیہ کے لغوی معنی تحفہ کے ہیں۔اصطلاحی تعریف ہے کہ بغیر عوض کے کسی کو کسی مال کا مالک بنا دینا ہدیہ کہلاتاہے۔

دوستوں،رشتہ داروں سے خلوص ومحبت کا اظہار کرنے اورمحبت کو اور زیادہ بڑھانے کے لیے تحفوں کا تبادلہ دلوں کو جوڑنے کا باعث ہے۔ نبی کریم کا فرمان ہے : |’’ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو (تاکہ) باہمی محبت قائم ہوسکے۔‘‘ (موطا امام مالک :1264)

سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

أَهْدَيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةً، فَقَالَ: أَسْلَمْتَ؟ فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ

میں نے نبی کریم کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک اونٹنی پیش کی تو نبی کریم نے پوچھا :’’ کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟ میں نے کہا : نہیں ، تونبی اکرم نے فرمایا : ’’مجھے مشرکین کے ہدیہ قبول کرنے سے روکا گیاہے۔‘‘(ابوداود:3057)

بعد میں سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

ہدیہ لینا دینا دلوں میں قربت اورمحبت پیدا کرتاہے اس لیے کافروں،مشرکوں، اہل بدعت سے ہدیہ کے تبادلے سے خود بھی پرہیز کریں اور اپنے بحوں کو بھی اس کی تعلیم دیں ۔ اہل کتاب سے ہدیہ قبول کیا جاسکتاہے بشرطیکہ اس میں کوئی دینی اور سیاسی ضرر نہ ہو۔ نبی کریم نے اکبد رومہ اور نجاشی کا ہدیہ قبول کیا تھا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم کے پاس کسری نے ہدیہ بھیجا ، تو نبی کریم نے اے قبول فرمایا اور بادشاہ ہدیہ بھیجتے تھے نبی کریم  کو ، آپ  قبول کرتے۔(ترمذی:1576)

بسا اوقات تحفہ دینے کے لیے کوئی چیز موجود ہوتی ہے لیکن خیال آتا ہے یہ تو حقیر چیز ہے ، اسے دینے کا کیا فائدہ؟ یہ خیال غلط ہے ، اسی طرح جس کے پاس چھوٹا سا تحفہ بھیجا جائے وہ خوش دلی سے قبول کرے کیونکہ تحائف کے تبادلے سے خوشگوار ماحول پیدا ہوتاہے۔ ہدیہ دیتے وقت اپنی حیثیت کو سامنے رکھیں اور یہ نہ سوچیں کہ آپ جس کو ہدیہ دیں قیمتی ہدیہ دیں، جو کہ کچھ بھی میسر ہودے دیجیے، ہدیہ کے قیمتی ہونے ، نہ ہونے کا انحصار آپ کے اخلاص اور جذبات پر ہے۔ اور یہی خلوص وجذبات دلوں کو جوڑتے ہیں ہدیہ کی قیمت نہیں جوڑتی، اسی طرح دوست کے ہدیہ کو بھی حقیر نہ سمجھیں ، اس کے اخلاص پر نگاہ رکھیے۔ آج کے حالات میں کتاب بھی بہترین تحفہ ہے یا سامنے والے کی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھی تحفہ کا چناؤ کیاجاسکتاہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا انہوں نے رسول اللہ نے فرمایا : اگر ہدیہ دیا جائے مجھے ایک پایہ بکری کا تو بے شک میں قبول کرلوں گا، اور اگر دعوت دی جائے مجھے اس پر تو حاضر ہوں میں۔‘‘ (ترمذی:1338)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تحفہ میں تین چیزیں واپس نہ کی جائے تکیہ ، خوشبو اور دودھ۔‘‘ (ترمذی : 2790)

جو چیز تحفہ وہدیہ میں اپنے لیے پسند کرے وہ دوسرے

لوگوں کے لیے بھی پسند کرے اور جو چیز اپنے لیے پسند نہ ہو اسے دوسرے لوگوں کے لیے ناپسند سمجھے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم  سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ ( صحیح البخاری : 13)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم نے فرمایا : ’’ہمارے لیے یہ بری مثال نہیں ہونی چاہیے کہ جو کوئی ہدیہ کرکے اس کو واپس لے وہ اُس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اسے چاٹ لیتاہے۔‘‘ (صحیح البخاری : 2621)

احادیث مبارکہ کا تقاضا ہے کہ تحفہ دے کر واپس لینا حرام ہے۔ راوی حدیث قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تو قے کو حرام ہی خیال کرتے ہیں۔ گندی مثال ہمارے لیے نہیں یعنی کسی صاحب ایمان کے لیے اس طرح کا ہونا قطعاً ٹھیک نہیں ۔(ابوداود:3538)

ہمارے معاشرے میں یہ بیماری عام ہے۔ اولاد کا رشتہ کرتے وقت سامنے والوں کو بہت سے تحائف دیئے جاتے ہیں اگر شیطان کی وجہ سے بات بگڑ جائے تو اپنے تحائف واپس مانگے جاتے ہیں اور اس حرام کام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حرام عمل سے بچائے۔آمین

واضح رہے کہ جس طرح تحفہ واپس لینا حرام عمل ہے اسی طرح تحفہ واپس کرنا بھی مکروہ عمل ہے۔

آج دنیا اس قدر بدل چکی ہے کہ لوگ ہدیہ اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفاد کےلیے دیتے ہیں۔ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہدیہ تو رسول اللہ  کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا آج کل تو یہ رشوت کا روپ دھار چکا ہے۔ ( سیرت عمر بن عبد العزیز ، ص:212)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ جو شرمندہ ہوکر یا شرم کی بنا پر تحفہ دے ، اس کا تحفہ قبول کرنا حرام ہے۔فقراء کو ہدیہ دینا احسان ہے۔ فدائیان سنت رسول کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی کریم کے اسوئہ حسنہ کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔ ہدیہ احسان ہے اس کا بدلہ دو۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ہدیہ قبول فرما لیا کرتے لیکن اس کا بدلہ بھی دے دیا کرتے تھے۔(بخاری : 2585)

اگر مالی طور پر ہدیہ نہ دے سکیں تو بہت زیادہ شکریہ ادا کریں لوگوں کے اچھے معاملے اور احسان پر شکریہ کا اظہار انسان کے صاحب خلق ہونے کی دلیل ہوتاہے۔ لوگ جو آپ کے ساتھ احسان کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ عزوجل کے تصرف ہی سے کرتے ہیں۔ لہذا حقیقی شکر گزاری تو رب تعالیٰ ہی کا حق ہے تاہم با شرع لوگوں سے احسان مندی کا اظہار بھی لازمی طور پر مشروع اور مسنون ہے۔(شرح ابو داود : 4811)

ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ کسی کا دیا ہوا تحفہ آگے کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ شریعت میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو ایک حلہ(چادروں کا جوڑا) ہدیے کے طور پر پیش کیاگیا جس کا تانا بانا ریشم سے بنا ہوا تھا۔ نبی کریم نے وہ حلہ میرے پاس بھیج دیا۔ میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا :’’اے اللہ کے رسول میں اسے کیا کروں ؟ کیا میں اسے پہن سکتاہوں؟ رسول اللہ  نے فرمایا : ’’ نہیں اس سے فاطماؤں کو اوڑھنیاں بنادے۔(سنن ابن ماجہ : 3596)

آپ نے بخوبی جان لیا ہے کہ ہدیہ وتحفہ کیا ہوتاہے لیکن پھر بھی شادی بیاہ کے مواقع پر سلامی کے نام سے نقد روپیوں کا لفافہ دیاجاتاہے۔یہ ہدیہ، تحفہ یا تعاون نہیں ہوتا بلکہ اس کو قرض سمجھا جاتاہے اور قرض بھی سودی یعنی جتنی رقم دی جاتی ہے ، دینے والے کے ہاں جب شادی کی تقریب ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اب لینے والا میری دی ہوئی رقم مع اضافہ لوٹائے اور رواج بھی یہی ہے کہ واپسی کے وقت اضافہ کرکے ہی دی جاتی ہے۔

آج ہمارے ہر عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ لاعلمی اور دین سے دوری ہے۔ہماری ساری ترجیحات کا انحصار دنیا کا حصول ہے،ہمیں اخروی زندگی کی فکر نہیں ہے۔ سلامی  ونیوتہ جیسے بےضرر تکلفات وتحفے نہ نبی کریم کی سنت سےثابت ہیں ،نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی  تعلیمات سے اور نہ ہی سلف صالحین کے منہج سے۔ ہمیں ان اعمال سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ نبی کریم کاارشاد ہے : 

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ (مسلم:1718)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کا کما حقہ پابند بنائے ، ہمارے تمام اعمال کی اصلاح فرمائے اور ہمارے تمام اعمال صالحہ کو اپنی بارگاہِ صمدیت میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔آمین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے