اسلام میں تربیت کا مفہوم

لغت میںلفظِ’’ تربیت ‘‘ ’’رَبَبَ‘‘ فعل اور’’ربّ ‘‘اسم سے ماخوذ ہے ۔ اسمِ’’ربّ ‘‘ مالک ، قابل ِ اطاعت سرداراور مصلِح تینوں معنوں کے لیے بولا جاتاہے ۔ (1) تربیت بمعنی اصلاح ‘در اصل ربّ بمعنی مصلح سے حاصل شدہ ہے ۔

اصطلاحی طور پر تربیت کی مختلف تعریفات میں سے ایک تعریف ہے:

’’ زندگی کی مکمل جوانب _ صحت، ذہنی،عقلی، اعتقادی ، روحانی ، اداراتی اور تخلیقی وغیرہ _ کے اعتبارسے سلیم الطبع اورکامل مسلمان شخصیت کی تعمیر اور نگہداشت کرنا‘‘(2)

تربیت کی حقیقت‘ دہقان کے کام سے مشابہ ہے ۔ جو کھیتی سے فاضل جڑی بوٹیوں اور زائد از فصل نباتات کو تلف کرتااور نکال پھینکتا ہے ۔ (3 )

اسلام میں تربیت کا مقام اور حیثیت

بہت سی آیات و احادیث اولاد کی تربیت کی فضیلت پر دلالت کناں ہیں ۔ چند ایک درج ذیل ہیں:

ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ}(4 )

’’اے اہل ِ ایمان ! تم خودکو اور اپنے اہل ِ خانہ کو آگ سے بچائو ۔ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں ۔ ‘‘

امام قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’ آپ اپنے اہل ِ خانہ کو اللہ تعالیٰ کی فرمان برداری کا حکم دیتے رہیں اور انہیں اللہ عز و جل کی نافرمانی سے منع کرتے رہیں ۔ ان پر حکم ِ الٰہی قائم کریں اور اس معاملے میں فیملی کی نصرت و مدد کریں ۔ جب جب معصیت دیکھیں تو ان کی باز پرس کریں اور اس معصیت کی بابت ان کو ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ ‘‘(5)

سیدناابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے : فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ سے سنا:

’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے ۔ ہر ایک سے اس کی رعایا کی بارے میں باز پر س ہوگی ۔ امام ِ وقت اپنی رعایا کی بابت نگہبان اور مسئول ہے ۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے ۔ اس سے اس کی رعایاکے بارے میں پوچھا جائیگا ۔ ‘‘(6)

آپ نے فرمایا :

’’ کسی بھی بندے کو اللہ عز وجل کسی رعایا کی ذمہ داری سونپتے ہیں پھر وہ بندہ کماحقہ اپنی خیر خواہی سے اس رعایا کو نہیں نوازتا ‘ تو یہ بندہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا ‘‘(7)

سیدناابن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

’’ اپنے بیٹے کو ادب سکھائیے ! کیونکہ آپ سے اس بابت باز پرس ہوگی۔ آپ نے اسے کیا ادب سکھایا؟ اسے کیا تعلیم دی؟ اُس سے آپ کے ساتھ نیکی کرنے کی بارے میں باز پرس ہوگی۔ ‘‘(8)

نبی کریم نے اس بات کی خبر دی کہ تربیت صدقہ سے بہتر ہے ۔ آپ نے فرمایا:

’’آدمی اپنے بچے کو ادب سکھائے ‘ یہ ایک صاع صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے ‘‘(9)

مزید آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ بچے کو اچھے اخلاق کی تعلیم دینا تمام عطیات سے افضل چیز ہے ۔ فرمان ہے:

’’والد بچے کو اچھے ادب سے زیادہ افضل اور بہتر کوئی شے نہیں دیتا ‘‘۔(10)

پھر بیٹیوں کی تربیت تو آگ سے بچائو اوررکاوٹ کا باعث ہے ۔ سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے : فرماتے ہیں : رسول اللہ نے فرمایا:

’’جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں ۔ وہ ان کو ادب سکھائے ، ان کفالت کرے اور ان پر رحمت وشفقت کرتا رہے ‘ تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کہا :اے اللہ کے رسول! اگر کسی کے لیے دو بیٹیا ں تو؟آپ نے جواب دیا: جس کی دوبیٹیاں ہوں اس کے لیے بھی (جنت واجب ہوگی)۔‘‘(11)

کامیاب مربی کی خوبیاں اور صفات

کامیاب مربی کی چند خوبیاں ہیں ۔ جتنی کسی میں یہ خوبیاں زیادہ ہوں گی ‘ اللہ عز و جل کی توفیق سے اپنے بچے کی تربیت میں اس کی کامیابی کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے ۔مربی کبھی باپ ہوتا ہے ، کبھی ماں ، کبھی بھائی ، کبھی بہن ، کبھی چچا ، کبھی دادا یا کبھی ماموں وغیر ہ وغیرہ یہ مطلب نہیں کہ تربیت کی ذمہ داری کسی ایک کے کندھے پر ہوتی ہے ۔ بلکہ بچے کے آس پاس موجود ہر شخص کو بچے کی تربیت میں حصہ ڈالنا چاہیے ۔ اگرچہ غیر ارادی طورپر ہی سہی۔

مربی کی خوبیاں تو بہت ہیں ۔ البتہ چند اہم اہم خوبیاں : علم ، امانت ،قوت ، عدل ، شوق ، خیر خواہی ، صدق و سچائی ، حکمت و دانائی وغیرہ ہیں ۔

1 علم

تربیت کے عملی میدان میں ’’علم ‘‘ مربی کے لیے ایک آلہ و ہتھیار (Tool) ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ مربی کے پاس علم ِ شرعی کی ضروری مقدارلازماً ہو اور ساتھ ساتھ عصر ِ حاضر کی سمجھ بوجھ بھی ہو۔

علم ِ شرعی سے مراد کتاب و سنت کا علم ہے ۔ ایک مسلمان مکلف پر علم ِ شرعی کی جتنی مقدار سیکھنا واجب اور فرض ہے ، مربی سے اس سے زائد مقدار مطلوب نہیں ۔ علماء نے اس مقدار کی اس طرح سے حد بندی کی ہے کہ جتنی مقدار پر مکلف سے مطلوب عبادت یامقصود معاملہ کی معرفت کا انحصار ہے اتنی مقدارمیں شرعی علم سیکھنا ہر مسلمان مکلف پر فرض ہے ۔ کیونکہ اس حالت میں اس پر واجب اور فرض ہے کہ اس بات کو جانے کہ کیسے اس عبادت کے ذریعے اللہ عز وجل کی عبادت بجالائے اور اس معاملے کو قائم کرے ۔ (12)

جب مربی جاہل ہوتا ہے ‘ تو اس کی اولاد بدعات و خرافات پرپرورش پاتی ہے ۔ اور کبھی کبھی معاملہ شرک ِ اکبر تک جاپہنچتاہے ۔ العیاذ باللّٰہ

لوگوں کے حالات پر غور و فکر کرنے والا جان جاتا ہے کہ بہت سی عقیدہ اور عبادت کی غلطیاں ایسی ہیں جنہیں لوگ اپنے آباء واجداد سے وراثت میں حاصل کرتے ہیں ۔ پھر اِنہیں پر قائم و دائم رہتے ہیں۔ حتی کہ اللہ عز وجل اِنہیںخیر کی تعلیم و تربیت دینے والے _علماء ، داعیان اور خیر خواہ اخوان _ میسر فرما دیتے ہیں ۔ وگرنہ وہ اپنی جہالت پر ہی مرجاتے ہیں ۔

بلکہ شریعت سے نابلد مربی اپنی جہالت کے باعث اپنی اولاد اور حق کے درمیان آڑ اور رکاوٹ کا سبب ہوتا ہے ۔ بسا اوقات یہ بچوں کو حق سے مخالفت کاعادی بنا دیتاہے ۔ جیسے کثرت ِ نوافل ، ترک ِ معاصی ، امر بالمعروف یا طلب ِ علم وغیرہ وغیرہ امور پر کسی کا اپنے بچوں کے لیے کراہت کا اظہار کرنا ۔

مربی کو اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اسلامی تربیت کے اسالیب اور بچوں کے جہان کو جانے ۔ کیونکہ ہر مرحلہ کے لیے کچھ الگ نفسیاتی اور جسمانی قابلیتیں اور تیاریاں درکار ہوتی ہیں۔ اِنہیں قابلیتوں کے مطابق مربی صالح عقیدہ ،مضبوط اقدار اور فطرت ِ سلیمہ کی حمایت کو دلوں میں گہرا اتارنے کے وسائل کو بروئے کار لاتاہے ۔ (13)ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بچوں کے عمروں (Ages)میں فرق کے باعث ان کی تربیت کے وسائل مختلف ہوجاتے ہیں ۔ بلکہ بچوں کی عمریں ایک جیسی ہوں‘ توبھی ضروری نہیں کہ ان کے لیے درکار تربیتی وسائل ایک جیسے ہوں ۔ کیونکہ طبائع کے اختلاف کا بھی وسائل ِ تربیت پر اثر پڑتاہے ۔

مربی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے زمانے میں فکری انحرافات اٹھانے والی تحریکوں اور صالح تربیت کو منہدم کرنے والے طور طریقوں پر کڑی نظررکھے ۔ پھر نوجوانوں اور نوعمر بچوں میں پھیلی ہوئی شریعت سے روگردانیوں اور شریعت کی خلاف ورزیوں کو پہچانتاہو، تاکہ مربی ان کا مقابلہ کرنے اور بچوں کی شرعی آداب پر تربیت کرنے کی بھر پور قدرت پاسکے ۔

2امانت

عبادات و معاملات پر مشتمل شریعت کے تمام اوامر و نواہی کو امانت حاوی اور محیط ہے ۔(14) مربی عبادات کی ادائیگی پر حریص ہو، اولاد کو بھی اِن کا حکم دیتاہو اور شریعت کی تمام ظاہری اور باطنی صورتوں کا التزام کرنے والا ہویہ سب کچھ امانت کی علامات ہیں ۔ لہذا مربی اپنے معاشرے کے لیے نمونہ اور آئیڈیل ہوتا ہے جو امانت کی خوبی سے آراستہ ہوتا ہے ۔ وہ اپنی زندگی میں ہر جگہ اور ہر وقت قریبی اور دور کے تعلق داروں کے ساتھ فاضلانہ اخلاق اور اچھے رویوں سے پیش آتا ہے ۔ کیونکہ ایسے فاضلانہ اخلاق کی بنیاد اور منبع ’’امانت ‘‘ کو بروکار لانے کی شدید حرص ہوتی ہے جوکہ امانت کے وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے ایسے اخلاق کو حاوی اور شامل ہے ۔

3 قوت او ربرتری

یہ ایک ہمہ گیر خوبی ہے ۔ جو جسمانی ، عقلی اور اخلاقی فوقیت اور برتری کا نام ہے ۔ بہت سے والدین ابتدائی سالوں میں تو اپنی اولاد کی تربیت کر پاتے ہیں کیونکہ اِن سالوں میںوالدین کی شخصیات ان کی اولاد کی شخصیات سے بڑی ہوتی ہیں ۔( 15) لیکن بہت تھوڑے والدین ایسے ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کے بڑے ہوجانے پر اولاد سے بڑے اور قوی رہ پاتے ہو۔

والدین اور جو والدین کے قائم مقام ہوں ‘ ان میں یہ خوبی بے حد مطلوب ہے ۔ البتہ والد کے لیے یہ ایک لازمی خوبی ہے جو کفالت اور قوامیت کا جزء ہے ۔ لیکن کچھ بری خصلتیں ایسی ہیں جو آدمی کی قوامیت کو ختم کردیتی ہیںاور خاندان میں اس کے مقام و مرتبہ کو کمزور کردیتی ہیں ۔ جو چند ایک درج ذیل ہیں :

٭کبھی ایسے ہوتا ہے کہ بیوی کسی ایسے خاندان سے پل بڑھ کر آئی ہوتی ہے جہاں سرابراہی خاتون کی چلتی تھی اور مرد جہاں کمزور ، ضعیف اور لکیر کے فقیر تھے ۔ لہذا ایسی خاتون مرد کی قوامیت کوچرب زبانی ، بد اخلاقی اور بہلاپھسلا کر یاپھرزور زبردستی کے ساتھ غصب کر لیتی ہے ۔ (16)

٭کبھی ایسے ہوتا ہے کہ خاتون ِ خانہ اپنی اولاد کے سامنے برے رویے یا نافرمانی کا اظہار کرتی ہے یا والد کو تشدد اور الجھائو کا ذمہ دار قرار دیتی ہے ۔ اس سے بچوں کے ذہنوں میں باپ کی کمزوری اور اسکی ذہنی پستی راسخ ہوتی ہے ۔( 17)

کبھی ایسے ہوتا ہے کہ عورت اپنے خاوند کے سامنے کوئی مسئلہ پیش کرتی ہے ۔جب خاوند اس مسئلہ سے انکار کرتاہے تو بیوی در پردہ اولاد کے ساتھ مل کر خاوند کی مخالفت کرنے لگتی ہے ۔ جس سے بچے باپ کی نافرمانی ، مخالفت اور باپ کے سامنے جھوٹ کے عادی بن جاتے ہیں ۔

خاتون خاندان پر مرد کی سربراہی کو دل و جان سے تسلیم کرے ‘ یہ ضروری ہے ۔ چاہے سربراہ باپ ہو ، بڑا بھائی ہو، ماموں ہو یا چچا ہو وغیرہ ۔ خاتون کو سربراہ کے حکم کی بجاآوری کرنی چاہیے ،تاکہ بچوں کی تربیت طاعت و فرمان برداری پر ہوسکے۔ سربراہ کسی کام سے روکے تو خاتون کو سربراہ کی اطاعت کرنی چاہیے ۔(18) اگر کوئی بچہ باپ کی نافرمانی کرے توماں پر لازم ہے کہ وہ باپ کو آگاہ کرے اور کسی قسم کی پردہ دری نہ کرے ۔ کیونکہ بہت سی خرابیاں اور انحرافات صرف ماں کی پردہ دری کی وجہ سے جنم پاتے ہیں۔

بعض حالات میں ماںذہنی خلفشاری اور تردد سے دوچار ہوتی ہے ۔مثلاً بچے والد سے کسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو نہ شرعی طور پر ممنوع ہوتی ہے اور نہ حالات کے اعتبارسے وہ کوئی بری شے ہوتی ہے ۔ لیکن والد پھر بھی اپنی صواب دیدی رائے اور سوچ کی بنیاد پر بچوں کو اس شے سے منع کرتا ہے جس کی وجہ (Reason) کا کبھی وہ اظہار کر بھی دیتا ہے اور کبھی اظہار نہیں بھی کرتا ۔ مگر بچے والد محترم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن والد مطمئن نہیں ہوتے ۔ ایسے حالات میں لازمًا بیوی کو خاوند کا ساتھ دینا چاہیے ،خاوند کے فیصلے پر اپنے بچوں کی دلی تشفی کرانی چاہیے ، انہیں ان کے والد کی عقلی برتری اور دور اندیشی اچھے طریقہ سے باو ر کرانی چاہیے ۔ انہیں تسلی دلائے کہ زندگی میں کچھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو ماں باپ کو کچھ احساسات اور تجربات دے جاتے ہیں ۔ یہ احساسات اور تجربات کوئی بے فائدہ نہیں ہوتے۔ مثلا یہی احساس ہی ہوتا ہے جو بسا اوقات والد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو سفر کرنے سے منع کردے ۔ لیکن بچے کے دوست سفر پر جاتے ہیں تو کسی تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں ۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ والد کا انکار خیر ثابت ہوا ۔ یہ فقط والد کے احساس کے سبب ہی ہوتا ہے ۔

4  عدل

ہمارے اسلاف اپنی اولاد کے درمیان عدل کے حوالے سے شاندار اسوہ رکھتے تھے۔ حتی کہ وہ بچوں کو بوسے دینے میں برابری کو پسند کرتے تھے۔(19)

نبی مکرم نے ایک شخص کو ڈانٹا جس نے اپنے بیٹے کو پکڑا ۔ اس کا بوسہ لے کر اسے اپنی گود میں بٹھالیا۔ لیکن جب اس کی بیٹی آئی تو اس نے اس کو اپنے پہلو میں بٹھا دیا ۔ آپ نے اسے فرمایا :

اَلَا سَوَّیْتَ بَیْنَھُمَا

’’آپ نے ان دونوں کے مابین برابری کیوں نہیں کی ‘‘

ایک روایت یوں آئی ہے :

فَمَا عَدَلْتَ بَیْنَھُمَا(20)

’’ آپ نے ان کے درمیان عدل نہیں کیا ‘‘

لین دین ، ڈانٹ ڈپٹ ، خرچے، تحفے ، کھیل اور پیار وغیرہ سب چیزوں میں عدل مطلوب ہے ۔ کسی ایک بچے کو کچھ زیادہ دے کر دیگر سے نمایاں کرنا ‘سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت کی وجہ سے جائز نہیں ۔ جب سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کے والد ِمحترم نے انہیں ان کے دیگر بھائیوں سے ہٹ کر کچھ عطا کرنا ‘ چاہا ، تو آپ نے انہیں فرمایا :

اَشہِدْ غَیْرِیْ فَاِنِّیْ لَا اَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ(21)

’’جائو! کسی اور کو گواہ بنائو ! کیونکہ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں بنتا ہوتا ۔‘‘

البتہ کچھ ایسے اسباب ضرور پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اولاد کے درمیان امتیاز ی برتائو جائز ہوجاتاہے ۔ مثلاً بطور ِ سزا جیب خرچ روک لینا ، اچھی کارکردگی پر جیب خرچ سے کچھ زائد دینا ،کسی بچے کا کنبہ بڑا ہے اور اس کے پاس نان و نفقہ پورا سورا ہے وغیرہ ۔(22)

عدل کا یہ تقاضا قطعاً نہیں ہے کہ بچوں کے ساتھ معاملات کے تمام اسالیب اور طور طریقے ایک جیسے ہوں ۔ چھوٹا بچہ، عاجز یا مریض بچہ یقینا امتیازی برتائو کے حقدار ہیں۔(23)کیونکہ انہیں اس وقت توجہ کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح وہ بچہ جوتعلیم ، نوکری یا علاج معالجہ کی غرض سے ہفتہ میں سے چند دن گھر سے غائب رہتا ہے ‘ وہ بھی امتیازی برتائو کا مستحق ہے ۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ والدین دیگر بچوں پر امتیازی معاملہ اورنمایاں لطف و کرم کی وجہ واضح کردیں ۔ یہ امتیاز بھی کسی بہت بڑے فرق کے ساتھ نہ ہو بلکہ معمولی فرق کے ساتھ ہو جسے دیگر بھائی نظر انداز کر دیں یا در گزرکر لیں ۔ البتہ جو رویہ بھائیوں کے دلوںمیں کراہت و نفرت کو جنم دیتاہے ، وہ ہے موازنہ اور تقابل کرنا۔نتیجتاً کسی ایک کی مدح کی جاتی ہے تودوسرے کی مذمت کی جاتی ہے ۔ اوریہ چیز تو دوستوں اور رشتہ داروں کے مابین بھی رقابت کا باعث بن جاتی ہے ۔ اس لیے مذمت کا شکار بچہ غم زدہ ہو کر اپنی ہی بھائی سے کراہت و نفرت کرنے لگتاہے ۔

عدل فقط ظاہر ہی میں نہیں ہوتا ۔ کیونکہ بعض لوگ کسی ایک بچہ کو اس کے دیگر بھائیوں سے چھپاکر نوازتے رہتے ہیں ۔ یہ اخفاء اس بچے میں انانیت و تکبر کو فروغ دیتاہے۔ (24)

5 حرص

بیشتر خاندانوں کی زندگیوں میں حرص کا تربیتی مفہوم ہی ناپید ہوتا ہے ۔ ایسے خاندان یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ حرص اس شے کانام ہے کہ بچوں کو بہت زیادہ لاڈپیار دیا جائے ، حد سے زیادہ ان کے بارے میں خوف رکھا جائے، مستقل طور پر بچوں کے ساتھ جڑے رہنا چاہیے ، بچے پر اعتماد کیے بغیر بچے کی تمام حاجات کو براہِ راست پوری کرنی چاہیے‘ اور اس کی تمام دل پسند چیزوں کی تعمیل کرنی چاہیے ۔

ماں خوف کے مارے بچے کو کھیل کود سے روکتی ہے ، اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہے،اس کے باوجودکہ بچہ بذات ِ خود اپنے ہاتھ کے ساتھ کھانا کھانے کی قدرت رکھتا ہے ۔ باپ اپنے بچے کوکسی بھی کام کی تکلیف نہیں دیتا ‘ اس حجت کے باعث کہ وہ ابھی چھوٹا ہے ۔ ایسے ماں باپ دونوں ہی اپنے بچے کو خراب کرتے ہیں ، اسے طفیلی ، ادارہ کی کمزوری اور سوچ و فکر سے عاری بناتے ہیں ۔ بستی اور دیہات کے بچوں اور شہر میں پلے بڑھے بچوں کے درمیان نمایاں فرق ‘ اس بات کی کھلی اور عام مشاہداتی دلیل ہے ۔( 25)

حقیقی ثمر آور حرص ایک بیدار اور سرگرم احساس ہوتاہے ۔ جو مربی کو اپنے بچے کی تربیت پر ابھارتاہے ۔ اگرچہ اسے بچے کی خاطر مشقت اور درد و الم جھیلنا پڑیں ۔ ایسے حرص کی چند ایک علامات ہیں:

ا۔ دعا

 باپ کی اپنے بچے کے حق میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ کیونکہ باپ کے دل میں رحمت و شفقت ہوتی ہے اورباپ کی دعا جذبات سے لبریز اورشدید الحاح و زاری والی ہوتی ہے۔(26)اس لیے نبی کریم والدین کو اپنے بچوں کو بددعا دینے سے تنبیہ کی ہے ۔ مبادا یہ بددعا کسی قبولیت کی گھڑی سے ہم آہنگ نہ جائے ۔

ب۔۔۔ متابعت و ملازمت

عملی تربیت مسلسل اورطویل المدتی کام ہے ۔جس میں سر راہے نوعیت کی راہنمائی بالکل کفایت نہیں کرتی ‘ چاہے وہ کتنی ہی خلوص بھری اور صحیح ہو۔(27)اسی جانب نبی کریم نے اشارہ فرمایا :

اَلْزِمُوْا اَوْلَادَکُمْ ۔۔۔۔وَاَحْسِنُوْا اٰدَابَھُمْ (28)

’’اپنی اولاد کے آس پاس رہا کرو اور ان کے آداب و طور طریقوں کو خوب سنوارو!‘‘

بچوں کے آس پاس رہنا او رخاندان سے طویل مدت غائب نہ رہنا ‘ کامیاب تربیت کے لیے شرط ہے ۔ لیکن جب ملازمت ، کام کاج ، طلب ِ علم یا دعوت کے حالات فیملی سے دور رہنے کا تقاضا کریں ‘ تو ایسے حالات میں ماں کی ذمہ داری دگنی ہوجاتی ہے ۔ جسے ایسے حالات کا سامنا ہو ‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی بیوی پسند کرے جو نیک ہو ، مضبوط ہو اور اپنے مطلوبہ کردار سے زیادہ بڑے کردار کو پورا کرنے پر قادر ہو۔

6عزم و حزم

تربیت کی مضبوطی اور پائداری عزم اورحزم کے دم سے ہی ہے ۔ دراصل حازم وہ شخص ہوتاہے جو مختلف امور کو ان کے بالکل مناسب حالات کے مطابق سرانجام دیتاہے ۔ نہ تو وہ شدت کے متقاضی حالات میں سستی و نرمی برتتا ہے اور نہ شفقت و رِفقت کے متقاضی کے حالات میں شدت سے پیش آتاہے ۔ (29)

عزم وحزم کا ضابطہ یہ ہے کہ مربی اپنے بچے کوپابند بنائے کہ وہ اپنے دین ،اپنی عقل ،اپنے بدن اوراپنے مال کے حفاظت کرے ، اپنے دین اور دنیا کے لیے نقصان دہ چیزوں کے سامنے بندباندھے اور اپنے علاقہ میں قابل ِ لحاظ اور قابل ِ رعایت اجتماعی طور طریقوں کاپابند رہے جب تک وہ طور طریقے شریعت سے متصادم نہ ہوں ۔

امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’اگر آپ بچے کی آہ و بکاپر ترس کھانے لگتے ہیں ‘ توآپ کبھی اسے بری عادات چھڑانے پر قادر نہ ہونگے اور نہ آپ کے لیے اسے ادب سکھاناممکن رہے گا ۔ نتیجتاً بچہ جاہل، گنوار اور فقیر بن کر بالغ ہوگا ۔‘‘ (30)

مگر جب مربی ارادوں میں کچا اور پر عزم نہ ہو ‘ تو بچے کی محبت میں اسیر ہوکررہ جاتا ہے ۔ پھر یہ محبت اس مربی کی رہبر بن جاتی ہے ،اس سے بچے کی تمام من پسند چیزیں پوری کرواتی ہے اورخطا کے وقت بچے کو سرزنش کرنے سے اسے روکتی ہے ۔ بالآخر بچہ ضعیف الارادہ اور خواہشات کااسیر بن کر پروان چڑھتا ہے ۔ نہ کہ اپنے اوپر فرض کردہ حقوق و واجبات کو پورا کرنے والابن کر۔(31 )

حازم اور پر عزم وہ شخص بھی نہیں ہے جو ہر حرکت ،ہر اونچ نیچ اورہر لفظ پر کڑی نظر رکھے اور ہر ہر لغزش اور غلطی پر ڈانٹ پلانے لگے ۔ بلکہ مناسب یہ ہوتا ہے کہ گاہے بگاہے مربی عفو و در گزری کا مظاہرہ بھی کرتا رہے۔ (32)

حزم و عزم کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ بچے کے تمام تر مطالبات پر لبیک نہ کہا جائے ۔ کیونکہ بعض مطالبات تو بالکل لایعنی اور نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی بالکل مناسب نہیں ہے کہ جب جب بچہ روئے یا ناراض ہو ‘ تو مربی بچے کی بات ماننے لگے ۔ تاکہ بچے کو اس بات کا احساس ہو کہ اپنی من پسند اشیاء کے حصول کے لیے ناراضگی اور چیخ و پکار بالکل ممد و معاون نہیں ہیں ۔ (33) مزیدوہ یہ سیکھ سکے کہ کوئی مطالبہ پورا کیے جانے کے لائق تب ہوتا ہے جب وہ مطالبہ بے حد متانت، ادب اور احترام سے کیا جائے ۔

جن ذمہ داریوںاور واجبات میں والدین کو پرعزم اور قوی الارادہ رہنا چاہیے ، ان میں سے ایک اہم ترین ذمہ داری گھریلو نظام ہے ۔نیند ، کھانے پینے اور آنے جانے کے نظام الاوقات کی محافظت کی جائے ۔اس سے بچوں کی اخلاقیات کو منضبط کرنا آسان ہوجاتاہے ۔ بعض بچے جب چاہتے ہیں کھاتے ہیں ، جب چاہتے ہیں سوتے ہیں۔جس سے یہ ہوتا ہے کہ بچے رات کو بیداررہتے ہیں، وقت ضائع کرتے ہیں اورایک کھانے پردوسرا کھانا کھانے کے عادی بنتے ہیں۔یہ بے ضابطگی اور انارکی اعضاء میں ڈھیلے پن کا سبب بنتی ہے، محنت اور اوقات کے ضیاع کا باعث ہوتی ہے اور نفوس میں عدم ِ انضباط کو نمودیتی ہے ۔ گھر کے سربراہ کے ذمے ہے کہ وہ گھر لوٹنے کی اوقات کوباضابطہ بنانے اور چھوٹے بچوں کے گھر سے نکلتے وقت اجازت لینے کے معاملہ میںعزم و حزم کا مظاہرہ کرے ۔ خواہ وہ عمر میں چھوٹے ہوں یا عقل میں ۔(34)

7نیکی و بھلائی

ماں باپ نیک ہوں توبچوں پر اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے کہ اللہ کے حکم سے بچے خیر اور ہدایت پر نشوو نما پاتے ہیں ۔ فرمان ِ خدا وندی ہے :

{وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا} (35)

’’ان دونوں کا والد نیک آدمی تھا ‘‘

اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ نیک شخص کو اس اولاد میں یاد رکھاجاتا ہے ۔ اس کی عبادت کی برکت دنیا اور آخرت میں اولاد کے شامل ِ حال رہتی ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ باپ اولاد کے حق میں سفارش کریگا اور جنت میں اولاد کے درجات باپ کے درجہ تک بلند ہوگے تاکہ باپ کی آنکھیں ڈھنڈی ہوں جیساکہ قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے ۔(36 )

عام مشاہدہ یہی ہے کہ بیشتر خاندان جو قدیم زمانے سے نیکی اور بھلائی میں ممتاز چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بچہ پھسل جائے یا بھٹک جائے تو کچھ ہی مدت بعد وہ اپنے والدین کی نیکی اور اللہ کے لیے ان کی کثرت ِ اطاعت کے باعث خیر کی جانب پلٹ آتاہے ۔ یہ کوئی عام قاعدہ و کلیہ نہیں ۔ لیکن غالب اکثریت کی حالت بہر حال یہی ہے ۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ خاندان کا نیک اور صالح ہونا ‘ کسی کے نیک بننے کیلیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ پھر وہ اپنے موقف کی تائیدمیں مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی کوتاہی ، تقصیر اور گمراہی کی معقولیت منواسکیں۔

8  صد ق و سچائی

قول و فعل میں حقیقت کا التزام رکھنا ‘ صدق اور سچائی ہے۔ صادق شخص عبادات میں ریا ، معاملات میں فسق و فجور ، وعدہ خلافی ، جھوٹی گواہی اور امانتوں میں خیانت سے کوسوں دور رہتا ہے ۔(37 )

نبی کریم نے ایک مسلمان خاتون کو متنبہ کیاجس نے اپنے بچے کو کچھ دینے کے لیے بلایا تھا ۔ آپ نے اس سے پوچھا :

 کیا آپ اس کو کچھ دینے کا ارادہ بھی رکھتی تھیں ؟

اس نے جواب دیا: جی ہاں ؛ میں اسے کھجور دینے کا ارادہ رکھتی تھی ۔

آپ نے فرمایا :

لَوْ لَمْ تُعْطِیْہ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیکِ کِذْبَۃُ (38)

’’اگر آپ اس بچے کو کچھ نہ دیتی ‘ تو آپ کے حق میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا‘‘

صدق کے مظاہر و علامات میںسے ایک یہ ہے کہ مربی اپنے بچے کے سامنے کبھی جھوٹ نہ بولے ، چاہے کیسی ہی کٹھن صورتحال کیوں نہ پیش آجائے۔ کیونکہ مربی جب صدق وصفا کا پیکر ہوگاتو اولاد اس کی اقتداء کرے گی ۔ اور اگر مربی جھوٹا ہوا ‘ اگرچہ ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو‘ تو اس کا سب عمل اورنصیحت راکھ ہوا ۔ اسی طرح مربی پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بچوں سے کیے وعدوں کو پورا کرے۔ اگر کسی وجہ سے وعدہ نہ نبھاسکے تو بچوں سے معذرت کرے ۔(39)

بعض بچے مربی کی ہی وساطت سے ریا کاری سیکھ لیتے ہیں جو لوگوں کے سامنے نیکی ، اخلاق یابے نیازی وغیرہ کا ڈھونگ رچاتاہے لیکن گھر میں بچوں کے درمیان کی اُس کی حالت و کیفیت اِس کے برخلاف ہوتی ہے ۔ (40)

9حکمت و دانائی

ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا ‘ حکمت و دانائی کہلاتی ہے ۔ یا دوسرے لفظوں میں عقل کی پختگی اور عملداری کا انضباط ۔ صرف اتنا ہی کافی نہیں ہوتا کہ مربی عملداری کو منضبط کرے اور کامیاب تربیتی اسالیب کی اتباع کرے ۔ بلکہ خاندان کے افراد،ماں ، باپ ، دادا ، دادی وغیرہ _کے مابین اور مختلف جگہوں _گھر ، سکول ، مسجد اور شاہراہ وغیرہ جہاں بچہ بکثرت آتاجاتا ہے _پرقابل ِ اتباع تربیتی منہج کا نفاذ اور قیام بھی ضروری ہے ۔کیونکہ تناقض بچے کو بہت جلدنفسیاتی مشکلات و ذہنی عوارض سے دوچارکردیتا ہے۔ (41)

اس لیے مناسب تربیتی اسلوب پر والدین کا باہمی تعاون اوراتفاق بے حد لائق ِ توجہ ہوتاہے ۔ جب معاملہ یہ پیش آجائے کہ باپ کسی امر کا حکم دے جو ماں کی سمجھ سے بالا ترہو ‘ توخاتون پر لازم ہے کہ نہ تووہ اپنے خاوند پر کوئی اعتراض کرے اور نہ اسے بیوقوف قرار دے بلکہ اس کی اطاعت کرے ۔ ہاں البتہ کسی ایک کی غلطی کی درستگی کی خاطر میاں بیوی کے مابین گفتگو خفیہ ہونی چاہیے جس کا بچے کو احساس نہ ہو۔

حوالہ جات

(1)دیکھیے : لسان العرب از ابن منظور :400/1 ،401 مادہ (ربب)اور القاموس المحیط از فیروز آبادی :ص111

(2)أھداف التربیۃ الاسلامیۃ و غایاتھا : مقداد یالجن: ص20

(3)رسالۃ ایھا الولد : الغزالی : ص 34

(4)سورۃ التحریم : 6

(5)تفسیر ابن کثیر: 391/4

(6)بخاری :کتاب الجمعۃ ، باب الجمعۃ فی القری والمدن ، حدیث855، مسند احمد : 55,54,5/2

(7)بخاری : کتا ب الاحکام ، باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح ، حدیث 6716، مسلم : کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامیر العادل و عقوبۃ الجائر و الحث علی الرفق : 214/12، مسند احمد : 15/2

(8)تحفۃ المولود باحکام الاولاد لابن قیم : ص 177

(9)مسند احمد :96/5، ترمذی : کتاب البر والصلۃ : 334/4، مستدرک حاکم : 263/4، طبرانی: 274/2

(10)ترمذی : کتاب البر والصلۃ : 338_337/4

(11)مسلم : کتاب البر و الصلۃ و الادب ، باب فضل الاحسان الیٰ البنات : حدیث نمبر 2629

(12)کتاب العلم از الشیخ محمد بن صالح العثیمین:ص21

(13)دیکھیے: اصول التربیۃ الاسلامیۃاز عبد الرحمن النحلاوی:ص175

(14)دیکھیے:تیسیر العلی القدیراز محمد نسیب الرفاعی : 521/3

(15)دیکھیے: منہج التربیۃ الاسلامیۃاز محمدقطب: ص280

(16)دیکھیے:سابقہ مرجع :ص 69_68

(17)دیکھیے: کیف نربی اطفالنا : محمود استنبولی : ص 70

(18)دیکھیے : تربیۃ البنات : خالد الشتنوت: ص69

(19)المغنی : ابن قدامہ : 666/5

(20)الکامل فی ضعفاء الرجال : 239/4، حدیث نمبر 1067

(21)مسلم : کتاب الھبات ، باب کراھۃ تفضیل الاولاد فی الھبۃ : ص 1241، النسائی : کتاب النحل : باب ذکر اختلاف الفاظ الناقلین لخبر النعمان بن بشیر فی النحل : 260/6، مسند احمد : 268/4

(22)دیکھیے : المغنی : ابن قدامہ : 604/5

(23)دیکھیے: کیف نربی اطفالنا : محمود استنبولی : ص 76

(24)سنیئے : کیسٹ ’’تربیۃ الابناء‘‘:احمد القطان

(25)دیکھیے: کیف نربی اطفالنا : محمود استنبولی : ص 63_62

(26)دیکھیے: منہج التربیۃ النبویۃاز محمد نور سوید: ص322

(27)دیکھیے:منہج التربیۃ الاسلامیۃاز محمدقطب: ص285

(28)ابن ماجہ : کتاب الادب : باب بر الوالدین و الاحسان الی البنات : 1211/2حدیث نمبر3671جس کے الفاظ یوں ہیں {اکرموا اولادکم واحسنوا آدابھم } لیکن الجزائری اسے اپنی کتاب منھاج المسلم میں ضعیف قرار دیا ہے :ص 91

(29)دیکھیے: اصول التربیۃ الاسلامیۃاز عبد الرحمن النحلاوی:ص174

(30)صید الخاطر : ابن جوزیؒ : ص 540

(31)دیکھیے: کیف نربی اطفالنا : محمود استنبولی : ص 63

(32)دیکھیے: اصول التربیۃ الاسلامیۃاز عبد الرحمن النحلاوی:ص175

(33)دیکھیے: کیف نربی اطفالنا : محمود استنبولی : ص 144

(34)اربعون نصیحۃ لاصلاح البیوت: محمد صالح المنجد : ص 44

(35)سورۃ الکھف : 82

(36)دیکھیے:تیسیر العلی القدیراز محمد نسیب الرفاعی : 89_88/3

(37)دیکھیے : اخلاق المسلم : محمد مبیض : ص 61

(38)ابو داود : کتاب الادب : باب فی التشدید فی الکذب : حدیث نمبر (4991)716/2، مسند احمد : 447/3

(39)دیکھیے : اخلاق المسلم : محمد مبیض : ص 72

(40)دیکھیے: اصول التربیۃ الاسلامیۃاز عبد الرحمن النحلاوی:ص173

(41)دیکھیے: المشکلات النفسیۃ عند الاطفال : زکریا الشربینی: ص 14

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے