محمد مدثر لودھی

دوسری قسط

دعوی:

آپ کی داڑھی مبارک بڑی اور اعتدال کے ساتھ دراز تھی

ہمارے اس دعوے کی دلیل درج ذیل روایات ہیں:

پہلی دلیل:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ سُعَيْدٍ، أَوْ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ،عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قَصِيرٌ وَلا طَوِيلٌ، عَظِيمَ الرَّأْسِ رَجِلَهُ، عَظِيمَ اللِّحْيَةِ، مُشْرَبًا حُمْرَةً، طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ، عَظِيمَ الْكَرَادِيسِ، شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ كَأَنَّمَا يَهْبِطُ فِي صَبَبٍ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نہ تو کوتاہ قد تھے نہ ہی دراز قد،(آپ کا قد درازی کی جانب مائل تھا)،بڑے سر(یعنی حد اعتدال میں بڑا تھا) اور بڑی داڑھی والے(یعنی حداعتدال میں بڑی تھی)،سرخی مائل گلابی رنگت والے،سینے سے ناف تک باریک بالوں کی لمبی لائن تھی،کندھوں کے جوڑ بڑے تھے،ہتھیلیاں اور قدم فربہ تھے،جب چلتے تو سامنے کی جانب متوجہ رہتے گویا نشیب میں اتررہے ہوں، میں نے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ ہی آپ کے بعد ۔

حوالہ و تخریج و تحقیق:

مسند احمد:946،الشریعۃ للآجری:1017،صحیح ابن حبان:6311،مسند ابی یعلیٰ:369،مصنف ابن ابی شیبہ:31807،امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا:مستدرک حاکم :4194،نیزعلامہ البانی نے اسے حسن کہا: صحيح الجامع الصغير:4820،الصحیحۃ:2053۔

سیدنا علی بن ابی طالبt کی دوسری روایت:

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ، شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، مُشْرَبٌ وَجْهُهُ حُمْرَةً،طَوِيلُ الْمَسْرُبَةِ، ضَخْمُ الْكَرَادِيسِ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نہ تو کوتاہ قد تھے نہ ہی دراز قد،(آپ کا قد درازی کی جانب مائل تھا)،بڑے سر(یعنی حد اعتدال میں بڑا تھا) اور بڑی داڑھی والے(یعنی حداعتدال میں بڑی تھی)،ہتھیلیاں اور قدم فربہ تھے،سرخی مائل گلابی رنگت والے،سینے سے ناف تک باریک بالوں کی لمبی لائن تھی،کندھوں کے جوڑ بڑے تھے،جب چلتے تو سامنے کی جانب متوجہ رہتے گویا نشیب میں اتررہے ہوں، میں نے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ ہی آپ کے بعد ۔

حوالہ و تخریج و تحقیق:

امالی ابن بشران:765،شرح السنۃ:3641،مسند ابی داؤد الطیالسی:166،مسند احمد:746،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا،الصحیحۃ:2053 ، تحقیق مشکاۃ المصابیح:5790۔

وضاحت:

رسول اللہ کے جسد مبارک کی مختلف صفات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آپ کا سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا،جیسا کہ اس روایت میں صراحت ہے، بعض روایات میں ”عظیم الھامۃ“کے الفاظ ہیں ، ان کا بھی یہی مطلب ہے،نیز یہ بات بھی سبھی اہل علم کے مابین متفق ہے کہ آپ کے کندھے چوڑے تھے اور کندھوں کے جوڑ بڑے تھےاور سینہ مبارک بھی چوڑا تھا اور آپ کا سینہ و پیٹ برابر تھے،یعنی پیٹ سینے سے بڑھا ہوا نہ تھااور آپ کا چہرہ مبارک بھی مکمل گول نہ تھا بلکہ گولائی کی جانب مائل تھا،(ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیضوی شکل میں تھا۔واللہ اعلم)

اس نوع کے حلیے کے ساتھ داڑھی کا چھوٹا ہونا بالکل نہیں جچتا،لہذا نبی کریم کی داڑھی حد اعتدال میں بڑی تھی جس طرح آپ کے دیگر بالائی اجزاء حد اعتدال میںبڑے تھے،جیسا کہ اس حدیث میں صراحت ہے۔

دوسری  دلیل:

امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفیٰ:256ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ:

متن:

قُلْنَا لِخَبَّابٍ بن الارت أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: بِمَ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ ذَاكَ؟ قَالَ:بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ.

ابو معمر رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا رسول اللہ ظہر و عصر میں قراءت کرتے تھے؟انہوں نے کہا:ہاں،ہم نے کہا:آپ لوگ یہ بات کیسے جانتے؟انہوں نے کہا: آپ کی داڑھی کے ہلنے سے۔(صحیح بخاری:746)

اس معنی کی ایک اور روایت:

امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

متن:

كَانَتْ تُعْرَفُ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ بِتَحْرِيكِ لِحْيَتِهِ.

عبداللہ (جیسا کہ طبرانی کی روایت میں ہے)رضی اللہ عنہ نے کہا:ظہر کی نماز میں رسول اللہ کی قراءت آپ کی داڑھی کے متحرک رہنے سے پہچانی جاتی تھی۔

حوالہ و تخریج و تحقیق:

طبرانی کبیر:10108،مسنداحمد:23153،الاغراب للنسائل:215، صححہ الارناؤط،نیز علامہ ہیثمی نے کہا:اسکے رواۃ ثقات ہیں: المجمع: 2683، علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:اصل صفۃ صلاۃ النبی :2/414

وضاحت:

واضح رہے کہ چھوٹی داڑھی میں بات کرنے یا قراءت کرنے سے اضطراب یعنی حرکت پیدا نہیں ہوتی،ایسا صرف بڑی داڑھی میں ہی ممکن ہے جو سینے تک دراز ہو۔

تیسری دلیل:

امام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ البخاری نے سُلیم بن حارث بن سلیم البصری کے ترجمے میں کہا:

سند:

قَالَ لِي قَيس بن حَفص(الدارمی): حدَّثنا سُلَيم، سَمِعَ جَهضَم بْنَ الضَّحّاك، قَالَ: مررتُ بالزُّجَيج، فَقَالَ العَدّاءُ بنُ خالِدٍ:

متن:

رَأَيتُ النَّبيَّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم حَسَنَ السَّبَلَةِ وَكَانَتِ الْعَرَبُ تُسمِّي اللِّحْيَةَ السَّبَلة.

العداء بن خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم کو خوبصورت(سبلۃ)داڑھی والا دیکھا،(غالباً جھضم نامی راوی نے کہا)عرب داڑھی کو ”السبلۃ“کہتے تھے۔

حوالہ و تخریج:

التاریخ الکبیر للبخاری:4/1232/246،دلائل النبوۃ للبیہقی: 1/217،طبرانی کبیر:19،معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:5580،الثقات لابن حبان:4/113،رقم الراوی:2060 ، ترجمۃ جہضم،المجالسۃ وجواہر العلم لابی بکر احمد بن مروان الدينوری المالکی (المتوفیٰ : 333ھ: 2621، غریب الحدیث للخطابی :1/215،تاریخ دمشق لابن عساکر:3/306

تحقیق:

اسکی سند متصل اور رواۃ ثقات ہیں،لہذا یہ روایت صحیح ہے۔

محل استشہاد:

اس روایت سے ہمارا استدلال یہ ہے کہ نبی کریم کی ریش مبارک آپ کے سینے تک دراز تھی اور محل استشہاد لفظ ”السبلۃ“ ہے،عربی لغت کے مطابق یہ لفظ داڑھی کے سامنے والے بالوں پر مشتمل حصے کو کہا جاتا ہے جب وہ سینے تک دراز ہوں،جیسا کہ درج ذیل ائمہ لغت کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے۔

لفظ ”السبلۃ“ کی لغوی تحقیق:

1-امام ابن السکيت، ابو يوسف يعقوب بن اسحاق (المتوفیٰ: 244ھ)نے کہا:

فاللحية تجمع الشعر أجمع. فما كان من الصدغ إلى الراد فهو المسال. وما أسبل من مقدمها على الصدر فهو السبلة. يقال للرجل الطويل السبلة إنه لمسبل، ويقال أخذ سبلته فجزه يراد بطرف لحيته

ٓداڑھی کو” اللحیۃ“ کہتے ہیںاور کنپٹی سے تھوڑی کے گڈھے تک کے حصے کو” المسال“ کہتے ہیں اور داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوں سینے پر اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں، اور لمبی داڑھی والے کو ”مسبل“کہا جاتا ہےاور کہا جاتا ہے ”اخذ سبلتہ فجزہ“یعنی اس نے سبلہ کو کاٹ دیا اس سے داڑھی کا کنارہ مراد ہوتا ہے۔( الکنز اللغوی في اللَسَن العربی:176)

2-امام ابو محمد عبد الله بن مسلم بن قتيبۃ الدينوری (المتوفیٰ: 276ھ)کی جانب منسوب کتاب میں ہے:

ما أسبل من مقدّمها على الصّدر

 داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوں سینے پر اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں۔( الجراثيم:1/179)

3-امام محمد بن احمد بن الازہری الہروی، ابو منصور (المتوفیٰ: 370ھ)نے کہا:

يَعْنِي الشعرات الَّتِي تَحت اللَّحْي الْأَسْفَل.والسَّبلةُ عِنْد الْعَرَب: مقدَّم اللِّحْيَة، وَمَا أسبل مِنْهَا على الصَّدْر.يُقَال للرجل إِذا كَانَ كَذَلِك: رجل أسْبَلُ ومسَبَّل.

”السبلۃ“یعنی وہ بال جو داڑھ کے نچلے حصے پر ہوں، عربوں کے نزدیک داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوںاور جو سینے پرپہنچ رہے ہوں اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں،جب کوئی اس طرح کی داڑھی والا ہو ،یعنی لمبی داڑھی والاتو اسے ”رجل اسبل“اور”مسبل“کہا جاتا ہے۔

( تہذيب اللغۃ:12/303)

4-امام ابو سليمان حمد بن محمد بن براہيم بن الخطاب البستی المعروف بالخطابی (المتوفیٰ: 388ھ)نے کہا:

قَالَ الأصمعيّ السَّبَلَةُ ما أُسْبل من مُقَدَّم اللَّحْيةِ عَلَى الصدر يقال للرجل الطَّويلِ السَّبَلَة: إنه لأسْبَلُ ومُسبلٌ

بقول اصمعی :داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوںاور جو سینے پرپہنچ رہے ہوں اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں،لمبی داڑھی والے کو ”رجل اسبل“ اور”مسبل“کہا جاتا ہے۔(غریب الحدیث:1/215)

5-امام ابوہلال الحسن بن عبد الله بن سہل بن سعيد بن يحیٰی بن مہران العسکری(المتوفیٰ: 395ھ)نے کہا:

وما انسبلَ مِن مُقدَّمِها فهَو السَبَلَةُ.

 داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوں سینے پر اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں۔(التلخیص في مَعرفَۃِ اسمَاءِ الاشياء:43)

6-امام ابو عبيد احمد بن محمد الہروي (المتوفیٰ 401 ھ) نے کہا:

الشعرات التي تحت اللحى الأسفل. والسبلة عند العرب: مقدم اللحية وما أسبل منها على الصدر يقال: إنه لأسبل، ومسبل/ إذا كان طويل السبلة.

”السبلۃ“یعنی وہ بال جو داڑھ کے نچلے حصے پر ہوں،عربوں کے نزدیک داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوںاور جو سینے پرپہنچ رہے ہوں اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں،جب کوئی اس طرح کی داڑھی والا ہو ،یعنی لمبی داڑھی والاتو اسے ”رجل اسبل“اور”مسبل“کہا جاتا ہے۔

( الغريبين في القرآن والحديث:3/863)

7-امام ابو القاسم محمود بن عمرو بن احمد، الزمخشری جار الله (المتوفیٰ: 538ھ)نے کہا:

مَا أُسبل من مقدَّم اللِّحية على الصَّدْر.

 داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوں سینے پر اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں۔ (الفائق في غريب الحديث والاثر:3/378)

8-امام جمال الدين ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی(المتوفیٰ: 597ھ)نے کہا:

هُوَ مقدم اللِّحْيَة وَمَا أسبل مِنْهَا عَلَى الصَّدْر وَلَيْسَ بالشارب

”السبلۃ“اس سے داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوں سینے پر وہ مراد ہیں پونچھیں مراد نہیں۔( غريب الحديث:1/459)

9-امام مجد الدين ابو السعادات المبارک بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الکريم الشيبانی الجزري ابن الاثير (المتوفیٰ: 606ھ)نے کہا:

هِيَ الشَّعَرات الَّتِي تَحْتَ اللَّحْى الأسْفَل. والسَّبَلَةُ عِنْدَ العَرب مُقدَّم اللّحْية وَمَا أَسْبَلَ مِنْهَا عَلَى الصَّدْر.

”السبلۃ“یعنی وہ بال جو داڑھ کے نچلے حصے پر ہوں، عربوں کے نزدیک داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوںاور جو سینے پرپہنچ رہے ہوں اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں۔(النہايۃ في غريب الحديث والاثر:2/339)

10-امام محمد بن مکرم بن علی، ابو الفضل، جمال الدين ابن منظور الانصاری الرويفعی الافريقی (المتوفیٰ: 711ھ)  نے کہا:

قَالَ أَبو مَنْصُورٍ: يَعْنِي الشَّعَرَاتِ الَّتِي تَحْتَ اللَّحْي الأَسفل، والسَّبَلة عِنْدَ الْعَرَبِ مُقَدَّم اللِّحْيَةِ وَمَا أَسْبَلَ مِنْهَا عَلَى الصَّدْرِ؛ يُقَالُ لِلرَّجُلِ إِذا كَانَ كَذَلِكَ: رَجُلٌ أَسْبَلُ ومُسَبَّل إِذا كَانَ طَوِيلَ اللِّحْيَةِ.

ابو منصور نے کہا:”السبلۃ“یعنی وہ بال جو داڑھ کے نچلے حصے پر ہوں،عربوں کے نزدیک داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوںاور جو سینے پرپہنچ رہے ہوں اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں،جب کوئی اس طرح کی داڑھی والا ہو یعنی لمبی داڑھی والاتو اسے ”رجل اسبل“اور”مسبل“کہا جاتا ہے۔( لسان العرب:11/322)

11-امام جمال الدين، محمد طاہر بن علی الصديقی الہندي الفَتَّنِی الکجراتی (المتوفیٰ: 986ھ)نے کہا:

والسبلة عند العرب مقدم اللحية وما أسبل منها على الصدر.

عربوں کے نزدیک داڑھی کے جو بال سامنے سے لٹکے ہوںاور جو سینے پرپہنچ رہے ہوں اسے ”السبلۃ“ کہتے ہیں۔( مجمع بحار الانوار في غرائب التنزيل ولطائف الاخبار:3/28)

فائدہ:

لغت و غریب الحدیث کی بہت سی قدیم کتب میں ایک روایت کی جانب اشارے ملتے ہیں ،جسکے مطابق نبی کریم کی ریش مبارک کا وہ حصہ جسے ”السبلۃ“ ”داڑھی کے سامنے کے بال جو سینے تک دراز ہوں“ کہا جاتا ہے کے بال وافر مقدار میں تھے،اس روایت کو بعض ائمہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی قرار دیا ہے ۔

 اس کا متن اس طرح بیان کیا جاتاہے:

 رَأَيْت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وافر السَّبلة.

میں نے رسول اللہ کو وافر السبلہ دیکھا (یعنی داڑھی کے سامنے کے بال جو سینے تک دراز ہوں )وہ وافر تھے۔

حوالہ جات:

1-امام محمد بن احمد بن الازہری الہروی، ابو منصور (المتوفیٰ:370ھ)کی کتاب تہذيب اللغۃ:12/303

2-امام ابو سليمان حمد بن محمد بن براہيم بن الخطاب البستی المعروف بالخطابی (المتوفیٰ: 388ھ) کی کتاب غریب الحدیث:1/214۔

3-امام ابو عبيد احمد بن محمد الہروي (المتوفیٰ 401 ھ)کی کتاب الغريبين في القرآن والحديث:3/863

4-امام ابو القاسم محمود بن عمرو بن احمد، الزمخشری جار الله (المتوفیٰ: 538ھ)کی کتاب الفائق في غريب الحديث والاثر:3/376

5-امام جمال الدين ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی(المتوفیٰ: 597ھ)کی کتاب  غريب الحديث:1/459

6-امام مجد الدين ابو السعادات المبارک بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الکريم الشيبانی الجزري ابن الاثير (المتوفیٰ: 606ھ)کی کتاب النہايۃ في غريب الحديث والاثر:2/339

7-الحسن بن محمد بن الحسن الصغانی (المتوفیٰ: 650 ھ) کی کتاب التکملۃ والذيل والصلۃ لکتاب تاج اللغۃ وصحاح العربيۃ:(5/387)

8-امام محمد بن مکرم بن علی، ابو الفضل، جمال الدين ابن منظور الانصاری الرويفعی الافريقی (المتوفیٰ: 711ھ) کی کتاب : لسان العرب: 11/322۔

9-امام ابو العباس، شہاب الدين، احمد بن يوسف بن عبد الدائم المعروف بالسمين الحلبی (المتوفیٰ: 756 ھ) کی کتاب عمدۃ الحفاظ في تفسير اشرف الالفاظ:2/171

10-امام شہاب الدين ابو العباس احمد بن حسين بن علی بن رسلان المقدسی الرملی الشافعی (المتوفیٰ: 844 ھ)کی کتاب  شرح سنن ابی داود (16/561)

11-امام جمال الدين، محمد طاہر بن علی الصديقی الہندي الفَتَّنِيی الکجراتی (المتوفیٰ: 986ھ)کی کتاب  مجمع بحار الانوار فی غرائب التنزيل ولطائف الاخبار:3/28

12-امام  محمد بن محمد بن عبد الرزّاق الحسينی، ابو الفيض، الملقّب بمرتضیٰ، الزبيدی (المتوفیٰ: 1205ھ)کی کتاب تاج العروس من جواہر القاموس:29/164

تنبیہ1:

 ہمیں تلاش بسیار کے باوجود اسکی کوئی سند نہیں مل سکی نہ ہی کسی حدیث کی کتاب میں اس کا کوئی سراغ مل سکا، بہرحال مذکور حوالہ جات سے اتنا تو ثابت ہو جاتا ہے کہ مذکورہ ائمہ کے نزدیک رسول اللہ کی ریش مبارک کی ایک صفت یہ تھی کہ وہ ”وافر السبلۃ“تھے ۔واللہ اعلم

تنبیہ2:

یاد رہے ہم نے یہ روایت لغوی شاہد کے بطور پیش کی ہے نہ کہ بطور حجت۔

۔۔۔جاری ہے ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے