سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری           بَاب الْتِمَاسِ الْوَضُوءِ إِذَا حَانَتِ الصَّلَاةُ

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

بَاب الْتِمَاسِ الْوَضُوءِ إِذَا حَانَتِ الصَّلَاةُ وَقَالَتْ عَائِشَةُ حَضَرَتِ الصُّبْحُ فَالْتُمِسَ الْمَاءُ فَلَمْ يُوجَدْ فَنَزَلَ التَّيَمُّمُ

جب نماز کا وقت آجائے تو پانی تلاش کرنا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ سفر میں صبح ہوگئی اور پانی ڈھونڈا گیا، نہ ملا تو تیمم (کا حکم) نازل ہو ا

23169– حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ يَدَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ قَالَ فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ

عبداللہ بن یوسف، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آگیا تھا اور لوگوں نے پانی وضو کے لئے ڈھونڈا، کچھ نہیں پایا، تب رسول اللہ کے پاس ایک برتن (میں وضو کے لئے پانی) لایا گیا، آپ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس سے وضو کریں، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے پانی کو دیکھا آپ کی انگلیوں کے نیچے سے ابل رہا تھا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کرلیا۔

Narrated Anas bin Malik: saw Allah’s Apostle when the ‘Asr prayer was due and the people searched for water to perform ablution but they could not find it. Later on (a pot full of) water for ablution was brought to Allah’s Apostle . He put his hand in that pot and ordered the people to perform ablution from it. I saw the water springing out from underneath his fingers till all of them performed the ablution (it was one of the miracles of the Prophet).

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَامَ مَنْ كَانَ قَرِيبَ الدَّارِ إِلَى أَهْلِهِ وَبَقِيَ قَوْمٌ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِخْضَبٍ مِنْ حِجَارَةٍ فِيهِ مَاءٌ فَصَغُرَ الْمِخْضَبُ أَنْ يَبْسُطَ فِيهِ كَفَّهُ فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ قُلْنَا كَمْ كُنْتُمْ قَالَ ثَمَانِينَ وَزِيَادَةً       ( رقمه :195 )
وروى بسند آخر حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِإِنَاءٍ مِنْ مَاءٍ فَأُتِيَ بِقَدَحٍ رَحْرَاحٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ فِيهِ قَالَ أَنَسٌ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَاءِ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ قَالَ أَنَسٌ فَحَزَرْتُ مَنْ تَوَضَّأَ مَا بَيْنَ السَّبْعِينَ إِلَى الثَّمَانِينَ (رقمه  : 200 )
وروى بسند آخر حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَالْتُمِسَ الْوَضُوءُ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ فَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْهُ فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِهِ فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّى تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ (رقمه:3573)

شرح الکلمات : 

حَانَتْ

(نماز) کا وقت قریب آیا

الْوَضُوءَ

وضوکا پانی

فَلَمْ يَجِدُوهُ

ان کو پانی نہیں ملا

فَالْتَمَسَ

تلاش کیا

فَوَضَعَ

اس میں رکھ دیا

الْإِنَاءِ

برتن

يَنْبُعُ

جوش مارکے(پانی)نکل رہا تھا

تَحْتِ

نیچے

أَصَابِعِهِ

ان کی انگلیاں

تراجم الرواۃ : 

1 عبد اللہ بن یوسف کا ترجمہ حدیث نمبر 15میں ملاحظہ فرمائیں ۔

2نام ونسب : اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ : زید بن سھل الانصاری النجاری المدنی

کنیت : ابو یحییٰ الخزرجی الفقیہ

آپ کے والد عبد اللہ کو رسول اللہ نےگھٹی دی۔

آپ کی والدہ ام سُلیم تھی۔

محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے ہاں آپ ثقہ حجہ جبکہ امام ذہبی کے ہاں حجہ تھا۔

وفات : اسحاق بن عبد اللہ کی وفات 132 ہجری میں ہوئی۔

3نام ونسب : امام مالک بن أنس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن الحارث بن غیمان الاصبحی الحمیری

کنیت : ابو عبد اللہ المدنی الفقیہ المعرف امام دارالہجرۃ

ولادت : امام مالک رحمہ اللہ 93 ہجری کو اس سال پیدا ہوئے ہیں جس سال سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ خادم رسول اللہ کی وفات ہوئی اور امام مالک کی وفات 86 سال کی عمر میں 179 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

محدثین کے ہاں رتبہ : اما م ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک امام دار الہجرۃ اور متقین کے سردار تھے ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک وہ تمام اسناد جو امام مالک عن نافع عن ابن عمر ہیں وہ سب صحیح ہیں۔

4سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ترجمہ حدیث نمبر 2میں ملاحظہ فرمائیں ۔

تشریح :

اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے پانی کی تلاش اس وقت ضرور ہوگی جب نماز کا وقت آجائے کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ ہو تو وضو کرنا چاہیےیعنی طہارت کا یہ فریضہ نماز کا وقت آنے پر عائد ہوتا ہے، اس لیے پانی کی تلاش بھی وقت آنے پر ہی ضروری ہوگی، اس سے پہلے پانی کی تلاش کا مکلف قرارنہیں دیا جاسکتا جس نے وقت آنے پر پانی تلاش کیا اور نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا اسے ملامت نہیں کی جائے گی کہ اس نے قبل از وقت پانی تلاش کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں سیدہعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ایک سفر میں میرا ہار گم ہو جانے کی وجہ سے قافلے کو اس منزل سے پہلے ٹھہرنا پڑا جہاں پانی ملنے کی توقع تھی پانی نہ ملنے کے سبب پریشانی ہوئی تو آیت تیمم نازل ہوئی اس سے ثابت ہوا کہ پانی کی تلاش وقت نماز کے بعد کی گئی ۔ پانی نہ ملنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا کہ تم نے پہلے سے بندوبست کیوں نہ کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے پانی کی تلاش ضروری نہیں۔حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ کے ایک معجزے کا ذکر ہے کہ آپ کی انگشتہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹے جس سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے وضو کیا اس واقعے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اہم مسئلےپر تنبیہ فرمائی ہے کہ بلا شبہ پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہوگی جب نماز کا وقت آجائے گا۔ لیکن تلاش کے بعد پانی نہ ملنے کی صورت کیا ہے؟ وہ اس حدیث سے معلوم ہو رہی ہے کہ پانی نہ ملنے کی معتاد اور غیر معتاد تمام صورتیں ختم ہو جائیں تو تیمم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی غیر معتاد طریقے سے پانی ملنے کا امکان ہوتو تیمم جائز نہ ہو گا ۔ اگر غیر معتاد صورت بھی ختم ہو جائے تو تیمم جائز ہوگا یعنی جب تک تمام ظاہری اور غیر ظاہری اسباب ختم نہ ہو جائیں اور ہر طرف سے مایوسی نہ ہو جائے اس وقت تک تیمم کرنا جائزنہیں۔اس حدیث کا عنوان سے گہرا تعلق ہے لیکن جو لوگ احادیث بخاری کے متعلق شبہات و تشکیک پیدا کرنے کے خوگر ہیں وہ کسی انداز میں اس کا اظہار کر دیتے ہیں چنانچہ صاحب تدبرلکھتے ہیں امام صاحب نے باب میں تعلیق صبح کی نماز کی دی ہے جبکہ روایت نماز عصر سے متعلق ہے اور اس میں تیمم کی نوبت نہیں آئی۔( تدبر حدیث 1/272)

یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم اور سوچ بچار کا محور !اب انھیں کون بتائے کہ تعلیق کا واقعہ اور ہے اور روایت میں اس کے علاوہ دوسرا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

رسول اللہ کے اس معجزے کو سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی ایک راوی بیان کرتے ہیں تمام روایات کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کسی سفر میں رونماز ہوا تھا اور اس میں حاضرین کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ تھی۔( صحیح البخاری المناقب حدیث 3574)

جبکہ سیدنا قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ اس وقت مدینے کی نواحی آبادی زوراء میں تھے اور اس پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔( صحیح البخاری المناقب حدیث 2/357)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تعداد واقعات پر محمول کرنے کے علاوہ جمع و تطبیق کی کوئی اور صورت ممکن نہیں ۔(فتح الباری:6/714)

بخاری کے شارح ابن بطال نے دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے رونما ہوا لیکن سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسے کوئی دوسرا بیان کرنے والا نہیں۔( شرح ابن بطال 1/264)

 قاضی عیاض نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کو عدد کثیر نے جم غفیر سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ عنہ ،اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہےاس کے علاوہ پانی کے زیادہ ہونے کے معجزے کو سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حبان الصدائی رضی اللہ عنہ بھی بیان کرتے ہیں جو مختلف کتب حدیث میں مروی ہے۔( فتح البای:6/715)

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے