\زکوٰۃ کی تعریف

لفظ “زکوۃ” کا لغوی مفہوم پاکیزگی اور اضافہ ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس عبادت سے انسان کا مال حلال اور پاک ہوجاتا ہے ، اور انسان کا نفس بھی تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک اور صاف ہوجاتا ہے۔

شریعت اسلامی میں زکوۃ کا معنی ہے:

خاص اموال میں جب وہ نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں سے مخصوص حصہ نکال کر مخصوص مستحقین تک پہنچانا۔

اس تعریف سے پانچ چیزیں واضح ہوتی ہیں:

1زکوۃ تمام اموال میں سے نہیں نکالی جائیگی ، بلکہ صرف چند خاص اموال ہیں جن پر زکوۃ لاگو ہوتی ہے۔ ان کی تفصیل آئندہ سطور میں آئیگی۔

2ہر کم و زیادہ مال و دولت پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ ایک خاص مقدار پر زکوۃ کا نفاذ ہوگا، یہ مقدار ہر مال کے لحاظ سے مختلف ہے۔

 اس مقدار میں شریعت نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ صاحب مال پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالا جائے اور اتنی مقدار پر زکوۃ فرض کی گئی ہے کہ صاحب مال باآسانی اسے ادا کرسکتا ہے ۔

3یہ بات بھی شریعت کی آسانی اور سماحت کا مظہر ہے کہ مال کے اس خاص مقدار کو پہنچتے ہی زکوۃ فرض نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ کی فرضیت کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار پر ایک سال گزر جائے۔یعنی اگر دوران سال مال کی اس خاص مقدار میں کمی واقع ہوجائے تو زکوۃ کی فرضیت ختم ہوجاتی ہے۔

4صاحب مال پر زکوۃ صرف اتنی فرض کی گئی جو ہر صاحب نصاب بڑی آسانی سے اور راضی خوشی ادا کرسکتا ہے، یعنی پورے مال کا صرف ڈھائی فیصد حصہ بطور زکوۃ کے فرض کیا گیا جو کہ بقیہ ساڑھے ستانوے فیصد مال کے سامنے کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یقینا ً یہ اللہ تعالی کا اس امت پر احسان ہے ، اگر یہی زکوۃ جمیع مال کا پچاس فیصد ہوتی تو یقیناً صاحب مال کے لئے بڑی مشقت اور حرج کا سامان ہوتی، لیکن اللہ رب العزت نے اس امت کے ساتھ خصوصی رحمت کا برتاؤ کرتے ہوئے صرف ڈھائی فیصد تک زکوۃ کو محدود رکھا۔

5زکوۃ کے مصارف خاص ہیں ، اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ ان کا بیان کردیا ہے، یہ آٹھ مصارف ہیں جہاں پر زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے ، اس کے علاوہ کسی اور جگہ زکوۃکا مال دینے سے زکوۃ کی ادائیگی نہ ہوگی۔ ان مصارف کا بیان ان شاء اللہ اگلی سطور میں ہوگا۔

\زکوٰۃ کی فرضیت و اہمیت

نماز کے بعد’’ زکوۃ ‘‘دین اسلام کا انتہائی اہم رکن ہے ۔ قرآن مجید میں بیاسی مرتبہ اس کا تاکیدی حکم آیا ہے۔ زکوۃ نہ صرف امت محمدیہ ﷺ پر فرض ہے بلکہ اس سے پہلے بھی تمام امتوں پر فرض کی گئی تھی۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [البقرة: 43]

’’ اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالی نے زکوۃ ادا کرنے والوں کو سچا مومن قرار دیا ہے:

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ o أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (الأنفال: 3، 4)

’’جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے سیدنا معاذ t کو یمن روانہ کرتے وقت فرمایا تھا: ’’انہیں اس بات کا بھی علم دینا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی‘‘۔(بخاری :۱۳۳۱۔ مسلم :۱۹)

\فرضیت زکوٰۃ کی حکمتیں اور فوائد

زکوۃ کی صحیح طور پر ادائیگی کے معاشرہ پر ، زکوۃ ادا کرنے والے کے نفس اور مال پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں:

mزکوۃ ، مال میں اضافہ کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ  (الروم: 39)

’’ اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں۔

mانسان کے نفس اور مال کی پاکیزگی کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ (التوبة: 103)

’’ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے‘‘۔

mغریبوں کے دل سے امراء کے خلاف حقد وحسد کے جذبات ختم کرنے کا سبب ہے۔

mمعاشرہ میں تعاون اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھانے میں معاون ہے۔

\زکوۃ ادا نہ کرنے پر وعید

اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ زکوۃ کے وجوب کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے ، البتہ وہ شخص جو زکوۃ کے وجوب کا اقرار تو کرتا ہو لیکن زکوۃ ادا نہ کرے وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، اللہ تعالی نے ایسے افراد کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی ہےکہ:

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ o يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ o(التوبة: 34، 35)

’’ اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو‘‘۔

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:’’ کسی شخص کو اللہ تعالی نے مال سے نوازا پھر اس نے اس مال کی زکوۃ ادا نہیں کی تو اس کے مال کو قیامت کے دن سانپ کی شکل کا بنایا جائے گا جس کی آنکھوں کے اوپر نکتے ہوں گے، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بن جائے گااور اس کے جبڑوں کو دبوچ کر کہے گا ’’میں ہوں تیرا مال ، میں ہوں تیرا خزانہ‘‘۔(صحیح بخاری 1338)

\زکوۃ کس پر واجب ہے؟

زکوۃ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں درج ذیل شروط پائی جائیں:

vاسلام:  لہٰذا کافر پر زکوۃ واجب نہیں، اور نہ ہی کافر کے مال کی زکوۃ قبول کی جائیگی۔

vآزادی: یعنی وہ شخص آزاد ہو ، غلام پر زکوۃ واجب نہیں۔

vملکیت: وہ اس مال کا مالک ہو، لہذا ایسا مال جس کا وہ شخص مالک نہ ہو اس کی زکوۃ ادا نہیں کرےگا، جیسے امانت یا رہن کے طور پر رکھوائے گئے مال پر وہ زکاۃ ادا نہیں کرے گا۔

vنصاب : یعنی اس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچ جائے، اور نصاب سے مراد وہ کم از کم حد ہے جس کے بعد مال پر زکوۃ نہیں ہوتی۔

vاس مال پر ایک سال گزر جائے۔ البتہ زرعی پیداوار میں یہ شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل ہوگی اس میں سے زکوۃ ادا کرنا واجب ہے ، چاہے سال میں دو فصلیں ہوں یا اس سے زیادہ یا کم۔

vاس کا مال پاکیزہ ہو ، حرام مال کی زکوۃ نہیں ہے۔

\جن چیزوں پر زکوۃ واجب ہے

vسونا چاندی اور جو اس کے متبادل ہو، یعنی کرنسی۔

سونے کا نصاب:

سیدنا علی t سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سونے پر اس وقت تک زکوۃ نہیں جب تک تمہارے پاس بیس (۲۰) دینار نہ ہوں، جب تمہارے پاس بیس دینار ہوں تو اس میں سے آدھا دینار زکوۃ ادا کرو‘‘۔(سنن ابو داود (۱۵۷۲) اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے، لیکن یہ حدیث علی t سے موقوفاً صحیح ثابت ہے ، اور چونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں لہذا یہ مرفوع کے حکم میں آتی ہے۔)

بیس دینار کا وزن پچاسی (۸۵) گرام ہے، جو کہ تقریباًساڑھے سات تولہ بنتے ہیں۔

چاندی کا نصاب:

سیدنا ابو سعید خدری t فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم (چاندی )  پر زکوۃ نہیں‘‘۔ (سنن نسائی ۲۴۴۵)

ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے ، تو پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہیںاور دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (۵۹۵) گرام ہے جو کہ تقریبا پچاس تولہ بنتے ہیں۔

زیورات کی زکوۃ:

زیورات کی زکوۃ کے حوالہ سے علماء میں اختلاف ہے ، موجودہ دور کے اکثر علماء کرام کا یہی قول ہے کہ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ زیورات کی زکوۃ ادا کی جائے جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا پچاس تولہ چاندی ہو اور ان پر سال گزر جائے۔ اگر زیورات کی زکوۃ قیمت کے حساب سے دی جائے گی تو اس میں زیورات کی حالیہ قیمت کا اعتبار ہوگا اس کی اصل قیمت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

کرنسی کا نصاب:

کرنسی سونا اور چاندی کا متبادل ہے ، کیونکہ گزشتہ ادوار میں سونا اور چاندی بطور قیمت کے استعمال ہوتے تھے ، موجودہ دور میں کرنسی بطور قیمت کے استعمال ہوتی ہے۔

کرنسی کے نصاب کا اندازہ سونا اور چاندی میں سے سستی جنس کے نصاب سے لگایا جائے گا ، اور موجودہ دور میں چونکہ چاندی سونے کی نسبت سستی ہے لہذا کرنسی کا نصاب چاندی کے نصاب کی قیمت کے بقدر ہوگا، یعنی پچاس تولہ چاندی کی جو موجودہ قیمت ہے وہ کرنسی کا نصاب ہے۔

وضاحت:

 زیورات کی قیمت کو کرنسی کے ساتھ نہیں ملا یا جائے گا ، بلکہ زیورات کا نصاب وزن ہے اور کرنسی کا نصاب قیمت ہے ، یعنی اگر کسی شخص کے پاس چار تولہ سونے کے زیورات ہوں او ر ان کی قیمت دولاکھ روپے ہو تو وہ اس پر زکوۃ ادا نہیں کرے گا کیونکہ نصاب مکمل نہیں ہے، سونے کے زیورات ساڑھے سات تولہ ہوں تو زکوۃ واجب ہوگی۔

شئیرز :

ایسی کمپنی جس کا کاروبار حلال ہو اس کے حصص کی خریدو فروخت جائز ہے جب اس خریدو فروخت اور تبادلہ میں جوا شامل نہ ہو۔

شئیرز پر بھی زکاۃ واجب ہے ، اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ شئیرز کی حالیہ قیمت اور وہ منافع جو سارا سال اس سے حاصل ہوا ہے کو جمع کیا جائے اور پھر اخراجات نکال کر باقی رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے۔

بانڈز:

بانڈز ایسے قرضہ جات کی رسید کو کہتے ہیں جو ایک انویسٹر کسی کمپنی کو ادا کرتا ہے اور کمپنی یہ قرضہ اس شخص کو ایک خاص مدت میں مخصوص منافع کے ساتھ ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ بانڈز کا کاروبار حرام ہے ، کیونکہ اس میں قرضہ پر ایک مخصوص منافع لیا جاتا ہے جو کہ سود ہے، لیکن علماء کے نزدیک سود کو نکال کر بانڈز کی اصل رقم پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائے ، کیونکہ ایسا قرضہ جس کا حصول متوقع ہو اس کو زکوۃ کے نصاب میں شمار کیا جائےگا۔

زرعی پیداوار

اس سے مراد وہ اجناس ہیں جنہیں کھایا جاتا ہو اور ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ لہذا ایسی اجناس جو کھائی نہ جاتی ہوں جیسے کپاس اور وہ اجناس جنہیں ذخیرہ نہ کیا جاسکتا ہو ، جیسے سبزیاں وغیرہ ، ان پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح پھلوں پر بھی زکوۃ نہیں ہے، البتہ جب ان پھلوں کو یا سبزیوں وغیرہ کو بیچا جائے اور اس سے حاصل کردہ رقم نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔

زرعی پیداوار کا نصاب نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ :’’ پانچ وسق سے کم پر زکوۃ نہیں‘‘۔

وسق ایک پیمانہ ہے جس کا وزن تقریبا 56.130کلو ہے اور پانچ وسق 652 کلو بنتے ہیں۔

جن اجناس پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائیں اور  ان کی سیرابی میں اگر کسان کا خرچہ نہیں آتا یعنی وہ بارش یا نہروں کے ذریعہ سیراب ہوتی ہوں تو ان پر عشر یعنی دس (۱۰) فیصد زکوۃ ہے ، اور جن کی سیرابی میں کسان کا خرچہ ہو جیسے ٹیوب ویل وغیرہ تو اس پر نصف العشر یعنی پانچ (۵) فیصد زکوۃ ہے۔

مویشی:

 یعنی اونٹ ، گائے ، اور بکریاں۔ ان کے علاوہ باقی جانوروں پر زکوۃ نہیں ، البتہ جب ان کی تجارت کی جائے تو ان پر بھی زکوۃ ہے۔

مویشیوں پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ خود چرتے ہوں یا ان کے چارے پر مالک کا خرچہ نہ ہو۔مویشیوں میں سے ہر جنس کی زکوۃ الگ الگ ہے جس کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔

وہ مویشی جنہیں اس غرض سے رکھا جائے کہ ان کا دودھ نکال کر بیچا جائے تو ان جانوروں کے عین پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی دودھ کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب کو پہنچ جائے۔اسی طرح وہ جانور جنہیں بیچنے کی غرض سے پالا جائے تو ان کے عین پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے۔

سامان تجارت:

اس سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کی تجارت کی جاتی ہو، چاہے ان کے عین پر زکوۃ ہو یا نہ ہو۔

چاہے وہ اشیاء خرید کر آگے بیچی جائیں چاہے خود تیار کر کے۔

تجارت اور سامان تجارت سے زکوۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دن خاص کر لیا جائے جس میں پورے سال کا آڈٹ(Audit) ہو اور اس میں سال میں حاصل کردہ منا فع اور موجودہ سامان تجارت کی حالیہ قیمت، اور ایسے قرضے جن کا حصول متوقع ہوکو جمع کیا جائے اور اس میں سے اخراجات ، اور وہ قرضے جو واجب الادا ہیں کو نکال کر باقی رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے ۔

وضاحت:

مکان تجارت یعنی وہ جگہ جہاں سے تجارت کی جاتی ہو جیسے دکان ، فیکٹری وغیرہ ان کی قیمت پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح جن مشینوں کو سامان کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہو ان پر بھی زکوۃ نہیں۔

کرایہ پر دی گئی اشیاء:

کرایہ پر دی گئی اشیاء کی قیمت پر زکوۃ نہیں بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ہے۔ جیسے مکان ، فلیٹ، فیکٹری ، مشینری ، گاڑی وغیرہ کو کرایہ پر دیا جائے تو ان کی قیمت پر زکوۃ نہیں بلکہ ان سے حاصل کردہ کرایہ پر زکوۃ ہے۔

وضاحت:

زمین و مکان یا جائیداد وغیرہ اگر ایک شخص اپنے استعمال کی نیت سے خریدے تو ان پر زکوۃ نہیں ، البتہ اگر اسے بیچنے اور تجارت کی غرض سے خریدے تو اس کی ہر سال کی حالیہ قیمت پر زکوۃ ہوگی ، اور اسی طرح اگر اسے کرایہ پر دیدے تو اس کی قیمت پر زکوۃ نہیں ہوگی بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ہوگی۔

\زکوۃ کے مصارف

شریعت اسلامی میں جب بھی مال کی تقسیم کا معاملہ آیا ہے خاص طور پر وہ مال جس میں مشترکہ حقوق ہوں ، تو اس تقسیم کو اللہ تعالی نے بندوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ خود قرآن مجید میں اس کی تقسیم بیان فرمادی ، جیسا کہ وراثت کا مال ، مال غنیمت اور مال فئی کی تقسیم اللہ تعالی نے مکمل وضاحت کے ساتھ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے، بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے زکوۃ کی تقسیم بھی کردی اور وہ افراد اور جہات متعین کردی ہیں جن کے علاوہ کسی اور کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی، نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور زکوۃ کے مال میں کچھ حصہ مانگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالی نے اس معاملہ میں کسی کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا چاہے وہ نبی ہو یا کوئی اور ہو، بلکہ خود اس کی تقسیم فرمائی ہے ، اگر اس تقسیم کے مطابق تمہارا اس میں حصہ بنتا ہے تو بتا دو میں تمہیں دے دوںگا‘‘۔(سنن ابو داود (۱۶۳۰))

امام شافعی a فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے صدقات کی تقسیم اپنی کتاب میں بیان فرمادی ہے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: { فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ} [التوبة: 60] کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ ہے، لہٰذا کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اسے اللہ تعالی کی بیان کردہ تقسیم کے علاوہ کسی اور جگہ تقسیم کرے‘‘۔(احکام القرآن بیھقی (۱/ ۱۶۰))

سورۃ توبہ آیت (۶۰) میں اللہ تعالی نے زکوۃ کے آٹھ مصرف بیان کئے ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ  (التوبة: 60)

’’ صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔

ان آٹھ مصارف کی تفصیل درج ذیل ہے:

zفقیر: اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اپنی حاجات پورا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو۔

zمسکین:اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال یا ذرائع ہوں لیکن وہ اس کی حاجات کے لئے کافی نہ ہوں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ} [الكهف: 79]’’ کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے‘‘۔

تو معلوم ہوا کہ ان مساکین کے پاس کشتی تھی اور وہ کام بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسکین تھے۔

zعامل زکوۃ: یعنی وہ شخص جو زکوۃ جمع کرتا ہے، وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں لے سکتا بلکہ امیر یا حاکم اسے اس زکوۃ میں سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

zتالیف قلبی: یہ وہ واحد مصرف ہے جس میں کسی کافر کو بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ اس مصرف میں تین قسم کے افراد شامل ہیں:

bجس کے مسلمان ہونے کی امید ہو۔

bججس کے فتنہ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا ہو۔ چاہے وہ شخص مسلمان ہو یا کافر۔

bججو علاقہ کا بڑا ، قبیلہ کا سردار یا کوئی حیثیت رکھنے والا شخص ہو اور دعوت دین میں معاون ہوسکے ، اسے بھی تالیف قلبی کی خاطر زکوۃ میں سے دیا جاسکتا ہے۔

zگردن آزاد کرانا:  اور موجودہ دور میں کسی بے گناہ مسلمان قیدی کی ضمانت کرانا۔

zقرضدار: اس سے مراد ایسا قرضدار ہے جس نے کسی اسراف ، فضول خرچی یا کسی گناہ کے کام کے لئے قرض نہ لیا ہو، بلکہ ضرورت کے تحت لیا ہو اور پھر اسے چکا نہ سکے۔

zفی سبیل اللہ:  آیتِ زکوۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مرادعموم نہیں بلکہ خاص معنی ہے اور وہ ہے مجاہدین ۔

نصوص شرعیہ کی رو سے جہاد کی تین قسمیں ہیں :

bجہاد بالقلم(قلم و تحریر کے ذریعہ جہاد)

bجہاد باللسان (زبان و کلام کے ذریعہ جہاد)

bجہاد بالسیف(تلوار و اسلحہ کے ذریعہ جہاد)۔

 نصوص شرعیہ کی رو سے تینوں میں سے کسی بھی قسم کے ذریعہ دینِ اسلام، شعائرِ اسلام کا تحفظ و دفاع کرنے والے اس مصرف میں داخل ہیں۔

اللہ تعالی نے آیت کی ابتدا میں لفظ ’’إنما‘‘ یعنی ’’فقط‘‘ کہہ کر یہ بتا یا کہ یہ زکوۃ انہی آٹھ مصارف میں محدود رہے گی، اگر یہاں ’’فی سبیل اللہ ‘‘سے مراد ہر قسم کی نیکی اور فلاح کاکام مراد لیا جائے تو اس قید کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔لہٰذامساجد کی تعمیر ، ہسپتال اور مریضوں کے علاج و معالجہ ، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں میں جن کا ذکر زکوۃ کے مصارف میں نہیں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں۔ واللہ اعلم

مفتی دیارِ سعودیہ سماحۃ الشیخ ابن باز a فرماتے ہیں:

 مساجد کی تعمیر اور اسی طرح سڑکوں ، پلوں وغیرہ کی تعمیر میں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ زکوۃ کے آٹھ مصارف میں شامل نہیں۔ (فتاوی نور علی الدرب)

نوٹ: البتہ ایسے مریض جو فقراء یا مساکین یا دیگر مذکورہ مصارف میں سےہوں تو انہیں مذکورہ مصارف میں سے ہونے کی وجہ سے زکٰوۃ ادا کی جاسکتی ہے ،نا کہ مریض ہونے کی وجہ سے۔

zمسافر: یہ زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف ہے ۔اس سے مراد وہ شخص ہے جو حالتِ سفر میں ہو ، چاہے وہ اپنے علاقہ میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو حالتِ سفر میں آفت آجانے کی وجہ سے اس کے لئے زکوۃ لینا جائز ہے۔والله أعلم

وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم

۔۔،

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے