عنقریب رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہے ، چاروں طرف مسلمانوں میں خوشی ہی خوشی ہے اللہ کے نیک بندوں کو اس مہینے کا شدت سے انتظار ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ نیکی،برکت، بخشش، عنایت، توفیق،عبادت، زہد،تقوی، مروت، مساوات، صدقہ وخیرات،رضائے الہی، جنت کی بشارت،جہنم سے خلاصی کا مہینہ ہے رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اس ماہ مبارک میں ان ساری نعمتوں سے مالامال کردے ، آمین !

رمضان المبارک کا روزہ ، تراویح ، صدقہ ، دعا، ذکر ، تلاوت ، مناجات ، عمرہ اور دیگر اعمال صالحہ جہاں مردوں کےلئے ہیں وہیں عورتوں کے لئے بھی ہیں ان اعمال کا اجر وثواب جس طرح مردوں کو نصیب کرتا ہے ویسے ہی اللہ تعالی عورتوں کو بھی عطاکرتا ہے ۔ خواتین میں عام تصور یہ ہوتا ہے کہ رمضان تو صرف مردوں کا ہے ، ہمارا کام صرف سحری پکانا اور افطار تیار کرنا ہے عورتیں روزہ رکھتی ہیں مگر دیگر اعمال خیر میں پیچھے رہتی ہیں ، اس کی بنیادی وجہ رمضان المبارک کے احکام ومسائل سے عدم واقفیت ہے جس طرح مردوں پر روزہ رکھنا فرض ہے ویسے عورتوں پر بھی فرض ہے اور جس طرح مردوں کو رمضان المبارک میں کثرت سے اعمال خیر انجام دینا چاہیے ویسے ہی عورتوں کو بھی انجام دینا چاہیے یعنی عموما تو انہیں تمام قسم کی طاعت وبھلائی پر محنت کرنا مثلا تلاوت قرآن کریم ، اور اس میں تدبروتفکر، بکثرت صدقہ وخیرات،ذکرالہی اور فرائض وواجبات کے علاوہ نفلی عبادات پر محنت کرنا چاہیے لیکن یہاں رمضان سے متعلق ان امور کا ذکر کیا جاتاہے جو مسلمان خواتین کےلئے انجام دینا مستحب وپسندیدہ ہیں ۔

m روزہ رکھنا:

جیسے ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ روزہ جیسے مردوں پر فرض ہے ایسے ہی عورتوں پر بھی فرض ہے کیونکہ روزے کے متعلق اللہ تعالی کا عمومی حکم وارد ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

اے ایمان والو ! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔ ( البقرہ : 183 )

m افطار میں جلدی کرنا:

نبی ﷺ کا فرمان ہے :

لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ(صحیح البخاری1957)

اس وقت تک لوگ بھلائی کی راہ پر گامزن رہیں گے جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ۔

 اور اس سے یہودونصاری کی مخالفت مقصود ہے ۔

لِأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ(سنن ابی داود:2353 )

کیونکہ یہود و نصاری افطاری میں تاخیر کرتے ہیں ۔

mتازہ کھجور سے افطار کرنا:

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ .

رسول اللہ ﷺ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ،اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کرلیا کرتے تھے ، اگر خشک کھجوریں میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹوں پر ہی روزہ

افطار کرلیا کرتے تھے ۔ ( سنن ترمذی : 696 ، مسند احمد : 12676 )

mافطار کے وقت دعا کرنا :

ویسے دعا ہروقت مشروع ہے اور دعا عبادت ہے مگر بعض اوقات دعا کے لئے بہت اہم ہیں ، ان میں ایک افطار کا وقت بھی شمار کیاجاتاہے ، اس کی متعدد دلیلیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے ۔

ثلاثٌ لا تُرَدُّ دعوتُهُم ، الإمامُ العادلُ ، والصَّائمُ حينَ يُفطرُ ، ودعوةُ المظلومِ

تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ۔ ایک منصف امام کی ،دوسرے روزہ دار کی جب وہ افطار کرے، تیسرے مظلوم کی ۔(صحيح الترمذي:2526)

mسحری کرنا :

بغیر سحری کے بھی روزہ درست ہے مگر نبی کریم ﷺ نے خود بھی سحری کھائی ہے اور دوسروں کو بھی سحری کی ترغیب دی ہے اور فرمایاہے کہ

 تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً 

سحری کھاؤ کیونکہ اس میں برکت ہے ۔( صحیح بخاری : 1923)

اور فرمایا کہ

فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ(صحيح مسلم:1096)

ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کا فرق ہے ۔

mسحری میں تاخیر کرنا :

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے كہ :

بَكِّرُوا الإِفْطَارَ وَأَخِّرُوا السُّحُورَ(الصحیحۃ للالبانی:1773)

افطار میں جلدی كرو اور سحری میں تاخیر كرو ۔

mروزے کی حالت میں گندے اعمال اور بری باتوں سے بچنا:

روزے کے ساتھ تمام تر برے کاموں سے گریز کرنا چاہیے حتی کہ اگر کوئی گالی دے تو کہہ دیں میں روزے سے ہوں آپ ﷺ نے فرمایا :

إذا أصبَحَ أحدُكُم يومًا صائمًا فلا يرفُثْ ولا يجهَلْ فإنِ امرؤٌ شاتمَهُ أو قاتلَهُ فليقُلْ: إنِّي صائمٌ إنِّي صائمٌ

جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو گندی باتوں اور نادانیوں سے پرہیز کرے ، اگر کوئی تمہارے ساتھ گالی گلوچ اور قتال کرے تو کہہ دو میں روزے سے ہوں ، میں روزے سے ہوں۔ (صحيح مسلم:1151)

اور ایک روایت میں فرمایا کہ

من لمْ يَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ بِهِ ، فليسَ للهِ حاجَةٌ في أنِ يَدَعَ طعَامَهُ وشرَابَهُ

اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔( صحيح بخاري: 1903 )

عورتوں میں گالی گلوچ اور لعن طعن بہت زیادہ ہے ، روزے کی حالت میں اس کا خاص خیال رکھنا ہے کہ زبان سے کہیں گندی باتیں نہ نکلیں روزہ صرف بھوک وپیاس برداشت کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزے کے آداب یہ ہیں کہ ہم ہاتھ ، پیر ، دل ، دماغ اور زبان تمام اعضائے بدن کو منکرات سے دور رکھیں ۔

mلوگوں کو افطار کرانا:

نبی پاک ﷺ نے فرمایا:

مَن فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ ، غيرَ أنَّهُ لا ينقُصُ من أجرِ الصَّائمِ شيئًا .

جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطار کروایا تواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کےلئے ہوگا،اور روزہ دارکے اپنے ثواب میں‌سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔(صحيح الترمذي:807)

 عورت چاہے تو اپنے ذاتی پیسے سے دیگر خواتین کو افطار کراسکتی ہیں ،شوہر کی طرف سے افطار کی دعوت پر بیوی کو بھی اجر ملے گا اگر اس کے کاموں میں مدد کرتی ہے ۔

mعمرہ اداکرنا :

رمضان میں مرد کی طرح عورت بھی عمرہ کرسکتی ہے ،اس ماہ مبارک میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے ، ایک دوسری روایت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر کہا گیا ہے ۔

 نبی معظم ﷺ نے ایک انصاریہ عورت سے فرمایا تھا:

فإذا جاء رمضانُ فاعتمِري فإنَّ عُمرةً فيه تعدِلُ حجَّةً

جب رمضان آئے تو تم عمرہ کرلینا کیونکہ اس (رمضان ) میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے ۔(صحيح مسلم:1256)

یہاں ایک بات یہ واضح رہے کہ عورت کے لئے عمرہ کے سفر میں محرم کا ہونا ضروری ہے ، بغیر محرم سفر کرنے اور عمرہ کرنے سے گنہگار ہوگی ۔

mمسواک کرنا:

آپ ﷺ کا دستور تھا کہ وہ ہمیشہ مسواک کیا کرتے تھے اور رمضان شریف میں بکثرت اس کا اہتمام کیا کرتے تھے سيدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ مَا لَا أُحْصِي أَوْ أَعُدُّ (رواه البخاري معلقا)

میں نے نبی کریم ﷺ کو روزے کی حالت میں شمار کرنےسے زیادہ مسواک کرتے دیکھا۔

m بچوں سے تربیت کے طور پر روزہ رکھوانا:

اگربچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتاہوتو اسے عادتا روزہ رکھوانا چاہیے جیسا کہ سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :

فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ .

ہم اپنے بچوں سے روزہ رکھواتے تھے اور ان کےلئے کھلونے رکھتے ، جب بچے کھانے کےلئے روتے تو ہم انہیں وہ کھلونے پیش کردیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔ ( صحیح بخاری : 1960 )

مذکورہ حدیث میں ایک عورت کا بہترین کردار بیان کیا گیاہے کہ اسے اپنے بچوں سے بھی روزہ رکھوانا چاہیے ۔

mاعتکاف میں بیٹھنا :

جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کےلئے بھی اعتکاف مشروع ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے جیساکہ قرآن کی آیت سے واضح ہے اور نبی معظمﷺ نے اس پہ عمل کرکے دکھایا ہے اگر عورت اعتکاف کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا ۔

 اعتکاف رمضان میں کئے جانے والے ان اعمال میں سے ہے جس کی تاکید آئی ہے اور یہ ان سنتوں میں سے سنت مؤکدہ ہے جس پہ نبی كريمﷺ نے ہمیشگی برتی ہے اور آخری عشرے میں اس کی تاکید کی ہے ۔ اس کی دلیل سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ  اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا

نبی ﷺ ہرسال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے ، انتقال کے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔(صحیح بخاری : 2044 )

خود نبی علیہ الصلاة والسلام کے زمانہ میں بلکہ ازواج مطھرات بھی اعتکاف میں بیٹھا کرتیں تھیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی روایت میں ہے کہ :

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ، فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَيُصَلِّي الصُّبْحَ ، ثُمَّ يَدْخُلُهُ ، فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ ، عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ خِبَاءً ، فَأَذِنَتْ لَهَا ، فَضَرَبَتْ خِبَاءً ، فَلَمَّا رَأَتْهُ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الْأَخْبِيَةَ فَقَالَ: مَا هَذَا ؟ فَأُخْبِرَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آلْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ ، ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ  .

نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ میں آپ ﷺ کے لیے ( مسجد میں ) ایک خیمہ لگا دیتی۔ اور آپ ﷺ صبح کی نماز پڑھ کے اس میں چلے جاتے تھے۔ پھر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ کھڑا کرنے کی ( اپنے اعتکاف کے لیے ) اجازت چاہی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی اور انہوں نے ایک خیمہ کھڑا کر لیا جب سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی ( اپنے لیے ) ایک خیمہ کھڑا کر لیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے کئی خیمے دیکھے تو فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ کو ان کی حقیقت کی خبر دی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں۔ پس آپ ﷺ نے اس مہینہ ( رمضان ) کا اعتکاف چھوڑ دیا اور شوال کے عشرہ کا اعتکاف کیا۔( صحیح بخاری : 2033 )

mنماز تراویح کا اہتمام کرنا:

سعودی عرب میں تو عورتیں مسجد میں آکر جماعت سے تراویح کی نماز ادا کرتی ہیں ، تراویح جسے قیام اللیل اور تہجد بھی کہتے ہیں رمضان المبارک میں اس کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے نبی آخر الزماں ﷺ کا فرمان ہے :

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کےسابقہ تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔(صحيح مسلم:759)

لہذا عورتوں کو بھی تراویح کی نماز کا اہتمام کرنا چاہیے ، اگر مسجد میں عورتوں کےلئے علیحدہ انتظام نہ ہو تو گھر پر ہی جماعت سے یا اکیلے تراویح کی آٹھ رکعات نماز پڑھے پھر تین رکعات وتر پڑھے ۔

mشب قدر کی رات کا قیام:

لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت پہ ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے جس سے اس کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے اس رات قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحيح البخاري:1901)

جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔

جہاں تک اس رات کی تعیین کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ملتے ہیں مگر راجح قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21،23،25،27،29) میں سے کوئی ایک ہے اس کی دلیل نبی کریمﷺ کا فرمان ہے ـ:

تَحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي الوِتْرِ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ

لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔(صحيح البخاري:2017)

 لہذا عورتوں کو بھی طاق راتوں میں شب بیداری اور خوب طاعت وبھلائی کا کام کرنا چاہیے فقط جاگنا ہی مقصود نہیں بلکہ جاگ کر بھلائی کا کام کرنا مقصود ہے ۔

bرمضان المبارک سے متعلق عورتوں کے مزید چند مسائل

m بیمار عورت کا حکم:

بیمارعورت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بیمار عورت جو روزہ کی وجہ سے مشقت یا جسمانی ضرر محسوس کرے یا شدید بیماری کی وجہ سے دن میں دوا کھانے پہ مجبور ہو تو اپنا روزہ چھوڑ سکتی ہے ضرر و نقصان کی وجہ سے جتنا روزہ چھوڑے گی اتنے کا بعد میں قضا کرے گی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ

اورجوکوئی مریض یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔(البقرۃ:184)

دوسرى وہ بیمار جن کی شفایابی کی امید نہ ہو اور ایسے ہی بوڑھے مرد و عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں ان دونوں کےلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے اور ہر روزے کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو) گیہوں، چاول یا کھائی جانے والی دوسری اشیاء دیدے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ

اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں ۔(البقرة:184)

یہاں یہ دھیان رہے کہ معمولی پریشانی مثلا زکام ، سردرد وغیرہ کی وجہ سے روزہ توڑنا جائز نہیں ہے ۔

mمسافر عورت کا حکم:

رمضان میں مسافر کےلیے روزہ چھوڑنا جائز ہے جیساکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ :

فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ

اورجوکوئی مریض یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔(البقرۃ:184 )

 اگر سفر میں روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہو تو مسافر حالت سفر میں بھی روزہ رکھ سکتی ہے اس کے بہت سارے دلائل ہیں جیسا کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بابت پوچھتا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

إِنْ شِئْتَ صُمْتَ، وَإِنْ شِئْتَ أَفْطَرْتَ

اگر تم چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو چھوڑ دو ۔( صحيح النسائي:2293) مسافرہ چھوڑے ہوئے روزے کی قضا بعد میں ادا کرے گى۔

mحیض ونفاس کا حکم :

حیض والی اور بچہ جنم دینے والی عورت کےلیے خون آنے تک روزہ چھوڑنے کا حکم ہے اور جیسے ہی خون بند ہوجائے روزہ رکھنا شروع کردے کبھی کبھی نفساء چالیس دن سے پہلے ہی پاک ہوجاتی ہیں تو پاک ہونے پر روزہ ہے عورت کےلئے مانع خون دوا استعمال کرنے سے بہتر ہے طبعی حالت پہ رہے حیض اور نفاس کے علاوہ خون آئے تو اس سے روزہ نہیں توڑنا ہے بلکہ روزہ جاری رکھناہے ۔

mمرضعہ وحاملہ کا حکم :

رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ لِلْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ

اللہ تعالی نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف فرما دی اور مسافر اور حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف فرما دیئے۔( صحيح النسائي:2314)

دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ عورت کو جب اپنے لئے یا بچے کےلئے روزہ کے سبب خطرہ لاحق ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے بلاضرر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہےجب عذر کی وجہ سے عورت روزہ چھوڑدے تو بعد میں اس کی قضا ادا کرے حاملہ اور مرضعہ کے تعلق سے فدیہ کا ذکر ملتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے ۔ واللہ اعلم

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے