بقیۃ السلف شیخ الحدیث العلامہ استاذ الاساتذہ فضیلۃ الشیخ الحافظ مسعود عالم حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ متعنا اللہ بطول حیاتہ گزشتہ ماہ مختلف دروس کے سلسلہ میں کراچی تشریف لائے ہوئے تھے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں بھی درس دیا اس سے پہلے بیت السلام اسکول کے سالانہ تقسیم اسناد کے پروگرام میں درس ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ۔(ادارہ)

حمد وثناء ، صلاۃ وسلام کے بعد !

دینی مجالس میں شریک ہو کرقلبی راحت اور دلی مسر ت حاصل ہوتی ہےآنکھیں روشن اور ٹھنڈی ہو جاتی ہےیہ دیکھ کر اور جان کرکہ الحمدللہ جہاں فتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ،رسول اکرم اور دین سے دور کرنے کے لئے کوششیں کررہے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر سے دین نکل جائے ان کا اللہ کے ساتھ تعلق کمزور ہو جائے،رسول اکرمﷺ کے ساتھ تعلق میں خلل آجائےاس کے لئے محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے کوششیں ہو رہی ہیں اللہ تعالٰی ہمیں اور ہماری نسلوں کو ان فتنوں سے محفوظ رکھے ! یہاں الحمدللہ اس طرح کے ادارے موجود ہیں جوکوشش کررہے ہیں کہ ہماری نسلوں کی حفاظت کی جائے انہیں دین سے آشنا کیا جائے اللہ رب العزت کے ساتھ ان کی بندگی کا تعلق استوار کیا جائے اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت ، اتباع ، عقیدت اور نبی اکرم کی اقتداء کا ایسا رشتہ قائم کیا جائے اور اپنی زندگی کے اندر رسول اکرم کی سیرت طیبہ اور آپ کے اسوئہ حسنہ کو اپنے لئے قدوۃ بنا کر اپنا رہبر و رہنما بنا کر اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں اور الحمدللہ اس میں کامیاب بھی ہیں بلا تفریقِ مسلک ومذہب اور بغیر کسی اس طرح کی تمییز وتفریق کے کہ صرف اونچی کلاس کے لوگ آئیں گے یا مڈل کلاس کے لوگ آئیں گےیا ادنیٰ کلاس کے لوگ آئیں گے جو بھی آنا چاہے وہ آسکتا ہے معاشرے کے کسی طبقہ سے بھی تعلق رکھتا ہو لیکن اس کے دل میں یہ تڑپ اورامنگ ہو کہ میں اپنی اولاد کی ایسی تربیت کروں کہ وہ دنیا کے اندر بھی اچھی زندگی بسر کرے اور اصل چیز یہ ہے کہ اس دنیا کی عارضی زندگی کے ساتھ ان کی آخرت کی ابدی اور دائمی زندگی بھی اچھی ہوجائے اور وہ میرے لئے اس طرح کا سرمایہ ثابت ہوکہ میں دنیا میں بھی اس کو دیکھ کراپنے دل کو ٹھنڈا کروں ،اپنی آنکھوں کو روشن کروں اور میرےدنیاسے جانےکے بعد بھی ان کی دعائیں اور ان کی نیکیاں بھی مجھے ملتی رہیں ۔الحمدللہ یہ ان کی قابل قدر اور قابل تحسین کوششوں کا ثمرہ ہمارے سامنے ہے یہ خوبصورت چہرے اور یہ نورانی شکلیں جن کو دیکھ کر انسان کا دل باغ باغ ہو جائے اور اس کی آنکھوں کو روشنی اور ٹھنڈک میسر ہو ،اللہ تعالی اس چمن کو اسی طرح پُر بہار رکھے اور اللہ رب العزت اس کی حفاظت فرمائے یہ اصل تجارت ہے جس کے ساتھ ہم کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں کہ ہم نے تیرے بندوں کی خدمت کی ہے ،ان کی اصلاح اور ہدایت کے لئے کام کیا ہے او رانہیں تیرے سامنے جھکانے کے لئے کوشش کی ہے او رتیرے پیارے نبی ﷺکے مبارک راستے پر لگانے کے لئے ہم نے جدو جہد کی ہے یہ وہ تجارت ہے جس کے اندر گھاٹا اورکوئیخسارہ نہیں ہے ،نفع ہی نفع ہے ، زندگی میں بھی نفع ہے اور اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی اس میں نفع ہی نفع ہے تو یہ ایک بہت ہی خوشی کاموقع ہے سچی بات ہے میں دل کی گہرائی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالٰی اس سلسلے کو مزید برکت اور ترقی عطا فرمائے اور اس موقع پردو تین چیزوں کی طرف توجہ دلانا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ قارئین کرام کو ،عَلَّمَ الْإِنْسَانَ جو ہے اس کی ضرورت ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَاوَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا(الاحزاب:72)

اللہ تعالی نے یہ امانت آسمان، زمین اور پہاڑوں ہر پر امانت پیش کی مگر انہوں نے ہمت نہیں کی ،مگر انسان نے آگے بڑھ کر وہ امانت اٹھالی لیکن یہ جاہل ہے اسے بتانے کی ضرورت ہے اور یہ ،کہ یہ ظلم کر بیٹھتا ہے اپنے اوپر بھی اور دوسروں پر بھی تو اس کو ایسا راستہ ایسا نظامِ زندگی ایسا دستور دینے کی ضرورت ہے کہ یہ عدل کے ساتھ چل سکے عدل پر قائم رہ سکے

: لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(الحدید:25)

اس بات کی اس کو ضرورت ہے تو اللہ رب العزت نے اس ظلوم اور جھول انسان کی رہنمائی کے لئے علم کا انتظام فرمایا کہ

عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(العلق:5)

قرآن مجید کی پہلی وحی

(اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ )

اپنے اس رب کے نام سے پڑھئے جس نے انسان کو پید اکیا ،اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا خون کی پھٹکی سے پیدا کیا

(اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ )

پڑھئیے اور تیرا رب بہت کرم کرنے والا ہے کرم کا معنیٰ کیا ہے ؟معنیٰ بہت خیر والا ہے اور اس خیر کے ساتھ لوگوں کو مالامال کرنے والا ہے خیر سراسر اللہ رب العزت کے پاس ہے وہ سراپائے خیر ہے بیدہ الخیر کل والشر لیس الیہاس کے پاس تو خیر ہی خیر ہے اور شر کی نسبت بھی اس کی طرف نہیں کی جاسکتی اس کا ہر کام ہی خیر والا ہے ،بہت خیر والا مالک ہے اور وہ خیر لٹانے والا ہے،عطا کرنے والا ہے ،تقسیم کرنے والا ہے ،اس خیر کو اپنی مخلوق میں بانٹتا ہے ،اس خیر سے اپنی مخلوق کو مالامال فرماتے ہیں (

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ)

اس نے قلم کے ساتھ سکھایا ( عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ) اور انسان کو وہ کچھ سکھایاجو وہ جانتا نہیں تھا ،تو اللہ رب العزت نے قلم پیدا کیا اور اس کو کہا کہ لکھ جو کچھ ہونے والا ہےإِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ (ابوداؤد: 4700 ) سب چیزوں سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا کہ لکھ جو کچھ ہونے والا ہے اوراس نے لوحِ محفوظ کے اندر سب کچھ لکھ دیا اور پھر اللہ رب العزت نے انسان کو جب پیدا کیا تو اس کو بھی علم سے نوازا (عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا) آدم کو اللہ نے نام سکھائے علم دیا اللہ رب العزت نے اور ( عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ) اور وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا ، قلم کے ذریعے سے سکھایا او رانسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا اب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے سورۃ البقرۃ کے اندر آدم کا تذکرہ فرماکر جب انہیں زمین پر اتاراتو انہیں یہ کہا تھا کہ

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(البقرة:38)

آدم جنت میں نادانی و لاعلمی کی وجہ سے اپنی جان پہ ظلم کربیٹھے

(رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ)

شیطان کے بہکاوے میں آگئے اللہ رب العزت کی بات بھول گئے اور اپنی جان پہ ظلم کربیٹھے تو اللہ رب العزت نے پھر جنت سے تو نکال دیا لیکن دوبارہ جنت میں جانے کے اللہ رب العزت نے کہا کہ ( فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى) میری طرف سے رہنمائی آئےگی اس رہنمائی کی پیروی کرنی ہے اور جو اس کی پیروی کریگا اس سے دنیا کا خوف بھی دور ہو جائے گا اور آخرت کا خوف اور پچھتاوا بھی نہیں ہوگا تو اللہ رب العزت نے ہدایت کا انتظام فرمایا اور آدم کو پہلا نبی اور پہلا رسول بنایا آدم پہلے نبی تھے اور اپنی اولاد کے لئے رسول بھی تھے

كَانَ نَبِيًّا مُكَلَّمًا(الرد علي الجهمية:279)

نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ وہ اللہ کے ایسے نبی تھے جن سے اللہ نے کلام فرمایا وہ اللہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف رکھتے ہیں یہاں ایک بات آپ کے ذہن میں آئے کہ سیدنا نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اول الرسل ہیں ،اصل میں وہ اول الرسل ہیں اس وقت جب انسانوں کے اندر گمراہی و شرک پید اہوگیا تھا تو اس وقت ان کو بتانے کے لئے خاص اللہ رب العزت نے ان کو مبعوث فرمایا تھا ان کی قوم کی طرف تو وہ لوگوں کے اندر گمراہی پیدا ہونے کے بعد آنے والے پہلے رسول تھے اور آدم ابو البشر بھی ہیں اور سب سے پہلے نبی بھی ہیں اور سب سے پہلے اپنی اولاد کےلئے رسول بھی ہیں ،اللہ رب العزت نے ایک تو یہ انتظام فرمایا تھا کہ ان سے کہا کہ میری طرف سے رہنمائی آئیگی او روہ رہنمائی کیا ہے وہ قرآنِ حکیم ہے

هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ

لوگوں کے لئے ہدایت اور ہدایت کے دلائل کے اوپر مشتمل ہے اوور وہ دلائل ایسے ہیں جو انسان کی عقل وفطرت دونوں کو مطمئن کرتے ہیں اور اس کائنات کی ہر چیز اس کی حقانیت اور سچائی کی گواہی دیتی ہے وہ اس لئے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا اور اس کو چلانے والا ، اور اس قرآن کو نازل کرنے والا اور اس کا علم عطا کرنے والاایک ہی ہے

الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ(الرحمن1۔2)

 ان میں کوئی تضاد نہیں اور اگر کسی کو نظر آتا ہے تو وہ اس کی کم عقلی ہے اس کی نادانی ہے یا اس کی ہٹ دھرمی ہے کہ اسے سمجھ نہیں آئی وہ جان نہیں سکا وگرنہ قرآن مجید اور اس کائنات میں کوئی تضاد نہیں ہے ،ہاں ایک علم ہے جو اللہ رب العزت نے وحی کے ذریعے عطا فرمایا ،نبیوں کے ذریعے عطا فرمایا، اللہ تعالی نے فرشتوں کے ذریعے پیغمبروں پر وحی نازل فرمائی ،اور پیغمبروں نے آگے انسانوں تک پہنچائی اور اللہ رب العزت نے جو کتابیں نازل فرمائیں تورات ،زبور ،انجیل ،قرآن مجید ،صحف  ابراہیم ،صحف موسیٰ کا تذکرہ فرمایا ہے جو کچھ اللہ رب العزت نےپرانے صحائف میں نازل فرمایا تھا وہ سب اللہ رب العزت نے اس قرآن مجید میں جمع کردیا ، قرآن مجید کے بہت سے معنی ہیں ایک معنی (مقروء ) کے بہت پڑھی جانے والی کتاب ،اور قرآن مجید یہ مصدر ہے قرآن کامصدر کبھی فاعل ہوتا ہے کبھی مفعول ہوتا ہےاور یہاں دونوں معنی موجود ہیں فاعل کے معنی میں یہ قرآن (قاری ) ہے اور (قرأ)کے معنی ہیں جمع کرنا یعنی جتنی وحی کی تعلیمات اللہ رب العزت نے نازل فرمائیں تھیں وہ سب اس قرآن میں جمع کردی گئیں یہ پہلا اور آخری اللہ کے بھیجے جانے والی تمام کتابوں کا مجموعہ ،مغز اور نچوڑ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں ہمیں عطا فرمایا اور احادیث موجود ہیں اس پر نبی اکرم نے فرمایا مجھے فلاں سورۃ توراۃ کی جگہ پر عطا کی گئی ،یہ سورتیں انجیل کی جگہ پہ عطا کی گئیں اور یہ زبور کی جگہ عطا کی گئیں اور اللہ رب العزت نے مفصل کی سورتیں مجھے اضافی عطا فرمائیں ،قرآن مجید جامع ہے ساری وحی کا اور محمد رسول اللہ کا اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول بنا کر بھیجا اور آپ کی ذمہ داری یہ تھی کہ

(وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَوَيُزَكِّيهِمْ)

لوگوں کو قرآن پڑھ کر سکھاتے ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تذکیہ کرتے ہیں اور نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی کے اندر پہلے نبیوں کی خصوصیات جمع فرمادیں جو اولوالعزم پیغمبر آئے اپنے زمانوں میں ،کسی کا صبر تھا،اور کسی کاجہاد تھا،اور کسی کی حکمت تھی،غرض جو بھی خصوصیات تھی وہ سب جمع فرمادیں شاعر نے بھی کہا تھا کہ

حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضاء داری

آنچا خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

یہ بات اگر صادق آتی ہے تو محمد رسول اللہ ﷺپر آتی ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے نبی اکرم ﷺکی نبوت کافیصلہ سب سے پہلے فرمایا اور بعثت آپ کی سب سے آخر میں ہوئی ،آپ کو اللہ رب العزت نے معلّم ،مبلغ اور اس قرآن مجید کا عملی نمونہ بنا کر مبعوث کیا ایک یہ علم ہے اور یہ علم ایسا ہے جو پہلے دن سے مکمل ہے اور اس علم میں کوئی غلطی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اللہ رب العزت کا نازل کردہ علم ہے اور اللہ کے علم میں (لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى) میرا رب نہ بھٹکتا ہے نہ بھولتا ہے اللہ رب العزت کو غلطی نہیں لگتی نہ اسے بھول لگتی ہے اللہ رب العزت ہر چیز سے واقف ہیں اس کے سامنے کائنات کے سارے حقائق عیاں ہیں وہ تو ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے (أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ)اللہ رب العزت نے اپنے علم کے ساتھ اس کو نازل کیا  (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا) سچائی وعدل کے لحاظ سے یہ اللہ کے کلمے نقطہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں پہلے دن سے ہی اس علم میں کوئی شک نہیں ہے اور بالکل ابدی اور ازلی حقیقتوں پر مشتمل ہے ایک یہ علم ہے جو انسان کی ضرورت ہے اس کو جہالت سے نکالنے کے لئے اس کے بغیر انسان کی جہالت رفع نہیں ہوسکتی  یہ ہے جو انسان کو ظلم سے بچاکر رکھتا ہے

(وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ

للہ نے نبی بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب بھی نازل فرمائی اور میزان نازل فرمایا یعنی جو کتاب و شریعت انبیاء کو ملی اس پر عمل کرکے انہوں نے لوگوں کے لئے ایک میزان کھڑا کردیا کہ اس طرح اس شریعت پر عمل کیا جائے اور محمدرسول اللہ ﷺکو بھی اللہ نے

اللهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ[الشورى: 17]

کہ اللہ رب العزت نے کتاب اتاری حق کے ساتھ اور اس کے ساتھ اللہ نے میزان اتارا اور میزان کون ہےوہ محمد رسول اللہ ﷺہیں جنہوں نے اس پر عمل کرکے نمونہ پیش کیا اور اس کی تشریح کی اور اس کی صداقت کی گواہی اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دی ہے کہ آپ کاہر عمل اور ہر اقدام درست اور صحیح ہے

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى[النجم: 3، 4]

یہ ان کی ذاتِ گرامی ہے یہ آپ نے جو دین کا علم آپ نے لوگوں کو دیا اور اس میں کوئی ترقی نہیں ہے کہ آج کوئی چیز معلوم ہوئی کل کوئی اور چیز معلوم ہوئی بعد میں کچھ اور معلوم ہوا یہ پہلے دن سے ہی کامل اور مکمل ہے اس کے بغیر نہ انسان کی جہالت رفع ہوتی ہے نہ اس کا ظلم ختم ہوتاہے ظلم سے بچانے کے لئے ، عدل کا راستہ دکھلانے کے لئے اور انسان کی جہالت کو رفع کرنے کے لئے ، اسے معرفت سے آشنا کرنے کے لئے اس علم کی ضرورت ہے اس کے بغیر چارہ نہیں  اگر یہ علم نہیں ہوگا تو پھر آپ سائنس کے اندر کتنی ہی بڑی ڈگری لے لیںاور کتنا ہی بڑا ماہر بن جائیں ،سائنس اور ٹیکنالوجی کا ، معاشیات کا،اور مزید علموں کی شاخوں کے اندر میڈیکل سائنس کا  ،فلکیات کا ،کسی بھی علم کا ماہر بن جائے جب تک یہ علم نہیں آئے گا انسان کی جہالت بھی ختم نہیں ہو سکتی اور انسان کا ظلم بھی ختم نہیں ہوسکتا اپنے اوپر بھی ظلم کریگا اور بنی نوعِ انسانی پر بھی ظلم کریگا اور سب سے بڑ ا ظلم یہ ہے کہ اپنے رب کے بارے میں بھی ظلم کریگا کہ اس کا حق نہیں ادا کریگا اس کا حق دوسروں کو دیدیگا ،انسان شرک کرکے ظلم کرتا ہے ،کفر کرکے ظلم کرتا ہے ،اللہ کی بغاوت کرکے ظلم کرتا ہے ،اپنے اوپر بھی اور باقی سب پر بھی ظلم کرتا ہے ،جانوروں پر بھی ظلم کرتا ہے اور ایسا ظلم کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى [فاطر: 45]

یہ جو لوگ ظلم ڈھاتے ہیں اور جو لوگ کمائی کرتے ہیں اگر اللہ اس پر گرفت فرمائے تو ان کا ظلم ایسا ہے کہ اللہ رب العزت اس زمین پرکوئی چیز زندہ نہ چھوڑے ، ہر چیز ختم ہوجائے لیکن اللہ رب العزت معاف کرتے ہیں ،در گذر کرتے ہیں ،موقع دیتے ہیں ،ڈھیل دیتے ہیں ،تاکہ ہ بندہ پلٹ کے آجائے یہ ظلم چھوڑ دے ،اس ہدایت کو قبول کرلے تو یہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے خلافت کا تاج رکھا ہے اور اسے اس زمیں کے اندر اتارا ہے،آباد کیا ہے،اور اس دنیا کی نعمتیں اللہ نے انسان کی ضرورتیں پوری کرنے اور ان سے فائدۃ اٹھانے کے لئے رکھی ہیں یہ چیزیں پیدا ہی انسان کے لئے کی ہیں اب ان کو استعمال کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا یہ انسان کی ضرورت ہےاور یہاں جو انسان کو علم ملا ہوا ہےیہ بھی اللہ کی طرف سے ملا ہے

(عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ)

جو انسان نہیں جانتا وہ اسےاللہ نے سکھایا ہے یہ علم بھی اللہ نے سکھایا ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ [البقرة: 282]  الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ(الرحمن1۔2)  اللہ نے قرآن سکھایا ہے اللہ رب العزت تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺکو بُعِثْتُ مُعَلِّمًا (ابن ماجه229) مجھے معلم بنا کر مبعوث فرمایاگیا ہے ،نبی اکرم ﷺ بھی اس علم کے سکھانے والے ہیں اور ایک علم وہ ہے جو انسان دیکھ کر سیکھتا ہےایک چیز کو دیکھا عقل دی ہوئی ہے سوچ دی ہوئی ہے کہ ان چیزوں کو دیکھ کر انسان سیکھتا ہے کہ یہ چیز ایسے بن سکتی ہےپرندوں کو دیکھ کر انسان نے یہ جہاز بنائے ،مچھلیوں کو دیکھ کر انسان نے یہ آبدوزیں بنائیں ،معنی کہ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کی نقل کرکے انسان ان کی ترتیب کو آگے پیچھے کرکے یہ انسان نئی چیزیں معرضِ وجود میں لاتا ہے دیکھ کر مشاہدے سے اور پھر سوچ سے اور تجربہ سے اس کے پیچھے اللہ رب العزت کی تعلیم ہے ،ذہن دینے والا وہ،موقع دینے والا وہ ، وسائل دینے والا وہ،میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ کس طرح اللہ رب العزت انسان کی رہنمائی کرتے ہیں کہ جس آدمی نے یہ سلائیمشین ایجاد کی ہےاس آدمی نے اس مشین کو تو ایجاد کرلیا مگر سوئی کا مسئلہ اس کاحل نہیں ہو رہا تھا کیونکہ اس وقت تک جو انسان سوئی استعمال کررہا تھا اس کا ناکہ پیچھے ہوتا تھا اور اس کا باریک منہ وہ آگے ہوتا ہے اور پیچھے سے دھاگہ ڈال کے انسان سلائی کرتا ہے چنانچہ اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب میں کیا کروں کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اس آدمی کو نیند آئی اور خواب میں اس نے دیکھا کہ ایک وحشی قبیلہ ہے جس کے ہاتھوں میں وہ بھالے ہیں ،نیزجس کے آگے والےنوکیلے حصہ میں سوراخ ہوا ہے اور وہ اس کو مارنے کے لئے بھاگے آرہے ہیں،یک دم اٹھ بیٹھا اور اس کا مسئلہ حل ہو چکا تھا  کہ سوئی کے آگے ناقہ بنادیا جائے،یعنی کس طرح اللہ رب العزت انسان کی ان تجربات میں رہنمائی کرتا ہے کہ کام کوئی اور چل رہا ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے بات کوئی اور آجاتی ہے اور ایک نئی چیز اس کے دماغ میں آجاتی ہے ان سب کے پیچھے (عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ)وہ ہے (عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ)جو ہر غیب چھپے اور ظاھر کو جانتا ہے اور وہی ہے انسان کو سکھانے والا  تو ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ علم کا منبع اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات مطہر ہے،سارا علم اس کے پاس ہےجس کو جتنا علم چاہتا ہے عطا کرتا ہے

(وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ)

جتنا وہ چاہے دیدے اور اگر نہ دے تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا  [الإسراء: 85]

اور وحی کا علم بھی سارا اللہ نے انسانوں کو نہیں دیا جتنا سنبھال سکتے ہیں اتنا ہی دیا ہےاور یہ دنیا کا علم بھی اللہ نے اتنا ہی دیا کہ جتنا کہ انسان کو سنبھالنا آسان ہےورنہ تو کائنات کے اندر اتنا علم ہے جس سے انسان بے خبر ہے کہ جس کا اندازہ کرنا مشکل ہےمیں نے ایک کتاب کا مطالعہ کیا تھا (UNIVERSE UNKNOWN) (العالم المجھول) وہ کائنات جس کے بارے میں انسان نہیں جانتا اس میںلکھا ہے کہ جس کائنات کے بارے میں انسان جانتا ہے وہ اس کائنات کا 2 فیصد بھی نہیں ہے باقی 98 فیصد وہ ہے جس کو سوائے عالم الغیب کے کوئی نہیں جانتا ،بلیک ہولز کو نہیں جانتا ، ان کہکشاؤںکے بارے میں نہیں جانتا جو ہماری کائنات سے کئی گنا دوگنی کہکشائیںہیں اس کائنات کے اندر جن کے بارے میں انسان کو کوئی معلومات نہیں جو علم بھی انسان کو ملا ہے وہ اللہ رب العزت کی طرف سے ملا ہےایک تو یہ بات ہے جو ہمارے علم میں ہونی چاہیےاور ہمارا س پہ ایمان اور یقین ہونا چاہیےاور باقی جو یہ علم ہےسائنس کا علم میڈیکل وٹیکنالوجی کا علم اور آج کمپیوٹر کا علم یہ سارا علم ترقی پذیر ہےجو یونانیوں نے چیز بنائی تھی مسلمانوں نے آکر اس میں اصلاح کی ہے، مسلمانوں نے جو چیزیں نئی شامل کی تھیں بعد میں یورپ میں اس میں اصلاح ہوئی،اور بعد میں ان میں بھی اصلاح ہوئی ہے اس علم میں نئی سے نئی چیزیںآتی رہتی ہیں اور آج تو سائنس نے بھی اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ جس کو کہا جائے کہ یہ چیز دائمی ہے بلکہ اس کائنات کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے،یہ وہ علم ہے جو انسانی علم ہےوہ بدل سکتا ہے، غلط ثابت ہو سکتا ہےاور ہوتا رہتا ہے اور جو چیز نہیں بدل سکتی ،جو پہلے دن سے صحیح ہے اور کبھی غلط نہیں ہوسکتی جو پہلے دن سے صحیح ہے اور ہمیشہ ہمیشہ صحیح ہے وہ یہ قرآن کا علم ہےیہ دونوں علم انسان کی ضرورت ہیں ان دونوں کو جمع کرنا ہےاور بڑی مبارک کوشش ہے یہ کہ لوگوں کو قرآن بھی پڑھایا جائیے اور اس کے ساتھ انکی ایسی تربیت کی جائے کہ زندگی کا کام بھی چلتا رہے،جو یہ خلافت کا کام ہےجو زندگی کے اندر اللہ رب العزت نے انسان کی ذمہ داری لگائی ہے کہ اس نے مستقبل میں اپنا بھی بوجھ اٹھانا ہے ،اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں کا بھی بوجھ اٹھانا ہےاور آگے پیدا ہونے والی نسل کا بھی بوجھ اٹھانا ہےاس کے لئے بھی انسان کام کرسکے اور اس کی تربیت کی جائے اور مقصد کیا ہے اس علم کا علم کا مقصد دو چیزیں ہیں ایک تزکیہ اور دوسری تربیت اس علم کا مقصد یہ ہے کہ (وَيُزَكِّيهِمْ) کہ اس انسان کے اندر جو کمزوریاں ہیں جو بطورِامتحان کے اللہ رب العزت نے رکھی ہیں انسان کے اندر حیوانیت بھی ہے، انسان پستی کی طرف بھی جاتا ہےلیکن انسان نے درندگی ختم کرکے اپنے اندر فرشتوں جیسی صفات پیدا کرنی ہےملکوتی صفات پیدا کرنی ہیں،درندگی ختم کرکےاپنے آپ کو مہربان بنانا ہےاپنے آپ کو انسان بنانا ہےاور یہ جو نیچے جانے کا انسان کے اندر جذبہ ہے کہ انسان پستی کی طرف جاتا ہےاس کے اوپر غلبہ پاکر انسان نے بلندی کی طرف جانا ہےاور بلندی کی طرف جانے کا سفر کس چیز کے ساتھ ہوتا ہے

إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ(صحيح مسلم:817)

اللہ تعالی اس قرآن کے ذریعے لوگوں کو اونچا کرتا ہے اور اسی کے ذریعے لوگوں کو پستیوں میں دھکیل دیتا ہےجو اس کو قبول کرکے اس پر عمل کرے وہ معزز اور جو اس کو قبول نہ کرے وہ ذلیل و خوار اور ان میں جو دین کا علم رکھنے والے ہیں اللہ ان کو اور اونچا کرتا ہےاور انسان کو اللہ رب العزت نے یہ صلاحیت دی ہے کہ یہ اونچاجاسکتاہےاور اونچا کس طرف جایا جاتا ہےجنت کہاں ہےساتوں آسمانوں کے اوپر

عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى [النجم: 14، 15]

اس جنت میں جانے کے لئے یہ بلندی کا سفر طے کرنا پڑتا ہےاور جہنم کہاں ہیں ؟نیچےیہ پستیاں، تنزل یہ انحطاط انسان کو پستی میں لے جاتا ہے

(‌ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ)(لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ )

اللہ نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا جسمانی اور ذہنی اور روحانی ہر طرح کی صلاحیتوں سے نوازا ہےکہ یہ انسان فرشتوں کے لئے قابلِ رشک بن سکے اور اگر یہ ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائےاور ان کو بروئے کار نہ لے کر آئے تو پھر یہ ایسی پستی کی طرف جاتا ہے

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا [البينة: 6]

کافر جو ہیں اور اہل کتاب یہودی اور عیسائی خواہ وہ مشرک ہوں، مشرکوں میں سبھی آگئے یہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے (أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ)مخلوقوں میں سب سے ذلیل اور نیچ یہ کافر ہیں (أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ )یہ جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر تو یہ چیز انسان کو پستی کی طرف لےکر جاتی ہےکہ انسان اس قرآن کو چھوڑدے اور رسول ِاکرم جن کو اللہ نے وہ عظمت عطا فرمائی معراج فرمایااور اللہ رب العزت انہیں سدرۃ المنتھیٰ کی بلندیوں تک لے گئےاپنا قرب نصیب فرمایااور جو نبی اکرم کی پیروی کرتا ہےوہ اسی طرح بلندیوں کا سفر کرتا ہےتو عظمت اور رفعت اگر نیکی ہے تو وہ اس علم کے ساتھ ہےقرآن و حدیث کے علم کے ساتھ ہےنبی اکرم کے دامن سے وابستہ ہونے کے ساتھ ہے اور اللہ رب العزت کے سامنے جھکنے سے ملتی ہےاور اللہ رب العزت کہاں ہیں؟ (ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ)اللہ رب العزت عرش پر مستوی ہےاور یہ انسان اللہ کے قریب ہوتا ہےفرائض کی ادئیگی کے ساتھ نوافل کی ادئیگی کے ساتھ اللہ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس بلندی کے سفر کرتے کرتے ہی انسان جنۃالفردوس میں پہنچ سکتا ہےاور اس کے اوپر اللہ کا عرش ہوگا اور وہاں اس انسان کو اللہ رب العزت کادیدار ہوگا اور درمیان میں کوئی پردہ نہ ہوگایہ رفعت اور یہ عظمت انسان کو ملنے والی ہے تو قارئین کرام یہ دونوں علم انسان کی ضرورت ہیں دین کا علم بھی اور دنیا کا علم بھی ہم دنیا کے علم کے مخالف نہیں ہیں دنیا کا علم ضرورت ہےلیکن اس کے بارے میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ علم ِ نافع ہو یہ ایسا علم نہ ہو جو لوگوں کے لئے تباہی و بربادی کا باعث بنے،اللہ سے دور کرنے والا بنے،دین سے دور کرنے والاہویہ علم ایسا نہیں ہونا چاہیےتو ایسے ادارہ ہونے چاہیے اس علم کو سکھانے کے لئے جن کے اندر نافعیت ہو،مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے علوم و فنون کو نافع بنا کر لوگوں کو سکھائیں ،خود بھی پڑھیں اور لوگوں کو بھی پڑھائیں مگر آج کل کچھ لوگوں کا ورد ہے کہ اگر آج ہماری تنزلی کا کوئی سبب ہے تو وہ یہ صرف دین ہےاس دین کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے(انا للہ وانا الیہ راجعون)ایسی جہالت و نادانی کہ اس دین کو یہ سمجھتے ہی کہ یہ ہماری پستی کا ذمہ دار ہے اور ہمارے تنزل کا باعث ہے بلکہ دین تو ہماری بقا اور سلامتی کا ضامن ہےکیونکہ تم تو بہترین امت بنائے گئے تھے

(كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

اسی دین نے تمھیں وہ عزت و وقار عطا کیا تھا کہ عرب کے وہ لوگ اٹھے جو بالکل پسماندہ تھے یونانی تھے اور مصری تھے، عراقی تھے،ایرانی تھے اور ہندوستانی اور چینی تھےاور مختلف تہذیبیں تھیں لیکن عرب بیچارے پسماندہ جنگلوں کے اندر رہنے والے تھے لیکن دین کے ساتھ اللہ رب العزت نے ان کو وہ بلندیاں اور رفعتیں عطا فرمائیں کہ ساری قومیں ان کے پیچھے تھیں اور وہ دنیا کے امام تھے ، دین نے تو تمھیں عزت و وقار عطا کیا اور اس دین سے جب سے مسلمان پیچھے ہوئے ہیں اور اس دین سے انھوں نے ناطہ کمزور کیا ہےاور اس دین کو انہوں نے رسمی دین بنا دیا ہے،رواجی دین بنادیا ہے اور حقیقی دین سے دور ہو چکے ہیں

یہ حقیقت خرافات میں کھو گئیں

یہ امت روایات میں کھو گئیں

اور وہ جو تعلق تھا اللہ سے ،محبت کا تعلق ،بندگی کا تعلق ، قرابت کا تعلق ،وہ اللہ سے ٹوٹ گیا اور چیزوں کے ساتھ جڑگئے کسی کا پیسے کے ساتھ،کسی کا اقتدار کے ساتھ کسی کا شہوات کے ساتھ اور کسی کا خواہشات کے ساتھ ان چیزوں کے ساتھ تعلقات جوڑ لیں اور اللہ رب العزت سے تعلق ٹوٹا ہوا ہے اس لئے ہم پستی کے اندر ہیں اور ہماری اگر عزت ہےتو اس طرح ہیں (وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ)اہل ایمان کے لئے عزت ہے، اللہ تعالی اہل ایمان کو عزت دینے والا ہے تو یہ دونوں علم انسان کی ضرورت ہیں اور دونوں ہی سیکھنے چاہئیں لیکن جو علم قطعی درست اور حقائق پر مشتمل ہے جن میں کبھی غلطی اور خطا کا امکان نہیں ہیں وہ قرآن كريم اور صحیح احادیث ہیں اور اس کو سمجھنے کے لئے انسان کو ضرورت ہے کہ وہ علماء کے پاس آئے جن کا سلسلہ جڑتا ہےاس علم کے اس سلسلہ کے ساتھ آپ پوچھئے ،قرآن ِمجید کے قاریوں کی بھی سند جڑتی ہےاور محمد الرسول اللہ تک پہنچتی ہےاور پھر جبرئیلِ امین تک اور پھر اللہ رب العزت تک پہنچتی ہےیہ قرآن  اللہ کے ساتھ جوڑنے والا ہے اور حدیثیں نبی اکرم کے ساتھ جو حدیثیں پڑھاتے ہیں یہ انہوں نے پڑھی ہیں اپنے اساتذہ سے اور انہوں نے اپنے اساتذہ سے اور پھر یہ سلسلہ نبی اکرم ﷺ تک اورنبی اکرم ﷺکا سلسلہ اللہ تعالیٰ سے جڑ جاتا ہے جبرئیل امین کے واسطہ سےیہ علم ان لوگوں سے پڑھنے کی ضرورت ہے صرف کتابوں سے نہیں آتا اساتذہ اور علماء کے پاس پڑھنے کی ضرورت ہے اور یہاں اس بات کو بھی مدِنظر رکھیں کہ علماء کی تعظیم و توقیر ان کا احترام کرنا ہر مسلمان کا فرض ہےنبی اکرم ﷺنے فرمایا:

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا! وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا(جامع بيان العلم وفضله، مسند احمد : 22755)

جو ہمارے چھوٹوں سے شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کااحترام نہیں کرتا اور ہمارے عالم کا حق نہیں جانتا وہ ہم میں سے نہیں ،علماء انسان ہی ہوتے ہیں کمزوریاں ان میں بھی ہوتی ہیں لیکن اللہ رب العزت نے جو انہیں منصب عطا فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے رسول کے وارث ہیںنبی کریم ﷺکے ورثہ کے امین ہیں اور نبی اکرم ﷺکے مشن کے علمبردار ہیں(وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ) اس علم کا اصل مقصد تزکیہ ہےانسان کا روحانی و اخلاقی تزکیہ ،جھوٹ ، خیانت ،بغض ،ظلم وزیادتی ،بخل، کینہ ، دنیا کی حرس و حوس ان کمزوریوں سے انسان کو پاک کیا جائے اور اس کے اندر وہ اعلیٰ اخلاق پیدا کیے جائیں جو اللہ رب العزت کو محبوب ہیں جو اخلاق اللہ کو پیارے ہیں یعنی کہ وہ اخلاق جو رسول اللہ ﷺکے اخلاق تھے ، اللہ کے نبی صبر کرنے والے ،معاف کرنے والے ،دینے والے ،فیاض ،سخی ،کریم تھےایسا ہونا چاہیے انسان کو جس کے اندر نبی اکرم کے اخلاق کی جھلک نظر آتی ہو

خَيْرُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (المسند للشاشي:713)

نبی اکرم کی سیرت ،آپ ﷺکا اُسوہ ، قدوہ اپنانے والا انسان بنیے،ایک اور عرض کروں کہ دنیا کے اندر زندگی گزارنے کے لئے،تجارت ،صنعت ، رفعت کے لئے کسی بھی چیز کے لئےانسانوں کی تربیت کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ گلیوں میں آوارہ نہ پھریں اور یہ بے مقصد زندگی نہ گزاریں اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی نافع ہوں اور بلندیوں کی جانب اپنا سفر جاری رکھیں یہ تعلیم ،تربیت اور تزکیہ یہ انسان کی ضرورت ہے اور اس سے بڑا کوئی کام نہیں ہے یہ انسانوں پر محنت کا کام  یہ سب سے بڑا کام ہے اور سب سے کامیاب تریں کام ہےجس کے اندر نفع ہی نفع ہے، ہمیں یہ دعاکرنی چاہیے کہ اللہ رب العزت اس سلسلہ کو مزید ترقی عطافرمائے اور ان مدارس کو قائم و دائم رکھے خلاصہ کلام یہ کہ اس علم کو سیکھ کر آخرت سنواری جائے اور اس علم کو سیکھ کر دنیا سنواری جائے ،تربیت اور تذکیہ دونوں پر توجہ دی جائے اور آخری بات کہ معلم الخیر علماء کی عزت و تکریم کریں دل سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے اور سچی بات یہ کہ یہ ہمارے محسن ہیں ان کی وجہ سے یہ دین زندہ ہے  ان مدارس کو زندہ رکھا ہے ان مشکل حالات کے باوجود ،بس اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس نیکی کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے