جمع وترتیب : محمد ساجد   

اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے اوروہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ نارِ جہنم کا ایندھن بنے، اِسی لئے اس نے اپنے انبیائے کرام کے ذریعے اپنے بندوں کے لئے جنت کے راستے ہموار کئے اور ایسے ایسے عظیم اور آسان طریقے اور ذرائع مقرر کئے کہ جنہیں اپناکر انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے محفوظ ہوجاتاہے اور جنت الفردوس اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اُن طریقہ جات اور ذرائع میں سے قربانی کرنا بھی ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوجاتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔

لفظ  ’’قربانی’’ کامعنی و مفہوم

لفظ قُرْبَانِيّ قَرُبَ یَقْرُبُ سے مصدر بر وزن فُعْلان ہے جبکہ بعض اقوال کے مطابق یہ لفظ صیغہ اسم فاعل بروزن ضُربان ہے اور بعد میں اس کے آخر میں یاے نسبتی لگا دینے سے لفظ قُربانی بن گیا۔

اب یہ لفظ اُن جانوروں کے لئے عَلم کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جو عیدالاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے قُربانی کا معنی یہ ہوا کہ قریب کردینے والی کیونکہ یہ عمل انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتا ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں ۔

قربانی کی ابتداء

قرآنِ حکیم کی اس آیت ِمبارکہ

 وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا لِّيَذْکُرُ‌واٱسْمَ ٱللہِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَہُم مِّنۢ بَہِيمَۃِ ٱلْأَنْعَـٰمِ (سورۃ الحج 34)

’’اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں ۔‘‘

سے معلوم ہواکہ قربانی شروع ہی سے ہر اُمت یعنی ہر قوم پر مقرر کی گئی تھی جبکہ قربانی دینے کے طریقے مختلف تھے۔ قرآنِ مجید میں یہ مذکور ہے کہ سب سے پہلے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی، ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ دوسرے کی ردّ کردی گئی۔ قربانی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے پیارے لخت ِ جگر سیدنااسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کردی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو شرف ِ قبولیت بخشتے ہوئے ان کے بیٹے کی جگہ جنت سے بھیجے گئے دُنبے کو ذبح کروا دیا۔

قربانیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب محمد کو بھی بذریعہ وحی قربانی دینے کا حکم فرمایا:

إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰکَ ٱلْکَوْثَرَ‌ فَصَلِّ لِرَ‌بِّکَ وَٱنْحَرْ‌ (سورۃ الکوثر)

اے محمد ! ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی، لہٰذا آپ اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی بھی دیں ۔

قربانی کی فضیلت:

قربانی خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، ہمارے نبی مکرم بھی اس سنت کا بہت اہتمام فرماتے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے ۔ذیل میں مذکور احادیث قربانی کی فضیلت پر دلالت کناں ہیںجیسا کہ اس عمل کی محبوبیت اور فضیلت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ  نے فرمایا :

مَا عَمِلَ اٰدَمِيٌّ مِّنْ عَمَلِ يَوْمِ النَّحْرِ أَحَبُّ إِلَي اللہِ مِنْ إِھْرَاقِ الدَّمِ (ترمذي : 1493)

’’قربانی کے دن کوئی عمل، اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘

اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ کَانَ لہ سعۃ فلم یضح ، فلا یقربن مصلانا  (رواہ ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۲۳، حسن)

’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘

ایک اور حدیث نبی مکر م نے یوںفرمایا:

 يَأَ يُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ عَلٰى کُلِّ أَھْلِ بَيْتٍ فِي کُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّۃً (مسند احمد 215/4 وابوداؤد:2785)

’’اے لوگوں ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی کرنا لازم ہے ۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ ۲/۲۰۰)

فلسفہ قربانی:

/اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اجتماعی طور پرمنظر پیدا ہوجاتاہے۔

/مسلمانوں کی اجتماعی قوت نمایاں طور پر ظاہر ہوجاتی ہے۔

/جن لوگوں کو سال بھر گوشت دیکھنا نصیب نہیں ہوتا، انہیں بھی قربانی کے روز وافر مقدار میں گوشت مل جاتاہے۔

/قربانی کی کھالوں سے غرباء، فقرا اور مساکین وغیرہ کی مالی امداد ہوجاتی ہے۔

/مختلف مصنوعات جو کہ چمڑے اور ہڈیوں سے بنائی جاتی ہیں، ان کے لئے وافر مقدار میں میٹریل مہیا ہوجاتاہے۔

قربانی سے اللہ تعالیٰ کو کیامطلوب ہے؟

اگر دیکھا جائے تو قربانی کے جانور کا گوشت پوست ہمارے کام آتا ہے بلکہ اس کے کھالوں اور بالوں وغیرہ سے ہم ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ کو قربانی سے کیامطلوب ہے؟ وہ اس سے کیا چاہتا ہے؟تو جواب میں یہ آیت ِمبارکہ سامنے آجاتی ہے کہ

لَن يَنَالَ ٱللہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلَـٰکِن يَنَالُہُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنکُمْ (سورۃ الحج37)

’’ اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کو تو صرف اور صرف اخلاص و تقویٰ مطلوب ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ قربانی جیسے عظیم عمل میں ہر قسم کے دکھاوے سے بچنا چاہئے اور صرف رضائے الٰہی کے لئے قربانی ہونی چاہئے کیونکہ وہ تو سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے۔

بہترین قربانی:

اس میں شک نہیں کہ موٹی اور عمدہ قربانی کو آپ پسند کرتے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر میں یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے:

أَحَبُّ الضَّحَايَا إِلَى اللہِ أَعْلَاھَا وَأَسْمَنُھَا

’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب قربانی موٹی تازہ اور بلند قامت یا عمدہ قسم کی ہے۔‘‘

اور بعض علماء نے تو آیت وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’قربانی موٹی اور عمدہ ہو‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’البدن‘‘ کی تفسیر میں ایسا ہی ایک قولِ مجاہد رحمہ اللہ سےنقل کیا ہے۔ اور سنن ترمذی اورابو داود میں بھی حدیث ہے کہ:

خَيْرُ الْأضْحِيَّۃِ الْکَبْشُ

ـ’’بہترین قربانی دنبہ ہے۔‘‘

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن آپ کا عمل یہی رہا جیسا کہ اکثر سنن نےسیدنا انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ:

ضَحّٰى رَسُوْلُ اللہِ صلى الله عليه وسلم بِکَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ ذَبَحَھُمَا بِيَدِہ وَسَمّٰي وَکَبَّرَ

آپ نے دو دنبوں کی قربانی کی جو دو سینگ والے او چتکبرے تھے۔ دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا)

بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قربانی کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

کُنَّا نُسمِّن الأضحیۃ بالمدینۃ وکان المسلمون یسمِّنون (رواہ البخاری :۵۵۵۳)

’’ہم مدینہ طیبہ میں اپنی قربانی کے جانوروں کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال پوس کر موٹا کرتے تھے۔‘‘

امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی شخص کو قربانی کیلئے قرض بھی لینا پڑے تو لے لےبشرطیکہ وہ اسکی ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو۔ واللہ أعلم

اور سيدنا علی رضی اللہ عنہ سے ترمذی میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ ہمیشہ دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی کریم کی طرف سے اور ایک اپنے لئے۔ کسی کے سوال کے جواب میں آپ نے کہا مجھ کو نبی کریم نے یہ حکم دیا ہے، میں اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ سيدنا ابراہیم علیہ السلام نے جس جانور کی قربانی دی تھی وہ دنبہ ہی تھا۔ اس لئے اکثر علماء نے کہا ہے کہ بہترین قربانی دنبہ ہے۔

قربانی کے جانور:

رسول اللہ نے قربانی، عقیقہ ہمیشہ انہی آٹھ قسم کے جانوروں میں سے کیا جن کی تفصیل سورۂ انعام میں موجود ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ استنباط پیش کیا ہے جو انہوں نے مندرجہ ذیل آیات سے کیا ہے۔ سورۂ حج میں ایک جگہ فرمایا ہے:

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلنا مَنسَکًا لِيَذکُرُ‌وا اسمَ اللہِ عَلىٰ ما رَ‌زَقَہُم مِن بَہيمَۃِ الأَنعـٰمِ (سورۃ الحج34)

کہ امت کے لئے ہم نے قربانی قرار دی ہے تاکہ اللہ نے جو ان کو مویشی (چار پائے) دے رکھے ہیں، قربانی کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیں۔

اس آیت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کے لئے’’بھیمۃ الانعام‘‘ بولا گیا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے سورۂ حج میںبھی فرمایا:

عَلىٰ ما رَ‌زَقَہُم مِن بَہيمَۃِ الأَنعـٰمِ ۖ فَکُلوا مِنہا وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ‌  (سورۃ الحج 34)

کہ اللہ کا نام لیں ان چار پاؤں مویشیوں پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دے رکھے ہیں۔ لوگو! قربانی کے گوشت سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔

اس آیت سے بکمال وضوح یہ ثابت ہوا کہ قربانی کے جانور وہی ہیں جن کے لئے قرآن میں ’’بَھِیْمَۃُ الانعام‘‘ لفظ بولا جاتا ہے۔

اب قرآن مجید ہی سے اس لفظ کی تشریح تلاش کرتے ہیں تو سورۂ انعام سے اس کی تشریح یہ معلوم ہوتی ہے۔

وَمِنَ الأَنعـٰمِ حَمولَۃً وَفَر‌شًا ۚ کُلوا مِمّا رَ‌زَقَکُمُ اللَّہُ  وقال: ثَمـٰنِيَۃَ أَزو‌ٰجٍ مِنَ الضَّأنِ اثنَينِ وَمِنَ المَعزِ اثنَينِ وقال : وَمِنَ الإِبِلِ اثنَينِ وَمِنَ البَقَرِ‌ اثنَينِ (سورۃ الانعام142۔143)

اللہ نے یہ چار پائے نرو مادہ آٹھ قسم کے پیدا کیے ہیں۔ (بعض اونٹ کی طرح) بوجھ اُٹھانے والے اور (بھیڑ بکری کی طرح) زمین سے لگے ہوئے۔ لوگو! اللہ نے تمہیں جو روزی دی ہے اس میں سے بے تامل کھاؤ۔مزید فرمایا:یہ چار پائے آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں اور بھیڑوں میں سے نر اور مادہ دوبکریوں میں سے نر اور مادہ، پھر فرمایا دو اونٹوں میں سے نر اور مادہ۔ دو گائے کی قسم میں سے نراور مادہ۔

لفظ’’بھیمۃ الأنعام‘‘ کی اس قرآنی تشریح کے بعد یہ مسئلہ واضح ہو گیا کہ قربانی انہی آٹھ قسم کے جانوروں سے دینی چاہئے۔ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کے اس استنباط اور اسی تفسیر کی بنا پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (زاد المعاد) اور دوسرے محدثین نے یہ لکھا ہے کہ:

وھي مختصۃ بالأزواج الثمانيۃ المذکورۃ في الأنعام

کہ قربانی وغیرہ انہی آٹھ قسم کے جانوروں کے ساتھ مخصوص ہے۔

اور رسول اللہ سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ نے اونٹ، گائے، بکری، دنبہ کی قربانی دی ہے۔ گائے کی قربانی اپنی ازواجِ مطہرات کی طرف سے دی تھی اور اونٹ بکری اور دنبہ کی قربانی آپ نے اپنی طرف سے مختلف اوقات میں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی انہی جانوروں کی قربانی ثابت ہے۔

ذیل میں قربانی سے متعلق احکام ومسائل پر مختصر اور مدلل بحث کریں گے۔ ان شاء اللہ

A  قربانی کرنے والا ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو قربانی کرنے تک نہ چھیڑے:

جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو وہ ذوالحجہ کے چاند کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاـٹنے سے رُكا رہے۔ کیونکہ نبی اکرم کاارشاد گرامی ہے :

اذا رأیتم ہلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحِّی فلیمسک عن شعر ہ وأظفارہ

’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کو کاٹنے اور تراشنے) سے بچو۔‘‘( مسلم :۴۱)

اور ایک روایت میں ہے کہ :

فَلاَ یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہِ وَلاَ مِنْ أَظْفَارِہِ شَیْئاً حَتَّی یُضَحِّیْ (ابوداود)

’’ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے یہاں تک کہ قربانی ذبح نہ کرلے ۔ ‘‘

پہلی وضاحت:

ناخنوں سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نہ ناخنوں کو قلم کرے اور نہ ہی توڑے اور بالوں سے بچنے کا معنی یہ ہے کہ وہ بال مونڈھے ، نہ ہلکے کرے ، اور نہ ہی نوچے اور نہ ہی جلا کر انہیں ختم کرے اور وہ بال  کے کسی بھی حصے ،سر مونچھوں،بغلوں ، زیر ناف یا کسی اور عضو کے ہوانہیں چھیڑنا نہیں چاہیے۔ (دیکھئے شرح صحیح مسلم [۱۳/ص:۱۳۸)

دوسری وضاحت :

ناخنوں اور بالوں سے قربانی کرنے تک بچنا ہے اسی طرح صحابہ کرام کاعمل تھا ، جیساکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں ذکر کیا ہے ۔ (رقم المسألہ :986)

تیسری وضاحت:

اگر قربانی کرنے والا شخص ان دس دنوں میں اپنے بالوں یا ناخنوں کو کاٹ لے تو اس پر فدیہ یاکفارہ نہیں ہے۔ ہاںاگر یہ عمل عمداً سرزد ہوا ہے تو اس نے نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرکے گناہ کاارتکاب کیاہے۔ تو اسے چاہیے کہ وہ استغفار اور توبہ کرے۔(دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ)

چوتھی وضاحت:

بال اور ناخنوں کو کاٹنے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کیلئے ہے نہ کہ جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے یعنی گھر والے اس حکم میں داخل نہیں ہیں جیسا کہ حدیث کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں ۔(دیکھئے : شرح الممتع لشیخ صالح العثیمین)

B سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے:

سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا :

ذبح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم أضحیَّتہ ثم قال : یا ثوبان اصلح لحم ھذہ فلم أزل أطعمہ منہا حتی قدم المدینۃ

’’رسول اللہe نے اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا ،پھر فرمایا: اے ثوبان ! اس کاگوشت بنادو۔ میںآپ کے مدینہ تشریف لانے تک اس (گوشت) سے آپ کو کھلاتا رہا۔‘‘(رواہ مسلم ،رقم الحدیث :۱۹۷۵)

اور دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :

 کنّا مع رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی سفرٍ فحضر الأضحی ، فاشرکنا فی البقر سبعۃ وفی البعیرِ عشرۃ  (ترمذی، رقم الحدیث : ۱۵۳۷،  صحیح)

’’ہم رسول اللہe کے ساتھ سفر میںتھے تو عید الأضحی آگئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے‘‘

امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میںاس طرح باب قائم کرتے ہیں:

[باب الأضحیۃ للمسافر والنساء]

’’مسافر اور عورت کیلئے قربانی کے متعلق باب ‘‘

پھر اس باب کے تحت سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لے کر آتے ہیں کہ جس میںنبی رحمتe سے اپنی بیویوں کی طرف سے منی میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتاہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ رسول اللہe کا گائے کو ذبح کرنا عید الاضحی کی قربانی کیلئے تھا۔ (دیکھئے : فتح الباری ، ۱۰/۵)

 قربانی کے جانور کی عمر:

مستحب یہ ہے کہ جانو ردو دانت کا ہونا چاہیے لیکن اگر بھیڑ ،دونبہ مینڈھا کھیرا ہو اور اس کی عمر کم از کم ایک سال کی ہوتوبھی جائز ہے۔ نبی مکرمe نے فرمایا:’’صرف دودانت جانور کی ہی قربانی دو ۔ہاں ! اگر دشواری پیش آجائے تودودانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔‘‘(رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۶۳)

کھیرا دنبہ بھیڑ یا مینڈھا کی قربانی عام حالات میں بھی جائز ہے یعنی اگرچہ دشواری نہ بھی ہو تب بھی کھیرا دنبہ کی قربانی جائز ہے۔ ام بلال رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا : بھیڑ کے دودانت سے کم عمر بچے کی قربانی کرو کیونکہ وہ (یعنی اس کی قربانی) جائز ہے۔ (رواہ الامام أحمد [۶/۳۶۸] ، رقم الحدیث : ۲۷۰۷۲)

امام ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔( دیکھئے : مجمع الزوائد19/4)

اورامام مناوی رحمہ اللہ نے جامع الصغیر کی شرح میں اس حدیث کی سندکو صحیح قرار دیاہے۔

دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا: ’’جہاں دودانت والا جانور کافی ہے وہاں دودانت سے کم عمر والا بھیڑ کا بچہ بھی کافی ہے۔‘‘ (رواہ ابوداؤد، رقم الحدیث :۲۷۹۶ ، صحیح)

وضاحت:

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ (یہ معاملہ تو دنبے اور چھترے کا ہے ورنہ) اس بات پر تو پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ بکری کا کھیرابچہ قربانی کرنا جائز نہیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دو دانت ہو۔ (دیکھئے سوئے حرم محمد منیر قمر ص/۴۲۱)

Dسب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کاکافی ہونا اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو:

جلیل القدر عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے میزبان رسول اللہ ابوایوبtسے پوچھا نبی کریم e کے عہد مسعود میں تم قربانیاں کیسے کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ نبی مکرمe کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کیا کرتاتھا۔ ‘‘

(رواہ الترمذی، رقم الحدیث: ۱۵۰۵، صحیح)

ایک دوسری حدیث میں آتاہے :

علی کل أهل بیت فی کل عام اضحیۃ

’’ہر گھر والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی ہے۔‘‘

(ابوداؤد رقم الحدیث :۲۷۸۸، ترمذی :۱۵۱۸، حسن)

وضاحت :

 یہ اس صورت میں ہوگا کہ سب گھر والے ایک ہی گھر میں رہتے ہو ںاگر چہ وہ شادی شدہ کیوں نہ ہوں اور خرچ بھی ایک ساتھ ہی ہوتاہو۔ اگرچہ زیادہ قربانیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔(دیکھئے: فتاویٰ اللجنہ الدائمہ (۱۱/۴۰۸)

اگر شادی شدہ بیٹا علیحدہ گھر میں رہتا ہو تو وہ اپنی قربانی علیحدہ کرے گا۔ والد کی قربانی اسے کفایت نہیں کرے گی اور نہ بیٹے کی قربانی والد کو کفایت کرے گی ۔

(علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا یہی فتویٰ ہے)

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سنت نبوی نے فیصلہ کردیا ہے کہ ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے چاہے گھر والوں کی تعداد ایک سو یا اس سے بھی زیادہ ہو۔(دیکھئے : نیل الاوطار)

وضاحت :

 یہ معاملہ گھر کے ان افراد سے متعلق ہےجو والد کی زیر کفالت ہوں یعنی والد ہی ان پر خرچہ کرتاہو اگرچہ وہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں۔

Eدودھ والا جانور ذبح کرنا جائز ہے :

چونکہ جو حدیث اس بارے میں وارد ہوئی ہے وہ ضیعف  ہے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :

نَہٰى رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہ عَليْہِ وسَلَّمَ عَنِ السَّوْمِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ ، وَعَنْ ذَبْحِ ذَوَاتِ الدَّرِّ
(رواہ ابن ماجہ :2206وابو یعلی الموصلی :541والحاکم فی المستدرک 234/4وایضاً فی الاحادیث المختارۃ :758 واسنادہ ضعیف کلھم من طریق عبید اللہ بن موسی )

’’رسول مکرم طلوع فجر سے پہلے جانور کو ذبح کرنے سے روکا ہے اور دودھ والے‘‘۔

Fکن جانوروں کی قربانی جائز ہے ؟

قرآن اور حدیث کی روشنی میں صرف بـھیمۃ الانعام کی قربانی جائز ہے اور بـھیمۃ الانعام کا اطلاق اونٹ ، گائے ، بکرا بھیڑ، دنبہ اور مینڈھا پر ہوتاہے۔جیساکہ گذشتہ سطور میں یہ مسئلہ گزر چکا ہے۔

مفسر قرآن امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں انعام سے مراد اونٹ ،گائے اور بکرا (بھیڑ، دنبہ، مینڈھا)ہے ۔ (دیکھئے : تفسیر قرطبی سورۃ الحج آیت نمبر :34)

بلکہ بعض علماء نے تو اس بات پر اجماع ذکرکیاہے ۔

(دیکھئے: المجموع للنووی 394/8وبدایۃ المجتھد 417/1)

فائدہ:

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بکرا اور ہرن کے ملاپ سے جو جانور پیدا ہوتاہے وہ جائز نہیں ہے یہ حکم تو حلال جانور کے ملاپ کا ہے اور اگر حرام جانور سے ملاپ ہوکر جو جانور پیدا ہوا ہو وہ تو بالاولی جائز نہ ہوگا۔

G گائے اور اونٹ میں شراکت داری :

مسألۃ: گائے یا اونٹ میں دو ، تین، چار، پانچ، چھ اور سات تک بھی شراکت کرسکتے ہیں۔(دیکھئے: فتاوی الدین الخالص جلد6 صفحہ :398)چاہے ایک گھر کے افراد ہوں یا مختلف گھروں کے۔

اگر کسی میں قربانی کیلئے مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو توایک گائے کو سات آدمی مل کر خرید لیں ، وہ ان سات آدمیوں اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گی۔ ہاں اونٹ کی قربانی میں دس آدمی بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ جس کی دلیل سنن الترمذی، رقم الحدیث:۹۰۵، ابن ماجۃ ، رقم الحدیث: ۳۱۳۱، ابن خزیمۃ :۲۹۰۸ میںسیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ’’ہم رسول اللہe کے ساتھ سفر میںتھے تو عید الاضحی آگئی، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے۔‘‘(حدیث صحیح ہے۔ البانی)

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اونٹ کے متعلق دونوں حدیثیں ذکر کی ہیں۔ لیکن سات والی کو ترجیح دی ہے۔ ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہے جوگذشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ دوسری حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ اور گائے کی سات آدمیوں کی طرف سے قربانی دی۔ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن اور صحیح کہا یعنی اعلیٰ پائے کی حدیث ہے اس حدیث کی تائید اور بھی بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ مثلاً مسلم میں ہے:

اِشْتَرَکْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِيْ الْحَجِّ وَالعمْرَۃِ کُلُّ سَبْعَۃٍ مِّنَّا فِيْ بَدَنَۃٍ فَقَالَ رَجُلٌ لِّجَابِرٍ أيُشْتَرَکُ فِي الْبَقَرِ مَا يُشْتَرَکُ فِي الْجَزُوْرِ فَقَالَ مَا ھِيَ إِلَّا مِنَ الْبُدْنِ

کہ حج کے موقع پر ہم نبی کریم کے ساتھ تھے اور ہم فی اونٹ سات آدمی شامل ہوئے ایک شخص نے جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا گائے میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ تو جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گائے بھی اسی کے حکم میں ہے۔

تو صحیح یہی ہے کہ گائے اور اونٹ میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور یہی مسلک جمہور محدثین کا ہے امام ترمذی نے بھی یہی لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین عظام رحمہ اللہ کا بالعموم اور ائمہ دین مثلاً سفیان الثوری، ابن المبارک ، احمداور اسحاق رحمہم اللہ کا اسی پر عمل رہا اور اسی کی تائید مسلم شریف کی روایات سے ہوتی ہے۔

بکری کی قربانی میں ایک سے زائد شریک ہو سکتے ہیں یا ایک سے زیادہ کی طرف سے بکری کی قربانی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں حنفیہ اور محدثین کا اختلاف ہے۔ حنفیہ کے نزدیک بکری صرف ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جس کے لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بہترین دلیل ہو سکتی ہے۔

اور سنن ابوداؤد میں ہے کہ آپ نے ایک دنبہ ذبح کیا اور لٹاتے ہوئے یہ کہا:۔

اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُّحَمَّدٍ

یا اللہ تو اس کو محمد اور آلِ محمد کی طرف سے قبول فرما اور حافظ زیلعی نے نصب الرایہ میں مستدرک حاکم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ:

کَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُضَحِّيْ بِالشَّاۃِ الْوَاحِدَۃِ عَنْ جَمِيْعِ أَھْلِہ

کہ نبی اکرم ایک بکری کی تمام گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتے۔

اور دوسری روایت ابن ابی شیبہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے دو دنبے ذبح کیے:

فَقَالَ عِنْدَ الْاَوَّلِ عَنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُّحَمَّدٍ وَّعِنْدَ الثَّانِيْ عَمَّنْ اٰمَنَ بِيْ فَصَدَّقَنِيْ عَنْ أُمَّتِيْ

پہلے پر آپ نے کہا یہ محمد اور آلِ محمد کی طرف سے ہے دوسرے پر کہا کہ یہ ہر اس شخص کی طرف سے ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی میری امت سے۔

مسنداحمد میں ایک روایت ہے کہ ایک صحابی نے کہا کہ ہم سات آدمیوں کی ایک پارٹی تھی۔ ہمیں رسول اللہ نے حکم دیا کہ ہم سب ایک ایک درہم ملا کر ایک بکری خرید لیں۔ چنانچہ اس طرح ہم نے سات درہم جمع کر کے ایک بکری خرید لی۔ پھر آپ کے فرمانے کے مطابق ایک شخص نے ایک پاؤں اور دوسرے شخص نے دوسرا پاؤں، ایک نے ایک ہاتھ اور دوسرے نے دوسرا ہاتھ، ایک نے ایک سینگ دوسرے نے دوسرا سینگ بکری کا پکڑ لیا اور ساتویں نے ذبح کیا اور ہم سب نے تکبیر پڑھی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

اَبُو الْاَسَدِ الْاَسْلَمِيِّ عَنْ اَبِيْہِ عَنْ جَدِّہ قَالَ کُنْتُ سَابِعَ سَبْعَۃٍ مَّعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ قَالَ فَأَمَرَنَا نَجْمَعُ لِکُلِّ رَجُلٍ مِّنَّا دِرْھَمًا فَاشْتَرَيْنَا أُضْخِيَّۃً بِسَبْعِ الدَّرَاھِم وَأَمَرَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِرَجُلٍ إِلٰي قَوْلِہ وَذَبَحَھَا السَّابِعُ وَکَبَّرْنَا عَلَيْھَا جَمِيْعًا )مجمع الزوائد جلد 4 ص21)

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اعلام الموقعین کے آخر میں اس حدیث کو ذکر فرمایا اور لکھا ہے:

”نزل ھٰؤلاء النفر منزلۃ أھل البيت الواحد في أجزاء الشاۃ عنھم لأنھم کانوا رفقۃ واحدۃ”

اس جماعت کو آپ نے ایک گھر والوں کی طرح سمجھ کر فتویٰ دیا کہ ایک بکری ان سب کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ سب رفیق اور ایک ساتھ رہنے والے ہیں۔

ایک اور حدیث سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ہے کہ:

کَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّيْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَعَنْ أَھْلِ بَيْتِہ

کہ ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بکری قربانی کرتا۔

ان روايات کے ذکر کرنےسے مطلب یہ ہے کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے معین مذہب کی حمایت کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’یہ نبی کریم کا خاصا تھا یا منسوخ ہو گیا ہے۔‘‘ کسی طرح بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی کریم کے سوا اور صحابہ نے بھی ایسا کیا اور سیدنا ابو ایوب انصاری کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیر تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ ایک شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے اور اپنی طرف سے ایک قربانی کرتا حَتّٰي تَبَاھَي النَّاسُ پھر ایک یہ وقت آیا کہ لوگوں نے اس میں فخر شروع کر دیا صحابہ سے ثابت ہے اور آپ کے بعد بھی لوگ اس پر عمل کرتے رہے، پھر یہ کہنا کہ یہ خاصہ نبی کریم کا ہے یا یہ منسوخ ہو چکا ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ۔بہرحال اس مسئلہ میں صحیح اور مطابقِ حدیث نبوی اور تعاملِ صحابہ کا یہی ہے کہ ایک بکری کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے سو وہ چاہے کتنے ہی ہوں۔

قربانی کا وقت:

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص نماز سے پہلے ذبح کر لے تو وہ قربانی شمار نہ ہو گی۔ سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ فَإِنَّمَا يَذْبَحُ لِنَفْسِہ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہ وَأَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِيْنَ

کہ جس نے نمازسے پہلے ذبح کیا اس نے اپنے (کھانے پینے کے) لئے ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا۔ اس نے اپنی قربانی پورے طور پر ادا کی اور مسلمانوں کے طریقے کے مطابق عمل پیرا ہوا۔

لیکن قربانی کے آخری وقت کے متعلق بہت سا اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک عید کا روز اور تین روز اس کے بعد یعنی چار دن۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور امام احمد کے ایک قول میں قربانی کے تین دن ہیں۔ بعض کے نزدیک صرف ایک دن اور بعض کے نزدیک عید کے دن سے آخر مہینہ ذوالحجہ تک۔ ان چاروں اقوال میں سے تیسرا قول تو صریح آیت

يَذکُرُ‌وا اسمَ اللہِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَ‌زَقَہُم مِن بَہيمَۃِ الأَنعـٰمِ )سورۃ الحج)

کے خلاف ہے اور کوئی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ صرف عید کا دن قربانی کا دن ہے یا یہ کہ قربانی کا دن ایک ہی ہے چوتھا قول بھی صحیح ہے کیونکہ کوئی مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ہے۔ مراسیل ابی داؤد میں ایک مرسل روایت ہے لیکن مرسل روایت محدثین کے نزدیک حجت نہیں ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں کہ مرفوع احادیث کے خلاف ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ابو امامہ کی روایت امام احمد کے واسطے سے ذِکر کرتے ہیں۔

کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ يَشْتَرِيْ أَحَدُھُمُ الْأُضْحِيَّۃَ فَيَسْمَنُھَا وَيَذْبَحَھُا فِيْ اٰخِرِ ذِيْ الْحَجَّۃِ قَالَ أَحْمَدُ ھٰذَا الْحَدِيْثُ عَجِيْبٌ

مسلمان قربانی کے جانور خرید لیتے اور اس کو خوب موٹا تازہ کرتے اور ذی الحجہ کے آخر میں اس کو ذبح کرتے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عجیب قسم کی ہے۔

بہرحال اس روایت سے بھی مرسل ابی داؤد کی تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو مرسل بھی نہیں ہے بلکہ یحییٰ بن سعید کا قول ہے۔

دوسرا قول صحیح حدیث کے مطابق ہے یعنی عید کے بعد تین دن قربانی کی جا سکتی ہے۔ یہی قول جمہور اہلِ علم کا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:

وَحُجَّۃُ الْجُمْھُوْرِ حَدِيْثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَّفَعَہ حَجَّاجٌ وَفِيْ کُلِّ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ أَخْرَجَہ أَحْمَدُ لٰکِنْ فِيْ سَنَدِہ انْقِطَاعٌ وَّ وَصَلَہ الدَّارَ قُطْنِيُّ وَرِجَالُہ ثِقَاتٌ)فتح الباری)

جمہور کی دلیل سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے کہ تمام ایام تشریق میں ذبح ہو سکا ہے۔ امام احمد نے اس کو روایت کیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے۔ دار قطنی نے اس کو متصل بیان کیا ہے اور اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔

ایام تشریق کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ عید کے دِن تین دن تک ہیں۔ یعنی ۱۳ ذوالحجہ تک دار قطنی نے اس کو دو طریقوں سے متصلاً بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے دار قطنی کے راویوں کو ثقہ کہا ہے۔ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں جبیر بن مطعم کی حدیث کے علاوہ جابر سے بھی یہی حدیث اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نقل کی ہے جو ثقہ اور قابلِ اعتماد راوی ہیں اور اس کے علاوہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم نے ایامِ تشریق کو ایام ’’اکل وشرب‘‘ یعنی کھانے پینے کے دن فرمایا ہے اور اسی لئے ان ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جب عید کے بعد تین دن ان سب احکام میں ایک حیثیت رکھتے ہیں، یعنی یہی تین دِن ایامِ منیٰ، ایامِ رمی اور ایامِ تشریق ہیں۔ ان میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ذبح قربانی کے لئے ایک دن (تیرہویں تاریخ) کو مستثنیٰ کر دیا جائے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اسی قول کو ترجیح دی ہے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے:

أَیَّامُ النَّحْرِ یَوْمُ الْأَضْحٰی وَثَلَاثَۃُ أَيَّامٍ بَعْدَہ

قربانی کے دن عید کے روز سے تین دن بعد تک ہیں۔

اس کے بعد فرماتے ہیں، یہی قول بصرہ کے امام حسن بصری رحمہ اللہ کا اور امامِ اہلِ مکہ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ اور امام اہلِ شام اوزاعی رحمہ اللہ امام فقہاء اہلِ حدیث شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الاختیارات میں فرماتے ہیں:

وآخر وقت ذبح الأضحيۃ آخر أیام التشریق وھو مذھب شافعي وأحمد القولين في مذھب أحمد

قربانی کا آخری وقت ایام تشریق کا آخری دن ہے اور یہی مذہب امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار ص ۳۵۹ جلد ۴ میں اور حافظ ابن کثیر نے تفسیر کی دوسری جلد ص ۵۳ میں اسی مسلک کی تائید کی ہے اور اس کو تمام اقوال میں ارجح بتایا ہے۔ پہلا قول یعنی صرف تین دن قربانی جائز رکھنے والوں کی دلیل مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کی روایت عبد اللہ بن عمر سے ہے، فرماتے ہیں:

الأضحی یومان بعد یوم الأضحیٰ

کہ عید کے دن کے سوا دو دن اور قربانی کے ہیں۔

چونکہ یہ مرفوع حدیث نہیں۔ اس لئے پہلی مرفوع اور صحیح حدیثوں کے مقابلے میں اس کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔

رات کے وقت ذبح کرنا:

بعض اہل علم نے قرآن کے لفظ ’’في أیام معلومات‘‘ (معلوم و معین دنوں میں) سے یہ استدلال کیا ہے کہ رات کے وقت قربانی کرنا جائز نہیں لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآنِ حکیم نے ’’ایام‘‘کا لفظ دن اور رات دونوں کے لئے آیا ہے جیسا کہ فرمایا

 فَتَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِکُمْ ثَلٰثَۃَ أَيَّامٍ

اس لئے سوائے امام مالک رحمہ اللہ کے اور اکثر ائمہ دین کے نزدیک رات کے وقت قربانی کرنا جائز ہے۔

سیدناابن عباس  رضی اللہ عنہ کی ایک روایت طبرانی میں ہے کہ رات کے وقت آپ نے ذبح کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن یہ حدیث بہت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تلخیص  الحبیر میں بیہقی کی ایک روایت نقل کی ہے کہ:

نَھٰي عَنْ جُذَاذِ اللَّيْلِ وَحَصَادِ اللَّيْلِ وَالْأَضْحٰي بِاللَّيْلِ

رات کے وقت کھیت کاٹنے اور کھجور کا درخت کاٹنے اور قربانی کرنے سے منع فرمایا۔

لیکن اس کا کچھ حال معلوم نہیں اور اگر صحیح بھی ہو تو حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہی تحریمی نہیں کیونکہ رات کے وقت کھیت کاٹنے سے اس لئے اغلباً منع کیا ہے کہ کہیں موذی جانور ایذا نہ دے اور کھجور رات کے وقت کاٹنے سے مساکین اور فقراء کے محروم رہ جانے کا خطرہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسباب محرمات نہیں ہو سکتے۔ زیادہ سے زیادہ نہی تنزیہی ہو گی۔واللہ اعلم بالصواب

I بہتر ومستحب یہ ہے کہ آدمی قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرے :

کیونکہ نبی رحمت اپنا جانور اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا پھر ذبح کیا۔

J اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا:

نبی کریم مدینہ منورہ میں عام طور پر اپنے دست مبارک سے قربانی کے جانور خود ذبح کرتے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ نے 63 اونٹ خودنحرکئے اور 37 اونٹ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ نے نحرکیے کیونکہ آپ نے 100 اونٹ کی قربانی دی تھی، تو معلوم ہوا کہ قربانی دینے والوں کو اپنے ہاتھ سے نحریاذبح کرنا چاہئے اور یہی افضل ہے اور کسی کی طرف سے وکالتاً ذبح کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور رسول اللہ نے بھی اپنی عورتوں کی طرف سے گائے کی قربانی حجۃ الوداع کے موقعہ پر دی تھی۔ اگر کوئی شخص خود اپنے ہاتھ سے ذبح نہیں کر سکتا تو اسے اس وقت حاضر رہنا چاہئے اور یہ مستحب ہے جیسا کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رقمطراز ہیںکہ اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایک روایت ہے کہ آپ اپنی بیویوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اپنی قربانی کے جانوروں کے ذبح کے وقت حاضر رہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ہاں! سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذِکر کیا ہے:

اَمَرَ أَبُوْ مُوْسٰي بَنَاتِہ أَنْ يُضَحِّيْنَ بِأَيْدِيْھِنَّ

’’ابو موسیٰ نے اپنی لڑکیوں کو حکم دیا کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔‘‘

امام حاکم مستدرک میں جبکہ امام ہیثمی مجمع الزوائد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی حکم دیا تھا:

يَا فَاطِمَۃُ قُوْمِيْ إِلٰى أُضْحِيَّكِ فَاشْھَدِيْھَا

اے فاطمہ! اپنی قربانی کی طرف جا کر کھڑی ہو جا اور اس کے پاس حاضر رہو۔

امام زیلعی نے تخریجِ ہدایہ میں اس روایت کو تین سندوں سے ذکر کیا ہے۔ مسندِ بزار کی حدیث کو سب پر ترجیح دی ہے۔ بہرحال ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہتر تو یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر اور افضل ہے کہ خود پاس کھڑا ہو۔ ابو موسیٰ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی ذبح کر سکتی ہیں اور کوئی نص شرعی اس کے خلاف نہیں۔

اگر قربانی کا جانور خریدنے یا متعین کر لینے کے بعد بچہ جنے تو اس کو بھی ذبح کرنا ہو گا۔ تلخیص میں سيدناعلی رضي اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذِکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کی اونٹنی اور اس کا ایک بچہ لیے جا رہا ہے تو آپ نے فرمایا:

لَا تَشْرَبْ مِنْ لَّبَنِھَا إِلَّا مَا فَضَل عَنْ وَّلَدِھَا

’’اس کا دودھ صرف اتنا ہی پی سکتے ہو جس قدر اس بچہ سے بچ جائے۔‘‘

اور مسند ابن ابی حاتم میں یہ لفظ بھی ہیں:

فَإِذَا کَانَ يَوْمُ النَّحَرِ فَانْحَرْھَا ھِيَ وَوَلَدَھَا عَنْ سَبْعَۃٍ

’’قربانی کے دن اس کو اور اس کے بچہ کو سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرو۔‘‘

 مگر ذبح کرنے کے بعد مردہ بچہ بر امد ہو، تب تو سوائے امام ابو حنیفہ کے اکثر صحابہ، تابعین اور ائمہ دین کے نزدیک بغیر ذبح کیے ہوئے حلال اور جائز ہے۔ کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم بعض دفعہ گائے، اونٹنی یا بکری ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے کیا ہم اسے کھا لیا کریں یا پھینک دیں؟ آپ نے فرمایا:

کُلُوْہُ اِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَکَاتَہ ذَکَاۃُ أُمِّہِ

’’اگر جی چاہے تو بیشک کھاؤ، اس کی ماں کا ذبح کر لینا اس کے لئے بھی کافی ہے۔‘‘

امام زیلعی نے تخریجِ ہدایہ جلد ۲ ص ۲۶۵ میں آٹھ دس کے قریب اسی مضمون کی حدیثیں نقل کی ہیں اور ان میں سے اگرچہ بعض پر جرح کی ہے، لیکن بعض صحیح بھی ہیں اور انہوں نے بھی اس مشکل کو محسوس کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول اس مسئلہ میں صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ اس لئے تمام احادیث کے آخر میں ابن المنذر کا قول نقل کر دیا ہے۔ کسی صحابی نہ کسی تابعی نہ کسی عالم کا یہ قول ہے کہ ذبح کے بعد پیٹ سے نکلا ہوا بچہ ذبح کیا جائے، سوائے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اور اُمید نہیں کہ ان کے شاگردوں نے ان سے اتفاق کیا ہو۔واللہ اعلم

K قربانی کے جانور میں سے بطور اجرت قصاب (قصائی ) کو کچھ نہ دیا جائے :

نبی کریم نے قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت قصائی کو دینے سے منع فرمایا ہے۔ہاں اگر پوری اجرت دینے کے بعد اس کی غربت کے پیش نظردیگر مسکینوں کی طرح کچھ دے دیا جائے تو کچھ حرج نہیں ۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس بنا پر قصائی اپنی اجرت میں کمی نہ کرے،اگر ایسا خدشہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ اس کو قربانی میں سے کچھ بھی نہ دیں۔ جیسا کہ نبی اکرمe نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ کی قربانی کے اونٹوں کے نحر کرنے اور ان کے گوشت کی تقسیم کی نگرانی کریں ، اور ان کاگوشت، کھالیں اور جھولیں (پالان) سب کچھ تقسیم کردیں اورقصابوں کو ذبح کرنے کے عوض اس میں سے کچھ نہ دیں۔اس حدیث کو روایت کرنے کے بعدسیدنا علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم قصابوںکو اجرت اپنے پاس سے دیا کرتے تھے۔ (رواہ البخاری :۱۶۱۶)

L قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچ کر اسکی اجرت کھانا جائز نہیں:

ہاں البتہ خود استعمال کرسکتے ہیں ، مسند امام احمد میں ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا : حج کے موقع پر منیٰ میں دی جانے والی اور عام قربانی کا گوشت مت بیچوبلکہ خود کھاؤ یا صدقہ کرو ، اور قربانی کے جانوروںکی کھالیں بھی مت بیچو۔ (بلکہ وہ بھی صدقہ کر دیا کرو یا پھر ) اس سے خود فائدہ اٹھاؤ۔ (مسند احمد –۴/ ۱۵

بلکہ ایک حدیث میں آتاہے کہ

من باع جلد أضحیۃ فلا أضحیۃ لہ (رواہ الحاکم وحسنہ الشیخ الألبانی فی الترغیب والترھیب ، رقم الحدیث :1665)

’’جس شخص نے اپنی قربانی کی کھال بیچ دی تو اس کی قربانی نہیں ہوگی۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چمڑے یا کھال کو بیچ کر اس کی قیمت اپنے استعمال میں لانا تو منع ہے البتہ اس چمڑے کو دباغت دیکر (رنگ کر) پکا لے اور اپنے بیٹھنے یا کسی دوسرے استعمال میں لائے تو اس کی اجازت ہے۔

M  ذبح کرنے کا مسنون طریقہ :

جانور کو ذبح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جانور کی نظروںسے دور جہاں وہ دیکھ نہ سکے اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لے ، تا کہ وہ چھری کو تیز ہوتا دیکھ کرتکلیف محسوس نہ کرے، اور چھری کو تیز اس لئے کرے تاکہ جلد ذبح ہو جانے کی صورت میں جانو ر کو دیر تک چھری کے کاٹنے کی تکلیف نہ ہوتی رہے۔ اس سلسلہ میں امام طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر (۱۱/۳۳۳) میں سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ذکرکی ہے کہ نبی اکرمe  کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹا کر ، اس کی گردن پر پاؤں رکھے اپنی چھری تیز کر رہا تھا اور بکری یہ سب دیکھ رہی تھی ، اس پر نبی رحمتe نے فرمایا:

أفلا قبل ھذا؟ أ ترید ان تمیتھا مرّتین

 کیا یہ کا م اس سے پہلے نہیںہو سکتا تھا َ ؟ کیا تو اس بیچاری کی دو مرتبہ جان لینا چاہتا ہے۔‘‘( اس حدیث کی سند صحیح ہے)

اور مستدرک حاکم میں ہے (۴/۲۳۱) کیا تو اسے کئی موتیں مار کر اس کی جان لینا چاہتا ہے؟ تم نے اسے لٹانے سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کرلی؟ (امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اورعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے) بلکہ نبی آخر زمانe کا طریقہ بھی یہی تھا ۔ (دیکھئے ابو داؤد ۲۷۹۲)

N  اونٹ کو نحر کرنے کا طریقہ:

اونٹ کو نحر کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اسے قبلہ رخ کھڑا کرکے اس کی اگلی بائیں ٹانگ ٹیڑ ھی کرکے باندھ دی جائے او ر اسے تین ٹانگوں پر کھڑاہونے کی حالت میں تکبیر پڑھ کر اس کے سینے اور گردن کی جڑ کے درمیان والی گڑھا نما جگہ میں نیزہ یا کوئی تیز دھار آلہ مار ا جائے جس سے اس کی رگ کٹ جائے ، اسکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

 فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْہَا صَوَافَّ  (الحج :۳۶)’

 تم ان پر کھڑے ہونے کی حالت میں ہی اللہ کا نام لو۔

صواف :

صواف کی تفسیر ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کھڑا کرنے سے کی ہے ۔اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔

اور ابو داؤد کی حدیث میںسیدنا جابر  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی کریم اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کو اس حالت میں ذبح کرتے تھے کہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی ماندہ تین پاؤں پر کھڑا ہوتا۔ (دیکھئے: سنن أبی داؤد ، رقم الحدیث :۱۷۶۴، اس حدیث کو امام نووی اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)

اونٹ بٹھا کر نحر کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے چنانچہ سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اونٹ کو ذبح کرنے کیلئے بٹھا دیا تھا تو آپ نے اس کو ایسے کرنے سے منع فرمایا اور سنت کے مطابق ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا :

ابعثہا قیاماً مقیّدۃ سنۃ محمدا (رواہ البخاری الحدیث :۱۷۱۳)

’’اسے کھڑا کرکے باندھ لو یہی سنت محمدی ہے۔ ‘‘

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس حدیث میں مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ذبح کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے ۔ (دیکھئے فتح الباری ۳/۶۹۸)

O ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی اہمیت:

علماء کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت واجب یا شرط ہے چونکہ اگر بسم اللہ پڑھنا سنت یا واجب مان لیا جائے تو اگر کوئی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو وہ جانور کھایا جاسکتاہے اور اگر بسم اللہ پڑھنا شرط مان لیا جائے تو اس جانور کا کھانا ناجائز ہوجائے گا۔ اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہی لگتی ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں ذکر کیا ہے اورالشیخ محمد بن صالح العثیمین نے شرح الممتع میں تفصیل سے ذکر کیاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ (الأنعام:121)

’’اورنہ کھاؤ جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہواور یہ کام نافرمانی کا ہے۔‘‘

اور نبی کریم کا یہ فرمانا:’’جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ تعالیٰ کانام لے لیا گیا ہوتو وہ کھالو۔‘‘ (متفق علیہ ۔بخاری، رقم الحدیث:۲۴۸۸، مسلم، رقم الحدیث:۱۹۶۸) یہ آیت اور حدیث بسم اللہ کے شرط ہونے کی دلیل ہے۔واللہ أعلم بالصواب

جانور ذبح کرنے کی کیفیت:

جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا مسنون ہے ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جانور کو قبلہ رخ کھڑا کرکے ذبح یا نحر کرنے کو مستحب سمجھتے تھے بلکہ اگر کسی جانور کو غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے ذبح کیا گیا ہوتا تو وہ اس کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔(اسے امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں بسند صحیح ذکر کیاہے)

جانور کو قبلہ رخ لٹاکر اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر اپنا دایاں پاؤں رکھ لیں ، اور بسم اللہ اور دعا پڑھ کر ذبح کریں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے اور اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر پاؤں رکھا جائے تاکہ ذبح کرنے والے کیلئے دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ میں جانور کا سر پکڑنے میں آسانی رہے۔(فتح الباری، ۱۰ ص ۱۸ )

 قربانی کے جانوروں میں مطلوبہ اوصاف:

 نبی کریم نے ایسا مینڈھا خرید کر لانیکا حکم فرمایا جو سینگوں والا ہو جس کی ٹانگیں ، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں۔( صحیح مسلم ، ۱۳/۱۲۱)

دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم ایسا مینڈھا قربانی کیا کرتے تھے جو فربہ اور موٹا تازہ ہوتا تھا۔ جس کی آنکھوں ، منہ اور (پاؤںکے قریب سے ) ٹانگیں سیاہ اون والی ہوتی تھیں۔ (ابو داؤد ، ۲۷۹۶  اس حدیث کو ترمذی، حاکم ، بغوی اورامام ذہبی نے صحیح کہا ہے)

قربانی والے جانوروں کے عیوب ونقائص:

 وہ عیوب و نقائص جو قربانی والے جانوروں میں نہیں ہونے چاہئیں ان میں سے کانوں اور آنکھوں میں پائے جانے والے عیوب کو بطور خاص دیکھ لینے کا حکم ہے، چنانچہ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (قربانی کا جانور خریدتے وقت) اس کی آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں ( کہ ان میں کوئی عیب نہ ہو) ۔اس حدیث کو ترمذی ، نسائی ، ابوداؤد، ابن ماجہ ، مسند احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے۔

 قربانی کا جانور خریدنے کے بعد جانور کا زخمی ہوجانا یا عیب دار ہوجانا:

اگر قربانی کا جانورخریدنے کے بعد زخمی یا عیب دار ہوجاتاہے تو اس جانور کی قربانی صحیح ہوگی۔ (شیخ محمد بن صالح العثیمین کی بھی یہی رائے ہے۔(دیکھئے: شرح الممتع ۵۱۵/۷)

 جانور کا اندھا ، کانا ، بیمار یا لاغر ہونا:

 نبی اکرم سے پوچھا گیا کہ قربانی والے جانوروں میں کن عیوب سے بچنا ضرور ی ہے ؟ تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاچار عیوب سے

1 لنگڑاپن ظاہر ہو،

2 کانا کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو، 

3بیمار کہ جسکی بیماری نمایاں ہو، 

4 اور لاغر کمزور کہ جس میں چربی اور ہڈی میں گودا نہ رہا ہو۔ (اس حدیث کو اہل سنن الاربعۃ نے روایت کیا اور شیخ الالبانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے) دیکھئے ارواء الغلیل ، ۱۱۴۸

کٹے ہوئے کان ، ٹوٹے ہوئے سینگ اور اندھے جانور :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم آنکھو ں اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ لیا کریں اور کوئی ایسا جانور قربانی کیلئے نہ لیں جس کا کان سامنے یا پیچھے کی جانب سے کٹا ہو ا ہو، (اور اسے لٹکتا ہی چھوڑدیا گیا ہو) اور نہ ایسا جانور جس کے کان لمبائی میں چیرے ہوئے ہوں، یا جس کے کان میں گول سوراخ ہوں۔ (یہ حدیث شاذ ہے دیکھئے ارواء الغلیل )

اور دوسری روایت میںسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ہمیں ایسے جانور کی قربانی دینے سے منع فرمایا جس کا آدھا یا آدھے سے زیاد ہ سینگ ٹوٹا ہو ا ہو، اور کا ن کٹا ہوا ہو۔ (ان دونوں حدیثوں کو سنن اربعہ نے روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے )

 مشین لگے جانور کی قربانی:

خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی سنت سے ثابت ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم کے پا س دو سینگوں والے ، چتکبرے، بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپ نے ان دونوںمیں ایک کو پچھاڑاا ور فرمایا:

بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَرُ

 محمد اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے تیری توحید کی اورتیرے پیغام (الٰہی) کو پہنچانے کی شہادت دی ۔ (رواہ ابو یعلی اور امام ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے، اسی طرح شیخ الالبانی نے بھی حسن قراردیا ہے ) دیکھئے ارواء الغلیل (۴/۲۵۱)، مجمع الزوائد (۴/۲۷)

دوسری حدیث میں سیدناابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم جب قربانی کرنا چاہتے تو دو ایسے مینڈھے خریدتے جو بڑے قد آور ، موٹے تازے ، سینگوں والے ، سیاہ و سفید رنگ کے اورخصی ہوتے تھے۔ (اس حدیث کو امام احمد نے ۶/۳۹۱، بیہقی نے ۹/۳۱۸  اپنی سنن میں اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں روایت کیا اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے ، حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد ۴/۲۴ میں اور علامہ شوکانی نے الدراری المضیہ ۲/۱۲۴ میں اس کو حسن کہا ہے)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا خصی ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔

غیر خصی جانور قربانی کرنے کی دلیل : ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سینگوں والے غیر خصی جانور کی قربانی کیا کرتے تھے اور اس کی آنکھیں، منہ اور ہاتھ پاؤں سیاہ ہوتے تھے۔ (ابو داؤد ، ۲۷۹۳، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

W حاملہ جانورکا ذبح اور اسکے بچے کو کھانا:

سیدناابو سعید خدر ی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم اونٹنی ، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں کیا ہم اس کو پھینک دیں یا کھا لیں؟ آپ نے فرمایا : اگر پسند کرو تو اس کو کھا لو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے۔ (ابو داؤد : ۲۸۴۲، اس حدیث کو شیخ الالبانی نے صحیح قرار دیا ہے)

وضاحت:

اس حدیث میں ماں کے ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کو ذبح کئے بغیرکھانے کے جواز کا بیان ہے۔

۲۔ مذکورہ بالا حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کاکھانا ضروری نہیں ہے کیونکہ نبی کریم نے فرمایا: کلوہ ان شئتم اگر تم چاہو تو اس کو کھا لو۔

۳۔ اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے ، یہی اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے ۔ (المغنی ، ۱۳/۳۱۰)

اس بچے کی قربانی کو دوسری قربانی شمار نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ مغیرہ بن حذف العیس سے مروی ہے کہ ہم رحبہ کے مقام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ہمدان سے ایک آدمی آیا جو ایک گائے اور اس کا بچہ لیے جارہا تھا۔ اس نے کہا: میں نے یہ گائے قربانی کے لئے خریدی تھی اور بعد میں اس نے بچہ دے دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کا دودھ مت پیو سوائے اس کے کہ جو اس کے بچے سے زائد بچ جائے اور ساتھ ہی یہ فرمایا :

فإذا کان یوم النحر فانحرھا ھی وولدھا عن سبعۃ

’’جب قربانی کا دن آئے تو جانور اور اس کے بچے کو بھی ساتھ ہی ذبح کر دینا۔‘‘ (العلل لابن ابی حاتم حدیث نمبر (۱۶۱۹) ابن ابی حاتم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی تلخیص الحبیر میں ان کی تصحیح کو نقل کیا ہے (۲/۴/۱۴۶)

 قربانی کے گوشت کی تقسیم :

قرآن و سنت سے قربانی کا گوشت کھانا، کھلانا ، غریبوں کو دینا اور ذخیرہ کرنا سب ثابت ہے۔

علماء کرام کے اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق گوشت کی تقسیم میں کوئی پابندی نہیں چاہے تو تین حصوں میں تقسیم کرے یا دو حصوں میں تقسیم کرے اور اگر پورا گوشت ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تو پورا گوشت بھی ذخیرہ کرسکتا ہے(اگرچہ یہ اچھا عمل نہیں ہے)۔

اس کی دلیل نبی کا یہ قول ہے:

نہیتکم عن لحوم الاضاحی فوق ثلاث فأمسکو  ما بدا لکم (صحیح مسلم رقم الحدیث: ۱۹۷۷)

 میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانیوںکے گوشت جمع کرنے سے روکا تھا ، پس اب تم جتنا چاہو (اس میں سے اپنے )کھانے کیلئے روک (یعنی ذخیرہ کر) لو۔

قربانی کےجانور کو بغیر کسی عذر کے تبدیل کرنا:

اس بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتاہے کہ کیا کسی قربانی کے جانور کو معین کرنے کے بعد تبدیل کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟جن علماء نے تبدیل کرنے کو ناجائز کہا ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی نے یہ چاہاتھا کہ اپنا قربانی کا جانور بیچ کر اس کی قیمت سے کوئی دوسرا جانور خرید لے تو اسے نبی کریمe نے حکم دیا۔

لَا ، إِنْحَرْھَا إِیَّاھَا’’نہیں ، اسی کو ذبح کرو‘‘۔

(اسے ابوداؤدنے حدیث نمبر (1756) اور بیہقی نے (۵/۲۴۱) امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ کبیر میں (۲/۲۳۰) روایت کیاہے لیکن یہ حدیث ضعیف اور قابل حجت نہیں ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی سند غریب ہے یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور شیخ الالبانی aنے بھی اس حدیث کو سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ضعیف کہا ہے)

البتہ دوسرے علماء کی یہ رائے ہے کہ اگر متعین کردہ جانور سے اچھا جانور لیکر قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو تبدیل کرنا جائز ہے۔ امام احمد ، امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسی مذہب کو اختیار کیاہے۔

جانور خریدنے کے بعد رونما ہونے والے عیب:

کبھی ایسا ہوتاہے کہ قربانی کا جانور خرید لینے کے بعد کوئی عیب لاحق ہوجاتاہے جیسے سینگ ٹوٹ جانا ، لنگڑا پن آجانا یا بیمار پڑ جانا تو ایسی صورت میں بھی علماء نے اس کی قربانی جائز قرار دی ہے۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قربانی کیلئے ایک دنبہ خریدا جس پر بعد میںایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی چکی کاٹ ڈالی ۔ اس دنبے کے بارے میں میں نے نبی اکرم سے پوچھا تو فرمایا ’’ضَحِّ بِہٖ‘‘ اس کی قربانی کرو اگرچہ یہ قصہ سخت ضعیف ہے جیسا کہ ابن حجر ، امام شوکانی رحمہما اللہ نے بیان کیا ہے۔

الغرض اگر کوئی شخص صاحب حیثیت ہوتو اس کے لئے ایسا جانور بیچ کر اُسے بدل لینا افضل اور بہتر ہے۔

[ میت کی طرف سے قربانی کرنا

اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں ۔ ایک فریق کا کہناہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔

ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں یہ ہے کہ نبی  کریم نے دو مینڈھے قربانی کیلئے ذبح کیے ایک اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے لوگوں کی طرف سے۔ (دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۴۹)

تو اس حدیث میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوکہ فوت ہوچکے ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ نبی کریم کے خصائص میں سے ہے لہٰذا آپ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی دینا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔(دیکھئے :ارواء الغلیل ۴/۳۵۴)

دوسری دلیل :سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں یہ ہے کہ وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ایک نبی کریم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ  کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ہمیشہ آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ (اس روایت کو امام ابوداؤد ،رقم الحدیث ۲۷۸۷، امام ترمذی ، رقم الحدیث :۱۴۹۵) لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانی نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم

اس مسئلہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سے مستقل قربانی نہیں ہوتی ہاں اگر میت نے وصیت کی ہو یا زندوں کی قربانی میں میت کی طرف سے بھی نیت کرلی جائے تو صحیح ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے زیادہ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں سے تھے ان سے یہ چیز ثابت نہیں کہ وہ اپنی میتوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہوں اسی رائے کو الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے : فتاوی الدین الخالص، شیخ امین اللہ پشاوری ۶/۴۲۷) واللہ اعلم بالصواب

اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی دی جا سکتی ہے اور اس میں سے کچھ صدقہ کرنا اور کچھ کھا لینا جائز ہے۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے