فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم                                                        ترجمہ : شفقت الرحمن

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد: تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے اور اُسی کو خلوت و جلوت میں اپنا نگہبان سمجھو۔

مسلمانو!اللہ تعالی جسے چاہے اپنی مخلوق میں سے چن لے،

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ  (القصص : 68)

اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جسے چاہے چن لیتا ہے۔

چنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں، اور لوگوں میں سے پیغمبر چنے، گفتگو میں سے اپنے ذکر کو، زمین پر اپنے گھروں کو ، مہینوں میں سے رمضان اور حرمت والے مہینوں کو چنا۔

دورِ جاہلیت میں لوگ حرمت والے مہینوں میں من مانی کمی زیادتی کرتے رہتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے روزے اور حج اپنے اصلی وقت پر نہیں ہوتے تھے۔

تاہم اللہ تعالی نے اس امت پر احسان فرماتے ہوئے ہمارے نبی محمد عربی کو مبعوث فرمایا تو اس زمانہ اپنی اصلی ترتیب میں آیا، چنانچہ آپ نے جب حج کیا تو اس سال حج ذو الحجہ کے مہینے میں ہی تھا، اور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’بیشک وقت دوبارہ اپنی اصلی حالت پر لوٹ آیا ہے، جس طرح وہ آسمان و زمین کی تخلیق کے دن تھا۔‘‘(متفق علیہ)

اس طرح مہینوں کی تعداد پوری اور ان کا حساب درست ہو گیا، اور بالکل اسی صورت میں آ گیا جیسے اللہ تعالی نے اسے بنایا تھا۔

شب و روز کی ایک دوسرے پر برتری ان میں موجود خیر و برکات لوٹنے کی ترغیب دیتی ہے، اور نبی اکرم نے ویسے ہی پانچ چیزوں کے زوال سے پہلے انہیں غنیمت سمجھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے ، صحت کو بیماری سے ، مالداری کو غربت سے ، فراغت کو مصروفیت سے ، اور زندگی کو موت سے پہلے۔(بخاری)

عشرہ ذو الحجہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، اس کی راتوں کی قسم اٹھاتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ (الفجر : 12)

قسم ہے فجر کے وقت کی اور دس راتوں کی ۔

یہ مہینہ حرمت والا بھی ہے، بلکہ “أشهر المعلومات” کا سب سے آخری مہینہ ہے، انہیں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ} حج معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔[البقرة : 197]

ان ایام کے دن کے اوقات رمضان کے آخری عشرے کے دنوں سے بھی افضل ہیں، آپ کا فرمان ہے: ’’دنیا میں افضل ترین دن عشرہ ذو الحجہ کے دن ہیں۔‘‘ (ابن حبان)

عشرہ ذو الحجہ کے ممتاز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں میں تمام بڑی عبادات یعنی: نماز، نفلی روزے، صدقہ، اور حج یکجا ہو جاتے ہیں جو کہ کسی اور دنوں میں ممکن نہیں ہیں۔

ان دنوں میں کیا ہوا عمل دیگر ایام میں کیے ہوئے اُسی عمل سے کہیں زیادہ اللہ کے ہاں محبوب ہے، آپ کا فرمان ہے:کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل ذو الحجہ کے ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے بھی افضل ہو، کہا گیا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، اِلا کہ کوئی شخص اپنی جان و مال لیکر نکلا اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا۔ (ابو داود، اصل روایت صحیح بخاری میں ہے)

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عشرہ ذو الحجہ کے اعمال اللہ تعالی کے ہاں دنیا کے دیگر ایام سے بلا استثنا محبوب ترین اعمال ہیں۔

سلف صالحین رحمہم اللہ ان ایام میں نیکیوں کیلئے خوب محنت کرتے، چنانچہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہوتا تو اتنی محنت و لگن سے عبادت کرتے کہ کوئی دوسرا اتنی عبادت نہیں کر سکتا تھا۔

یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اس عشرے میں مختلف شرعی عبادات کر سکتے ہیں، جن میں کثرت سے ذکر الہی سر فہرست ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ

معلوم دنوں میں اللہ کا نام لیکر ذکر کریں۔[الحج : 28]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کی تفسیر میں فرماتے ہیں: “یہ عشرہ ذو الحجہ ہی ہیں”ان ایام میں کثرت سے ذکر الہی افضل ترین عبادات میں شامل ہے، آپ کا فرمان ہے: اللہ کے ہاں کوئی دن ایسا نہیں ہے جو ذو الحجہ کے ان دس دنوں سے زیادہ عظیم ہو اور کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے زیادہ محبوب ہو، اس لئے ان دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، اور الحمد للہ کا ورد کرو۔ ( مسند احمد)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ان دس ایام میں دیگر ایام کی بہ نسبت زیادہ ذکر و اذکار کرنے چائیں، جبکہ یوم عرفہ میں پورے عشرے سے زیادہ ذکر کریں۔

قرآن مجید کی تلاوت افضل ترین ذکر ہے،یہی نورِ ہدایت، اور چیزوں کو واضح کرنے والا ہے۔

عشرہ ذو الحجہ میں مطلق طور پر ہر وقت تکبیریں کہنا ان ایام کا خاصہ ہے، چنانچہ سیدنا ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما عشرہ ذو الحجہ کے دوران بازار میں نکل کر تکبیرات کہتے اور لوگ بھی ان کی تکبیرات کیساتھ تکبیریں کہتے۔ (بخاری)

اور نمازوں کے بعد اہتمام کیساتھ تکبیرات کہنا یوم عرفہ کی فجر سے شروع کیا جاتا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’تکبیرات کے بارے میں جمہور سلف صالحین، فقہائے کرام، صحابہ، اور ائمہ کا صحیح ترین موقف یہی ہے کہ تکبیرات یوم عرفہ کی فجر سے لیکر ایام تشریق کے آخر تک ہر نماز کے بعد کہی جائیں گی ۔‘‘

اسی طرح ذو الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ان دنوں میں روزے رکھنا یقینی طور پر مستحب ہے۔

مالی صدقہ بھی نیکی ہے، صدقہ کرنے سے مشکل کشائی، اور دکھوں کا مداوا ہوتا ہے، اور اگر صدقہ کسی پر ضرورت کے وقت اور فضیلت والے لمحات میں کیا جائے تو صدقہ کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

دینی طور پر توبہ کا درجہ بھی بہت بلند ہے، یہی کامیابی و کامرانی کا سبب ہے، بلکہ اللہ تعالی نے ہمہ قسم کے گناہوں سے توبہ پوری امت پر فرض کی ہے، چنانچہ اللہ کی اولاد اور بیوی کا دعوی کرنے والوں کو اللہ تعالی نے فرمایا:

أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ (المائدة : 74)

یہ لوگ کیوں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟

جبکہ مؤمنوں کو توبہ کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:

وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

مؤمنو! تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو، عین ممکن ہے کہ تم کامیاب ہو جاؤ گے۔[النور : 31]

بلکہ نبی کریم ایک دن میں اللہ تعالی سے سو بار توبہ کرتے تھے، چنانچہ آپ کا فرمان ہے:لوگو! تم اللہ تعالی سے توبہ کرو، کیونکہ میں بھی ایک دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔(متفق علیہ)

جبکہ ہمیں توبہ کرنے کی آپ سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، اور ویسے بھی توبہ کے ایام انسان کیلئے افضل اور بہترین ایام ہوتے ہیں، جیسے کہ آپ نے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو [ان کی توبہ قبول ہونے پر]فرمایا تھا: جب سے تمہیں تمہاری والدہ نے جنم دیا ہے اس وقت سے اب تک سب سے بہتر دن تمہیں مبارک ہو۔ (متفق علیہ)

اور یہ کتنی ہی اچھی بات ہوگی کہ انسان ایسے دنوں میں اللہ تعالی سے توبہ کرے جو اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین بھی ہیں! اور اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرے تو اس کے درجات بلند بلکہ گناہ بھی نیکیوں میں بدل جاتے ہیں۔

عشرہ ذو الحجہ میں بیت اللہ کا حج بھی ہے، جو کہ اسلام کا ایک رکن، اور اسلام کی بنیاد ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل عمران : 97)

 بیت اللہ کے حج کی استطاعت رکھنے والوں پر اللہ کیلئے حج فرض ہے۔

اسی طرح آپ کا فرمان ہے: لوگو! اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے، اس لئے حج کرو۔ (مسلم)

اللہ تعالی کے ہاں حج بیت اللہ افضل ترین اعمال میں شامل ہے، چنانچہ نبی کریم سے استفسار کیا گیا: “کونسا عمل افضل ہے؟” تو آپ نے فرمایا: اللہ اورا س کے رسول پر ایمان لانا، پھر کہا گیا :اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا:جہاد فی سبیل اللہ، پھر کہا گیا: اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا: حج مبرور (متفق علیہ)

حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہی ہے، حج کی وجہ سے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں، آپ کا فرمان ہے: جو شخص حج کرے اور بیہودگی و فسق و فجور نہ کرے تو وہ ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہو۔ (متفق علیہ)

بلکہ اللہ تعالی اہل عرفات کی وجہ سے اہل آسمان پر فخر فرماتا ہے۔

حج میں ہمیں دینی، دنیاوی، اقتصادی، اور اخروی عظیم اسباق ، دروس اور اہداف حاصل ہوتے ہیں، ان میں سر فہرست عقیدہ توحید ہے، کیونکہ حج کا تلبیہ ہے:

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ

اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، یقیناً سب تعریفات تیری ہیں، اور نعمت و بادشاہی بھی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔

اسی طرح اخلاص اور رسول اللہ کی اتباع کا سبق بھی ملتا ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ   (البقرة : 196)

’’اور اللہ ہی کیلئے حج و عمرہ مکمل کرو۔ ‘‘

اسی طرح فرمان نبوی ہے: تم مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔ (مسلم)

نیز حج کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ :

لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (الحج : 28)

تا کہ لوگ دنیاوی منافع حاصل کریں۔کہ دنیا میں انہیں نفع حاصل ہو، اور آخرت میں جنت کے داخلے کی صورت میں فائدہ ہو، اور {وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ} اور معلوم دنوں میں اللہ کا نام لیکر ذکر کریں۔[الحج : 28]

حج ہمیں اس دنیا سے کوچ کرنے کی یاد دہانی بھی کرواتا ہے، کیونکہ حج سال کے آخر میں ہوتا ہے، نیز نبی کریم نے بھی اپنی زندگی کے آخر میں حج ادا فرمایا، اسی حج میں آپ نے اپنے صحابہ کرام کو الوداع کیا، اور اسی دوران اللہ تعالی نے نبی کریم کی امت کیلئے دین مکمل فرمایا، اور عرفات کے میدان میں یہ آیت نازل ہوئی: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اورتم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے۔ [المائدة : 3]

کسی بھی شرعی عذر کی وجہ سے حج نہ کرنے والا حجاج کیساتھ اجر میں برابر کا شریک ہوگا، بشرطیکہ نیت سچی ہو، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی سچی نیت و ارادے کی وجہ سے حج کیلئے جانے والوں سے بھی آگے نکل جائے۔

انہی دنوں میں یوم عرفہ بھی ہے، جس کا روزہ گزشتہ اور پیوستہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، نیز فرمانِ نبوی ہے:یوم عرفہ سے بڑھ کر کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں اللہ تعالی بندوں کی اتنی بڑی تعداد کو جہنم سے آزاد فرماتا ہو۔ (مسلم)

اور بہترین دعا بھی وہی ہے جو عرفہ کے دن کی جائے۔

انہی دنوں میں یوم نحر یعنی قربانی کا دن ہے، جو کہ قربانی کے ایام میں سب سے افضل ہے، بلکہ یہی دن “حج اکبر” کا دن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ

 حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے۔[التوبة : 3]

قربانی کا دن اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ عظمت والا ہے، آپ کا فرمان ہے: اللہ کے ہاں سب سے عظیم دن یوم نحر اور پھر ٹرو کا دن ہے۔ ( ابو داود)

یہ دن مسلمانوں کی دو عیدوں میں سے ایک ہے، یہ دن اسلام کے ایک عظیم رکن ادا کرنے پر خوشی و مسرت کا دن ہے، کچھ لوگ اپنی اس خوشی میں ذکر الہی سے غافل ہو جاتے ہیں، حالانکہ اس وقت بھی اللہ کو یاد کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: { وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ} اور معلوم دنوں میں اللہ کا نام لیکر ذکر کریں۔[الحج : 28] اور اس سے مراد ایام تشریق ہی ہیں۔آپ کا فرمان ہے: (ایام تشریق ) یعنی: عید کے دن’’ کھانے پینے، اور اللہ کو یاد رکھنے کے دن ہیں‘‘۔ (مسلم)

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جن دلائل سے عشرہ ذو الحجہ کی فضیلت ثابت ہے، انہی دلائل سے ایام تشریق کی فضیلت بھی ثابت ہوگی۔

عید اور ایام تشریق میں مالی اور بدنی عبادت ہے، جو کہ اللہ تعالی کو بہت ہی زیادہ محبوب بھی ہے، بلکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر نماز کیساتھ فرمایا اور کہا: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} اپنے رب کیلئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ [الكوثر : 2] اللہ تعالی نے قربانی کرتے ہوئے اخلاص کی دعوت دی ہے، تا کہ قربانی کا مقصد صرف رضائے الہی ہو، فخر، ریا کاری، شہرت اور رسم مقصود نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

{لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ}

اللہ تعالی تک قربانی کا گوشت اور خون کبھی نہیں پہنچے گا، لیکن تمہارا تقوی اس کے پاس ضرور جائے گا۔[الحج : 37]

خود رسول اللہ نے اپنے ہاتھوں سے دو چتکبرے اور سینگوں والے مینڈھے ذبح فرمائے۔ (متفق علیہ)

قرضہ اٹھا کر قربانی کرنا اور اللہ تعالی سے بدلے کی امید رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کے بارے میں شکوی شکایت کرنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ قربانی کا ثواب بھی اللہ کے ہاں بہت عظیم ہے۔

جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہے اس پر اپنے بال اور ناخن کاٹنا حرام ہے، آپ کا فرمان ہے: جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو، تو ذو الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اور قربانی ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن مت کاٹے۔ (مسلم)

مسلمانو!سعادت مند وہی ہے جو مہینوں، ایام، اور لمحات کی شکل میں آنے والے خصوصی اوقات کو غنیمت سمجھتا ہے، اور مختلف عبادات بجا لا کر قرب الہی تلاش کرتا ہے، امید واثق ہے کہ اسے بھی رحمت کی برکھا مل جائے، اور مستقبل میں جہنم کے خطرات سے بچ جائے، بلکہ آسمان و زمین کے برابر چوڑائی والی جنت پا لے، اور وہاں پر دائمی ، سرمدی، اور ابدی خوش و خرم زندگی گزارے، اسے حاصل کرنے کیلئے سب کو بڑھ چڑھ کر آگے نکلنا چاہیے۔

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم:سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

اپنے رب کی مغفرت، اور آسمان و زمین کے برابر چوڑائی رکھنے والی جنت کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ، جس کو اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لانے والوں کیلئے تیار کیا گیا ہے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے اللہ چاہتا ہے نوازتا ہے، اور اللہ تعالی بہت ہی عظیم فضل والا ہے۔ [الحديد : 21]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!گناہ اللہ تعالی سے دوری جبکہ نیکیاں قرب الہی کا باعث ہوتی ہیں، بلکہ گناہوں کی شامت افراد سمیت پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: بقیہ : عشرہ ذوالحجہ کے فضائل واحکام

وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ (الأنعام : 120)

اعلانیہ اور خفیہ تمام گناہ ترک کر دو، بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں وہ عنقریب اپنے کرتوتوں کا بدلہ پائیں گے۔

لیکن اگر یہی گناہ رحمتوں و برکتوں کے موسم میں کیے جائیں تو ان کی سنگینی مزید شدت اختیار کر جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ (التوبة : 36)

آسمان و زمین کی تخلیق کے دن سے کتاب الہی میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے ہیں، یہی مضبوط دین ہے، ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: حرمت والے مہینوں میں ظلم کرنا دیگر مہینوں میں ظلم کرنے سے کہیں زیادہ سنگین ہے، اگرچہ ظلم کرنا ہر حالت میں ہی بہت بڑا جرم ہے، لیکن اللہ تعالی جسے چاہے اپنے حکم سے بڑا قرار دے۔

بالکل اسی طرح اگر ان دنوں میں گناہ کرنا سنگین جرم ہے، تو ان دنوں میں نیک کام کرنے کا اجر و ثواب بھی بہت بڑا ہے، اس لیے رحمتوں اور برکتوں بھری گھڑیاں غنیمت سمجھو، اور ایسے تمام امور سے کنارہ کش ہو جاؤ جو ان با برکت گھڑیوں میں بھی مغفرت الہی کیلئے رکاوٹ بن جائیں۔

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد

۔۔۔

 

 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے