خواب انسانی زندگی کا وہ مظہر ہے جو کبھی انسان کے اعصاب میں تناؤ اور اس کی فکر و عمل میں ایک ہیجان سا برپا کردیتا ہے تو بسا اوقات کوئی خواب اس کے رگ و پے میں ایک انبساط اور سرشاری کی سی کیفیت بھی پیدا کردیتا ہے۔دنیا کے تمام مذاہب میں خوابوں کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے،تاریخ انبیاء میں یوسف اور ابراہیم علیہم السلام کو ایک خاص اور مثالی حیثیت حاصل رہی ہے۔اس کے علاوہ مسیح علیہ السلام اور رسول کریم نے بھی خوابوں کو بہت اہمیت دی ہے ۔ بلکہ آپ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ ، قَالَ: فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: لَكِنِ المُبَشِّرَاتُ(سنن الترمذي:2272)

’’میرے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے،اب کوئی رسول آسکتا ہے نہ نبی لیکن میرے بعدمبشرات اوربشارتیں ہوں گی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا، یا رسول اللہ وہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایاوہ نیک خواب جو اہل ایمان کو آتے ہیں۔‘‘

البتہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک عام انسان کی دیکھے ہوئے خوابوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی،کیونکہ سائنسی علوم کی روشنی میں یہ بات بھی واضح اور مبرہن ہوچکی ہے کہ خواب دراصل انسان کے اندرونی اور بیرونی ہیجانات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ بقول سگمنڈ فرائیڈ، خواب کیمیائی اور طبعی ہیجانات کا رد عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فرد کے لاشعور ی ذہنی عمل کا اظہار بھی ہوتے ہیں۔تاہم انبیاء و رسل کے خوابوںکی نوعیت عام انسانوں سے قطعی جدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے خواب وحی کی ہی ایک صورت ہوتے ہیں۔

وحی کی صورت میں خواب کی سنگینی سیدنا ابرا ہیم علیہ السلام کی زندگی کا روح کو جھنجھوڑ نے والا ایک تاریخی واقعہ ہے۔جب وہ تقریباً سو برس کی عمر کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ایک عجیب و غریب خواب دکھایا گیا۔ جس کے تصور سے ہی ایک عام انسان کے بدن میں جھرجھری پیدا ہوجاتی ہے۔لیکن جن کے رتبے بلند ہوں ان کے امتحان بھی کٹھن ہوتے ہیں، جتنا منصب اونچاہوگا اتنی ہی ذمہ داریاں بھاری ہوجاتی ہیں۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے اور جواں سال بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، بڑا ہی سنسنی خیز خواب تھا یہ!اب اگر معاملہ صرف ان کی اپنی ذات کا ہوتا تو وہ بلا تردد اور ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر خود کو اللہ کی راہ میں قربان کردیتے کیونکہ یہ زندگی اللہ کی دی ہوئی ایک امانت ہے جو انسان کو سو نپی گئی ہے ، وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے واپس لینے کا پورا استحقاق رکھتا ہے۔اور اللہ کی اس امانت کو اس کے سپرد کرتے ہوئے قلب و ذہن میں یہ حقیقت مستحضر رہنی چاہیے کہ

جاں   دی   دی   ہوئی  اسی   کی  تھی

حق  تو  یہ  ہے  کہ   حق   ادا  نہ   ہوا

مگر خواب کے اس منظر میں اصل کر داربیٹے کا تھا جسے اپنی زندگی کا نذرانہ بارگاہِ الٰہی میں پیش کرنا تھا۔چنانچہ بیٹے کی رائے لیے بغیر اس کی جان کے درپے ہوجانا کسی طرح مناسب نہ تھا۔اور اس عمل میں دوسرا اہم پہلو یہ بھی تھا کہ بیٹے کے جواب سے یہ بھی اندازہ ہوجاتا کہ جس

بیٹے کے لیے برسوں پہلے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی تھی، کیا

واقعی وہ ایک صالح اور فرمانبردار بیٹا تھا۔بیٹے کا مثبت جواب ہی دراصل اس کی صالحیت کا واضح ثبوت ثابت ہوتا۔اور ہوا بھی وہی…آخر بیٹا کس کا تھا؟ اس عظیم ہستی کا جس کی پوری زندگی کڑی آزمائشوں کی بھٹی میں گزری تھی۔جو عزیمت کا کوہِ گراں تھا۔عمر عزیز کا کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا تھا جس میں اسے سکون و راحت کا سانس لینا نصیب ہوا ہو۔حیات دنیوی کی ایک کٹھن وادی عبور کی تو دوسری ایک اور آبلہ پا وادی اس کی منتظر نظر آئی۔

  تورات یہ بتا تی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر اَوْرکے باشندے اور اہل فدّان میں سے تھے اور ان کی قوم بت پرست تھی اور انجیل برنابا میں تصریح ہے کہ ان کے والد نجاری کا پیشہ کرتے تھے اور اپنی قوم کے مختلف قبائل کے لیے لکڑی کے بت بناتے اور فروخت کیا کرتے تھے۔‘‘

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کے ماہ و سال کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ کی پوری زندگی امتحان درامتحان سےمعموردردوالم اورتحیرواستعجاب میں ڈوبی داستان ہے۔آپ نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ کفر و شرک کا بہت بڑا مر کز تھا، ان کا اپنا باپ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔اس کے علاوہ شرک و بدعات کی کئی رسومات اس معاشرے کے ہر فرد کے عقائد و نظریات کا لازمی حصہ تھا۔مذہبی شرک، سیاسی شرک، اصنام پرستی اور ستارہ پرستی سب ہی کچھ ان کی زندگی میں صدیوں سے رائج تھیں۔

شرک ، توحید کی ضد ہے، اس شدید مذمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً

’’ بے شک اللہ تعالیٰ یہ گناہ ہر گز نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے،ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔اور اللہ کا ساتھ شرک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘ (النساء 116)

قرآن و حدیث کے عمیق مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ توحید و شرک دونوں کی ہمہ گیری کا عالم یہ ہے کہ فکر و نظر، خیال اور عقیدہ، اخلاق و کردار، مقاصد و مطالب، انفرادی زندگی اور اجتماعی نظام…غرض علم و عمل کی جو بھی خوبی ،نیکی اور بھلائی اور اعلی اقدارہیں ، وہ توحید ہی کے شجر طیبہ کے برگ و بار ہیں۔اور اس کے برخلاف ان جملہ اعتبارات سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر جو بھی شر ، بدی، ظلم اور تعدی ہے اس کاتعلق بلا شبہ شرک ہی کے شجر خبیثہ کا ساتھ ہے۔

جملہ معترضہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے امتدادِ زمانہ اور امت ِ مسلمہ کے علمی اور عملی زوال کے ساتھ شرک کا تصور بھی صرف چند عقائد اور اعمال کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گیا ہے، جبکہ توحید محض عقیدے کا مسئلہ بن کر رہ گئی ہے۔بقول اقبال    ؎

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی

آج کیا ہے؟ فقط  اک مسئلہ علم کلام!

چنانچہ عوام کے نزدیک توحید صرف عقیدہ ہے،اور رہے خواص تو وہ کہیں وحدت الشہود اور وحدت الوجود یعنی توحید وجودی کی بحثوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں ، اور کہیں یہ معاملہ ہے کہ ’’ ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا یا عین ِ ذات!کی بھول بھلیوں میں گم ہیں۔

فکر و نظر کی اس کجروی اور عقائدِ باطلہ کی گمراہیوں سے کہیں دور …سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فطرت سلیمہ سے نوازا تھا۔یہ وہی شے ہے جس کے بارے میں نبی پاک نے ارشاد فرمایا ہے:

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ (صحيح البخاري:1385)

’’ ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں۔‘‘ (بخاری ، ابو داؤد)

فطرت عربی زبان کا لفظ ہے۔ مولانا جعفر شاہ پھلواری کی تحقیق کے مطابق: ’’ ہر شے کی فطرت وہ صفت ہے جو بے ساختہ اس کی ذات سے باہر آجاتی ہے۔‘‘ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی شے میں بند ہوتی ہے اور جب موقع آتا ہے تو اس شے کے اندر سے ظاہر ہوتی ہے۔ گویا’’جو اصل حیات اورقانون کے وجود سے وابستہ ہووہی اس کی فطرت ہے۔‘‘عام اس سے کہ متبدل ہو یا غیر متبدل، ارادی ہو یا غیر ارادی، شعوری ہو یا غیر شعوری۔ اب فطرت اگر موصوف ہوتو اس کی صفت یقیناً سلیمہ ہونی چاہیے۔اور یہی وہ جوہر خالص ہے جو انسان کو معرفت الٰہی تک پہنچنے کا راستہ آسان کردیتا ہے۔

سیدنا ابراہیم کی پہلی آزمائش عقل اور فکر و نظر کی آزمائش تھی۔اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو قوتِ نظری عطا کی ہے یہ اس کے امتحان کے لیے ہے کہ وہ اپنے ربّ اور خالق و مالک کو پہچانتا ہے یا نہیں ،جبکہ دوسری آزمائش انسان کے ارادے، عمل اور سیرت و کردار کی پختگی سے متعلق ہے۔جب ہم نے اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرلی تو اب ہمارا رویہ اس امر کا متقاضی ہے کہ انسان اسی ربّ سے لو لگائے، اسی کو اپنا مقصود و مطلوب بنائے۔اور تمام عبادات، حاجات،تمناؤں، امیدوں اور نفع نقصان کا مرکز و محوراللہ تعالیٰ ہی کو سمجھے۔گویا اس کے لیے ،

لا مقصود الاا للہ، لا مطلوب الا اللہ، لا معبود الا اللہ کے سوا ذاتِ باری تعالیٰ کا کوئی اور تصورلوحِ قلب و ذہن پر موجود ہی نہ ہو۔قدم قدم پر نئے نئے امتحانات انسان کے سامنے آئیں گے، دنیا کی رنگینیاں اور آرائش و زیبائش اس کا دامن پکڑیں گی، لیکن اپنے پالن ہار اپنے معبودِ حقیقی کے مضبوط رشتے کی ڈور کمزور نہیں ہو سکے گی۔

ایمان حقیقی کی حرارت پوری طرح جب انسان کے فکر و نظر میں سرایت کر چکی ہو تو وہ خود کو بچا کر اس اللہ کی طرف رجوع کرے گا جو اصل فاعل حقیقی ہے۔پھر اگر سفر زندگی کے کسی موڑ پر اپنے پیاروں، دوستوں ،قرابت داروں حتیٰ کہ ماں باپ جیسے عظیم رشتوں کو بھی اللہ کی رضا کے لیے خیر باد کہنا پڑجائے تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کرے گا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام فکر و نظر کی اس آزمائش میں پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کو ان الفاظ میں سراہا:

وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ (البقرۃ124)

’’ اور جب ابراہیم کو اس کے ربّ نے چند کلمات کے ساتھ آزمایا تو اس نے انھیں پور اکر دیا، اللہ نے کہا:بے شک میں تجھے سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، (ابراہیم نے کہا) اور میری اولاد میں سے بھی، اللہ نے کہا: میرا عہد ظالموں کا نہیں پہنچے گا۔‘‘

بہرحال ابراہیم علیہ السلام اپنی فطرتِ صحیحہ اور عقل سلیم کی رہنمائی میں سفر حیات طے کر تے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے دل کی گہرائیوں سے ابھر کر بے ساختہ یہ نعرہ ان کی نوکِ زباں پر آگیا:

إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ( الانعام 79)  

’’بے شک میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف مر کوز کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، یکسو ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘

معرفت ربّ کا یہ مرحلہ طے ہوگیا تو اب احساس دل میں اجاگر ہوا کہ توحید کے اس پیغام کو ان لوگوں تک بھی پہنچاناچاہیے جو کفر وشرک اور بدعت و خرافات کی نجاستوں میں لتھڑے ہوئے ہیں ، فکری اور عملی گمراہیوں میں گر کر انسانی اعلیٰ اقدار سے کوسوں دور پہنچ گئے ہیں۔ اور پھر یہ سوچ کر دعوت و تبلیغ کا آغاز اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہونا چاہیے، آپ نے اپنے والد اور اپنی قوم کو بیک وقت مخاطب کیا اور کہا:

’’ کیا تم بتوں کو معبود ٹھہراتے ہو ؟ بے شک میں تمھیں اور تمھاری قوم کو گمراہی میں پڑے دیکھتا ہوں‘‘

سورۃ الانبیاء میں ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے:

وَلَقَدْ آتَیْنَا إِبْرَاہِیْمَ رُشْدَہُ مِن قَبْلُ وَکُنَّا بِہ عَالِمِیْنَ إِذْ قَالَ لِأَبِیْہِ وَقَوْمِہِ مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْ أَنتُمْ لَہَا عَاکِفُونَ قَالُوا وَجَدْنَا آبَاء نَا لَہَا عَابِدِیْنَ قَالَ لَقَدْ کُنتُمْ أَنتُمْ وَآبَاؤُکُمْ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ

’’ بلا شبہ اس سے پہلے بھی ہم نے ابراہیم کو اس کی دنائی دی تھی ، اور ہم اسے خوب جاننے والے تھے۔جب اس (ابراہیم) نے اپنے باپ دادا اور اپنی قوم سے کہا : یہ کیا ہیں مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟وہ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان ہی کی عبادت کر تے ہوئے پایا ۔ابراہیم نے کہا: بلا شبہ تم اور تمھارے باپ دادا کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔‘‘(الانبیاء:51۔54)

ایمان کی حرارت انسان کو وہ توانائی عطا کر تی ہے کہ وہ پھر دنیا کی کسی طاقت اور مصائب و آلام کی کلفتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔اپنے دل میں سلگتی توحید کی چنگاری نے ان کے ہمت و حوصلے کو نئی جلا بخشی تھی، انھوں نے قوت ایمانی کے بھرپور جذبہ کے ساتھ اپنی قوم سے کہا:

أُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

’’ تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ تف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو،کیا تم عقل سے بالکل عاری ہوچکے ہو؟‘‘ (الانبیاء67)

پھر اپنی جرأت رندانہ کا اظہار کر تے ہوئے اپنی قوم کو ایک اور چیلنج دے دیا:

وَتَاللَّہِ لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِیْنَ

’’اور اللہ کی قسم! میں تمھاری عدم موجودگی میں تمھارے ان بتوں کے ساتھ کوئی معاملہ کر کے رہوں گااور ان کی خبر لے کر رہوں گا۔‘‘ (الانبیاء:57)

چنانچہ جدالانبیاء ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دیے ہوئے چیلنج کے مطابق مناسب موقع ملتے ہی ان کے سب سے بڑے بت خانے میں جاکر ان کے تمام بتوں کو توڑپھوڑ دیا، سوائے ایک بڑے بت کے۔ اور اس طرح انھوں نے ان باطل عقائد پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔اور پھر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اس باطل نظام کے ٹھیکے داروں نے اپنی مجلس شوریٰ میں یہ فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو اس گستاخی پر جلا کر بھسم کر دیا جائے۔ لیکن اس ہولناک خبر کو سن کر بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی۔

اپنے ربّ کی محبت اور توحید ربانی کی قوت و حرارت اظہار پر عقل بھی حیران ششدر رہ گئی کہ     ؎

بے  خطر  کود  پڑا  آتش  نمرود  میں عشق

عقل  ہے  محو  تماشائے  لبِ  بام  ابھی!

آگ سے دہکتے ہوئے اس الاؤ میں اللہ کے خلیل کو پھینک دیا گیا، مگر صداقت آمیز محبت اور عرفانِ الٰہی کی انوار و برکات کی بارش نے آگ سے دہکتے اس الاؤ کو ٹھنڈک، راحت اور امن و سلامتی والا سبزہ ٔ زار بنادیا۔اور آگ ابراہیم علیہ السلام کے لیے برد و سلام بن گی۔ اپنے خالق و مالک کے اس احسان نے دل میں نورِ محبت کی چنگاری کو انگیخت کر دیا، اللہ کی ذات اور اس قدرتِ کاملہ کا یقین اور پختہ ہوگیا۔

اس مقام پر ایک مذہبی انسان کی طمانیتِ قلب اور سکونِ خاطر کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ آگ کے برد وسلام ہوجانے کو اس لیے صحیح اور مبنی بر حقیقت سمجھے اس نے اپنی عقل اور اپنے شعور سے اول اس امر کا امتحان کرلیا ہے کہ قرآنِ عزیز کی تعلیم وحی الٰہی کی تعلیم ہے اور اس کی لانے والی ہستی کی زندگی کا ہر پہلو پیغمبرانہ معصومیت کے ساتھ وابستہ ہے۔اور یہ کہ وہ جن معجزانہ حقائق کی اطلاعات بہم پہنچاتا اور وحی الٰہی کے ذریعے ہم کو سناتا ہے وہ عقل کے لیے اگرچہ حیران کن ہیں لیکن عقل کی نگاہ میں محال اور نا ممکن نہیں۔

اس کڑی اور ہولناک آزمائش سے نکلنے کا بعد اب ابراہیم علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ، کسی اور جگہ جا کر پیغام الٰہی سنائیں اور دعوت حق کا فریضہ ادا کریں، یہ سوچ کر فدّان آرام (یہ بابل کی حکومت میں نمارِدہ میں ایک مشہور شہر تھا اور یہی ابراہیم علیہ السلام کا مولد تھا) اور اس طرح جدالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے وطن مالوف اور رحمی رشتوں کو خیر باد کہہ کر بر بنائے بشری حسرت ویاس کی نظریں ڈالتے ہوئے کسی انجانی منزل کی جانب گامزن ہوئے۔ہجرت کے وقت آپ کے ہمراہ آپ کی رفیقہ حیات سارہ سلام علیہا اور آپ کے بھتیجے لوط علیہ السلام تھے۔ تین نفوس کا یہ قافلہ اس طرح روانہ ہوا کہ سامنے نہ کوئی منزل تھی، نہ کوئی زادِ راہ۔نہ سر پر کوئی سائبان تھا اور نہ کوئی جائے پناہ!مگر اس ایک وحدہ لا شریک کا سہارا تھا جو کسی کو میسر آجائے تو پھر اسے کسی دوسرے سہارے کی حاجت نہیں رہتی۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے سفر ہجرت کا یہی نقط آغاز ہے۔ آپ نے مصر، شرقِ اردن،فلسطین اور سر زمیں حجاز کو اپنی دعوت و توحید کا مرکز بنا لیا۔شب و روز بس ایک ہی مشن قلب و ذہن میں بسا رکھا تھا کہ توحید کا سورج دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی تابناک کرنوں سے منور وتاباں کر دے۔وحدانیت کی شمعیں اللہ کی زمین کے طول وعرض میں فروزاں ہوجائیں۔سفر کی اس کھٹنائیوں کھو کر یہ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا کہ توحید کے اس علم کو لے کر صدیوں چلتے ہی رہنا ہے،

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نورِ  توحید  کا  اتمام  ابھی  باقی  ہے

مگر مہلت عمر نہ جانے کب اپنی بساط لپیٹ لے،پھر میرے بعد اس مشن کا کیا ہوگا، کون اس کو لے کر آگے بڑھے گا ،اس خیال کا ذہن میں آنا تھا کہ بے اختیار یہ دعا نوکِ زباں پر مچل اٹھی،

 رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ  (الصافات 100)

ـ’’بارِ الٰہی! مجھے ایک نیک وارث اور صالح بیٹا عطا فرمادے۔‘‘

دعا قبل ہوئی مگراس کا ظہور ہونے میںاللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت سدِراہ بنی تھی، تاہم ستاسی برس میں آپ کی دعا ایک صا لح اور سعادت مند بیٹے کی صورت میں آپ کی آغوشِ پدری میں آگری۔ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان کو یہ بشارت بھی دی گئی کہ:

فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ (الصفٰت101)

’’پس ہم نے اسے (ابراہیم) کو ایک حلیم(بردبار) لڑکے کی بشارت دی۔‘‘

سیدناابراہیم علیہ السلام کی مسافرانہ زندگی کا سفر رواں دواں رہا اور وہ دن بھی آگیاکہ آپ کی دعا کا پھل ، آپ کا نورِ نظر ، لختِ جگر، لاڈلا اور چہیتا بیٹا کڑیل جوان بن کران کے مشن میں ان کا دست و بازو بن کر ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی خوشی دیدنی تھی ،مگر بقولِ فیض   ؎

اور بھی غم ہیں زمانہ میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

کے مصداق سو برس کے بوڑھے باپ کو اپنے جواں سال بیٹے کو ذبح کرنے کا خواب دکھایا گیا۔بڑھاپے میں دعائیں کر کر کے ایک بیٹا لیا ، اور وہ بھی کیسا بیٹا، حلیم، سلیم الطبع، فرماں بردار، صابر شاکر اور انتہائی سعادت مند۔مگر اللہ کو اپنے خلیل کا ایک اور کڑا امتحان مقصود تھا۔اور وقت امتحان تو دیکھئے! جب بیٹا اس (باپ) کے ساتھ بھاگ دوڑ کرنے کے قابل ہواتو یہ گھڑی آپہنچی، گویا:

قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند

دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا

جو اللہ کے دوست اور مقرب بندے ہیں ان سے عا م انسانوں سے قطعی مختلف معاملہ کرنا اللہ کی مستقل سنت ہے ،ان کو امتحانوں اور کڑی سے کڑی آزمائشوں سے گزارا جاتاہے کیونکہ سونا بھٹی میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے۔رسولِ مکرم کا ارشاد پاک ہے کہ:

’’ ہم گروہِ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے۔‘‘

سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ جلیل القدر نبی اور پیغمبر تھے اس لیے ان کو بھی مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا۔اور وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر دفعہ امتحان میں کامل و اکمل ثابت ہوئے۔جب ان کو آگ میں ڈالنے جیسی ہولناک سزا دی گئی اس وقت بھی وہ صبر و استقامت کا پیکر ثابت ہوئے،اس بعد اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی زوجہ ہاجرہ اور شیر خوار بچے اسمٰعیل کو مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑناپڑا ، اس پر بھی انھوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔ ان تما م روح فرسا مراحل سے گزرنے کے بعد ایک تیسرا امتحان سامنے موجود تھا۔

انبیاء علیہم السلام کا خواب ’’ رویاء صادقہ‘‘ اور وحی الٰہی ہوتا ہے۔چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر اسمٰعیل کو اپنا خواب سنایاکہ میں نے خواب میں تمھیں ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب بتاؤ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟بیٹا ابراہیم جیسے مجدد انبیاء و رسل کا بیٹا تھا ، کہنے لگا، ابا جان اگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہے تو ان شاء اللہ آپ مجھے صابر اور ثابت قدم پائیں گے۔پھر چشم فلک نے یہ دلخراش نظارہ دیکھا کہ باپ نے بیٹے کی رضامند پا کر اس کے ہاتھ پیر مذبوح جانور کی طرح باندھے ، چھری کو تیز کیا اور بیٹے کو پیشانی کے بل پچھاڑ کر ذبح کرنے لگے۔ابھی چھری گلے پر پھرنے میں لمحہ بھر ہی تھا کہ اللہ کی وحی نازل ہوئی: ’’ اے ابراہیم! تونے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا، بے شک یہ بہت سخت اور کٹھن آزمائش تھی جس میں ہم نے تجھے ڈالا تھا، اپنے بیٹے کو چھوڑ اور جو مینڈھا تیرے پاس کھڑا ہے اس کو اپنے بیٹے کے بدلے میں ذبح کر ، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح نوازا کر تے ہیں۔یہی وہ قربانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوئی اور ہر سال اسی کی یادگار کے طور پر ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان اس شعار کو مناتے ہیں۔رسول اللہ سے پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول ! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ( مسند احمد، ابن ماجہ)گویا جانوروں کی ان قربانیوں میں مسلمانوں کی اطاعت و فرما نبر داری اور تسلیم و رضا کا اظہار ہے۔ لیکن اس عمل میں بھی اصل مقصود انسان کا تقویٰ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج 37)

’’ اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ان کے خون ، بلکہ اسے تو تمھارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے‘‘۔

حج بیت اللہ اور جانوروں کی قربانی ہر صاحب استطاعت مسلمان پر واجب ہے، سورۂ حج میں انہیں دونوں عبادات کا ذکر ہے۔

وَأَذِّن فِیْ النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِیْنَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَہُمْ وَلْیُوفُوا نُذُورَہُمْ وَلْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ  (الحج:2729)

اور لوگوں کو حج کی منادی کر دے ، لوگ تیرے پاس پا پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی،دور دراز کی تمام راہوں سے آئیںگے۔ سو اپنے فائدے حاصل کرنے آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں، ان چوپایوں ، یعنی جانوروں پر جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں۔پھر کھاؤ ان میں سے خود بھی اور کھلاؤ بیکسو ں اور محتاجوں کو بھی ،پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘

سورۃ الحج کی آیت 34میں ارشاد فرمایا:

 وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ

’’ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمادیے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے ، یعنی جانوروں پراللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں۔‘‘

طواف کعبہ یعنی حج بیت اللہ کا تعلق ایک مخصوص مقام سے ہے، یعنی خانہ کعبہ یا مکہ مکرمہ مگر قربانی ایک ایسا فر یضہ ہے جسے عید الاضحی کے موقع پر پوری روئے زمین پر ان تمام لوگوں کے لیے عام کر دیا گیا ہے جو حج نہ کر کے بھی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے اظہار میں ادا کر کے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کر سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیات پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں زیادہ اصرار قربانی پر ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کے ہر عمل سے اس کی اصل روح نکل چکی ہے ، ہمارے حج اور قربانیوں کا بھی یہی حال ہے، الا ماشاء اللہ! ، بقول اقبال:

رگوں  میں  وہ  لہو  باقی  نہیں  ہے

وہ  دل ،  وہ  آرزو  باقی  نہیں  ہے

نماز   و   روزہ   و  قربانی   و  حج

یہ  سب  باقی  ہیں  تو  باقی  نہیں  ہے!

انبیاء کی امتوں میں طول امل کے سبب جو تغیر و تبدل ہوا کر تے ہیں ان میں اک بڑا تغیر یہ ہوتا ہے کہ ان کی عبادت میں رسمیت آجاتی ہے۔توحید کی جگہ شرک کی آمیزش کا رنگ غالب آجاتا ہے اور سنت کی جگہ بدعت لے لیتی ہے۔رسول کریم کی امت میں بھی کسی نہ کسی درجہ میں شرک و بدعت کا رنگ غالب آچکا ہے۔یہاں ان نام کے مسلمانوں کا تو ذکر نہیں ہے، جنہوں نے سرے سے ان ارکان کو ہی خیر باد کہہ دیا ہے اور کافروں کی طرح عملی طور پر ان ارکان سے لا تعلق اور بے پرواہ ہو کر زیغ و ضلال کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں ، اصل ذکر تو یہاں امت مسلمہ کے ان لوگوں کا ہے جو ان ارکان سے پوری طرح واقف ہیں مگران کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ان کے قلوب و اذہان میں ان عبادات کا ایک ظاہری سا خاکہ باقی ہے اور اس میں سے روح نکل چکی ہے، یعنی

رہ  گئی  رسمِ  اذاں  روحِ  بلالی  نہ  رہی

اگر کسی کا ان ارکان سے کوئی تعلق ہے بھی تو ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔اگر ہماری عبادات میں سے اس کی اصل روح نہ نکلی ہوتی تو آج ہم اپنے اخلاق میں، معاملات، معاشرت و معیشت، حقوق و فرائض کی تقسیم میں پوری عالم انسانیت میں ممتاز ہوتے۔اوراس پر فتن دور میں ، اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی گمراہیوں کے بیچ رہ کر بھی اللہ کے جن بندوں کی عبادات میں تقویٰ و للٰہیت کی روح باقی ہے ، ان کی نمازوں میں خشوع و خضوع موجود ہے، ان کی جینے کا انداز ممتاز و منفرد ہے۔

سیرت ابراہیم علیہ السلا م کے حوالے سے آپ کی ایک دعا نقل کی گئی ہے کہ:

  ’’پروردگار عالم! مجھ کو وہ زندگی بخش کہ میرا قول و عمل اور میری رفتار و گفتار’’ اسوۂ حسنہ‘‘ کی تعبیر ہو، میں اگر ہادی بنوںتواسوہ حسنہ کا اور مجھ کو قیادت نصیب ہو تو رشد و ہدایت کی اور پھر اس پر استقامت عطا فرما،ایسا نہ ہو کہ میں اسوۂ سیّۂ کا رہنما اور قائد بن جاؤں اور فردائے قیامت میں امت کے گمراہ اور کافر تیرے حضور مجھ کو یہ کہہ کر شرمندہ کریںکہ:

رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا

’’اے ہمارے پروردگار! اس میں ذرا شک نہیں ہے کہ ہم نے اپنے قائدین اور اپنے بڑوں کی پیروی اختیار کرلی تھی پس انھوں نے ہی ہم کو راہ سے بے راہ کیا‘‘۔(سورۃ الاحزاب67)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا یہ پہلو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے اگر ہمارے اندر دین کی غیرت و حمیت کی کوئی رمق باقی ہے۔لیکن اسلامی دنیا اپنی خود ساختہ غیر اسلامی روش کی بدولت جس طرح غیر اسلامی اقتدار، حاکمانہ جبر اور پنجۂ استبداد کے نیچے دبی ہوئی ہے اور ہر طرح سے لاچار و بے بس نظر آتی ہے اس نے امت مسلمہ کو اس درجہ ذلیل و حقیر بنا دیاہے کہ ہماری فکر و عمل کے سوتے ہی خشک ہوچکے ہیں۔اور احساس کمتری نے ہمیں یہ کہنے پر مجبورکر دیا ہے کہ اسلام نہ خدا پرستی کا نام ہے اور نہ عقائد و اعمال صالحہ کی زندگی کا متقاضی، بلکہ یہ تو محض مادی قوت و شوکت ، حکومت و اقتدار اور اس کے ذریعہ سے حصول عیش و عشرت کا دوسرا نام ہے۔رہے نماز ، روزہ، حج اور زکوٰۃ تو یہ مادی قوت کے حصول کے لیے ڈسپلن اور نظم و ضبط کے لیے ایک طریق کار ہے نہ کہ مقصد حیات ملی!اسی گمراہ کن فکر و عمل نے آج ہماری کیفیت وہ کر دی ہے جو قرآن نے بنی اسرائیل کے لیے بیان کی تھی:

وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآؤُوْا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہِ (البقرۃ:61)

’’آخر کار ذلت (ورسوائی) اور محتاجی (وبے نوائی) ان پر تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگئے‘‘۔

آج یہی صورت حال ہماری ہے ، ہمارے اعمال بد اور عاقبت نا اندیشی کے سبب ذلت و رسوائی امت مسلمہ کے حصے میں آئی ہوئی ہے اور اللہ کے غضب کا اصل نشانہ آج ہم ہیں۔فاعتبروا یا اولی الابصار!

عصر حاضر میں دین کی خدمت اور احیائے دین کا کام ہی اصل کام ہے اور پوری توجہ اور اپنے وقت، اپنی جان و مال کو اس میں کھپادینے کا متقاضی ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت بھی ایسے ہی بندوں کا حاصل ہوتی ہے۔ارشاد الٰہی ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (محمد:7)

’’ اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور وہ تمھیں ثابت قدم رکھے گا‘‘۔

دین کے جو بنیادی ارکان ہیں ان میں روح اور حقیقت کا رنگ بھرنے کی مقدور بھر سعی و جہد دین کا اہم تقاضا ہے۔اور اس کے لیے ہر مسلمان کو اپنے ظاہر اور باطن کو ابراہیمی رنگ میں رنگنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ، کیونکہ یہی فلسفہ قربانی کی اصل حکمت ہے اور اس رنگ میں رنگنے کے بعد انسان کی روح ، حج اور قربانی کی تمام انوار و برکات سے سرشار ہوگی۔یہ اسوۂ ابراہیمی کا مقصد بھی ہے اور اللہ کی رضا اور اس کی قربت کے حصول کا واحد راستہ بھی۔دکھاوا ریا کاری اور ملمع کاری اسلام کی فطرت کے قطعی خلاف ہے اور یہ چیزیں انسان کو شرک کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہیں۔ رسول کریم کا ارشاد ہے:

مَنْ صَلَّى يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ صَامَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ وَمَنْ تَصَدَّقَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ (مسنداحمد:17140)

’’جس کسی نے دکھاوے کے لیے نماز پڑی ، اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا ،اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا ، اس نے شرک کیا‘‘

کتابیات

٭قرآن مجید

٭تفسیر معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع

٭ قِصصُ القرآن ،مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی

 ٭ارض القرآن،سید سلیمان ندوی

٭مقدّمہ ابن خلدون، علامہ عبد الرحمٰن ابن خلدون المغربی

٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے