سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو بڑی نشانیاں ہیں، یہ بے نور ہوجائیں تو انسان خوفزدہ ہوجاتاہے ایسے میں اسلام کی راہنمائی یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے عاجز بن کر کھڑا ہوجائے، اپنی کمزوری کا اعتراف کر نے، اس سے ڈھارس بندھ جائے گی، تقویٰ اور للہیت کا الگ ہی نظارہ ہوگا اور سنت پر عمل ہوجائے گا۔

سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :

إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا (صحیح البخاری:1041،صحیح مسلم:901)

’’سورج اور چاند کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن دیکھیں تو نماز ادا کریں۔‘‘

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا، وَادْعُوا اللَّهَ (صحیح البخاری:1043 ، صحیح مسلم:915)

’’ عہد نبوی  میں سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی یوم وفات کےدن سورج گرہن ہوا لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے گرہن ہوا ہے تو رسول اکرم نے فرمایا :|’’ سورج اور چاند گرہن کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ گرہن نظر آئے تو نماز پڑھیں اور دعا کریں۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :

إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا (صحیح البخاری:1044، صحیح مسلم:901)

’’سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ، گرہن دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں ،اس کی بڑائی بیان کریں ، نماز پڑھیں اور صدقہ کریں۔‘‘

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا :

إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا (صحیح البخاری : 1042، صحیح مسلم:914)

’’سورج اور چاند کسی کی موت وحیات کے سبب گرہن نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں انہیں دیکھیں تو نماز پڑھیں۔‘‘

سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ يَفْعَلُهُ وَقَالَ هَذِهِ الْآيَاتُ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ (صحیح البخاری:1059، صحیح مسلم:912)

ایک دفعہ آفتاب گرہن ہوا تو نبی کریم خوفزدہ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ آپ گھبرائے کہ شاید قیامت آ گئی۔ پھر آپ مسجد میں تشریف لائے اور اتنے طویل قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھائی کہ اتنی طویل نماز پڑھاتے میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: “یہ نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، یہ کسی کے مرنے جینے کی وجہ سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں، لہذا جب تم ایسا دیکھو تو ذکر الہٰی کی طرف توجہ کرو، نیز دعا اور استغفار بھی خوب کرو۔”

محمود بن لبید رحمہ اللہ کہتے ہیں : 

انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ. فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ. فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بعد أيها النَّاسُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاةِ أَحَدٍ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى الْمَسَاجِدِ. وَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ. فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَبْكِي وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ! قَالَ:إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَخْشَعُ الْقَلْبُ وَلا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبَّ. وَاللَّهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ! وَمَاتَ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا. وَقَالَ: إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ (طبقات ابن سعد 1/142،143 وسند ہ حسن)

’’صاحبزادۂ رسول سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی یوم وفات کو سورج گرہن ہوا تو لوگ کہنے لگے کہ سیدنا ابراہیم کی موت کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے۔ رسول اللہ باہر تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا : سورج اور چاند کو کسی کی زندگی یا موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، گرہن دیکھیں تو جلدی سے مسجد کا رخ کریں(اور نماز پڑھیں) اس وقت آپ  کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ، صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ آپ اللہ کے رسول  ہیں ،فرمایا : میں بھی انسان ہوں ، آنسو بہہ رہے ہیں اور دل غمزدہ ہے مگر ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والی بات نہیں کہیں گے، ابراہیم ! اللہ کی قسم! ہمیں تیرے بچھڑنے کا غم ہے ۔ فرمایا : جنت میں ان کے لیے دودھ پلانے والی موجودہوگی ، ابراہیم اٹھارہ ماہ کی عمر میں فوت ہوئے تھے۔‘‘

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں :

أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعَتَاقَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ (صحیح البخاری:1054)

’’نبی کریم نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔‘‘

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : 

صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَأَيْتُهُ هَوَى بِيَدِهِ لِيَتَنَاوَلَ شَيْئًا، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ شَيْءٍ وُعِدْتُمُوهُ إِلَّا قَدْ عُرِضَ عَلَيَّ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، وَأَقْبَلَ إِلَيَّ مِنْهَا شَرَرٌ حَتَّى حَاذَانِي مَكَانِي هَذَا، فَخَشِيتُ أَنْ يَغْشَاكُمْ (صحیح ابن خزیمہ : 890 وسندہ حسن)

’’ ہم نے ایک دن نبی کریم کے ہمراہ گرہن کی نماز پڑھی تو آپ  نے لمبا قیام کیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ  کوئی چیز پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہیں ، سلام کے بعد آپ  نے فرمایا : جن چیزوں کا آپ سے وعدہ کیاگیاہے وہ پیش کی گئیں، جہنم سامنے لائی گئی ،مجھے خطرہ ہوا کہ اس کی چنگاریاں آپ کو لپیٹ میں لے لیں گی ، کیونکہ وہ اس قدر قریب آگئی تھی۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :

كَسَفَتْ الشَّمْسُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَنَادَى أَنْ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا مِثْلَ قِيَامِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا مِثْلَ رُكُوعِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى فِي الْقِيَامِ الثَّانِي ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ أَدْنَى مِنْ سُجُودِهِ الْأَوَّلِ ثُمَّ تَشَهَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ فِيهِمْ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَأَيُّهُمَا خُسِفَ بِهِ أَوْ بِأَحَدِهِمَا فَافْزَعُوا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِذِكْرِ الصَّلَاةِ (مسند احمد 2/159 ، سنن النسائي:1498 واللفظ له ، سنن ابي داود:1194)

ایک دفعہ سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ نے ایک آدمی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز کی جماعت ہونے والی ہے۔ لوگ اکٹھے ہوگئے تو رسول اللہ نے انھیں نماز پڑھائی۔ آپ نے اللہ اکبر کہا، پھر لمبی قراءت کی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا رکوع کیا، اپنے قیام جتنا یا اس سے بھی لمبا، پھر اپنا سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُکہا، پھر طویل قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا سجدہ کیا، رکوع جتنا یا اس سے بھی لمبا، پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھایا اور پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کیا، پھر اللہ اکبر کہہ کر اٹھے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سرا ٹھایا اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا اور پھر لمبی قراءت کی جو دوسرے قیام کی پہلی قراءت سے کم تھی، پھر اللہ اکبر کہا اور لمبا لیکن پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُکہا، پھر اللہ اکبر کہہ کر پہلے سجدوں سے کم لمبے سجدے کیے۔ پھر تشہد پڑھا، پھر سلام پھیرا۔ پھر آپ (تقریر کے لیے) کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی بنا پر بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں سے جسے گرہن لگ جائے تو گھبرا کر (فوراً) نماز کی صورت میں اللہ کا ذکر شروع کردو۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (901،1389،1392) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (2838،2839) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 

كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ قَالَ شُعْبَةُ وَأَحْسَبُهُ قَالَ فِي السُّجُودِ نَحْوَ ذَلِكَ وَجَعَلَ يَبْكِي فِي سُجُودِهِ وَيَنْفُخُ وَيَقُولُ رَبِّ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا أَسْتَغْفِرُكَ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا فِيهِمْ فَلَمَّا صَلَّى قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ مَدَدْتُ يَدِي تَنَاوَلْتُ مِنْ قُطُوفِهَا وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَجَعَلْتُ أَنْفُخُ خَشْيَةَ أَنْ يَغْشَاكُمْ حَرُّهَا وَرَأَيْتُ فِيهَا سَارِقَ بَدَنَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دُعْدُعٍ سَارِقَ الْحَجِيجِ فَإِذَا فُطِنَ لَهُ قَالَ هَذَا عَمَلُ الْمِحْجَنِ وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقِهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا انْكَسَفَتْ إِحْدَاهُمَا أَوْ قَالَ فَعَلَ أَحَدُهُمَا شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (سنن النسائی : 1497)

 رسول اللہ کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا تو رسول اللہ نے نماز پڑھی۔ قیام بہت لمبا کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا تو بہت دیر کھڑے رہے۔ اسی طرح سجدہ بھی خوب لمبا کیا۔ آپ سجدے میں روتے تھے، آہیں بھرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اے میرے رب! تو نے مجھ سے اس (عذاب) کا وعد نہیں کیا تھا جبکہ میں تو تجھ سے بخشش طلب کررہا ہوں۔ تو نے مجھ سے اس (عذاب) کا وعدہ نہیں کیا تھا جبکہ میں ان میں موجود ہوں۔‘‘ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’مجھ پر جنت پیش کی گئی، حتی کہ اگر میں اپنا ہاتھ بڑھاتا تو میں اس کے کچھ خوشے لے لیتا، نیز مجھ پر آگ پیش کی گئی تو میں اس میں پھونکیں مارنے لگا کہ کہیں تمھیں اس کی تپش نہ آلے۔ اور میں نے اس میں اپنی دو اونٹنیوں کا چور بھی دیکھا، نیز میں نے اس میں بنودعدع کا وہ شخص دیکھا جو حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا۔ اور اگر پتا چل جاتا تو وہ کہتا کہ یہ چھڑی کی کارستانی ہے۔ اور میں نے اس میں ایک لمبی کالی عورت دیکھی جسے ایک بلی کے بارے میں عذاب دیا جارہا تھا جسے اس نے باندھ دیا تھا۔ نہ تو اسے کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی حتی کہ وہ مرگئی۔ اور (یاد رکھو!) سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں گہناتے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب ان میں کسی کو گرہن لگ جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو۔‘‘

نماز کسوف وخسوف کیلئے منادیٰ :

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : 

 لَمَّا كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُودِيَ إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ فَرَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ ثُمَّ جَلَسَ ثُمَّ جُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ (صحیح البخاری:1051، صحیح مسلم:910)

 جب رسول اللہ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو الصلاة جامعة کا اعلان کیا گیا۔ نبی کریم نے اس نماز میں ایک رکعت کے اندر دو رکوع کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے اس کے بعد آپ تشہد میں بیٹھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

إِنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ مُنَادِيًا: بالصَّلاَةُ جَامِعَةٌ، فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ (صحیح البخاری:1066،صحیح مسلم:901)

رسول اللہ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک منادی کرنے والے کو تعینات کیا جو الصلاة جامعة کا اعلان کرتا تھا، چنانچہ رسول اللہ آگے بڑھے اور دو رکعات میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔

نمازِ خسوف وکسوف میں خواتین کی شرکت :

سورج اور چاند گرہن سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں، ایسے میں خواتین وحضرات مسجد میں نماز کے لیےجمع ہوں ، رب کے سامنے عاجزی ودرماندگی کااظہار کریں۔

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں : 

فَزِعَ يَوْمَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أَدْرَكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ بِالنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، يَقُومُ ثُمَّ يَرْكَعُ، فَلَوْ جَاءَ إِنْسَانٌ بَعْدَمَا رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ رَكَعَ، مَا حَدَّثَ نَفْسَهُ أَنَّهُ رَكَعَ، مِنْ طُۂولِ الْقِيَامِ . قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَكْبَرُ مِنِّي، وَإِلَى الْمَرْأَةِ الَّتِي هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي قَائِمَةً، وَأَنَا أَحَقُّ أَنْ أَصْبِرَ عَلَى طُولِ الْقِيَامِ مِنْهَا(مسند احمد6/351،صحیح مسلم:906)

’’جس دن سورج گرہن لگا ، آپ  بے چین ہوگئے ،  قمیص زیب تن کر کے اس پر چادر اوڑھی، لوگوں کے ساتھ طویل قیام کیا ، آپ  قیام کرتے ، پھر رکوع کرتے، ر کوع کے بعد اتنا لمبا قیام کرتے کہ بعد میں اگر کوئی آئے تو یہ جان ہی نہ پائے کہ آپ رکوع کر چکے ہیں، بلکہ دل میں خیال تک نہ آئے ۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو مجھ سے عمر رسیدہ تھی، لیکن وہ قیام کر رہی تھی پھر میری نظر ایک عورت پر پڑی جو مجھ سے کمزور تھی لیکن قیام کر رہی تھی، یہ دیکھ کر میں نے سوچا : میں تم سے زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ قیام کرنے کا حق رکھتی ہوں۔‘‘

مسجد میں نماز خسوف وکسوف :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : 

خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إِلَى المَسْجِدِ، فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ (صحیح البخاری:1046،صحیح مسلم:901)

’’دور نبوی ایک مرتبہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ   مسجد کی طرف تشریف لائے لوگوں نے آپ  کے |پیچھے صفیں بنالیں۔‘‘

ہر رکعت میں ایک رکوع :

سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْنَا فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى انْجَلَتْ الشَّمْسُ (صحیح البخاری: 1040)

ہم نبی کریم کے پاس بیٹھے تھے کہ آفتاب گہن ہو گیا۔ آپ فورا اٹھے، اس حال میں کہ آپ کی چادر گھسٹ رہی تھی اور مسجد میں داخل ہوئے۔ ہم بھی مسجد میں آئے۔ آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا۔

سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : 

بَيْنَمَا أَنَا أَرْمِي بِأَسْهُمِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهُنَّ وَقُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا يَحْدُثُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْكِسَافِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ حَتَّى جُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ فَقَرَأَ سُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ (صحیح مسلم:913)

میں ایک دفعہ رسول اللہ کی زندگی میں اپنے تیروں کے ذریعے سے تیر اندازی کررہا تھا کے سورج کو گرہن لگ گیا،تو نے ان کو پھینکا اور(دل میں ) کہا کہ میں آج ہرصورت دیکھوں گا کہ سورج گرہن میں رسول اللہ پر کیا نئی کیفیت طاری ہوتی ہے۔میں آپ کے پاس پہنچا تو(دیکھا کہ) آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے،(اللہ کو) پکار رہے تھے،اس کی بڑائی بیان کررہے تھے،اس کی حمد و ثنا بیان کررہے تھے اور لاالٰہ الا اللہ کا ورد فر رہے تھے،یہاں تک کہ سورج سے گرہن ہٹا دیاگیا، پھر آپ نے(ہررکعت میں) دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا کیں۔

سنن النسائی (1461 وسندہ صحیح) میں یہ الفاظ ہیں : 

فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ

’’آپ نے دو رکعتیں پڑھیں اور چار سجدے کیے۔‘‘

سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

بَيْنَمَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ، أَوْ ثَلَاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنَ الْأُفُقِ، اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا! قَالَ: فَدَفَعْنَا، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، فَاسْتَقْدَمَ، فَصَلَّى، فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، قَالَ ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسُ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (سنن ابی داود:1184،سنن النسائی:1484 ، سنن الترمذی:562 وقال حسن صحیح غریب، سنن ابن ماجہ : 1264 وسندہ حسن)

 ایک دفعہ میں اور ایک انصاری نوجوان نشانہ بازی کر رہے تھے ، حتیٰ کہ دیکھنے والے کی آنکھ میں جب سورج افق سے دو یا تین نیزے پر تھا تو وہ سیاہ ہو گیا جیسے کہ تنومہ ( گھاس)  ہو ۔ ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا : چلو آؤ مسجد کی طرف چلیں ، قسم اللہ کی ! رسول اللہ سورج کی اس کیفیت میں امت کو ضرور کوئی نئی بات کی تعلیم فرمائیں گے ۔ سو ہم فوراً وہاں پہنچ گئے ( جیسے گویا ہمیں دھکیل دیا گیا ہو ) تو وہاں آپ گھر سے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ پس آپ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی ۔ آپ نے ہمیں نہایت طویل قیام کرایا ایسا کہ کسی بھی نماز میں آپ نے ہمیں نہیں کرایا تھا۔ ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے ۔ پھر آپ نے ہمیں نہایت طویل رکوع کرایا جو کسی بھی نماز میں آپ نے ہمیں نہیں کرایا تھا ۔ ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے ۔ پھر آپ نے ہمیں نہایت طویل سجدہ کرایا جو کسی بھی نماز میں آپ نے ہمیں نہیں کرایا تھا ۔ ہم آپ کی آواز نہیں سن رہے تھے ۔ پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے ایسے ہی کیا ۔ اور دوسری رکعت میں بیٹھنے کے دوران میں سورج صاف ہو گیا ۔ پھر آپ نے سلام پھیرا ۔ پھر کھڑے ہوئے ، اللہ کی حمد و ثنا کی ، اللہ کی توحید اور اپنی عبدیت و رسالت کی شہادت دی ۔

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ(1397) امام ابن حبان رحمہ اللہ (597) نے صحیح کہا ہے ۔ امام حاکم (1/329) نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس سند کو ’’حسن‘ ‘کہا ہے۔(خلاصۃ الاحکام 2/891)

ہر رکعت میں دو رکوع : 

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : 

خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ فَكَبَّرَ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ وَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ وَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَالَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَانْجَلَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ (صحیح البخاری:1046، صحیح مسلم:901)

نبی کریم کی حیات طیبہ میں سورج بے نور ہوا تو آپ مسجد میں تشریف لائے، لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر لمبی قراءت فرمائی۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہہ کر ایک طویل رکوع کیا۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو کھڑے رہے اور سجدہ نہ کیا بلکہ طویل قراءت کی جو پہلی قراءت سے قدرے کم تھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے قدرے کم تھا۔ اس کے بعد آپ نے سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد کہا اور سجدے میں چلے گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا۔ اس طرح آپ نے چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز مکمل کی۔ نماز ختم ہونے سے پہلے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا: “یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں بایں حالت دیکھو تو اللہ سے التجا کرتے ہوئے نماز کی طرف آ جاؤ۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

انْخَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ (صحیح البخاری:1052،صحیح مسلم:907)

نبی کے عہد مبارک میں جب سورج بے نور ہوا تو رسول اللہ نے نماز پڑھائی۔ آپ کا قیام سورہ بقرہ کی قراءت کی طرح طویل تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا۔ اس کے بعد سر اٹھایا تو پھر دیر تک قیام کیا لیکن آپ کا یہ قیام پہلے قیام سے قدرے کم تھا۔ پھر آپ نے طویل رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ فرمایا۔ بعد ازاں ایک طویل قیام کیا جو پہلے قیام سے قدرے کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو پہلے سے قدرے مختصر تھا، اس کے بعد سر اٹھا کر طویل قیام فرمایا جو پہلے قیام سے قدرے تھوڑا تھا، پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے سے کچھ کم تھا اس کے بعد آپ نے سجدہ فرمایا۔ آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاكَ فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ (صحیح مسلم:904)

رسول اللہ کے زمانے میں ایک انتہائی گرم دن سورج کوگرہن لگ گیا تو رسول اللہ نے اپنے ساتھیوں(صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کے ساتھ نمازپڑھی،آپ نے(اتنا) لمبا قیام کیا کہ کچھ لوگ گرنے لگے،پھر آپ نے رکوع کیا اوراسے لمبا کیا،پھر(رکوع سے) سر اٹھایا اور لمبا(قیام) کیا،آپ نے پھر رکوع کیا اور لمبا کیا۔پھرآپ نے(رکوع سے) سر اٹھایا اور (اس قیام کو لمبا ) کیا،پھر دو سجدے کیے،پھر آپ(دوسری رکعت کے لئے) اٹھے اور اسی طرح کیا،اس طرح چار رکوع اورچار سجدے ہوگئے۔

ہر رکعت میں تین رکوع : 

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّاسُ إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ (صحیح مسلم:904)

رسول اللہ کے عہد مبارک میں،جس دن رسول اللہ کے بیتے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے،سورج گرہن ہوگیا،(بعض)لوگوں نے کہا: سورج کو گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت کی بنا پر لگا ہے۔(پھر) نبی اکرم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو چھ رکوعوں،چار سجدوں کے ساتھ(دو رکعت) نماز پڑھائی۔

ہر رکعت میں چار رکوع :

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

إِنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفٍ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ قَالَ وَالْأُخْرَى مِثْلُهَا (صحیح مسلم:909)

آپ نے کسوف(کے دوران) میں نماز پڑھائی، قراءت کی پھر رکوع کیا،پھر قرءات کی،پھر رکوع کیا،پھر قراءت کی ۔پھر رکوع کیا۔پھر قراءت کی۔پھر رکوع کیا۔پھر سجدے کئے ۔کہا:دوسری(رکعت)بھی اسی طرح تھی۔

نماز کسوف وخسوف میں اونچی آواز سے قرأت :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : 

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَرَ فِي صَلَاةِ الْخُسُوفِ بِقِرَاءَتِهِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ (صحیح البخاری : 1065 ، صحیح مسلم : 901)

’’نبی کریم نے نماز خسوف میں اونچی آواز سے  قرأت فرمائی ، دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیئے۔‘‘

مخفی قرأت :

سیدنا جابر بن سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ رَكْعَتَيْنِ، لَا نَسْمَعُ لَهُ فِيهِمَا صَوْتًا(مسند احمد 4/16،17 ۔ سنن ابی داود : 1184 ، سنن النسائی : 1484، سنن الترمذی : 562 وقال حسن صحیح غریب ، سنن ابن ماجہ : 1264 وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1397 ) اور امام ابن حبان (597) نے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم (1/329) نے اسے صحیح بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ نے سند کو حسن کہا ہے ۔ ( خلاصۃ الاحکام 2/891)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سند کو قوی کہا ہے ۔ (نتائج الافکار، ص:412)

ثعلبہ بن عباد ’’حسن الحدیث‘‘ ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

كُنْتُ إِلَى جُنُبِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ، فَلَمْ أَسْمَعْ لَهُ قِرَاءَةً (المعجم الکبیر للطبرانی 11/192، حدیث : 11612وسندہ حسن)

’’میں نے رسول کریم کے پہلو میں سورج گرہن کی نماز پڑھی لیکن آپ کی قرأت نہ سن سکا۔‘‘

موسیٰ بن عبد العزیز جمہور محدثین کے نزدیک ’’صدوق، حسن الحدیث ‘‘ ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : 

انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ البَقَرَةِ (صحیح البخاری:1052، صحیح مسلم:907)

’’نبی اکرم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ  نے نماز پڑھی ، سورۃ بقرہ کی قرأت کے برابر لمبا قیام کیا۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : 

كُسِفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ، فَرَأَيْتُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ… وَسَاقَ الْحَدِيثَ, ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، فَحَزَرْتُ قِرَاءَتَهُ أَنَّهُ قَرَأَ بِسُورَةِ آلِ عِمْرَانَ (سنن ابی داود : 1187 وسندہ حسن)

رسول اللہ کے زمانے میں سورج گہنایا تو رسول اللہ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے پس میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو محسوس کیا کہ آپ نے سورۃ البقرہ تلاوت فرمائی ہے ۔ اور حدیث بیان کی ۔ پھر آپ نے دو سجدے کیے ، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی ۔ میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو میں نے سمجھا کہ آپ نے سورۃ آل عمران تلاوت کی ہے ۔

امام حاکم (1/334) نے اس حدیث کو امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔

نماز خسوف وکسوف کا خطبہ :

نماز خسوف وکسوف کا خطبہ مسنون ہے جو کہ نبی کریم نماز کے بعد ارشاد فرماتے تھے :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں :

 ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ فِيهِمْ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَأَيُّهُمَا خُسِفَ بِهِ أَوْ بِأَحَدِهِمَا فَافْزَعُوا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِذِكْرِ الصَّلَاةِ (سنن النسائی : 1197 ، سنن ابی داود:1194)

پھر سلام پھیرا۔ پھر آپ (تقریر کے لیے) کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی بنا پر بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں سے جسے گرہن لگ جائے تو گھبرا کر (فوراً) نماز کی صورت میں اللہ کا ذکر شروع کردو۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (901،1389،1392) اور امام ابن حبان رحمہما اللہ (2838،2839) نے صحیح کہا ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

انْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ (صحیح البخاری:1046، صحیح مسلم:901)

نماز ختم ہونے سے پہلے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد و ثنا بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا: “یہ دونوں (سورج اور چاند) اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں بایں حالت دیکھو تو اللہ سے التجا کرتے ہوئے نماز کی طرف آ جاؤ۔

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ، وَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ (صحیح البخاری:922، صحیح مسلم:901)

’’سورج چمک رہا تھا، آپ  نے خطبہ ارشاد فرمایا ، اللہ کے شایان شان حمد وثنا کی ، فرمایا : اما بعد ۔‘‘

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے نماز کسوف کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا :

إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا وَلَوْ أَصَبْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا وَأُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوا بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُفْرِهِنَّ قِيلَ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ قَالَ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ(صحیح البخاری:1052، صحیح مسلم:710)

“میں نے جنت کو دیکھا اور ایک خوشہ انگور کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا، اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے۔ اس کے بعد مجھے جہنم دکھائی گئی۔ میں نے آج تک اس سے زیادہ بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ میں نے اہل دوزخ میں زیادہ تر عورتوں کی تعداد دیکھی۔” لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: “اس کی وجہ ان کی ناشکری ہے۔” عرض کیا گیا: آیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: “(نہیں بلکہ) وہ اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔ اگر تم کسی عورت کے ساتھ تمام عمر احسان کرو، پھر کبھی تمہاری طرف سے کوئی ناخوش گوار بات دیکھے تو فورا کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔”

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : 

وَقَدْ انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا(صحیح البخاری:1044،صحیح مسلم:901)

پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: “بلاشبہ یہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے جینے سے گرہن زدہ نہیں ہوتے۔ جس وقت تم ایسا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اس کی کبریائی کا اعتراف کرو، نماز پڑھو اور صدقہ و خیرات کرو۔” پھر آپ نے فرمایا: “اے امت محمد! اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے کہ اس کا غلام یا اس کی باندی بدکاری کرے، اے امت محمد! اللہ کی قسم! اگر تم اس بات کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم آئے اور رونا بہت زیادہ آئے۔”

سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے خطبہ کسوف میں فرمایا :

فَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي قَصَّرْتُ عَنْ شَيْءٍ مِنْ تَبْلِيغِ رِسَالَاتِ رَبِّي لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي ذَاكَ، فَبَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّي كَمَا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُبَلَّغَ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي بَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّي لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي ذَاكَ(مسند احمد 4/16،17 ۔ سنن ابی داود :1184 سنن النسائی:1484، سنن الترمذی:562 وقال:حسن صحیح غریب،سنن ابن ماجہ:1264وسندہ حسن)

’’ نبی کریم نے سلام پھیر کر اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور آپ نے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہونے کی گواہی دے کر فرمایا : لوگو! میں آپ کو اللہ رب العزت کی قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے رب کا پیغام آپ تک پہنچانے میں کوتاہی کی ہے ، تو مجھے بتا دیں، میں نے کما حقہ رب کا پیغام پہنچا دیا ہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میری طرف سے رب کا پیغام آپ تک پہنچ گیا ہے، تب بھی بتادیں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(1397) اورامام ابن حبان(597) نے صحیح کہا ہے ۔ امام حاکم ( 1/329) نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔ (خلاصۃ الاحکام 2/891)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی کہا ہے ۔ (نتائج الافکار 2/4)

ثعلبہ بن عباد’’حسن الحدیث‘‘ ہے ، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔ ثابت ہوا کہ نماز کے بعد آپ   نے خطبہ بھی ارشاد فرمایا تھا۔

فائدہ :

نماز کے بعد سورج گرہن ختم ہوجائے تو بھی خطبہ مسنون ہے۔

خطبۂ خسوف وکسوف کے لیے منبر :

منبر پر خسوف وکسوف کا خطبہ مسنون ہے ، دلائل ملاحظہ ہوں :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم کے خسوف وکسوف کا احوال یوں بیان کرتی ہیں :

وَتَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ فِيمَا يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ قَالَتْ عَائِشَةُ كُنَّا نَسْمَعُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ(سنن النسائی : 1475وسندہ صحیح )

 اور سورج بھی پورا روشن ہوگیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو منبر پر بیٹھ گئے اور (تقریر کے دوران میں) فرمایا: ’’بلاشبہ لوگوں کو قبروں میں فتنۂ دجال کی طرح آزمایا جائے گا۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم آپ کو اکثر عذاب سے پناہ مانگتے سنتے تھے۔

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (2840) نے صحیح کہا ہے۔

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، َفقَالَ: ” أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ، وَإِلَى الصَّدَقَةِ، وَإِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (مسند احمد 6/354 وسندہ حسن وان صح سماع محمد بن عباد بن عبد اللہ بن الزبیر من جدتہ أسماء بنت أبی بکر)

’’سورج گرہن ختم ہوچکا تھا، آپ  منبر پر جلوہ افروز ہوئے ، فرمایا : لوگو! سورج اور چاند اللہ عزوجل کی نشانیاں ہیں، انہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا ، ایسا منظر دیکھیں تو نماز،صدقہ اور ذکر الٰہی کی طرف دوڑیں۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے