قارئین کرام ! ہم نے اپنے سابقہ معروضات میں پانی پلانے کا اجر و ثواب بیان کیا تھا زیر نظر مضمون میں پیش خدمت ہے : کھانا کھلانے کا اجر و ثواب !

آئیں ملاحظہ فرمائیں ! اور نيکی کے اس کام میں سبقت اختیار کریں ۔

1 کھانا کھلانے کا حکم

سيدنا ابو موسي رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

فُكُّوا الْعَانِيَ يَعْنِي الْأَسِيرَ وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُودُوا الْمَرِيضَ (صحيح البخاري : 3046)

قیدی کو چھڑاؤ ، بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، بیمار کی عیادت کرو ۔

2 کھانا کھلانے کی فضیلت

سيدنا صهيب رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

خِيَارُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ .

تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے۔ (صحيح الترغيب والترهيب : 948)

3 الله تعالي کے نزدیک پسندیدہ کھانا

سيدنا جابر رضي الله عنه سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

أَحبُ الطَعَام إلَى الله مَا كَثُرَتْ عَلَيه الأَيدي .

الله تعالي کے نزدیک پسندیدہ کھانا وہ ہے جس میں کھانے والے ہاتھ زیادہ ہوں ۔(سلسلة الصحيحة : 1494)

4 کھانا کھلانا افضل عمل ہے

سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

أفضلُ الأعمالِ أن تُدْخِلَ على أخيكَ المؤمنَ سروراً، أوتقضيَ عنهُ دَيْناً،أو تُطْعِمَه خُبْزاً.

یہ افضل عمل ہے کہ تم اپنے مؤمن بھائی کو خوشی پہنچاؤ یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ ۔(سلسلة الصحيحة : 1494)

5 دل کی سختی کا علاج

سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے مرفوعاً مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول الله کی خدمت میں دل کے سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :

إِنْ أَرَدْتَّ تَلْيِيْنَ قَلْبِكَ فَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ .

اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے دل میں نرمی پیدا ہو تو ، تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر ۔(مسند احمد : 7576)

6 کھانا کھلانے پر اللہ تعالی کی خوشنودی

سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم کے پاس آیا اور کہنے لگا : مجھے سخت بھوک لگی ہے، اور ایک روایت میں ہے : میں بھوکا ہوں ۔ آپ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا ، تو انہوں نے کہا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ہمارے پاس صرف پانی ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا : اس شخص کو کون کھانا کھلائےگا، یا مہمان نوازی کرے گا ؟ اللہ اس پر رحم فرمائے ۔ ایک انصاری جس کا نام ابوطلحہ تھا، نے کہا : میں ! پھر وہ لے کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا : رسول اللہ کے مہمان کی خاطر مدارت کرو کوئی چیز چھپا کر نہ رکھو اس نے کہا : ( واللہ ) ہمارے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے ابو طلحہ نےکہا : کھانا تیار کرو، چراغ درست کرو، اور جب بچے رات کا کھانا مانگیں تو  انہیں سلا دو، اس نے کھانا تیار کیا چراغ درست کیا اور بچوں کوسلادیا، پھر وہ کھڑی ہوئیں گویا کہ چراغ درست کر رہی ہیں اور اسے بجھا دیا، اور دونوں (ابوطلحہ اور ان کی بیوی ) مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں ۔ ( مہمان نے کھانا کھا لیا ) ان دونوں نے بھوکے رات گزاری جب صبح ہوئی ، ابو طلحہ رسول اللہ کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تم دونوں کے تمہارے مہمان کے ساتھ عمل کی وجہ سے مسکرایا یا خوش ہوا، اور اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:

وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ  (الحشر:9)

 اور یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ خود سخت ضرورت مند ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کی بخیلی سے بچالئے گئے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 3272)

7 کھانا کھلانے پر جنت کی بشارت

سيدنا علي رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَدَامَ الصِّيَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ .

جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ( یہ سن کر ) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے ، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں۔ (سنن ترمذی : 1984)

اسی طرح سیدنا ھانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ سے سوال کیا کہ :

يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بشَيْءٍ يُوجِبُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: عَلَيْكَ بِحُسْنِ الْكَلامِ، وَبَذْلِ الطَّعَامِ.

اے اللہ کے رسول ! ایسا عمل بتائیں جو جنت واجب کر دے ؟ آپ نے فرمایا :اچھی بات کرنا اور کھانا کھلانا ۔(المعجم الڪبير : 470)

8 اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے کا اجر

سيدنا سعد بن ابی الوقاص رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ

بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں (کھانا) ڈالے۔(صحيح البخاري : 56)

ایک روایت کے لفظ ہیں :

إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ

جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے ۔(صحيح بخاري : 55)

9 پڑوسی کو کھانا کھلانے کا حکم

سيدنا ابوذر رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا :

يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ .

ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو۔(صحيح مسلم : 6688)

0 پڑوسیوں کو محروم رکھنا ایمان کے منافی ہے

سيدنا ابن عباس رضي الله عنهما سے روايت ہے رسول الله نے فرمایا :

لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِه.

وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے ۔(مسند ابي يعلي : 2699)

! غلام کو ساتھ بٹھا کر کھلانے کا حکم

سيدنا ابوهريره رضي الله عنه سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله کو فرماتے ہوئے سنا کہ :

إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَلْيُنَاوِلْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ أَوْ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَعِلَاجَهُ .

جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے کیونکہ اس نے ( پکاتے وقت ) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔(صحيح بخاري : 5460)

@ مساکین کو کھانا نہ کھلانے کا انجام

وہ لوگ جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن فقراء و مساکین کا خیال نہیں رکھتے ان کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے اور اپنے جہنم میں جانے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ :

لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ وَلَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ .

ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے ۔(المدثر: 44)

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے