دنیا میں سب سے بڑھ کر امن وسلامتی باہمی عزت واحترام کا اگر کوئی حقیقی علمبردار ہے تو وہ اسلام ہے جو سب کو نہ صرف باعزت زندگی گزارنے کے حقوق دیتا ہے بلکہ مسلم معاشرہ میں بسنے والے غیر مسلموں کو ایک دائرہ میں مذہبی آزادی کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے دین اسلام سب سے پہلے اللہ رب العالمین کا احترام سکھاتا ہے اسکی تعظیم اسکے احکام پر عمل پیرا ہونا اور اسکی نواہی سے رک کر اس کےعذاب سے بچنے کی کوشش کرناظلم سے باز رہنا اور عدل قائم کرنا اس احکم الحاکمین کے غلاموں کاشیوا ہے یہی دین پھر کلام الہی کا احترام سکھاتا ہے یعنی قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اسکے احکام کو نافذ کیا جائے پھر صاحب قرآن کا احترام سکھاتا ہے کہ خاتم النبیین محمدرسول اللہﷺ کی اتباع کی جائے انکی ذات سے اور انکے اعمال سے محبت کی جائے اور آ پ کے اصحاب سے محبت کی جائے اللہ تعالی اسکی کتاب اور اسکے حبیب ﷺ اور پھر اصحاب محمد رضی اللہ عنہم کے احترام و محبت کے تحت امراءوحکام اور علماءکا احترام بھی آتا ہے ۔امراء کا احترام ہر معروف میں انکی اطاعت وفرمانبرداری اور انکے خلاف بغاوت وخروج سے باز رہنا ہے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے

: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:59)

’’اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں ۔ ‘‘ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا

: عَلَيْكُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ(سنن ابن ماجه:2863 )

’’تم پر (اپنے اولی الامر کی )بات سننا اور حکم ماننا فرض ہے ۔‘‘الدین النصیحہ کے تحت حکمرانوں کے ساتھ خیرخواہی دین کا حصہ ہے۔

دین علماء کرام کا احترام وتوقیر بھی سکھاتاہے کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ ظلم وبربریت اور جہالت وعصبیت کے اندھیروں میں ہدایت وراہنمائی کا نور ہیں ان کی عزت وتکریم یہ ہے کہ مسائل کے سلجھاؤ اور حصول علم کے لیے ان کی طرف رجوع کیا جائے اور ان کے خلاف طعن وتشنیع سے اپنی زبان کو محفوظ رکھا جائے کیونکہ خود سرور کونین محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ (جامع الترمذی ابواب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة، الحديث:2685)

’’بیشک اللہ تعالی، فرشتے اور تمام اہل زمین و آسمان یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں (بھی) اس شخص کے لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے۔‘‘

رب العالمین نے ان کی شان یوں بڑھائی ہے :

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ (الزمر9 )

آپ ان سے پوچھئے : کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ مگر ان باتوں سے سبق تو وہی حاصل کرتے ہیں جو اہل عقل و خرد ہوں ۔

اس کے باوجود علماء کرام سے اپنے خبث باطن کی وجہ سے کینہ رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ علماء کرام کی عزتوں سے کھیلنے اور ان کی غیبت کے نتیجے میں بقول عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ وہ زہرآلود گوشت ہی اپنے پیٹوں میں اُتاریں گے اور رب کی ناراضگی یوں مول لیں گے ۔

حدیث قدسی میں فرمان باری تعالیٰ ہے :

  مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ (صحیح البخاری،کتاب الرقاق باب التواضع،الحدیث:6502) ’’

جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔‘‘ احترام وتعظیم میں اللہ نے اپنے حقوق کے ساتھ والدین کا تذکرہ فرمایا کہ ان سے تعظیم ومہربانی کا معاملہ روا رکھا جائے نہ کہ سختی اور بے توقیری کا

:  وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا (الاسراء:23)

’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ ‘‘ حتی کہ اگر والدین کا فر بھی ہیں تو ان کے ساتھ رہنے اور بھلائی کرنے کا حکم دیا : 

وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا (لقمان:15) ’’

ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا ۔‘‘

اگر وہ مسلمان ہیں تو پھر ان کے حقوق کا کیا عالم ہوگا ؟جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت پہ توجہ دی ان کی تعلیم پہ حریص رہے یہی وجہ ہے کہ امام الانبیاء نے افضل ترین اعمال میں سے بر الوالدین کا شمار فرمایا اسی احترام وتوقیر کا سلسلہ اسلام نے میاں بیوی کے مابین تعلقات میں بھی سکھایا ہے یہاں تک کہ اس تعلق اور ناطے سے وجود میں آنے والے دوسرے رشتوں کے احترام کا بھی سبق دیا ہے۔بڑوں ،بزرگوں کی عزت وتوقیر اور ان کی مدد اللہ تعالیٰ کی تعظیم وبزرگی کا آئینہ دار ٹھہرایا۔ فرمان رسول ﷺ ہے :

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ (سنن ابي داودكتاب الادب باب في تنزيل الناس منازلهم، الحديث:4843)

’’اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور بزرگی ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان ،قرآن کریم کے حامل (حافظ وعالم) کا سوائے اس میں غلو اور کمی (افراط و تفریط) کرنے والے کے اور عادل بادشاہ کا اکرام کیا جائے ۔ ‘‘

بڑوں کے احترام کے ساتھ بچوں پر شفقت بھی اسلام کا درس ہے کہ رحم کرنے والوں پر رب رحم فرماتاہے ، رحمت کائنات نے اسی احترام میں پڑوسی کے حقوق اپنے اس ارشاد کے ساتھ شامل فرمائے :

  مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ (صحيح البخاري كتاب الادب باب: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره،الحديث:6019 ،ومسلم كتاب الايمان باب الحث على إكرام الجار والضيف… الحديث:47)

’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے اپنے پڑوسی کا احترام واکرام کرنا چاہیے۔‘‘

اسی احترام کا ایک حصہ رب رحمن کی نعمتوں کی قدردانی ہے اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہ جانا جائے اور منعم حقیقی کی دی ہوئی نعمتیں اس کی اطاعت میں استعمال کی جائیں کیونکہ نعمتیں شکر سے باقی رہتی ہیں اور کفران نعمت نعمتوں کے خاتمے کا سبب بن جایا کرتاہے۔

لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ(ابراھیم:7)

’’ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘

احترام وتعظیم کا ایک حصہ مساجد کے لیے ہے کہ اللہ کے گھروں میں شوروشغب سے باز رہا جائے فضول اور لا یعنی گفتگو سے بچا جائے ، لڑائی جھگڑا تو بہت دور کی بات ہے ایسی اونچی آواز میں تلاوت جو دوسروں کے لیے ایذاء کا سبب بنے وہ بھی جائز نہیں کیونکہ یہ گھر فرشتوں کے نزول کی جگہ، اللہ والوں کا ٹھکانہ اور ذکر الٰہی کی آماجگاہیں ہیں۔انسان تو انسان اسلام نے حیوانات ،چرند پرند تک کا احترام ملحوظ خاطر رکھنے کی ترغیب دی ہے۔رسول کریم ﷺ نے ایک عورت کا قصہ بیان فرمایاجو ایک بلی کی وجہ سے دوزخ کا ایندھن بن گئی اسے قید کرکے رکھا نہ خود کچھ کھانے کیلئے دیا اور نہ اسے چھوڑا کہ زمین سے اپنا رزق تلاش کرتی یہاں تک کہ بھوک سے مر گئی اور اس جرم میں یہ عورت جہنم میں چلی گئی۔ آپ نے ایک چڑیا تک کا حق واحترام سمجھا کر بتادیا کہ اسلام کس قدر امن وسلامتی کا دین ہے ایک طرف تو اسلام کی یہ رواداری ہے اوردوسری جانب حقوق کے نام پر انسانوں کا قتل عام چیونٹیوں کے لیے کھیتوں میں جاکر گیہوں ڈالنے والے اور انجانے میں بھی پاؤں کے نیچے چیونٹی کچلی جائے تو اسے پاپ سمجھنے والے ہندو نے تقریباً دو ماہ سے اسی لاکھ انسانوں کو محبوس کر رکھا ہے پورا کشمیر لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ اگست کی ابتداء سے شروع ہونے والا کرفیو تا حال برقرار ہے ۔ 9 لاکھ انڈین آرمی کشمیریوں پہ ظلم توڑ رہی ہے تقریباً ہر دس کشمیریوں پر ایک مسلح فوجی مسلط ہے کشمیریوں کو عید کی نماز سے لیکر جمعہ کے اجتماعات میں بھی گھروں میں محبوس رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جو آزادی کے متوالے اپنی آزادی کے حق میں احتجاج کیلئے نکلتے ہیں ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں ،شیلنگ ہوتی ہے ،پیلٹ گنوں سے لوگوں کو اندھا کیا جارہا ہے۔

لاکھوں کشمیری 70 سال سے تحریک آزادی پر قربان ہوچکے ہیں ۔ اسی ہزار بچے ظالم ہندو فوج کے ظلم كي وجه سے یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں ، ہزاروں جوان ہمیشہ کے لیے اپاہج بن چکے ہیں۔ مسلمان بیٹیوں کی عصمت دری کا سلسلہ جاری ہے ، بے شرم RSSکے ہندو بھیڑیے سرعام کشمیر کی مسلمان بیٹیوں کو اُٹھانے کی

بات کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں عالمی برادری خاموش تماشائی ہے جس پہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے مگر اقوام متحدہ پانچ بڑی طاقتوں کی لونڈی ہے امریکہ، برطانیہ،فرانس ، روس اور چین سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں جن کو ویٹو پاور حاصل ہے۔

گویا باقی ممالک کو ان عالمی قوتوں میں سے کسی نہ کسی کا باجگزار بننا پڑے گا جمہوریت کے ٹھیکیدار یورپ کی جس ادارے پر اجارہ داری ہے وہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے ہی غیرجمہوری ہے۔1945ء سے قائم ہونے والا یہ ادارہ بری طرح ناکام ہے یورپ کا دوہرا معیار ہے عمران خان نے صحیح کہا کہ اگر آٹھ امریکیوں کے ساتھ ہی وہ ہوتا جو 80 لاکھ کشمیریوں کے ساتھ ہورہا ہے تو کیا تمہارا ردّ عمل یہی ہوتا یہ تو انسان ہیں کیا اگر جانوروں کو یوں بند کر دیا جاتا تو آپ خاموش رہتے؟ یوں اگر کہا جائے کہ جس قدر اچھی تقریر ہونی چاہیے تھی اس کا حق عمران خان نے ادا کر دیا کشمیریوں کی مظلومیت اُجاگر کی عالمی ضمیر کی بے حسی واضح کی مگر بات یہ ہے کہ

ہمیں ان سے ہے وفاکی امید

جونہیں جانتے کہ وفا کیا ہے

ستر سال سے کشمیری انصاف کے منتظر ہیں بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے اس امید کے ساتھ کے پاکستان کے دشمن ہندوستان کے حق میں فیصلہ دے دیں گے مگر وہاں پے درپے کئی قرار دادیں منظور ہوئیں کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جائے مگر ستر سال بیت گئے اور پاکستان کی حکومتیں استصواب رائے کی قرار دادوں پہ عمل درآمد نہ کرواسکیں ، اب صورت حال یہ ہے کہ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے عالمی برادری نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ امریکہ بہادر تو مودی قصاب کو تھپکی بھی دے رہا ہے کچھ لوگ مایوسی کے عالم میں کیوباکے فیڈل کا سترو،فلسطین کے یاسر عرفات ،وینزویلا کے ہوگو شاویز، لیبیا کے معمر قذافی اور روس کے خرد شیف کی تقریروں کا حوالہ دے کر کہہ رہے ہیں کہ تقریر سے تقدیر نہیں بدلتی ،ٹھیک ہےتقریر سے تقدیر نہیں بدلتی مگر کبھی کبھی بہت بڑے معرکے سر ہوجاتے ہیں جب کشتیاں جلا کر طارق بن زیاد صرف سات ہزار کے لشکر سے جبرالٹر پر مخاطب ہوا تو سامنے راڈرک ایک لاکھ کا لشکر لیکر کھڑا تھا اور پیچھے سمندر کی بے رحم موجیں تاریخ نے دیکھا کہ ایک لاکھ کا لشکر مات کھا گیا اس وقت پاکستان کی شہ رگ پہ ہندو کا پاؤں ہے عالمی برادری مودی کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے سوائے چند بیانوں کے عملی طور پر کچھ کرنے کو تیار نہیں، ہندوستان نے ان تمام ہی چیزوں کی بے توقیری کی انتہا کر دی ہے جن کا ذکر ہم ابتدا میں کر آئے ہیں انسان جانور اللہ کے گھر اللہ کے رسول اور خود رب العالمین کسی کے احترام کا بھی ہندو نے خیال نہیں رکھا ایسے میں جب کہ پاکستان انتہائی نازک صورت حال سے دوچار ہے کچھ لوگ سیاست کے نام پہ ملک کو اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی سیاست کے لیے ملک وملت کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں اگرچہ ان کا داؤ چلے گا نہیں اِن شاء اللہ ۔مگر پھر بھی ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ تو پنجابی مثال کے مصداق کہ ’’ کنویں میں گرے ہوئے بیل سے جو چاہو معاملہ رکھو‘‘ اپنا اُلّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں ان کے اس موقف کو حکومت کی ناقص کارکردگی تقویت دے رہی ہے۔ عوام مہنگائی کے ستائے ہوئے پریشان حال ہیںپورے ملک میں بارہ ہزار سے زائد لوگ ڈینگی کا شکار ہوچکے ہیں ، بدلتی ہوئی وزارتیں ان کی نااہلی کا واضح ثبوت ہیںبیرونی خطرات سے نپٹنے کے لیے اندرونی استحکام ضروری ہے جس کے لیے حکومت عوام کو ریلیف دے مہنگائی پر کنٹرول کرے ایسا نہ ہو کہ ناتجربہ کاری اور مجبور عوام کی آہیں حکومت کو لے ڈوبیں۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے شروع ہوکر کلمہ طیبہ پر ختم ہونے والی تقریر کے اگرچہ اقوام عالم پر کوئی خاص اثرات نظر نہیں آرہے مگر عمران خان کے سپرد جو کام تھا ، وہ انہوں نے باحسن طریقہ سر انجام دیا اور اغیار کوآئینہ دکھایا اب عملی اقدام کی طرف بڑھنا ہوگا تقریر سر آنکھوں پر مگر تحریک کی اشد ضرورت ہے۔بھارت رواداری اور مروت سے ماننے والا نہیں اورشاعر ہمیں پیغام دے رہا ہے :

کوئی حد بھی ہوتی ہے احترام آدمیت کی

بدی کرتا ہے دشمن اور ہم شرمائے جاتے ہیں

ہر قسم کے خلفشار سے بچنے کے لیے ہمیں پالیسی ساز اور دفاعی اداروں پر بھروسہ رکھنا چاہیے افواہوں پر کان نہ دھریں کسی بھی ایسی سازش کا حصہ نہ بنیں جو ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانے والی ہو ملک وقوم کے محافظ سپوتوں نے کل بھی قربانیاں دی تھیں وہ آج بھی تیار ہیں ان شاء اللہ مودی کے لیے کشمیر مہنگا پڑے گا اور اس کی ذلت ورسوائی کا سامان ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے