پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! کما حقّہ تقوی اپناؤکیونکہ متقی کامیاب ہو گا اور یاد الہی سے منہ موڑنے والا تباہ ہو گا۔

مسلمانو! اللہ تعالی نے مخلوق کو آیات قرآنی اور نبی کریم ﷺ کی زبانی اپنا تعارف کروایا۔ اللہ تعالی کے اسما و صفات انتہائی اعلی ہیں۔ اللہ کی صفات پر غور و فکر اور ان کے ذریعے اللہ کی بندگی اللہ کی محبت اور جنت کا راستہ ہے۔

اسماء و صفات پر غور و فکر کی بدولت اللہ تعالی سے خوف، امید، محبت اور توکل وغیرہ جیسی خوبیاں پروان چڑھتی ہیں۔

امت محمدیہ کے سلف صالحین کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ بھی کتاب و سنت میں اللہ تعالی کے اسما و صفات بیان ہوئے ہیں انہیں ثابت مانیں؛ اللہ کا خوف اور خشیت پیدا کرنے والی صفات الہیہ میں غضب کی صفت بھی شامل ہے۔ اللہ تعالی غضبناک ہوتا ہے اور راضی بھی،لیکن کائنات میں سے کسی کے ساتھ اس کی مشابہت نہیں ۔

اللہ تعالی کی صفات میں سے ہر صفت کا خلقت پر اثر ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کی صفت غضب کا اثر دنیا میں رونما ہونے والی عمومی سزاؤں اور بلاؤں کی صورت میں نظر آتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى (طہ: 81)

’’اور جس پر میرا غضب نازل ہو گا تو وہ تباہ ہو گیا۔ ‘‘

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اللہ کے غضب سے چھٹکارے کی کوئی دوا نہیں”۔

اللہ کی ناراضی سے انسان کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ

یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی ناراضی کا باعث بننے والی چیزوں کی پیروی کی اور رضائے الہی کو پسند نہ کیا، تو اللہ نے ان کے اعمال غارت کر دئیے۔[محمد: 28]

اللہ جس قوم پر غضبناک ہو تو ان سے انتقام لیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ

تو جب انہوں نے ہمیں غضبناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لے لیا۔[الزخرف: 55]

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “عذاب اللہ تعالی کی صفت غضب سے پیدا ہوتا ہے، اور آگ اللہ کے غضب سے ہی بھڑکائی جاتی ہے۔”

اللہ تعالی نے کچھ اقوام کو سزا سے دو چار کیا اور ان کے واقعات ہمیں اس لیے بتلائے تا کہ ہم ان کے کئے ہوئے گناہوں سے باز رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ

وہ جہاں کہیں پائے گئے ان پر ذلت تھوپ دی گئی، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہو جائے یا انسانوں کی طرف سے ، آخر کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ۔ [آل عمران: 112]

ایک قوم نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو انہیں پے در پے غضب الہی مول لینا پڑا، اور ایک قوم پر اللہ تعالی غضبناک ہوا تو ان کی شکلوں کو مسخ کر دیا، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: بنی اسرائیل کے ایک قبیلے پر اللہ تعالی غضبناک ہوا تو انہیں جانوروں میں بدل دیا اور وہ زمین پر رینگنے لگے۔( مسلم)

تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنی اقوام کو اللہ تعالی کے غضب سے خبردار کیا ہے، جیسے کہ سیدناموسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو خبردار کرتے ہوئے خطاب کیا اور کہا:

أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ

یا تمہارا ارادہ ہے کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غضب نازل ہو!؟ [طہ: 86]

فطرتِ سلیم رکھنے والے غضب الہی سے ڈرتے رہتے ہیں، جیسے کہ: “ نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل زید بن عمرو بن نفیل سچے دین کی جستجو میں نکلے اور ایک یہودی عالم سے ملے، تو آپ نے ان سے یہودیت کے متعلق پوچھا تو یہودی عالم نے کہا: تم اس وقت تک ہمارے دین میں شامل نہیں ہو سکتے جب تک تم غضب الہی میں سے اپنا حصہ نہ لے لو۔ اس پر زید نے کہا: میں اللہ کے غضب ہی سے تو بچنا چاہتا ہوں، میں کبھی بھی اللہ کے غضب کا متحمل نہیں ہو سکتا، میں کس طرح غضب الہی برداشت کر سکتا ہوں؟!” (بخاری)

مسلمان ہمیشہ اللہ تعالی سے رحمت اور رضائے الہی کی امید کرتے ہوئے لو لگاتا ہے، وہ ہمیشہ اللہ کے غضب اور ناراضی سے بچتا ہے، جبکہ شرک غضب الہی اور عذاب کا سب سے بڑا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ان تک ان کے پروردگار کا غضب ضرور پہنچے گا اور دنیا میں انہیں ذلت ملے گی۔[الأعراف: 152]

قبروں کے پاس یا قبروں کی طرف منہ کر کے نماز غضب الہی کا سبب بنتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں پر اللہ کا شدید ترین غضب ہوا۔ (مالک)

اللہ تعالی کی صفات میں شراکت داری کے لئے کوشش کرنے والے پر اس کی کاوش بطور عذاب الٹی پڑ جاتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: “اپنے آپ کو شہنشاہ کہلوانے پر اللہ تعالی کا شدید ترین غضب ہوا” (احمد)

اللہ تعالی کی ذات نہایت سخی ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ بندے اس سے مانگتے رہیں، چنانچہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ سے نہ مانگے تو اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ (ترمذی)

کفر اللہ کو محبوب نہیں اور نہ ہی اسے پسند کرتا ہے، چنانچہ جب بھی کوئی بندہ کفر کرے تو اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

جس نے خوشی سے کفر کیا ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ [النحل: 106]

معاشرے میں بہتری اس وقت آتی ہے جب ظاہر اور باطن دونوں ہی صاف ہوں، لیکن اگر کوئی دل میں تو برائی رکھے اور ظاہر کچھ اور کرے تو اس کا اللہ کے بارے میں گمان اچھا نہیں ہے؛ اسی بنا پر وہ غضب الہی کا مستحق ٹھہرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

اور اللہ کے بارے میں برا گمان کرنے والے منافق مردوں اور عورتوں نیز مشرک مردوں اور عورتوں کو اللہ سزا دے ، یہی لوگ برے حالات میں پھنسے ہوئے ہیں، اور اللہ ان پر غضبناک ہے، ان پر اللہ کی لعنت بھی ہے نیز ان کے لیے جہنم تیار کی ہوئی ہے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ [الفتح: 6]

ساری خلقت میں سے رسول چنیدہ ہوتے ہیں، اس لیے جو بھی رسولوں کو تکلیف دے تو وہ اللہ کے شدید ترین غضب کا مستحق ٹھہرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ایسی قوم پر اللہ تعالی شدید ترین غضبناک ہوا جنہوں نے اللہ کے نبی کا چہرہ خون آلود کر دیا۔ (متفق علیہ)

بد ترین مخلوق وہ ہے جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اس شخص پر اللہ تعالی شدید ترین غضبناک ہوا جسے نبی نے قتل کیا۔ (متفق علیہ)

اللہ کے ولیوں اور نیک بندوں کو خفا کرنے والا اللہ تعالی کو اپنے اوپر غضبناک کر لیتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اگر تم نے انہیں [یعنی صحابہ کرام کو] خفا کر دیا تو تم نے اپنے پروردگار کو غضبناک کر دیا۔ (مسلم)

مصیبت کے وقت بے صبری سے تقدیری فیصلے نہیں ٹلتے، اور مصیبت پر ناراضی کے اظہار سے ناراضی ہی ملتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (جو [تقدیری فیصلوں پر]اظہار ناراضی کرے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے بھی ناراضی ہے۔ (ترمذی)

اسی طرح اللہ کے راستے سے قولاً یا عملاً روکنا بھی تباہی اور غضب الہی کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ

جو لوگ اللہ کی دعوت تسلیم کر لئے جانے کے بعد اللہ کے متعلق جھگڑا کرتے ہیں ان کی حجت ان کے پروردگار کے ہاں کالعدم ہے ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ [الشورى: 16]

اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “ یعنی اللہ اور رسول اللہ پر مومنوں کے ایمان لانے کے بعد انہیں راہ ہدایت سے روکنے اور دوبارہ سے جاہلیت میں لے جانے کے لئے انہوں نے جھگڑا شروع کر دیا “

حاصل کردہ علم پر عمل نہ کرنے والا بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن پر اللہ کا غضب ہے، مسلمانوں کو نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ایسے لوگوں سے اور ان کی روش سے بچا لے ۔

اللہ تعالی نے والدین کے حقوق کو خصوصی تحفظ دیا کیونکہ ان کی شان بہت اعلی ہے، نیز اپنی رضا مندی کو والدین کی رضا مندی سے منسلک فرما دیا، ایسے ہی اپنی ناراضی کو بھی ان کی ناراضی سے نتھی کر دیا، سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : “رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے”۔ (ترمذی)

مسلمان کی جان کو مکمل تحفظ حاصل ہے، اسی لیے مسلمان کو قتل کرنے والا شخص اللہ کے غضب اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

اور جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ [النساء: 93]

مسلمانوں کی دولت کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہے، اسی لیے مسلمان کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والے کے لئے بھی شدید وعید ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے مالی معاملات میں قسم اس لیے اٹھائی کہ اس کے ذریعے سے کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے تو اللہ کے ساتھ اس کی ملاقات اس حالت میں ہو گی کہ اللہ تعالی اس پر غضبناک ہو گا۔ (متفق علیہ)

اگر کوئی جھوٹی عورت اپنے خاوند سے لعان کرے تو وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

.6وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ

اور پانچویں قسم یہ کہ: اللہ کا اس عورت پر غضب نازل ہو، اگر مرد اپنے دعوے میں سچا ہے۔[النور: 9]

ظلم کے لئے کسی کی مدد کرنے والے پر بھی اللہ تعالی غضبناک ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جو کسی جھگڑے میں کسی کی ناحق مدد کرے یا ظلم کرنے کے لئے معاونت کرے تو اللہ تعالی اس پر اس وقت تک غضبناک رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت باز آ جائے۔ (ابن ماجہ)

زبان لوگوں کے ہاں ایک معیار ہے؛ اسی لیے ممکن ہے کہ ایک ہی بول انسان کی کامرانی یا نامرادی کا سبب بن جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: تم میں سے کوئی اللہ تعالی کو غضبناک کرنے والی بات بول دیتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہو گا ، لیکن اللہ تعالی اس پر ملنے کے دن تک اپنا غضب لکھ دیتا ہے۔ ( ترمذی)

دشمن سے مڈ بھیڑ کے دوران میدان کار زار سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا بھی غضب الہی کا موجب ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

اور اس دن پیٹھ پھیرنے والا شخص اللہ کے غضب میں آگیا۔ اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بری جائے بازگشت ہے ، الا یہ کہ وہ کوئی جنگی چال چل رہا ہو یا مڑ کر اپنی فوج کو ملنا چاہتا ہو۔[الأنفال: 16]

شکر ادا کرنا نعمت کا حق ہے، جبکہ اس نعمت پر تکبر اور حقیقی نعمت کنندہ کو بھول جانے کی سزا دنیا میں فوری مل جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى

جو پاکیزہ چیزوں کا تمہیں رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور کھا کر سرکشی نہ کرو۔ ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب اترا وہ تباہ ہو گیا۔ [طہ: 81]

اللہ تعالی کو غضبناک کرنے والے کام کے مرتکب شخص کے ساتھ بغض رکھنا واجب اور اس سے تعلقات بنانا حرام ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ

اے ایمان والو! ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب ہوا۔[الممتحنة: 13]

لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موت کے بعد کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا سب سے سخت غضب روزِ قیامت ظاہر ہو گا، اسی لیے آدم، نوح ، ابراہیم ، موسی اور عیسی علیہم السلام جیسے انبیائے کرام بھی اس سخت صورت حال میں پکار اٹھیں گے: بلا شبہ میرا پروردگار آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، بلکہ آج کے بعد کبھی بھی اتنا غضبناک نہیں ہوگا۔ (متفق علیہ)

روزِ قیامت اللہ تعالی کے شدید غضبناک ہونے کی اثرات پر امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس دن گناہگاروں سے انتقام، لوگوں کو نظر آنے والا درد ناک عذاب، اسی طرح میدان محشر میں لوگوں کو پیش آنے والی ایسی سختی اور ہولناکی کہ نہ کبھی ماضی میں ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں ہوگی ،یہ سب اللہ کے غضب کے اثرات ہیں۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد مسلمانو!اللہ تعالی بہت مضبوط اور قوت والا ہے، اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے غضب سے خبردار بھی کر دیا اور فرمایا:

وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ (آل عمران: 28)

اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے خبردار کرتا ہے۔

لوگوں کو اللہ تعالی کے حلم کے دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے۔ جب اللہ تعالی کسی پر غضبناک ہو کر سزا کا حکم جاری کر دے تو اس کے فیصلے کو کوئی نہیں ٹال سکتا؛ چنانچہ اگر لوگ بد اعمال کر کے بھی اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل کرتے رہیں تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ڈھیل ہے، انہی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ

اور میں انہیں ڈھیل دے رہا ہوں، بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔[القلم: 45]

تاہم اگر لوگ اللہ کی طرف رجوع کر لیں تو اللہ تعالی ان کے لئے توبہ اور بھلائی کے دروازے کھول دے گا اور ان سے راضی ہو جائے گا۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (آل عمران: 162)

بھلا جو شخص اللہ کی رضا کے پیچھے چل رہا ہو وہ اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اللہ کے غضب میں گرفتار ہو اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو؟ اور جہنم تو بہت برا ٹھکانا ہے۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانو! اطاعت گزاری رضائے الہی کی موجب ہے، اسی کی بدولت انسان اللہ کی رحمت پاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ

میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ لہذا جو لوگ تقوی اپناتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے میں رحمت ہی لکھوں گا۔ [الأعراف: 156]

رحمتِ الہی کی وسعت میں یہ بھی شامل ہے کہ رحمت ؛ غضب سے پیش قدم ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالی نے مخلوقات پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی ہے کہ: یقیناً میری رحمت میرے غضب سے پیش قدم ہے۔ یہ تحریر اللہ کے پاس عرش کے اوپر لکھی ہوئی ہے۔ (بخاری)

غضب الہی سے اللہ کی پناہ مانگنا اللہ کے حکم سے تحفظ کا باعث بن سکتا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی دعا میں شامل تھا کہ:

اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ

یا اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیرے غضب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔(مسلم)

اس لیے دانش مند مسلمان رضائے الہی پانے کے لئے خوب محنت کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہر ایسے کام سے بچاتا ہے جو اللہ کو غضبناک کریں۔

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے