پیارے بچو !
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَاتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَارِبَ خَصَفَةَ بِنَخْلٍ، فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِرَّةً، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالَ لَهُ: غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ، حَتَّى قَامَ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّيْفِ، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: اللَّهُ ، فَسَقَطَ السَّيْفُ مِنْ يَدِهِ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: كُنْ كَخَيْرِ آخِذٍ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، قَالَ: لَا، وَلَكِنِّي أُعَاهِدُكَ أَنْ لَا أُقَاتِلَكَ، وَلَا أَكُونَ مَعَ قَوْمٍ يُقَاتِلُونَكَ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: فَذَهَبَ إِلَى أَصْحَابِهِ، قَالَ: قَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ، فَلَمَّا كَانَ الظُّهْرُ أَوِ الْعَصْرُ صَلَّى بِهِمْ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَكَانَ النَّاسُ طَائِفَتَيْنِ طَائِفَةً بِإِزَاءِ عَدُوِّهِمْ، وَطَائِفَةً صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَكَانُوا مَكَانَ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَانُوا بِإِزَاءِ عَدُوِّهِمْ، وَجَاءَ أُولَئِكَ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، فَكَانَ لِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ، وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ
سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وادی نخل میں محارب خصفہ کے لوگوں سے لڑائی کےلیے تشریف لے گئے۔ جب ان لوگوں نے مسلمانوں میں غفلت کا مشاہدہ کیا تو ایک دشمن غورث بن حارث موقعہ پا کر رسول اللہ ﷺ کے سر پر تلوار لیے آ پہنچا اور بولا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ۔ اتنے میں تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، اب کی بار رسول اللہ ﷺ نے تلوار اٹھا لی اور فرمایا: اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ وہ بولا: آپ اس تلوار کو پکڑنے والے بہترین آدمی بن جائیں (یعنی مجھ پر احسان کریں)۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ البتہ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ میں آپ کے مقابلے میں آئوں گا اور نہ آپ کے ساتھ لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گیا اور جا کر کہا: میں بہترین آدمی کے پاس سے آیا ہوں۔ پھر جب ظہر یا عصر کا وقت ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو نمازِ خوف پڑھائی۔ لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک گروہ دشمن کے مقابلے میں رہا اور دوسرا گروہ آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے گروہ کی جگہ پر یعنی دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ نماز کے لیے آ گئے،آپ ﷺ نے ان کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں اور آپ ﷺ کی چار۔ ( مسند احمد : 2964 )
پیارے بچو ! مذکورہ قصے سے ہم کو چند اہم نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔
1 غفلت سے گریز کریں غفلت انتہائی نقصان دہ عمل ہے ۔
2 اللہ پر مکمل توکل اور بھروسہ کیا جائے ۔
3 دشمنوں سے اور مصیبتوں سے بچانے والا فقط اللہ ہی ہے ۔
4 اچھا اخلاق لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے ۔
5 لوگوں پر احسان کیا کریں چاہے وہ تمہارا دشمن ہی کیوں نہ ہو ۔
6 نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں چاہے دشمنوں کا لشکر تمہارے سامنے ہی کیوں نہ ہو ۔
۔۔۔