پاکستان کا قادیانی عبد الشکور متنازعہ اور ممنوعہ کتب بیچنے کے جرم میں گرفتار ہوا۔ہائی کورٹ کے جج نے عدالتی کارروائی کے بعد اُسے آٹھ سال قید اور جرمانہ کی سزا سنائی۔ امریکی ادارے ریلیجئس فریڈم(کمیش برائے مذہبی آزادی) نے اس سزا پر تنقید کی اور رہائی پر زور دیا اور اقوام متحدہ نے بھی سفارش کی کہ ساڑھے تین سال بعد اُسے رہائی مل گئی۔پھر اُس نے امریکہ میں پناہ حاصل کر لی اور امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کی اور نہایت مظلومانہ انداز میں اپنی داستان سنائی امریکی صدر نے ہاتھ بڑھا کر اس سے ہاتھ ملایا اور تسلی دے کر رخصت کیا۔

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے مذہبی قائد سے والہانہ محبت کرتاہے اور اس کے عقیدت مندوں سے دوستی کا رشتہ پیوست کرتاہے جبکہ اُن کی توہین کرنے والے سے نفرت کرتاہے لیکن صلیبی قوم کا رویہ اس کے متضاد ہے۔ یورپ اور امریکہ میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ مانتے ہیں لیکن اُن کی دوستی یہودیوں اور قادیانیوں سے ہےجو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کےبارے گستاخانہ نظریہ رکھتے ہیں۔

یہودی رویہ :

سیدنا مسیح علیہ السلام نے نبوت ملنے کے بعد بنی اسرائیل کی اصلاح کی ان تھک کوشش کی انہیں تورات کے احکام یاددلائے، اُن کی غلطیوں کی نشاندہی کی۔انجیل کے احکام سنائے اور سکھائے مگر ماسوائے چند کے بگڑی قوم کی حالت نہ سنور سکی بلکہ یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بن گئے۔

سیدنا زکریا علیہ السلام پر ،سیدہ مریم علیہا السلام سے زنا کا الزام لگایا اور بالآخر اُن کو اسی وجہ سے قتل کر دیا۔ سیدنا یحییٰ علیہ السلام نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی تو انہیں بھی حکومت کی وساطت سے مروا ڈالا۔ اُن دونوں انبیاء کرام کے قتل کے بعد یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بن گئے۔ یہودی احبار نے ان پر مقدمہ چلایا اور حکومت پر دباؤ ڈال کر انہیں سولی پر لٹکانے کی کوشش کی۔

عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ یہودیوں کی شکایت کرنے پر بادشاہ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو ہی سولی دی انجیل ومتی میں مذکور ہے:

یسوع بڑی اونچی آواز سے چلایا، ایلی، ایلی، لما شبقتنی، یعنی:اَے میرے خدا! اَے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27:46)

اور آپ نے چیخ چیخ کر جان دی پھر یوسف نامی شخص نے پلاطوس سے درخواست کی کہ لاش اس کے حوالے کر دی جائے چنانچہ اُس نے آپ کو قبر میں دفنایا اور پھر چٹان رکھ دی یہ جمعہ کی شام کا وقت تھا پھر تین دن بعد اتوار کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوکر لوگوں کو دکھائی دیئے پھر آسمان پر چڑھ گئے اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے۔عقیدہ کفارہ کی عمارت اس پر کھڑی کی گئی۔

یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت اور اپنی بد اعمالیوں کی بنا پر معاشرہ میں نفرت کا سمبل بن گئے وہ دربدر نقل مکانی کرتے رہے بالآخر یہودی لیڈروں نے مل کر ترکیب سوجھی انہوں نے یورپی حکمرانوں کو قرضے دے کر اثرورسوخ حاصل کر لیا اور من پسند مقاصد حاصل کیئے ۔اسرائیل کا قیام اس کی زندہ مثال ہے۔ سابقہ پوپ جان پال دوم نے بھی یہودی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور صدیوں سے قائم عیسائیوں کے اس الزام سے اسرائیلیوں کو بری قرار دے دیاکہ یہودی یسوع مسیح کے قاتل ہیں۔

مزید برآں انہوں نے پروپیگنڈہ مہم تیز کر دی چونکہ انجیل میں سیدنا مسیح علیہ السلام کا قول مذکور ہے کہ ’’ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں۔‘‘ اس بنا پر عیسائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے جان پر کھیل جائیں علاوہ ازیں اُن کو یقین دلایا کہ سیدنا مسیح کے نزول پر یہودی اُن پر ایمان لائیں گے۔

مذکورہ پروپیگنڈہ حقائق کے منافی ہے نزول مسیح کے وقت عیسائی اسلام میں داخل ہوکر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیں گے جبکہ یہودی دجال کا ساتھ دیں گے۔

نزول مسیح کے وقت قوم یہود کی قیادت دجال کے ہاتھ میں ہوگی۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تشریف لاکر دجال کو قتل اور اس کے ساتھی یہودیوں کا صفایا کریں گے۔ اس سے فارغ ہوکر قومِ نصاریٰ کی غلطیوں کی اصلاح فرمائیں گے ان کے اعتقادی بگاڑ کی بنیاد عقیدہ تثلیث ،کفارہ اور صلیب پرستی پر مبنی ہے ۔سیدناعیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے عیسائیوں پر واضح ہوجائے گا کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں اس طرح آپ کا وجود عقیدہ تثلیث کی تردید کرے گا۔ کفارہ اورصلیب پرستی کا دارومدار اس پر ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو معاذ اللہ سولی پر لٹکایا گیا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا بقیدِ حیات ہونا عقیدہ کفارہ اور تقدس صلیب کی نفی ہوگی اس طرح عیسائی اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے۔

اہل مغرب ! آپ یہودیوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھیں لیکن ان پر اعتماد کرکے دوستی کے رشتہ میں پیوست نہ کریں۔ اس میں آپ کی فلاح اور کامیابی ہے۔

جبکہ قادیانی نقطہ نظر ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زندہ حالت میں آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ بلوائیوں نے انہیں گرفتار کر لیا تھا پھر اُن کی توہین وتذلیل کی تھی مارا پیٹا حتی کہ اپنے خیال میں انہیں قتل کر ڈالا جب وہ آپ کی نعش مبارک چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے تو حواری جو بے بسی کی تصویر بن کر سارا منظر دیکھ رہے تھے آہستہ آہستہ آگے بڑھے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ مسیح علیہ السلام ابھی زندہ ہیں چنانچہ انہیں وہاں سے کسی خفیہ جگہ پر منتقل کیاگیا جہاں ان کا علاج کیاگیا وہ شفا یاب ہوئے پھر ہجرت کرکے کشمیر آگئے وہاں دعوت وتبلیغ میں رہ کر بالآخر وفات پاگئے اور وہیں دفن ہوئے۔

قادیانی قائد مرزا غلام احمد نے اپنے بارے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا:

تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔‘‘(اعجاز احمدی ص796، مندرجہ روحانی خزائن ج19ص113)

اور سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں نازیبا اور توہین آمیز جملے تحریر کرتارہا : 

“ عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیںاور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا۔”(حاشیہ انجام آتھم صفحہ6مندرجہ روحانی خزائن نمبر11صفحہ290از مرزا قادیانی)

“آپ( عیسیٰ علیہ السلام) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں(جسم فروش عورتیں) تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر شاید یہ بھی خدائی کیلئے ایک شرط ہوگی۔ (انجام آتھم صفحہ7 مندرجہ روحانی خزائن نمبر11 صفحہ 291از مرزا قادیانی )

عيسائي صاحبان سيدنا مسيح ابن مريم عليه السلام كو ابن الله كهتے ہیں جبکہ قادیانی قائد کا موقف ہے کہ اُن کا خدائی دعویٰ شراب خوری کا نتیجہ ہے : 

’’یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کا دعویٰ شراب خواری کا ایک بد نتیجہ ہے۔‘‘(ست بچن حاشیہ صفحہ 172مندرجہ روحانی خزائن جلد10صفحہ296 از مرزا قادیانی)

باعث تعجب ہے کہ یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ سیدہ مریم علیہا السلام پر الزام تراشی کریں اور عیسائی ان کو سر آنکھوں پر بٹھائیں اور عالمی سطح پر اُن کو تحفظ فراہم کریں؟ قادیانی قائد مرزا غلام احمد برملا بہتان تراشی کرے کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب کے نشہ میں خدائی دعویٰ کرتا تھا۔ زناکار اور کسبی عورتوں کے خون سے عیسیٰ علیہ السلام کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ ان توہین آمیز نظریہ رکھنے والے قادیانیوں کا برطانیہ میں’’احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ ہیڈکواٹر ہو۔یورپ اُن کو سیاسی پناہ کی آڑ میں ویزے جاری کرے اور امریکی صدر ہاتھ بڑھا کر اُن کو تعاون کا یقین دلائے۔ اہل مغرب کا یہ رویہ انسانی فطرت کے منافی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عقیدت ومحبت سے متعلق منافقانہ کردار ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نوع انسانی کی راہنمائی کے لیے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام کو اپنا سفیر بنا کر مبعوث فرمایا جن کے کردار کو داغدار بنا کر پیش کرنا اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے۔

موجودہ دور کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں ، مثلاً : امریکہ اپنا سفیر کسی ملک میں تعینات کرتاہے اس ملک کا سربراہ اس سفیر سے توہین آمیز سلوک کرے تو امریکہ یقیناً اسے اپنی توہین تصور کرے گا۔ اسی طرح انبیاء کرام کی شان اقدس میں گستاخی دراصل ان کو مبعوث کرنے والی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کی توہین ہے اس بنا پر توہین ورسالت کے قانون پر کسی کا اعتراض کرنا نامناسب فعل ہے۔

عیسائی قوم پر حیرت ہے کہ وہ اپنا دشمن مسلمان قوم کو تصور کرتے ہیں جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا مقرب اور معصومنبی تسلیم کرتے ہیں۔

سیدہ مریم علیہا السلام ہیکل کے حجرہ میں مقیم رہ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہا کرتی تھیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے کہا : 

يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ (آل عمران:45۔46)

’’اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں ذی عزت ہے اور وہ میرے مقربین میں سے ہے۔وہ لوگوں سے اپنے گہوارے میں باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی اور وہ نیک لوگوں میں سے ہوگا۔‘‘

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو تیس سال کی عمر میں نبوت ملی اس کے بعد تین سال مسلسل دین کی تبلیغ میں مصروف رہے۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی معجزات سے بھرپور ہے آپ کی پیدائش والد کے نطفہ کے بجائے نفخۂ جبرائیل سے ہوئی ، آپ نے مہد میں کلام کرکے والدہ کی پاکدامنی کا ثبوت پیش کیا، آپ مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے، یہودیوں نے اُن کو سولی پرلٹکانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور انہیں دشمنوں کی دسترس سے بچا کر آسمان پر اُٹھالیا پھر قیامت کے قریب ان کا نزول ہوگا آپ ادھیڑ عمر میں باتیں کریں گے ۔

عیسائیوں کا سیدنا مسیح علیہ السلام کے دشمن یہودی اور قادیانیوں کو سینہ سے لگانا لیکن ان کو اللہ کا برگزیدہ معصوم نبی تسلیم کرنے والوں کو اپنا دشمن تصور کرنا خیروشر میں تمیز نہیں بلکہ عدل وانصاف کے منافی عمل ہے۔

اہل مغرب! آپ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ پکارتے ہیں لیکن جن قادیانیوں کو مظلوم سمجھ کر تم تحفظ فراہم کرتے ہو اُن کا قائد مرزا غلام احمد والد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ اس کی والدہ کا نام چراغ بی بی سے انڈیا کے قصبہ قادیان میں پیدا ہوا جس نے مسیح موعود کا دعویٰ کیا اور کہا : 

“ خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔”(دافع البلاء صفحہ13 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ233از مرزا قادیانی )

مرزا نے دوسری جگہ دعویٰ کیا : 

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے۔(دافع البلاء صفحہ20 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ240از مرزا قادیانی )

اہل مغرب! آپ انجیل کو مانتے ہیں اور آپ کے سربراہ انجیل پر حلف اٹھاتے ہیں لیکن اس کا مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے جس میں صاف لکھا ہوا ہے : ’’کیونکہ بہترے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔‘‘ (متی 6:24)

’’اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتروں کو گمراہ کریں گے۔(متی 11:24)

انجیل نے جن کو گمراہ قرار دیا ہے۔مسلمان بھی اُن کو گمراہ کہتے ہیں ۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی اُن کو گمراہ سمجھ کر غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے اس لحاظ سے پاکستان کی پارلیمنٹ پر اعتراض کرنا غیر مناسب فعل ہے ۔

اہل مغرب! آپ اس پہلو پر غور کریں ۔ریاستی سربراہ نے کسی کو اپناجانشین نامزد نہ کیا ہو اگر کوئی شہری خواہ مخواہ دعویٰ کرے کہ میں نائب ہوں اور جعلی ضابطے جاری کرنا شروع کردے تو وہ ریاست کی نظروں میں باغی تصور ہوگا۔

قادیان (انڈیا) کے مرزا غلام احمد نے یکے بعد دیگرے مجدد مسیح موعود اور نبوت کا دعویٰ کیا اور اعلان کیا کہ میں عیسیٰ ابن مریم سے بڑھ کر ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کے ضابطوں کو منسوخ کرتا رہا اور نئے احکامات جاری کرتارہا۔ جس کا مسیح ابن مریم علیہ السلام سے دور کا بھی تعلق نہ ہو تو اس کا دجل وفریب یقیناً باغیانہ ہے۔

جعلی مسیح کے پیروکاروں نے یورپ اور امریکہ میں احمدیہ کمیونٹی مراکز قائم کئے ہوئے سیدنا مسیح علیہ السلام کو خدائی درجہ دینے والوں کا فرض ہے کہ ان کو قانونی طور پر بازپرس کریں کہ تم نے مسیح علیہ السلام کے کردار اور اس کے خاندان پر الزام تراشی کیوں کی ہے ؟

اہل مغرب ! سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو مرکز جان کر جائزہ لیں تو یقیناً یہودی وقادیانی تمہارے دوست نہیں دشمن ہیں۔ اور مسلمان تمہارے خیرخواہ ہیںتو ہم ان کو اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام ابن اللہ نہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو اس پہلو پر غوروفکر کرنے کی توفیق دے۔آمین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے