اکثر خواتین اسلام سے ناواقف ہوا کرتی ہیں اور احکامِ اسلام کو جاننے کی بھی کوشش نہیں کرتیں اس کم علمی کی وجہ سے وہ بہت سارے غیر شرعی افعال سرانجام دیتی ہیں اور رسوم و رواج کو عروج دینے پہ اڑی رہتی ہیں بہت بار سمجھانے کے باوجود بھی وہ سمجھنے کی نہیں کرتیں یہاں ہم چند ایسے غیر شرعی افعال کا ذکر کر رہے ہیں جو تغافل سے خواتین کر جاتی ہیں جو انتہائی خطرناک اور اللہ و رسول ﷺ کو ناراض کرنے والے ہیں ۔
اپنے گھروں میں دین نافذ کرنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہمیں دینِ حنیف سمجھنے اور اس پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔
ملاحظہ ہوں :ــ’’خواتین کے بعض غیر شرعی افعال‘‘
b شرعی عذر کے بغیر بیوی کا شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کرنا :
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ
”اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے (شرعی عذر کے بغیر)آنے سے انکار کر دیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔“ ( صحیح بخاری : 3237 )
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : جب شوہر بیوی کو اپنے بستر کی طرف دعوت دے تو بیوی کو چاہئے کہ فورا دعوت قبول کرے اگرچہ وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہو ۔ ( صحیح الجامع : 547. ، زوائد للہیثمی: 2 / 181 )
b عورت کا اپنے شوہر سےبغیر کسی شرعی سبب كےطلاق کا مطالبہ کرنا:
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ .
جس عورت نے بغیر سخت مجبوری کے اپنے خاوند سے طلاق مانگی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔( سنن ابن ماجہ : 2055 ، سنن ابی داود : 2226 ، سنن ترمذی : 1187 )
اور اسی طرح سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : یقینا خلعہ لینے والی اور طلاق لینے والی عورتیں منافقہ ہیں ۔( الطبرانی فی الکبیر : 17 / 339 )
b عورت کا خوشبو لگاکر باہر نکلنا
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ
”جو عورت عطر لگائے اور پھر لوگوں کے سامنے سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے“۔ ( سنن نسائی : 5129 ، سنن ابی داود : 1473 ، سنن ترمذی : 35 )
اور اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سامنا ایک ایسی عورت سے ہوا جو خوشبو لگائے مسجد جا رہی تھی، تو انہوں نے کہا :
يَا أَمَةَ الْجَبَّارِ أَيْنَ تُرِيدِينَ؟ قَالَتْ: الْمَسْجِدَ، قَالَ: وَلَهُ تَطَيَّبْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: وأَيُّمَا امْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ، ثُمَّ خَرَجَتْ إِلَى الْمَسْجِدِ، لَمْ تُقْبَلْ لَهَا صَلَاةٌ حَتَّى تَغْتَسِلَ .
اللہ کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ اس نے جواب دیا: مسجد، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے اسی کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: بیشک میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو عورت خوشبو لگا کر مسجد جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ غسل کر لے ۔ ( سنن ابن ماجہ : 4002 ، سنن ابی داود : 4174 )
b عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ (صحیح البخاری : 1862)
کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے ۔
b عورتوں کا باریک اور تنگ کپڑے پہننا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا .
دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا ۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں ، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو باوجود کپڑے پہننے کے ننگی ہیں ( یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہے) ، سیدھی راہ سے بہکانے والی ، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی ( اونٹ کی ایک قسم ہے ) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی ۔ ( صحیح مسلم : 5592 )
b عورتوں کا مصنوعی بال لگوانا :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ
”اللہ نےمصنوعی بال جوڑنے،جڑوانے ، گودنے اور گدوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔“( صحیح بخاری : 5937 )
b عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے :
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهَاتِ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ( صحیح مسلم : 1679 )
رسول اللہ ﷺنے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔
b نوحہ کرنا :
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنِ النِّيَاحَةِ ( سنن ابی داود : 3127 )
’’رسول اللہ ﷺنے ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
النِّيَاحَةُ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَإِنَّ النَّائِحَةَ إِذَا مَاتَتْ وَلَمْ تَتُبْ، قَطَعَ اللَّهُ لَهَا ثِيَابًا مِنْ قَطِرَانٍ، وَدِرْعًا مِنْ لَهَبِ النَّارِ .
نوحہ ( ماتم ) کرنا جاہلیت کا کام ہے، اور اگر نوحہ ( ماتم ) کرنے والی عورت بغیر توبہ کے مر گئی، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تارکول ( ڈامر ) کے کپڑے، اور آگ کے شعلے کی قمیص بنائے گا ۔ ( سنن ابن ماجہ : 1581 )
b خاوند کی نافرمانی :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَأَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ: وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللهِ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ: أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ: فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللَّيَالِيَ مَا تُصَلِّي، وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّينِ .
’’اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ کیا کرو ، اور زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو ، کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے ۔ ان میں سے ایک دلیر اورسمجھ دار عورت نے کہا : اللہ کے رسول! ہمیں کیا ہے ، دوزخ میں جانے والوں کی اکثریت ہماری ( کیوں ) ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند کا کفران ( نعمت ) کرتی ہو ، میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود ، عقل مند شخص پر غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول ! عقل و دین میں کمی کیا ہے ؟ آپ نےفرمایا : ’’ عقل میں کمی یہ ہے کہ دوعورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے ، یہ توہوئی عقل کی کمی اور وہ ( حیض کے دوران میں ) کئی راتیں ( اور دن ) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تویہ دین میں کمی ہے ۔ ‘‘ ( صحیح مسلم : 241 )
b شوہر کی ناشکری :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا ينظر الله تبَارك وَتَعَالَى إِلَى امْرَأَة لَا تشكر لزَوجهَا ( صحیح الترغیب . النکاح ، 1944 )
اللہ تعالی ایسی عورت کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائیں گے جو اپنے شوہر کا شکر ادا نہیں کرتی ۔”
b عورتوں کا چہروں اور اَبروں کے بال اکھاڑنا
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ تَعَالَى ، مَالِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ سورة الحشر آية 7 .
اللہ تعالیٰ نے حسن کے لیے گودنے ، گدوانے اور چہرے کے بال اکھاڑنے اور دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر جو اللہ کی خلقت کو بدلیں ان سب پر لعنت بھیجی ہے، میں بھی کیوں نہ ان لوگوں پر لعنت کروں جن پر رسول اللہ ﷺنے لعنت کی ہے اور اس کی دلیل کہ نبی کریمﷺ کی لعنت خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ آیت وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ہے۔ ( صحیح بخاری : 5931 )
b عورت کا سر کے بال منڈوانا ۔
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أُغمي على أبي مُوسَى فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ تَصِيحُ بِرَنَّةٍ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: أَلَمْ تَعْلَمِي؟ وَكَانَ يُحَدِّثُهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنَا بَرِيءٌ مِمَّنْ حَلَقَ وَصَلَقَ وَخَرَقَ
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ پر بے ہوشی طاری ہو گئی تو ان کی اہلیہ ام عبداللہ نے زور سے رونا شروع کر دیا ، پھر انہیں افاقہ ہو گیا تو فرمایا :’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’ میں ایسے شخص سے بری ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈائے ، اونچی آواز سے روئے اور کپڑے چاک کرے ۔‘‘( صحیح بخاری : 1296 ، مسلم : 167 )
b شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ
اگر شوہر گھر پر موجود ہے تو کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر ( نفلی ) روزہ نہ رکھے۔ ( صحیح بخاری : 5192 )
b جنازہ کے پیچھے چلنا:
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے :
وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ (صحیح بخاری : 5341 )
ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔
b شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے کی اجازت دینا ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ، وَلَا تَأْذَنَ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ، وَمَا أَنْفَقَتْ مِنْ نَفَقَةٍ عَنْ غَيْرِ أَمْرِهِ فَإِنَّهُ يُؤَدَّى إِلَيْهِ شَطْرُهُ .
عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر ( نفلی ) روزہ رکھے اور عورت کسی کو اس کے گھر میں اس کی مرضی کے بغیر آنے کی اجازت نہ دے اور عورت جو کچھ بھی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی صریح اجازت کے بغیر خرچ کر دے تو اسے بھی اس کا آدھا ثواب ملے گا۔( صحیح بخاری : 5195 )
b تین دن سے زیادہ سوگ منانا :
سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :
لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا .
”کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے سوائے شوہر کے، شوہر کے انتقال پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی“۔ ( سنن نسائی : 3364 )
b شوہر کے مال سے اسکی اجازت کے بغیر عطیہ دینا :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا
کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جائز نہیں ہے ۔ ( سنن ابی داود : 3547 ، سنن نسائی : 2541 ، سنن ترمذی : 1390 )
b شوہر کو ناراض کرنا :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ثَلَاثَةٌ لَا تَرْتَفِعُ صَلَاتُهُمْ فَوْقَ رُءُوسِهِمْ شِبْرًا: رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ، وَأَخَوَانِ مُتَصَارِمَانِ .
تین اشخاص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سروں سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی: ایک وہ شخص جس نے کسی قوم کی امامت کی اور لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں، دوسرے وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو، اور تیسرے وہ دو بھائی جنہوں نے باہم قطع تعلق کر لیا ہو ۔ ( سنن ابن ماجہ : 971 )
b شوہر کو تکلیف دینا :
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُهُ: مِنَ الْحُورِ الْعِينِ لَا تُؤْذِيهِ قَاتَلَكِ اللَّهُ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكِ دَخِيلٌ أَوْشَكَ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا .
جب کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو حورعین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے : اللہ تجھے ہلاک کرے، اسے تکلیف نہ دے، وہ تیرے پاس چند روز کا مہمان ہے، عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے گا ۔( سنن ابن ماجہ : 2014 ، سنن ترمذی : 1174 )
b ولی کی جازت کے بغیر نکاح ـ :
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :
لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے ۔ ( سنن ابی داود : 2085 ، سنن ابن ماجه : 1879 ، 1880 ، سنن ترمذی : 1102 )
اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ( سنن ابی داود : 2083 )
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، آپ ﷺنے اسے تین بار فرمایا ۔
bخواتین کا گھر میں اعتکاف :
سیدنا ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے جب عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کے بارہ میں سوال کیا گيا تو وہ کہنے لگے : گھر میں عورت کا اعتکاف کرنا بدعت ہے ، اوراللہ تعالی کے ہاں مبغوض ترین اعمال بدعات ہیں ، اس لیے نماز باجماعت والی مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ گھر میں نماز والی جگہ نہ تو حقیقتاً مسجد ہے اور نہ ہی حکما اس کا بدلنا اور اس میں جنبی شخص کا سونا بھی جائز ہے ، اور اگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس پر عمل پیرا ہوتیں ، اس کے جواز کےلیے اگرچہ وہ ایک بار ہی عمل کرتیں ۔( الموسوعۃ الفقھیۃ : 5 / 212 )
امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “ المجموع “ میں کہا ہے : مرد اورعورت کے لیے مسجد کے علاوہ کہیں اوراعتکاف کرنا صحیح نہيں۔( المجموع للنووی : 4 / 480 )
خواتین کا اعتکاف صرف مسجد میں ثابت ہے گھر میں اعتکاف کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔
لہٰذا اجماع امت اور سلف صالحین کے مطابق عورتوں کا اعتکاف مسجد میں ہی ہوگا، مسجد سے باہر اعتکاف نہیں۔
ہاں اس کی الگ سے جگہ جو خواتین کےلئے مخصوص ہے وہ ہو گی۔
b خوبصورتی کےلیے ناخنوں کو بڑھانا :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے نے فرمایا :
الْفِطْرَةُ خَمْسٌ - أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ - الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ ( صحیح مسلم : 597 )
’’فطرت ( کے خصائل ) پانچ ہیں ( یا پانچ چیزیں فطرت کا حصہ ہیں ) : ختنہ کرانا ، زیر ناف بال مونڈنا ، ناخن تراشنا ، بغل کے بال اکھیڑنا اور مونچھ کترنا ۔ ‘ ‘
b عورت کی شادی عورت نہ کرے :
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا .
عورت عورت کا نکاح نہ کرائے، اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے، پس بدکار وہی عورت ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ : 1882 )
b بدکار یا مشرک مرد سے نکاح :
اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ
الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ( سورة النور : 3 )
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ وہی نکاح کرے جو خود زانی یا مشرک ہو ۔ اور اہل ایمان پر یہ کام حرام کردیا گیا ہے۔
bعدت گزارنے والی بیوہ عورت کا زیب زینت اختیار کرنا:
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ :
أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّيَ زَوْجُهَا ، فَخَشُوا عَلَى عَيْنَيْهَا ، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَأْذَنُوهُ فِي الْكُحْلِ ، فَقَالَ : لَا تَكَحَّلْ ، قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا أَوْ شَرِّ بَيْتِهَا ، فَإِذَا كَانَ حَوْلٌ فَمَرَّ كَلْبٌ رَمَتْ بِبَعَرَةٍ ، فَلَا حَتَّى تَمْضِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ .
ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد اس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو اس کے گھر والے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ سرمہ ( زمانہ عدت میں ) نہ لگاؤ۔ ( زمانہ جاہلیت میں ) تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارنا پڑتا تھا، یا (راوی کو شک تھا کہ یہ فرمایا کہ ) بدترین گھر میں وقت (عدت ) گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس طرح ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس پر مینگنی پھینکتی ( جب عدت سے باہر آتی ) پس سرمہ نہ لگاؤ۔ یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر جائیں۔ ( صحیح بخاری : 5338 )
b شوہر سے فضول مطالبات :
سیدنا ابو سعید یا جابر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
خَطَبَ خُطْبَةً ، فَأَطَالَهَا ، وَذَكَرَ فِيْهَا أَمْرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَة ، فَذَكَر أَنَّ أَوَّل؟ مَا هَلَكَ بَنُو إِسْرائِيْل أَنَّ امْرَأَةَ الفَقِيْر كاَنَتْ تُكَلِّفُهُ مِنَ الثِّيَاب أَوْ الصِّيغ، أَوْ قَالَ: مِن الصِّيغِة مَا تُكلّفُ امرأَةُ الغَنِي، فَذَكَرَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْل كاَنَتْ قَصِيْرَة ، وَاتَّخَذَتْ رِجْلَيْنِ مِنْ خَشَب وَخَاتَماً لَه غَلْقٌ وَطَبْق، وَحَشَّتْه مِسْكاً ، وَخَرَجَتْ بَيْنَ امْرَأَتَيْنِ طَوِيْلَتَيْنِ أَوْ جَسِيْمَتَيْنِ ، فَبَعَثُوا إِنْسَاناً يَتْبَعهم فَعَرَف الطَوِيْلَتَيْنِ ، وَلَمْ يَعْرِفْ صَاحِبَة الرِّجْلَيْنِ مِنْ خَشَب .
رسول اللہ ﷺنے ایک لمبا خطبہ ارشادفرمایا اور اس میں دنیا اور آخرت کے معاملات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی ہلاکت کا پہلا سبب یہ بنا کہ کسی غریب کی بیوی اپنے شوہرسےایسے کپڑوں یا زیورات کا مطالبہ کرتی جو امیر کی بیوی کرتی اور آپ نے بنی اسرائیل کی ایک عورت کا تذکرہ کیا جو پستہ قد تھی، اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں بنوائیں اور ایک انگوٹھی جس میں ڈھکن لگا ہوا تھا ،اسے مشک کی خوشبوسے بھردیااوردو لمبی یا موٹی عورتوں کے درمیان چلنے لگی۔لوگوں نے ایک آدمی بھیجاجو ان کا پیچھا کرے،اس نے لمبی عورتوں کو تو پہچان لیالیکن لکڑی کی ٹانگوں والی عورت کو نہیں پہچانا۔( التوحید لابن خزیمہ : 447 ، الصحیحہ للالبانی : 1923 )
b تعویذ باندھنا :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ ، قَالَتْ: قُلْتُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا، وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ، وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي، فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا .
میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا آپ فرما رہے تھے: جھاڑ پھونک ( منتر ) گنڈا ( تعویذ ) اور تولہ شرک ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ ﷺکہتے تھے:
أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے ۔ (سنن ابی داود : 3883 ، سنن ابن ماجہ : 3530 ، الصحیحہ للالبانی : 2982 )
۔۔۔