ہمار ا معاشرہ تنازعات، تضادات اور افراط و تفریط کا ایسا گورکھ دھندا ہے جو سلجھنے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔اس کی وجہ انسانی رویوں میںافہام و تفہیم کافقدان ہے۔کسی فکر و عمل کی تعریف یا کسی فیصلے میں اختلاف کرنا ایک فطری عمل ہے۔جس سے ذہنِ انسانی کو جلا ملتی ہے،نئے نئے عقدے وا ہوتے ہیں۔لیکن یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے نہایت تشویشناک ہوجاتے ہیں جب اس میں انا، خود ستائی اور احساس برتری کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ خود ساختہ منفی خیالات اور وساوس کا خوف ذہن میں سر ابھارنے لگتا ہے۔

ہر معاشرہ اگرچہ مختلف عناصر کا مرکب ہوا کر تا ہے۔ لیکن ان عناصر میں افراد کی اہمیت و حیثیت امتیازی ہوتی ہے، اور یہ وہ اکائی ہے جو معاشرے کی سمت متعین کر تی ہے اور اس پر معاشرے کے اصلاحی اور مثالی ہونے کا انحصار ہوتا ہے۔اس کے بر خلاف اگر یہ اکائی ہی فساد کا شکار ہوجائے تو پھر پورا ا نسانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت کے مہلک عمل سے دوچار ہونے لگتا ہے ۔

ایک عورت اور مرد کے رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد کئی نئے رشتے جنم لیتے ہیں او راس طرح ایک پورے خاندان کی تشکیل عمل میں آجاتی ہے اور یہ سارا عمل مشیت الٰہی سے پایۂ تکمیل کو پہنچتاہے۔ ازروئے قرآن عظیم:

يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا 

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمھیں ایک جان سے پید ا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کوپیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو ، جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو ، اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔‘‘ ( النساء 1)

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام وحدت انسانی کا داعی ہے ، اور تفریق بین الناس کا شدید مخالف ہے۔اور قومی، لسانی اور نسلی امتیازات کی بیخ کنی کر تا ہے۔نسل انسانی کی وحدت کا نظریہ ہی وہ واحد نظریہ ہے جس پر امن و سلامتی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور یہی طرز حیات ایک صالح معا شرے کے لیے ناگزیر ہے۔

ایک صالح اور پر امن معاشرے کا وجود باہمی محبت ، الفت ،رواداری اور تحمل و برداشت کا متقاضی ہے۔ ایک خاندان اور ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے افراد ذہنی اور فکری اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔کیونکہ مزاجوں اور طبیعتوں کی صورت گری خود خالق کائنات  نے کی ہے۔اس میں کسی کی پسند اور رضا و رغبت کا گمان کرنا بھی عبث ہے۔وہ اللہ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُہے جو چاہتا ہے وہ کر تا ہے۔تمام انسانی رشتے ناطے، علائق دنیا سب اسی کی حکمت بالغہ کا ظہو ر ہے۔ان رشتوں کی صحت اور پائیداری کی حسنِ سلوک سے آبیاری کرنا انسانوں کی

ذ مہ داری ہے۔

علائق دنیوی میں تمام رشتے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، مگر سب سے زیادہ حساس رشتہ ایک ہی خاندان میں رہنے والی ساس اور بہو کا ہے۔یہ ایک ایسا بنیادی رشتہ ہے جس پر خاندان کی سلامتی ، امن اور خوش حال زندگی کا انحصار ہے۔ ساس اور بہو کے اس قضیہ کی ایک طویل داستا ن ہے، جواکثرخاندانوں میں دہرائی جاتی رہتی ہے۔کہیں ساس کا سلو ک بہو کے ساتھ ظالمانہ ہوتا ہے ، بہو ذہنی اور جسمانی تشدد اور طعن و تشنیع کا نشانہ بن کر بھی مہر بلب رہتی ہے۔ اور اس کے بر عکس کسی گھرانے میں بہو آفت کا پرکالہ بنی ساس نندوں کا جینا دوبھرکر رہی ہوتی ہے۔گویا ساس سیر تو بہو سوا سیر نظر آتی ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ساس اور بہو دونوں کے ذہن میں ایک خوف پر ورش پارہا ہوتا ہے کہ گھر کا سارا نظام کسی ایک کے قبضہ نہ چلاجائے اور دوسرا ہاتھ ملتا رہ جائے۔یہ ہمارے معاشرے میں اکثریت کا معاملہ ہے، الا ماشاء اللہ!

دراصل اللہ نے جو رحمی رشتے بنائے ہیں ان میں ایک فطری محبت پیدا کی ہے۔شوہر بیوی، جن سے ایک خاندان کی شروعات ہوتی ہے۔ اور پھر اسی رشتے اور تعلق سے سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔جو ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، بیٹا بیٹی، بھائی بہن، خالہ پھوپھی، چچا تایا وغیرہ کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ان رحمی رشتوں میں جو محبت، خلوص و یگانگت ، ایثار و قربانی کا جذبہ فطری طور پر کار فرما ہوتا ہے، ظاہر ہے وہ کسی دوسرے خاندان کی عورت یا مرد میں پید ا نہیں ہوسکتا۔ نہ مرد کے جذبات اپنے سسرالی رشتوں کے لیے اپنے رحمی رشتوں کی طرح ہوتے ہیں اور نہ کسی عورت کے اپنی سسرال کے لیے۔ بلکہ اکثرتو سوتیلی اولاد کے ساتھ بھی وہ محبت و پیا ر نہیں ہوپاتا جو اپنی صلبی اولاد سے ہوتا ہے۔ ہم فطرت سے لڑ کر کبھی آسودہ حال نہیں ہوسکتے۔جب بھی انسان نے فطرت سے متصادم ہونے کی کوشش کی اسے ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ہے۔

چنانچہ شادی کے بعد نو بیاہتا جوڑا یہ چاہتا ہے کہ ان کا زیادہ تر وقت ایک دوسرے سے قریب رہ کر گزرے ، کیونکہ یہ بھی فطرت انسانی کا تقاضا ہے اور اس پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے۔ساس جب بیٹے کا یہ جھکاؤ بہو کی طرف دیکھتی ہے تو اس کے کان کھڑے ہوتے ہیں۔اور خدشات و تحفظات کے زہریلے سانپ ذہن میں پھنکاریں مارنے لگتے ہیں اور اسی وقت بڑے ارمانوں اور لاڈ و پیار سے بیاہ کر لائی ہوئی’’ چاند سی بہو‘‘ ناگن نظر آنے لگتی ہے ۔سوچ اور فکر کے دھاروں کو جب منفی راہ پر ڈال دیا جائے تو انسان زمینی حقائق اور حالات کی نزاکتوں کو سمجھ نہیںپاتا۔ اور پھر کئی ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے جو پورے خاندان کے لیے بربادی کا سبب بنتے ہیں۔

نفرت، بدگمانی اور خود غرضی کی عینک اتارکر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ایک لڑکی صرف ایک مرد کی خاطر اپنے پورے کنبہ کو خیر باد کہہ کر سسرال آ تی ہے۔کیا وہ اس کی حقدار نہیں ہوتی کہ اسے سسرا ل میں اتنا پیار ملے کہ کسی درجہ میں ہی سہی اسے میکہ کی کمی محسوس نہ ہو۔اور ہوتا بھی یہی ہے کہ اگر لڑکی کو شوہر اور اس کے گھر والوں کی بھر پور توجہ اور پیار ملے تو وہ پھر میکہ کی حیثیت اس کی نظر میں ثانوی درجہ کی ہوجاتی ہے۔ساس کو یہ فکر لاحق ہونے لگتی ہے کہ اگر بیٹا بہو کے پیار میں دیوانہ ہوکر ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔تو ہم تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔بلکہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بعض والدین لڑکوں کی شادیاں یہ سوچ کر نہیں کرتے کہ اگر شادی کے بعدبیٹا بدل گیا، دوسرے الفاظ میں اگر’’ جورو کا غلام‘‘ بن گیا تو ہماری بیٹیوں کا کیا ہوگا ان کے شادی کے اخراجات کون اٹھا ئے گا ۔اور اس طرح لڑکوں کی شادی کی عمریں بھی نکل جاتی ہیں۔اور یہ خود غرضی کبھی کبھار اخلاقی کجروی کا سبب بن جاتی ہیں۔اور معاشرہ نفسانی خباثتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔اس لئے کہ ہر عمل کا ردّ عمل اس کائنات کڑوا سچ ہے۔

اس معاملہ کا ایک حقیقی پہلو بھی ہے ، وہ یہ کہ بحیثیت انسان ہر شخص خواہ عوت ہو یامرد ، خطا کار ہے۔یہ ایک بشری تقاضا جو ہر انسان کی فطرت کا خا صا ہے۔ اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ رسول کریم کا ارشاد مبارک ہے:

كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ

’’ تمام بنی آدم خطا کار ہیں۔ اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو بہت توبہ کر نے والے ہیں۔‘‘ (ترمذی:2499)

 چنانچہ کہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ بہو بھی سسرال والوں کے لیے ایک مصیبت بن کر آتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً کوئی بہو امیر خاندان کی ہوتی ہے اور سسرال والے مالی حیثیت میں اس کے برابر کے نہیں ہوتے ، اس لیے امارت کا غرور بہو کو نچلا بیٹھنے نہیں دیتا۔کسی کی اعلی تعلیم سسرال میں غرور کا سبب بن جاتی ہے۔کہیں حسن و جمال گھمنڈ کا سببہوتا ہے۔ اور یہ اس تربیت کا شاخسانہ ہوتا ہے جس کے زیر اثر لڑکی شعور کی دہلیزپر قدم رکھنے سے لے کر شادی ہونے تک اپنے میکے میں حاصل کرتی ہے۔گویا توازن اوراعتدال دونوں طرف نہیں ہوتا۔

ان تمام مسائل اور تضادات کا حل اس میں ہے کہ زندگی میں داخلی توافق کی اہمیت کو سمجھا جائے، داخلی توافق کے بغیر معاشرے میں کسی خیر اور اصلاح کی توقع محال ہے۔اس حقیقت سے صرفِ نظر کر کے کسی اعلیٰ اور پائدار نظامِ اخلاق ،جس میں زندگی سکون و راحت کے ساتھ گزرے ممکن ہی نہیں۔ مفادات کا حصول سیرتوں میں توازن پید ا نہیں ہونے دیتا۔اور نہ ایسی سوچ رکھنے والے افراد کے لیے کوئی معاشرہ مستحکم اور صالح معاشرہ نہیں بن سکتا۔

اخلاقی اقدار کا حصول ہی انسان کی بنیا دی ضرورت ہے۔ اخلاق ہی وہ قابل قدر جوہر ہے جس کے ذریعے سے اخلاقی اور جمالیاتی قدروں میں توافق اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوتی ہےاور اسی کے ذریعے سے معاشرے اور خاندانوں میں سلگتے ہوئے تضادات اور نفرتوں کی چنگاریاں پیار و محبت اور ایثار و قربانیوں کی سکون و طمانیت آمیز شبنمی قطروں میں ڈھل سکتی ہیں۔

علم دین سے نا واقفیت بھی بسا اوقات رشتوں کے تقدس کے صحیح شعور سے نا آشنائی کا سبب ہوتی ہے۔اسلام نے حقوق و فرائض کا پوراایک نظام پیش کیا ہے جو اسلام کے معاشرتی نظام کے تحت سمجھا جا سکتا ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت 12 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ 

اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو ، یقین مانو بعض بدگمانیاںگناہ ہیں، اور بھید نہ ٹٹولا کرو،اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاناپسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘

ساس اگر کچھ دیر کے لیے اپنی انا اور احساس برتری کو بھلا کر بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھ لے اوراس کی طرف سے کسی بھی قسم کی بد گمانی میں مبتلا نہ ہو۔۔ اور بہو بھی ساس کو انسانیت کے ناتے سے ہی اپنے دل میںماں کی جگہ دے دے تو خاندان میں پھیلنے والے کئی فتنو ں کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ہم اصل میںساری زندگی اپنی انا، خود ستائی اور خود پرستی کے خول میں بند ہو کر گزارتے ہیں۔ہم صرف خود کو احساسات، احتیاجات اور اس حیاتِ دنیوی کی تمام آسائشوں اور نعمتوں کا حقدار سمجھتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو تمام ضرورتوںاور احساساتِ زندگی سے محروم کردینا چاہتے ہیں ۔بس یہی سوچ انسان کے اندر سے احترامِ آدمیت کو کچل دیتی ہے۔ اور پھر اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر فساد فی الارض جنم لیتا ہے۔

فرائڈنے انسانی شخصیت کی ساخت کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کے مطابق ہر شخصیت تین بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتی ہے، لاشعور یا لا ذات (Id)، شعور یا انا (Ego) اور فوق الشعوریا فوق انا (Super-ego)فرد کی ہر قسم کی سوچ، احساس اور فعل ان تینوں نظاموں کے باہمی عمل کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے۔اکثر اوقات ان کے درمیان کشمکش بھی ہوتی ہے، جس کا اظہار فرد کی شخصیت میں ہوتا ہے۔

بچپن میں تعلیم و تربیت کے نتیجے میں بچے میں اچھے اور برے کا تصور پیدا ہوتا ہے۔اور اس طرح شخصیت کا تیسرا حصہ فوق انا پیدا ہوتا ہے، اسے کسی حد تک فرد کا ضمیر قرار دیا جاسکتا ہے۔کیونکہ یہ والدین اور معاشرے کی سکھائی ہوئی اخلاقی اقدار کا حامل ہوتا ہے۔فرائڈ کے خیال میں فوق الشعور یا فوق انا کا مطلب اخلاقی اقدار کو اپنی ذات کا حصہ بنا لینا ہے ، اور اس مقام پر فرد انھیں دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی اقدار تصور کر تاہے اور اگر وہ ان پر عمل کرنے میں ناکا م رہے تو احساس گناہ کا شکار ہوجاتا ہے۔اور اچھے چا ل چلن کا مظاہرہ کرنے میں وہ فخر محسوس کرتا ہے۔فوق الشعور یا فوق انا جتنی مضبوط ہوگی ، اسی اعتبار سے فرد معاشرتی اور اخلاقی قوانین کی زیادہ سختی سے پابندی کرے گا۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اخلاقی اقدار کے حامل بندوں کی صفات کو ان الفاظ میں بیا ن کیا ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا

رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہےاور جو اپنے ربّ کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئےراتیں گزارتیں ہیںاور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار!ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔‘‘( سورۃ الفرقان:63۔65)

خاندان یا عائلی زندگی انسانی معاشرت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی لیے کرہ ارض پر انسانی زندگی کی استواری، اس کی فوز و فلاح، سکون و راحت، باہمی تعلقات میں خوشگواری کی فضا ، تحمل وبرداشت اور رواداری کا انحصار حسن معاشرت پر ہے۔لوگوں کے باہمی تعلقات کا اسلام کے اخلاقی اصولوں اور دستورِ حیات کے مطابق ہونا ایک صالح معاشرہ کی علامت ہے۔اس معاشرے کی بنیادی اکائی ایک مرد اور عوت کے باہمی تعلقات پر مبنی ہے۔اگر بنیا دہی ٹیڑھی رکھ دی جائے تو اخلاق و کردا رکا پورا قصر ہی ٹیڑھا ہوجائے گا۔کیونکہ اس بنیاد پر اٹھائی گئی ہر منزل ٹیڑھ اور کجروی کا منظر پیش کرے گی۔

شوہر اور بیوی کا رشتہ ہی خاندان کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتا ہے۔اور پھر رشتے اور ناتوں کی ایک زنجیر بنتی چلی جاتی ہے۔چونکہ آگے چل کر انسانوں کے باہمی حقوق بیان کرنے ہیںاور خصوصیت کے ساتھ خاندانی نظام کی بہتری و استواری کے لیے ضروری قوانین ارشاد فرمائے جانے والے ہیں اس لیے سورۃ النساء کی درج بالا آیت میں تمہید اس طرح اٹھائی گئی کہ ایک طرف اللہ سے ڈرنے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی تاکید کی اور دوسر ی طرف یہ بات ذہن نشین کرائی کہ تمام انسان ایک اصل سے ہیں اور ایک دوسرے کا خون اور گوشت ہیں۔’’ تم کو ایک جان سے پیدا کیا‘‘ یعنی نوع انسانی کی تخلیق ابتداء میں ایک فرد سے کی۔ایک اور مقام پر قرآن خود اس کی تشریح کرتا ہے کہ وہ پہلے انسان آدم تھے جس سے اس دنیا میں نسل انسانی پھیلی۔

سورۃ النساء کی اس آیت مبارکہ میں غور کر نے کی بات یہ ہے کہ اس میں دو بار ’’تقویٰ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔کیونکہ تمام برائیوں اور فساد آدمیت کی جڑ اسی تقویٰ سے دور ی کا نتیجہ ہے۔نکاح کے وقت جو چار آیات پڑھی جا تی ہیں ان میں قدر مشترک جو اصل شے ہے وہ تقویٰ ہے۔

بقول امام راغب اصفہانی ’’ اصطلاح شریعت میں اپنے نفس کو ہراس چیز سے بچانے کا نام ’’ تقویٰ‘‘ ہے، جو گناہ کا موجب بنے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ دوسری تمام وعظ و نصیحت کو چھوڑ کر محض تقویٰ پر ہی اتنا زور کیوں دیا گیا ہےتو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انسان کے اندر جب تقویٰ پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے مبادااس کا کوئی عمل اللہ کی ناراضی کا سبب نہ بن جائے اور وہ اللہ کی پکڑ میں آجائے۔چنانچہ شوہر اور بیوی کے معاملات استحکام اور دیگر تمام امور دنیا میں حسن سلوک پیدا کرنے اور ایک مؤمن کی زندگی گزارنے کے لیے تقویٰ اختیار کر نا لازمی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ  ( آلِ عمران 102)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہےاور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘

زوجین کا باہمی حسن سلوک اولاد کے لیے آپس میں پیار و محبت اور ایثار و قربانی کا باعث بنتا ہے۔اور پھر یہی آگے چل کر اجتماعیت کا روپ ڈھالتا ہے تو ایک صالح اور امن پسند معاشرہ وجود میں آتا ہے۔کیونکہ بچے ہمیشہ اپنے بڑوں کو ہی اپنا آئیڈیل بناتے ہیں۔جو دیکھتے اور سنتے ہیں اسی پر عمل کرتے ہیں، اور اسی طرز زندگی کو اختیار کر لیتے ہیں ۔ اور اس بات کی سچائی رسول اکرم کی اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ

’’سیدناابو ہریرہ رضي الله عنه کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا: ’’ ہر بچہ فطرت(اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں جیسے جانور چار پاؤں والا وہ ہمیشہ سالم جانور جنتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، 2658)

معاشرے کی اس خرابی کا ایک بڑا سبب ہمارے اداروں کا غیر فعال ہونا ہے، جو کبھی ضبط نفس،صبر و تحمل، حلم و بردباری کی تعلیم و تربیت کیا کر تے تھے۔ان میں سب سے اولین اور بچوں کے ذہن پر گہرے نقوش ثبت کر نے والا ادار ہ گھر ہے،اس کے بعد تعلیمی ادارے ہیں جبکہ ایک اہم کردار ہمارے مذہبی رہنماؤں کا بھی جو معاشرے کے سدھار میں قابل ذکر کردار ادا کرسکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ اب ان مؤثر اداروں کا کردار تو مرورِ زمانہ کے ساتھ مردِ بیمار کا سا ہوچکا ہے۔اور جیسا کہ ہر سمجھدار آدمی یہ جانتا ہے کہااصلاح کار اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیںتو معاشرے میں حسن سلوک کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ حقوق و فرائض کا غیر متوازن ہونا ہے۔ہر شخص اپنے حقوق کا طلب گار ہے اور اس طلب میں وہ انتہائی حساس واقع ہوا ہے۔جبکہ اپنے اوپر عائد فرائض سے وہ چشم پوشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی کسی کو معاف کر نے کے لیے تیار ہی نہیں، ہر شخص اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتا ہے اسی کا نام شدت پسندی ہے،اور شدت پسندی بھی عدم توازن کی علامت ہے ا عتدال اور توازن پر قائم کوئی شخص شدت پسند نہیں ہو سکتا۔قرآن و سنت کی پوری تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا پیغام اسی کے گرد گھومتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ حسن اعتدال اور توازن ہی حیات انسانی کا اصل حسن ہے،اسی کے ذریعہ سے ہماری دنیوی زندگی کامیابی سے بسر ہو سکتی ہے جس پر ہماری اخروی اور دائمی زندگی کا دارو مدار ہے۔معاملات خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، شوہر بیوی کے مابین حقوق و فرائض کا معا ملہ ہو، والدین و اولاد کے رشتے سے متعلق ہو ، یا معاشرے کے دیگر انسانوں کے درمیان کسی بھی قسم کا تنازع ہو، اس کے حل کے لیے افہام و تفہیم اور فراست و حکمت کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے۔

انسان بنیادی طور پر حیوانِ ناطق ہے، اور حیوانیت کا فطری تقاضا ہے اپنی خواہشات کی تسکین۔ لیکن خالق کائنات نے اس کی فطرت میں برائی کے ساتھ نیکی اور اچھائی کا داعیہ اور عقل و فہم کا جوہر بھی رکھ دیا ہے اس وجہ سے وہ اپنی نفسانی خواہشات کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے حاصل کر نے کی کوشش میں سرگرداں رہتا ہے۔اور انسان کے اس منفی اور تخریبی فکر و عمل کے نتیجے میں معاشرہ استحصال ، حق تلفی، ظلم و بر بریت ، ناانصافی ، بد امنی اور بھوک و افلاس جیسے انسانیت سوز مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔اسلام امن و سکون اور عدل و انصاف کا علمبردار ہے، اس لیے اس نے بنی نوع انسان کو نیکی اور انسانیت کی فلاح کے لیے جو قوانین دیئے ہیں وہ ہر اعتبار سے جامع اور ہمہ گیر ہیں ۔ اور ان کا فہم حاصل کرنے اور اس سے خود کو اور معاشرے کے دیگر افراد کو محفوظ رکھنے کا مؤثر علاج قرآن و سنت میں موجود ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصب اور ہٹ دھرمی کی آنکھ بند کر کے حق شناسی کی آنکھ سے ان کا مطالعہ کیا جائے۔تو ایک اعلی اقدار کا حامل معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔اس کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ مؤثر نہیں۔

مراجع و مصادر:

٭احسن البیان            ترجمہ: صلاح الدین یوسف

٭تفہیم القرآن (جلد اول) مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ

٭ مفرادات القرآن (جلد اول) امام راغب اصفہانی ؒ  

٭تلبیسی جرائم،اظہار الحق

raheelgoher5@gmail.com 

٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے