محرم رشتہ داروں کے سامنے پنڈلیاں ، سینہ یا بازو وغیرہ کھلے رکھنا

عورت کےلیے جائز نہیں ہے کہ اپنے محرم رشتہ داروں یا عورتوں کے سامنے ظاہر کرے ۔ سوائے زینت کے مقامات کے جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

 وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ ( النور : 31 )

وہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر صرف اپنے شوہروں کےلیے یا اپنے باپ کےلیے زینت کے مقامات ۔ اس سے مراد سر ، ہار کی جگہ ، کنگن پہننے کی جگہ اپنے بازو ، قدم اور بالیوں کی جگہ ۔ تو ان مقامات کو عورت اپنے محارم یا عورتوں یا عورتوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے۔( فتاوی البانیہ ، ص : 109 ، مکتبہ الصدیق السلفیہ )

 دلہن کا بکری کے خون پہ قدم رکھنا

اس حوالےسے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا تو انہوں اس کا مفصل جواب لکھا جو درج ذیل ہے ۔

اس رواج کےلیے کوئی شرعی اصل ( دلیل ) نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت بری عادت ہے اس لیے کہ :

اولا : یہ ایک فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے ۔

ثانیا : ناپاک خون کے ساتھ لڑکی کے پاؤں کو آلودہ کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ نجاست کے بارے میں تو ہمیں حکم یہ ہے کہ اسے زائل کیا جائے اور اس سے دوری اختیار کی جائے ۔

اس مناسبت سے میں گزارش بھی کروں گا کہ حکم شریعت یہ ہے کہ نجاست لگ جائے تو اسے فورا زائل کرکے طہارت حاصل کی جائے کیونکہ نبی اکرم کی سنت سے یہ ثابت ہے ۔ چنانچہ جب ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا تھا تو نبی کریم نے حکم دیا تھا کہ اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دیا جائے ، اس طرح جب ایک ننھے بچے نبی اکرم کی گود میں پیشاب کردیا تھا تو آپ نے پانی منگوایا اور اس سے پیشاب کو دھو دیا ۔

نجاست کی ازالہ میں تاخیر کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ انسان بھول جائے اور وہ اسی نجاست میں نماز پڑھ لے ، اگرچہ راجح قول کے مطابق بھول جانے کی وجہ سے معذور ہوگا اور اس کی نماز صحیح ہوگی لیکن ہوسکتا ہے کہ اسے نماز کے دوران ہی یاد آجائے اور اگر نماز کو جاری رکھنے کے ساتھ ازالہ نجاست ممکن نہ ہو تو اسے نماز توڑ کر اور نجاست کو دور کرکے ، نماز از سر نو پڑھنا ہوگی ۔

بہرحال یہ بہت ہی بری عادت ہے کہ اس سے عورت کو نجاست سے آلودہ کرنا بھی ہے جو کہ بے وقوفی ہے کیونکہ شریعت نے نجاست کے ازالہ اور تطہیر کا حکم دیا ہے اور اور پھر مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ اس عادت کی بنیاد ایک اور عقیدہ پر نہ ہو وہ یہ کہ وہ جانور کو جن یا شیاطین کے نام پر ذبح کرتے ہوں گے تو یہ شرک کی ایک قسم ہے اور یہ معلوم ہے کہ شرک کو اللہ تعالی ہرگز معاف نہیں کرتا ۔ واللہ اعلم ۔( فتاوی اسلامیہ ، ج : 3 ، ص : 282 )

 ایک منکر کام

مراکش میں بعض لوگوں میں یہ رواج ہے کہ ماں اپنی بیٹی کے گھٹنے کے بالائی حصے پر استری سے قریب قریب تین لکیریں لگا دیتی ہے ، ان لکیروں سے نکلنے والے خون پر چینی رکھ دیتی ہے اور پھر اپنی بیٹی سے کہتی ہے کہ اسے کھا لو اور ساتھ اس سے کچھ کلمات بھی زبان سے کہلواتی ہے اور اس طرح ان لوگوں کا دعوی یہ ہے کہ یہ عمل ان کی بیٹی کی بکارت کو محفوظ رکھتا ہے اور ہر زیادتی کرنے والے کو اس سے دور رکھتا ہے ۔

یہ عمل منکر بلکہ خرافات پر مبنی ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں لہذا یہ عمل کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ اسے ترک کیا جائے اور اس سے اجتناب کیا جائے اور یہ کہنا کہ یہ عمل ان کی بیٹی کی بکارت کی حفاظت کرے گا ، یہ بھی ایک امر باطل اور شیطانی وحی ہے ، شریعت مطہرہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ، لہذا علماء پر واجب ہے کہ اسے ترک کرنے کی وصیت کریں اور اس سے اجتناب کی تلقین کریں کیونکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے رسول کے احکام کے وارث ہیں ۔ واللہ اعلم(فتاوی اسلامیہ ، ج : 3 ، ص : 283)

 گھر کا ڈرائیور اور عورتیں

ہمارے معاشرہ کے اندر اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ خواتین ڈرائیور کے ساتھ جہاں چاہتی ہیں تنہا چلی جاتی ہیں یہ شرعا بالکل بھی جائز نہیں ہے ۔

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ سے جب اس کی بابت پوچھا گیا تو انہوں فرمایا کہ : نبی کریم نے فرمایا :

لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ

” کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہیں کرتا مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔”(جامع الترمذی،الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعة،ح:2175،ومسند احمد:1/18)

خلوت عام ہے گھر میں ہو یا گاڑی میں ، بازار میں ہو یا دوکان میں کیونکہ خلوت میں اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ ان کی گفتگو ایسے امور کے بارے میں ہو جو جنسی جذبات کو بھڑکانے والے ہوں ، بعض مرد اور عورتیں اگرچہ ورع و تقوی ، اللہ تعالی کے خوف اور گناہ سے نفرت کے کریمانہ اخلاق سے متصف ہوتے ہیں لیکن شیطان ان میں وسوسہ پیدا کرکے گناہ کو بہت چھوٹا کرکے پیش کرتا اور حیلوں بہانوں کے دروازے کھول دیتا ہے لہذا حفاظت و سلامتی کا راستہ یہ ہی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے اجتناب برتا جائے ۔ ( فتاوی اسلامیہ ، ج : 3 ، ص : 103 )

 دیور سے پردہ

عورتوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے بھائیوں سے پردہ کریں ، ان کے سامنے نیز بازار میں اجنبی آدمیوں کے سامنے چہرے کو کھلا رکھنا حلال نہیں ہے اپنے دیوروں کے سامنے چہروں کو ظاہر کرنا زیادہ خطرناک ہے کیونکہ دیور تو گھر میں ہی رہائش پذیر ہوتا ہے یا مہمان کی حیثیت سے اکثر بلا خوف گھر میں آتا جاتا رہتا ہے اور گھر میں اس کے آنے پر جب کوئی روک ٹوک نہ ہوتی تو اس کا خطرہ بھی بہت ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم نے عورتوں کے پاس جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا :

إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  الْحَمْوُ الْمَوْتُ (صحیح البخاری ، النکاح ، باب لا یخلون رجل بامراة الا ذو محرمالخ ، صحیح مسلم ، السلام ، تحریم الخلوة بالاجنبیة والدخول علیھا ، ح : 2172 )

” عورتوں کے پاس جانے سے بچو ، تو ایک انصاری صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! دیور کے بارے میں آپکا کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ : ” دیور تو موت ہے ۔”

یعنی اس سے تو اسی طرح فرار اختیار کرنا چاہیے جس طرح انسان موت سے فرار ڈھونڈتا ہے ۔ یہ کلمہ کہ ” دیور تو موت ہے ” ایک عظیم تحذیری کلمہ ہے ۔( فتاوی اسلامیہ ، ج : 3 ، ص : 102 )

 حیض یا نفاس کے ختم ہونے پر غسل

بعض عورتیں حیض یا نفاس سے فارغ ہونے کے بعد فورا غسل کرنے سے تغافل اختیار کرتی ہیں جبکہ یہ عمل صحیح نہیں کیونکہ حیض کو اللہ تعالی نے گندگی قرار دیا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :

 وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ ھُوَ اَذًى

آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے ۔

اور اس ہی آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ :

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ

اللہ تعالی توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ (سورة البقرہ : 222 )

یعنی کہ اللہ تعالی مسلمان عورتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ یہ ایک گندگی ہے جیسے ہی اس سے آزاد ہوجائیں تو غسل کرکے اپنے آپکو پاک کرلیں تاکہ باری تعالی کی محبت نصیب ہو۔

یہ ہی وجہ ہے کہ رسول اللہ اپنی صحابیات رضی اللہ عنھن کو حکم ارشاد فرماتے کہ :

فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي .”

جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کریں اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر کے نماز پڑھ لیا کریں۔ ( صحیح بخاری : 320 )

 غیر محرم مردوں سے خلوت اختیار کرنا

شریعت اسلامیہ نے امتِ مسلمہ کو برائی سے بچانے کےلیے بہت سے اقدامات کیے ہیں تاکہ مسلم معاشرہ انتہائی اعلی اقدار پر مرتب ہو اور ہر طرح کے فتنے سے بچا رہے لیکن شیطانی قوتیں امت مسلمہ کو نقصان سے دوچار کرنے کےلیے طرح طرح کے ہتکنڈے استعمال کرتی رہتی ہے ۔ ان کی چالوں میں سے ایک چال یہ ہے کہ مسلمانوں میں مرد و زن کا اختلاط عام کیا جائے اور اسلامی حد بندی ختم کی جائے تاکہ برائی بہت جلد پھیلے ۔ کیونکہ غیر محرم مردوں کا غیر محرم عورتوں سے کھلے عام ملنا جلنا اور خلوت اختیار کرنا اگر عام کردیا جائے تو اس معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لے سکتی ہیں کیونکہ عورت کا فتنہ جس قدر نقصان دہ اور ضرر رساں ہے شاید ہی کوئی اور فتنہ اس قدر نقصان دہ ہو ۔ بنی اسرائیل میں تباہی و بربادی کے جو اسباب تھے ان میں سے ایک اہم سبب عورت کا فتنہ ہے ۔ یہ جب اپنی حدود ( چار دیواری وغیرہ )سے نکل کر زیب و زینت سے آراستہ ہوکر کھلے عام نکلتی ہے تو شیطان اسکو جھانکتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں مختلف وساوس پیدا کرکے انہیں اس میں ملوث ہونے پر ابھارتا ہے ۔ اسی لیے نبی مکرم نے اس فتنے سے بچنے کی تاکید فرمائی ۔ صحابی رسول ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ (صحیح مسلم : 2742 ، مسند احمد : 3 / 22 ، شرح السنة : 9 / 12 ( 2243 ) بیھقی : 7 / 91 ، مصنف عبدالرزاق : 11 / 305 ( 20608 )

دنیا میٹھا سبزہ ہے اور یقینا اللہ تعالی تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے ، وہ دیکھنے والا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ، دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو ، بے شک بنی اسرائیل کا فتنہ عورتوں میں تھا .”

صحابی رسول اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ (بخاری : 5096 ، کتاب النکاح ، باب مایتقی من شوم المراة ، مسلم : 2740 ، ترمذی : 2942 ، مسند احمد : 5 / 200 )

میں نے اپنے بعد اپنی امت میں مردوں پر عورتوں سے زیادہ نقصاندہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔”

مذکورہ بالا احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں بہت سے فتنے اور آزمائشیں مسلمان آدمی پر وارد ہوتی ہیں اور ان آزمائشوں میں سب سے زیادہ آزمائش عورت کے فتنے کی ہے ۔ اگر کوئی مرد عورت کے فتنے و فساد سے بچا رہتا ہے تو وہ اللہ تعالی کے ہاں انتہائی اجر کا مستحق ہوگا بلکہ قیامت والے دن اللہ تعالی کے عرش کے سائے تلے ہوگا جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ :

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ .

سات افراد ایسے ہیں جن کو اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا ۔”

موطا ( 952 ) وغیرہ میں ظل عرش کا بھی ذکر ہے ۔

ان میں سے ایک آدمی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہ کا فرمان ہے :

وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ

حسن جمال والی عورت برائی کی دعوت دے تو وہ کہہ دے کہ مجھے اللہ عزوجل سے ڈر لگتا ہے ۔”( بخاری مع فتح الباری : 1 / 168 ، 2 / 138 ، 8 / 126 ، مسلم کتاب الزکاة ( 91 ) ترمذی ( 2391 ) نسائی : 8 / 222 ، مسند احمد : 2 / 439 ، ابن خزیمہ (358 ) شرح السنہ : 2 / 354 ) ( آپ کے مسائل اور ان کا حل از مبشر احمد ربانی ، ص : 512 )

لہذا عورتوں کو چاہیے کہ وہ شادی بیاہ تقاریب ، بازار اور فیکٹری اسکول و کالجز میں مردوں کے اختلاط سے گریز کریں ۔

 مخلوط تعلیم

ہمارے بعض اسکول اور کالج وغیرہ میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھے تعلیم دی جاتی ہے اور مردانہ زنانہ اسٹاف بھی اکٹھا ہوتا ہے ، لڑکیوں کو تعلیم دینا ایک مستحسن اقدام ہے لیکن انہیں اکٹھا رکھنا کئی ایک فتنوں کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے ۔ اسی زنانہ اسٹاف کی بے پردگی ہی مردانہ اسٹاف کے ساتھ ملنے جلنے کا سبب بن بنتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورتیں ، مردوں سے شرم و حیا محسوس نہیں کرتیں اور اس طرح کا میل جول بہت بڑے تباہی اور فتنے کا سبب بنتا ہے ۔

ایک دفعہ رسول اللہ مسجد سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ مرد اور عورتیں ایک راستے پر چل رہے ہیں ، آپ نے یہ منظر دیکھ کر عورتوں سے فرمایا :” ایک طرف ہٹ جاؤ ، راستے کے درمیان چلنا تمہارے لیے بہتر نہیں، ایک طرف ہوکر چلا کرو ۔”

رسول اللہ کے فرمان کے بعد عورتوں نے اس پر بایں طور پر عمل کیا کہ انہوں نے راستہ میں ایک طرف ہوکر چلنے کا معمول بنالیا ، وہ اس قدر راستے سے ہٹ کر چلتی تھیں کہ بعض اوقات ان کی چادریں دیواروں سے چپک جاتی تھیں ۔

اس روایت کو بعض اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس میں شداد بن ابی عمرو نامی راوی مجھول ہے لیکن کچھ حضرات نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔

قرآن کریم سے مذکورہ حدیث کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے ، سیدناموسی علیہ السلام مدین کے ایک کنویں پر پہنچے تو انہوں وہاں لوگوں کےبھیڑ کو پایا جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے ، وہاں دو لڑکیاں بھی دیکھیں جنہوں نے اپنی بکریوں کو روک رکھا تھا ۔

ان لڑکیوں نے مردوں کے ساتھ اختلاط کو گوارہ نہیں کیا برحال مرد و زن کا یہ میل فتنے کا باعث ہوسکتا ہے ۔ ایسا کرنا منع ہے ۔

حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں سے راستہ میں الگ رہیں اور گلی یا سڑک کے عین وسط میں چلنے کے بجائے اس کی ایک جانب ہوکر چلیں ، یہ کیفیت ان کے باحیا اور باوقار ہونے کی علامت ہے ۔ اس میں عورتوں کےلیے امن بھی ہے کہ کوئی اوباش انہیں پریشان نہیں کرے گا اور نہ ہی ان سے کوئی غلط توقع وابستہ رکھ سکتا ہے ۔( فتاوی اسلامیہ ، ج : 4 ، ص : 415 )

 خاندانی منصوبہ بندی

خاندانی منصوبہ موجودہ دور کا اہم ترین مسئلہ ہے ، مانع حمل گولیوں کا استعمال ناجائز ہے ، وہ اس لیے کہ اللہ تعالی نے نسل انسانی اور امت مسلمہ میں اضافے کے اسباب کو اپنانا مشروع قرار دیا ہے ، نیز نبی کریم کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ :

تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الۡاُمَمَ يَوۡمَ الۡقِيَامَةِ (رواہ ابوداود فی کتاب النکاح باب 4 والنسائی )

” محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو تحقیق میں روز قیامت تمہاری وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا ۔”

دوسری روایت میں ہے :

الْأَنْبِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (رواہ احمد ، جلد 3 , ص : 58 )

قیامت کے دم دوسرے انبیاء پر فخر کروں گا ۔”

نیز اس لیے بھی کہ امت مسلمہ کو افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اللہ تعالی کی بندگی کا فریضہ سرانجام دے سکیں ، اعلاء کلمة اللہ کی خاطر فی سبیل اللہ جہاد کریں اور کفار کی مکاریوں سے مسلمانوں کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے سکیں ، لہذا ضرورت کے علاوہ ایسی گولیوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ، اگر کوئی ضرورت ہو مثلاً: یہ کہ عورت کے رحم میں کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی بناء پر حمل نقصاندہ ہوسکتا ہے ، یا اس طرح کی کوئی اور بیماری ہے تو ایسے حالات میں بقدر ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اسی طرح پہلے سے موجود بچوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر اگر حمل نقصاندہ ہو تو ایک معین وقت ، سال دو سال (دودھ پلانے کی مدت ) تک ایسی گولیوں کا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ، تاکہ عورت کےلیے مشکلات میں کمی ہوسکے اور وہ مناسب انداز میں بچوں کی تربیت کرسکے اگر مانع حمل کی گولیوں کا استعمال صرف اس مقصد کے تحت ہو کہ ملازمت کےلیے فراغت میسر آسکے یا کم بچے خوشحالی کا باعث ہوں گے یا ان جیسا کوئی اور معاملہ ہو جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے ، تو یہ قطعاً ناجائز ہے ۔( فتوی برائے خواتین از محمد بن عبدالعزیز المسند ، ص : 167 )

 عورت کی آواز

عورت مردوں کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا محل ہے ، شہوانی اسباب کی بناء پر طبعی طور پر مردوں کا میلان عورت کی طرف ہوتا ہے ۔ اگر عورت ناز و نخرے سے باتیں کرے گی تو فتنہ میں مزید اضافہ ہوگا ، اس لیے اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب عورتوں سے کوئی چیز مانگیں تو پس پردہ رہ کر مانگیں :

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ (الاحزاب : 53 )

اور ان ( ازواج مطہرات ) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ! کہ تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی ہے ۔”

اسی طرح عورتوں کو بھی مردوں سے بات کرتے وقت نرم لہجہ اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے ، تاکہ دلی روگ میں مبتلا غلط طمع نہ کرنے لگیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے :

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (الاحزاب : 32 )

اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔

جب مضبوط ترین ایمان کے حامل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں یہ حکم ہے تو اس زمانے کا کیا حال ہوگا ؟ جبکہ ایمان کمزور پڑ چکا ہو اور دین سے وابستگی بھی کم ہوچکی ہو ؟!

لہذا آپ غیر مردوں سے کم از کم ملاقات اور گفتگو کریں ۔ ضرورت کے تحت ایسا ہوسکتا ہے لیکن اس دوران بھی مذکورہ بالا قرآنی آیات کی رو سے لہجے میں نرمی اور لجاجت نہیں ہونی چاہیے ۔

اس سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ نرم لہجے سے پاک آواز پردہ نہیں ہے ، اس لئے کہ نبی کریم سے دینی امور کے سوالات کیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح وہ اپنی ضروریات کےلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی گفتگو کرتی تھیں اور ان پر اس بارے میں کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ۔( فتوی برائے خواتین از محمد بن عبدالعزیز المسند ، ص : 332 )

٭…٭…٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے