اسلام قبول کر لینے والے مسلمان پر زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مضبوط نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ جس کے اندر رہنا ایک مسلمان کو بہت ضروری ہے۔ اللہ رب العالمین کی طرف سے ہم انسانوں کو دی گئی مہلت بہت محدود ہے اور اس میں گزر بسر کرنے کے لیے مکمل سامان مہیا کر دیا گیا ہے پھر یہ انسان کے تمام معاملات کو اسی کے تحت گزارنےکا تقاضا بھی کرتی ہے وہ انسان کی معیشت ہو معاشرت ہو عبادات ہوں اخلاقیات ہوں یا معاملات، خواہ دنیا و آخرت کے تمام شعبوں سے منسلک کوئی بھی کام ہو انسان کو اپنی خاص حد میں رہ کر سر انجام دینا ہے اور اسی پر اس کا حساب کتاب ہے اور اسی کے نتیجے میں اس کی جزا و سزا ہے جس کے بعد وہ اپنا مستقل ٹھکانہ پاتا ہے۔ اب یہ ہم انسانوں اور خصوصا  مسلمانوں کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنا آپ بہتر بنائیں اور اپنے لیے مستقل ٹھکانے کو پرسکون کریں کیونکہ اس کو چننے کا اختیار بھی رب کائنات نے عقل سلیم عطا فرما کر انسانوں کو دے دیا۔ پھر اسی بنیاد پر وہ اپنے لیے ثواب اور گناہ کا راستہ چنتا ہے اور اسی کے مطابق اس کا صلہ پاتا ہے۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی معاشرتی صورتحال کا شدید نقصان ہو رہا ہے جس میں سوشل میڈیا بھر پور کردارادا کر رہا ہے اور اسی کا حصہ موبائل فونز جن میں یہ سہولت بآسانی میسر ہے ۔ سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہیں لیکن اس سے زیادہ تر نقصانات ہو رہے ہیں جن میں سب سے بڑا نقصان معاشرت و معیشت اور حقوق کا ہو رہا ہے۔ آزادی اظہار رائے ایک انگلی کے کلک کی دوری نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے اور ہر ایک کو بولنے کہنے لکھنے کی بھونڈی آزادی کا نعرہ لگا کر بداخلاق و بدتمیز اور پھر بدکردار بھی کر دیا۔

اسی سلسلے کی اک کڑی یوٹیوب بھی ہے جس کا آج کل بہت زیادہ زور و شور ہے ہر دوسرا فرد اس پر اپنا چینل بنا کر اسے بے دریغ استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کو نہ اچھے کی تمیز نہ بُرے کی اور نہ ہی کسی بھی بڑے چھوٹے کی اور نہ کسی مذہب و کردار کی۔

سوشل میڈیا کی یہ سہولت آخر کس شے کا نام ہے ؟ اس کا مختصر تعارف ذیل میں دینے کے ساتھ ساتھ اس کے فوائد و نقصانا ت اور طریقہ استعمال ذکر کیا جائے گا۔ دنیا کی کوئی بھی چیز ہو اس کے دو پہلو ہوتے ہیں جس میں سے ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی۔

اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں اشرف المخلوقات  بنایالیکن ہم ہیں کہ یہ بھول کر بھی نہیں سوچتے کہ آخر ہر چیز کا منفی پہلو ہی کیوں اجاگر کرتے ہیں۔ جبکہ وہ چیز بنانے والا یا ایجاد کرنے والا بلکہ یہاں تک کہ اس کو عام کرنے والا اس کا مثبت پہلو پھیلانا چاہتا ہے لیکن جب وہ اپنا عروج پا لیتی ہے تو پھر اس کےمنفی پہلو ہی اسے مشہور کرتے ہیں اور اسی کو تھام کر سب اپنا آپ تباہ کر گزرتےہیں۔

یوٹیوب کا تعارف اور بانی:

یوٹیوب وڈیوز پیش کرنے والی ایک ویب سائٹ ہے جہاں صارفین اپنی وڈیوز شامل اور پیش کر سکتے ہیں۔

پے پال کے تین سابق ملازمین نے فروری 2005ء میں یوٹیوب قائم کی۔ نومبر 2006ء میں گوگل انکارپوریٹڈ نے1.65ارب ڈالر کے عوض یوٹیوب کو خرید لیا اور اب یہ گوگل کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ادارے کے صدر دفاتر سان برونو، کیلیفورنیا، امریکہ میں واقع ہیں۔ یوٹیوب صارفین کے وڈیو مواد کو دکھانے کے لیے ایڈوب کی فلیش وڈیو ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ یوٹیوب پر پیش کردہ بیشتر مواد انفرادی طور پر اس کے صارفین کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے البتہ سی بی ایس، بی بی سی، یو ایم جی اور دیگر ابلاغی ادارے بھی یوٹیوب شراکت منصوبے کے تحت اپنا کچھ مواد پیش کرتے ہیں۔

غیر مندرج صارفین یوٹیوب پر نہایت آسانی سے وڈیوز دیکھ سکتے ہیں جبکہ مندرج صارفین کو لامحدود وڈیوز پیش کرنے کی اجازت ہے۔ ممکنہ طور پر مواد 18 سال سے زائد عمر کے مندرج صارفین کے لیے دستیاب ہے۔ یوٹیوب کی شرائط کے تحت رسوائی کا باعث بننے والا، فحش، حقوق دانش کی خلاف ورزی کرنے والا اور جرائم پر ابھارنے والا مواد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ اس مذکورہ شرط پر یوٹیوب پورا عمل کرنے سے کتراتا رہا ہے البتہ اب اس بنائے قانون پر عمل کروانے میں سختی برتنا شروع کر دی گئی ہے۔

مندرج صارفین کے کھاتے «چینلز» کہلاتے ہیں۔

یوٹیوب انگریزی کے علاوہ 16 سے زائد زبانوں میں سہولیات فراہم کرتی ہے جن میں  عربی، اردو، ہسپانوی، ولندیزی، چینی سمیت  دیگر شامل ہیں۔

کاروباری لحاظ سے مزید تفصیل جو کہ ویکی پیڈیا پر میسر ہے وہ کچھ یوں ہے۔

یوٹیوب نے اپنے کاروبار میں مزید ترقی کرتے ہوئے اس پر مزید کئی سارے فیچرز متعارف کروا دیئے ہیں۔ یوٹیوب اپنا بزنس مندرج صارفین کے ساتھ شراکت داری پر کرتا ہے۔ جس میں ویڈیوز، اشتہارات، چلنے والے گھنٹے، پسند کرنے والے، پھیلانے والے اور لکھنے والے کےذریعے مخصوص طریقہ کار پر محدود آمدن دی جاتی ہے۔ جس کےلالچ میں چینلز کی بھرمار ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ہر دوسرا شخص یوٹیوب کے بزنس کا حصہ بنا ہوا ہے اور وہ اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لاتا ہے۔ یوٹیوب اپنا حالیہ فیچر یوٹیوب کڈز کے نام سے بچوں کے متعلق  لایا ہے  جس کی پذیرائی کا اندازہ کچھ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ مختصر ترین وقت میں اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد کم و پیش 50 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بچوں کے لیے یوٹیوب کی یہ کوشش اچھی تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا نقصان بچوں کی نشوونما کے ساتھ ان کے معاشرتی و خاندانی تعلقات پر ضرور اثرا نداز ہو گا۔

اور اسی کے ساتھ ان صارفین کےلیے  سہولت مہیا کر رہا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت انتہائی سہولت ہے اور اس نئے فیچر کا نام یوٹیوب گورکھا ہے۔

یوٹیوب کڈز ایپ کے تین اہم فیچرز:

والدین کو بچوں پر مزید کنٹرول فراہم کرنے کے لیے یوٹیوب کڈز ایپ نے اپنے تین نئے فیچرز کا اعلان کردیا ہے۔

بچوں کے فن کے لیے بنائی اس ایپ میں والدین کو بچوں کے لیے مواد کا انتخاب کرنے کے لیے یہ تین نئے فیچرز دیے جارہے ہیں، جن میں تلاش فعال یا غیر فعال، پیرینٹل کنٹرول، ٹائمر، کلیکشنز، پیرنٹ اپرووڈ کنٹینٹ،  اور ’سرچ آف‘ شامل ہیں۔

تلاش یعنی سرچ کو اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے جس سے نگرانی کرنے میں مزید آسانی مہیا ہوتی ہے۔

پیرینٹل کنٹرول کے ذریعے ایپ میں پاسورڈ یعنی لاک لگایا جا سکتا ہے جس کے بعد اسی کوڈ کو جاننے والا ہی اس کا استعمال کر سکتا ہے۔

اس ایپ میں ٹائمر کی سہولت بھی مناسب و موزوں ہے کہ جس سے ایک سے 120 منٹ تک ویڈیو چلنے کا وقت مقرر کیا جا سکتا ہے جس سے وہ ویڈیو اپنا مقرر کیا گیا دورانیہ مکمل کر کے از خود نظام کے تحت بند ہو جائے گی۔

ایپ میں موجود کلیکشن فیچر سے والدین ان موضوعات اور چینلز کا انتخاب کرسکتے ہیں جو وہ اپنے بچوں کو دکھانا چاہتے ہیں۔

ایک فیچر پیرنٹ اپرووڈ کنٹینٹ میں والدین کو اس بات کا حق دیا جارہا ہے کہ وہ پہلے خود ہر ویڈیو کو اپنے بچوں کے لیے منتخب کرسکتے ہیں، جبکہ سرچ آف فیچر میں وہ اس بات کی یقین دہانی کرسکتے ہیں کہ ان کے بچے اس ایپ میں کیا کیا سرچ کریں؟

یوٹیوب کڈز کے پروڈکٹ ڈائیریکٹر جیمز بیسر کا اس حوالے سے جاری اپنے بیان میں کہنا تھا کہ جب ہم نے تین سال قبل یوٹیوب کڈز ایپ لانچ کی، تو ہمارا مقصد تھا کہ دنیا بھر میں بچے ایسی ویڈیوز دیکھ سکیں جس سے وہ کچھ مثبت سیکھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا فوکس نئے فیچرز سامنے لانے میں بھی ہے، جو والدین کو اپنے بچوں پر مزید کنٹرول دے سکیں، تاکہ وہ ان ویڈیوز کا اپنے بچوں کے لیے انتخاب کریں جو ان کے لیے محفوظ ہیں۔

کلیکشنز فیچر کے ذریعے یوٹیوب پارٹنرز ایسے چینلز کو اس ایپ پر سامنے لائیں گے جن سے بچوں کو فن اور کھیل کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں انسان کو بہت ساری آسانیاں اور ترقیاں ملی ہیں لیکن اس کے ساتھ جہاں ان کا فائدہ ملا وہیں ان کا نقصان بھی ملا اور کچھ نقصان ہم نے خود ساختہ بنا لیا کیونکہ اس مثبت پہلو کو چھوڑ کر منفی رجحان زیادہ لگا بیٹھے۔ جبکہ مسلمان کا اصل حق تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ان سب نعمتوں پر مزید شکر گزار بندہ بنتا لیکن وہ ناشکری کے ساتھ ساتھ راہ حق سے بھی پیچھے رہنے لگا۔

اللہ رب العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا

اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ (سورۃ ابراہیم 34)

یوٹیوب کے معاشرہ پر اثرات:

جدید دور کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے جیسی بھونڈی جستجو میں ہم اپنی اخلاقیات کا سب سے زیادہ نقصان کر چکے ہیں۔ اسی میں یوٹیوب کی جدید بااثر اور آسان ٹیکنالوجی  سے فائدہ حاصل کرتے کرتے نقصان کر بیٹھے۔ جیسا کہ اس کے زیر اثر ہر دوسرا بندہ آ چکا ہے اسی طرح اس کے برے اثر ات دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ اگر اس میں بچوں کی بات کی جائے تو اس میں ان کی تربیت ہی اسی کے ذریعے ہو رہی ہے جس کی قطعا یہ گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ وہ مکمل اچھی تربیت پا رہے ہیں کیونکہ یوٹیوب کا پلیٹ فارم برائی پھیلانے کا زیادہ کام کررہا ہے۔

اسی طرح جنونی نوعیت کی بات کی جائے تو یہ بھی اسی کی مرہون منت ہو رہی ہےجیسا کہ آئے روز خبروں کی زینت بنتا رہتا ہے کہ ویڈیو بنانے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

اسی طرح چینلز کی دوڑ میں سبسکرائبربڑھانے لائیکس لینے کے لیے اندھے ہوئے چلے جاتے ہیں جس کی بنیاد میں نہ اخلاقیات ہوتی نہ سچ ہوتا نہ ایمانداری کا عنصر باقی رہتا۔

عوام کو گمراہ کرنے کا مکمل سامان اس پر مہیا ہوتاہے۔ جس میں کوئی حکیم بنا بیٹھا ہوتا ہے اور کوئی سنگر تو کوئی نیوز اینکر تو کوئی مفتی مولانا و محقق تو کوئی دانشور و ادیب۔ غرضیکہ ہر آئٹم اس راہ پر عام پایا جاتا ہے۔ جس سے برائی زیادہ پھیلتی ہے۔ اس میں قطعا کوئی شائبہ نہیں کہ یہ ایک مفید راہ بھی ہے لیکن ہم اس کو اس پیرائے میں نہ استعمال کرتے ہیں اورنہ ہی اس کا اسی کے مطابق فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

البتہ منفی اثرات زیادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس تباہی میں صرف اخلاق، معاشرہ، معیشت، معاشرت، تہذیب و تمدن ہی نہیں بگڑتی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی اجاڑ لیتے ہیں۔ اپنی نسل کو بھی تباہ کر لیتے ہیں۔ کیونکہ جب بچہ ضد کرتا ہے یا روتا ہے یا تنگ کرتا ہے تو ہمارے پاس آسان حل ہے کہ اس کو موبائل پر یوٹیوب ویڈیوز چلا کر مصروف کر دو اور خود دوسرے موبائل پر ویڈیوز میں مصروف رہو۔

اس کے ذریعے سے ہم مجالس  و مساجد کا احترام تک بھول گئے ہر وقت اسی میں مصروف رہنے کی وجہ سے رشتہ دار بھول گئےیہاں تک کہ اپنے گھر میں رہنے والے بہن بھائی والد والدہ رشتہ دار برابر میں ہمسائے کا کوئی خیال تک نہیں البتہ دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے کا بخوبی علم ہے جبکہ اس کے لیے اگر دعا کر لیں تو یہی اس کیلئے کافی ہوگا، اس کے علاوہ کچھ کر بھی تو نہیںسکتے۔ اور دعا بھی کیسے کریں کیونکہ ایک ویڈیو کے بعد دوسری ویڈیو چلا کر پہلی والی پر توجہ نہیں رہتی۔

اسی طرح اس پر جھوٹ پھیلانے کا عمل کچھ یوں ہوتا ہے کہ کسی خبر کو بغیرتحقیق فورا ًپھیلا دیتے ہیں جبکہ وہ جھوٹی ہو کر ایسا نقصان دے چکی ہوتی ہے کہ اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ہم پھر بھی اپنی ریٹینگ کے چکر میں یہ سب کام سر انجام دیتے ہیں۔

اسی کے ساتھ جعلی اکاؤنٹز کی بھر مار جن کے ذریعے جھوٹ، بے حیائی، آواہ گردی، فحش گوئی الزام تراشی کے ذریعے کئی جانوں کا نقصان کرتے ہیں کئی لوگوں کی عزت اچھالتے ہیں کئی گھروں میں لڑائی کرواتے ہیں اور تو اور کسی بھی شریف النفس کو سر راہ بے عزت کر ڈالتے ہیں۔

اس سے مزید اگر بڑھیں تو ذہنی، جسمانی صحت کا نقصان بھی اسی کی مرہون منت ہے۔ کیونکہ نئے نئے تجربات اس کے سیکھ کر کیے جاتے ہیں جبکہ وہ نقصان دہ ہوتے ہیں اسی طرح ایک طالب علم اپنا وقت پڑھائی کو دینے کی بجائے اس میں مگن ہو کر ضائع کرتا ہے جس  سے اس کی پراگرس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور نوجوان نسل جذباتی اتنی ہو گئی کہ کسی کا ادب احترام چنداں نہ رہا بلکہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کی ہتک عزت کرنا بداخلاقی کرناکسی کے خلوص کو ٹھیس پہنچانا اپنا فریضہ سمجھ لیا۔

اس کے نقصانات کا احاطہ گو کہ ممکن نہیں لیکن چند پہلوؤں کو احاطہ تحریر میں لا کر اجاگر کرنے کی ادنیٰ سعی کی ہے۔

ترقی کرتی دنیا میں ہر چیز جس طرح آسان اور ممکن ہوتی جا رہی اسی طرح ہمیں اپنی عقل سوچ فکر کو بھی پروان چڑھانا چاہیے اور اپنے اندرشعود کو مزید پختہ بناتے ہوئے اپنے اچھے اور برے کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہم اپنے تباہ ہوتے معاشرہ کو بچا سکیں اپنے بچوں کو ان سب چیزوں میں مصروف کرنے کی بجائے خود انہیں وقت دیں اور ان  کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کریں تاکہ یہی بچے کل ہمیں کسی شکایت کا موقع دیے بنا ہمارے سہارا بنیں اور اپنا مستقبل  روشن کرتے ہوئے پوری قوم کے لیے معمار ثابت ہو سکیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر چیز کا منفی و مثبت پہلو  ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ فکر کرنا ہو گی کہ اس کا منفی پہلو ہی کیوں زیادہ اثر انداز ہوتا ہے آخر ایسی کیا وجہ ہے جس سے ہماری اکثریت اس طرف کو چل نکلتی ہے۔ جبکہ اسی یوٹیوب کے مثبت پہلو پر رہ کر کام کیا جائے تو اس کے فوائد بھی بہت ہیں۔

جس سے ہم ترقی کی راہ مزید آسان کر سکتے ہیں اچھی چیزیں سیکھ سیکھتے ہیں۔ بہترین مدبر و معلم بن سکتے ہیں۔ یہی یوٹیوب بہترین تربیت گاہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنا مثبت کردار  ادا کرنا ہوگا۔ کم از کم اپنی یہ سوچ ختم کرنا  ہو گی کہ میں یوٹیوب پر چینل بنا کر بزنس کرو اوراسے کمائی کا ذریعہ بناؤ۔ اگرچہ یہ بہترین ذریعہ معاش بن سکتا ہے لیکن اس سے پہلے اپنی اور دوسروں کی تربیت کولازمی سامنے رکھنا چاہیے یا اتنا ہی سوچ لینا چاہیے کہ آج میں دنیا کے اندر  جو کچھ کرو گا کل قیامت کے دن یہی اعمال میرے سامنے گواہ بنے کھڑے ہوں گے۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم انہیں اپنے حق میں بنائیں یا اپنے مخالف۔

قرآن نے ہمیں فیصلہ سنا دیا کہ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷  وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸

جس کسی نے بھی ذرہ برابر خیر کا کام کیا ہو گا وہ اس کے سامنے ہو گا اور جس کسی نے بھی شر کا کام کیا ہو گا وہ اس کے سامنے ہو گا۔

اور اسی کے ساتھ فرما دیا گیا کہ إِنَّ اللہَ لَا یَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ اللہ  تعالیٰ بے مثال عدالت میں کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہو گا۔

جو کوئی جس طرح کے اعمال لے کر گیا ہو گا اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہو گا اس کی جزا ہو گی اور اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ لہذا ہمیں اپنی فکر خود کرنی ہے۔ اپنا احتساب خود کرنا ہے تاکہ ہم اپنے آج کے ساتھ ساتھ اپنے کل کو بھی محفوظ بناسکیں۔ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی عزت حفاظت کرنے والے بھی بن جائیں۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ بطور مسلمان ہم سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ نہ کسی پر ظلم کرو نہ کسی پر حسد کرو نہ کسی کا حق مارو نہ کسی پر غصہ ہو نہ کسی کی تحقیر کرو بلکہ اللہ کے نیک بندے بن کر اسی کا تقویٰ اختیار کرو۔

یوں بھی دیکھا گیا کہ یوٹیوب چینل بنا کر ہر ایک کی کردار کشی کرنے والے خود کردار سے عاری ہوتے ہیں یا پھر اس کا الٹ کہ سب کو اخلاقیات کا درس دینے والے سبق سکھانے والے خود اس سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کی زندہ مثالیں ہمارے چینلز پر بولنے والے اینکرز، دانشور، جعلی پیر ، درباری ملاں، غرض کہ ہر شعبہ سے منسلک کوئی نہ کوئی ایٹم موجود ہے جو اس کی زندہ مثال ہے۔ اور قرآن مجید کے اس فرمان پر مکمل اترتے ہیں کہ ’’لِمَ تَقُولُونَ مَالاَ تَفعَلُونَ‘‘ تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یعنی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔

لہذا ان جعلی لوگوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اگرچہ صرف اچھی بات کو لے لینا کوئی بری بات نہیں لیکن اپنا آئیڈیل صرف ایک ہی بنانا چاہیے جوکہ محمد عربی علیہ الصلاۃوالسلام کی ذات مبارکہ ہے۔

اپنے ظاہر و باطن کو یکساں رکھنا چاہیے دل بھی سچا رکھیں زبان بھی سچی رکھیں صاف ستھرا عمدہ نمایاں کردار بنائیں تاکہ اس سے معاشرہ کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے اسے راہ راست پر لانے والے بنیں۔

موجودہ حالات پر علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا اک شعر بھی کچھ یوں منضبط ہوتا ہے کہ :

ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے