کچھ عرصہ قبل میں علاج کےسلسلے میں ایک ڈاکٹرکے کلینک میں تھی، ایک ماں اپنے بچے کے حافظے کی شکایت ڈاکٹر سے کر رہی تھی کہ یہ میرا بیٹا قرآن پاک حفظ کر رہا ہے اور اس کی کیفیت کچھ عجیب ہوگئی ہے کہ اکثر بھول جاتا ہے اور حاضر دماغ نہیں رہا، جبکہ پہلے کافی اکٹیو تھا، جس پر ڈاکٹر کے جواب سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی، ڈاکٹر صاحب نے آنکھ اٹھائے بغیر کہا کہ اس بچے کو موبائل گیم سے دور رکھیں ذہن کام کرنے لگےگا، اس وقت جتنے بچے گیم کھیلتے ہیں وہ دماغی طور پر وہ اپنے گیم کی دنیا میں گم ہوتا ہے اور اسے جو کچھ سامنے ہورہا ہو اس کا علم نہیں رہتا جس سے اس کا حافظہ بھی متاثر ہوتا ہے اور پڑھائی کے دوران اس کے دماغ پر خلل پڑتا ہے ۔

پرانے وقتوں میں عرب کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کی صحت، ذہنی و جسمانی تربیت کیلئے دیہات میں بھیج دیتے تھے، ہمارے پیارے پیغمبر محمد ﷺکا بچپن بھی اسی سلسلے میں دائی حلیمہ  کے گاؤں میں گذرا ہے یہ عمر جسمانی و ذہنی نشو ونماکیلئے انتہائی نازک ہوتی ہے، جس میں کھیل کود، تعلیم و تربیت کے ہر ہر پہلو کو بغور دیکھنا ہوتا ہے،  جہاں ہم اعلیٰ تعلیمی اداروں کا انتخاب کرکے اپنے بچوں کی تعلیم کی فکرکرتے ہیں، وہیں ہمیں ان کی بہتر نشو ونما اور ذہنی و جسمانی بہتری کیلئے بھی فکر کرنی چاہیے، اگرچہ اس موبائل گیم کی لَت میں بڑے حتیٰ کہ خواتین اور بڑی عمر کے لوگ بھی ملوث پائے گئے ہیں، مگر اس وقت مضمون کا احاطہ خاص کر بچوں پر کریں گے کیونکہ زیادہ تر بچے متاثر ہیں اور اس کی وجہ ان کے مستقبل میں کئی پریشانیاں انہیں لاحق ہوسکتی ہیں۔

جب ہم چھوٹےہوتے تھے تب والدین ٹی وی اسکرین سے دوررہنے پر زور دیتے تھے ، جس کی وجہ اس سے نکلنے والی شعاؤں سے پہنچنے والا نقصان تھی، ویڈیو گیم کی شکلیں مختلف دور میں بدلتی رہی ہیں، پہلے پلے سٹیشن ، کیبن کی صورت میں ہوتے تھے، اب اس کی جدید شکل موبائل کی صورت میں ہے، جہاں موبائل کے فائدے ہوتے ہیں وہاں اس کے مضراثرات بھی ہیں۔ان میں سے ایک اہم حصہ جو بڑوں اور بچوں کی جسمانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے وہ مختلف گیم کے ایپس (Apps) ہیں،آج کل بڑے، چھوٹے، مرد ، خواتین جس کسی کو دیکھیں موبائل میں گیم کھیل رہا ہوتا ہے، ان کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ انکا کتنا قیمتی وقت اس سے ضائع ہوتا ہے اور ان کے جسم و دماغ پر کیا اثرات ہورہے ہیں،  اکثر گیم کے ایپس زیادہ تر لوگ شوق اور پسند کے تحت خود انسٹال کرکے ہی استعمال کرتے ہیں، کچھ لوگ محض وقت گزارنے یا بوریت دور کرنے کیلئے کھیلتے ہیں، ان میں کچھ ایسے بھی گیم ہیں جو ایکشن والے ہیں جو تشدد پسندی،مزاج میں سختی، ترش لہجہ کو پروان چڑھاتے ہیں، نیز اس قسم کے گیم میں چوری، ڈاکہ کے آسان طریقے بھی متعارف کرائے جاتے ہیں، کچھ ایسے بھی گیم ہیں جن سے جنسی رغبت پیداہوتی ہے، ان گیموں میں ایک عورت کو مختصر وپرکشش لباس میں پیش کیا جاتا ہے کو ہر بچہ ہو یا بڑا اپنی حیا کی حس کھو بیٹھتا ہے،ممکن ہے آئے روز بڑھتے ہوئے جنسی واقعات میں اس قسم کے گیمز کا بھی کردار ہو، معاشرے کی بگڑتی صورت حال میں اس قسم کے گیمز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اخلاقی برائیوں کے علاوہ جسمانی صحت کیلئے بھی یہ گیم جن ڈیوائسز پر کھیلا جارہا ہے، ان کی شعائیں اورمختلف مقناطیسی لہریں بچوں، بڑوں  میں مختلف بیماریاں  پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔

بچوں کی تربیت سے متعلق اسلامی احکامات سے متعلق میری محترمہ ومکرمہ استاذہ(ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ)کی بہترین نصیحت یہاں نقل کر رہی ہوںوہ اپنےایک لیکچر میں فرماتی ہیں:

’’یہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے، چاہے مکمل دین دار گھرانہ ہی کیوں نہ ہو، یہ مسئلہ ہر گھر کا ہے، ہماری آئندہ کی نسل Generation بہت بڑے فتنے میں ہے، فتنہ ہر ہاتھ میں، ہر ہتھیلی پر ہے اور وہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، سہولیات بڑھتی جارہی ہیں، اور پوری دنیا ان کے سامنے آچکی ہے، یعنی آپ کس کس چیز کو بچوں سے روک سکتے ہیں؟ اور کیا کیا چھپا سکتے ہیں؟ صرف ایک ہی حل ہے اور وہ دلوں کے اندر ہے اور وہی تقویٰ والی بات کہ جب تک ان کے اندر خود اللہ تعالیٰ کا خوف و ڈر نہیں آجاتا، آخرت کی فکر نہیں آجاتی، اس وقت تک کوئی بھی باہر کی چیزڈھکی چھپی نہیں رہی، کہ جس سے آپ کسی بھی طرح ان کو بچائیں گے، پہلے یہ ہوتا تھا کہ فتنے محدود جگہوں پر ہوتے تھے، جو اچھی فیملی ہوتی تھی، وہ اپنے بچوں کو ان جگہوں سے دور رکھتی تھیں، اب وہ ایک ایک گھر کے اندر آچکا ہے، اور ان سے کہاں سے بچا جاسکتے ہیں؟ آپ سو رہے ہیں آپ کے بچے رضائی میں کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ کیا سن رہے ہیں؟ بس ایک اسکرین ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں آچکی ہے اور اس کو چھڑانا بہت مشکل کام ہے۔ پچھلے 5 سالوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس سے پہلے کئی سو سال میں اتنی نہیں آئی تھیں، اور اتنا شدید ان تبدیلیوں کا دباؤ ہے کہ اس کا مقابلہ بہت مشکل ہوگیا ہے،

اس لئے میرا ذاتی تجربہ ہےجو کچھ باہر معاشرہ میں ہورہا ہے، اس سے ہم کٹ تو نہیں سکتے، اسی لئے میں نے سب زیادہ جو دعائیں مانگیں اللہ کے حضور سجدوں میں گڑگڑا کر، وہ دعایہ تھی کہ اے اللہ میرے بچوں کو ایمان دے، اور دوسرا کام میں نے یہ کیا کہ اس عرصے میں بچوں کو بار بار عمرہ پر لے گئی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کا جو جلال ہے، اسے دیکھ کر انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کوزیادہ  محسوس کر سکتا ہے، جو ہم اپنے گھروں،  ملک میں محسوس نہیں کرسکتے، جب اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال ہمارے دلوں میں پیوست ہوگا تو اللہ کا خوف، حیا اور ڈر بھی بیٹھ جائےگا اور تقویٰ بھی دل میں پیدا ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں،  بیت اللہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں جاکر یہ یقین ضرور آتا ہے کہ کوئی تو ہے جس نے ہم سب کو بنایا ،۔ معرفتِ الہی کے بعد قرآن کریم کا علم بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کی ہمہ وقت فکر رہنی چاہیے کیونکہ فرمانِ الہی ہے، ’’اپنے اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو‘‘ جب ہم دنیا والوں کو بچانے کی فکرکررہے ہیں تو کیااپنے بچوں کی فکر نہیں کریں گے؟ بچوں کے دلوں میں قرآن کی محبت، نما زو دیگر عبادات کے ساتھ خوفِ الہی، تقویٰ ضرور پیدا کریں ۔مصروفیات اپنی جگہ مگر بچے آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔ ہر طریقے سے ان کی خبر رکھیں اور ان کی بہتری و خیر کیلئے کوشاں رہیں کوشش کے بعد  اگر ان بچوں کے اندر بگاڑ آتا ہے تو آپ کی اپنی کوشش کی وجہ سے االلہ کے ہاں سرخرو ہونگے اور اگر آپ نے تربیت نہ کی، کوشش نہ کی تو آپ کی اپنی عبادات بھی کچھ کام نہیں آئیںگی ، اسلئے ہر ماں، باپ کو سنجیدہ ہوکر اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہئے ، انہیں اس خطرناک فتنے سے بچنے کیلئے سخت محنت کرنی ہوگی۔ ‘‘

کھیل کود کی اجازت

اسلامی تعلیمات میں کھیل کود سے یکسر منع ہرگز نہیں کیاگیا بلکہ بہت ساری کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے، اس ضمن میں کئی احادیث وارد ہیں جن میں نیزہ بازی، نشانہ بازی، گھڑ سواری، بھاگ دوڑ سمیت جسمانی و معاشرتی بہتری کیلئے کھلیوں کا تذکرہ ملتا ہے، البتہ لغو اور بےہودہ چیزوں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ،وہ کھیل کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں قرآن کریم میں تو مومنوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بیکار باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (مومن 13)

جسمانی کھیل کے طبی طور پر بھی کئی فوائد ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق ان کی تحقیق تمام اقسام کے ویڈیو گیمز کو جسمانی ورزش کا نعم البدل قرار نہیں دیتی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ویڈیو گیمز کے نفسیاتی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں یہ پایا کہ جو بچے روزانہ ایک گھنٹے سے کم ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ ان بچوں کے مقابلے میں معاشرے سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں جو ویڈیو گیمز بالکل نہیں کھیلتے، لیکن جو بچے روزانہ تین گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے کم مطمئن پائے گئے ہیں۔دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے بچوں کی دماغی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ بچے اگر موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کے سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہو تی ہے۔ مزید یہ کہ ان کے رویوں پر خراب اثر پڑ سکتا ہے۔ کلاس روم میں بھی ان کا مزاج اور قابلیت متاثر ہوسکتی ہے، اگر وہ وقفے کے دوران فون استعمال کرتے ہیں۔بیلجیم، فرانس اور سمیت دیگر ممالک میں بچوں کے فون استعمال کرنے کے حوالے سے قوانین پاس ہونے والے ہیں جبکہ چین سمیت ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالہ سے قانون سازی موجود ہے۔ اس کے علاوہ انتباہ بھی سامنے آرہے ہیں۔ اسمارٹ فون بنانے والے بھی اسکے منفی اثرات کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں۔

آخر میں ہر موبائل استعمال کرنےو الے سے التماس ہے کہ کم سے کم اپنا ہی خیال رکھیں اور خلوت و جلوت میں اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھیں، والدین اپنے بچوں کو صرف یہ سوچ کرموبائل میں مگن نہ ہونے دیں کہ گھر میں خاموش تو ہیں،؟ بلکہ انہیں دوسری مصروفیات دیں تاکہ ان کا مستقبل خراب نہ ہو۔

واللہ ولی التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے