دین اسلام اور اس کی تعلیمات مردوزن کے لیے باعث رحمت ہیں اور اسلام نے ہر ایک کو اس کی حدود وقیود سے آگاہ کیا ہے، جس میں رہتے ہوئے اُسے آزادی اور اختیارات حاصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی اور وہ جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز سود مند ہے اور کن کن چیزوں کو اپنا کر وہ دنیاوی اور اُخروی زندگی میں فلاح پاسکتاہے۔ اللہ نے مرد کے فرائض میں یہ شامل کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی بچوں کی ضروریات کو حلال ذرائع سے پورا کرے، عورت گھر میں رہتے ہوئے اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرے اور بچوں کا خیال رکھے یہاں تک کہ اس پر نماز باجماعت بھی فرض نہیں تاکہ وہ اپنے گھریلو کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکےلیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے علم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ، گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گھر سے باپردہ نکلنے کی اجازت دی، اسی طرح کاروبار،تجارت بھی کر سکتی ہے اگر اس کی عزت وآبرو پر کوئی آنچ نہ آئے اور کسی فتنے کا ڈر نہ ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (الاحزاب:59)

’’اے نبیﷺ! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دوکہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بے حیا اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے۔ جس سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت کسی کو نہ ہوگی اس کے برعکس بے پردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی بد شہوانی کا نشانہ بنے گی۔

خواتین کو پیدا ہی حیا پر کیاگیاہے درحقیقت حیا ہی عورت کا زیور اور زینت ہے۔ دین اسلام جہاں صنف نازک کو حقوق عطا کرتاہے بحیثیت ماں بیٹی کے وہاں اُسے چادر اور چاردیواری کو پامال کرنے سے بھی روکتا ہے اور ایسے افعال وکردار سے روکتا ہے جس سے اسلامی معاشرے میں فتنہ وفساد وبگاڑ پیدا ہوتاہو اُسے اختلاط غیر مردوں کے ساتھ الگ ہونے سے روکتاہے اور شرم وحیا کی تلقین کرتا ہے میرا جسم،میری مرضی،اپنا کھانا خود گرم کرو جیسے حیاباختہ نعروں اور کاموں سے روکتاہے۔

عورت کا زیور اور زینت ہی حیا ہے اور یہی اس کے تحفظ اور امن کی ضمانت ہے اور اس کے دین پر دلالت کرتی ہے۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ سیدنا شعیب علیہ السلام کی بیٹی جب چلتی ہوئی آئی تو مکمل طور پر حیا کی پیکر تھی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ١ٞ قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا (القصص : 25)

’’ اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں ، تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں)کو جوپانی پلایا ہے اس کی اُجرت دیں۔‘‘

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیاداری کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : كُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي فَأَضَعُ ثَوْبِي، وَأَقُولُ إِنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَاللَّهِ مَا دَخَلْتُهُ إِلَّا وَأَنَا مَشْدُودَةٌ عَلَيَّ ثِيَابِي، حَيَاءً مِنْ عُمَرَ (مسند احمد:25660)

’’میں اپنے اس گھر میں داخل ہوجاتی تھی، جہاں آپ ﷺ اور میرے والد مدفون ہیں میں وہاں لباس بھی اُتار لیتی تھی اور یہ کہتی کہ میرے خاوند اور والد ہی مدفون ہیں جب اُن کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دفن ہوگئے تو اللہ کی قسم! تو میں جب بھی داخل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہوئے اپنے مکمل لباس کے ساتھ داخل ہوتی۔‘‘

ایک صحابیہ نے تکلیف تو برداشت کر لی لیکن حیا کا پردہ چاک ہونا منظور نہ کیا تو انہیں جنت کی بشارت دے دی گئی چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، عطاء بن ابو رباح ، رحمہ اللہ سے کہتے ہیں کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں تو(عطا) نے کہا :کیوںنہیں ، تو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا یہ حبشی عورت جنتی ہے۔ وہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی ار وہ کہنے لگی مجھے مرگی کی شکایت ہے جس کی وجہ سے میرا پردہ کھل جاتاہے آپ اللہ سے میرے لیے دُعا کردیں اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ

’’ تم چاہو تو صبر کر لو اور تمہیں جنت ملے گی لیکن اگر چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے عافیت کی دعا کر دیتاہوں ۔‘‘

تو اُس خاتون نے کہا میں صبر کرتی ہوں ، لیکن بے ہوشی میں پردہ کھل جاتاہے کہ اللہ سے دُعا کردیں کہ میرا پردہ نہ کھلے تو آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔(بخاری:5652،مسلم:2576 )

اسی طرح ایک عورت نبی پاک ﷺ کے پاس نقاب میں آتی ہے اس کا بیٹا ایک غزوہ میں شہید ہوا ہوتاہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ:

جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ؟ فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي

تیرا بیٹا قتل ہوا ہے تو پھر بھی نقاب اور پردہ میں ہے ، وہ کہتی ہیں میرا بیٹا قتل ہوا ہے میری شرم وحیا قتل نہیں ہوئی۔(ابو داود:2488)

بہت سی احادیث میں حیا کی فضیلت آئی ہے ۔

الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ(بخاری : 9)

’’حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے کہ

الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ (مسلم:37)

’’حیا تمام کی تمام بھلائی اور خیر ہے۔‘‘

شرم وحیا انسان کو جنت کا حقدار بناتاہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :

الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ (ترمذی:2009، ابن ماجہ:4184)

’’حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں سے ہے۔‘‘

شرم وحیا اخلاق حسنہ کی زینت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا :

وَمَا كَانَ الحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ (سنن ترمذی:1974)

’’جس چیز میں بھی شرم وحیا ہوتاہے اس کی قدروقیمت کو بڑھا دیتاہے۔‘‘

جبکہ حیا کے تین مرتبے ہیں :

1۔ انسان اللہ سے حیا کرے جس کام کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرے اور جس سے منع کیا اس سے منع ہوجائے ، یعنی عبادات واطاعت بجالائے گناہوں اور حرام کردہ چیزوں سے بچا رہے۔

2۔ انسان کا دوسروں سے حیا یہ ہے کہ بُرے اخلاق سے بچے ، دوسروں کو تکلیف دینے سے بچے ، اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچے۔

3۔ انسان کا اپنے آپ سے حیا کرنا یہ کہ یعنی خلوت میں بھی گناہوں سے بچے ، جس سے دل کی پاکیزگی اور قوتِ ارادہ کو تقویت ملتی ہے۔

مختصراً یہ کہ حیا ایک ایسی اخلاقی قدر ہے جو اولین زمانہ نبوت سے مطلوب ہے اور اخلاقی فرائض میں شامل ہے تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی امتوں کو حیا کی ترغیب دلائی ، تمام اخلاقی اطوار کا سرچشمہ حیا ہے ، حیا انسان کو بُرے کام سے روکتی ہے اور حقدار کے حقوق سلب کرنے میں حائل بن جاتی ہے اور اگر انسان سے حیا چھین لی جائے تو وہ تمام قبیح اور مذموم کاموں سے منع نہیں رہ سکتا ۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے :

إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ

’’جب تم حیا نہ کرو تو جومن میں آئے کرو۔‘‘(بخاری :3484)

بے حیائی کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اُسے داغدار کر دیتی ہے جو انسان اللہ سے حیا کرتاہے تو اللہ اس کے دنیا وآخرت میںگناہوں میں پردہ ڈال دیتے ہیں ۔

عورت مارچ :

عورت مارچ اور آزادی کا نعرہ  لگانے والوں  سےاگر کوئی یہ پوچھےکہ کس سے آزادی چاہیے؟ باپ سے ،شوہر سے یا بھائی سے ؟ عجیب غریب جوابات آنے لگے گے کچھ خواتین کہیں گی  مرد سے آزادی ، ان سے پوچھا  جائے،کون  سے  مرد سے؟ پڑوسی ؟ ٹیچر ؟ سبزی والا ؟  درزی ؟ چوکیدار ؟ ڈرائیور ؟ بوائے فرینڈ ؟ « پھر جواب آئے گا جوعورتوں پر جو تشدّد کرتے ہیں حقوق نہیں دیتے ایسے مردوں سے «ہمارا جواب ہو گا»ایسے مردوں سے تو دیگرمردوں کو بھی آزادی چاہیے» اگر اِن موم بتی والی باجیو سے آزادی کا مفہوم معلوم کیا جائے تو کسی کے پاس جواب نہیں ہوگا مگر ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس نام نہاد آزادی کے بجائے اسلامی نظام ،انصاف مانگیں ، انصاف کا نظام مانگیں ، آسان اور سستا انصاف مانگیں ، قانون کی بالا دستی مانگیں ، ایک ایسے نظام کا مطالبہ کریں ایسے معاشرہ کی جدوجہد کریں جہاں عورت سونا اچھالتی کراچی سے کشمیر تک پیدل سفر کرے اور اس کو کسی سے کوئی خطرہ نہ ہو مگر پھر بھی ان موم بتی باجیو کا کہنا ہوگا:آپ گھٹیا سوج رکھتے ہیں ، عورتوں کو غلام بنانے کی سوچ ہے ، آپ جیسے مرد عورتوں پر تشدّد کرتے ہیں۔ ان خواتین کا یہ جواب سن کر انتہائی حیرت ہوتی ہے اور اس جواب پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس جعلی آزادی کے نعرے کے پیچھے عزائم کیا ہیں ؟ ایلیٹ کلاس کی ان عورتوں کو کس قسم کی آزادی چاہیے ؟ کیونکہ ان کے تیور بتا رہے ہیں ان کو ہر قسم کی آزادی چاہیے انصاف نہیں ۔

وزیر مذہبی امور کا اعتراف:

وزیرمذہبی امورنے حج فارم سے ختم نبوت حلف نامہ ختم کیے جانے کااعتراف کرلیا۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی مذہبی امور کے اجلاس میں حج فارم میں سے ختم نبوت کا حلف نامہ نکالنے کا معاملہ ختم نبوت کا حلف نامہ نکالنے کا معاملہ چیئرمین کمیٹی مولانا اسعد محمود نے اٹھایا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کا کہنا تھا،  قائمہ کمیٹی میں واضح کرنا چاہتا ہوں پہلے صفحے پر سے بھی ختم نبوت کا حلف نامہ نکالتے ہوئے مجھے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ میں نے ساری زندگی ختم نبوت کی وکالت کی میری ہی وزارت نے میرے علم میں لائے بغیر ختم نبوت کا حلف نامہ نکال دیا۔ ایشو کھڑا ہونے پر مجھے حج فارم کے اختصار کی تکنیکی وجوہات کا بتا کر گمراہ کیاگیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ اب ختم نبوت کا حلف نامہ دونوں فارموں پر بحال کر دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس سازش کے پیچھے کون “انتہائی  طاقتور شخص” ہے۔ جو وزیر کے علم میں لائے بغیر بھی اتنی بڑی اور حساس نوعیت کی تبدیلی کر سکتا ہے؟

جس کی ہم پُر زور مذمت کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے