کن فیکون (Immediat result)کے تحت معاملات عالم امر(آسمانوں) میں طے کیے جاتے ہیں۔عالم امر میں زمان و مکاں (Time and Space) کی کوئی قید نہیں ہوتی۔اسی لیے وہاں اپنے وجود کی تکمیل پانے والی ہستیاں ، ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ بھی زمان ومکاں کی محدودیت سے ماوراء ہیں۔ ان کے لیے شرق و غرب و عرش سے فرش اور فرش سے عرش تک کا سفر کرنے کے لیے وقت اور فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اسی عالم امر میںروز ازل سے روز ابد تک آنے والی تمام انسانی ارواح کو تخلیق کیا گیا۔ جو اس وقت چیونٹیوں کی صورت میں لشکروں کی مانند تھیں ۔ان کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت زندگی، شعور اور گویائی عطا کی ، ازروئے قرآن حکیم:

 اور اے نبی! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالااور انھیںخود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ’’ کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟‘‘ انھوں نے بیک وقت کہا: ’’ ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘( الاعراف 172)

یہ سب سے پہلا دور وہ ہے جب روح انسانی کو پیدا کیا گیا جو مادی جسم سے محروم تھیں۔وہاں صرف روحانی زندگی تھی۔رسول کریمﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا گیا۔ارشاد ربانی ہوا:

وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ

’’یہ آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، آپ فرمادیجیے ، روح میرے ربّ کا امر ہے۔‘‘(الإسراء:85)

اسی عالم امر میںتمام ارواح انسانی سے بندگی کا عہد لے کر…انھیںطویل نیندسلادیا گیا۔اور یہ نیند کا وقفہ ہماری دوسری زندگی ہے۔ نیند اور موت میں زیادہ فرق نہیں ہے ، نیند کی حالت میں انسان کا شعور سلب کر لیا جاتا ہے، جان تو باقی رہتی ہے مگر روح نکل جاتی ہے۔ اسی لیے نیند کو موت کی بہن کہا جاتاہے۔چنانچہ رسول اکرمﷺ نے سو کر اٹھنے پر یہ دعا تلقین فرمائی ہے:

الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

’’ تمام شکر اور تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے زندہ کیا، اس کے بعد کہ مجھے مردہ کردیا تھا۔ اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ ( صحیح البخاری:6312)

زندگی موت اور نشاۃ ثانیہ (بعث بعد الموت) کو سمجھنے میں لوگوں کو اکثر الجھن ہوتی ہے کہ دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے، اور اگر ہو بھی گئے تو مادی جسم کے جذباتی غدودوں کے بغیر جذباتی کیفیتوں کا احساس اور عمر ِ رفتہ کے ذہن کے بغیر گزشتہ یادوں کا شعور کیسے ہوگا۔ان دونوں باتوں کو قابل فہم بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نیند اور بیداری کی دو کیفیتیں پیدا کیںتاکہ انسان ایک کمتر درجہ کی موت و حیات کے اعادہ کا مشاہدہ رات دن کرتا رہے۔کسی ذی حیات کو نیند سے بے نیاز اور ہمیشہ بیدار رہنے والا بنانا کچھ مشکل نہ تھا۔انسان کے جسم میں بے شمار ایسے عمل جاری ہیں کہ کہیں آرام کرنے کی ذرا مہلت نہیں، ان میں سے اگر کوئی تھوڑی دیر کے لیے بھی رک جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔

حیات کے پہلے سانس سے لے کر موت کی آمد تک انسان کے اعضاء رئیسہ اور دیگر اعضاء مسلسل اپنے فرائض کی ادائیگی میں منہمک رہتے ہیں، پھر دوسرے چند اعضاء کے لیے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ لازمی تھکن محسوس کریں اور آرام کے محتاج ہوں، وہ بھی ایسے بنائے جاسکتے تھے کہ مسلسل مصروف کار رہیں اور آرام کے محتا ج نہ ہوں۔موت کی ایجاد دراصل اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمائی کہ موت کے بعد حیات کو قابل فہم بنایاجائے اور یہ مشاہدہ کرایا جائے کہ موت کے بعد جس حس و شعور کا تجربہ نا قابل تصور خیال کیا جارہا ہے، نیند میں حس و شعور سے محروم انسان وہ سب کچھ خواب کی دنیا میں محسوس و مشاہدہ کر لیتا ہے۔عین اسی طرح جس طرح وہ بیداری میں مشاہدہ کرتا ہے۔

چار ماہ بعد جو روح عالم ارواح سے لا کر ماں کے پیٹ میں پروان پاتے بچہ کے جسم میں پھونک دی جاتی ہے ، تو وہ حیوانی وجود انسان کا روپ دھار لیتا ہے۔روح ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو قرآن حکیم میں ’’ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ‘‘ (ایک نئی تخلیق) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ارشاد خداوندی ہے:

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠

’’ اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں ( ان کی روحیں) سوتے میں( قبض کر لیتا ) ہے پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے ان کو روک لیتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان میں نشانیاں ہیں۔‘‘( سورۃ الزمر 42)

سورۃ الانعام کی آیت 60میں فرمایا:

وَهُوَالَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰۤى اَجَلٌ مُّسَمًّى١ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ

’’ اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کی خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ (یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی) مدت معین پوری کر دی جائے پھر تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے(اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے رہتے ہو(ایک ایک کر کے) بتائے گا۔‘‘

فلاسفہ اور حکمائے اسلام کے خیال کے مطابق اصل روح کی تین قسمیں ہیں ۔ روحِ حیوانی، روحِ طبیعی اور روحِ انسانی۔ اطبّا نے جس روح کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ ان لطیف بخارات کا نام ہے جو اخلاط کی بخاریت اور لطافت سے عالم وجود میں آتے اورانسان کی حیات کا موجب بنتے ہیں، یہ ’’ روحِ حیوانی ‘‘ ہے۔اور فیثا غورث اور اس کے پیرو جس کو روح کہتے ہیں وہ’’ روحِ طبعی ‘‘ ہے۔ حکمائے اسلام اور صوفیاء کرام جس کو روح کہتے ہیں وہ ’’ روحِ انسانی ‘‘ ہے اور افعال و اوصاف کی وہی ذمہ دار ہے۔ معاد کا عذاب و ثواب اسی سے متعلق ہے۔ اور قرآنِ کریم میں اسی کو خطاب کیا گیا ہے، وہی دراصل انسان ہے اور اسی کو ’’روحِ انسانی ‘‘کہا جاتا ہے۔

آج کے جدیدیت اورمادہ پرستی کے دور میں جو چیزیں ہمارے مادہ پرستی کے سانچے میں ڈھل نہیں پاتیں ، ہم انھیں قابل اعتنا ہی نہیں سمجھتے اور انھیں رد کر دیتے ہیں۔روح کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ حالانکہ روح عالم خلق (دنیا) کی شے ہے ہی نہیں۔ یہ تو عالم امر کی چیز ہے ، جبکہ مادی قوانین( Physical Laws) عالم خلق سے متعلق ہیں۔اس دنیا میں ہمیں جو زندگی ملی ہے یہ روح اور جسم کا مرکب ہے۔  جب کہ اس سے پہلے کی زندگیاں صرف روح کی زندگیاں تھیں۔

عالم امر میں اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ مگر عالم خلق میں یہ انسان اللہ تعالیٰ کا سب سے قابل اعتماد شریک بن کر ابھرتا ہے۔روح ہمارے جسم کو اس طور متصرف بنائے لگتی ہے جس طرح تمام عالم فطرت اللہ کے تصرف میں ہوتا ہے۔کائنات کا فعّال عنصر اللہ ہے تو ہمارے پیکر کا فعّال عنصر روح ہے۔روح انسانی وجود کا ایک نقطہ ارتکاز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرح ابدی ہے۔بقول اقبال  ؎

نظر  اللہ  پہ  رکھتا   ہے  مسلمان  غیور

موت  کیا  ہے ؟  فقط  عالم  معنی  کا  سفر

اس کے بعد انسان کی زندگی کا یہ دنیاوی دور شروع ہوتا ہے۔ جس میں ہر انسان ایک مخصوص عمر گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔اب یہاں سے اس کی چوتھی زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔یہ قبر اور عالم برزخ کی زندگی ہے۔عذاب قبر بر حق ہے ، جو انسان کو اس کے برے اعمال کی بنا پر دیا جاتا ہے۔اور یہ قرآن اور احا دیث سے بھی ثابت ہے۔ اس کےبعد اگلا مر حلہ عالم بر زخ کا ہے۔اس کی صحیح کیفیت کو ہم اس دنیا میں رہ کر نہیں جان سکتے۔

موت دراصل ایک نئی حیات میں داخل ہونے کا ایک دروازہ ہے جو ہمیں اس سکوتی وقفہ کے طور پر نظر آتی ہے۔ حا لانکہ یہ واقعتا سکوت نہیں بلکہ یہ تو ایک زندگی کا دوسری زندگی میں خاموشی کے ساتھ سرک جانا ہے۔گویا یہ اسرار ساکت ایک نوع کا ہنگامِ بقا ہے۔جو انسانی ایغو (Human Ego) کے تکملے کے لیے ہرلمحہ مصروفِ عمل ہے۔

موت اور زندگی کے اس عمل کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موت کے معنی فنائے محض کے نہیں ہیں۔بلکہ محض تبدیلی جسم کے ہیں ۔روح اس جسم سے مفارقت کر نے کے بعد کوئی دوسرا جسم اختیار کر تی ہے، اور وہ دوسرا جسم یا صحیح الفاظ میں دوسرا قالب اس قابلیت کی مناسبت سے ہوتا ہے جو انسان نے اپنی پہلی زندگی میں اپنے اعمال اور اپنے رجحانات سے بہم پہنچائی ہے۔اگر اس کے اعمال برے رہے ہیں اور اس کے اثر سے اس کے نفس میں بری قابلیتیں پیدا ہوگئی ہیں تو اس کی روح ادنیٰ درجہ کے حیوانی یا نبا تی طبقات میں چلی جاتی جائے گی۔اور اگر اچھے اعمال سے اچھی قابلیتیں اس نے بہم پہنچائی ہیں تو روح اعلیٰ طبقوں کی طرف ترقی کرے گی۔غرض اس نظریے کی رو سے جزا اور سزا جو کچھ بھی ہے اس دنیا اور ان ہی اجسام کے عالم میں ہے۔

گویا اس عقیدے کی روح سے ایک شخص جو اس قت انسان ہے وہ اس لیے انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کیے تھے۔اور ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لیے جانور ہوگیا کہ انسان کی جون(undergo a change ) میں اس نے برے عمل کیے تھے۔دوسرے الفاظ میں انسان و حیوان او ر درخت ہونا سب دراصل پہلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہے! اور یہی عقیدہ ٔ تناسخ(Metempsychosis )کہلاتا ہے۔مگر عقل سلیم اس نظریے کو قبول نہیں کر سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ انسان عقل او ر علم میں جتنی ترقی کرتا گیا، تناسخ کا اعتقاد باطل ہوتا چلا گیا۔

بہرحال اس کے بعد ایک ہولناک زندگی کا آغاز ہوگا اور وہ ہے آخرت کی زندگی (Day of Judgement ) اس کا آغاز صور کے پھونکے جانے سے ہوگا اور اس کی آواز پر سب مرے ہوئے لوگ زندہ ہو جائیں گے۔ہر مردہ انسان اپنی اسی حالت پر اٹھے گا جس حالت میں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ہر انسان کو ایسا محسوس ہوگا کہ اس پر مدہوشی کی سی کیفیت چند گھنٹوں تک طاری رہی ہے۔  اور پھر سب کو ہانک کر میدان حشر میں لایا جائے گا۔اور ہرایک کا حساب و کتاب اور اعمال کا وزن کیا جا ئے گا۔ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:

وَ كُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا

’’ یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اُس کے پاس حاضر ہوں گے۔‘‘( مریم 95 )

اور اپنے اعمال کے نتیجے میں ہر شخص کے دو ہی انجام ہوں گے ، جنت کی سکون آمیز اور راحت بخش زندگی یا جہنم کی ہولناک سزائیں!

ہماری یہ دنیا کی زندگی دو موتوں کے درمیان ہے۔ایک وہ موت جب ہم سے ’’ عہد الست‘‘ لینے کے بعد ہمیں گویا ایک طویل عرصے تک سُلادیا گیا ۔ اور دوسری موت وہ جو اس دنیا کی زندگی کے خاتمہ پر آتی ہے۔ہماری یہ زندگی ہماری طویل سفر حیات کا ایک مختصر سا وقفہ ہے۔اور یہ وقفہ ہماری آزمائش کا دورانیہ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

ا۟لَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا

’’ اسی نے موت اور زندگی کو پید اکیا تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔‘‘(الملک 2)

ہرانسان زندگی میں ان پانچ ادوار سے گزرتا ہے۔چنانچہ برے اعمال کی بناپر دوزخ کی آگ میں ڈالے جانے والے اللہ سے فریاد کریں گے:

رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَ اَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ

’’ اے ہمارے پروردگار! تونے ہمیں دو بار مارا اور دو بار ہی زندہ کیا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں،تو کیا اب کوئی نکلنے کی را ہ بھی ہے؟ (المؤمن 11)

ان کے اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ:

’’ اللہ پر ایمان اسی وقت ایمان ہوتا ہے جب وہ غیب میں ہو۔ اب مرنے کے بعد سب باتوں کا مشاہدہ کرلیا، اب آخرت اور قیامت سب کچھ نظروں کے سامنے آچکا، تو اب ایمان کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں رہی۔ درحقیقت نصیحت صرف وہی حاصل کرتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرے اور جب تم نے اپنی زندگی میں اللہ  کی طرف کبھی رجوع ہی نہیں کیا ، تو بتاؤ تمھیں کس طرح ہدایت مل سکتی ہے۔‘‘

انسان کی اخروی زندگی میں محاسبہ کی پانچ بنیادیں ہیں، کیونکہ اس کو جن صلاحیتوں سے نواز کر دنیا میں بھیجا گیا تھا اس بنا پر وہ مکلف ہے اپنی پوری زندگی کے محاسبہ کا!

محاسبہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت عطا کی۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا

’’ بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیااور اس کو سنتا دیکھتا بنایا۔‘‘ (الدھر 2)

دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسے عقل و فہم اور شعور و بصیرت سے نوازا:

وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا

’’ جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ، کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سےپوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘ ( بنی اسرائیل 36)

تیسرے یہ کہ ہر نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کیا گیا ہے۔نیکی اور بدی کی پہچان فطرت انسانی میں رکھ دی گئی ہے۔

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا

’’ پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی۔‘‘ ( الشمس 8)

ہر شخص بنیا دی طور پر یہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا بر اہے اور سچ بولنا اچھاہے۔ ہمدردی اچھی شے ہے اور ظلم بری شے۔یہ چیزیں بنیادی اخلاقیات میں سے ہیں جو انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔ اسی لیے قرآن نیکی کو معروف کہتا ہے، یعنی یہ لوگوں کے نزدیک جانی پہچانی چیز ہے۔ اور برائی اور گناہ کو منکر کا نام دیتا ہے۔یعنی اس سے انسان کی فطرت نفرت کرتی ہے ، اگر فطرت مسخ نہ ہو گئی ہو۔

محاسبہ کی چوتھی بنیاد روح میں اللہ کی معرفت ہے۔اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں سب سے عہد لیا تھا، جب ان سے پوچھا تھا ، کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں ؟ تمام ارواح نے اقرار کیا تھا ، کیوں نہیں ، تو ہی ہمارا ربّ ہے،( ہم تیری ہی بندگی کریں گے)

محاسبۂ اخروی کی پانچویں بنیا د وہ جذبۂ محبت ہے جو روح میں رکھا گیا ہے۔یہ معرفت اور محبت خوابیدہ ہے، اس کو بیدار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام ِربانی کی بارش ہوتی ہے۔روح کو کلامِ ربانی کی غذا ملتی ہے تو اس کی صلاحیت ابھر تی ہے۔

انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا نائب بنایا اور فرشتوں سے بڑھ کر علم عطا کیا، اور اس کے علم کو فرشتوں کی تسبیح و تقدیس پر ترجیح دی۔

ازروئے قرآن حکیم:

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ

’’ اور جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ، تو انھوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح اور ہم تیری حمداور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ 30)

سورۃ الحجر کی آیات 28تا31میں ارشاد ربانی ہوا:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ

فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ١ؕ اَبٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ

’’ اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا، مگر ابلیس کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف ) انکار کردیا۔‘‘

اللہ کے حکم کے مطابق فرشتوں نے سجدہ کیا،اور اس طرح ملکوتیت بشریت کے آگے سجدہ ریز ہوئی۔مگر ابلیس نے انکار کیا اور اس طرح شیطانی قوتیں انسان کے آگے نہ جھکیں۔اصل میں تو انسان مٹی کا ایک حقیر سا ٹکڑا تھا، مگر اللہ نے اس میں جو روح پھونکی اور اس کو جو علم بخشا تھا اس نے اسے نیابت الٰہی کا اہل بنا دیا۔

یہ ہے وہ مقام جہاں سے اسلام اور مغرب کے فلسفہ کی راہیںایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں۔مغربی فلسفہ کی رو سے انسان ایک حیوان ناطق ہے۔مگر اسلا م میں وہ نائب اللہ تعالیٰ کا ہے۔خالق کائنات نے جو کچھ بھی پید ا کیا وہ سب کچھ انسان کی ذات کے لیے ہی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا

’’ یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انھیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں، اور بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا کی۔‘‘ (بنی اسرائیل 70)

 سورۃ الحج کی آیت 65میں ارشاد فرمایا:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ

’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی نے زمین کی تمام چیزیں تمھارے بس میں کر دی ہیں۔اور اس کے فرمان سے پانی میں چلتی ہوئی کشتیاں بھی، وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بے شک اللہ لوگوں پر شفقت و نرمی کرنے والا اور مہر بان ہے۔‘‘

ان آیات میں انسان کو بتایا گیا کہ زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ تیرے فائدے کے لیے ہی مسخر کی گئیں ہیں اور یہی حال آسمانوں کی بہت سی چیزوں کا بھی ہے۔ بقول اقبال :

نہ تو زمیں کے  لیے  ہے  نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات میں کوئی فرد واحد یا کوئی گروہ نائب الٰہی نہیں ہے، بلکہ پوری نوع انسانی کو یہ فضیلت عطا کی گئی ہے۔گویا اس روئے ارضی پر بسنے والا ہر انسان اللہ تعالیٰ کا ہونے کے اعتبار سے مرتبے میں برابر ہے۔

یہاں جو کچھ بھی ہے اسے اللہ نے انسان کے لیے پیدا کیاہے۔اور انسان چونکہ براہِ راست خالق کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس لیے اس کا یہ فرض قرار دیا گیاہے کہ انفرادی اور اجتماعی جس رنگ میں بھی انسانیت پائی جائے اس کے تکریمی اور اکرامی حقوق کو ادا کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ کے لیے بناتا چلا جائے، تب وہ پائے گا کہ اللہ بھی اس کے لیے بنا ہوا ہے۔اسی سے ہم آہنگی اور توافق کا دائرہ بن جاتا ہے۔لیکن انسان اللہ کے لیے اپنے آپ کو نہ بنائے بلکہ تصادم و تخالف اور ٹکراؤ ہی کے مشغلوں میں زندگی گزار کر مرے گا تو اللہ، اللہ کے ارادے، اللہ کے قوانین کو بھی پائے گا کہ اس کے ہر ارادے اور اس کی ہر خواہش سے ٹکرا رہے ہیں۔

خلیفہ بن کر بندہ بن جانے یعنی سب کچھ رکھتے ہوئے اسی سب کچھ کو اللہ کی مرضی کا تابع بنالینے کی وجہ سے اب اللہ اور اس کی قوتیں بندے کی ہم نوا بن جاتی ہیں، جو آثار و ثمرات و برکات اس راہ سے حاصل ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں فرشتہ بنانے والی ریاضتوں اور مجاہدوں کے کارناموں کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ہے۔اسلامی نظامِ زندگی کی دعوت دینے والے بزرگوں میںجن کو اس راہ کا سب سے پہلا داعی اور ہادی سمجھا جاتا ہے ، یعنی سیدنا نوح علیہ السلام کی طرف بھی قرآن میں یہ فقرہ منسوب کیا گیا ہے:

وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّيْ مَلَكٌ

’’ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب کی باتوں کو جانتا ہوںاور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ یعنی ملک ہوں۔‘‘ (سورۃ ہود 31)

اور اسی راہ کی آخری ہستی نبوتوں کے خاتم محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ:

قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّيْ مَلَكٌ

’’ کہہ دو! میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، اور نہ میں غیب کی باتوں کو جانتا ہوں، اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ یعنی ملک ہوں۔‘‘ ( سورۃ الانعام 50)

انسان کے وجود میں اللہ نے نسیان(بھول) کا مادہ بھی رکھا ہے۔جو انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والی ناخوشگوار یادوں، حادثات اور دلخراش سانحات کو بھلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اگر نسیان کا یہ مادہ نہ ہوتا تو انسان کی زندگی اجیرن ہوجاتی، اوروہ بے اختیار پکار اٹھتا، بقول غالب :

یادِ ماضی عذاب ہے یا ربّ       چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

زندگی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دنیا سے سدھار جاتے ہیں ، تو انھیں دل سے بھلا دینا محال ہوتا ہے۔ان کے ساتھ گزارے ہوئے روز وشب انسان کو پل پل ستا تے ہیں رلاتے ہیں، زندگی بے کیف اور بے معنی لگنے لگتی ہیں اور لاکھ جتن کے باوجود ذہن سے ان کی یادوں کو بھلا دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ یادوں کی یہ بارات ذہن و دل کے افق پر بار بار اپنے جلوے بکھیرتی ہے تو دل کی دنیا اُتھل پَتھل ہوکر رہ جاتی ہے۔ ۔ایسے حالات میں ربّ کائنات نے ایک عظیم نعمت سے انسان کو نوازا، جسے’’ نسیان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔نسیان وہ قوت محرکہ ہے جو انسان کے بکھرے جذبات اور یادوں کے گہرے نقوش کو دھندلا دیتی ہے، وقت کا مرہم ہر رستے زخم کو مندمل کر دیتا ہے۔اور انسان پھر سے اس دنیا کی ہوش ربا اور دلفریب رنگینیوں میں کھو جاتا ہے۔ بقول فیض  ؎

دنیا  نے  تیری  یاد  سے  بیگانہ کردیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

چنانچہ انسانوں کی اکثریت دنیا کی ان رنگینیوں اور رنگ ونور کی چکاچوند میں گم ہو کر اپنے ربّ سے کیے ہوئے اس عہد کو بھی بھول جاتی ہے جو اس نے اس وقت کیا تھا جب وہ عالم ارواح میں تھے ۔جس طرح نو زائیدگی کی عمر کا ایک بڑ ا حصہ بچے کے ذہن میں نہیں رہتا اسی طرح ایک بالغ انسان کا کیا ہوا وہ ’’عہداَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘ ‘ ذہن کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جا تا ہے۔اس بھولی ہوئی داستاں کو شعور و ادراک کی سطح پر لانے کے لیے ٖصرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کلام کو گہرائی میں اتر کر سمجھنا۔قرآن جب دل و دماغ کی پہنائیوں میں جگہ بنالے تو انسان پر تمام عقدے کھلتے چلے جاتے ہیں اور نسیان کا وہ غبار جس نے ذہن کی سطح کو ڈھانپا ہوتا ہے، ہوا بن کر اڑ جاتا ہے۔

اور جونہی انسان معصیت اور اس کے غلط اثرات کو اپنے ذہن و قلب سے دھولیتا ہے، پھر انابت الی اللہ کے مراحل طے کر نے لگتا ہے۔تطہیری عمل جس کے ذریعے ایک عاصی انسان اپنے نفس کو پاک کرتا ہے وہ توبہ یا رجوع الی اللہ کہلا تا ہے۔

خالق حقیقی کی صفاتِ حسنہ پر تجدید ایمان اور اس حقیقت کا یقین کہ اس کا مربی اور اس کی خودی کو بالیدگی اور نشو و نما دینے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اور نہیں ہے ، تو وہ اسی سے عفو و درگزر کا خواستگارہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی اور رضاکے ساتھ ہر شخص اپنی اگلی زندگی میں اپنی ذہنی سطح ور کیفیت کے مطابق اپنی جنت اور دوزخ خود بنائے گا۔ اس سلسلے میں اصل اہمیت اِس مادی دنیا میں کمائے ہوئے اعمال کی ہوگی جس کے اثرات اِ س کے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور جس کی پوٹلی باندھ کر وہ اگلی زندگی میں قدم رکھے گا۔اس ابدی زندگی میں اسے اپنے کسب شدہ اعمال کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔یا تو مثبت طور پر وہ اس کے کام آئیں گے یا پھر سخت تکلیف دہ عواقب برداشت کر نا ہوں گے۔وہاں پر اسے ان تمام لوگوں سے واسطہ پڑے گا جن کے حقوق اس دنیا میں اس نے غصب کیے ہوں گے، خود اس کے اعضاء و جوارح کو زبان دے دی جائے گی جو اس کے خلاف شہادت دیں گے۔ گویا وہی معاملہ ہوگا کہ

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

ان کو زباں ملی تو ہم ہی پر برس پڑے

اگر دنیا میں انسان کے اعمال اس کی فطرت ِ سلیمہ اور خالق کائنات کی مر ضیّات کے مطابق ہوں گے تو اسے اگلی دنیا میں نہایت خوشگوار لوگوں کی معیّت اورنہایت دیدہ زیب اور دل فریب مناظر و اشیا ء سے نوازا جائے گا۔کسی شخص نے جس درجے میں اپنے خالق حقیقی کی صفت حسن کو اپنے اخلاق و اعمال میں اپنایا ہوگا وہ اسی قدر نعمتوں کا مستحق ہوگا۔ اور آخرت کی زندگی میں بھی اس کی خودی کی بالیدگی اور ترفع کا عمل جاری رہے گا۔ارشاد ربانی ہے:

وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا

’’ اور جو شخص کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرےتو وہ اللہ کو بڑا مغفرت کرنے والا اور بڑا رحم والا پائے گا۔‘‘ ( سورۃ النساء 110)

اور اگر اِس زندگی میں کسی شخص کے اعمال اس کی فطرتِ سلیمہ اور خالق کائنات کے احکام کے خلاف ہوں گے تو اسے اپنے اعمالِ بد کو انتہائی کریہہ صورتوں میں متشکل دیکھنا پڑے گا۔ مثلاً آگ کی لپٹ، انتہائی گندہ اور نا پسندیدہ پانی، ناکارہ اور بد ذائقہ غذا ، جسمانی تعذیب ، سانپ ، بچھو وغیرہ۔جنت اور دوزخ اور ان کی تفاصیل صرف استعارے نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی مقامات ہیں۔جو اگرچہ متشکل ان اعمال کے نتیجے میں ہوں گے، جو ہم اس دنیوی زندگی میں کرتے ہیںاور جن کے اثرات ہمارے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں، یہی اعمال حیاتِ اخروی میں معروضی کیفیات اور مقامات کا روپ دھار لیں گے جو یا تو انتہائی آرام دہ اور خوش کن ہوں گے یا انتہائی تکلیف دہ اور مضرت بخش۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا اِقْرَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۰

’’ اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکا ل کر دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا، (کہا جائے گا کہ) اپنی کتاب پڑھ لے تو آج اپنا خود ہی محاسب کافی ہے۔جو شخص ہدایت اختیار کر تا ہے تو اپنے لیے اختیار کر تا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا۔اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا ئے گا۔اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل 13.14.15)

نفس اور روح کی مکمل تطہیر اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک انسان ان تمام خواہشات، تمناؤں اور افعال سے اجتناب نہیں کر لیتا جو اس کی فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہیں ۔اورہر طرف سے منہ موڑ کر اس حسنِ ازلی کی طرف رخ نہیں کرلیتا جس کی عبادت و محبت کی

خواہش اس کے وجود کی گہرائیوں سے پھوٹ رہی ہے۔ازروئے قرآن حکیم:

وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا

’’ اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو‘‘(سورۃ المزمل 08)

خدا فروشی انسان کو خود فراموشی کے ذہنی عذاب میں مبتلا کردیتی ہے۔ازروئے قرآنِ حکیم:

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (سورۃ الحشر 19)

’’ اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انھیں ایسا کر دیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ یہ بد کردار لوگ ہیں۔‘‘

انسان کے جسمانی وجود کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں ؟ مٹی اور پانی سے گندھا گارا جو بدبو دار اور لیسدار تھا اور جو خشک ہوکر بجنے لگاتھا۔ اس اعتبار سے انسان کوئی قابل ذکر چیز تھا ہی نہیں۔ مگر جب خالق کائنات ربّ عظیم نے اپنی روح اس وجود خاکی میں پھونکی ، اسی لمحہ وہ قابل ذکر شے بن گیا ، اور اس کو مسجود ملائک کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔پھر اسی ربّ کائنات نے اسے اختیار و ارادے کی آزادی دے کر اس فانی اور ناپائدار دنیا میں بھیج دیا۔مقصد صرف ایک تھا ، اس بدن و روح سے مرکب وجود کا امتحان لیناکہ وہ اپنے ربّ اور خالق کی وفاداری کس حد تک نبھاتا ہے۔اس کے اس امتحان کے لیے مرغوبات نفس، شہوات و لذات ، جام و مینا کی گردشیں ، اور گمراہیوں کے جال ہر سو پھیلادئے گئے… تو دوسری طرف ربّ کائنات نے سماعت، بصارت، عقل و فہم کے ہتھیار بھی انسان کو ودیعت کر دیے کہ جب دنیا کی رنگینوں کے خوابیدہ ماحو ل میں اس کے قدم لڑ کھڑانے لگیں، ہوش و خرد کی دنیا تہ و بالا ہونے لگے تو وہ ان ہتھیاروں سے اپنا د فاع کر سکے۔ان ہتھیاروں کو متحرک کرنے کے لیے اللہ نے اپنی ہدایت کو بھی انسان کے ساتھ ساتھ کر دیا۔ ارشاد ہوا:

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ

’’ جب تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو ( اس کی پیروی کرنا کہ) جنھوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور وہ غمناک ہوں گے‘‘ (سورۃ البقر ہ 38)

دنیا کی زندگی کا راستہ خواہشات و ترغیبات اور نفس کو مغلوب و مائل کرنے والی خاردار جھاڑیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ربّ چاہتا ہے انسان اس راستہ پر اپنا دامن بچاکر اُس تک پہنچنے کی سعی و جہد کرے۔اور اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی فکر کرے جو وہ اپنے ربّ سے کر چکا ہے ۔ انسان جب مادیت کی سطح سے بلند ہوکر اپنی عبادات و معاملات میں تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی روح میں بیداری پیدا ہوتی ہے، جو اس کی بد اعمالیوں کے سبب اضمحلال کا شکار ہوچکی تھی ۔ اور دنیوی لذتیں اور طاؤس و رباب کی حلاوتو ں کا احساس نیم جان ہونے لگتا ہے، آسودگی اور احساس طمانیت حاصل ہوجاتا ہے۔خدا شناسی ، خود فراموشی کے احساس کو زائل کردیتی ہے۔ ربّ کی معرفت ہی اپنی ذات کی معرفت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔کلام الٰہی کا گہرا مطالعہ علوم و معرفت کے وہ تمام در کھول دیتا ہے جو انسان زیغ و ضلال کی روش اختیار کر کے خود اپنے لیے بند کر چکا ہوتا ہے۔اور آفاق و انفس میں بکھری حق و صداقت کی نشانیوں کا شعور و ادراک بھی ان آیات قرآنیہ کے بین السطور اسے نمایاں طور پر نظر آجاتا ہے۔اس لیے کہ ان آیات بینات میں اسی(انسان) کا تو ذکر ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’ہم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے؟ ‘‘ (سورۃ الانبیاء10)

raheelgoher5@gmail.com

کتابیات

1۔قرآنِ حکیم ترجمہ: مولانا فتح محمد خان جالندھریؒ
2۔اسلامی نظریہ ٔ حیات ازپروفیسر خورشید احمد
3۔تفسیرمعار ف القرآن ازمفتی محمد شفیع ؒ
4۔سیرتِ خیر الانام ﷺازڈاکٹر اسرار احمد ؒ
5۔منشور اسلام ازڈاکٹر محمد رفیع الدینؒ
6۔رسولِ عربی ؐ اور عصر جدیدازسید محمد اسماعیل
7۔تفسیر معارف القرآن (جلد پنجم)مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
8۔حجۃ اللہ البالغہ (حصہ اول)ازشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے