گزشتہ سات آٹھ ماہ میں پوری دنیا پہ کرونا کی شکل میں جو آفت ٹوٹی اور جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا حال ہواحتی کہ اب بھی بزعم خود سپرپاور کہلانے والا امریکہ اس وبا کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے اور وہ وبا کے پھیلاؤ اور مریضوں کی اکثریت کے لحاظ سے دنیا کا پہلا ملک ہے۔پاکستان کے بدخواہ ہندوستان کا اس وبا نے بُرا حال کیا ہے پوری دنیا کی معیشت پر اس کے بہت بُرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔خودارض پاکستان میں بہت سی نیک روحیں وراثت انبیاء کے حاملین بزرگ علماء کرام ہمیں داغ مفارقت دے گئے یہ علامات قیامت میں سے ہے ۔ اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ بہت سے ڈاکٹر معالج حضرات لوگوں کی جانیں بچاتے ہوئے اپنی جان کی بازی ہارگئے اللہ پاک ان کی قربانیاں قبول فرمائے ، بہت سے عام لوگ بھی وبا کا شکار ہوئے اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے پھر بھی رب کریم کا جس قدر ہم شکرادا کریں کم ہے کہ اس بیماری نے عالمی سطح پر جس قدر تباہی مچائی پاکستان اس سے محفوظ رہا۔
یہ محض اللہ کریم کا خاص فضل تھا چاہیے تو یہ تھا کہ پوری قوم اس نعمت پر پیکر عجزونیاز بن جاتی شکر وسپاس اور احسان مندی کے جذبہ سے سرشار ہوکر رب العالمین کی نافرمانیوں سے توبہ کرتی مگر کچھ عجیب معاملہ ہوا وباء میں کمی ہوئی اور نئے اسلامی سال کی ابتداء ہوئی پھر ہم میں سے ہی کچھ لوگ اُٹھے اور اپنے منعم حقیقی پروردگار عالم کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا اور اسی مالک کے خلاف بدزبانی شروع کر دی جس نے انہیں اس وبا سے محفوظ رکھا تھا۔رسالت مآب سرورکونین ﷺ کو تکلیف پہنچائی ان نفوس قدسیہ کے خلاف تبرأ وطعن کا اظہار کیا جو نبی مکرم ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے وہ دِل جنہیں آفتاب نبوت کی کرنوں نے بلاواسطہ منور کیا تھا جو آغوش نبوت کے پروردہ تھے جنہیں آنکھیں اس لیے عزیز تھیں کہ ان میں نبی مکرم ﷺ کا چہرہ جگمگاتا تھا ۔
نازم بچشم خود کہ جمال تودیدہ است
جو متاع حیات کو اس لیے عزیز تر سمجھتے تھے کہ سرور دوعالم پہ نچھاور کر سکیں اسی لیے تو زخموں سے چور عمارہ بن زباد کی آخری سانسوں میں بھی یہ آرزو تھی کہ ان کی نگاہوں میں مصطفیٰ کا چہرہ اور سرآقا علیہ السلام کے قدموں میں ہو وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے وفادار۔ اسی لیے تو نبی مکرمﷺ نے ان کی محبت کو اپنی محبت اور ان کی عداوت ودشمنی کو اپنی دشمنی وعداوت قرار دیا اور ان کو گالی دینا اپنی ذات پر گالی قرار دیا اور نبی کو گالی گویا اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہے یوں قوم کے ناعاقبت اندیشوں نےنبی کریم علیہ السلام کے بعد افضل ترین لوگوں کو مشق ستم بنا کر فرمان رسول کے مطابق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو سب وشتم اورایذاء کا ہدف بنایا۔ نبی مکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو امت کے بہترین افراد قرار دیا اور ارشاد فرمایا :

خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ(صحيح البخاري:3650)

میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔
وہ جو اس فرمان باری تعالیٰ :

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (آل عمران:110)

’’تم ایک بہترین امت ہو‘‘۔ کے اولین مخاطب تھے جنہوں نے تادم واپسیں نبی مکرم ﷺ کا ساتھ دیا اور جنگ خندق کے مشکل ترین حالات میں بھی یہ اعلان کرتے ہوئے دکھائی دیتے

نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا
عَلَى الجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدَا

’’ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر اس وقت تک جہاد کرنے کا عہد کیا ہے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ ‘‘
نبی مکرم ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا :

اللهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الآخِرَهْ
فَأَكْرِمِ الأَنْصَارَ، وَالمُهَاجِرَهْ

’’اے اللہ! زندگی تو پس آخرت ہی کی زندگی ہے پس انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما ‘‘ (صحيح البخاري:4090)
اور رب العالمین نے ارشاد فرمایا :

لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِيِّ وَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌۙ۰۰۱۱۷

اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔ (التوبۃ:117)
پھر اہل بیعت رضوان کے لیے اپنی رضاوخوشنودی کا اعلان فرمایا :

لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًاۙ

یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے آپ  سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔(الفتح:18)
اللہ پاک نے ان مہاجرین وانصار کے اعلیٰ ایمان کی گواہی ان الفاظ میں اپنے نبی کریم ﷺ پر اتاری ۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠

۰۰۲۰
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔ (التوبة:20)

اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کی عملی تصویر تھے۔

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
ان سب میں افضل بالاتفاق عشرہ مبشرہ تھے اور ان میں سے خلفاء اربعہ تھے اور پھر جماعت صحابہ کے سرخیل سیدنا ابو بکر

صدیق رضی اللہ عنہ تھے کیونکہ نبوت کے بعد درجہ صدیقیت کا ہے :
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ

۰۰۶۹ ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِيْمًاؒ۰۰۷۰

اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کافی ہے اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے۔ (النساء)
جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي (صحيح البخاري:3656)

اگر میں اپنی امت کے کسی فرد کو اپنا جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے دینی بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔
سیدناعثمان ذوالنورین،عمرفاروق اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہم سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اس قدر محبت تھی کہ نہ صرف انہوں نے اپنے بیٹوں کے بلکہ پوتوں کے نام بھی ان مبارک ہستیوں کے ناموں پہ رکھے ۔ اعلام الوریٰ میں طبرسی نے لکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں کا نام ابوبکر،عمراور عثمان تھاچار پوتوں حسن وحسین کریمین کے دودو بیٹوں کا نام ابو بکر وعمر تھا۔(جلاء العیون)
شیر خدا نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا نکاح خلیفۂ ثانی ملقب بزبان رسالت

« لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ

« سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  سے کیا ، شیخین سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا تذکرہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں موجود ہے جو نہج البلاغہ میں مذکور ہے ۔ غرض ان کا آپس میں محبت واحترام کا گہرا تعلق تھا پھر یہ طعن وتبرأ کس نے شروع کیا اس سے متعلق نوبختی نے لکھا کہ عبد اللہ بن سبأ نے سیدنا ابو بکر وعمر وعثمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پہ تبرأ شروع کیا اور اس نے کہا کہ مجھے سیدنا علی نے یہ حکم دیا جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ کر پوچھا تو اس نے اقرار کیا تو آپ نے اس کے قتل کا فیصلہ صادر فرمایا ۔ یہ ہے شیرخدا کا فیصلہ مگر لوگوں نے احتاج کیا کہ یہ تو اہل بیت کی محبت اور ولایت کی طرف بلاتاہے تو آپ نے اسے مدائن کی طرف نکال دیا۔(فرق الشیعہ للنوبختی)
اب جو صحابہ کرام پر زبان طعن دراز کرتاہے وہ سباعی سیاست کا شکار اور عبد اللہ بن سبأ یہودی کا پیروکار ہے پھر اسی سے متعلق نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ , لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا(الشريعة للآجري:1994)

’’جس نے میرے ساتھی کو برا بھلا کہا پس اس پر اللہ کی ،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس سے اللہ تعالیٰ فرض نماز قبول کرتا ہے نہ نفل۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین نے صحابہ سے محبت کو ایمان کی علامت بتایا ہے ۔ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

حبهم دين وإيمان وإحسان، وبغضهم كفر ونفاق وطغيان(العقيدة الطحاوية)

’’ان سے محبت دین ، ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض نفاق اور سرکشی ہے‘‘۔
ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کو دیکھیں کہ وہ کسی بھی صحابی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ زندیق ہے کیونکہ رسول حق ہیں اور قرآن حق ہے اور قرآن وحدیث ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پہچایا۔
جامعین قرآن سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہماہیں جو ان کو نہیں مانتا وہ قرآن پاک کوکیسے مانے گا؟ امام باقر جوشیعہ کے پانچویں امام ہیں ان سے شیخین سیدنا ابو بکر صدیق اورعمر فاروق رضی اللہ عنہما سے متعلق پوچھاگیا تو انہوں نے فرمایا :

اللهُمَّ إِنِّي أتولى أَبَا بكر وَعمر وأحبهما اللهُمَّ إِن كَانَ فِي نَفسِي غير هَذَا فَلَا نالتني شَفَاعَة مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَوْم الْقِيَامَة (الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة)

’’اے اللہ! میں ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما )سے پیار ومحبت رکھتا ہوں اوراگر میر ےدل میں اس کے علاوہ کچھ ہو تو مجھے روزِ قیامت محمد ﷺ کی شفاعت نصیب نہ ہو۔‘‘
یہ بات طے شدہ ہے کہ اصحاب محمد سے محبت ایمان کی علامت اور ان کی حرمت کا دفاع ہر مومن پہ لازم ہے ان پر سب وشتم کرنے والے اللہ رب العالمین اور محمد علیہ السلام نبی الامین کے مجرم ہیں وہ پوری امت اسلامیہ کے مجرم ہیں وہ ملکی وحدت اور امن کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں ملک خداداد جو پہلے ہی اندرونی اوربیرونی خطرات سے دوچار ہے مذہبی منافرت کے ذریعے اسے خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں ۔ارباب اختیار کی خاموشی ان کی بے ادبی اورگستاخی کی روش کو مہمیز دے رہی ہے ان نفوس قدسیہ کی عزت وحرمت کے لیے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے اور پنجاب اسمبلی کی طرزپہ صوبائی اسمبلیوں اورقومی اسمبلی میں قانون پاس ہونا چاہیے تاکہ ملک انارکی سے محفوظ ہو اورشرپسند عناصر کی بیخ کنی ہو ، سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ رسول مکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَرُدَّ عَنْهُ نَارَ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسند أحمد:27536)

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس سے قیامت کے دن جہنم کی آگ کو دور کرے۔
ایک عام مسلمان کی عزت کا یہ عالم ہے تو نبی مکرم ﷺ کے ساتھیوں کا دفاع کرنے کا اجر کیونکر زیادہ نہ ہوگا ان کی برائی کرنے والے اپنی آخرت بگاڑ رہے ہیں اور ان نفوس قدسیہ کے لیے توخیر ہی کاسامان ہورہا ہے ۔جامع الاصول میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا قول نقل ہے کہ آپ نے فرمایا : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی وفات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے ، مگر رب العالمین نے ان کا اجر وثواب جاری رکھا ہوا ہے ، سب وشتم کرنے والے غیبت کرنے والے ، ان کے ثواب میں اضافے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں ۔تمام دینی جماعتوں بھرپور مظاہروں اورجلسوں کے ذریعے حکومت تک اپنے جذبات پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔اصحاب رسول ﷺ کے دفاع وحرمت پہ مجلہ اسوۂ حسنہ کا خصوصی شمارہ انہی کاوشوں کی ایک کڑی ہے۔
یہ سطور لکھی جارہی ہیں ایک المناک اوردلخراش واقعہ رونما ہوگیا اور وہ ہے فرانس کا سرکاری سرپرستی میں سرورکونین کی توہین کاارتکاب فرانسیسی صدر میکرون نے سیاسی مفاد کی خاطر اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے رحمت کائنات کے خاکے بنوائے تاکہ لادین طبقہ میں اسے پزیرائی ملے اورووٹ بینک بڑھ سکے۔اسلام فوبیامیں جہاں اس نے انسانی اقدار کا لباس تارتار کیا وہاں وہ اپنے ہی ہیرونپولین یوناپارٹ کی یہ بات بھول گیا
سب سے بہترین مذہب ، محمد ﷺ بن عبد اللہ کا مذہب ہے ۔
وہ یہ بھی بھول گیا کہ رومن کنگ ہرکولیس جیسے لوگوں نے بھی تمنا کی کہ اگر وہ آپ ﷺ کے زمانے میں ہوتے تو آپ کے قدموں میں بیٹھ کر آپ کے پاؤں دھوتے ، ہٹلر جیسا شخص بھی نبی مکرم ﷺ کا احترام کرنے پہ مجبور نظر آتا ہے یہ آپ کے مکارم اخلاق تھے کہ آپ سے متعلق جس نے بھی ذرا سا انصاف سے کام لیا وہ آپ کی عظمت کا معترف نظر آیا۔
وہ برنارڈشاہ ہو یاٹالسٹائی ہو یا مہماتماگاندھی ہمیں ان کی شہادت کی ضرورت نہیں کہ جس کی عظمت کی گواہی حجروشجر تک نے دی جسے مالک ارض وسماء اورخالق کون ومکان نے ) إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ(’’بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے‘‘کہہ کر پکارا ہو اس چمکتے ہوئے چاند کی روشنی پہ ظلمت کدوں کے پروردہ جتنا چاہیں بھونکیں روشنی کم نہیں ہوسکتی إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ’’ یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بےنام و نشان ہے‘‘یہ کیسی آزادی مذاہب ہے اس نے جہاں اپنے ملک کے 60 لاکھ مسلمانوں کی آزادی پر حملہ کیا ہے وہاں یورپ میں بسنے والے ڈھائی کروڑ مسلمانوں سمیت پوری دنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ان کے دلوں کو زخمایا ہے اس سے نہ صرف یورپ کا مکروہ چہرہ سامنے آیاہے بلکہ جمہوریت اور حریت ادیان کے دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی ہے ، کبھی ہالینڈ ، کبھی ڈنمارک اور اب فرانس آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔جلاؤ گھیراؤ کی سیاست اپنانے کی بجائے ہمیں آپ کی محبت میں آپ کی اطاعت اختیار كریں ۔ہمیں چاہیے کہ ہم آپ کی محبت میں نبی مکرمﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں آپ کی سیرت کو عام کریں ، غثاء السیل کی ذلت بھری زندگی سے نکلنے کی کوشش کریں ورنہ امام دار الہجرہ مالک رحمہ اللہ تو فرما گئے ہیں کہ اس امت کے جینے کا کیا حق رہ جاتاہے جہاں ان کے نبی کی توہین ہو ۔ ہمیں ارھاب ودہشت گردی سے بچ کر جہاں جہاں ہماری پہنچ ہے عصمت رسول ﷺ کے لیے آواز بلند کرنی ہے ، منبرومحراب ،مدرسہ وکالج اوریونی ورسٹی میں صحافت وذرائع ابلاغ میں حکومتی ایوانوں میں جوجہاں آواز اٹھا سکتاہے ۔تحریر وتقریر اور ہر تدبیر کے ساتھ آواز اٹھائےاور یہ ذہن میں رکھیں کہ رب کریم نے اپنے حبیب کو مخاطب فرماکر اعلان کیا ہے :

اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَۙ

۰۰۹۵
’’آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔‘‘(الحجر:95)
کافر یہ چاہتاہے کہ مسلمان کامحبت وشیفتگی ،جانثاری وفریفتگی کا جذبہ جو وہ اپنے نبی مکرم ﷺ سے متعلق رکھتا ہے اسے ختم کر دے اس سلسلہ میں علامہ اقبال کی نظم کا ذکر بے محل نہ ہوگا ، عنوان ہے :
ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام
لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زناریوں کو دیر و کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سےڈرتا نہیں ذرا
روح محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اللہ پاک رحم فرمائے کوئٹہ میں دھماکہ اور اب قرآن پاک سیکھنے والے معصوم طلبہ کے مدرسہ میں پشاور میں دھماکہ ورثاء ان بے گناہوں کا خون کس کے ہاتھوں پہ تلاش کریں۔ اس المناک قومی سانحے پر بھی اسی قومی وحدت واتفاق کی ضرورت ہے جو اے پی ایس کے موقع پر نظرآئی کیونکہ دونوں حادثوں کے زمان ومکان کی نوعیت میں کوئی خاص فرق نہیں ۔آثار کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے ۔خدارا! اقتدار کی کشاکش سے نکل کر حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور یہ ساری ذمہ داری ارباب اختیار اوراصحاب اقتدار کے کاندھوں پر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے