الحمد للہ رب العالمین والعاقبة للمتقین ولا عدوان إلا علی الظالمین والصلاة والسلام علی أشرف الأنبیاء وسید المرسلین وعلی آله وصحبه وأھل طاعته أجمعین

امت محمدیہ علی صاحبہا ألف ألف تحیۃ کے خصائص ومزایا میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے وسطیت اور اعتدال پر قائم رکھا ہے

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ

’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘(البقرۃ: 143)
وسطیت واعتدال کا یہ پہلو تمام امور میں موجودہے،خواہ ان کا تعلق عقیدہ سے ہو یا احکام سے، مثال کے طور پر انبیاء کرام علیہم السلام کے تعلق سے یہودیوں کے منہج میں جفا پائی جاتی ہے ، قرآن حکیم نے بتلایا ہے کہ یہود نے بہت سے انبیاء کی تکذیب کی اور بہت سوں کو قتل تک کردیا، اس کے برعکس نصاری کے منہج میں انبیاء علیہم السلام سے محبت کا پہلو تو ہے مگر انتہائی غلو کے ساتھ ، جیسا کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے ایسا اظہارِ محبت کیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اِلہ مقرر کر لیا۔
اہل اسلام کے منہج میں وسطیت ہے جو یہود کے افراط اورانصاری کی تفریط کے مابین ہے ، چنانچہ مسلمان انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور کسی غلو کے بغیر ان سے محبت بھی کرتے ہیں۔
احکام کے اندر اسلام کی وسطیت کی مثال یہ ہے کہ یہود اپنی عورتوں کو ایامِ حیض کے دوران اپنے سے جدا کر دیتے تھے اور ان کا کھانا پینابھی الگ تھلگ کر دیتے تھے جبکہ عیسائیوں کے اندر اس حوالے سے اس قدر کوتاہی پائی جاتی تھی کہ وہ دورانِ حیض اپنی بیویوں سے جماع بھی درست قرار دیتے تھے۔ اس معاملے میں ہم مسلمانوں کا منہج وسطیت پر قائم ہے ہمارے اندر نہ تو وہ افراط ہے جس میں یہود مبتلا تھے اور نہ ہی وہ تفریط جونصاریٰ کے اندر پائی جاتی تھی۔
جس طرح دینِ اسلام میں دیگر تمام ادیان کے مقابلے میں منہج اعتدال پایا جاتاہے ، اسی طرح اسلام کے اندر جو بہت سی جماعتیں ہیں ، ان میں سے جماعتِ حقہ وطائفہ منصورہ اہل السنۃ والجماعۃ  وہ جماعت ہے جس کے منہج میں بقیہ جماعتوں کے مقابلے میں وسطيت واعتدال موجود ہے ۔
مثلاً : اسماء وصفات کے باب میں اہل السنہ کا عقیدہ جہمیہ کے افراط اورمشبہ کی تفریط کے مابین ہے ، یعنی :
جہمیہ نے تشبیہ کے محذور سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء وصفات کا انکار کر دیا، اسی بناء پر انہیں نفاۃ اورمعطلہ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے۔
جبکہ مشبہ نے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کو اس طرح مان لیا کہ ہر صفت میں خالق کومخلوق کے مشابہ قرار دے دیا۔
اس باب میں اہل السنۃ کا عقیدہ اعتدال پر قائم ہے ، چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جو کہ کتاب وسنت میں مذکور ہیں پر ایمان رکھتے ہیں ، کسی تشبیہ یا تمثیل کے بغیر اہل السنۃ کا اثبات بلاتشبیہ اور تنزیہ بلاتعطیل ہے اور اس تمام عقیدہ کی اساس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۰۰۱۱ (الشوری : 11)

’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔‘‘
اسی طرح افعال عباد کے تعلق سے اہل السنۃ کا منہج اعتدال پر قائم ہے، اس باب میں دوفرقے الحاط کا شکار بنے۔
ایک جبریہ : جو بندوں کو مجبور محض مانتے ہیں اور ہدایت وگمراہی کے تعلق سے ان کے ہر اختیار کی نفی کرتے ہیں۔
دوسرے قدریہ : جو اللہ تعالیٰ کے علم سابق کی نفی کرتے ہوئے تقدیر کا انکار کرتے ہیں۔
اہل السنۃ کا منہج ان دونوں کے بین بین ہے ، وہ ہدایت یا گمراہی کے اختیار کے تعلق سے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخیر قرار دیتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع اور نوشتہ تقدیر کے مطابق چلنے والا قرار دیتے ہیں۔ ان کے اس عقیدے کی اساس اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ۔

لِمَنْ شَآءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَقِيْمَؕ۰۰۲۸ وَ مَا تَشَآءُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَؒ۰۰۲۹  (التکویر:28۔29)

’’(یعنی) اس کیلئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے، اور تم کچھ نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ رب العالمین چاہے۔‘‘
پہلی آیت بندے کے اختیار پر دال ہے جبکہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ذکر ہے جس کا ہر بندہ تابع ہے اور جس کا ہر فیصلہ  تقدیر میں مکتوب ہے۔
اسی طرح اہل السنۃ والجماعۃ وعدہ اور وعید کے باب میں مرجئہ اورخوارج ومعتزلہ کے عقائد میں پائی جانے والی افراط وتفریط سے یکسر بیزار ہیں اور ان کا منہج اس باب میں بھی وسطیت واعتدال پر قائم ہے۔
آلِ رسول واصحابِ رسول ﷺ سے محبت کے تعلق سے اہل السنۃ والجماعۃ کا منہجِ اعتدال
اس باب میں بھی بہت سے فرقے الحاد وضلالت کا شکار ہوئے، ایک طرف وہ نواصب یا خوارج ہیں جن کے دل رسول اللہ ﷺ کی آل کے تعلق سے بغض وعداوت سے بھرے ہوئے ہیں ، دوسری طرف وہ روافض ہیں جو اہل بیت سے محبت تو کرتے ہیں لیکن ان کی یہ محبت بہت سے غلو پر قائم ہے وہ غلو جو ہر دور میں الحاد کے پودوں کی آبیاری کرتارہا، جس سے کتاب وسنت نے بار بار روکا ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَاتَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ (النساء : 171)

’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ؛ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ

’’غلو سے بچو! بیشک تم سے پہلے قوموں کو دین میں غلو نے ہلاک کیا۔‘‘(مسند احمد:3248)
روافض اورنواصب کی اس روش میں یہودونصاریٰ سے تشبہ کا پہلو موجود ہے ، یہودی اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے ، مگر نصاریٰ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان تو کجا، ان کے خلاف عداوت نصب کئے بیٹھے تھے ، یہی روش نصاریٰ کی تھی جو اپنے نبی عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے تھے ، مگر یہود کے نبی موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلاتے تھے۔
جبکہ اہل اسلام اپنے نبی محمد رسول اللہ ﷺ پر بھی ایمان رکھتے ہیں ، یہودیوں کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتے ہیں اورنصاریٰ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور یہ ہمارے منہج وسطیت واعتدال کی انتہائی روشن اورقوی دلیل ہے۔
اہل السنۃ کا منہج اس حوالہ سے بھی انتہائی سدید ہے ، چنانچہ نواصب کے دلوں میں اہل بیت رسول ﷺ کے خلاف عداوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جبکہ روافض کے دلوں میں اہل بیت سے محبت تو موجودہے مگر اصحاب رسول ﷺ کے تعلق سے انتہائی عداوت ونفرت کا پہلو پایا جاتاہے جس کا اظہار وہ طرح طرح کے سب وشتم سے کرتے ہیں۔
الحمد للہ اہل السنۃ والجماعہ کے منہج میں اہل بیت رسول ﷺ سے بھی محبت کا عقیدہ موجود ہے اور تمام اصحاب رسول ﷺ سے محبت کا بھی واضح منہج موجود ہے اور یہ محبت ہر قسم کے غلو سے پاک ہے بالکل ویسی ہی محبت جیسی اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے چاہی۔
اہل البیت سے مراد: عندالجمہور وہ لوگ ہیں جنہیں زکوٰۃ دینا حرام ہے۔
ایک قول کے مطابق یہ بنوہاشم ہیں ، دوسرے قول کے مطابق یہ بنوہاشم اور بنو عبد المطلب ہیں۔
دوسرا قول زیادہ راجح ہے کیونکہ صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے بنوہاشم اور بنوعبد المطلب کو ایک ہی قرار دیا ہے۔
ازواج مطہرات (امہات المؤمنین) بھی اہل البیت میں شامل ہیں ، ان کی شمولیت باعتبار نسب یا قرابت نہیں بلکہ باعتبارِ زوجیت ہے اور ان کے لیے رسول اللہ کی ازواج ہونا ایک بہت بڑا شرف ہے کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ سے شادی کے بندھن سے منسلک ہوکر دنیا وآخرت میں رسول اللہ ﷺ کی بیویاں ہونے کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ ویسے بھی لفظ اہل یا آل کے کتاب وسنت میں جو بہت سے استعمالات ہیں ان میں سے ایک استعمال بیوی کے لیے بھی ہے ۔
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّيْۤ اٰنَسْتُ نَارًا (النمل:7)
یہاں اھل سے مراد موسیٰ علیہ السلام کی بیوی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے بارے میں فرمایا :

قَالُوْۤا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ اِنَّهٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۰۰۷۳ (ھود:73)

ہم اہل السنۃ والجماعۃ تمام اہل البیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی کیونکہ اہل البیت سے محبت بھی شرعی نصوص سے ثابت ہے اورصحابہ کرام سے محبت بھی کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
چونکہ یہ تفصیل کا مقام نہیں لہٰذا ہم اہل البیت سے محبت کی فرضیت کے لیے ایک حدیث کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں :

قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: « أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ « فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي(صحیح مسلم:2408)

رسول اللہ ﷺ ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں۔
یہ حدیث اہل بیت کی تکریم کے تعلق سے زبردست وصیت اور ان کی محبت ،توقیر وتعظیم اورحقوق کی ادائیگی کی تاکید پر مشتمل ہے۔
اہل البیت کی تکریم وتعظیم اورتفضیل وتجلیل پر اجتماعی اورانفرادی بہت سے نصوص موجود ہیں جن سے اہل السنہ کی کتب بھری پڑی ہیں یہ ان کے استیعاب کا محل نہیں ہے۔
اصحاب رسول ﷺ کی تکریم وتوقیر اور ان سے وجوبِ محبت :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ» (صحیح البخاری:3673)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ میں سے کسی کو اپنی گالی کا نشانہ مت بناؤ، تم لوگ اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردو تو ان کے ایک پاؤ کے نفقہ کے اجر کو بھی نہیں پاسکتے۔‘‘
یہی حدیث صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے جس میں آپ ﷺ نے دوبار فرمایا کہ میرے صحابہ کو گالی مت دو، پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم لوگ اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردو تو ان کے ایک پاؤ کے نفقہ کے اجر کو بھی نہیں پاسکتے۔
متعدد طرق سے یہ روایت ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے سب سے بہترین زمانہ اپنا اور صحابہ کرام کا زمانہ قرار دیا ہے ۔
ان تمام نصوص کا تقاضا یہی ہے کہ ہم آلِ رسول ﷺ سے بھی محبت کریں اور اصحابِ رسول سے بھی۔قرون اولیٰ میں محبت کے یہ تمام مظاہر موجود تھے ، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اہل بیت اور اصحابِ رسول کے مابین کئی نسلوں تک رشتہ داریاں قائم ہوتی رہیں، باہمی محبت واعتماد اور دین داری کے اثبات کے لیے اس سے بڑا کیا ثبوت ہوسکتاہے۔
ان رشتوں اورقرابتوں کے اثبات کے بعد صحابہ کرام کی شان میں گستاخی یا تبرأ کا کوئی جواز باقی بچتا ہے؟ اسی حوالے سے اہل السنہ اور اہل تشیع کی کتب سے انہی قرابتوں اوررشتہ داریوں کا ذکر کیاجاتاہے اور ان لوگوں کو اپنی روش پر نظر ثانی کی دعوت دی جاتی ہے ، جن کے دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بغض سے لبریز ہوچکے ہیں۔ وباللہ التوفیق
بہت سے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار کے مابین قائم قرابتوں اوررشتہ داریوں سے ناواقف ہیں ، ہم ذیل میں ان بعض قرابتوں کا ذکر کرتے ہیں ، شاید کہ وہ لوگ جن کے دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بغض سے لبریز ہیں اور اہل بیت سے محبت کے دعویدار ہیں اپنی روش پر نظر ثانی پر مجبور ہوسکیں، کیونکہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی یہ رشتہ داریاں جن کا تعلق مصاہرت(شادی بیاہ کا تعلق) سے ہے ، ان کی صحابہ کرام سے محبت کی واضح دلیل قرار پائیں گی، اور یہ بات معلوم ہے کہ ہم جس سے بھی محبت کا دعویٰ کریں ، اس کی صداقت اور کاملیت تب ہی ثابت ہوگی جب ان سے بھی محبت کریں جن سے اسے محبت ہو ۔
اہل بیت الاطہار اور آل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کے مابین قائم ہونے والی رشتہ داریاں
خلیفۂ اول وراشد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اہل بیت سے جس قدر محبت تھی اس کا اندازہ ان کے اس قول سے لگالیاجائے، آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي (صحیح البخاری، کتاب المناقب : 3712)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! رسول اللہ ﷺ کی قرابت داریوں کو جوڑنا مجھے اپنے رشتوں کے جوڑے سے زیادہ پسند اورمحبوب ہے۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :

ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ (صحیح البخاری ، کتاب المناقب : 3713)

’’محمد ﷺ کی مبارک صورت دیکھنی ہوتو آپ ﷺ کے اہل بیت کو دیکھ لیا کرو۔‘‘
ایک دن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے ہاتھوں سےاُٹھا لیا اورانہیں پیار کرتے ہوئے یہ جملہ کہتے رہے :
وَا بِأَبِي شَبَهُ النَّبِيِّ لَيْسَ شَبِيهًا بِعَلِيِّ (مسند احمد : 39)
’’یہ تو نبی کریم ﷺ کے ہم شکل ہیں، اپنے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سن کر مسکراتے رہے ۔‘‘
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اہل بیت اطہار سے قوی تعلق وقرابت ، امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے اس قول سے عیاں ہے :

وَلَدَنِي أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيْقُ مَرَّتَيْنِ

’’مجھے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوبار پیدا کیا ہے۔‘‘ (سير أعلام النبلاء6/255)
ان کے اس قول کا سبب یہ ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا والد کی طرف سے نسب یوں ہے : جعفر الصادق بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ، اور والدہ کی طرف سے ان کے نسب کی تفصیل یہ ہے کہ ان کی والدہ ام فروہ، قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں جبکہ ام فروہ کی والدہ اسماء بنت عبد الرحمن بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ، تو گویا امام جعفر صادق کی والدہ ام فروہ کا نسب والد کی طرف سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے اوروالدہ کی طرف سے بھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے اسی لیے امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے یہ بات کہی کہ ’’مجھے ابو بکر نے دوبار پیدا کیا ہے۔‘‘
امام جعفر صادق کے اس قول کے اسلوب پر غور کیجیے ، کس قدر فخر اور تحدیثِ نعمت کا انداز نمایاں ہورہا ہے ، اور ظاہر ہے کہ ایک صالح اورمتقی انسان ہر اس تعلق داری پر اظہار مسرت اوراظہار فخر کرتارہے گا جو اسے صالحین اورمتقین اسلاف کی لڑی سے منسلک کردے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو ان کے ہمیشہ ہمیشہ کے صدقِ مقام کی وجہ سے صادق کے لقب سے ملقب کیاگیا اور وہ اپنے جس دادا(سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ) سے اپنے دہرے تعلق کا فخریہ انداز سے اظہار فرمایا کرتے تھے ، وہ دربارِ نبوت سے ’’صدیق‘‘ جیسے عظیم لقب سے ملقب ہوئے اور یہ لقب انہیں ان کی صداقت ،امانت اور ہر مرحلہ پر رسول کریم ﷺ کے ہر ہر فرمان کی تصدیق پر حاصل ہوا۔
اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو ’’عمود الشرف‘‘ کا لقب بھی حاصل ہے ، جس کا معنی یہ ہے کہ انہیں باعتبار نسب انتہائی قوی قسم کا شرف عطا ہوا ہے، چنانچہ اپنے والد کی طرف سے ہاشمی ٹھہرے اور اپنی والدہ کی طرف سے ان کا تعلق آل صدیق سے قائم ہوا۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اورسیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مابین انتہائی قوی رشتے قائم تھے :
x سب سے زیادہ وثیق،قوی اورمبارک رشتہ یہ قائم ہوا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ صدیقہ طاہرہ مطہرہ رضی اللہ عنہا سے سید الاولین والآخرین جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا ، اور انہیں بنصِ قرآنی ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا ، نبی کریم ﷺ کے عقد میں یہ واحد باکرہ خاتون تھیں ان سے نکاح سے قبل متعدد بار آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ جبریل امین سیدہ عائشہ صدیقہ کو ایک ریشمی غلاف میں لپیٹ کر لائے اور ان کا چہرہ دکھا کر فرمایا :

هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ (الترمذي:3880)

’’یہ دنیا میں اور آخرت کے دن آپ ﷺ کی بیو ی ہیں۔‘‘
جب ایک بار سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ ’’ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے ؟ تو فرمایا : عائشہ سے ، پوچھا: مردوں میں سے کس سے ہے ؟ فرمایا : عائشہ کے والد سے‘‘۔ (صحیح البخاری : 3662)
xسیدنا جعفر بن ابی طالب الطیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بھابھی) کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے نکاح میں لے لیا تھا اور ان سے ان کا بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوا۔
xسیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد انہی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نکاح کر لیا، اسماء کے ساتھ ان کا بیٹا محمد بن ابی بکر بھی تھا، جسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ربیب ہونے کا شرف حاصل ہوا، گویا سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ ساتھ ان کی بھی پرورش ہوئی ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
هو ابني من ظهر أبي بكر  (شرح نهج البلاغة)
’’یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پشت سے ہے لیکن میرا بیٹا ہے ۔‘‘سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ان سے محبت اورحسنِ اعتماد کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انہوں نے انہیں مصر کی گورنری تفویض فرمائی تھی۔
xتاریخ کی شہادت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب فارس فتح ہوا تو فارس کے حکمران یزدجربن شہریان کی دوبیٹیوں کو گرفتار کرکے دارالخلافہ مدینہ منورہ پہنچادیاگیا، یہ دونوں خواتین راستے میں اسلام قبول کر چکی تھیں ، جس وقت یہ دونوں امیر المؤمنین کے پاس پہنچیں، اس وقت بہت سے صحابہ آپ کے اردگرد تشریف فرما تھے ، امیر المؤمنین نے اس موقع پر اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :
بنات كرام من أصول كرام لا يستحقهن إلا الكرام
’’یہ معزز بیٹیاں ، معزز نسب سے تعلق رکھتی ہیں ، انتہائی معزز لوگ ہی ان کے حقدار ہوسکتے ہیں۔‘‘ یہ بات امیر المؤمنین نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمائی تھی،پھر ان دونوں خواتین کو ان کے حوالے کر دیا،(گویا امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل کو انتہائی معزز شمار کرتے تھے) سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک خاتون کو اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا جبکہ دوسری اپنے ربیب یعنی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد کے حوالے ، پھر ان دونوں خواتین سے ان کا باقاعدہ نکاح کر دیاگیا (گویا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل وعیال کو انتہائی معزز قرار دیتے تھے جبھی تو ان میں سے ایک خاتون محمد بن ابی بکر کے حوالے کر دی تھی) جو خاتون سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئی ، اس سے امام زین العابدین رحمہ اللہ پیدا ہوئے جبکہ محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کے عقد میں آنے والی خاتون کے بطن سے قاسم بن محمد رحمہ اللہ نے جنم لیا یوں یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہوئے۔
c آگے چل کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد کا ، محمد بن ابی بکر کی پوتی ام فروہ سے نکاح ہوا جن سے امام جعفر صادق رحمہ اللہ پیدا ہوئے ، یہاں پہنچ کر ایک انتہائی ٹھوس اورناقابل انکار تاریخی شہادت ہمارے سامنے واضح ہوتی ہے اور وہ یہ کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی والدہ ام فروہ کے والد کی طرف سے دادا محمد بن ابی بکر ہیں اورماں کی طرف سے ان کے دادا عبد الرحمن بن ابی بکر ہیں اور محمد اورعبد الرحمن دونوں سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے سگے بھائی تھے اس طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا خونی رشتہ ثابت ہوا۔
اس خونی رشتہ سے بڑھ کر ایک اور رشتہ ثابت ہوتا ہے اور وہ تعلم علم جیسا عظیم اورمقدس رشتہ ہے چنانچہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اپنے علم کا بہت سا حصہ جناب عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے حاصل کیا تھا اور عروہ بن زبیر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ملازم شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں یوں امام جعفر صادق کا ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انتہائی قوی اور وثیق تعلق ثابت ہوا (رضی اللہ عنہم اجمعین )
ہم ملخصاً اُن قرابتوں اور رشتوں کا ذکر کئے دیتے ہیں جو آل بیت النبی ﷺ اور آل ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مابین قائم ہوئے:
محمد بن عبد اللہ ، رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔
حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبد الرحمن کی بیٹی حفصہ سے نکاح کیا۔
اسحاق بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے قاسم بن محمد رحمہ اللہ کی بیٹی ام حکیم سے نکاح کیا۔
محمد الباقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے قاسم بن محمد کی بیٹی ام فروہ سے نکاح کیا۔
موسیٰ الجون بن عبد اللہ المحض بن الحسن المثنیٰ بن الحسن السبط بن امیر المؤمنین علی بن ابی طالب نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے عبد اللہ بن عبد الرحمن کی پڑپوتی ام سلمہ بنت محمد بن طلحہ بن عبد اللہ سے نکاح کیا۔
اسحٰق بن عبد اللہ بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب نے کلثوم بنت اسماعیل بن عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق سے نکاح کیا۔
آل بیت کے آل ِ صدیق سے ان چھ رشتوں میں ایک بات انتہائی قابلِ غور ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تمام رشتوں میں خاوند،آل بیت سے ہوا اور بیوی آلِ صدیق سے اورعموماً شادی کا پیغام لڑکے کی طرف سے جاتاہے چنانچہ شوہر اپنے نکاح کے لیے نیک بیوی کا انتخاب کرکے پیغام نکاح بھیجتاہے تو گویا مذکورہ چھ قرابتوں میں آل بیت کی طرف سے آل ابی بکر میں سے رشتے طلب کئے گئے ، یہ طلب اس بات کی دلیل ہے کہ آل بیت الاطہار، کس قدر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان سے محبت کرتے تھے ، نیز ان کے قوی دین اور تقویٰ کے معترف تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دین دار خاتون سے نکاح کی ترغیب دی ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: « تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (صحیح البخاری:5090)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ عورت سے چار امور کی وجہ سے نکاح کیا جاتاہے : اس کے مال کی وجہ سے اس کے حسب ونسب کی وجہ سے ، اس کے حسن وجمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے تم دین دار عورت کو ترجیح دو۔‘‘
اسی طرح عورت کے اولیاء الامور کو ہدایت ہے کہ جب ان کی بیٹی کا کوئی دین دار رشتہ آجائے تو وہ انکار نہ کریں۔

إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (الجامع الترمذی:1084)

’’جب تمہاری بیٹی کا ایسا رشتہ آجائے جس کا دین اور اخلاق پسندیدہ ہو تو اسے قبول کر لو ورنہ فسادِکبیر کا اندیشہ ہے۔‘‘
ان احادیث سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ آل بیت سے مختلف افراد کا ، اپنے نکاح کے لیے آل ابی بکر صدیق کی خواتین کا انتخاب،اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان کے دین اور تقویٰ کے معترف تھے اور آل ابی بکر صدیق کا ان تمام رشتوں کو قبول کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ بھی آل بیت کے دین،تقویٰ اور حسنِ خلق کے معترف تھے ، ان پاکیزہ رشتوں اورقرابتوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پوری طرح منطبق ہورہاہے :

الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ (النور:26)

’’اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ۔‘‘
ایک امر ملحوظ یہ بھی ہے کہ ان میں سے بیشتر رشتے اُن حوادث کے بعد معرضِ وجود میں آئے جن حوادث کو بعد میں آنے والے لوگوں نے اپنی اھوائے فاسدہ کی بناء پر آپس کے بگاڑ کا سبب قرار دے ڈالا، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب وشتم اورطعنہ زنی کے دروازے کھول ڈالے، مثلاً : قضیہ فدک، جنگ جمل، جنگ صفین اور واقعہ کربلا۔ واللہ المستعان
افسوس! صحابہ کرام اور بالخصوص شیخین کریمین پر طعنہ زنی کے یہ دروازے آج تک کھلے پڑے ہیں ، ذرا سا توقف اورتأمل ہی کر لیا جائے کہ آلِ علی بن ابی طالب کی آل ابی بکر صدیق سے یہ تمام رشتہ داریاں کس میزان میں رکھی جائیں گی۔
اہل بیت الاطہار اور آل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہم کے مابین قائم ہونے والی رشتہ داریاں
امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جن کے محاسن ومحامد لاتعداد ہیں جنہیں دربارِ نبوت سے ’’الفاروق‘‘ کے لقب سے نوازا گیا ، جن کے اسلام نے حق وباطل میں فرق وامتیاز کی ایک انمٹ لکیر کھینچ دی،جن کا اسلام بھی اعلانیہ تھا اور ہجرت بھی، جن کے اسلام قبول کرنے،دین اسلام کی عزت ووقار اورشان وحشمت کو چارچاند لگادیئے ، جنہوں نے تقریباً آدھی  دنیا پر اسلام کا پرچم لہرادیا،سلطنت فارس وروم میں کسریٰ اور قیصر کی کمر توڑدی، جن کا دورِ خلافت اس کرۂ ارضی سے کفر وضلال اورطاغوت ووثنیت کے مٹنے اور توحید وسنت کے قائم ہونے نیز نظام عدل کے استوار ہونےکا ذریعہ ثابت ہوا، جو رسول کریم ﷺ کے انتہائی محبوبین ومقربین میں شمار ہواکرتے تھے جو زبانِ نبوت سے متعدد بار جنت کی بشارت جیسے عظیم مقام ومرتبہ کے مستحق قرار پائے۔
پہلا رشتہ : ان تمام زریں کارناموں اورروشن بشارتوں کے ساتھ ساتھ انہیں ایک فضیلت ومنقبت یہ حاصل ہوئی کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے صدق واخلاق اورنصرتِ دین کو ملاحظہ فرمایا تو ان سے ان کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نکاح کیلئے طلب فرمایا ، اور یہ اس وقت ہوا جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر جنگ بدر میں شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئے، گویا سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کتنی بابرکت خاتون ہیں کہ ان کا پہلا شوہر جب شہیدِ معرکہ بدر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر انہیں اکرم الخلائق،سیدِ ولد آدم محمد رسول اللہ ﷺ کی زوجیت کے شرف سے مشرف فرمادیا یہ وہ پہلا رشتہ ہے جو بیت نبوت اور آل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مابین قائم ہوا۔
دوسرا رشتہ : دوسرا رشتہ جو آل بیت الاطہار اورسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے مابین قائم ہوا وہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح تھا ، یہ رشتہ خود امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے طلب فرمایا تھا، جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس رشتہ سے موافقت فرمالی تو امیر عمر رضی اللہ عنہ انتہائی خوش ہوکر صحابہ کرام کے پاس آئے اورفرمایا ’’تم مجھے مبارک باد کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے پوچھا: امیر المؤمنین! کس بات کی؟ فرمایا : علی اور فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم سے نکاح کی ، مزید فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہوئی ہے :

كُلُّ نَسَبٍ وَسَبَبٍ يَنْقَطِعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ سَبَبِي وَنَسَبِي(فضائل الصحابة:1069)

’’قیامت کے دن ہر نسب وقرابت ٹوٹ جائے گی ، سوائے میرے نسب اورقرابت کے‘‘ چنانچہ اس رشتہ کے ذریعے میرے اور رسول اللہ ﷺ کے مابین رشتہ قائم ہوچکا ہے۔ اس بابرکت نکاح سے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹے زید بن عمر پیدا ہوئے اور جناب زید بن عمر انتہائی فخریہ انداز سے یہ فرمایا کرتے تھے :

أَنَا ابْنُ الخَلِيفَتَيْنِ (سير أعلام النبلاء3/502)

’’میں دو خلیفوں کا بیٹاہوں‘‘۔ ان کا اشارہ دو خلفاء راشدین رضی اللہ عنہما کی طرف ہے ایک سیدنا عمر اوردوسرے سیدنا علی رضی اللہ عنہما۔
یہ زید بن عمر اور ان کی والدہ ام کلثوم بنت علی ایک ہی حادثہ میں بوقت فجر رتبہ شہادت سے مشرف ہوئے۔ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا بعض اوقات فرمایا فرماتی تھیں :
ما لي ولصلاة الغداة؟ (تاريخ دمشق)
’’فجر کی نماز کے ساتھ میر ےکچھ رنج والم سے بھری یادیں وابستہ ہیں۔‘‘ ان کا اشارہ دوواقعات کی طرف ہے :
1 ان کے شوہر امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت
2 ان کے والد امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت
تیسرا رشتہ : آل بیت الاطہار اور آل عمر بن خطاب کے مابین قائم ہونے والی تیسری مصاہرت اس طرح قائم ہوئی کہ سیدنا حسین بن علی بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کا نکاح سیدہ جویریہ بنت خالد بن ابی بکر بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب سے عمل میں آیا گویا سیدنا حسین بن علی کے پوتے کے پوتے کا نکاح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پوتے کی پوتی سے منعقد ہوا ،

صدق اللہ تعالیٰ :
الطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَ الطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ (النور:26)

’’اورپاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ۔‘‘
اہل بیت الاطہار اور آل سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے مابین قائم ہونے والی رشتہ داریاں
امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جو خلفاء راشدین میں سے تیسرے خلیفۂ راشد ہیں،جن کا شمار سابقین اولین صحابہ کرام میں ہوتاہے ،جو ان دس صحابہ کی فہرست میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں جنت کی بشارت دی گئی ، جنہیں تاریخ منبعِ جود وسخا جیسے عظیم وصف سے جانتی اور پہچانتی ہے جوایسے پیکر شرم وحیاء تھے کہ جن کی حیاء کافرشتے بھی احترام کرتے تھے،جنہوں نے بئر رومہ نامی کنواں اپنی جیب خاص سے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا،جیش عسرہ کی تجہیز میں سب سے نمایاں تعاون آپ ہی کا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت مدینہ سے قبل ہجرت حبشہ کی توفیق عظیم مرحمت فرمائی ، اس لیے آپ کو تاریخ ’’صاحب الہجرتین‘‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے ، آپ ہی کی وجہ سے بیعت رضوان منعقد ہوئی ، جس کی برکت سے تمام بیعت کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رضاکا اعلان فرمادیا نیز ان کے قلوب میں مستقر ان کے ایمان کی صداقت کی گواہی دے دی اورربطورِ صلہ فتح قریب یعنی خیبر ان کی جھولی میں ڈال دیا جس کے بعد مسلمانوں کا فقر ختم ہوا اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوا۔ ایک ایسی سعادت ان کے حصہ میں آئی کہ ہمارے ناقص علم کے مطابق اولین وآخرین میں سے کسی کو وہ سعادت نصیب نہیں ہوئی اور وہ یہ کہ سید الاولین والآخرین جناب محمد ﷺ کے یکے بعد دوبیٹیاں آپ رضی اللہ عنہ کے حبالۂ نکاح میں آئیں کسی نبی کے کسی امتی کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوسکی۔ اسی لیے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کے عظیم لقب سے ملقب کیاگیا جبکہ اپنی دوسری صاحبزادی کے انتقال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر میری اور بیٹی ہوتی تو وہ بھی عثمان کے نکاح میں دے دیتا۔‘‘
اس ناطے سے امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ،سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہم زلف ٹھہرے اورتاریخ شاہد ہے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہم زلف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہا کی شادی میں مکمل تعاون فرمایا تھا جس کا رسول اللہ ﷺ کو جب علم ہوا تو آپ ﷺ نے بہت ساری دعائیں دی تھیں۔سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خاندانِ نبوت سے یہ پہلا تعلق نہیں ہے بلکہ وہ باعتبارِ نسب اپنے والد اوروالدہ دونوں کے توسط سے رسول اللہ ﷺ کے مبارک نسب سے ملتے ہیں۔
باپ کی طرف سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نسب یوں ہے : عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف… گویا عثمان غنی کا نسب رسول اللہ ﷺ کے دادا عبدمناف سے جاملتاہے۔
والدہ کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے کہ آپ کی والدہ بیضاء ، عبد المطلب کی سگی بیٹی ہیں گویا سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی والدہ بیضاء اور رسول اللہ ﷺ کے والد عبد اللہ آپس میں سگے بہن بھائی ہیں بلکہ بیضاء عبد اللہ کی جڑواں بہن ہیں یعنی دونوں نے ایک ہی پیٹ میں پرورش پائی اور اکٹھے دنیا میں جنم لیا۔
پہلا رشتہ : پہلے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح رسول اللہ ﷺ کی بیٹی سیدہ رقیہ  رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہواجو دونوں ہجرتوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھیں،ہجرت مدینہ کے کچھ عرصہ بعد بیمار ہوگئیں ، جن کی تیمارداری کا شرف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا حتی کہ غزوۂ بدر کے دوران بھی نبی کریم ﷺ کے حکم سے ان کی تیمارداری میں مشغول رہے۔
دوسرا رشتہ : ان کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی بہن سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے  دی جو ان کے ساتھ ساتھ رہیں اور 9 ہجری میں انتقال فرماگئیں اس طرح سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کی دوبیٹیوں کا شوہر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
معاملہ یہیں موقوف نہیں ہوتابلکہ آل رسول ﷺ اور آل عثمان (بنو امیہ) کے مابین متعدد رشتہ داریاں قائم ہوئیں ، جس کا سلسلہ پانچ نسلوں تک پھیلا ہوا ہے چنانچہ بنوامیہ یعنی آل عثمان کی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے خاندان میں دو اورسیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان میں تین شادیاں ہوئیں جو ان کی آپس کی محبت،حسن اعتماد اور ایمان ،تقویٰ اورخلق حسن کے اعتراف کا انتہائی واضح اور بین ثبوت ہے ، یہ رشتہ داریاں ملخصاً حسب ذیل ہیں :
cعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابان بن عثمان کا نکاح عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب کی بیٹی ام کلثوم سے ہوا۔
cسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے زید بن عمرو بن عثمان کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی پوتی اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی سکینہ سے ہوا۔
cسیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک اور پوتے محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان کا نکاح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی دوسری بیٹی فاطمہ سے ہوا۔
cسیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پوتے مروان بن ابان کا نکاح سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی پوتی ام القاسم بنت حسن المثنیٰ سے ہوا۔
cحسن المثنیٰ کے پوتے ابراہیم بن عبد اللہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پوتے عبد اللہ بن عمرو کی پوتی رقیہ بنت محمد سے نکاح کیا۔
cسیدنا زین العابدین بن حسین رحمہ اللہ کے پوتے اسحاق بن عبد اللہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پوتے عاصم کی پوتی عائشہ بنت عمر سے نکاح کیا۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا تعلق بنو امیہ سے تھا، بنو امیہ کے دیگر بہت سے افراد کی ، خاندان ِ نبوت سے رشتہ داریاں قائم ہوئی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے