نام ونسب : سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہاشمی قرشی مدنی شہید رضی اللہ عنہ
کنیت : ابو محمد
تاریخ پیدائش : آپ نصف رمضان 3 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ (الطبقات : 226)
جائے پیدائش : مدینہ منورہ
عمر : 48 سال ، ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ سب سے صحیح بات یہی ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت نصف شعبان 3 ہجری میں ہوئی۔(الاستیعاب1/384)
ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے ۔(الاصابۃ 2/68)
ڈاکٹر خالد الغیث کہتے ہیں کہ اس طرح سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی عمر وفات کے وقت 48 سال ہوگئی اور آپ کی وفات 51 ہجری میں ہوئی ۔ واللہ اعلم (مرویات خلافۃ معاویۃ ،ص:402)
اور آپ رضی اللہ عنہ کو بقیع الغرقد قبرستان میں آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہا کے جوار میں دفنایا گیا ۔ (الدوحۃ النبویۃ الشریفۃ ، ص:98)
نام ونسب : سیدنا حسین بن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہاشمی قرشی مدنی شہید رضی اللہ عنہ
کنیت : ابو عبد اللہ
تاریخ پیدائش : آپ مدینہ منورہ میں 5 شعبان 4 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ ( المعجم الکبیر : 2852)
نبی کریم  ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی عمر ایک ماہ کم سات برس تھی کیونکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو پیدا ہوئے (صحیح ابن حبان : 909)
شہادت : سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو میدان کربلا (عراق) میں 10 محرم الحرام 61 ہجری کو نہایت بے دردی سے شہید کر دیاگیا۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَقُتِلَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ سَنَةَ إِحْدَى وَسِتِّينَ بِكَرْبَلَاءَ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ

’’ دس محرم سن اکسٹھ ہجری میں ملک عراق کی سرزمین کربلا پر آپ کو شہید کیاگیا۔ ‘‘ (فتح الباری 7/121)
حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کا نام سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حرب رکھا تھا کیونکہ قبل از اسلام جنگ وجدل اور خونریزی پر دلالت کرنے والے ناموں کو پسند کیا جاتاتھا نبی کریم ﷺ نے آپ کا نام حسن رکھا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام بھی حرب رکھا۔ نبی کریم ﷺ تشریف لائے فرمایا : مجھے میرے بچے کو دکھاؤ، نام کیا رکھاگیا؟ میں نے کہا ’’حرب‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔(مسند احمد 1/98 ، صحیح ابن حبان 10/410)
نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے بہترین معانی والے ناموں کا انتخاب فرمایا۔ یہاں ایک بہترین اصول کا پتہ چلتاہے کہ بچوں کے اچھے اورخوبصورت نام رکھنے چاہئیں۔ علماء کرام نےعامۃ الناس کی راہنمائی کے لیے مشروع ناموں کے درجات بھی ذکر کیئے ہیں ، عبد اللہ ،عبد الرحمن جیسا نام رکھنا مستحب ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے :

إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَى اللهِ عَبْدُ اللهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ (صحیح مسلم:2132)

’’ اللہ کے نزدیک محبوب ترین نام عبد اللہ وعبد الرحمن ہیں۔‘‘
دراصل یہ دونوں نام عبودیت کے وصف پر دلالت کرتے ہیں ، رسل اور انبیاء کے ناموں پر نام رکھنا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور صالحین رحمہم اللہ کے ناموں پر نام رکھنا نیز ایسے نام رکھے جائیں جو انسان کے اوصاف حمیدہ اور حقانیت پر دلالت کریں ۔شروط وآداب کو ملحوظ رکھا جائے جونام لغت اورشریعت کی رو سے لفظاً ومعنیً اچھا نہ ہو اختیار نہ کیا جائے کیونکہ اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہوتے ہیں۔
معروف قول بھی ہے کہ والد پر لڑے کا حق ہے کہ وہ اس کے لیے بہترین ماں کا انتخاب کرے ، اس کا اچھا سانام رکھے ، اس کو اچھا ادب سکھائے۔
سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما :
فرمان نبوی ﷺ ہے ’’ جس نے حسن وحسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی اس نےمجھ سے محبت کی اور جس نے اِن سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔‘‘
نبوی خاندان اور عہد رسالت میں پروان چڑھنے والے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما جنہوں نے اپنے نانا نبی کریم ﷺ ،والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور والدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زیرنگرانی پرورش پائی ۔ رسول اللہ ﷺ اوروالدین سے علم وحکمت کے گوہر سمیٹے ،بلاشبہ اس تربیت نے ان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔
نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں زندگی گزارنے والے صحابہ کرام جنہیں رب کائنات ’یأیھاالذین آمنوا’ کہہ کر مخاطب فرماتا اور یہ اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین رحمت کائنات کے ہاتھوں فیض پاکر خیر امت کی پہلی جماعت قرار پائی اور یہ ان خوش نصیبوںکی جماعت ہے کہ جنہوں نے وحی اور صاحب وحی کا مشاہدہ کیا اور آپﷺ کی صحبت حاصل کی ، تو یہ معاشرہ اک بے مثل معاشرہ تھا اسی معاشرے میں حسنین رضی اللہ عنہما پلے اور بڑھے ،تعلیم اورتربیت لی آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی ۔
سیدنا حسنین رضی اللہ عنہما نے جس دور اورماحول میں زندگی گزاری وہ ایک بہترین معاشرہ تھا بلکہ ایسا معاشرہ جس کی مثال نہیں ملتی اس منفرد معاشرے پر زھد اور نیکی کا غلبہ تھا سبھی طلب علم میں مصروف اور عمل بالکتاب والسنہ کے خواہاں تھے۔ دراصل شخصیت کی تعمیر میں معاشرے کے ماحول کا بڑا اہم کردار ہوتاہے۔
فضائل ومناقب تو بے شمار ہیں سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ دونوں اپنے نانا محمد کریم ﷺ کے محبوب تھے ۔ حسنین کا بچپن اور نبی کریم ﷺ کی بے پناہ توجہ ،شفقت اورتعلیم وتربیت نے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا کردیا۔ ایک مرتبہ آ پ ﷺ نے فرمایا : لوگ چاندی اور سونے کے معدن جیسے  ہیں ان میں جو جاہلیت میں اچھے رہے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں ۔ (صحیح البخاری : 3383)
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خاندان نبوت میں پروان چڑھے اور آپ کلمہ ’سید‘ سردار کے مستحق ٹھہرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا وہ فرماتے ہیں :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ (صحیح البخاری : 2704)

میں نے نبی کریم ﷺ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے پھر ان کی طرف ، آپ فرما رہے تھے : میرا یہ بیٹاسردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے مابین مصالحت کرائے گا۔‘‘
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی مصالحت کا عمل نبوت کی نشانیوں میں سے ہے اور اسلامی تاریخ کا عظیم واقعہ ہے ۔
ڈاکٹر خالد الغیث حفظہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مسلمانوں کوخونریزی سے بچانے اور سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت کرنے میں حسن رضی اللہ عنہ کی حیثیت جمع قرآن میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی سی اور حروب ردہ میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سی ہے۔ ( مرویات خلافہ معاویہ فی تاریخ الطبری ، ص:134)
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ان تمام لوگوں نے بیعت کی جنہوں نے آپ کے والد محترم سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت کی تھی ، بیعت کے بعد آپ نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور احسن انداز میں سنبھالا۔حاکموں، گورنروں کو تعینات کیا،فوج کو منظم کیا اورمجاہدین کے عطیات میں اضافہ کیا ، آپ نے سیاسی،اخلاقی اور دینی حیثیت سے ایک منفرد انداز میں عوام کے دلوں کو جیت لیا آپ چاہتے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بہت بڑا محاذکھول سکتے تھے جو کہ ایک خونریز جنگ کے بعد ہی ختم ہوتاکیونکہ آپ کے ہمنوا قیس بن سعد اورحاتم طائی جیسے جرنل جوکہ جنگی امور میں اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک تھے۔
آپ کی فوجی طاقت بھی مضبوط تھی اور اس کی تائید سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ فرماتے ہیں :

إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لاَ تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا(صحيح البخاري:2704)

’’بلاشبہ میں ایسی فوجوں کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے دشمنوں کو قتل کیئے بغیر واپس ہونے والی نہیں ہیں۔‘‘
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں :

قَدْ كَانَ جَمَاجِمُ الْعَرَبِ فِي يَدِي يُحَارِبُونَ مَنْ حَارَبْتُ، وَيُسَالِمُونَ مَنْ سَالَمْتُ (المستدرک للحاکم 3/170)

’’عرب سردار میری مٹھی میں تھے جس سے جنگ کرتا ان سے جنگ کرتے میں جن سے صلح کرتا ان سے صلح کرتے۔‘‘
ان سب کے باوجو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے صلح ومصالحت کو ترجیح دی تاکہ امت مسلمہ متحد رہے اور خونریزی سے بچاجائے تمام تر معاملے کی نگرانی آپ خود فرماتے رہے جہاں تک کہ تمام رکاوٹیں ختم ہوگئیں اور جملہ شرائط قلمبند ہوگئیں نیز اس عمل کے نتائج رونما ہونے شروع ہوگئے ، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ سب کیوں کیا کیونکہ آپ امن پسند تھے ، اختلاف وانتشار اور فتنہ کو ناپسند کرتے تھے ۔رب العالمین نے آپ کے ذریعے امت کا اختلاف ختم کروادیا ، مسلمان خونریزی سے بچ گئے اور ایک طویل اختلاف کے بعد ایک حاکم پر متفق ہوگئے ۔ کتب حدیث وتاریخ کے علاوہ ادب کی کتابوں میں بھی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین مصالحت کے عمل کا چرچا موجود ہے۔
احترام حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کیوں ؟
سیدنا حسن ،سیدناحسین اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کے پاکیزہ جذبات اورمخلصانہ ولولے ایک سچے مومن کی زندگی کا بہت قیمتی اثاثہ ہیں دراصل یہ محبت وعقیدت اس مقدس ومطہر وجود سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخاطب کرکے ان کی طہارت اورپاکیزگی کا اعلان ان  الفاظ فرمایا:

اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًاۚ

۰۰۳۳
’’اے اہل بیت اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ تم سے ہر طرح کی میل کچیل دورکردے اور تم کو ایسا پاک وصاف کردے جیسا پاک وصاف ہونے کا حق ہے۔‘‘(الاحزاب:33)
اللہ اکبر! ان کی عزت وعظمت کا تو یہ عالم ہے اللہ جل شانہ نے ان پر صلوۃ وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے  ، فرمان باری تعالیٰ ہے :

اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا

۰۰۵۶
’’بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی بر درود بھیجتے ہیں ، مسلمانوں تم بھی ان پر درود وسلام بھیجتے رہو۔‘‘(الاحزاب:56)
آپ ﷺ سے دریافت کیاگیا  :

أَمَرَنَا اللهُ تَعَالَى أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟

’’یا رسول اللہ (ﷺ)! اللہ تعالیٰ نے آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر کیسے درود بھیجا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا : یوں کہو :

اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (صحیح مسلم :405)

یہ محبت ومؤدت کس درجہ کی مطلوب ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں :

قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى

آپ کہہ دیجیے کہ میں تم لوگوں سے تبلیغ رسالت پر اقرباء کی محبت کے سوا کچھ اجر نہیں مانگتا ۔ ‘‘(الشوری : 23)
’’إلا‘‘ حرف استثناء ہے یہاں مستثنیٰ منقطع ہے یعنی ’’الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى‘‘ جومستثنیٰ ہے یہ مستثنیٰ منہ میں داخل نہیں تو آیت کا مفہوم یہ ہواکہ میں تم سے کوئی اجر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ مگر … یہ اجر طلب کرتاہوں کہ تم آپس میں پیار اور محبت کرو۔
سورۃ الفرقان کی آیت مبارکہ میں بھی یہی مفہوم بیان کیاگیا ہے :

قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا

۰۰۵۷
’’آپ فرمادیجیے کہ میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا میرا اجر یہی ہے کہ تم میں سے جو اپنے پروردگار کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے(یعنی اس طریقے اور منہج کو اختیار کرے جو میں لے کر آیا ہوں)۔(الفرقان:57)
نبی کریم ﷺ کے اقرباء خاندان بنو ہاشم خصوصاً اہل بیت کی محبت ، ان کا ادب واحترام جزء ایمان ہے ۔ جس دل میں حب اہل بیت نہیں وہ سمجھ لے کہ اس کی شمع ایمان بجھی ہوئی ہے اور وہ منافقت کے اندھیروں میں نعوذ باللہ بھٹک رہا ہے۔ اور جان لیجیے جتنی قرابت نبی کریم ﷺ سے زیادہ ہوگی ادب واحترام اورمحبت بھی اسی قدر زیادہ مطلوب ہوگی۔
اہل بیت کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :

أَلَا إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ (فضائل الصحابة:1402والمستدرك للحاكم:4720)

دیکھو! میر ےاہل بیت کی مثال تم میں کشتی نوح علیہ السلام کی طرح ہے ، جو اس میں سوار ہوا وہ بچ گیا اور جو دور رہا ہلاک ہوگیا ۔
خطبہ حجۃ الوداع میں کتاب اللہ کے ساتھ آپ ﷺ نے اہل بیت کا بھی ذکر کیا فرمایا :

إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي (المستدرك :4711)

’’میں تم میں دوبزرگ چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسرے اہل بیت ۔‘‘
سنن ترمذی میں روایت ہے :

 أَحِبُّونِي بِحُبِّ اللهِ وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي (سنن الترمذي:3789 وضعفه الألباني)

’’اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔‘‘
اور سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبوبیت کا تو یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا :

هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ، اللهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا (سنن الترمذي:3769 حسن)

’’یہ میرے بیٹے اورمیری بیٹی کے بیٹے ہیں یا اللہ میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان کو اپنا محبوب بنا اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی تو محبت کر۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ کا فرمان ہے

: هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا(صحيح البخاري:3753)

’’وہ دونوں( حسن وحسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘
قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ میں اہل بیت کا ذکر:
فرمانِ الٰہی ہے

: اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًاۚ۰۰۳۳(الاحزاب:33)

’’بیشک اللہ تو یہی چاہتاہے کہ تم سے گندی دور کر دے اے گھر والو!اور تمہیں خوب  پاک کردے پاک کرنا۔‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

نَزَلَتْ فِي نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً (تفسير ابن كثير)

’’یہ آیت (تطہیر) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘
اہل تفسیر کا کہنا ہے کہ آیت  کے آغاز میں اشارہ فخردو عالم محبوب رب العالمین ﷺ کی ازواج مطہرات کی طرف ہے، پہلے فرمایا : اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی آرائش وآسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں مال ومتاع دے دوں اور پھر تمہیں رخصت کردوں ….. خوبصورتی کے ساتھ‘‘۔ تو قربان جائیں امہات المؤمنین اورازواج مطہرات پر جنہوں نے دنیوی لذتوں کو ٹھکرا دیا ۔فقروفاقہ،غربت اور درویشی کو قبول کیا مگر سید الاولین والآخرین کی کنیز بننے کی سعادت کو نہ چھوڑا، اپنے تمام تر مطالبات ترک کر دے اللہ اور رسول کریم ﷺ اور دار آخرت کو پسند فرمایا اور بشارت کی مستحق ٹھہریں ۔فرمان الٰہی ہے :

فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا

۰۰۲۹
’’تو بیشک جو نیکوکار ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘(الأحزاب:29)
مگر صد افسوس! ان کم فہموں اوربدبختوں پر جو اللہ تعالیٰ کا وعدہ پڑھ کر بھی ازواج مطہرات کی شان میں گستاخی اور ہرزہ سرائی سے باز نہیں آتے۔
اور اللہ رب العزت نے فرمانبرداری کا صلہ دگنے اجر اور عزت والی روزی میں رکھا اور پھر رب تعالیٰ کا یا نساء النبی کہہ کر مخاطب کرنا اور فرمانا کہ تم دوسری عورتوں کی مانند نہیں ہو اور پھر ہدایات،پند وموعظت اورخصوصی احکام آخرکیوں؟
کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اہل بیت تمہارا دامن ہر داغ سے منزہ ہو کیونکہ نصف اولاد آدم کی ہدایت کا تعلق تمہاری ذات سے ہے ، آیت مبارکہ کا سیاق وسباق اس امر پہ دلالت کرتاہے کہ اس جملہ ’’ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ ‘‘ میں بھی وہی مخاطب ہیں جن سے پہلے اور بعد میں خطاب ہورہا ہے اور وہ اہل بیت ’’ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن‘‘ ہیں۔
سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک گائے بھیجی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ گائے واپس کردی اور فرمایا :’’ہم آل محمد صدقہ کا مال نہیں کھاتے‘‘۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : 36528)
ایک مرتبہ سیدنا حصین رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ ﷺ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت میں سے ہیں ؟ تو سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا :

نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ (صحيح مسلم:2408)

’’آپ کی ازواج مطہرات اہل بیت میں سے ہیں ، لیکن آپ کے اہل بیت وہ بھی ہیں جن پر آپ کے بعد زکاۃ حرام ہے ، انہوں نے پوچھا وہ کون کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا وہ آل علی ، آل عقیل،آل جعفراور آل عباس ہیں۔‘‘
دامادِ رسول ﷺ اور ان کی اولاد (حسنین کریمین رضی اللہ عنہما) کا اہل بیت سے ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے سیدنا علی،فاطمہ،حسن وحسین رضی اللہ عنہم کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا :

اَللَّهُمَّ هَؤلَاءِ أَهْلِيْ

’’اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘
دلائل میں تطبیق کی صورت میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ فرمارہے ہیں کہ ’’اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ یا  یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کو بھی ازواج مطہرات کی طرح میرے اہل بیت میں شامل فرما۔(آمین یا رب العالمین)
سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما خلیفۂ راشد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں :
خلیفۂ راشد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنہما کا بڑا اونچا مقام ومرتبہ تھا ایک بار عصر کی نماز کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گزر رہے تھے کہ سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو انہیں اپنی گردن پر اٹھا لیا اور کہا

بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ، لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ» وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ

’’میرے باپ تم پر قربان ہو تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بجائے نبی کریم ﷺ کے مشابہ ہو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرا رہے تھے۔(صحیح بخاری 3750)
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پر پروردگار کی خاص عنایت وبرکت تھی کہ آپ اپنے نانا ﷺ سے بہت زیادہ مشابہ تھے ۔ آپ نہایت خوبرو،خوبصورت،سرخی مائل گورے رنگ کے تھے ، آنکھیں کالی ،رخسار نرم اورداڑھی گھنی تھی، گردن جیسے چاندی کی صراحی،وسیع وعریض کندھے درمیانہ قد،بہت ہی خوبصورت گھنگریالے بال اور اچھے بدن والے تھے۔(سیر اعلام النبلاء 3/49 ۔ اخبار الدول ، ص:105 سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ شخصیت اورکارنامے ، ص :299)

امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ رَأْسَهِ إِلَى عُنُقِهِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى الْحَسَنِ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا لَدُنْ عُنُقِهِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى الْحُسَيْنِ، اقْتَسَمَاهُ(المعجم الکبیر للطبرانی : 2769)

جو سر سے لیکر گردن تک نبی کریم ﷺ کے چہرہ کو دیکھنا چاہے وہ حسن کو دیکھ لے اور جو گردن سے لیکر پاؤں تک نبی کریم ﷺ کو دیکھنا چاہے وہ حسین کو دیکھ لے یہ دونوں نبی کریم ﷺ کے مشابہ ہیں۔‘‘
سنت نبوی ﷺ کے مظہر خلیفۂ راشد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا اے حسین ! تم مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو ، اس لی ےکہ تم میرے نبی کریمﷺ کے نواسے اورمیرے دوست سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے اورفاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہا کے لخت جگر ہو ۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ دربارِ خلافت میں جاتے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اٹھ کر انہیں سینے لگاتے اور بوسہ دیتے ، گو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ چھوٹے تھے مگر انہوں نے صحبت صدیق رضی اللہ عنہ اور شفقت ومحبت کے ذریعے اپنی صلاحیتوں میں خوب نکھار پیدا کیا۔
عہد نبوی ﷺ میں بچے بھی  بیعت کرتے تھے سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی معیت میں رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی خلیفۂ رسول ﷺ جناب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سنبھالی تو بڑوں سمیت بچوں اور عورتوں نے بھی آپ کی بیعت کی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے خود جاکر خلیفۂ اول کی بیعت کی۔ یہ اس محبت وشفقت کا نتیجہ تھا جو انہیں دربار صدیق میں لے گیا اور  وہ خلیفۂ وقت کی بیعت کی اہمیت بھی سمجھتے تھے ۔ (کنز التواریخ)
سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما خلیفۂ راشد امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں :
امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاں اہل بیت کی بڑی قدر ومنزلت تھی انہیں اپنے اہل خانہ اور بیٹوں پر ترجیح دیتے تھے۔ محبت کا اظہار ایک بار یوں ہوا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا پیارے بیٹے! آپ ہمارے پاس ملاقات کے لیے کیوں نہیں آتے ؟ چنانچہ ایک دن سیدناحسین رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے اس واقعہ کے راوی وہ خود ہیں ، فرماتے ہیں : میں وہاں گیا توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ علیحدگی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بعض اہم امور پر مشورہ کرنے میں مصروف تھے اور ان کا بیٹا عبد اللہ اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہاں کھڑا تھا،دل میں خیال آیاکہ اگر بیٹے کو ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی تو مجھے کہاں ملے گی یہ سوچ کر میں واپس آگیا کچھ وقت گزرا توسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ، پوچھا بیٹے! آپ آتے نہیں، عرض کی: میں حاضر ہوا تھا مگر آپ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصروف تھے ،میں نے دیکھا کہ آپ کا بیٹا سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ دروازے پر منتظر تھا۔اسے اجازت نہیں ملی تو میں بھی پلٹ آیا ، یہ سن کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا : آپ میری ملاقات کے میرے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ مستحق ہیں ،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتے ہوئے ، فرمایا ہمارے سر پر جو عزت کا تاج ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کے بعد خاندان نبوت کی برکت کی وجہ سے ہے۔ (ڈاکٹر علی الصلابی ، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ شخصیت اورکارنامے ، ص:429)
قارئین کرام! آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ امیر المؤمنین کے دل میں اہل بیت کے لیے کتنی محبت اور عقیدت تھی،اور ہم بھی ان سے محبت کرتے ہیں ۔الحمد للہ اہل سنت والجماعت ان کے جملہ حقوق جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیئے ہیں تحفظ کرتے چلے آرہے ہیں اس وصیت کے مطابق جو آپ ﷺ نے غدیر خم کے دن ارشاد فرمائی تھی۔

أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي (صحيح مسلم:2408)

’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے حقوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈراتاہوں۔‘‘
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حددرجہ کااحترام ہی تھا کہ جب تاریخ اسلامی کے روشن دور میں ایک وقت ایسا آیا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وظیفہ مقرر کیا تو آپ نے سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے لیے بھی پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا حالانکہ غزوۂ بدر کے موقع پر وہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں :
دور عثمانی میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ عمر کے اس حصے میں تھے کہ حالات سے آگاہی رکھ سکیں ، رونما ہونے والے واقعات سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے قریب رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیاست سے سبق سیکھیں۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دامادِ رسول ﷺ آپ کے سوا کوئی نہیں جس کے عقد میں نبی کی دوبیٹیاں آتی ہوں اسی لیے آپ کو ذوالنورین کے لقب سے نوازا گیا ہے آپ کا تعلق حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے ایسا تھا کہ فساد کے وقت خاص طور پر حسن وحسین رضی اللہ عنہما آپ کے دفاع کیلئے پہراداری کررہے تھے۔
صحیح روایتوں میں ہے کہ جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر شہید کیاگیا اس دن اس گھر سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں لے جایاگیا ۔(الطبقات لابن سعد 8/128)
اسی طرح سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے علاوہ ،عبد اللہ بن زبیر،محمد بن حاطب ، مروان بن حکم رضی اللہ عنہم بھی زخمی ہوئے اور ان کے ساتھ سیدنا حسین بن علی اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ (تاریخ خلیفہ ، ص:174)
سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بہترین سیرت اور عمدہ اخلاق کے مالک تھے ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تو اپنی گفتگو کو اپنا عمل سمجھتے تھے اس لیے اکثر خاموش رہتے دراصل حب دل میں خوف الٰہی ہو تو زبان سے کام ہی کی بات نکلتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

لَا يَسْتَقِيم إِيمَان عبد حَتَّى يَسْتَقِيم قلبه وَلَا يَسْتَقِيم قلبه حَتَّى يَسْتَقِيم لِسَانه (سلسلة الأحاديث الصحيحة 2841)

’’کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل درست نہ ہوجائے اور اس کا دل درست نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی زبان نہ درست ہوجائے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ارشاد نبوی ﷺ ہے

:  مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ (صحيح البخاري:6018)

’’جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۔‘‘
نیز آپ ﷺ کا فرمان ہے :  من صَمَتَ نَجَا
’’جو چپ رہا وہ نجات پاگیا۔‘‘(صحيح الجامع :6367)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ایک بے باک دلیر اور حق گو انسان تھے آپ نے کئی بار جہاد میں عملی شرکت فرمائی جیسا کہ دورِ عثمانی میں معرکۂ طبرستان میں شرکت کرنا جس کی امارت سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی اسی طرح آپ کا خلیفۂ مظلوم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قصرِ خلافت کی حفاظت کرنا آپ کی شجاعت اورجرأت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اگر حلم وبردباری کے پیکر تھے تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جرأت وشجاعت میں اپنی مثال آپ تھے۔
حرف آخر :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت وعقیدت کو کہاں تک بیان کیا جائےاور کیا بیان کیا جائے اور کیا چھوڑا جائے چنانچہ قرآن حکیم کی شہادت ہمارے لیے کافی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور آل بیت اطہار باہم شیر وشکر تھے ایک دوسرے کے انصار ومددگار تھے ۔ مگر افسوس صد افسوس ان اعدائے صحابہ کی خود تراشیدہ داستانیں کچھ اور ہی قصہ سناتی ہیں۔
یادرکھیے! زمین وآسمان مل سکتے ہیں ، آگ اور پانی اپنی تاثیر کھو سکتے ہیں ، گردش لیل ونہار رک سکتی ہے ، حرکتِ آفتاب تھم سکتی ہے ، نورِ مہتاب مٹ سکتا ہے مگر اصحاب رسول ﷺ اور آل رسول رضی اللہ عنہم کی الفت ومحبت میں فرق نہیں آسکتا۔
مسلمان کو چاہیے کہ وہ تاریخ کا مطالعہ ہوشیار اور بیدار ہوکر کرے جہاں کہیں اسلاف اکابر کے بلند کردار کے منافی بات ملے بلاتردد اس کا انکار کر دے اور یہ جان لینا چاہیے کہ دشمن صحابہ کا وطیرہ ہے جو آل بیت کے بارے میں دجل وتلبیس،وضع وتدلیس سے کام لیتے ہوئے بظاہر آل بیت سے محبت وتعظیم کا اظہار کرتے ہیں لیکن درپردہ کتاب وسنت کے بیان کردہ عقائد کا انکار کرتے ہیں اور مقدس ہستیوں کو ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل دکھاتے ہیں ۔ نعوذ باللہ من شرھم
نیز تمام اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کا احترام واجب ہے ، چاہے وہ قلیل الصحبت ہو یا کثیر الصحبت اور کسی صحابی کے متعلق زبان درازی کرنا یا ریسرچ کے عنوان پر نکتہ چینی کرنا یا ایسے نام نہاداسکالرز کے افکار پڑھنا،سننا اپنے آپ کو ہلاکت وتباہی کی طرف دعوت دیناہے۔
اسلام نے اسلاف کی یادر اور ان کے محاسن زندہ رکھنے کیلئے عہد جاہلیت کی تمام تررسومات کو مٹا کر اعمال صالحہ کے عملی نمونے پیش کئے اور ان کی بقا کے لیے حکم دیا کہ جب بارگاہ الٰہی میں ’’حی علی الفلاح‘‘ پہ لبیک کہو تو رب تعالیٰ سے صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت مانگو اور اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی وضاحت بھی فرمادی کہ وہ انبیاء،صدیقین، شہداء اور صالحین کی راہ علم وعمل ہے اس لیے ان پاکباز ہستیوں کی پاکیزہ زندگیوں کے لیل ونہار تمہارے سامنےرہنے چاہئیں اور تمہاری عملی زندگی میں اس کا ظہور نظر آنا چاہیے گویا اللہ سبحانہ وتعالیٰ امت محمدیہ کو ایک واضح پیغام دے رہے ہیں کہ صحیح اصول کے مطابق بغیر کسی افراط وتفریط کے جو طریقِ عمل اختیار کرو گے وہی قبول ہوگا ۔ اللھم وفقنا لما تحب وترضی ۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے