صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل السنۃ کے اجمالی عقائد اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کرنے والے کاحکم

کیا آپ جانتے ہیں؟

رسولِ اکرمﷺکےجانثارصحابہ رضی اللہ عنہم پر سبّ وشتم کرنا یعنی انہیں بُرا کہنا، اُن پر تبرّاء کرنا اور اپنی زبانوں کو اُن مقدّس ہستیوں کے خلاف استعمال کرنا یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی ابتداء اُسی دن سے شروع ہوگئی تھی جس دن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اولادِ آدم کے سردار،امام الانبیاء ،محبوبِ کبریاء، افضل البشر،خاتم النبیّین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنا سب کچھ اللہ اور اُس کے دین کی سر بلندی کے وقف کردیا تھا ،اور یہ ایک حقیقت  ہے کہ رسولِ اکرمﷺکی بعثت کے بعدجس دن سے حق و باطل کامعرکہ شروع ہوا اُسی دن سےاسلام کے خلاف جہاں یہود و نصاریٰ اورمشرکین سرگرم ہوئے وہیں اسلام کا لبادہ اوڑھے  کلمہ گو منافقین جواپنے دلوں میں دینِ اسلام کو مٹانے کی خواہش رکھتے ہیں اس مشن میں اُن کےساتھ لگ گئےاوراپنے مقصد کی تکمیل کی خاطرانہوں نے پہلے رسولِ اکرمﷺکی مقدّس شخصیت کو مجروح کرنا چاہالیکن وہ کر نہ سکے کیونکہ اس طرح اُن کا نفاق اور کفر ظاہرہوجاتااوروہ مسلمانوں میں گھل مل نہ سکتے تھےاسی لیے اُنہوں نے رسولِ اکرمﷺکےصحابہ رضی اللہ عنہم کواپناہدفِ تنقید بنایا اور  اُن کے خلاف  منفی پرا پیگنڈہ شروع کیا، کبھی اہلِ بیت کی محبّت کو بنیاد بناکر ،کبھی صحابہ کےباہمی اجتہادی اختلافات کو بنیاد بنا کر اور کبھی کسی اور بات کا بہانہ بناکر، یہ لوگ کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،اور ہرممکن یہ کوشش کرتے کسی بھی طرح صحابہ کرام کی شخصیات کو مسلمانوں کی نگاہ میں  مجروح یا کم از کم مشکوک کردیا جائے ،یہی نہیں بلکہ ظالموں  نے نبی مکرّمﷺ کی عزت و عصمت آپ کی ازواجِ مطہّرات،امّہات المؤمنین رضی اللہ عنہن  کو بھی اپنی اس رذیل حرکت کا نشانہ بنایا،اور ہروہ مادّی وسیلہ اختیارکیا جس کے ذریعہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوسکتے تھے ، انہوں نے ادارے  و مراکزقائم کیے،  ممبرومحراب استعمال کیے ، اپنی مسلکی رسومات ، نجی محفلوں اور دیگر تقاریب کے موقعوں پر لوگوں کی ذہن سازی کرنی شروع کی، قلم و تحریر کے ذریعہ مختلف رسائل و جرائد میں مضامین و مقالات لکھے ،کتابیں و لٹریچر شائع کیے ، اورسب سے بڑھ کر الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا ،انٹرنیٹ کا سہارا لیا،سوشل میڈیا کو اختیار کیا اوراس جنگ میں جہاں انہوں نے ایک طرف مذکورہ وسائل کو بھرپور طور سے استعمال کیا وہاں دوسری طرف  «تقیہ»[2] کو بطورِ ڈھال و دفاع کے اپنایا تاکہ وہ عام مسلمانوں اور دنیا کو دھوکہ دے سکیں، یہ وہ تقیہ ہے کہ جس کے بارے میں اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ ’’دین کے دس حصوں میں سے نو (9) حصے تقیہ پر مشتمل ہیں‘‘ [3] یعنی اُن کی باتوں، نظریات و اعمال اور دین  کا  نوّے فیصد ظاہر، جھوٹ اور دھوکہ پر مشتمل  ہے جسے وہ بطورِ دین و عبادت اور ثواب کے اختیار کرتے ہیں اسی لیے جب بھی کسی بھی طرح اُن کی گرفت کی جاتی ہے یا اُن کی حقیقت کو افشاں کیاجاتا ہے تو وہ تقیہ  اختیار کرتے ہوئے اپنے خبثِ باطن کو چھپاتے ہوئے ظاہری طور پر یا تو سرے سے مکر  ہی جاتے ہیں یا مختلف تاویلات و بہانے تراشنے لگتے ہیں   اوراسطرح انہوں نے مسلمانوں کی لاعلمی وجہالت، اُن کی اپنے اسلاف سے محبّت و حمیّت میں کمی وکوتاہی اور اُن سے عملی دوری، اورآپس کے اختلافات کا بھرپور فائدہ اٹھایا ،اوریہ فتنہ مسلمانوں میں اتنا زور پکڑ گیا کہ آج پوری دنیا میں آئےدن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی کسی نا کسی انداز سے  توہین پرمشتمل واقعات رونما ہورہے ہیں،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرّاء کرنے والوں کےبغض کا یہ عالم ہےکہ صحابہ کی توہین کرنا اُن کے یہاں عبادت کا درجہ رکھتا ہے،اُن کے یہاں یہ رذیل عمل اللہ تعالیٰ کےقرب کےحصول کا بڑا ذریعہ ہے،یہی وجہ ہےکہ ہردورمیں ان لوگوں نےہراُس شخص سےاپنےاس بغض کا اظہارکیا ہےجوصحابہ سےمحبّت رکھتا ہو،اسی بنیاد پر ماضی قریب و بعید میں خون کی ہولی بھی کھیلی جاتی رہیں  اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور جہاں جہاں ان لوگوں کا کسی بھی طرح کا تسلّط قائم ہوتا جارہا ہے وہاں وہاں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، آج عراق ،شام  اور یمن وغیرہ کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور یہی ہولی وہ اب  ہمارے اس وطنِ عزیز میں کھیلنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر قائم ہے اور جہاں رہنے و بسنے والے عمومی مسلمان گرچہ عملی طور پر کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں لیکن رسول اللہ ﷺ اور رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابہ  سے حد درجہ محبّت وعقیدت رکھتے ہیں اور اُن کے خلاف کسی بھی قسم کا منفی پروپیگنڈا و  رویہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
زیرِ نظر مضمون اور ایک اہم سوال
زیرِ نظر مضمون مسئلہ توہینِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر ایک مختصرتحریرہے،یہاں کلّی طورپراس موضوع کااحاطہ کرنا ناممکن ہے،قدماء و معاصرین کی اس موضوع پر انتہائی تفصیلی  و مستقل کتب  تک موجود ہیں،یہاں ہم سنّی عوام کے لیے اور بالخصوص اُن داعیانِ وحدت ِامّت کی نصیحت کے لیے اسے پیش کررہے ہیں جو  شاید یہ سمجھتے ہیں کہ :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزّت کوپیروں تلےروندکروہ مسلم اُمت کےدلوں کو باہمی جوڑ سکتےہیں، لیکن کاش کہ وہ سمجھ پاتےکہ جن کےدل آج تک رسول اللہ ﷺ کی عزّت ومحبّت  ازواجِ مطہّرات  اور اہلِ ایمان کی ماؤںg  اور رسول اللہﷺ کے جانثار صحابہ رضی اللہ عنہم پرمتحدنہیں ہوسکے  وہ کیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبّت کرنے والوں کے ساتھ متّحد ہوسکتے ہیں؟
اور جو آج تک رسولِ اکرمﷺکی ازواجِ مطہّرات ،اہلِ ایمان کی مائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کےلیےاپنےدلوں میں جگہ نہیں بنا سکےوہ کیسےاُن کےپیروکار مسلمانوں  کےلیےاپنےدلوں میں جگہ بناسکتے ہیں؟؟؟
اس مختصرتحریرمیں ہم نےپہلےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  و اہلِ بیت عظام رضی اللہ عنہم کاتعارف ذکر کیا ہےپھر اُن کی فضیلت ،مقام ومرتبہ اوراُن کےخلاف کسی بھی قسم کی بدزبانی وبےادبی کی ممانعت اور تحریم پر ایک مختصر سی روشنی ڈالی ہے اوراصحابِ محمدﷺکےحق ودفاع میں اللہ تعالیٰ، اُس کےرسولﷺ،ائمہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  اور اُمّت کے انتہائی معتبر و معروف اہلِ علم aکے واضح فرامین  اور فتاویٰ تحریر کیے ہیں اور  اہل السنہ ہی کی نہیں بلکہ اہلِ تشیع کی بعض کتب کے حوالہ بھی پیش کیے ہیں ،اور اس میں ہم نے بہت طوالت سے کام نہیں لیا بلکہ بطورِ مثال چند ایک روایات اور اقوال پیش کرنےپرہی اکتفاکیا ہےجس سے بات سمجھناممکن  اور کافی ہے، کیونکہ موضوع پرمشتمل تمام روایات اور اہلِ علم کے تمام اقوال کو جمع کرنا نہ ہی ہمارا مقصد ہے اور نہ ہی یہ مختصر مضمون اسکی اجازت دیتا ہے،مضمون کے آخرمیں صحابہ کرام پر سبّ و شتم کے حکم کے حوالہ سےاہلِ علم کی انتہائی مفصل بحث کا خلاصہ بھی پیش کیا ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

صحابی کی تعریف!
لغوی اعتبار سے:

الصَّحَابَة: یہ صَاحب کی جمع ہے ، جوکہ « فَعَالَة » کے وزن پر ہے.
اورعربی لغت میں صرف اسی باب میں  « فَاعِل»کی جمع « فَعَالَة «کے وزن پر آتی ہے یعنی صَاحِب کی جمع صَحَابَة.[5]
اورمعنی کے اعتبار سے یہ « کسی کی صحبت اختیارکرنے اور ساتھ رہنے کےمعنی میں  آتا ہے» جس میں  وقت اور مدّت  وغیرہ کی کوئی شرط اور قید نہیں۔
شرعی اعتبار سے:
ہرزمانے کے جمہور اہل علم کے نزدیک صحابی ہر اس شخص کو کہتے ہیں:
جس نے ایمان کی حالت میں ، رسولِ اکرمﷺسے ملاقات کی ہو ، یا آپﷺکو دیکھا ہو ،  اور اسی حالت ِایمان میں فوت ہوا ہو[6]۔
نوٹ: اگر کسی نے حالت ِ ایمان میں رسولِ اکرمﷺ سے ملاقات کی  پھر  «وہ مرتد ہوگیا » لیکن پھر دوبارہ اسلام لے آیا اور حالت ِ اسلام میں فوت ہوا تو وہ بھی اہل علم کے صحیح قول کے مطابق  «صحابی» ہی کہلائیگا۔
اسی طرح اہل علم کے راجح قول کے مطابق صحابی کی تعریف میں :لمبی مدّت تک ساتھ رہنے یا غزوہ میں شریک ہونے یا روایت کرنےکی شروط لازمی نہیں  ہیں[7]۔
اسطرح صحابی کی مذکورہ تعریف کے مطابق ہر اس شخص کا شمار صحابی میں ہوگا:
«  جس نے ایمان کی حالت میں ، رسولِ اکرمﷺسے ملاقات کی ہو ، یا آپﷺکو دیکھا ہو ،  اور اسی حالت ِایمان میں فوت ہوا ہو،اگرچہ وہ لمبی مدّت تک رسولِ اکرمﷺکے ساتھ نہ رہا ہو اور نہ  ہی آپﷺکے ساتھ کسی غزوہ میں شریک ہوا ہو  اورنہ ہی اُس نے رسولِ اکرمﷺسے کچھ روایت کیاہو» [8]۔
یہی رائے ہر زمانہ میں جمہور اہل ِعلم کی رہی ہے۔
حافظ امام ابنِ کثیرa فرماتے ہیں :
صحابی وہ ہے جس نے رسولِ اکرمﷺکو اسلام کی حالت میں دیکھا، اگرچہ وہ لمبی مدّت تک پیغمبر علیہ السلام کےساتھ نہ رہا ہو، اور اس نے کچھ بھی پیغمبرﷺسے روایت نہ کیا ہو (تب بھی وہ صحابی کے حکم میں  ہی ہوگا) یہی قول  ہر زمانہ کے جمہور اہل ِ علم کا ہے[9] ۔
امام بخاری فرماتے ہیں :
جس نے رسولِ اکرمﷺ کی صحبت اختیار کی (یعنی آپکے ساتھ رہا )  یا پھر مسلمانوں میں سے جس نے رسولِ اکرمﷺکو دیکھا وہ آپ علیہ السلام کے صحابہ میں شمار ہوگا [10] ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجموعی تعداد!
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
اس غزوہ میں رسولِ اکرمﷺکے ساتھ مسلمان بہت بڑی تعداد میں تھے جسے کوئی ضخیم کتاب جمع و محفوظ نہیں کرسکتی [11]۔(یعنی سیدنا کعب کا مقصود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد کی کثرت بیان کرنا تھا ) جبکہ سیرت و تاریخ  کی کتب میں غزوہ تبوک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد  تیس سے چالیس ہزار  تک ہے۔ (واضح رہے کہ یہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بیان کی گئی ہے جو غزوہ تبوک میں شریک تھے)۔
اسی طرح امام شافعی  رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجموعی تعداد ساٹھ ہزار ہے،
اور امام ابو زرعہ  الرّازی رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں دوروایتیں منقول ہیں :
1) ایک لاکھ چودہ ہزار 2) ایک لاکھ بیس ہزار ۔
خلاصہ کلام یہ کہ مجموعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعدادکم و بیش  تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار  یا چالیس ہزارکے لگ بھگ ہے ، لہٰذا جب بھی صحابہ کی تعداد ذکر کی جائے تو اُس میں تحدید نہیں کرنی چاہیے بلکہ کم و بیش کا اضافہ ضرورکرنا چاہیے۔
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی تعریف!
اہل بیت سے کیا مراد ہے اور اہل بیت میں کون لوگ شامل ہیں؟
یہ ا یک مفصل بحث ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار رسولِ اکرمﷺکے رشتہ دار وقرابت داروں میں ہوتا ہے۔
z اور وہ تین قسم کے لوگ ہیں :
1) رسولِ اکرمﷺکی اولاد  مبارک رضی اللہ عنہم ۔
2) رسولِ اکرمﷺ کی ازواج ِ مُطہّرات
3) اور بنو ہاشم  (خاندانِ ہاشم)رضی اللہ عنہم ۔
اب مختصراً مذکورہ تینوں اقسام کی تفصیل آپکے سامنے رکھتے ہیں :
z رسولِ اکرمﷺکی اولاد باسعادت رضی اللہ عنہم!
آپﷺکی اولاد کی تعداد سات ہے، جن میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ،
بیٹوں کے نام : جناب قاسم ،عبداللہ اور ابراہیم  رضی اللہ عنہم (یہ تینوں بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے)
بیٹیوں کے نام :سیدہ رقیہ ،امّ کلثوم ، زینب اور فاطمہ ہیںg،آپﷺکی بیٹیوں میں صرف سیدہ فاطمہrسے اولاد ہیں ) ، آپﷺکی  تمام اولاد سیدہ خدیجہrسے ہیں سوائے آپﷺکےبیٹےجناب  ابراہیمtکے کہ وہ سیدہ ماریہ قبطیہ rسے ہیں ۔
z رسولِ اکرمﷺکی ازواجِ مطہّراتg!
ازواجِ مطہّرات (بیویوں)  سے مراد وہ خواتین ہیں جن سے رسولِ اکرمﷺنے شادی کی اور وظیفۂ زوجیت ادا کیا،اوراسطرح انہیں اللہ ربّ العالمین نے دنیا و آخرت دونوں میں اپنےحبیب رسولﷺ کی بیویاں ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے،اورانہیں اُمہات المؤمنین (مؤمنوں کی ماؤں) کے لقب سےسرفراز فرمایا،
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

{النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ}[12]

’’یہ نبیِ (مکرّمﷺ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ  (مطہّرات)  اُن کی مائیں ہیں‘‘۔
آپﷺکی تمام ازواجِ مُطہّرات (بیویاں )gبھی آپﷺکے اہلِ بیت میں سے ہیں جس کی دلیل قرآنِ حکیم کی سورۃ الاحزاب آیت نمبر:32 و 33ہے جس میں اللہ رب العالمین نے نبی مکرّم ﷺکی بیویوں کو «اہل بیت » کہہ کر مخاطب فرمایاہے۔
z رسولِ اکرمﷺ کی بیویوں کی تعداد گیارہ ہےجن کے نام یہ ہیں:
سیّدہ خدیجہ بنتِ خُویلِد ، سیّدہ عائشہ بنتِ ابو بکر الصّدیق ،  سیّدہ حفصہ بنتِ عمر الفاروق ، سیّدہ سودہ بنتِ زمعہ العامریّہ ، سیّدہ زینب بنت ِ خُزیمہ الہلالیّہ اُمّ المساکین ، سیّدہ اُمّ سلمہ ھند بنتِ ابی اُمیّہ المخزومیّہ، سیّدہ زینب بنتِ جحش الاسدیّہ اُمّ الحکیم  ، سیّدہ جُویریہ بنتِ حارث الخزاعیّہ، سیّدہ اُمّ حبیبہ رِملہ بنتِ ابی سفیاِن ،سیّدہ صفیہ بنتِ حُیی  اورسیّدہ میمونہ بنتِ حارث الہلالیّہ
جبکہ سیّدہ ماریہ قِبطیّہrآپﷺکی لونڈی تھیں ۔
ان ازواجِ مطہّرات میں سے دو (2):سیدہ خدیجہ بنتِ خویلدr اور سیدہ زینب بنتِ حارث  الہلالیہrرسولِ اکرمﷺکی مبارک زندگی ہی میں فوت ہوگئیں تھیں، جبکہ باقی نو  (9) ازواجِ مطہّرات gرسولِ اکرمﷺکی وفات کے بعد فوت ہوئیں ۔
z بنو ہاشم   (خاندان ِ ہاشم)!
بنو ہاشم :میں مندرجہ ذیل خاندان کا شمار بھی رسولِ اکرمﷺ کے اہلِ بیت میں ہوتا ہے:
خاندانِ علی  (بنو علی)،خاندان ِجعفر (بنو جعفر) ، خاندان ِعبّاس (بنو عبّاس) خاندانِ عقیل (بنو عقیل)اور خاندان ِحارث بن عبدالمطّلب  (بنو حارث بن عبدالمطّلب)۔یہ سب اہلِ بیت میں سے ہیںرضی اللہ عنہم ۔
جبکہ خاندانِ ابولہب (بنو ابو لہب)کے وہ لوگ جو اسلام لے آئے تھے، انکے بارے میں اہلِ علم کے مابین اختلاف ہے کہ آیا ان کا شمار اہلِ بیت میں ہوگا کہ نہیں ؟
اور راجح اور تحقیق شدہ بات یہی ہے کہ وہ بھی اہل ِ بیت میں سے ہیںرضی اللہ عنہم ۔ ( کیونکہ اُن میں قرابت کے ساتھ ساتھ اسلام کا وصف بھی جمع ہوگیا ہے، اور انہیں اہلِ بیت سے خارج کرنے کی کوئی معقول دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے) ۔ واللہ اعلم
یہ تو تھا صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم  کا مُختصرسا تعارف اب ہم آگے اپنے موضوع  کی طرف بڑھتے ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبّ و شتم کا حکم!
یہاں  اگرچہ ہمارا موضوع «  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  پر سبّ وشتم کاحکم بیان کرنا »ہے ،لیکن اِس سے پہلےکہ ہم اس مسئلہ پر بات شروع کریں اس بات کو سمجھ لینا چاہیےکہ صحابہ کرام پرتبرّاء و سبّ و شتم کی سنگینی کا اندازہ اُس وقت تک نہیں لگایا جاسکتا جب تک صحیح معنوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم  کا مقام و مرتبہ اورقرآن و سنّت میں بیان کیے گئے انکے حقوق ہمارے علم میں نہ ہوں ۔
چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور’’امّتِ مسلمہ پر اصحابِ محمد ﷺکے حقوق  ‘‘کے حوالہ سے چند انتہائی اہم باتوں کو نقاط کی صورت میں ذکر کریں گے،جن کا ذہن نشین کرنا مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے، کیونکہ کہ مندرجہ ذیل نقاط سے یہ بات انتہائی واضح ہوجائیگی کہ جنکی شان اتنی بلند اور مقام اتنا عظیم المرتبت ہو اُن پر کسی طور سے بھی سبّ و شتم کرنا جائز نہیں اور جو بھی صحابہ پر سبّ و شتم کرتا ہے وہ یا تو اُن کے حقیقی مقام و مرتبہ سے ناآشنا ہے یا پھر متعصب ، ضدّی ہےجواللہ اور اسکے رسولﷺکا باغی ہےاورمسلمانوں کی جڑیں کھوکلی کرنا چاہتا ہے۔
مقامِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر اہل السنہ کے اجمالی عقائد پر ایک نظر
قرآن و حدیث ، صحابہ ، اہلِ بیت  اور سلف کے اقوال کی روشنی میں
اہم نقاط مندرجہ ذیل ہیں :
اہل السنہ والجماعہ  [13] کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ:
اللہ تعالی کی مخلوق میں سب سے افضل اُس کے رسول و انبیاء oہیں پھر تمام انبیاء و رُسُل میں سب سے افضل جناب محمد رسول اللہ ﷺہیں پھر انبیاء و رسل کے بعدسب سے افضل انبیاء کے صحابہ و ساتھی ہیں اورپھر انبیاء کے صحابہ میں جو سب سے افضل ہیں وہ محمدرسول اللہﷺکےصحابہ ہیںرضی اللہ عنہم یعنی جیسےمحمدرسول اللہﷺتمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں بالکل اسی طرح محمدﷺکےصحابہ تمام انبیاء کے صحابہ میں سب سے افضل ہیں رضی اللہ عنہم ۔
الغرض اللہ کے رسول ﷺکے بعد وہی امّت کا سب  سے»  بہترین طبقہ « ہے،صحابہ کرام میں نسبۃ جو سب سے ادنی  صحابی ہیں وہ بھی صحابہ کےبعد  آنے والے امّت کےہر فرد سے افضل ہیں اگرچہ وہ فردسب سے اعلیٰ ،سب سے بزرگ و برتر، کوئی امام ،  محدّث، فقیہ ، قائد ، پیر وغیرہ ہی کیوں نہ ہورسولِ اکرمﷺکے ادنی صحابی کے مقام کونہیں پہنچ سکتا۔
جیساکہ اللہ تعالی ٰ اپنی کتابِ ہدایت میں اصحابِ محمدﷺکو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے: {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} [14] (تم سب سےبہترین امّت ہو جسےلوگوں کی(ہدایت کے) لیے پیدا کیا گیا ہے ۔)
اس آیت میں رب تعالیٰ نے تمام امّتوں میں سب سے بہترین اور افضل اُمّت ِمُسلمہ کو قرار دیا ہے جسکے سب سے پہلے مخاطَب اصحابِ محمد ہیں رضی اللہ عنہم ،  اورجس طرح مسلم امّت، تمام امتوں میں سب سے اعلیٰ و اشرف ہے اسی طرح جو کچھ اس امّت کو دیا گیا ہے وہ ان تمام چیزوں سے اعلیٰ و اشرف ہے جو سابقہ امتوں کو اللہ تعالی نے عطا فرمایا، یہی وجہ ہےکہ قرآن مجید سابقہ کتب میں سب سے افضل، شریعت  محمدیہ دین  ِاسلام سابقہ ادیان میں سب سے افضل، رسولِ اکرم جناب محمدﷺ سابقہ انبیاء ورسل میں سب سے افضل اور اسی طرح اصحابِ محمدﷺتمام انبیاء کے صحابہ میں سب سے افضل ہیں۔
اور جیساکہ رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ِمبارک ہے:
« انتم خیرها واکرمها علی الله» کہ تم امّتوں میں سب سے بہترین ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محترم و معزَّز ہو[15] ۔
اور رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ِمبارک ہے:
خَیْرُ امّتی قَرْني ثمّ الّذین یَلُوْنَهم ثمّ الّذین یَلُوْنَهم [16]۔ میری امّت کے بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے کے ہیں (یعنی دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم ) پھروہ جو اُن کے بعد ہیں(یعنی دورِ تابعین s) پھروہ جو اُن کے بعد ہیں (یعنی دورِ تبع  تابعین s) ۔
امام نووی aفرماتے ہیں:» کہ اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے بہترین زمانہ رسولِ اکرمﷺکا زمانہ ہے جس سے مرادصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ ہے[17]۔
یہی بات امام ابن عبدالبر نے « الاستیعاب » اور علامہ سفارینی رحمہما اللہ نے « شرح الدرۃ المضیئہ» میں بیان فرمائی ہےکہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں[18]۔
یہی بات رسولِ اکرمﷺکےجلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود t اسطرح بیان فرماتے ہیں: وہ محمد ﷺکے صحابہ تھے جواللہ کی قسم !  «اس امت میں سب سے افضل تھے» جن کے دل سب سے نیک،علم میں سب سے زیادہ  اور تکلفات میں سب سے کم تھے۔وہ عظیم جماعت کہ جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبرﷺکی صحبت وساتھ کے لیے اور اپنے دین کی سر بلندی وقیام کے لیےمنتخب فرمایا، تو(اللہ کےبندوں !) ان (صحابہ) کی فضیلت کوپہچانو ، اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو، اور اپنی استطاعت کے مطابق انکے اخلاق و کردار  اور دین   ومنہج کو عملاًتھام لو،کیونکہ وہ سب ہدایت وسیدھے راستے پر تھے۔[19]
اوریہی بات مختلف الفاظ سے سیدنا ابنِ عمر ،قتادہ اورحسن بصری رحمہما اللہ سے بھی منقول ہے۔ [20] ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مذکورہ مقام و مرتبہ کا یہ تقاضاہے کہ :
Bاپنے دلوں کو انکی محبّت سے منوّر رکھا جائے اورعمل سے اُس کا اظہار کیا جائے، اور  ہر اُس شخص سے نفرت کی جائےجو صحابہ کرام سے محبّت نہیں کرتا  یا  صحابہ سے بغض رکھتا ہے  یا کسی بھی طرح  صحابہ پر تبرّاء وسبّ و شتم کرتا ہے۔
کیونکہ : رسولِ اکرمﷺکا فرمانِ مبارک ہے:

اٰیة الإیْمانِ حُبُّ الأَنْصارِ واٰیة النِّفاقِ بُغْضُ الأَنْصارِ

کہ انصارصحابہ کرام سےمحبت کرنا إيمان کی علامت ہے اور اُن سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے[21] ۔
صحابہ کرام میں دو جماعتیں تھیں : ایک انصار صحابہ کی اور دوسری مہاجرین صحابہ کی رضی اللہ عنہم ،  اوران دونوں  میں افضل مہاجرین صحابہ ہیں رضی اللہ عنہم ۔
یہاں اس روایت میں رسولِ اکرمﷺنے  انصار صحابہ سے محبّت کو ایمان اور ان سے بغض کو نفاق قرار دیا ہے ، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب انصار صحابہ سے محبّت ایمان کی علامت اور بغض نفاق کی علامت ہے تو  مہاجرین صحابہ سے محبّت  بدرجہ اولیٰ ایمان اوران سے بغض تو لازمی نفاق شمارہوگاکیونکہ مہاجرین صحابہ،انصارصحابہ سےمن جملہ افضل ہیں،تورسولِ اکرمﷺکی انصار کے حق میں یہ نصیحت ہے تو مہاجرین جو انصار سے افضل ہیں تو کیا انکےحق میں یہ نصیحت نہ ہوگی؟ بلکہ انکے حق میں یہ نصیحت اور بھی سخت  شمار ہوگی فتدبّر !۔
اور یہی بات اہل السنہ والجماعہ کے عقیدہ کے طور پراہلِ بیت رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین رحمہم اللہ سے بھی منقول ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالبtکا فرمان:
خلیفہ رابع سیدناعلی tاپنے دعویدار حامیوں (جو خود کو شیعانِ علی یعنی علیtکا حامی کہا کرتے تھے)کو ڈانتے ہوئےاورتنبیہ کرتےہوئےفرماتےہیں کہ:میں نےمحمدﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا ہےاورمیں تم (شیعانِ علی) میں سےکسی کو بھی اُن(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) جیسا نہیں دیکھتا، وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )دن کا آغازانتہائی سادگی میں فرماتےجبکہ  رات بھروہ (اللہ کی عبادت میں) سجدے اور قیام میں گذار چکے ہوتے تھے پھر بھی دن بھر اپنے پروردگار کے سامنےعاجزی و انکساری میں پیشانیوں کے بل سجدہ ریز رہتے اورطویل سجدوں کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا کہ گویا اُنکی پیشانیوں میں کوئی سخت ومضبوط چیز جوڑدی گئی ہو،اوران میں آخرت کی فکراتنی تھی جیسےوہ(دنیامیں)آگ کے انگارے پر کھڑےہوں،جب بھی اللہ تعالٰی کاذکرکیاجاتاتو اُن کی آنکھوں سے (اُسکی محبّت میں اور اُس کے خوف سے) آنسو جاری ہوجاتے،یہاں تک کہ (اُن آنسوں سے) اُن کے گریبان بھیگ جاتے ، اور ایک طرف اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور  دوسری طرف اُس سے ثواب و جنت کی امید کرتے ہوئےوہ ایسے ہوجاتےجیسےسخت تیزآندھی میں درخت کی حالت ہوتی ہے[22]۔
سیدناعلی بن حسین a ( امام زین العابدین ) :
نماز میں رسولِ اکرمﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے انتہائی لمبی دعائیں فرمایا کرتے تھے [23]۔
امام  طحاوی a عقیدہ کی مشہور ترین کتاب عقیدہ طحاویہ میں ذکر فرماتے ہیں:
ہم رسول اللہ ﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم  سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے سے کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ہی کسی پر تبرّاء کرتے ہیں۔اور ہم ہر اس شخص سے بغض و نفرت کرتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتا ہے، اور ہم ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ ہی انکا ذکرکرتے ہیں ،  ان سے محبت کرنا دین ہے، ایمان ہے، احسان ہے، جبکہ ان سے بغض رکھنا کفر ہے ، نفاق ہے اور سرکشی و فساد کا سبب ہے۔[24]
امام حسن بصری  کافرمان:
امام حسن بصریaسےپوچھا گیاکہ: «حب أبى بكر وعمر سنة؟قال:لا فريضة» کہ کیا جناب ابو بکر اور عمرwسے محبّت کرنا سنّت ہے ؟ توآپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ فرض ہے[25]۔
معروف تابعی امام مسروق aکا فرمان:
« حب أبى بكر وعمر ومعرفة فضلهما من السنة » کہ سیدنا ابوبکر اور عمر سے محبّت کرنا اور اُن دونوں کے شرف و بلند مرتبہ کو پہچاننا مسنون عمل ہے[26]۔
امام مالک a کا فرمان :
« كان السلف يعلّمون أولادَهم حبَّ أبى بكر وعمرَ كما يعلّمون السورة من القرآن « ۔کہ سلف صالحین رحمہم اللہ اپنی اولاد کو قرآن کریم کی سورت کی طرح سیدنا ابو بکر و عمرکی محبّت سکھاتے تھے [27] ۔
امام ابنِ حزم a کا فرمان:
آپ فرماتے ہیں کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبّت فرض ہے[28] ۔
z اصحابِ محمدﷺوہ مبارک ہستیاں ہیں کہ جنہیں دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کی خوشخبری سنائی اور ان سے جَنّاتِ عدن کا وعدہ فرمایا، جیساکہ سورۃ النساء میں فرمایا

{وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى

}[29] کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک (صحابی) سےاچھی جزاء (جنّت) کا وعدہ فرمایاہے۔
z اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺکے سب سے زیادہ ’’مقرّب و محبوب‘‘بندے بھی یہی ہیں.
z اصحابِ محمد وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ جن کی صفاتِ حمیدہ رب تعالیٰ نے سابقہ کتب توراۃ و انجیل میں بھی ذکر فرمائی ہیں [30] ۔
z ہر نبی نے اپنی قوم کو تقویٰ (اللہ سے ڈرنے) کی وصیت فرمائی ہے،اور امّتِ محمدیہ میں رسولِ اکرمﷺکے بعد سب سے زیادہ «اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے» بھی یہی اصحابِ محمدہیں ۔
z اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے «مُخاطَبین» بھی یہی ہیں ،  اسی لیے اہل السنہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اصحابِ محمد کی فہم ومنہج  (یعنی انکا اللہ اور اسکے رسولﷺکی مراد و مقصود کو سمجھنااور اس پر عملاً چلنا )  عین حق ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اصحابِ محمد نے کسی آیت و حدیث یا کسی بھی دینی مسئلہ کو غلط سمجھا ہو اور انکے بعد آنے والوں نے اسے صحیح  طرح سمجھا ہو،کیونکہ اگر کوئی یہ بات کرتا ہے تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے پہلے مخاطَبین ہی اللہ کی مراد نہیں سمجھ سکے، اور یہ رب العالمین کی شان میں انتہائی بے ادبی و گستاخی ہے کہ وہ اپنے سب سے پہلے مخاطَبین کو اپنی بات نہیں سمجھا سکا والعیاذ باللہ، اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ دین ِ حق وہی ہے جو اصحابِ محمدنے سمجھا ہے اور جو اصحابِ محمد کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔
z قرآن حکیم میں جہاں بھی اہلِ ایمان کی تعریف و فضیلت بیان ہوئی ہے اسکے اوّلین مصداق بھی یہی اصحابِ محمدﷺہیں رضی اللہ عنہم ،کیونکہ وہی سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں اور اہلِ ایمان میں ا للہ تعالیٰ کے سب سے مخاطَبین بھی وہی ہیں۔
z انکے شرف کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ وہ رسولِ اکرمﷺکے شاگرد اور تربیت یافتہ ہیں ۔
z اور وہ اللہ ربّ العالمین کا انتخاب ہیں جنہیں اُس نے اپنے سب سے محبوب و مقرّب  رسول ﷺکی صُحبت و ملازمت کے لیےمنتخَب فرمایا ، جیساکہ رسولِ اکرمﷺکا فرمانِ مبارک ہےکہ: «إن الله اختارني و اختار لي أصحابًا،فَجَعَل لي مِنْهم وُزَرَاء و أنْصارًا وأصْهارًا «الخ کہ اللہ تعالیٰ نے (نبوّت کے لیے) میرا انتخاب فرمایا اور میرے لیے ساتھیوں (صحابہ) کا انتخاب فرمایا ، پس اُن (صحابہ ) میں سے کچھ کو میرا وزیر  بنایا ، کچھ کو مددگار ، اور کچھ کو میرا سُسر  (بیوی کا والد) اور  داماد (بیٹی کا شوہر)  بنایا [31] ۔
اوریقیناً اللہ تعالیٰ  اپنے سب سے محبوبﷺکی ملازمت و ساتھ کے لیے صرف ایسی ہی جماعت کا انتخاب فرماسکتا ہے جو رسولوں کے بعد اس کائنات کی سب سے بہتر ین جماعت ہو ،جن کے دل سب سے پاکیزہ ، گُفتار سب سے اعلیٰ ، کردار سب سے بلند ہو ،اور یہی بات انہیں بقیہ تمام لوگوں سے ممتاز کردیتی ہے کہ وہ «رسول ِاکرمﷺ» کے «ساتھی»  ہیں ،  اور خود رسولِ اکرم ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے: المرءُ علىٰ دينِ خَلِيلِه فَلْيَنْظُرْ أَحدُكم من يُّخالِلْ (کہ انسان اپنے دوست ا ور  ساتھی کے دین و طریقہ پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ یہ جائزہ لے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے ،کس کی صحبت میں اٹھ بیٹھ رہا ہے ) ، اب جو شخص بھی صحابہ کے گفتار و کردار کے  بارے میں کچھ بھی جاننا چاہتا ہے وہ صرف یہ ہی دیکھ لے تو بات اسکی سمجھ میں آجائیگی کہ صحابہ کرام کس کے ساتھی تھے اور کس کی صحبت میں رہا کرتے تھے؟؟؟ اسی طرح عربی میں ایک بہت مشہور محاورہ  بھی ہے کہ:عن المرءِلا تسْألْ وسَلْ عنْ قَرينِه فكلُّ قرين بِالمُقارن يَقْتَدِيْ (کہ شخص کے بارے میں مت پوچھو بلکہ اسکے دوست و ساتھی کے بارے میں پوچھو ، کیونکہ ہر شخص اپنے ساتھی ہی کے نقشِ قدم پر چلتا ہے)، اور یہی بات ہمارے معاشرہ میں اس اندازسے کہی جاتی ہے کہ : ہر شخص اپنےہم مجلس، دوست احباب اور اٹھنے بیٹھنے والوں سے پہچانا جاتا ہے۔
z آج کتاب و سنت اور مکمل دینِ اسلام کے ہم تک پہنچنےکاسبب ہی اصحابِ محمدﷺ ہیں ۔
اور یہ کہنا بالکل بجا ودرست ہوگا کہ اگر صحابہ نہ ہوتے تو آج ہمارے پاس نہ اسلام ہوتا نہ ایمان، نہ ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت ہوتی اور نہ ہی رسولِ عربیﷺکی پہچان،نہ ہی رسولِ اکرمﷺکی احادیثِ مبارکہ ہوتیں اور نہ ہی قرآن،عقائد ، عبادات ، معاملات کچھ بھی نہ ہوتاکیونکہ انہی کےذریعہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتابِ ہدایت قرآن کریم ، اپنے ہادی  پیغمبرﷺکی احادیث ِمبارکہ اور دین ِحق اسلام کو محفوظ فرمایا اور آنے والے تمام لوگوں تک پہنچایا۔
z آج ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں اورصرف زبان سے یہ دعوی ٰ کرتے ہیں کہ دینِ اسلام ہر زمانہ اورہرمعاشرہ کےلیےقابلِ عمل ہےلیکن اصحابِ محمد ہیں کہ جنہوں نےاس دعویٰ کوعملاً ثابت کرکے دکھایااور سب سے پہلےاس دنیا میں اﷲ تعالیٰ کے دین کو نافذ کر کے دکھایا ، اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردکھایا کہ واقعی اسلام ہی وہ واحد ذریعہ ہے کہ جسکے ذریعہ ہر معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کیا جاسکتا ہےاور اسلام ہی ہر بندہ کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔
z غرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ مبارک جماعت ہے کہ جن کی عبادات ، جن کے معاملات ، جن کی قربانیاں ،حتٰی کہ جن کا جینا اور مرنا صرف اور صرف ایک اﷲربّ العزّت والجلال ہی کے لیے تھا یہی وجہ ہے کہ:
z اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کےایمان کو قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے ایمان کےلیے بطور ِ معیار وضابطہ کے مقرر فرمایا، اور انکے عمل ومنہج (طرزِ زندگی) کوپوری امت کے لیے باعثِ اقتدا وپیروی کے مقررفرمادیا۔
C صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف وتوصیف بیان کرنا ، اُن کی اچھائیوں کو نشر کرنا اور ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ ہی ان کا تذکرہ کرنا!
یہ ایک مستقل قاعدہ ہے جو پچھلی سطور میں بیان کیےگئے تمام نقاط  اور باتوں کاخلاصہ و نتیجہ ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام کی محبت اور انبیاء علیہم السلام کے بعد پوری کائنات میں انکی افضلیت کا عقیدہ  اس بات کا  متقاضی ہے کہ انکی تعریف کی جائے اور انکی  اچھائیوں  اور محاسن کو  بھرپور انداز سے بیان کیا جائے اور جب بھی انکا ذکر کیا جائے ہمیشہ خیر کے ساتھ کیا جائے۔
اور قرآن و حدیث میں موجود جتنے بھی دلائل صحابہ کی محبت اور انکی فضیلت میں مذکور ہیں وہ سب اس قاعدہ کے دلائل کے زمرہ میں آتے ہیں ۔
D صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خطاؤں پر خاموش رہنا اور اُن کے عیوب سے بھی صرف ِنظر کرنا۔
صحابہ کرام سے سرزد ہونے والی خطائیں اور اُن کی حقیقت:
اور جہاں تک صحابہ کرام سے سرزد ہونے والی خطاؤں پر خاموش رہنے اور اُن کے عیوب سے صرفِ نظر کرنے کا تعلّق ہے تواُس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں[32] ،  بلکہ وہ بھی انسان تھے اور انسان سے غلطی ہوتی ہے،اُن سے بھی ہوئی،لیکن یقیناً یہ بات ضرورہے کہ اُن سے جو  غلطیاں ہوئیں وہ ہرگزاُن غلطیوں جیسی نہیں ہوسکتیں جو انکے علاوہ اس امت میں کسی اور سے سرزدہوں،اور وہ غلطیاں انتہائی معمولی تھیں جو اُن نیکیوں اور احسانات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کی خاطر انجام دیے۔
اسی لیےیہاں ہم صحابہ کرام کے حوالہ سے منقول شدہ غلطیوں کی حقیقت بھی آپ کو بیان کرتے چلیں جو قواعد کی صورت میں درجِ ذیل ہیں، جن کا ذہن نشین کرلینا بہت ضروری ہے:
 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےبارے میں جو کچھ بھی ایسا مروی ہے جو ان کی شان و مرتبہ میں نقص پیدا کرتا ہےوہ تین باتوں سے خالی نہیں:
وہ بات سند کے اعتبار سے درست نہ ہو یعنی جس ذریعہ سے صحابہ کے بارے میں ہم تک وہ خبر پہنچی ہے وہ محدّثین کے متفقہ قواعد  کے مطابق ناقابلِ اعتبار ہو،ایسی صورت میں وہ بات مردود ہوگی اور اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
وہ بات سند کے اعتبار سے درست ہو لیکن اُسکے اچھی اوربُری دونوں توجیہات ہوں  ، ایسی صورت میں بالاتفاق اُس بات کی اچھی توجیہ ہی نکالی جائیگی۔
وہ سند کے اعتبار سے درست ہو اور اسکی کوئی احسن توجیہ بھی نہ ہو، ایسی صورت میں بھی بالاتفاق اُسے صحابی کے اجتہاد اور معقول تاویل پر ہی محمول کیا جائیگا، کیونکہ شریعت کے متفقہ اصول کے مطابق جان بوجھ کرصحابی کا غلط رائے و عمل کواختیار کرنا ناممکن ہے ،اور انکی سیرت  اس بات کی گواہی دیتی ہے  لہٰذا اسے بنیاد بناکر اُن پر اعتراض کرناکسی طورجائزنہیں ہوگا۔
 اسی طرح یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو گناہ سر زد ہوئے وہ مندرجہ ذیل پانچ باتوں میں سے کسی ایک سے زائل (بالکل ختم) ہوجائیں گے:
1. یا تو صحابہ نے اس گناہ سے توبہ کرلی ہوگی،اور یقیناً کی ہوگی کیونکہ وہ سب سے بڑھکر توبہ کی حرص رکھنے والے اور توبہ کرنے والے لوگ تھے ، ایسی صورت میں ان پر کوئی گناہ باقی ہی نہیں رہتاکیونکہ رسول ﷺکا فرمان ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔
2. یا پھر وہ گناہ انکی نیکیوں کے بدلہ میں معاف کردیے جائیں گے، کیونکہ قرآن حکیم میں رب تعالیٰ کا فرمان ہے کہ( نیکیاں ،برائیوں کو ختم کردیتی ہیں ) اور بلا شبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نیکیوں کے مقابلہ میں اُن کے گناہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں،خاص طورپر جب ادنٰی سے صحابی کی نیکی کا اجر بقیہ اُمت کے نیک ترین آدمی کی بڑی سی بڑی نیکی کے  اجر کے مقابلہ میں  کئی درجہ زیادہ ہو۔جیساکہ گذشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیث (میرے صحابہ کو برا مت کہو)  میں بیان ہوا۔
3. یا پھر انکے گناہ انکے سب سے پہلے اسلام لانے کی وجہ سے معاف کردیے گئے ہوں،کیونکہ یہ عمل بھی گناہوں سے معافی کاذریعہ ہے۔
4. یا پھر انکے گناہ رسولِ اکرمﷺکی اُس شفاعت و سفارش کی بدولت ختم کردیے جائیں گے جو انہیں کل قیامت کے دن حاصل ہوگی، کیونکہ رسولِ اکرمﷺکے فرمان کے مطابق آپکی سفارش اُمت کے اُن لوگوں کو حاصل ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے،یعنی صرف موحدین ہی کو حاصل ہوگی، تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس اُمت میں صحابہ سے بڑھکرموحدین کی جماعت کون سی ہے اور صحابہ سے بڑھ کر آپکی سفارش کاحقدار اور کون ہوگا؟؟؟ صحابہ کرام سب سے بڑھکر رسولﷺکی سفارش کا حق رکھتے ہیں ۔
5. یا پھر اُن کے گناہوں کو اُن پُرکٹھن اور تکلیف سے بھری آزمائشوں کے بدلہ میں معاف کردیا جائیگاجو انہیں دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دین اور عقیدہ توحید کی خاطر پہنچیں۔کیونکہ شریعت کی رو سے  آزمائش گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔
z اب ان پانچوں امور کو اپنے سامنے رکھیں اور صحابہ کی سیرت کا مطالعہ کریں آپ کو صراحت کے ساتھ سمجھ آجائیگا کہ جو صحابہ سے گناہ سرزدہوئے وہ ان پانچ امور سے ختم ہوجاتے ہیں۔
z لہٰذا صحابہ کرام سے سرزد ہونے والی خطاؤں کو بنیاد بناکر بھی اُن پر کسی بھی قسم کے اعتراض و طعن کا جواز نہیں نکلتا ، کیونکہ صحابی سے سرزد ہونے والی خطائیں جب خطاء ہی نہ رہیں (جیساکہ مذکورہ پانچ امور سے واضح ہوچکا) تو اس بنیاد پر اُن پر ہر قسم کے اعتراضات محض لغو اور بےجا تنقید ہی شمار کیے جائیں گے۔
E صحابہ کرام کے خلاف ہر طرح کی بد کلامی و بے ادبی سے کلّی اجتناب کرنا اگرچہ وہ اشارہ و کنایہ سے ہی کیوں نہ ہو!
کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں پیچھے بیان کی گئیں تمام باتوں کو جاننے اور سمجھنے کے بعد کوئی بھی سلیم الفطرت اور عقل مند مسلمان بلکہ کوئی بھی انسان اصحابِ محمد کےبارے میں بد کلامی نہیں کرسکتا ، لیکن اس سب کے باوجود خاص طور پر بھی ربِّ کائنات اللہ عزّ و جل  اور سرورِ کائنات محمد رّسول اللہ ﷺنےصحابہ کرام کے خلاف صراحۃً تو دور اشارۃ ًبھی کسی بھی طرح کی بدکلامی وبے ادبی سے سختی سے منع فرمایاہے ،اور جواہلِ ایمان ہے وہ  سر تسلیمِ خم کرتے ہوئے اس حکم کی پاسداری کرتےہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبّ و شتم اور قرآن کریم!
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالہ سےقرآن کریم کامطالعہ کرنے کے بعد ہمیں تین طرح کی آیات نظر آتی ہیں (واللہ اعلم)
وہ جن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ،اُن کا مقام و مرتبہ اور اُن کی صفاتِ حمیدہ بیان فرمائی ہیں۔جیسےسورۃالبقرۃ: 143-سورۃالنور:117-سورۃالحشر : 8،9،10-سورۃالانفال:74-سورۃآل عمران: 110 وغیرھا
وہ جن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اپنی مغفرت اور رضا مندی کا اعلان فرمایا اور اُنہیں جنّت کی خوشخبری سنائی ہے ،جیسےسورۃالبقرۃ:100-سورۃالفتح:18 – سورۃالفتح:29-سورۃ النساء: 95-سورۃالحدید:10 وغیرھا۔
اور تیسری سورۃ الفتح کی آیت: 29 جس میں اللہ تعالیٰ نےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صفاتِ حمیدہ بیان کرنے کے بعدفرمایا:{لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّار} (تاکہ وہ (اللہ تعالیٰ) ان (صحابہ رضی اللہ عنہم ) کے ذریعہ کافروں کو غصہ دلائے)۔
یعنی محمدﷺکےصحابہ رضی اللہ عنہم سےکفارہی غیظ و غضب کھاتے ہیں ، اس آیت کی روشنی میں اہلِ علم کی ایک بڑی جماعت نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض کو کفر شمار کیا ہے جیساکہ امام مالکa نے فرمایاکہ: جس کے دل میں کسی ایک صحابی کے خلاف بھی غیظ و غضب ہے وہ اس آیت کا مصداق ہے ، اور امام قرطبی و دیگر اہلِ علم sنے اُنکی اس بات کی موافقت کی ہے[33] ۔
اور امام ابنِ کثیر aفرماتے ہیں کہ اس آیت سے امام مالک a نے استدلال کیا ہے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کو دیکھ کر غیظ و غضب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جسے صحابی کی شخصیت غیظ میں مبتلا کرے وہ اس آیت کی روشنی میں کافر ہے، اہل علم کی ایک جماعت نے امام مالک کی موافقت کی ہے [34]۔
اسی طرح رسولِ اکرمﷺکاحکم درحقیقت اُسی کا حکم ہے، کیونکہ رسولِ اکرمﷺاپنی طرف سے کوئی حکم ارشاد نہیں فرماتے جیساکہ سورۃالنجم آیت:3 اور4 میں اللہ تعالیٰ نےبیان فرمایا اورسورۃالنساءآیت:80 میں اللہ تعالیٰ نےرسولﷺکی اطاعت کواپنی اطاعت قرار دیاہے، لہٰذا ہم مسئلہ مذکورہ پر اختصاراً احادیث ذکر کرتے ہیں پھرقرآن کریم کی مذکورہ آیات اور مندرجہ ذیل احادیث کا خلاصہ بیان کریں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبّ و شتم اور احادیثِ مبارکہ!
اور جہاں تک اس حوالہ سے رسولِ اکرم ﷺکےحکم کا تعلق ہے تو آپﷺکا فرمان ہے:
A إذا ذُكِرَ أصْحابِيْ فَأمْسِكُوْا[35] کہ جب بھی میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر ہو تو (اُن کے خلاف کسی بھی طرح کی منفی بات کرنے سے) بہرصورت رُک جاؤ۔
مذکورہ روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایک مستقل قاعدہ کی حیثیت  رکھتی ہے جس کے مطابق:
1 صحابہ کرام کے خلاف امّت کے کسی بھی فرد کو (گرچہ وہ کوئی بھی حیثیت یا مقام رکھتا ہو)کسی بھی صورت میں یہ اجازت نہیں کہ وہ صحابہ کےبارے میں کوئی بھی ایسی بات کرے جوبے ادبی یا گستاخی کے زمرہ میں آتی ہو،کیونکہ :
الف) مذکورہ روایت میں حرف «اذا» عموم پر دلالت کرتا ہے ، جس کا معنی ہے  «جب بھی»  یعنی کوئی وقت اور صورت اس سے مستثنٰی نہیں ،لہٰذا جب بھی صحابہ کا ذکر ہو   «وہ کسی بھی مسئلہ سے متعلّق ہو « اُس میں اپنی زبانوں کوہرطرح کی تنقید سے پاک رکھناچاہیے۔
ب) روایت میں مذکور کلمہ» فامْسِکُوْا «امر کا صیغہ ہے  جوکہ وجوب پر دلالت کرتا ہے،یعنی یہ رسولِ اکرمﷺ کاحکم ہےجس پر عمل واجب ہے، اور یہ جمع کا صیغہ ہے جس میں سب شامل ہیں ، یعنی امّت کے ہر فرد کو یہ حکم ہے،اورکوئی اس حکم سےمستثنیٰ نہیں ہے۔
ج) یہاں مطلقاً « امساک « یعنی بہرصورت خاموش رہنے کا حکم ہے جس کا مطلب ہے کہ وجہ کوئی ہی کیوں نہ ہو  « صحابہ کے خلاف کچھ  بھی کہنے سے خاموش رہنا ہے « اس طرح وہ لوگ جو صحابہ کو اس امّت کے دیگر افراد کی جگہ رکھ کر اُن کے بارے میں اپنی ذاتی رائے دیتےہیں اور بالخصوص سیاسی معاملات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کےمابین ہونے والےاختلافات میں اُنہیں  تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ رسولِ اکرمﷺکے اس فرمان سے بغاوت کی مرتکب ہوتے ہیں ،لہٰذا اُن تمام لوگوں کی آراء اس باب میں باطل ہیں اور امّت کو ہر اُس فرد سے خبردار رہنا چاہیے جو رسولِ اکرمﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم پر کسی بھی حوالہ سے تنقید کرتا ہے۔
2  جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت میں کسی بھی قسم کا تبصرہ تک حرام ہے تو اصحابِ محمد کے خلاف بد کلامی کرنا،سبّ وشتم کرنا یا تبرّاء کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ انتہائی بد بخت ہے وہ شخص جو اصحابِ محمد کے خلاف بات کرتا ہے۔
3  تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عدالت ودیانت کے تمام ضابطوں پر پورا اُترتے ہیں (کیونکہ آپﷺکا انکے خلاف کسی بھی طرح کی بات سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے)  لہٰذا وہ ہر طرح کی جرح وتحقیق سے مستثنیٰ ہیں ، اور یہی اہل السنہ والجماعہ اہلِ حق کاعقیدہ ہے۔
4  وہ مسائل جن میں صحابہ کےمابین اختلاف ہوا ہو،وہ گرچہ کسی بھی نوعیت کے ہوں  ،  اُن  کو بنیاد بناکر بعدمیں  آنے والے اُمّت کے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ طرفین میں سے کسی بھی صحابی پر کسی بھی طرح کی تنقید کرے ،  البتہ اگر اُس مختلف فیہ مسئلہ  کا تعلق شریعت کے عملی احکامات سے ہو تواُس میں دلیل  کے مطابق راجح رائے کو عملاً اختیار کیا جائیگا اور مرجوح رائے کوبغیر اُس کے قائلین پر تنقیدکیے  ترک کردیا جائیگا۔
اسی طرح آپﷺ کا فرمانِ مبارک ہے:
B  کسی بھی  ادنیٰ سے صحابی کا بھی کسی بھی غیر اعلی سے اعلیٰ غیر صحابی سے کوئی موازنہ ہی نہیں ، لہٰذا کسی  بھی غیر صحابی کو بھی کسی بھی صحابی پر کسی بھی قسم کی منفی  بات کی ہرگز اجازت نہیں ۔
«میرے صحابہ  پر سبّ وشتم مت کرو، انہیں برا مت کہو،(اور جان لوکہ) اگرتم میں سے کوئی بھی (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) اُحد (جیسے بڑے پہاڑ) کے برابر  سونا خرچ کرے تو (اسکے مقابلہ میں )  میرےادنٰی سے  صحابہ کے خرچ کیے ہوئے آدھا کلو بلکہ ایک پاؤ (گندم) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا»۔[36]
اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض در حقیقت رسولِ اکرمﷺ سے بغض ہے۔
رسولِ اکرمﷺکا ایک اور اہم فرمان ہے :

الله الله في أصحابي لا تتخذوهم غرضًا بعدي ، فمن أحبهم فبحبي أحبهم و من أبغضهم فببغضي أبغضهم ، و من آذاهم فقد آذاني و من آذاني فقد آذى الله ، و من آذى الله فقد أوشك أن يأخذه.

رسولِ اکرمﷺنے اپنے اس فرمان میں اللہ تعالیٰ کا دو مرتبہ واسطہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے بعد انہیں اپنے  (طعنوں وتشنیع کا) ہدف مت بناؤ، پس (یاد رکھوکہ) جس نے اُن سے محبّت کی تو میری محبّت کی وجہ سے اُن سے محبّت کی اور جس نے اُن سے کسی بھی قسم کا بغض رکھا تو اُس نے در حقیقت مجھ سے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا، اور جس نے اُنہیں کسی بھی قسم کی تکلیف دی اُس نے (صرف اُنہیں ہی نہیں بلکہ) مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ تعالی کو تکلیف دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی وہ بہت جلد اُس کی پکڑ فرمائے گا[37]۔
z رسولِ اکرمﷺکا یہ فرمان انتہائی قابلِ غور ہے،اس لیےاسے بار بار پڑھنا اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کیونکہ جوسمجھنا چاہے اُس کے لیے یہی کافی ہےکیونکہ:اس حدیث میں خاص اُن لوگوں کے لیے نصیحت ہے جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو اپنا ہدفِ تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہوا ہے ، جو اہلِ بیت کی محبّت کا نعرہ لگاکریاکسی بھی وجہ سے اصحابِ محمد پر تبرّاء و الزام تراشی کرتے ہیں  اور اپنی زبانوں کو بے لگام کرتے ہیں۔
z اور رسولِ اکرمﷺکافرمان « الله الله »یہ  تنبیہ اور ڈرانے کے لیے ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ  «آگ آگ» تو اس کا مطلب ہوگا کہ آگ سے ڈرو اور دور رہو،تو یہاں بھی یہی مراد  ہے کہ « اللہ سے ڈرو» اور ایسا نہ کرو۔
z اسی طرح آپﷺکا یہ فرمانا کہ ’’ میرے بعد میرے صحابہ کو اپنا ہدفِ تنقید مت بنانا ‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ دیکھو اُن کوبرا مت کہنا اور اُن پر ہرگز سبّ وشتم نہ کرنا۔
z اور آپﷺکا یہ فرمانا کہ « جس نے اُن سے محبّت کی تو میری محبّت کی وجہ سے اُن سے محبّت کی اور جس نے اُن سے کسی بھی قسم کا بغض رکھا تو اُس نے در حقیقت مجھ سے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا « یہ واضح دلیل ہے کہ صحابہ سے محبّت کرنے والا درحقیقت رسولِ اکرمﷺسے محبّت کرتا ہے اور صحابہ سے بغض رکھنے والادرحقیقت محمد رسول اللہﷺسے بغض رکھتا ہے۔
اسی طرح رسولِ اکرمﷺ نے لعنت فرمائی ہے ہر اُس بد بخت پر جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بد کلامی کرتا ہے:

من سبّ أصحابى فعليه لعنة الله والملائكة والنّاس أجمعين

آپﷺنےفرمایا کہ:  جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اُس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور کائنات کے تمام لوگوں کی لعنت ہو[38] ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ افراد ہیں اُن پر طعن اللہ کے انتخاب پر طعن ہے:
ایک اور مقام پر کچھ اس طرح فرمایا:

إِنَّ اللهَ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلا عَدْلا

کہ اللہ تعالیٰ نے (نبوّت کے لیے) میرا انتخاب فرمایا اور میرے لیے ساتھیوں (صحابہ) کا انتخاب فرمایا ، پس اُن (صحابہ ) میں سے کچھ کو میرا وزیر  بنایا ، کچھ کو مددگار ، اور کچھ کو میرا سُسر  و داماد بنایا، (اور پھر فرمایاکہ) جو اُنہیں (صحابہ کو)  بُرا کہے اُس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور کائنات کے تمام لوگوں کی لعنت ہو،کل روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اُس کا کوئی فرضی یا نفلی عمل قبول نہیں فرمائے گا ۔[39]
z یہ روایت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ رسولِ اکرمﷺکے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاانتخاب اللہ ربّ العالمین نے فرمایا ہے ،اور جو صحابہ پر طعن کرتا ہے وہ معاذ اللہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر طعن کرتا ہے ۔
z اسی طرح اس روایت کی روشنی میں وہ تمام لوگ جو اصحابِ محمد پر تبرّاء اور طعن و تشنیع کرتے ہیں ملعون ہیں اور ہر قسم کی خیر و بھلائی اور انسانی ہمدردی سے محروم و مستثنیٰ ہیں ، جس پر اللہ تعالیٰ ، اسکے فرشتے اور تمام لوگ لعنت کریں وہ اس لائق ہے کہ اسکی اس قبیح حرکت پر سخت سے سخت گرفت کی جائے اوراُس کا معاشرہ میں بائیکاٹ کیا جائے ، اور اربابِ اختیار پر یہ لازم ہے کہ اسے قرار واقعی سزا دی جائے اور اُسکے معاملہ میں کسی بھی قسم کی کوئی نرمی مت برتی جائے۔
آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ کا خلاصہ!
مذکورہ تمام باتوں کاخلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے قرآن کریم میں مذکور تینوں اقسام کی آیات اور بیان کی گئی احادیثِ مبارکہ اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ:
z رب تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام سےدنیا ہی میں اپنی رضامندی کا اعلان فرمادیا ہے اور اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ ایسے لوگوں سے اپنی رضامندی کا اعلان فرمادے جو معاذ اللہ منافق ہوں یا مرتد ہوگئے ہوں یا ظالم و غاصب ہوں یا کسی بھی طرح کی زیادتی کرنے والے ہوں،اور پھر یہی نہیں بلکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو دنیا ہی میں جنّت کی بشارت بھی دی ہے ، اور تاقیامت اُن کا ذکرِ خیر اپنی کتاب ِہدایت قرآن کریم کے ذریعہ جاری فرمادیا۔
لہٰذا ہر مسلمان جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے کلامِ پاک  قرآن مجیداور  رسولِ اکرمﷺ اور اُن کے فرامینِ مبارکہ  احادیث پر ایمان رکھتا ہے اُس پر یہ واجب و لازم ہے کہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مبیّنہ فضیلت، اُن کے شرف و عالی مرتبت ہونے کو تسلیم کرےکیونکہ اللہ تعالیٰ اوراُس کےرسولﷺنے اُن کی فضیلت وتزکیہ بیان فرمایا ہے۔
اصحابِ محمد سے محبّت رکھے اور اُن سے بغض و عداوت کو ایمان کے منافی سمجھے کیونکہ اللہ اوراُس کےرسولﷺاُن سےمحبّت فرماتے ہیں اور جن سے اللہ اوراس کے رسولﷺمحبّت کریں اُن سے بغض رکھنا ایمان کے منافی ،کفر،نفاق اور دنیا وآخرت میں ذلّت ورسوائی کا سبب ہے۔
ہر اُس شخص سے محبّت کرے جو صحابہ سے محبّت کرتا ہے اور ہر اُس شخص سے بغض وعداوت رکھے جو صحابہ سے کسی بھی قسم کا بغض رکھتا ہے، کیونکہ یہ عقیدہ کے اہم ترین جزء الولاء والبراء « اللہ ہی کےلیےمحبّت اور اُسی کےلیےعداوت « کا تقاضہ ہےاور رسولِ اکرمﷺکےبیان کیےگئےفرامین کےمطابق صحابہ سےبغض درحقیقت نبی مکرّمﷺسےبغض ہےاسی لیےنبی مکرّمﷺاور صحابہ کرام سے بغض رکھنے والے سےبغض و عداوت رکھناواجب  ہے۔
اصحابِ محمد کے خلاف کسی بھی طرح کی بدکلامی کو حرام سمجھے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے منتخب وراضی شدہ بندوں کے خلاف ہر طرح کی بد کلامی حرام ہے خاص کر جب اس قبیح عمل سے اللہ اور اس کےرسولﷺنےصراحۃ منع بھی فرمادیا ہو۔
جو بھی اصحابِ محمد کے خلاف کسی بھی طرح کی بدکلامی کرے وہ اللہ تعالیٰ، اُسکے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کا مستحق ہے جیساکہ رسولِ اکرمﷺکافرمان ذکر کیا گیا ، لہٰذاجوبھی ایسی رذیل حرکت کا ارتکاب کرے اُس سے ہر طرح کے تعلق کو ختم کیا جائے اُس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائےاور اُسکے ساتھ ، رشتہ داری قائم کرنا ،  معاملات کرنا ، اُسکا ذبیحہ کھاناحتی کہ اُسکےلیےاپنےدل میں رحم دلی تک رکھناسب رسولِ اکرم ﷺ کےمذکورہ فرامین کی روشنی میں ناجائز ہے۔
ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عملی طورپرہروہ سبب اور ذریعہ اختیار کرےجس سےاُسکےدل میں اصحابِ محمد کی محبّت و احترام پیداہواورقائم رہے ،اُنکی سیرت کا مطالعہ کرے ، اُنکے ذکرِ خیر پر مشتمل محافل و مجالس منعقد کرے،اور اُن محفلوں میں  اپنے اہل وعیال سمیت شریک ہو،اورعملی طور پر گفتار و کردار کے لحاظ سے اُنکے نقشِ قدم پر زندگی گذارنے کی کوشش کرے، اسکے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت  اُنکی سیرت و کردار پر کرے، اورصحابہ کرام کی زبانی و عملی محبّت کا زبان وقلم کے ذریعہ بھرپور پرچار کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمین
حوالہ جات
[1] فاضل اسلامک یونیورسٹی مدینہ منوّرہ ، مدیر شعبہ دعوت و تبلیغ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی
[2] تقیہ کا مطلب ہے کہ زبان سے ایسی بات کرنا جو دل میں مقصود نہ ہو یعنی اپنے دل میں موجود بات کو چھپاتے ہوئے زبان سے اُسکے خلاف اظہار کرنا ، جو یہ لوگ اپنے عقائد کی ترویج کے خاطر کرتے ہیں اور اسےایمان کا بنیادی رکن اور حصہ سمجھتے ہیں ، ہی وجہ ہے کہ سامنے والا بڑی آسانی سےاُن کے دھوکے میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اسی طرح آج تک یہ طبقہ اپنے بغض وعناد کو چھپاتا آیا ہے جس کی وجہ سے انکی  حقیقت عام مسلمانوں سے پوشیدہ ہے۔
[3] اس قول کی نسبت یہ لوگ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف کرتے ہیں (جو یقیناً  اُن کے اس جھوٹ سے بری ہیں)  اور یہی بات اُن کے امام خمینی سے بھی منقول ہے۔

[5] لسان العرب (1/519)
6 الإصابة فی تمييز الصحابة لابنِ حجر1/7،8
[7] ايضاً۔
[8] الإصابة فی تمييز الصحابة لابنِ حجر1/7،8
[9] اختصار علوم الحديث ص:133،حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے مذکورہ مقام پر یہی رائے رکھنے والے دیگر اہلِ علم کے نام بھی ذکر کیے ہیں،جو وہاں دیکھے جاسکتے ہیں ۔
[10] صحيح البخاری (3/1335)
[11] صحيح البخاری:4/1603- 1604ح: 4156 و مسلم 4/2120-2121 ح: 2769
[12] [الأحزاب: 6]
[13] ہر زمانہ میں امت مسلمہ کا وہ طبقہ  جو حق پر،کتاب وسنّت پر قائم  ہو اُسے «اہل السنہ والجماعہ» کہا جاتا ہے)
[14] [آل عمران: 110]
[15] رواه الترمذی : 4/83 وحسّنه وقال الحاکم صحیح۔
[16] متفق عليه وهذا لفظ البخارى:ح؛3650
[17] شرح النورى على مسلم 16/84
[18] مقدمة الاستیعاب تحت الاصابة (1/2)
[19] جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر فی 2/947، و ذمّ الکلام:للهروی 4/288،
[20] الشریعة للآجری:4/1685،و شرح السنة للبغوی:1/214
[21] صحیح البخاری 1/14 ح:17 وصحیح مسلم 1/85 ح:74
[22] نهج البلاغه : ص:143، الکافی:2/236،بحارالانوار:66/307
[23] الصحیفه سجادیه ص:42
[24] شرح العقیدۃ الطحاویة 2/704
[25] کتاب الرّقائق والحکایات لخیثمة بن سلمان،ص:171
[26] العلل و معرفة الرّجال للامام احمد 1/452،453
[27] مسندالامام ابن القاسم الجوهری ،ص:110 و شرح اصول الاعتقاد للالکائی7/1240
[28] الجمهرة، ص:3
[29] [النساء: 95]
[30] سورۃ الفتح آیت :29
[31] رواه الطّبرانی والحديث حسن واسناده صحیح رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين غير محمد بن خالد و هو الغبي الملقب بسور الأسد وهو صدوق.وللحديث بعض الشواهد الموصولة المسندة ومن أجلها حسّنهُ الألبانى: في صحيح الجامع 6285 و كذا في الصحيحة 2340.
[32] اہل السنہ والجماعہ اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دنیا میں صرف انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیم ہی  معصوم ہیں اس معنی میں کہ ان سے گناہ نہیں ہوتےاور انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی نہیں کہ جو گناہوں سے معصوم ہو،اگرچہ وہ اہلِ بیت اور صحابہ کرام ہی کیوں نہ ہوں۔
[33] تفسیر قرطبی 16/297
[34] تفسير ابن كثير ت سلامة (7/ 362)
[35] رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر 10/198 ح: 10448،وصححه الالبانی فی الصحیحة رقم الحدیث: 34۔
[36] صحیح البخاری 3/1343 ح: 3470، صحیح مسلم 4/1967  ح:2540
[37] روہ احمد رقم:16849 و البخاری فی التاریخ الکبیر 5/131 و والترمذی 5/696 ح:3862 و ابو نعیم فی الحلیة 8/287 و البیهقی فی شعب الایمان 2/191 ح:1511 و ابن حبّان 16/244، ح:7256 و الدیلمی 1/146،ح:525۔
[38] رواہ الطّبرانی والحديث حسن.
[39] أخرجه الطبراني فی المعجم الأوسط و الکبیر والحاکم في المستدرك: 3/632 وقال: صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأقره الذهبى ، والآجري فی الشريعة:1973،1972 وأبو نعيم فی حلية الأولياء:1400،1401وفی معرفة الصحابة وکذا رواه الحمیدی فی مسنده،وابن أبي عاصم فی الآحاد والمثاني وغیرهم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے