نام : ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عدوی قرشی ملقب بہ فاروق
پیدائش : 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ مکرمہ میں
سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد عربی ﷺ کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔سیدنا عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ان کا شمار علماء،زاہدین صحابہ میں ہوتاتھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اگست 634ء بمطابق 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو مسند خلافت سنبھالی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  ایک باعظمت،انصاف پسند اورعادل حکمران مشہور ہیں ، ان کی عدالت میں مسلم وغیرمسلم دونوں کو یکساں انصاف ملاکرتا تھا،موصوف کا یہ عدل وانصاف انتہائی مشہور ہوا اور آپ کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
آپ کا نسب کعب بن لؤی بن غالب پرجاکر نبی کریم ﷺ سے مل جاتاہے آپ رضی اللہ عنہ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے عالی نسب تھے۔آپ کی کنیت ابو حفص ہے اور آپ کا لقب فاروق ہے اس لیے کہ آپ نے مکہ مکرمہ میں جب اسلام کا اظہار کیا تو اس کے ذریعے سے اللہ نے کفر اور ایمان کے درمیان کھلی جدائی کر دی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عام الفیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے آپ رضی اللہ عنہ گورےچہرے،خوبصورت آنکھوں،درازقامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے ، بے حد طاقتور تھے آپ رضی اللہ عنہ کمزور اور بزدل ہرگزنہ تھے۔ آپ کی بیویاں جن سے آپ نے زمانہ جاہلیت یااسلام میں شادی کی پھر ان کو طلاق دیدی جو آپ کی عصمت میں وفات تک رہیں ان کی مجموعی تعداد سات ہے۔(البدایۃ والنہایۃ 7/144)
آپ کثرتِ اولاد اور امتِ محمدیہ میں اضافے کی نیت سے شادی کرتے تھے آپ کا قول ہے :
’’میں صرف نفسانی خواہش کی وجہ سے عورتوں کے پاس نہیں آتا،اگر اولاد کامعاملہ نہ ہوتا تومجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروانہ ہوتی کہ اپنی آنکھوں سے کسی عورت کو دیکھوں ۔‘‘
مجموعی طور پر آپ کی کل تیرہ اولادیں ہوئیں۔نوبیٹے اور چار بیٹیاں
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہجری تقویم کے بانی ہیں ، ان کے دور میں عراق،مصر،لیبیا،سرزمین شام ،ایران،خراسان،مشرقی اناطولیہ،جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہوکر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تین مربع میل پر پھیل گیا۔سیدنا عمر ہی کےدور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا ، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیرنگین آگیا۔ موصوف نے جس مہارت،شجاعت اورعسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہت کو دوسال سے بھی کم عرصہ میں زیر کرلیا، نیز اسی سلطنت وحدود سلطنت کا انتظام رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اوردیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اورمہارت وذمہ داری کے ساتھ نبھایا یہ اُن کی عبقریت کی دلیل ہے۔
زمانہ شاہد ہے وہی لوگ حاصلِ حیات ٹھہرے جنہوں نے زندگی کی حقیقی روح کو پالیا۔زمانہ اُن ہی کی لافانی عظمت کو سلام کرتاہے جنہوں نے وقت کی جبین پر اپنے معجزانہ عمل کے ثبوت نقش کیے۔ جب ہم زمانے کو تسخیر کرنے والی شخصیات کانام لیں تو ان کی روشن جھلک میں سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کانام جگمگاتاہے جن کا ہر قول وعمل عظمت کردار ہوتاتھاجوبولتے زمین پر تھے تو رب آسمانوں سے ان کی تائید میں احکامات اتاردیتاتھا۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ میں ایک روشن اورتابندہ باب ہے جوہرتاریخ سے افضل وبرترہے ، ایسی روشن زندگی کہ جس کی شرافت،بزرگی،اخلاص،بندگی ،جہاد اور دعوت الی اللہ کا معمولی حصہ بھی دوسری تمام قوموں کی تاریخ نہیں سمیٹ سکی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا لمبا عرصہ زمانۂ جاہلیت میں گزارا اورقریش کے اپنے ہم عمروں کیساتھ پلے پڑھے۔ آپ  اس اعتبار سے ان سے ممتاز تھے کہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔ایسے لوگ تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔ آپ نے بچپن ہی سے ذمے داری کا بوجھ اٹھایا ، انتہائی سختی اور تنگی کے ماحول میں جوان ہوئے۔ایسی سختی کہ عیش وعشرت اور مالداری کی کسی علامت کو جانا ہی نہیں۔آپ کے باپ خطاب سختی سے آپ کو چراگاہ کی طرف اونٹ چرانے کے لیے بھیجتے تھے ،بلاشبہ اسلام لانے سے پہلے مکہ کی زندگی میں جناب عمر کے اس پیشے (گلہ بانی) سے جڑے رہنے نے ان کو قوت،تحمل وبرداشت،بہادری اورسخت گیری جیسی صفات کا مالک بنادیا تھا۔
لیکن جب آپ نے اسلام قبول کیا اور اس کی خوبی وحقانیت کو پہنچانا ، ہدایت وگمراہی،ایمان وکفر اورحق وباطل کے درمیان حقیقی فرق سے واقف ہوگئے تو کایا ہی پلٹ گئی ،پھر ایسی روشن وتابناک زندگی گزاری کہ جس کی مثال تاریخ کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔ آپ نے نظام حکومت کی اساسیات مثلاً : شورائیت،عدل وانصاف ،لوگوں میں مساوات اورآزادئ فکر ونظر کوواضح کیا، آپ کی خاندانی زندگی اورمنصب خلافت پر فائز ہوجانے کے بعد معاشرے کی خواتین کی دیکھ بھال، اپنی رعایا کے صلحاء ومصلحین کی حفاظت،لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے اہتمام اورسماج کے سرکردہ افراد کی تربیت،بعض نامناسب اور بے جاتصرفات پرنکیر،صحت عامہ اورنظام احتساب کا اہتمام،تجارت اور بازاروں کی اصلاح، نیز معاشرے میں شریعت کے اہم مقاصد کے لازمی وجود کی طرف آپ کی خاص توجہ ، مثلاً: توحید کی مکمل حمایت ، بدعتوں اورگمراہیوں کاسدباب،امورعبادت کا اہتمام اورمجاہدین کی عزت وناموس کی مکمل حفاظت آپ کی اہم صفات وخصوصیات ہیں۔
آپ نے آبادیاتی ترقی اوراس سلسلے میں آنے والے وقتی بحران سے نمٹنے کابندوبست کیا۔گزرگاہوں اورخشکی اورسمندری وسائل،نقل اورسڑکوں اورراستوں نیز فوجی چھاؤنیوں اور تمدنی مراکز کے قیام کا آپ نے شدت سے اہتمام کیا۔ آپ کے دورِ حکومت میں بصرہ،کوفہ ،فسطاط جیسے بڑے بڑے شہر آباد ہوئے۔مالیاتی اور عدالتی نظام کی ترقی،ملکی آمدنی کے ذرائع ،بیت المال کا قیام،مردم شماری کے دفاتر کی تیاری نیز اسلامی مملکت کے اخراجات اورخراج کی زمینیں،سکوں کی ایجاد میں آپ کا کردار،قحط سالی سے نمٹنے کے لیے آپ کابہترین اسلوب، الغرض آپ کی پوری زندگی ایسے ہی عظیم کارناموں سے لبریز ہے۔فتح عراق، ایران، شام، مصراورلیبیا آپ کےدور کی عظیم ترین فتوحات ہیں۔
آپ ایمان،علم،فکر،گفتگو،اخلاق اور اخلاص کاعملی نمونہ تھے۔آپ نے عظمت وبرتری کو ہر طرف سے سمیٹ لیا تھا اور یہ عظمت آپ کو گہری بصیرت،اسلام کو عملاً کردکھانے،اللہ کےساتھ مکمل تعلق رکھنے اور نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کے نتیجے میں میسر آئی تھی۔سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ ان اماموں میں سے ہیں جنہوں نے لوگوں کے لیے نشانِ راہ متعین کیا اور جن کے اقوال وافعال پر اس دنیا میں عمل کرتے ہوئے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت آپ کی سیرت ایمان کے طاقتور سرچشموں میں سے ایک ہے اور صحیح اسلامی جذبہ کی علامت اور اس دین کی صحیح سمجھ کے لیے ایک منارہ ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے علمی کارناموں نے مدینہ کو فقہ وفتاویٰ کامرکز اور ایسا مدرسہ بنادیا کہ جس سے علماء،مبلغین،گورنر اورقاضی حضرات فارغ ہوئے اوردوسرے شہروں کی علمی درسگاہوں مثلاً : مدینہ،کوفہ ،بصرہ،شام اور مصر کے مدارس میں آپ کے نمایاں کارنامے ہیں۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے متخصص علماء پر مشتمل ایک علمی گروہ تیار کیا اور اسے شہروں میں بھیجا، فتوحات کادائرہ وسیع ہونے کے ساتھ امراء اورقائدین کو حکم دیا کہ وہ مفتوحہ علاقوں میں مساجد قائم کرتے جائیں تاکہ وہ دعوت ،تعلیم،تربیت اور اسلامی تہذیب وثقافت کی نشرواشاعت کامرکز بن جائیں، مسجدیں ہی اسلام کی اولین علمی درسگاہیں تھیں۔ وہیں سے علمائےصحابہ بخوشی مسلمان ہونے والی جماعت کو دین سکھاتے جاتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تقریباً بارہ ہزارمساجد میں نمازِ جمعہ ادا کی جاتی تھی۔ ان علمی مراکز کا قیام ان عسکری مراکز کے بعد ہوا جنہوں نے عراق،ایران،شام،مصر اورمغرب کے شہروں کوفتح کیا ان علمی،فقہی اوردعوتی مراکز کی قیادت ان ہاتھوں میں تھی جن کی تربیت مدینۃ الرسول میں آپ ﷺ کے ہاتھوں سے ہوئی تھی ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان باصلاحیت افراد سے فائدہ اٹھایا، ان کی بہترین راہنمائی کی اورمناسب مقام پر ان کو استعمال کیا پھر ان صلاحیتوں نے ایسی علمی اور فقہی تحریک والی جماعت تیار کی جومسلسل فتوحات کے درپے تھی۔
سیدنا فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو آس پاس کے بعض مکانات خرید لیئے، جنوبی طرف سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا مکان مسجد سے متصل تھا،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : اے ابو الفضل ! مسلمانوں کی مسجد تنگ ہوگئی ہے توسیع کے لیے میں نے آس پاس کے مکانات خریدلیئے ہیں، آپ بھی اپنا مکان فروخت کردیں، اور جتنا مال طلب کریں میں بیت المال سے ادا کروں گا، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں یہ کام نہیں کرسکتا، دوبارہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تین باتوں میں سے ایک بات مان لیں ،یا تو اسے فروخت کردیں اور معاوضہ جتنا چاہیے لے لیں یا مدینہ میں جہاں آپ کہیں وہاں آپ کے لیے مکان بنوادوں، یاپھر مسلمانوں کی نفع رسانی اورمسجد کی توسیع کے لیے وقف کردیں، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ان میں سے کوئی بات بھی منظور نہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا مسئلہ حل ہونے والا نہیں ، تو آپ جسے چاہیںفیصل مقرر کردیں، وہ ہمارے اس معاملے کا تصفیہ کردے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں ابی بن کعب کو فیصل بناتاہوں ، دونوں حضرات اٹھے اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مکان پر پہنچے ، سیدنا اُبی رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے اعزاز میں تکیہ لگوایا اور دونوں بزرگوں کوبٹھالیا، سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے سیدناعباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ابو الفضل! آپ اپنی بات کیجیے، سیدنا عباس نے کہا : یہ زمین جس پر میرا مکان ہے خود رسول اللہ ﷺ کی عطاکردہ ہے ، یہ مکان میں نے بنایا اورخود رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس اس کی تعمیر میں شریک رہے اللہ کی قسم! یہ پرنالہ خود رسول ﷺ کے ہاتھ کالگایا ہواہے اس کے بعد سیدنا عمر نے اپنی بات کہی، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ دونوں اجازت دیں تو میں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث سناؤں، دونوں بزرگوں نے عرض کیا بیشک سنایئے ، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک گھر تعمیر کرو جس میں مجھے یادکیاجائے ، اورمیری عبادت کی جائے چنانچہ جہاں پر مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں من جانب اللہ زمین نشان زد کردی گئی، نشان مربع نہ تھا ایک گوشہ پر ایک اسرائیل کا مکان تھا سیدنا داؤد علیہ السلام نے اس سے بات کی اور کہا : اس مکان کو فروخت کردو تاکہ اللہ کا گھر بنایا جاسکے، اس نے انکار کردیا، داؤد علیہ السلام نے اپنے جی میں سوچا یہ گوشہ زبردستی لے لیاجائے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عتاب نازل ہوا ،اے داؤد علیہ السلام میں نے آپ کو اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے کہاتھا، اور آپ اس میں زبردستی کوشامل کرناچاہتے ہیں یہ میری شان کے خلاف ہے ، اب آپ کی یہ سزاہے کہ میرا گھربنانے کا ارادہ ترک کر دیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، میں جس ارادے سے آیا تھا آپ نے اس سے بھی سخت بات کہہ دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کو مسجدنبوی میں لے آئے ، وہاں کچھ صحابہ حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ، سیدنا اُبی نے کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں،اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس تعمیر کرنے والی حدیث کو سنا ، ایک اور صحابی نے کہا میں نے سناہے، اب سیدنااُبی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا اے عمر! آپ  مجھ کو رسول ﷺ کی حدیث کے بارے میں تہمت دیتے ہیں، سیدنا عمر نے فرمایا:  اللہ کی قسم اے ابو المنذر! میں نے آپ پر کوئی تہمت نہیں لگائی ، میں چاہتا تھا کہ رسول ﷺ کی یہ حدیث بالکل واضح ہوجائے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے اورکہا، جایئے اب میں آپ سے آپ کے مکان کے بارے میں کچھ نہ کہوں گا ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آپ نے ایسی بات کہہ دی تو اب میں اپنا مکان توسیع مسجد کے لیے بلامعاوضہ پیش کرتاہوں لیکن اگر آپ حکماً لینا چاہیں گے تو نہیں دوں گا، اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں دوسری جگہ پر بیت المال کے خرچ سے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے لیے مکان بنوادیا، ایک روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ پرنالہ اکھاڑنے کا حکم دیا تھا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یہ پرنالہ خود رسول اللہ ﷺ کے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا یہ بات سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تو آپ میری پیٹھ پر سوار ہوکر یہ پرنالہ وہیں پر لگادیجیے جہاں سرکار دوعالم نے لگایا تھا، عثمانیہ دور کے بعد پرنالہ کی جگہ کو قائم رکھا گیا جس پر سورۃ البقرۃ کی آیات الکریمہ تحریر کی گئی ہے ، جو اس واقعہ کی یاددہانی بھی کراتی ہیں اوردرس بھی دیتی ہیں۔

وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى وَاتَّقُوْنِ يٰۤاُولِي الْاَلْبَابِ

’’اور تم جو نیکی کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے ، اور زاد راہ لے لیا کرو اوربہترین زادراہ پرہیزگاری ہے اور اے عقل مندوں ! مجھ سے ڈرو۔‘‘(البقرة:197)
ایک مرتبہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کےپاس آنے کی اجازت مانگی لیکن اجازت نہ ملی شاید عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مشغول تھے ، ابو موسیٰ اشعری واپس لوٹ گئے جب سیدنا عمر اپنے کام سے فارغ ہوگئے تو کہا، کیا میں نے سیدناعبد اللہ بن قیس ( ابو موسی اشعری) کی آواز نہیں سنی، ان کوآنے کی اجازت دو ، آپ کو بتایاگیا کہ وہ واپس چلے گئے ، آپ نے ان کو بلوایا (اور واپس جانے کی وجہ پوچھی) سیدنا ابو موسیٰ نے جواب دیا کہ ہم اسی بات کا حکم دیئے جاتے تھے (یعنی اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائیں) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنی بات پر کوئی گواہ لاؤ ، تو سیدناابو موسیٰ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے پوچھا( کہ اور کسی نے اس حدیث کو سنا ہے) انہوں نے کہا: اس حدیث کی گواہی ہمارا سب سے چھوٹا آدمی دے گا، سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا : ہاں ہم اس بات کا حکم دیئے جاتے تھے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان میں نہیں جان سکا، کاروبار اورتجارت نے مجھے اس سے غافل کردیا، اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں گھبرائے ہوئے ابو موسیٰ آئے اور کہا: میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے تین بار اجازت مانگی  لیکن اجازت نہ ملی تو واپس ہوگیا ، انہوں نے بعد میں مجھ سے پوچھا کہ تم واپس کیوں چلے گئے، تو میں نے بتایا کہ تین مرتبہ اجازت مانگی تھی لیکن جب اجازت نہ ملی تو میں واپس ہوگیا اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ :

 إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ

’’جب تم میں کوئی تین مرتبہ اجازت مانگے اور اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ لوٹ جائے۔‘‘(صحیح مسلم:2153)
(میری یہ بات سن کر) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ، لہٰذا آپ میں سے کسی نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے سنی ہے ، سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے ساتھ اس سلسلے میں گواہی دینے اس جماعت کا سب سے چھوٹا آدمی جائے گا اور پھر میں ابو موسیٰ کے ساتھ کھڑا ہوا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ حدیث بیان کی ۔اس طرح کی بے شمار احادیث ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ احادیث کو قبول کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اسی طرح سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بچہ ساقط کرنے کے جرم میں صحابہ سے مشورہ لیا تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی دیت میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گواہی مانگی تو محمد بن مسلمہ نے گواہی دی۔(سنن النسائی : 317) اسی طرح کے بے شمار واقعات ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ احادیث کو حجت سمجھتے تھے مگر احتیاط کرتے ہوئے۔
آپ کے دسترخوان پر کبھی دوسالن نہیں رکھے گئے ،آپ زمین پر سر کےنیچے اینٹ رکھ کر سوجاتے ،آپ سفر کے دوران جہاں نیند آتی تودرخت پر چادر تان کر سوجایا کرتے تھے اور رات کو ننگی زمین پر دراز ہو جاتے تھے آپ کے کرتے پر چودہ پیوند تھے اور ان پیوندوںمیں ایک سرخ چمڑے کاپیوند بھی تھا، آپ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے تھے ، آپ کو نرم باریک کپڑے سے نفرت تھی ، آپ شہادت کے وقت مقروض تھے، اس لیے وصیت کے مطابق آپ کا گھر بیچ کر آپ کا قرض اتارا گیا۔
آپ رات کو تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے تھے ، آپ نے دنیا میں سب سے پہلے دودھ پیتے بچوں،بیواؤں اور بے آسراؤں کے وظیفے مقرر کیئے، آپ دنیا کے پہلے خلیفہ تھے جن کو امیر المؤمنین کا لقب ملا ، آپ دنیا کے وہ واحد حکمران تھے جو کہتے تھے کہ میرے دور میں فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو اس کا گناہ عمر پر ہے۔ آپ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں،سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا ، آپ نے بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کاسلسلہ شروع کیا اور آپ نے دنیا میں پہلی بار حکمران طبقہ کی جانچ پڑتال شروع کی۔آپ اکثر کہاکرتے تھے ’’ظالم کو معاف کردینا مظلوموں پر ظلم ہے۔‘‘
آپ کا یہ جملہ انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتاہے’’مائیں بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے کب سے اُنہیں غلام بنانا شروع کر دیا۔‘‘
دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہے اسلام کی سب سے بڑی خوبی عدل ہے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس خوبی پر پورا اُترتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ کوآج پوری دنیا  ’’عدل فاروقی‘‘ سے پہچانتی ہے۔آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ آپ کے انتقال کے وقت آپ کی سلطنت کے دوردراز علاقے میں ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چلانے لگا’’اے لوگو! امیرا لمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔‘‘
لوگوں نے حیران ہوکر کہا کہ ’’تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو، تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی؟‘‘ تو چرواہا بولا : امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ جب زندہ تھے تو میری بھیڑیں کھلے عام جنگل میں گھومتی تھیں کوئی بھیڑیا انہیں آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا اور آج ایک بھیڑیا میری بکری کا بچہ اٹھا کر لے گیا،اسی سے میں نے جان لیا کہ اب دنیا میں امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نہیں رہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دنیا کو ایسا نظام دیا جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہے، آپ کے عہد میں باقاعدہ نمازِ تراویح کاسلسلہ شروع ہوا، آپ نے شراب نوشی کی سزا مقرر کی، سن ہجری کا اجراء کیا،جیل کا تصور دیا، مؤذنوں کے مشاہرے مقرر کیئے، مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کروایا، پولیس کا محکمہ قائم کیا، ایک مکمل عدالتی نظام کی بنیاد رکھی ، آبپاشی کا نظام بنایا، فوجی چھاؤنیاں بنائیں اور فوج کا باقاعدہ محکمہ بنایا۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کی اسلام کے لیے بے شمار خدمات، عدل وانصاف پر مبنی فیصلے،جرأت وبہادری اورفتوحات اور اپنے شاندار اورپاکیزہ کردار کی وجہ سے اسلام کا چہرہ روشن اور سورج کی طرح چمکا دیا ہے ہر وہ معاشرہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کو تاریخ کا سکندر مانتی ہے جہاں آج بھی نظام عمر کا کوئی نہ کوئی شعبہ رائج ہے، ماسوائے اُن مسلمانوں کے جو آج احساس کمتری کا اس قدر شکار ہیں کہ کلمہ پڑھنے کے لیے بھی دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔لاہور کے مسلمانوں نے ایک بار انگریز سرکار کو دھمکی دی کہ اگر ہم گھروں سے نکلے تو تم چنگیز خان کو بھول جاؤ گے تب جواہر لال نہرو نے افسوس سے مسکرا کر کہا تھا یہ چنگیز خان کی دھمکی دینے والے مسلمان یہ بھول گئے ہیں کہ ان کی تاریخ میں ایک سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھا۔
واقعی ہم آج یہ بھول گئے کہ ہم میں ایک عمر بھی تھا وہ عمر رضی اللہ عنہ کہ جس کے بارے میں میرے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ (بخاری :3294ومسلم:2396)

’’ عمر جس گلی سے گزر جائے شیطان اس گلی سے بھاگ جاتاہے۔‘‘
میرے نبی ﷺ نے فرمایا تھا :
لَوْ كَانَ مِنْ بَعْدِي نَبِيٌّ، لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (مسند أحمد:17405)
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔‘‘

اللهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً (ابن ماجه:105)

’’ اے اللہ! عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔‘‘
اسلام لانے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قرآنی منہج پر تربیت پائی اور رسول اللہ ﷺ آپ کے مربی تھے۔آپ سے عمر رضی اللہ عنہ کی اولین ملاقات ہی قرآنی تربیت کا آغاز تھی۔اس ملاقات کے بعد آپ کی زندگی میں بالکل انوکھی تبدیلی آئی  اور یکایک ہدایت سے سرفراز ہوئے ۔تاریکیوں سے روشنیوں کی طرف نکل آئے ، ایمان کو گلے لگایا اور کفر کو رونددیا، اپنے دین اورآسان عقیدے کیلئے اس راستے کی تمام مشقتوں اورمشکلات کو برداشت کرنے کے عادی ہوگئے۔دراصل رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہی آپ کے اسلام لانے کا اصل محرک تھی کیونکہ آپ ﷺ کی شخصیت میں جاذبیت اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کی قوت تھی۔ آپ اسوۂ حسنہ میں غوطہ زن رہنے کے بہت حریص تھے خواہ آپ غزوہ کی حالت میں ہوں یا امن کی حالت میں ، آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے ، آپ سے اسلامی شریعت کو سنا اور یاد کیا ، جب  مجلس نبوت میں تشریف لے جاتے تومجلس ختم ہونے تک وہیں رہتے ، آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ جو بات دل میں کھٹکے یاپریشان کرے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرلیں۔ آپ نے علم ،تربیت،دینِ عظیم یعنی اسلام کے مقاصد کی معرفت کے لیے رسول اللہ ﷺ سے فیض اٹھایا اورخود رسول اللہ ﷺ نے بھی آپ کی خصوصی نگہداشت کی، انہیں اپنا فیض پہنچایا اور ان کے لیے علم کی گواہی دی۔ارشاد نبویﷺ ہے :

بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، شَرِبْتُ، يَعْنِي، اللبَنَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَى الرِّيِّ يَجْرِي فِي ظُفُرِي أَوْ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ» فَقَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ؟ قَالَ: «العِلْمَ»(صحيح البخاري:3681)

’’ میں نے خواب میں دودھ پیا اتنا پیا کہ میں نے دیکھا کہ اس کی تروتازگی میرے ناخن یا ناخنوں کے نیچے سے نکل رہی ہے پھر میں پیالہ عمر کو دےدیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اس کی تاویل کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : علم۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہاں علم سے مراد قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں پرسیاست کرنے کا علم ہے۔ درحقیقت یہ معرفت اسی کو حاصل ہوسکتی ہے جو قرآن کریم اور سنت نبوی ﷺ کے سمجھنے کے معاون اسباب ووسائل پر گہری نظر رکھتا ہو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ زبان وادب کے سمجھنےکا ملکہ ہو، اس کے اسلوب کی معرفت پر مہارت ہو بلکہ ہر وہ تجربہ اورعلم جو شریعت فہمی کے لیے معاون ثابت ہو اسے حاصل کیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان تمام خصوصیات کے مالک تھے، موصوف نے ایک دن آپ ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا :

لاَ تَنْسَانَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ (رياض الصالحين:714)

’’اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولنا۔‘‘ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے نہ پسند کیا کہ دنیا کی کوئی چیز میرے نزدیک آپ ﷺ کے فرمان ’اے میرے بھائی‘ سے زیادہ پسندیدہ ہو ۔ یہ بلند اورپاکیزہ محبت ہی تھی جس کی وجہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں آپ ﷺ کے ساتھ رہے اور جنگی فنون میں تجربہ،مہارت اور فہم وبصیرت نیز انسانوں کی طبیعت اوراحساسات کی گہری معرفت نے اس محبت میں چارچاند لگادیئے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کی مصاحبت اور آپ کے ساتھ کثرت گفتگو نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فصاحت،بلاغت،کلام میں روانی اور بات کرنے میں مختلف اسلوب عطا کیئے۔
آفتاب کتنا ہی روشن ہواسے ڈوبنا ہی ہوتاہے اور پھر تاریخ کا یہ بے تاج بادشاہ بے شمار اصلاحات وفتوحات کے بعد 24 ہجری کو دارفانی سے کوچ کر گیا مگر اپنا نام تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف میں لکھواگیا جسے زمانہ ہمیشہ یاد رکھے گا اور کہے گا :
اک ابرنو یہاں فضاؤں میں چھا گیا
عمر اسلام کی رگوں میں سماگیا
شہادت: 6 نومبر 644ء مدینہ منورہ میںہوئی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے