نبي اکرم ﷺ کے بعد مسلمانوں کےليے جو ہستي سب سے زيادہ افضل ،معزز اور محترم ہے وہ سيدنا ابو بکر صديق   رضی اللہ عنہ ہيں۔ آپ کے بعد سيدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ پھر سيدنا عثمان  رضی اللہ عنہ پھر ان کے بعد سيدنا علي  رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ ہے پھر عشرہ مبشرہ ہيں پھر بدري صحابہ ہيں پھر بقيہ تمام صحابہ ہيں۔ آيئے جاننے کي کوشش کرتے ہيں کہ ان عالي مرتبت ہستيوں نے يہ مقام کيسے حاصل کيا؟

سب سے پہلے سيدنا ابو بکر صديق  رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرتے ہيں جنہوں نے شروع سے آخر تک نبي کريم ﷺ کا ساتھ نبھايا۔ اس وقت آپ کي تصديق کي جب آپ کو چاليس سال تک صادق اور امين کہنے والے آپ کو نعوذ باللہ جھوٹا اورجادوگر کہنے لگے تھے جب آ پﷺ رب تعاليٰ کي دعوت پر جبرائيل uکي معيت ميں ساتوں آسمانوں اورسدرة المنتھي اور رب ذوالجلال والاکرام سے حجائبات النور کي آڑ ميں ملاقات کرکے تشريف لائے اور آپ uنے يہ احوال قريش مکہ سے بيان فرمايا تو کفار کو استہزاء کا موقع مل گيا ليکن يہ سيدنا ابوبکر صديق  رضی اللہ عنہ ہي تھے جنہوں نے بلاتردد اس واقعے کي تصديق فرمائي کہ اگر محمد ﷺ نے ايسا فرمايا ہے تو پھر يقيناً ايسا ہي ہوا ہے۔ اور صديق کے لقب سے سرفراز ہوئے۔پھر يہي سيدنا ابو بکر صديق ہي تھے جنہوں نے ہجرت سے قبل نبي عليہ السلام کو کفار کے نرغے سے نکالا جب وہ آپ کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ سفر ہجرت مدينہ کي داستان توہر مسلمان کو ازبر ہے جب صديق اکبر نے يارغار کو ہر تکليف سے بچانے کے ليے اپنے آپ کو پيش کيا اور زہريلے کيڑے کے کاٹنے کے باوجود آپ ﷺ کو آگاہ نہ کيا مبادا آپ کي نيند ميں خلل واقع ہو ليکن آنسوؤں نے اس راز کو عياں کر ديا اور آپ کے لعاب دہن مبارک نے زخم پر ترياق کا اثر کيا پھر يہ سيدنا ابو بکر صديق ہي تھے جو غزوۂ  تبوک کے موقع پر گھر کا سارا سامان اٹھائے حاضر خدمت ہوگئے اور پوچھنے پر بتايا کہ گھر ميں محض اللہ اور رسول کا نام چھوڑآيا ہوں۔خلافت ملنے کے بعد بھي عاجزي اتني کہ ايک نابينا شخص کي خدمت کے ليے روزجاتے رہے اور آپ کي وفات کے بعد جب سيدنا عمر  رضی اللہ عنہ کھوج لگا کر وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس شخص کو تويہ بھي معلوم نہيں کہ خليفة المسلمين سيدنا ابو بکر صديق رضي اللہ عنہ اس کي خدمت کرتے رہے ہيں۔ آپ ﷺ نے فرمايا تھا کہ مجھ پر جس نے بھي احسان کيا ميں نے اس کا بدلہ دے ديا ليکن سيدنا ابو بکر صديق  رضی اللہ عنہ کے احسانات کا بدلہ نہيں چکا سکا۔ سيدنا عمر  رضی اللہ عنہ فرمايا کرتے تھے کہ ميري ساري عبادات کا ثواب لے ليں فقط اس ايک رات کا ثواب مجھے دے ديں جو آپ نے غارثور ميں نبي کريم ﷺ کے ساتھ بسر کي۔ احاديث مبارکہ ميں وارد ہے کہ انبياء کرام عليہم السلام کے بعد جنت ميں سب سے پہلے داخل ہونے والے فرد سيدنا ابو بکر صديق  رضی اللہ عنہ ہي ہوں گے۔ اور آپ ﷺ نے فرمايا کہ اے ابو بکر! مجھے گمان ہے کہ تم انہي لوگوں ميں سے ہوگے جنہيں جنت کے آٹھوں دروازوں سے پکارا جائے گا۔ آپ  رضی اللہ عنہ نے اسلام کي خاطر گھر بار چھوڑا ہجرت فرمائي جان اور مال سب دين کي خاطر نچھاور کيا۔ اپني لخت جگر نور نظر سيدہ عائشہ رضي اللہ عنہا کو نبي کريم ﷺ کے نکاح ميں ديا۔ خليفة المسلمين کا منصب سنبھالا تو ذريعہ روزگار تجارت کو بھي داغ مفارقت دے ديا اور پوري توجہ اخلاص اور دردمندي کے ساتھ مسلمانوں کے اجتماعي امور کو نبھايا آپ کے دور کے آغاز ميں ہي مسيلمہ کذاب اور مانعين زکوٰة کا فتنہ اٹھا ليکن آپ نے کسي کمزوري کا مظاہرہ نہ کيا اور ان فتنوں کا سدباب کيا۔تقويٰ کا يہ عالم کہ بيوي نے کافي دنوں تک ايک ايک چٹکي آٹا بچاکر حلوہ بنايا تو حساب لگا کر بيت المال سے اتني رقم کم کر دي کہ يہ اضافي ہے جس ميں ايک چٹکي آٹا روز بچ جاتاہے۔

ہم نے اختصار کے ساتھ صرف ايک صحابي کے احوال ميں سے کچھ پہلو بيان کيئے ہيں ۔ اللہ تعاليٰ سے دعا ہے کہ ہميں نبي کريم اور آپ کے صحابہ کرام yکے نقش قدم پر چلنے کي توفيق عطا فرمائے اور جيسے ان سے راضي ہوا ہم سے بھي ايسے ہي راضي ہوجائے اور جنتوں ميں ہميں ان انعام يافتہ افراد کي رفاقت کے شرف سے بہرہ مند فرمائے۔ آمي

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے