19 اکتوبر بروز سوموار جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میںاہل حدیث ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام ایک  عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں اہل حدیث کی مختلف جماعتوں کےقائدین نے شرکت کی اورمختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے عوام الناس کا جمع غفیر اس سیمینار کی زینت بنا۔اس سیمینار میں مختلف اسکالرز نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ذیل میں مشہور و معروف اسکالرز کےخطابات کا خلاصہ قارئین کی نذرکیا جارہا ہے


پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی حفظہ اللہ


اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ•

جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں کج روی اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے ، وہ جو جہنم کی آگ میں ڈالا گیا وہ بہتر ہے یا وہ جو روزِ قیامت اس حال میں آئے جو ہر قسم کی مصیبتوں اور عذابوں سے مأمون ہو ، ہاں تم اپنے عمل کیئے جاؤ اپنی مرضی سے لیکن یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‘‘(حم سجده:40)
آج کی محفل شعائر اسلام کے حوالے سے بالعموم اورصحابہ کرام کی ناموس کے حوالے سے بالخصوص منعقد کی گئی ہے ۔ اس میں ہم سب کے لیے سعادت ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آج کے اس پُر فتن دور میں اگر شعائر اسلام کو کسی چیز سے خطرہ ہے تو وہ الحاد ہے اور ہمیں اس چیز کا قطعاً کوئی احساس نہیں کہ اگر احساس ہوجائے  تو شاید ہم اس کی فکر کر لیں اور اگر فکر کرلیں تو شاید ہم اس کے حملوں سے بچ جائیں کیونکہ ہم الحاد صرف اس کو سمجھتے ہیں جو وجود باری تعالیٰ کے منکر ہوں حالانکہ اگر آج کے دور کو یہ کہا جائے کہ یہ الحاد کا  دور ہے تو یہ کوئی بے جا بات نہیں ہوگی۔ گنہگار ہونا چھوٹی بات ہے ۔شعائر جمع ہے شعیرہ کی اور اس کا مطلب ہے ایسی علامت جو امتیازی ہو جس میں امتیازی شان ہو ، دوسرا معنیٰ ایسی علامت جس کو دیکھ کر اللہ یاد آجائے وہ شعائر اللہ ہے ، ارشاد باری  تعالیٰ ہے :

لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللهِ

اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو۔(المائدۃ:2)
اگر شعائر اللہ کی توہین غلطی سے ہوجائے ، عملی یا اجتماعی طور پر کوئی آدمی کوئی غلطی کر بیٹھے تو

كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ

آدم کا ہر بیٹا خطا کار ہے۔ کوئی حرج نہیں خطائیں ہوتی رہتی ہیں ۔ خطا ہونا انسان ہونے کی علامت ہے۔

فَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ (مسند احمد:13049 وسنن الترمذی:2499)

لیکن خطاکاروں کی نشانی یہ ہے کہ جونہی ان کو اپنی غلطی کا علم ہوجائے وہ فوراً اپنے رب کے حضور لوٹ جاتے ہیں اگر تو ہمارا طرزعمل ایسا ہے ہم شعائر اللہ سے دور ہوئے ہیں کسی خطا کی وجہ سے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں جیسا کہ  میں نے سورۃ حم سجدہ کی آیت شروع میں پیش کی

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

’’جو ہماری آیتوں کا مفہوم بدلتے ہیں اس میں ٹیڑھ پیدا کرتے ہیں کوئی علم ،فکر،فلسفہ کی بنیاد پر اور سمجھتے ہیں کہ ہم چھپے ہوئے ہیں۔ اللہ کے نبی کی باتوں سے کج روی اختیار کرتے ہیں فکر کی بنیاد پر ، ہر گناہ الحاد نہیں ہوتا لیکن ہر وہ عمل الحاد ہوتاہے جو فکری کجی کی بنیاد پر کیاجائے۔
پہلے آدمی سوچے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لہٰذا آپ آج سوشل میڈیا اورجدید لہجے والے نام نہاد علماء کو دیکھ لیجیے ، آپ الیکٹرانک میڈیا اور خاص طور پر مین اسٹریم میڈیا کی دی ہوئی فکر کو دیکھ لیجیے ، اصل میں ہمیں ہمارے شعائر کے بارے میں بے حمیت بنایاگیا ہے ، ہم سے حمیت وغیرت چھین لی گئی ہے ، ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ داڑھی نہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ، پردہ نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اللہ کے نبی کی شان میں کوئی زبان درازی کرلے تو کوئی حرج نہیں ، صحابہ کرام کی ناموس پر کوئی بات کردے تو کوئی حرج نہیں ۔ نام نہاد علماء ، ملک کے کسی کونے سے اٹھتے ہیں اورصحابہ کرام پر ہرزہ سرائی کرتے ہیں ، ایک نئی سوچ،فکر اور نئی راہ دیتے ہیں ، اس کی بنیاد پر لوگوں کو گناہ کا مرتکب کرواتے ہیں یہ وہ اصل الحاد  ہےاور اس الحاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ جوعمل چاہے کرتے جاؤ، لیکن تم نے یہ فکر اور نظریہ کہاں سے لیا ہے؟ وہ تمہارے تمام اعمال دیکھ رہا ہے کرتے جاؤ اعمال ، پھر ادھر جاکر فیصلہ ہوگا ۔

أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ (فصلت04)

یہ دو الگ الگ راستے ہیں ، اللہ کے ہاں جاکر یہ سب راز فاش ہو جائیں گے ، ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کون کہاں مُلَمّہ کاری کر رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’جو ملمہ کاری کرکے ایک دوسرے کے پیچھے چھپے ہیں ، اللہ ان کو خوب جانتاہے ۔ لٰہذا آج فکر کر لیجیے ، ہم سمجھتے ہیں ہمارے تعلیمی ادارے ٹھیک کام کر رہے ہیں ، ہماری نوجوان نسل بہت سمجھ دار ہے ، ہم سے کئی ہاتھ آگے ہے ، ان کے معاملات درست ہیں ، علامہ اقبال رحمہ اللہ نے بہت ہی خوبصورت بات کہی تھی :
اگرچہ مکتب کا جواں ، زندہ نظر آتاہے
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس
یہ جو وہ سانس لے رہا ہے وہ بھی مانگی ہوئی سانس ہے ، نہ جانے کہاں سے یہ نظریہ لیاہے اور کہاں سے یہ فکرلی ہے ۔ نماز کو نہ پڑھنا گناہ ہے لیکن یہ سوچ کر نماز نہ پڑھنا کہ نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے یہ الحاد ہے ۔والدین کی نافرمانی کرنا گناہ ہے لیکن یہ سوچ کرنافرمانی کرنا کہ ان کو کچھ معلوم ہی نہیں ہے نئی فکر اور نئی دنیا کا علم ہی نہیں ہے ہمیں معلوم ہے لوجک(logic) ،منطق کیا ہے سمجھ لیجیے ۔
ایک بچہ جب اپنے والد کے سامنے کھڑا ہوتاہے ، اپنے استاد کے سامنے کھڑا ہوتاہے ، یا اپنے بزرگ کے سامنے کھڑا ہوتاہے ،اپنی عقل نہیں بلکہ منطق پیش کرتاہے یہ بھی اسی الحاد کا حصہ ہے ۔ جن بنیادوں پر وجود باری تعالیٰ کا انکار ہوتاہے انہیں بنیادوں پر ان شعائر کا بھی انکار ہوتاہے۔
الحاد کی تعریف جو علماء نے بیان کی ہے وہ یہ ہےکہ ’’ہر وہ چیز جس کا اعتقاد رکھنا اور جس پر عمل کرنا واجب ہے ، آپ اس سے دائیں جھک جائیں توالحا د ہے ، بائیں جھک جائیں تو الحاد ہے ‘‘
الحاد لحد سے ہے جو بغلی قبر بنائی جاتی ہے اسے بھی لحد اسی وجہ سے کہاجاتاہے کہ وہ ایک سمت نکلی ہوئی ہوتی ہے لہذا آپ کو الحاد کی اس تعریف کے تحت کفر نظر آئے گا تو وہ آپ کو غلطی کی بنیاد پر نظر نہیں آئے گا ، الحاد کی بنیاد پر نظر آئے گا ، آپ کو شرک ،فسق،نفاق، زندیقیت،اباحیت پرستی نظر آئے گی وہ سب غلطی کی بنیاد پر نہیں الحاد کی بنیاد پر نظر آئے گی ، آپ کو اچھے لہجہ والے نظر آئیں گے ، آپ ان سے پوچھیں کہ جناب ہمیں سردیوں میں نمازِ عشاء  اور فجر مشکل لگتی ہے وہ آپ کی مشکل اسی وقت آسان کر دیں گے ، اور کہیں گے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں وہ ایک لطیفہ ہے لیکن اس میں بھی درس ہے، کہتے ہیں کہ کسی خاتون کے پیٹ میں درد تھا تو اس نے شور مچایا کہ دردگردہ ہورہاہے ، چیختی ہوئی شفاخانے پہنچ گئی ، آگے کوئی سردار ڈاکٹر تھا اس نے دیکھا کہ عورت شور کر رہی ہے ، اس نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے ؟ کہنے لگی دردگردہ ہے ، تو اس طبیب نے کہا : عورت میں تو گردہ ہوتا ہی نہیں خوامخواہ کیوں چیخ رہی ہو ، اس کا اشکال دور ہوگیا ، جب گردہ ہوتا ہی نہیں تو درد کیسا؟ لہٰذا اس کا علاج یہ کہہ کر کیاگیا کہ عورت میں تو گردہ ہوتا ہی نہیں ۔ الحاد بھی ایسا ہی ہے ان اسکالرز سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھ لو تو وہ کہتے ہیں یہ تو اُس دور کی بات تھی ، آج کے دور میں نہیں ہے ۔ آپ دیکھیں وہ دین جس کے بارے میں الطاف حسین حالی نے بھی بہت ہی خوب لکھا تھا
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
لہٰذا شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے بہت ہی بروقت تحریک ،میں اس کو سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم سے شعائر چھن رہے ہیں ، ہم آہستہ آہستہ برائی کے عادی ہورہے ہیں ، آج کوئی ویڈیو آتی ہے ، سوشل میڈیا پر شیئر ہوجاتی ہے اس میں موسیقی بھی ہوتی ہے ، اس میں مختصر کپڑوں والی عورتیں بھی ہوتی ہیں، علماء بھی سن لیتے ہیں کہ ہے تو نصیحت کی بات۔ آہستہ آہستہ ہم سے وہ حمیت ختم کی جارہی ہے ، جو شعائر اللہ کی حمیت ہوتی ہے ، اس سازش کو پہچاننا بھی ہے اس کے سامنے کھڑا بھی ہونا ہے لیکن کیا کریں کہ وہ الہامی روایت،جہاں سے روح ملتی تھی ، یہ تڑپ حاصل ہونی تھی ،جہاں سے یہ حمیت وغیرت کا سلسلہ جڑتا تھا ، اس کو ہم یہ کہہ کہہ کر چھوڑ رہےہیں کہ صحابہ سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں ، صحابہ بھی ایسے تھے ، فلاں صحابی فلاں سے لڑتا تھا ، مشاجرات صحابہ کو بنیاد بناکر اصل میں صحابہ کو بنیاد بناکر ہماری اس ملت کو ہماری اس روایت سے توڑا جارہاہے۔ لہٰذا اگر آپ مغربی فکر کا مطالعہ کریں تو میں چند اشارات اس حوالے سے آپ کے سامنے پیش کرتاہوں ، مغرب نے جو اپنی فکر حاصل کی ہے وہ جدیدیت سے حاصل کی ہے، آپ کو جوبھی ازم نظر آتے ہیں (نیشنل ازم،کیپیٹل ازم وغیرہ وغیرہ) یہ سب الحادی فکر سے نکلے ہیں۔ اٹھارویں صدی،انیسویں صدی، بیسویں صدی پر جومشتمل عرصہ ہے اس کو کہاجاتاہے کہ یہ جدید مغرب کی فکر ہے۔ ان سب فکروں کا خمیر اُٹھا ہے وہ اسی بات سے اٹھا ہے کہ آپ نے اس پر عمل نہیں کرنا جو مذہب کی روایت ہے۔ پچھلے ایک ہزار سال کی تاریخ جو انہوں نے دیکھی تھی وہ عیسائی تاریخ تھی لہذا انہوں نے سمجھا کہ دنیا میں ہر مذہب اسی مانند ہے۔اٹھارویں صدی،انیسویں صدی،بیسویں صدی میں جتنے بھی سائنسدان آئے وہ ریاضی کے فن کے ہوں، حیاتیات کے فن کے ہوں، طبیعات کے فن کے ہوں ، ان میں ایک بات قدرمشترک تھی کہ ان سب نے ذات باری تعالیٰ کا انکار کرنااپنا فرض منصبی سمجھا کیونکہ اگر وہ ایسا کر لیتے تو ان کو عیسائیت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا، صرف عیسائیت نہیں،یہودیت،اسلام اور جتنے مذاہب آسمانی تعلیمات رکھتے ہیں سب کو تسلیم کرنا پڑتا لہذا انہوں نے اس الہامی روایت کا ہی انکار کر دیا۔
لہذا آپ غور کریں کہ جدید سائنس کا جو خمیر اٹھا ہے وہ فلسفہ اور فلسفیانہ فکر سےاُٹھا ہے۔ڈارون نے جو نظریہ ارتقاء پیش کیا اس میں بھی اس نے وجود باری تعالیٰ کا انکار کرنا اپنافرض منصبی سمجھا۔ یہ ہے وہ سازش جو ہمارے ساتھ ہوئی اور اب ہم اکیسویں صدی میں جی رہےہیں اوربیسویں صدی کو کہتے ہیں سائنس کی صدی اور منطق کی صدی اگرآپ آج کے بچوں کے سوالات پر نظر ڈالیں تووہ اپنے والد سے پوچھتےنظر آتے ہیں کہ اس بات کی لوجک ومنطق کیا ہے ؟ اگر تو لوجک بنتی ہے تو میں تسلیم کرسکتاہوں اور اگر نہیں بنتی تو میں تسلیم نہیں کرسکتا یہ جو(منطقی سائنسی اثباتیت) یہ ان کی فکر کا نچوڑ ہے جو بیسویں صدی عیسوی کی سائنس کا ایک نیا ایجاد کردہ سبق ہے اس پوری فکر نے ہمیں اصل الہامی روایت سے توڑدیا اور چار بڑے بڑے نعرے ہمیں دے دیئے ۔
۱)آزادی     ۲) مساوات    ۳) رواداری   ۴) ترقی
یہ چار نعرے جدیدیت کی بنیاد ہیں کہ جس کو وہ آزادی، مساوات ،رواداری وترقی کہتے ہیں وہ دراصل صرف دھوکا ہے ۔
علاج کہاں سےہوگا؟
ہم نظام تعلیم سے علاج کرنا چاہتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ نے ایک تجزیہ فرمادیا جدید دور کا ، فرمایا کہ قرب قیامت کے جو حالات ہیں ان میں ایک یہ بھی ہوگا کہ جو کم تر لوگ ہیں ان کو اوپر بٹھادیاجائے گا اور جو بہترین لوگ ہیں ان کو بدترین بنادیاجائے گا ۔

أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوضَعَ الْأَخْيَارُ،

پھر فرمایا کہ اس دور میں بولنے والے بہت زیادہ ہوں گے جبکہ عمل کرنے والے بہت کم ہوں گے ، چاہے جس سے جتنی مرضی تقریریں کر والیں

وَيُفْتَحَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ

عمل لپیٹ لیا جائے گا ۔
اب ہم مسلمان ہیں صرف باتوں سے ۔
جب نسلیں خراب ہوتی ہیں تو نظام تعلیم ان کی اصلاح کرتاہے، اساتذہ ان بچوں کو اٹھاتے ہیں ان کی تربیت کی فکر کرتے ہیں ، ان کو اپنی روایت سے ، نبی کریم ﷺ سے جوڑتے ہیں۔

وَيُقْرَأَ بِالْقَوْمِ الْمُثَنَّاةُ

لیکن فرمایا جو اس دور میں پڑھاجارہا ہوگا وہ تو مثنات ہوں گی اور فرمایا

لَيْسَ فِيهِمْ أَحَدٌ يُنْكِرُهَا

؎ماحول ایسا بن گیا ہوگا کہ کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوگی کہ کھڑا ہوکر کہہ سکے ، اللہ کے بندوں کیا پڑھ رہے ہو یہاں توصحابی رسول رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں

وَمَا الْمُثَنَّاةُ؟

اللہ کے نبی ﷺ کیا پڑھاجارہا ہوگا؟ فرمایا :

«مَا اكْتُتِبَتْ سِوَى كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ»(المستدرك للحاكم: 8661)

ہر وہ چیز مثنات ہے جو اللہ کی کتاب کے علاوہ لکھی جاری ہو، جس کا تعلق نہ قرآن کے ساتھ نہ صاحب قرآن کے ساتھ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرکے کس روایت سے توڑا جارہاہے اور کس سے جوڑا جارہاہے ، ہماری فکر کو کیسے گھمایا جارہاہے؟ یہ ہے وہ کچھ نقاط جن کو آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا تھا اور اس کے حل کے لیے ہمیں قرآن سے جڑنے کی بھی ضرورت ہے اورمحمدر سول اللہ ﷺ کے فرمان سے جڑنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فتنوں کے دور میں ثابت قدم رکھے ۔ آمین


فضیلۃ الشیخ غلام مصطفیٰ ظہیرامن پوری حفظہ اللہ


حمد وثناء کے بعد نبی اکرم ﷺ کا درج ذیل فرمان پڑھا:
اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِي خَيْرًا
لوگو! میرے اصحاب کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا۔ (مسند احمد:114)
أَكْرِمُوا أَصْحَابِي
میرے اصحاب کی عزت کرو اس لیے کہ یہ میرے ہیں۔(سنن النسائی:9178)
آپ کی خدمت میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک فرمان پیش کروں گا کہ امام صاحب سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال کیاگیا تو امام صاحب نے عقیدہ اہل السنہ پیش کیا ، امام صاحب نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کسی شخص کو کہ وہ صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کی شان میں بھی کمی وتنقیص کرتاہے تو آپ اس کو مسلمان ہی نہ سمجھیں۔
امام یحیٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جناب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر طعن کرتاہے ، ان کی شان میں تنقیص کرتاہے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرتاہے یا کسی بھی صحابی پر تنقید کرتاہے وہ دجال ہے اس پر لعنت ہے اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی۔
فرماتے ہیں کہ امام ابی العِز الحنفی رحمہ اللہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم تو اولیاء اللہ ہیں لیکن امت اسلامیہ میں ایک گروہ ہے جو یہودونصاریٰ سے بھی آگے ہے ، آپ یہودیوں سے پوچھیں کہ افضل لوگ کون ہیں ؟ وہ کہیں اصحاب موسیٰ ، آپ عیسائیوں سے سوال کریں تو جواب ملے گا حوارئ عیسیٰ لیکن آپ روافض سے پوچھیں گے کہ امت کا سب سےبُراطبقہ کونسا ہے تو یہ فوراً کہیں گے کہ اصحاب محمد ﷺ ( والعیاذ باللہ)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بُری بات وہی کرتے ہیں جن کے دل نبی کریم ﷺ اور اسلام کے بارے میں بُرے ہوگئے ہیں۔ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اصحاب محمد میں سے بلند مرتبہ عشرہ مبشرہ کا ہے، عشرہ مبشرہ میں سے بلند مرتبہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا ہے اور جو ان چاروں کی عظمت کا منکر ہے وہ بدعتی ،منافق اور بُرا انسان ہے ۔ امت نے اس دن خطأ کھائی جس دن صحابہ رضی اللہ عنہم کو تاریخ کی نظر میں دیکھنا چاہا جبکہ قرآن صحابہ رضی اللہ عنہم کی عظمت سے لبریز ہے اور احادیث مبارکہ بھی عظمت صحابہ سے لبریز ہیں۔ ذیل میں کچھ بڑے جھوٹے جو تاریخ میں آئے ہیں ان کے بارے میں معلومات جمع کرلیں۔
ابو مخنف، فخر بن نضار ، محمد بن عمر الواقدی ، حسن بن ربیع ، سعد بن عمر ، محمد بن سعد الکلبی ، ھشام بن محمد بن سعد الکلبی ، أبو محمد احمد ، أبو الفرج محمد بن عثمان الاصفھانی
دنیا کے نچلے طبقہ کے متروک راوی ہیں ، محدثین نے ان سب پر جرح کی ہے ، اگر آپ ان جھوٹوں کو جان لیں اسلام کا مسئلہ حل ہوجائے گا ، صحابہ کی عظمت میں آیات سامنے آئیں تو ان کاانکار کر دیا ، احادیث سامنے آئیں تو ان کا انکار کر دیا اور ان پر بہتان باندھ دیئے گئے۔
آخری بات : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس ایک شخص آیا پوچھتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ قیامت کب قائم ہوگی؟ فرمایا کہ تم نے اس کیلئے تیاری کیا کی ہے ؟ فرمایا : کوئی تیاری نہیں ، بس ’ حب اللہ ورسولہ‘ (میرے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے)تو فرمایا :
فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ
پس تم ان کے ساتھ ہوگے جن سے دنیا میں محبت کیا کرتے تھے ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے
فَمَا فَرِحْنَا، بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحًا أَشَدَّ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ»
ہمیں اسلام لانے کے بعد سب سے زیادہ خوشی نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ہوئی ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
فَأَنَا أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ(صحيح مسلم:2639)
میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے (روزِقیامت) ان کی معیت نصیب فرمائے گا، میرے پاس اگرچہ وہ اعمال تو نہیں مگر میرے پاس ان تینوں کی محبت ہے ۔
محترم حضرات! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت جنت میں لے کر جائے گی ، جس کےپاس صحابہ کی محبت نہیں ، اس کے لیے جنت نہیں ۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة:100)
اصحاب محمد پر طعن کرکے جنت کی امید نہیں رکھ سکتے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


فضیلۃ الشیخ مفتی مبشر احمدربانی حفظہ اللہ


ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ (الفتح:29)
وقال رسول اللہ ﷺ :لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ (صحيح البخاري:3673)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کا معاملہ کافی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے اور اس کے تانے بانے یہودیت سے جڑتے ہیں۔امام سیوطی رحمہ اللہ نے یہ بات نقل کی ہے کہ کچھ زندیق لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوئے ، انہوں نے منصوبہ بنایا کہ مسلمانوں کے پیغمبر کو گالی دی جائے ، تو کسی نے ان کو کہا کہ ایسا نہ کرنا ، مسلمان زندہ نہیں چھوڑیں گے اور یہ بات کافی حدتک حقیقت ہے پھر کسی نے کہا کہ اگر پیغمبر کو گالی نہیں دے سکتے تو اس کے اصحاب کو گالیاں دو اور جو تبرأ بازی اس سال دیکھنے کو ملی اس کا آغاز بھی ایک یہودی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ عبد اللہ بن سبأ یہودی جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں داخل ہوگیا حد تو یہ کہ ان کی اپنی کتابوں میں درج ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرطعن وتشنیع کا دروازہ کھولا وہ ابن سبأ یہودی ہی تھا۔ صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ کتاب استطابة المرتدین میں ایک مختصر روایت پیش کرتے ہیں کہ
أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُمْ (صحيح البخاري:6922)
کچھ زنادقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ان کو جلا دیا۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ایک روایت لائے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ کوفہ کی جامع مسجد کے اردگرد کچھ ایسے لوگ رہائش پذیر ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر کفروالحاد کے نعرے لگارہے ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا رب ، خالق، رازق مان رہے ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم پر جہاں ایسے لوگ ملے گرفتار کرکے پیش کر دیئے گئے کچھ گرفتار کر لیئے گئے جب پوچھاگیا کہ تم میرے بارے میں کیاکہتے ہو تو وہ کہنے لگے کہ علی تو ہمارا رب ہے ، خالق ہے ، روزی رساں ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں رب نہیں ہوں ،
إنَّما أَنا عبدٌ مثلُكم، آكُلُ الطعامَ كما تأكُلونَ، وأَشربُ كما تَشربونَ
تمہاری مثل ہی ایک اللہ کا بندہ ہوں جس طرح تم کھاتے پیتے ہو میں بھی کھاتا پیتا ہوں ۔ کھانے پینے والا رب کیسے ہوگا؟ جو حاجت مند ہو وہ حاجت روا کیسے ہوگا؟ جوخودمشکل میں ہو وہ مشکل کشا کیسے ؟ سیدنا علی نے سمجھایا لیکن بات نہیں مانی ، اگر محبت میں سچے ہوتے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتے ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے چھوڑ دیا، اگلے روز پھر لائے گئے پھر پوچھا گیا پھر انہوں نے یہی بات دہرائی ، پھر چھوڑ دیا ، تیسرے روز بھی یہی ہوا پھر حکم جاری کیا کہ آگ جلا کر ان کو ڈال دیاجائے تو وہ لوگ جلا دیئے گئے پھر انہوں نے ہی دوسرا نکتہ پھیلایا ، جب وہ یہودی تھا تو کہتا تھا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے وارث یوشع بن نون ہیں اور جب اسلام کا لبادہ اوڑھا، تو یہ بات پھیلائی کہ اگر نبی کے بعد کوئی خلافت واسلام کا وارث ہے تو وہ سیدنا علی بن ابی طالب ہیں۔دوسروں نے ان پرظلم کیا ، نبی کریم ﷺ کی بیٹی پر بھی ظلم کیا ، اور حکومت بھی غصب کرلی اور بدقسمتی سے اسی ملک پاکستان میں وہ لوگ موجود ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو الہ مانتے ہیں ، یہ سب باتیں ابن سبأ یہودی کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں سچا ہے وہ باغیِ صحابہ ہو ہی نہیں سکتا۔امام حاکم المستدرک میں ،مسند احمد میں یہ روایت نقل کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : احد والے دن اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ تم دونوں میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل اور ایک کے ساتھ میکائیل ہے۔اوراسرافیل بہت بڑا فرشتہ ہے اورمیدانِ جنگ کی صفوں میں شامل ہوتاہے تو یہ عظمت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبانی پیش کی گئی ، جبکہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک یہ روایت 80 لوگوں نے روایت نقل کی ۔
«أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ» ، ثُمَّ قَالَ: «أَلا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ؟» ، فَقَالَ: «عُمَرُ»(مسند احمد:871)
سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہماکی منقبت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبانی بھی موجود ہے ۔ ابو اسحاق ابراہیم بن محمد الثقفی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خط لکھا :
اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ امت محمد کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیجا، تو اللہ کے نبی ﷺ نے کتاب وسنت کی تعلیم دی ، ادب سکھایا، اور جمع کردیا اور ان کا تزکیہ کیا اور جب اللہ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا تو پھر امت میں نبی کے بعد صالح ترین عظیم ہستیوں کوامیربنالیا گیا اورانہوں نے قرآن وسنت کو نافذ رکھا ، اورسنت رسول اللہ ﷺ سے تجاوز نہیں کیا اور اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان دونوں پر یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی خلافت بلا فصل کے قائل تھے ہی نہیں۔
نبی کریم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے وہاں انصار ومہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم کی ، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا وہ نہایت پریشان تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ان کو کسی کا بھائی نہیں بنایا تو فرمایا : علی ! میں نے تجھے اپنے نفس کے لیے چن رکھا ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی ﷺ مجھے آپ کی وراثت میں سے کیا ملے گا ، فرمایا وہی ملے گا جو سابقہ انبیاء کے وارثوں کو ملا، كتاب الله وسنة نبيه (اللہ کی کتاب اور میری سنت) تو جو بھی سیدنا ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما نے کیا وہ سنت کے مطابق کیا اور اپنے پورے دورِحکمرانی میں باغ فدک کا وہی مصرف رکھا جو نبی اکرم ﷺ نے رکھا تھا اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ بھی گواہی دے رہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سنت سے تجاوز نہیں کیا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نیز ہر ایک امام کا قول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عظمت میں ان کی اپنی کتابوں میں بھی موجود ہے۔امام محمد باقر سے ایک قول نقل ہے فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں سیدنا ابو بکر وعمرر ضی اللہ عنہما سے محبت کرتاہوں اگر میرے دل میں اس کے علاوہ کوئی اور بات ہو تو مجھے روزِ قیامت نبی کی شفاعت نصیب نہ ہو ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک رستے کی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے