“ محرم الحرام ’’جس ماہ کو اللہ رب العزت نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے، اس سال جب محرام الحرام کی بے حرمتی کی گئی اور شعائر اسلام پر آنچ آئی اور اسلام کے دشمن بلا نقاب باہر آئے تو اسلام کے شیدائیوں نے دین اسلام کی حفاظت کے لئے دن و رات ایک کر دیا، ملک کے کئی شہروں میں ’’تحفظ شعائر اسلام سیمینارز’’منعقد کئے گئے، ایسا ہی ایک سیمینار چند روز قبل 2 ربیع الاول کو پاکستان کی معروف درسگاہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں منعقد کیا گیاجس میں پاکستان کے جید وا کابر علماء کرام ومشائخ عظام نے شرکت کی اور تحفظ شعائر اسلام پر عوام الناس میں اپنے افکار کو بیان کیا، سیمینار کے خصوصی مہمان، فضیلۃ الشیخ پروفیسر سینیٹر علامہ ساجد میر حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان رہے جنہوں نے شعائر اسلام کے بارے میں عوام سے مخاطب ہوکر ان کی رہنمائی کی۔
سیمینار کی ابتداء جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے استاذ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیض الابرار حفظہ اللہ نے اپنے خوبصورت انداز میں کی، استاذ المحترم نے اختصار کے ساتھ اس سیمینار کی اہمیت ومقصد کو ہمارے سامنے رکھتے ہوئے فرمایاکہ آج کا یہ پُرنور اجتماع تمام صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین، جمعیت اہل حدیث، اصحاب رسول سے محبت کرنے والے جانباز مسلمانوں اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے اساتذہ و طلباء کے نام ہے، جنہوں نے ملک بھر میں تحفظ شعائر اسلام کے لئے جد و جہد کی۔ پھر استاذ المحترم نے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا جو انہوں نے اپنی معروف کتاب (حجۃ اللہ البالغۃ)میں بیان فرمایا ہے؛ “ دین کی شعائر کی نسبت اللہ رب العالمین کی ذات اقدس کی طرف ہوتی ہے “ جن کا احترام ہم پر فرض ہے، شعائر اسلام کا احترام اس طرح کیا جائے جس طرح ہم اللہ رب العالمین کی ذات مبارک کا احترام کرتے ہیں۔
• اس کے بعد آغاز میں تلاوت قرآن کریم کے لئے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے طالب علم قاری منیب الرحمان کو دعوت دی گئ جنہوں نے اپنے بہترین انداز میں سورة الفتح کی آخری آیات کی تلاوت کر کے حب صحابہ کا اظہارکیا ۔
تلاوت کلام پاک کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے سینئر استاذ محترم فضیلۃ الشيخ ابو زبير محمد حسين حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی، جنہوں نے مجمع کو اپنے محبوب انداز اشعار سے لطف اندوز کیا، اور دعا فرمائی کہ اللہ رب العزت ہمیں یوم قیامت صحابہ کرام اجمعین کی صحبت عطا فرمائے۔ آمین
شیخ محترم کے چند اشعار پیش نظر ہیں؛
نبیوں میں اعلی و ارفع ہے ہمارے نبی
امتیوں میں بھی اعلی ہے آل و اصحاب نبی
نبی باصفا کے آل و اصحاب سے
امت میں ہے آج خیر باقی
گر ہو انہیں میں خامی، تو نہ ہوگی
تم میں بھی خیر باقی!
دے کر طعنہ انکو، نہ کرنا سینے ہمارے چھلی
دے کر طعنہ انکو نہ ایمان رہے گا تم میں باقی
سب سے قیمتی پیش کی ہے جان و مال کی قربانی
تبھی تو ملی ہے انہیں بشارت زندگی جاویدانی
پھر بھی کہتے ہو انہیں، نہیں ہیں یہ امتی
گر یہ نہیں امتی، تب تم بھی نہیں ہو امتی!
اس کے بعد شیخ نے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شأن میں اشعار پڑھے اور اسی طرح وطن عزیز کے بانی، خطہ زمین کشمیر اور عبد القدیر خان کو بھی اپنے اشعار کی زینت بنایا۔
اللہ رب العالمین شیخ محترم کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے، آمین۔
• سیمینار کو آگے بڑھتے ہوئے ہمیں مفتي الجامعہ ابی بکر الاسلامیہ مفتی علامہ نور محمدحفظہ اللہ کو سننے کا موقع ملاجو کہ کسی شرف سے کم نہیں۔ علامہ صاحب نے سب سے پہلے اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء بیان کی، اس کے بعد کئی اہم باتوں سے عوام کو متنبہ کیا جن میں پہلی بات ارشاد فرمائی۔
1۔ دین اسلام کی محبت/اللہ کا ڈر ان دلوں کو حاصل ہوتا ہے جن دلوں کو اللہ رب العزت نے چنا ہوتا ہے، اور جنہوں نے اپنے دل و جان میں اسلام کو جگہ دی ہوتی ہے، ان کی زندگی اس محبت اوراللہ کے ڈر کو ظاہرکرتی ہے۔
2۔ ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ اپنے علماء و ائمہ کو، اصحاب رسول و انبیاء سابقین و رسول اللہ ﷺ پر ترجیح دینے والے، حجر اسود کی بے حرمتی کرنے والے، اپنی بہن بیٹیوں سے شادی کو جائز کہنے والے دین اسلام کے باشندے ہو نہیں سکتے اور یہ ہی لوگ اسلام کے ڈاکو ہیں!۔
3۔ ہمارے نبی محمد ﷺ نے اپنی حیات میں کبھی بھی اپنی ذات کے لئے بدلہ نہیں لیا، لیکن جب بات شعائر اللہ پر آئی تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھ ان بد نصیبوں پر اٹھائے۔
4۔ شعائر اللہ کو اہمیت کی نظر سے دیکھنا چاہیے، قرآن الکریم کی ایک ایک آیت شعائر اللہ کی تعظیم بیان کرتی ہے۔

ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (سورة الحج 32)

4۔ صحابہ کرام میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں، جن کے بارے میں اللہ کے رسول نے فرمایا؛ ’’ابوبکر کے احسان کے بدلے میں اپنی زندگی میں نہیں دے سکتا، ان کا بدلہ اللہ ہی دے گا‘‘۔
5۔ شعائر اللہ کے لئے اصحاب رسول نے کئی شھادتیں پیش کیں، جن کی علامتیں آج بھی موجود ہیں اور تا قیامت  کوئی صحابہ کرام کی قربانیوں کے آثار کو مٹا نہیں سکتا۔
6۔ جن کے دلوں میں اللہ رب العالمین کا خوف موجود ہے وہ قربان تو ہو سکتے ہیں مگر شعائر اللہ و شان اصحاب رسول پر آنچھ نہیں آنے دیں گے۔ إن شاء الله
• علامہ صاحب کے بعد خطاب کیلئے فضیلۃالشیخ حافظ محمد سلفی حفظہ اللہ مدیر جامعہ ستاریہ کو دعوت دی گئی ، شیخ موصوف نے اپنے کلام کے ابتداء میں قرآن کریم کی چند آیات و حدیث مبارکہ بیان فرمائی جن کے تناظر میں شیخ محترم نے فرمایا:
1۔ انبیاء کرام ورسل علیہم السلام و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مرتبہ اللہ رب العزت نے خود بیان کیاہےان میں کوتاہی کرنا بڑی غلطی ہے۔
2۔ اصحاب رسول کفار کے لئے بہت سخت دلی کا مظاہرہ کرتے تھے چاہے وہ ان کے اقاربیں میں سے ہی کیوں نا ہو! معرکہ بدر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے جب اپنے والد محترم سے کہا کہ “ اے میرے والد، آپ تین سے زائد مرتبہ میرے نشانے پر آئے مگر میں نے تیر نا چلایا کہ آپ میرے والد ہیں “ تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے تاریخی الفاظ ادا کئے جو قیامت تک یاد رکھے جائیں گے، انہوں نے فرمایا؛ “ اے بیٹے اگر تو ایک بار بھی میری تلوار کے سامنے آجاتا تو میں تجھے قتل کرنے میں ذرابرابر بھی تأخیر نہ کرتا! “

“ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (سورة الفتح :29)

اور صحابہ کرام اجمعین کی آپس میں محبت و الفت کا مقام اس معروف قصہ سے لگائیں جو سیدنا سعد بن ربیع و عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان پیش آیا، کہ ہجرت کے بعد جب ان میں اللہ کے نبی ﷺنے بھائی چارہ قائم کیا تو سعد بن ربیع جو کہ انصاری صحابی ہیں اپنے مہاجر بھائی سے کیا فرماتے ہیں، کہتے ہیں؛ “ اے میرےبھائی! میں نے دو شادیاں کی ہیں، آپ دونوں بیویوں کو دیکھ لیں، جو پسند آئے میں اسے طلاق دیتا ہوں آپ ان سے نکاح کرلیں، میرے پاس دو گھر ہیں، آپ کو جو پسند آئے آپ کو دے دیا جائے گا، میرے پاس دو باغ ہیں آپ پسند کریں، آپکو دے دیا جائے گا “ اللہ اکبر! یہ ہے اخوت۔
سیدنا عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں؛ “ اللہ آپکو جزاء خیر دے سعد! آپ بس میری  بازار کے رستے کی طرف راہنمائی کردیں۔

 “ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (سورة الفتح :29)

3۔راہ صحابہ میں ہی راہ ہدایت اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ “

 فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا (سورة البقرة :137)

4۔ دنیا و آخرت میں محسن وہ ہے جس کے دل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت داخل ہے، اور بیشک صحابہ کرام سے بغض رکھنے والا اور گستاخی کرنے والا اللہ کا باغی ہے اور اسلام کے کسی باب میں داخل نہیں۔
ان کے بعد خطیب فضیلۃ الشیخ ارشد علی حفظہ اللہ اسٹیج کی زینت بنے اور کلام پاک کی تلاوت کی،

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (ابراهيم:28)
؎

استاد محترم نے فرمایا کہ اللہ رب العزت اس آیت میں عوام الناس سے نہیں بلکہ حکام و امراء سے مخاطب ہیں، آج ہمارے ملک کے قوانین میں تمام دینی اصول موجود ہیں، شعائر اسلام موجود ہے، لیکن انہیں نافذ نہیں کیا جاتا، ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جو جرم آج ہمارے معاشرے میں ہو رہے ہیں ان تمام کی سزائیں اللہ رب العالمین کے قرآن الکریم میں موجود ہیں، زانی کی سزا موجود ہے! پھر کیوں آج یہ بات کی جاتی ہے کہ مجرم کی مردانہ طاقت کو ختم کر دینا چاہیے۔ کیا قرآن میں اس کا فیصلہ نہیں؟ یہ کیا تمہارا فیصلہ، تمہاری فکرکیا اللہ رب العزت سے بہتر ہے؟ نعوذبالله!
دل خوش ہوگیا تھا جب ہم نے سنا کہ پنجاب میں یہ قانون نافذ ہورہا ہے کہ قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھنا لازم قرار دے دیا گیا ہے، کتنااچھا ہوتا کہ یہ قانون حکمرانوں پر بھی نافذ کیا جاتا۔ حکام اس بات کو سمجھ لیں کہ مسلمانوں کی قیادت کے لئے اور اسلام کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کو پڑھنا اور سمجھنا لازم ہے۔ اسی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔
لیکن آج گستاخ صحابہ اورشعائر اسلام کی بے حرمتی کرنے والے سے کوئی سوال نہیں ہوتا، کوئی حد ان پر قائم نہیں ہوتی، اور صحابہ کرام پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں، اور اس کی ابتداء تب ہوئی جب حکومت میں قادیانیوں کو نمائندگی دی گئی اور ان کو بڑے بڑے عہدوں پر فائزکیاگیا جبکہ ان کیلئے تو نہ دنیا میں کچھ ہونا چاہیے اور نہ ہی آخرت میں!
آج تم صحابہ کرام پر بات تو کر لیتے ہو، ان پر فتوے تو لگا لیتے ہو مگر سن لو! میرے نبی محمد ﷺکے الفاظ ہیں:’’جنت میں وہ ہی گروہ داخل ہو سکے گا جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔‘‘
کالے دل، کالےذہن، کالی زبان اور کالے کپڑے والے جنتی نہیں ہو سکتے۔
آخر میں استاذ المحترم حکومت سے شعائر اسلام کی بے حرمتی کرنے والوں کو لگام دینے کا سخت مطالبہ کرتے ہوئے اپنی تقریر کا اختتام کیا ۔
ان کے بعد شارکین میں ایک دلچسپی کا مظاہرہ نظر آیا اور ہمارے درمیان گفتگو کرنے اب محدث العصر شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر حفظہ اللہ تشریف لائے اور اپنے کلام کا آغاز کیا،
شیخ محترم نے سب سے پہلے تمام اساتذہ کرام، ضیوف اور شارکین کو سلام کیا اور شرکت پر مبارک باد دی، شیخ محترم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ جب امام احمد سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق سوال ہوا تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ “ تم سیدنا معاویہ کا پوچھتے ہو، میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ جو کسی ایک صحابی کے اسلام،ایمان میں شک کرے اسے آپ مسلمان ہی نا سمجھیں “، اور یہ ہی عقیدہ ہمیشہ سے مسلک اہل حدیث کا ہے۔ الحمدللہ
شیخ محترم نے احادیث کی روشنی میں روافض کا ایسا رد کیا کہ گویا ایک شیر جنگل میں کتوں کے پیچھے ہو اور ان کے اصلی چہرے عوام الناس کے سامنے لے کر آئے۔
جو شخص سیدنا امیر معاویہ یا کسی بھی صحابہ پر طعن کرتا ہے یا ان کے ایمان میں شک کرتا ہے وہ کلاب النار میں سے ہے۔
“جو شخص صحابہ کرام کے بارے میں اچھا ایمان رکھے اچھا قول رکھے وہ شخص نفاق سے بری ہے”  اور اس کے معنی عکس پر غور کیا جائے تو بات کافی واضح ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو اللہ کے نبی کی پیروی میں سب سے آگے تھے۔ یہاں تک کے ایک صحابی آپ سے فرماتے ہیں؛ “ اے اللہ کے رسول! گر آپ ہمیں اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کا حکم دے دیں تو بلاشبہ ہم اپنے تمام گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے “
قرآن کرام صحابہ کرام کی عظمت سے لبریز ہے، ہم نے جب بھی صحابہ کرام کا مطالعہ تاریخی کتب سے کیا ہم گمراہ ہوئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو قرآن و سنت میں تلاش کریں نا کہ کتب تاریخ میں۔
حب صحابہ جنت کا راستہ اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور ان سے بغض رکھنا سبب دخول النار ہے۔
رانا شفیق احمد خان پسروری حفظہ اللہ اب ہمارے درمیان خطاب فرما رہے تھے، تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں؛

“ فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ(سورة القلم :44)

استاذ عزیز کا مقصد کلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظمت تھا، فرماتے ہیں؛ صحابہ کرام ہمارے وجدان، ایمان، اسلام کا حصہ ہیں اور ان کی عظمت ہمارا عقیدہ ہے۔ ان سے بغض رکھنا واضح کفر،نفاق اورفسق ہے۔
اللہ رب العزت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں الگ الگ مرتبہ و مقام رکھے ہیں، سب سے افضل اصحاب بدر، عشرہ مبشرہ، خلفاء راشدین اور ان میں سب سے افضل سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
بیشک! صحابہ کرام میں آپس میں محبت اتنی تھی کہ اپنی اولاد کے نام صحابہ کے نام پر، خلفاء راشدین کے نام پر رکھتے تھے۔
کربلا میں شہید ہونے والے شھداء کے نام اٹھائیں! ابوبکر نام کثرت سے پائیں گے۔
ابو حفصہ نامی شخص امام جعفر سے خلیفہ راشدہ سیدناابوبکر کے متعلق سوال کرتا ہے، تو امام جعفر فرماتے ہیں؛ “ ہم ان سے محبت اور ان کے دشمن سے براءت کا اعلان کرتے ہیں “
یہ کیسا ایمان و عقیدہ ہے کہ نواسۂ رسول جس گھوڑے پر سوار ہوئے، اسے چوم لیا جائے! اور جس کے کندھوں پر اللہ کے رسول خود سوار ہوئے، اس سے بغض رکھا جائے! إنا لله وإنا إليه راجعون
استاذ المحترم کے بعد ہمارے ہر دل عزیز فضیلۃ الشیخ علامہ ڈاکٹر خلیل الرحمن لکھوی حفظہ اللہ گفتگو کرنے کے لئے تشریف لائے اور بہت مختصرا فرمایا: شعائر وہ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ رب العالمین یاد آجائے۔صحابہ کرام شعائر اسلام ہیں، انکے تذکرہ پر اللہ کو یاد کرنا چاہیے۔
اب عوام الناس کی رہنمائی کرنے استاذ المحترم ڈاکٹر فیصل افضل حفظہ اللہ آ چکے تھے، ابتداء اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء سے کی اور قوم کو اپنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے بہت خوبصورت انداز میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ آج ہم اپنی آنے والی نسل کی تربیت دین اسلام کی بنا پر کر رہے ہیں؟ کیا ان کا مقصد حیات دنیا کو ترک کر کے دین و آخرت بن چکا ہے؟ کیا ہمارے اور ہمارے درمیان ناموس صحابہ کرام کی افکار منتشر ہیں؟
یقینا ہمارا جواب نا میں ہے، ان افکار کو عوام میں زندہ کرنا لازم ہے ورنہ ہم بہت کچھ اپنے ہاتھوں سے کھو بیٹھیں گے۔
آج ہماری نسل کی تباہی و بربادی میں ہمارا اپنا بہت بڑا ہاتھ ہے،ہم علماء کرام کی نصیحت تو سنتے ہیں، عمل تو کرتے ہیں، اپنی زندگی میں شامل بھی کرتے ہیں مگر سب سے اہم فریضہ سے ہم غافل ہیں وہ ہے الدعوة إلى الله، ہم اپنی اولاد،بھائی اور اقارب تک وہ باتیں نہیں پہنچاتے جو کہ ان کا حق تھا اور ہمارا فریضہ۔
آخر میں یہ کہہ کر کلام کے اختتام کی جانب بڑھتا ہوں کہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو دین کی تعلیم دیں، انہیں یہود کی افکار اور ان کی لپیٹ میں آنے سے بچائیں۔ یہ ہی ہمارے دین اسلام کو مستقبل میں محفوظ رکھیں گے۔ إن شاء الله.
اب ایک معروف شخصیت ہمارے درمیان موجود تھی جن کی نصیحت کا مقصد ہمیشہ عوام الناس کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ فضیلۃ الشیخ مفتی محمدیوسف قصوری حفظہ اللہ۔
شیخ محترم نے صحابہ کرام اجمعین کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا؛ اس زمین پر افضل ترین جماعت انبیاء کرام اجمعین کی ہے، ان کے بعد ہمارے صحابہ کرام اس  فضیلت کے حامل ہیں۔
سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک جتنے کمالات اللہ نے انبیاء کو عطا کئے، ان کمالات کا مجموعہ ہمارےپیارے  نبی محمد ﷺ ہیں اور ان کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں بیشک وہ دنیا و آخرت کے کامیاب ترین ہستیاں ہیں۔
اب ہمارے لئے انتظار کی گھڑی ختم ہوچلی تھی کہ مشارکین سے مخاطب ہونے سیمینار کی زینت پروفیسر علامہ ساجد میر حفظہ اللہ تشریف فرما تھے، علامہ صاحب نے سورة الفتح کی تلاوت کی اور اپنی بات کا آغاز اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء سے کیا، محترم کا مقصد عوام کو دین کے فرائض کی پابندی پر آمادہ کرنا تھا، فرماتے ہیں:شعائر اسلام کی حفاظت کرنا اور ایمان رکھنا ہر مسلم مومن کا فرض ہے۔
بیشک اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان فرائض کو عدل و انصاف سے سرانجام دینے والی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ہے اور اب ان کے چاہنے والوں پر یہ فرض ہے، اور ان فرائض کو انجام دینے کی توفیق بھی صرف اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بھی اللہ رب العالمین ہی دے گا۔ إن شاء الله.
صحابہ کرام کی اللہ کے نبی محمد ﷺکے ساتھ محبت کی مثال لا جواب ہیں، کبھی بنا دیکھے، بنا تحقیق آپ ﷺ کی تصدیق کرنا، ایمان لانا۔ کبھی آپ کے وضو کا استعمال شدہ پانی اپنے اجسام پر ملنا، تو کبھی آپ کی خدمت کے لئے ہمیشہ موقع تلاش کرنا۔ یہ تو صحابہ کی  وفا ہے ہمارے نبی کریم کے ساتھ۔
کیا ایسی محبت کرنے والے کیا اللہ کے نبی مکرم ﷺ کی بے حرمتی برداشت کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!
صحابہ کرام کی یہ محبت کسی  مفاد و بدلہ کے لئے نہیں، بلکہ مقصد صرف اللہ کی رضاہوتی تھی۔

 الحُبُّ في اللهِ والْبُغْضُ فِي اللهِ

اس امت کے پہلے اہل حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں اور الحمدللہ ان کے عقیدہ کو تھامنے والے اہل حدیث آج بھی قائم و دائم ہیں۔
بلاشبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کامقام و مرتبہ بہت اعلی و افضل ہے۔ اسلام میں اللہ کے نبی کے بعد اسلام کا دفاع کرنے والے سیدناابوبکر صدیق ہیں۔ جنہوں نے اسلام کے لئے دن و رات ایک کردیا اور آج ہم تک اسلام پہنچنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محنت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی دنیا سے نفرت و جنت سے محبت کی تو کیا ہی مثال دیں کہ سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر کا پورا مال فی سبیل اللہ میں پیش کر دیتے ہیں، سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ آدھا مال لے آتے ہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سات سو سے زائد گھوڑے و اونٹ پیش کر دیتے ہیں، تو کسی سے جنگ کے میدان میں زخمی حالت میں سوال ہوتا کہ کیسا محسوس کر رہے ہو تو جواب یہ تھا کہ جنت کی خوشبو میرے جسم میں گردش کر رہی ہے۔ اللہ اکبر! یہ مقام و مرتبہ و آخرت سے محبت ہے۔
اسی لئے کہا ہے؛
تیری محفل میں بیٹھنے والے،
کتنے روشن خیال ہوتے ہیں!
آج ہمیں اپنے محاسبہ کی ضرورت ہے! ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے دین کا کیا مقام ہے؟ اللہ ہمیں صحابہ کرام کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سیمینار کے اختتام میں اپنے پُر جوش انداز میں قوم سے خطاب کرنے سب کے ہر دل عزیز دکتور حافظ محمد حماد لکھوی حفظہ اللہ تشریف فرما ہوئے اور قوم کو ایسے موضوع کی طرف متوجہ کیا جو آج کے نوجوان نسل کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ ہے الحاد
استاذ المحترم تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں؛ “

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(سورة فصلت :40)

شعائر اسلام جو ہمیں ہماری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں، انہیں سب سے زیادہ خطرہ آج الحاد سے ہے۔ اگر آج یہ بات ہمارے سامنے کہی جائے کہ یہ دور 2020 جسے جدید ترین دور ترقی یافتہ دور مانا جاتا ہے، اگر کہا جائے کہ یہ دور الحاد کا دور ہے تو یہ بات یقینا غلط نہیں ہوگی۔
آج ہمیں الحاد کے بارے میں علم ہی نہیں کہ الحاد آخر ہے کیا؟ “ ہر وہ عمل جو فکری قدرت کی بنا پر کیا جائے الحاد ہے “ اس کی مختصر مثال ایسے دوں گا کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا مگر نماز کو ترک کرنے کو گناہ مانتا ہے، اور اس کے مقابلے میں دوسرا شخص جو نماز نہیں پڑھتا مگر اس فکر کے ساتھ کہ اس کو ترک کرنا کوئی گناہ یا بُری بات نہیں! یہ الحاد ہے۔
افسوس کے ساتھ اصل بات تو یہ ہے کہ آج ہم میں سے شعائر اسلام کے لیے غیرت مٹائ جارہی ہے اور اس کام میں سب سے آگے ہمارا میڈیا ہے، ہمارا سوشل ماحول ہے۔
آج الحاد کو جس ایک جملہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ کہ؛
یہ تو اس دور کی بات ہے،  یہ تو صحابہ کے زمانے کی بات ہے
مگر اللہ رب العزت نے سب کو فیصلہ سنا دیا ہے اور سب کو ان کے اعمال کے مطابق جزاء و سزا ملے گی:

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (فصلت)

آج ہم یہ نہیں سمجھ رہے کہ ہمارے ذہنوں میں نئے افکار کی صورت میں ہمیں شعائر اللہ سے دور کیا جارہا ہے، برائی کا عادی بنایا جارہا ہے۔ اور اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بلکل سچ ثابت ہو رہا ہے جو انہوں نے فرمایا؛ ’’ قرب قیامت صالح نیک لوگوں کو کم تر اور فاسق فاجر لوگوں کو اہمیت دی جائے گی ۔‘‘
’’قرب قیامت لوگ کلام کی حد تک رہ جائیں گے اور اعمال سے بالکل خالی  ہوجائیں گے ‘‘۔
آخری بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ آج ہمیں (  Logical and Scientific laws )  کی افکار میں شعائر اللہ سے دور کیا جارہا ہے اور ناجانے کن علوم سے ہماری وابستگی ہو رہی ہے۔
یہیں پر اپنی بات کا اکتفا کرتا ہوں اور سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر کا طلبگارکرتا ہوں۔اب ہمارے درمیان اپنے خیالات کا اظہار کرنے، امیر مرکزی جمعیت اہلحدیت مناظر پاکستان، مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ تشریف فرما ہیں:
استاذ المحترم نے کلام کی ابتداء اللہ رب العزت کی حمد و ثناء سے کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا صحیح عقیدہ عوام الناس کے سامنے رکھنا چاہا،فرماتے ہیں:صحابہ کرام کی تربیت اللہ کے نبی ﷺنے خود کی ہے، صحابہ کرام اللہ کے نبی کے بعد سب سے افضل ترین لوگ ہیں۔ بات اللہ کے نبی سے محبت کی ہو، یا میدان جنگ میں گھوڑے دوڑانے کی، صحابہ کرام ہمیشہ پہلى صف میں موجود ہوتے تھے، آج دین اسلام جو دنیا کے کونے کونے میں منتشر ہے، صحابہ کرام ہی اس کی وجہ ہیں۔اور ایسی ہستیوں پر طعن بازی کرنا؟ ان پر کفر کے فتوے لگانا؟ یہ کسی حماقت سے کم نہیں؟
صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے کی سازشیں ایک عصر قدیم سے ہو رہی ہیں اور ان کی نسبت براہ راست یہودیت سے ملتی ہے، پہلا شخص جس نے صحابہ کرام کی شان میں طعن وتشنیع کی وہ یہودی عبداللہ بن سبأ تھا۔ اس خبیث کا یہ عقیدہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات، اللہ رب العزت سے بڑھ کر ہے۔ نعوذباللہ
اور نبی کریم ﷺکے بعد خلافت کے حقدار سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں ، سیدنا ابوبکر صدیق و سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہما نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا! نستغفراللہ
حالانکہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ خود ان دونوں باتوں کے قائل نہیں تھے۔ یہ عقیدہ صراحتا جھوٹا و بے بنیاد اور کفر ہے۔
یہ کفریہ عقیدہ آج مجالس میں بلا نقاب بیان کیا جارہا ہے۔ آخر اتنی ہمت کس نے فراہم کی ہے؟
مسلمان اپنی جگہ جتنا خطاکار ہو، مگر اللہ رب العزت کے نبی  کریم ﷺ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان پر گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اور کٹ مرنے کے لئے تیار ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عقیدہ اس کتاب میں موجود ہے جس کتاب کو قرآن کریم کے بعد سب سے افضل کتاب مانا جاتا ہے۔ جو محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کی کتاب، صحیح بخاری ہے۔ اس کتاب سے ہمیں صحابہ کرام کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنے لئے ہدایت کے راستے کو تلاش کرنا چاہیے۔ اللہ رب العالمین آپ سب کو صحیح عقیدہ عطا فرمائے۔ آمین
• مفتی صاحب کے بعد آخر میں سیمینار کی زینت ہمارے ہر دل عزیز پُرجوش خطیب مدیر الجامعہ ابی بکر الاسلامیہ فضیلۃالشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ بنے، اور چند باتیں عرض کیں جو کہ بہت اہمیت کی حامل ہیں، فرماتے ہیں:آج میرا اور آپ سب کا یہاں اس سیمینار میں جمع ہونے کا مقصد صرف اللہ رب العزت کی رضا مندی، شعائر اسلام کا تحفظ و طلب دین ہے، اور بیشک اس کی توفیق اللہ کی ذات ہی دیتی ہے۔ ہمیں یہ بات زیب نہیں دیتی کہ ہم شعائر اللہ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی بے حرمتی کو برداشت کرلیں اور اس پر سکوت کریں!صحابہ کرام ہمارے ایمان کا جزء ہیں۔
اللہ رب العالمین کا بہت کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دین کے کام کے لئے چنا، یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔
پھر انہوں نے فرمایا کہ میں تمام مشائخ عظام واساتذہ کرام  اور مشارکین بالعموم اور محترم علامہ ساجد میر حفظہ اللہ کا بالخصوص تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اپنے قیمتی اوقات میں سے تحفظ شعائر اسلام کے لئے وقت نکالا۔ ہم نے آج جو کچھ سنا و سمجھا، اللہ رب العزت ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور دینی محفلوں کو ایسے ہی قائم دائم رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔
سیمینار کی دعا اوراختتام کے لئے فضیلۃ الشیخ محمد عرف عائش حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے