الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی رسوله الکریم ، أما بعد! فقال اللہ تعالى :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍمِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَۙ۰۰۱۵۵ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ؕ۰۰۱۵۶
إن لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ
عظم الله أجركم وأحسن عزاءكم وغفر لميتكم. اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات الأحياء منهم والأموات
25جنوری بروزسوموار کوڈاکٹرمحمد راشد رندھاوا صاحب رحمة اللہ علیہ ( مدیر وسرپرست اعلی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ) طویل علالت کے بعد خالقِ حقیقی کے بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ
اس افسوسناک خبر سے دل کو ایسی ٹھیس پہنچی جیسے ہمارا اپنا قریبی ہم سے بچھڑ گیا ہو کیونکہ ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا رحمہ اللہ کے ساتھ ہمارا روحانی تعلق بہت گہرا تھا اور روحانی تعلق ہر قسم کے مادی تعلقات سے مضبوط،قوی اوردیرپا ہوتاہے ۔ اللہ رب العزت کا یہ دائمی قانون ہے کہ تاریخ کا کوئی دورایسی عظیم شخصیات سے خالی نہیں رہا ، کچھ ایسے ہی ممدوح ہمارے تھے حضرت الامیر ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب رحمہ اللہ ۔
یقینا موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو فرارنہیں،اس دنیا میں کوئی جتنی لمبی زندگی گزارلے بالآخر ایک دن راہی عدم تو ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ[الأنبياء: 34]
حدیث مبارکہ میں ہے کہ جبرئیل امین علیہ السلام نے نبی اکرم ﷺکی خدمت میں عرض کیا:
عِشْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَيِّتٌ، وَأَحْبِبْ مَنْ أَحْبَبْتَ فَإِنَّكَ مَفَارِقُهُ، وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَجْزِيٌّ بِهِ (المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 360)
یہ دنیا فنا کے داغ سے داغدار ہے۔ جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ[آل عمران: 185]
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔اور یہی وہ لمحہ ہے جو ہمارے اختیار میں نہیں۔ اس پر سوائے صبر کے چارہ نہیں۔ یہی زندگی ہے اور زندگی کے پیالے بھرتے اور چھلک جاتے ہیں ۔زندگی کا دورانیہ یہ ہے کہ انسان مسافر کی طرح دنیا میں آتاهے، کچھ دیر کے لیے درخت کے نیچے بیٹھتاہے، سانس لیتاہے اور چل دیتاہے۔ بس یہی حقیقت ہے زندگی کی۔ اﷲ تعالیٰ اگر اندر کی سانس باہر نہ آنے دے یا باہر کی سانس اندر نہ جانے دے۔پس یہی ہےزندگی۔
محترم ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ جیسی سعادت مند روح کا دنیا سے چلے جانا اہل زمین کے لیے بہت بڑا نقصان ہے ۔ مرحوم کا انتقال دینی حلقوں کے لیے اور ملک وملت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔محترم ڈاکٹرصاحب جامعہ ابی بکرکے مدیرہی نہیں تھے بلکہ والد اورمربی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ مرحوم انتہائی شفيق ،شریف النفس ،مخلص ،ملنسار اورصاحب تقویٰ انسان تھے ۔
جناب محترم ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب جو کہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔موصوف اپنی تعلیم کے دوران کچھ عرصہ مغربی معاشرے میں رہنے کے باوجود بھی پوری طرح دین حنیف پر عمل پیرا رہے جو کہ دین اسلام کی حقانیت اور ہر زمانے میں قابل عمل ہونے کی واضح دلیل ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک بھر میں پھیلے ہوئے بیسیوں دینی مدارس کی سرپرستی فرمارہے تھے جن میں جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن، جامعہ دعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ اور عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ قابل ذکر ہیں۔ دینی مدارس کے علاوہ موصوف کے تعارف میں ایک خاص بات ان کی کتاب اللہ کے ساتھ خصوصی محبت اور شغف ہے جس کا واضح ثبوت ان کی زیرنگرانی چلنے والے ادارے مثلاً قرآن انسٹی ٹیوٹ،قرآن آسان تحریک جیسے ادار ے تھے۔ دین اسلام کی محبت کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کادل عوام کی فلاح وبہبود کے جذبہ سے لبریز تھا،اور ان کی سرپرستی میں قائم ہونے والا رضیہ شریف ٹرسٹ دن رات دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا مقدس فریضہ سرانجام دیتا رہا ۔ ڈاکٹر صاحب کی خداداد صلاحیتوں اور کامیاب منصوبوں کی بدولت آپ کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے دن دگنی اور رات چوگنی محاورۃً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً ترقی کر تے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ آپ وفاقی بیت المال کے چیئرمین بھی رہے اور اپنے فرائض منصبی انتہائی امانت ودیانت سے ادا کیئے۔
ڈاکٹرصاحب نے ہمیشہ جامعہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا دست شفقت دراز رکھا ۔ اور اس کی تعمیروترقی اور اساتذہ وطلبہ کی رہنمائی کیلئے دامے درمے اورسخنے کوشاں رہے ۔ مرحوم ایک منفرد انداز تخاطب والی شخصیت کے مالک تھے ان کے مزاج اور طبیعت کی خوبیوں نے انہیں نمایا ںکیا ان کے حسن اخلاق سے مجبور ہوکر اغیار واجانب بھی ان کی حسن سیرت واعلیٰ کردارکے معترف نظر آتے تھے، وہ بیک وقت مبلّغ اسلام ،دین کے داعي،اور ہردلعزيز انسان تھے ، انتہائی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے مزاج کے انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے حادثہ وفات کو جامعہ ابی بکر کے علاوہ بھی پورے ملک میں شدت سے محسوس کیاگیا۔
ڈاکٹرصاحب کا اس طرح ہم سے جدا ہوجانا نہ صرف ان کے خاندان کیلئے نقصان ہے بلکہ امت اسلامیہ اورجامعہ ابی بکر کیلئے بھی بہت بڑاخلا ہے ۔الله تعالى سے ہماری دلی دعاہے کہ رب کریم ان کے درجات بلند فرمائے ۔ہمیں ان کا نعم البدل عطافرمائے،یہ بات قابل اطمینان ہے کہ مرحوم نے اپنی زندگی کا بیشترحصہ دین اسلام کی اور امت مسلمہ کی خدمت کیلئے وقف کئے رکھا ۔ مرحوم اپنے متعلقین اور احباب کے دلوں میں بہت اچھی یادیں چھوڑ کر گئے ہیں ۔ اللہ تعالی انکی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے انکی دینی. علمی اور اصلاحی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے۔آمین
کلیوں میں سینے کالہو دے کے چلاہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضایاد کرے گی
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر کے ساتھ اس حادثہ کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور زندگی کے بقیہ لمحات شریعت وسنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جامعه ابي بكر كي انتظاميه ،تمام اساتذه وطلبه اس المناك موقع پرمرحوم كے جملہ أقارب ولواحقين كےغم ميں برابر كےشريك ہیں ،اور انكي تعزيت ميں يہی جملہ کہتے ہیں،لله ما أعطى وله ما أخذ وكل شيئ عنده بأجل مسمى،
اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ۔ اور انہیں انبیاء وصدیقین اور شھداء وصالحین کی رفاقت نصیب فرمائے ۔(آمین يا رب العالمين )
اللَّهمَّ اغفِرْ له وارحَمْه واعفُ عنه وأكرِمْ منزلَه وأوسِعْ مُدخَلَه واغسِلْه بالماءِ والثَّلجِ والبَردِ ونقِّه مِن الخطايا كما يُنقَّى الثوبُ الأبيضُ مِن الدَّنسِ وأبدِلْه بدارِه دارًا خيرًا مِن دارِه وأهلًا خيرًا مِن أهلِه وزوجةً خيرًا مِن زوجتِه وأدخِلْه الجنَّةَ وأعِذْه مِن النَّارِ ومِن عذابِ القبرِ