نحمدہ و نصلی علی رسوله الکریم، أما بعد !

قارئین کے سامنے کچھ اہم باتیں پیش کرنا چاہوں گا۔

نمبر ایک کہ نبی اکرم ﷺکا مشن آخر تھا کیا ؟؟؟

هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ١ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۰۰۳۳ (التوبۃ:33)

’’اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں ۔‘‘

کہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺکو قرآن دے کر بھیجا ۔۔۔ دین حق دے کر بھیجا۔۔۔اور آپ کی ذمہ داری یہ تھی کی اللہ رب العالمین کے اس سچے دین کو باقی تمام جھوٹے ادیان پر غالب کیا جائے۔

ہمارا مشن وقت گزارنا نہیں ہے۔

ہمارا مشن یہ ہے ہمیں جتنا بھی وقت ملے کہ اللہ رب العالمین کا دین باقی تمام جھوٹے اور باطل ادیان پر غالب آئے۔

سب سے پہلے اس مشن کو ذہن میں رکھیں اور اس مشن کو ذہن میں رکھنے کے بعد اس پر کام کافی منظم طریقے سے کرنا پڑے گا۔وہ منظم طریقہ بھی رب العالمین نے خود ہی بیان فرمادیا۔

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۰۰۷۱

مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں  نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔(التوبۃ:71)

ذاتی زندگی کا پروگرام یہ دیا ہے کہ ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزرے۔۔

اور جماعتی زندگی میں آپس میں مل جل کر دین کا کام کریں۔۔۔

مسجدوں کو مرکز بنائیں۔نبی اکرم ﷺنے مسجد نبوی کو مرکز بنایا تھا۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ مسجد نبوی میں کیا کام ہوتے تھے اور ہماری مساجد میں کیا کام ہوتے ہیں!!! جس کے پاس مسجد ہے وہ مسجد کو مرکز بنائے۔اور مرکز بناکر

يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ

نیک کاموں کی دعوت اور اس کا ایک پروگرام مرتب کرے۔ جس محلے میں ہو ۔۔ جس قصبے میں ہو ۔۔۔ جس گاؤں میں ہو ۔۔ جس شہر میں ہو۔  اس کا ایک پروگرام بنائیں کہ کس طرح دعوت کو آگے لیکر چلنا ہے ۔۔۔

کیسے اللہ کے سچے دین کو باقی جھوٹے ادیان  پر غالب کرنا ہے ۔۔۔ اس کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ آپ خود ۔۔ آپ کی مسجد کے نمازی ۔۔ انتظامیہ سب منظم ہوکر جدوجہد کریں۔۔ کہ ہم نے ملکر ہی دعوت و تبلیغ کا کام کرنا ہے ۔۔یہ کام صرف ایک عالم دین کا نہیں ہے آپ سب کے سب نمازی اس میں شامل ہونے چاہئے۔جتنا علم جس کو آتا ہے وہ اتنا ہی آگے پہنچائے۔ بلغوا عنی ولو آیہ۔۔۔۔

کم از کم اپنے گھر والوں کو ہی اتنا علم سکھائیں جس قدر خود جانتے ہیں۔۔ جو آپ مسجد میں سنتے ہیں درس میں سنتے ہیں۔

قارئین پہلی بات کہ دعوت و تبلیغ کا نظام ہونا چاہئے ۔۔۔ کبھی ایک جمعہ پڑھادینا۔۔۔کبھی درس دینا ۔۔ کافی نہیں ہے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ نیک کاموں کی دعوت دینا اور برے کاموں سے روکنا۔۔اور پھر نماز کو قائم کرنا ہے یہ نہیں کہا کہ پڑھنا ہے ۔۔ بلکہ اس کو قائم کرنا ہے ۔۔۔۔ نماز پانچ وقت پڑھی جائے ۔۔۔ باجماعت پڑھی جائے ۔۔۔ خود پڑھی جائے ، گھر والوں سے پڑھنے کا حکم دیاجائے۔۔۔ ہر ایک دوسرے شخص کو نماز کی دعوت دے ۔۔ نماز کے وقت ایک ہنگامہ ہونا چاہئے ۔۔۔ یہ فکر ہونی چاہئے کہ لوگوں کی نمازوں کا کیا بن رہا ہے ۔۔۔۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ایک بہت وسیع سلطنت کا حکمران جب فجر کی نماز پڑھا کر پیچھے دیکھتا ہے تو دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان فجر میں غائب ہے ۔۔۔

نماز کے بعد بذات خود اس نوجوان کے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کی والدہ تشریف لائیں تو عمر فاروق نے پوچھا کہ آپ کا بیٹا فجر میں نہیں تھا ۔۔۔ ؟ تو وہ جوابا گویا ہوئیں کہ امیر المومنین وہ پوری رات نوافل ادا کرتا رہا ۔عین فجر سے کچھ قبل اس کو نیند آگئی اور اس کی نماز خراب ہوگئی ۔۔ تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے کہہ دیں کہ ساری رات سوئے رہو مگر فجر کی نماز مسجد میں ہونی چاہئے ۔۔۔ تو دوستوں جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کوئی پروگرام نماز کا بنائیں ۔۔۔دیکھیں کہ پانچ پانچ سال ہوگئی ہیں نمازیوں کی تعداد کتنی بڑھی ہے ۔۔ چھ بوڑھے صبح فجر میں حاضر ہیں اور نوجوان غائب ہیں۔۔۔

میں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالی نے ضرور بہ ضرور اس کا حساب لینا ہے۔۔۔ کس کس کو آپ نے نمازوں کی آگہی دی ۔۔۔ کہ فجر کی نماز میں نہ آنا نفاق کی نشانی ہے۔ اور میں درخواست کروں گا کہ باقاعدہ ہمیں یہ رپورٹ ملنی چاہئے ۔۔۔ کہ پچھلے سال کتنے نمازی تھے اس سال کتنے نمازی ہے ۔۔۔بلکہ سہ ماہی رپورٹ ہونی چاہئے ۔۔۔پھر دیکھیں اگر نہیں بڑھے تو کیوں نہیں بڑھے ، خواتین سے دعوتی بھی کام لیں عورتوں کو نمازی بنانے کے لئے ۔۔۔ مردوں سے کام لیں مردوں کو نمازی بنانے کے لئے۔۔۔ اس طرح حکمت سے کام کریں کہ جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کم از کم کوئی اہل حدیث ایسا نہ ہو جو پانچ وقت کا نمازی نہ ہو ۔۔۔ اور پھر انہیں وہ سارا علم سکھائیں کہ لوگوں کا نماز پڑھنا کوئی لغو کام نہیں بلکہ ایک انتہائی قابل تحسین کام ہے ۔۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : کہ جو شخص احسن وضو کرے تو اب ان کو سکھائیں کہ احسن وضو کیا ہے ! اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

تو رب العالمین اس شخص کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیتے ہیں۔

اب آپ سوچیں ! کہ ہم نے اپنے نمازیوں کو بتلایا ہے کہ ایسے وضو کرو ۔

کوئی شخص احسن وضو کرکے دو رکعت خشوع و خضوع سے ادا کرلے تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ ایسے شخص کے لئے جنت کو واجب کردیا جاتا ہے ۔۔۔ دوستوں اپنے نمازیوں کو بتانا چاہئے کہ نماز کے ایک ایک لفظ کا معنی و مفہوم بھی کتنی اہمیت کا حامل ہے افسوس کہ ہم پورے دن کے کام کاج کا حساب نماز میں مکمل کررہے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ سب سکھانا چاہیے ۔۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بذات خود لوگوں کو وضو کرکے دکھایا کرتے تھے ان کو سکھایا کرتے تھے ۔۔۔  اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص فجر کی نماز اور عصر کی نماز کا اہتمام کرتا ہے رب العالمین ایسے شخص کے لئے جہنم کی آگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام کردیتے ہیں۔۔۔

نبی اکرم ﷺنے فرمایا جو شخص بھی بارہ رکعتیں نوافل پورے دن میں ادا کرلے تو رب العالمین ایسے شخص کے لئے جنت میں محل تعمیر کردیتے ہے ۔۔۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں آپ لوگوں تک پہنچائے ان شاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ لوگ کس طرح اپنی نمازوں کی فکر کرتے ہیں ۔۔۔

تو گزارشات یہ تھیں کہ یہ سب کام آپ نے ایک نظم و نسق کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچانےہیں ۔۔۔ اپنی مساجد میں نماز کا نظام، امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا نظام قائم کریں ۔۔۔

اور اب ہے زکوۃ کا نظام۔۔۔بیت المال کا قیام ۔۔۔ یہ اس وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے ۔۔۔ آپ کو اپنے علاقے کے ایک ایک گھر کا علم ہو ۔ نمازیوں سے پوچھیں کہ کون ہیں وہ لوگ جو اپنے بچے بچیوں کی فیسیں نہیں ادا کر پارہے؟ کون ہیں جن کا راشن پورا نہیں ہوتا ؟ کون ہے جو بے سہارا و بیوہ عورتیں ہیں؟ ایسے لوگوں کی اپنی مساجد میں لسٹیں تیار کریں ۔۔۔ اور سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ پاکستان سے بیس گنا بڑی سلطنت کےحکمران ہونے کے باوجود اپنے کندھوں پر راشن کی بوریاں اٹھا کر بیواؤں کے گھروں میں ڈالا کرتے تھے، ۔۔۔ آپ ایک نظم بنائیں اور ایسے لوگوں کے گھر راشن پہنچانے کا انتظام کریں۔۔

دوستوں یہ نظام ہے جب آپ ایسے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں گے تو دیکھیں کہ کیسے آپ کے نمازی بڑھتے ہیں۔کیسے دن و رات ترقی ہوتی ہے ۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے یہ کام نہیں بنے گا ۔ آپ کو رب تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ آپ اپنی مسجد کو مرکز بنا کر یہ کام انجام دیں ۔۔ اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۰۰۴۱

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘(الحج:41)

جن کو بھی ہم سلطنت دیتے ہیں تو وہ یہ چار کام اس میں نافذ العمل لاتے ہیں۔۔ آپ کے پاس حکومت نہیں ہے ۔۔ تو آپ کے پاس ادارہ ہے، مسجد ہے ۔۔۔

ہم نے لاہور میں ایک مسجد میں یہ سب کام کیے ۔۔ ایک سال کے لئے میں نے یہ سب کام اپنے ذمہ میں لیکر شروع کرے ۔۔ یقین کریں کہ آٹھ دس سال ہوگئے ہیں ۔۔۔ سارے سال کا خرچہ اکھٹا ہوتا ہے ان کے بیت المال میں وہاں ایک لسٹ لگی ہے ۔۔۔ کہ اتنی بیوہ عورتیں اتنے یتیم گھرانے۔ اتنے مساکین ہیں جن کے گھر کھانا پہنچتا ہے ۔۔ اور ماشاء اللہ مسجد بھی بھر گئی ہے نمازیوں سے ۔۔۔ تو میں پھر گزارش کروں گا کہ ایک منظم طریقے سے کام کریں۔ آپ نے یہ چار کام کرنے ہے مسجد کو مرکز بناکر پھر دیکھیں کہ کیسے ترقی نہیں ہوتی ۔۔۔ اگر اہل حدیث کی ایک لاکھ مساجد ہوں اور ان سب میں یہ کام شروع ہوجائے میں یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کا نفاذ حکومتی سطح تک پر ہوسکتا ہے چاہے زور سے ہو یا ووٹ سے ہو۔ ضرورت اس بات کی ہر کام بنیاد بناکر کیا جائے ۔۔ بنیاد نہیں ہوگی تو کچھ نہیں ہوسکے گا ۔۔۔ یہ ایک بنیاد ہے پورے پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی ۔۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپ کے لئے آسانیاں کرے آمین ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے