دینی مدارس وطن عزیز کی وہ بڑی این جی او ہے جو حکومت کے تعاون کے بغیر لاکھوں بچوں کو تعلیم، لباس، خوراک اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہے۔ ان مدارس کے اساتذہ کرام اور مہتمم حضرت توکل علی اللہ اپنی زندگیاں اس کارخیر میں صرف کردیتے ہیں۔ معمولی تنخواہوں پر گذارہ کرتے ہیں۔ اور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے عمل کا صلہ اللہ سے ملنے کی امید رکھتے ہیں۔

مدارس اسلامیہ کو حکومت نہ صرف نظر انداز کرتی ہے بلکہ ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بھی کرتی رہتی ہے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے ان قابل ذ کر مد ارس کو تعاون بھی حاصل نہیں ہوتا حتی کہ بجلی اور گیس کے بلز میں ڈالے گئے ٹیکسز بھی مساجد و مدارس ادا کرتے ہیں۔

ان مدارس دینیہ سے فراغت حاصل کرنے والے طلباء معاشرے کی دینی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور معاشرے میں اصلاح و تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خوشی و غمی میں بھی شریک رہتے ہیں اور معاشرے کے کارآمد افراد ہوتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح سے حکومت اسکول، کالج اور یونیورسٹی کےلیے عمارت مہیا کرتی اور وہاں پر تدریس کا فریضہ سرانجام دینے والے اساتذہ کو اچھی تنخواہیں اور دیگر مراعات دیتی ہے بعینہ اسی طرح سے مدارس اسلامیہ کو بھی سہولیات دی جاتیں۔ لیکن مدارس اسلامیہ کے بارے ان کا معیار تبدیل ہو جاتا ہے۔

اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء کو یونین بنانے اور ملکی سیاست میں ہر طرح سے حصہ لینے کی آزادی اور اجازت ہے جبکہ مدارس اسلامیہ کے طلبہ سے یہ آزادی سلب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ آخر کیوں؟

کیا مدارس اسلامیہ کے طلبہ پاکستانی نہیں ہیں؟*

کیا مدارس اسلامیہ کے طلبہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے؟

کس قانون اور آئین کے تحت مدارس اسلامیہ کے طلبہ کا حق غصب کیا جارہا ہے؟

اگر سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی طلباء تنظیمیں بنانے اور انہیں سیاست میں ملوث کرنے کی آزادی ہے تو مدارس کے طلبہ کے لیے سیاست یا سیاسی پروگرام میں شرکت شجر ممنوعہ کیوں ؟

کیا ملک میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن و دیگر طلباء کی تنظیمیں موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں اور وہ ملکی سیاست میں حصہ بھی لیتی ہیں اور تحریک انصاف بھی طلباء کو سیاست میں استعمال کرتی رہی ہے تو اپنی حکومت میں مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے بارے ایسی پالیسی کیوں اختیار کررہی ہے؟

جناب وزیراعظم صاحب!!!

دینی حلقوں میں آپ کی کریڈیبلٹی پہلے ہی کچھ اچھی نہیں ہے اب آپ کی حکومت کے ایسے اقدامات رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے۔ اس لیے سوچیے اور غور کیجئے کہیں آپ سے ایسا فیصلہ کروا کر دینی لوگوں اور ارباب مدارس کو مزید دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لیے اس فیصلے سے دور رہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل میں ان مدارس کی طلباء کی آپ کو بھی ضرورت پڑ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے