مسلمان وقف املاک کی تعریف مذہبی، تعلیمی، خیراتی یا کسی بھی دوسرے نیک مقصد کے لیے مختص ملکیت یا اثاثے کے طور پر کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان معاشروں میں بڑی تعداد میں ایسی مساجد اور دینی مدارس ہیں جن کے لیے نہ صرف زمین بلکہ دوسرے ذرائع بھی لوگوں نے اپنے ذاتی ذرائع سے وقف کیے  ہیں۔

وقف املاک میں صرف مساجد یا دینی مدارس شامل نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہسپتال، تعلیمی ادارے اور دوسرے خیراتی ادارے بھی اسی طرح قائم کیے اور چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی وقف املاک پر بنائے گئے اداروں کی بڑی تعداد موجود ہیں جن میں اکثریت مساجد اور دینی مدارس کی ہے۔

چند ماہ  قبل وقف املاک  2020کے نام سے ایک بل ملک کے قانون ساز فورم ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں پیش کیا گیا ، جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے قومی نمائندگی کرتے ہوئے قانون سازی کے عمل میں اپنا کردار ادا کیا اور ایک قانون سازی عمل میں آئی، جو صدرِ مملکت کے دستخطوں سے آخری منظوری حاصل کرنے میں بھی کا میاب رہی۔

اس بل کے اہم مندرجات اور اُن پر مختصر شرعی و فقہی تبصرے ملاحظہ فرمایئے! نئے قواعد میں شامل ’’اسلام آباد وقف املاک بل 2020ء‘‘ کے مطابق:

۱:- ’’وفاق کے زیرِانتظام علاقوں میں مساجد، امام بارگاہوں کے لیے وقف زمین چیف کمشنر کے پاس رجسٹرڈ ہوگی۔‘‘ جبکہ شرعی لحاظ سے وقف کی صحت و تمامیت کسی رجسٹریشن پر موقوف نہیں ہے۔

۲:-’’ اس کا انتظام و انصرام حکومتی نگرانی میں چلے گا۔‘‘ حالانکہ اوقاف کا غالب حصہ پرائیویٹ سطح پر ہی ہوتا ہے، وقف کے انتظام وانصرام کو سرکار تک محدود کرنا وقف کے روایتی احکام کے منافی ہے۔

۳:-’’ بل کے مطابق حکومت کو وقف املاک پر قائم تعمیرات کی منی ٹریل معلوم کرنے اور آڈٹ کا اختیار ہوگا۔‘‘ وقف ایک عبادت ہے، بالخصوص مساجد ومدارس کی مد میں وقف کرنا عبادت ہے، اس قسم کی مالی عبادت میں اخفاء (رازداری) کا شرعی پہلو منی ٹریل دینے کا پابند نہیں ٹھہراتا۔

۴:–’’ وقف کی زمینوں پر قائم تمام مساجد، امام بارگاہیں، مدارس وغیرہ وفاق کے کنڑول میں آجائیں گی۔‘‘ دنیا سے اسلامی اقتدار کے غروب کے بعد یہ انگریزی حسرت تھی کہ دینی مراکز بھی سرکاری تحویل میں لیے جائیں، جو مذہبی آزادی  ، دینی اقداراورعبادات کی آزادانہ ادائیگی پر قدغن کے مترادف ہے۔ دین اور دینی  احکام سے ناآشنا انتظامیہ کو دینی مراکز پر تسلُّط دینا درحقیقت ان دینی مراکز کی تباہی اور ویرانی کا ذریعہ ہے، اس لیے مدارس ومساجد کا سرکاری کنٹرول میں آنا شرعاً درست نہیں ہے۔

۵:-’’ وقف املاک پر قائم عمارت کے منتظم منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے تو حکومت ان کا انتظام سنبھال سکے گی۔‘‘ جبکہ منی لانڈرنگ کا مبینہ مفہوم مساجد ومدارس پر مالی معاونت کی صورت میں کی جانے والی عبادت پر صادق نہیں آتا، اس کے باوجود ایسی املاک کو ناروا بہانے سے سرکاری تحویل میں لینا اسلامی ملک میں مذہبی آزادی سلب کرنے کی ناجائز کوشش ہے۔

۶:-’’ بل کے مطابق قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ اور ۵ سال تک سزا ہو سکے گی۔‘‘ حالانکہ اسلامی شریعت میں مالی جرمانہ حرام کے درجہ میں ہے۔

۷:-’’ حکومت چیف کمشنر کے ذریعے وقف املاک کے لیے منتظمِ اعلیٰ تعینات کرے گی۔‘‘ جبکہ جن وقف املاک کا منتظم ومتولی خود واقف (وقف کنندہ) نے متعین کردیا ہو، اُسے سرکار معزول نہیں کرسکتی۔

۸:-’’ منتظمِ اعلیٰ کسی خطاب، خطبے یا لیکچر کو روکنے کی ہدایات دے سکتا ہے۔‘‘ یہ تو مذہبی آزادی کے عالمی قانون اور دینی نصیحت کی خلاف ورزی ہے۔

۹:-’’ منتظمِ اعلیٰ قومی خود مختاری اور وحدانیت کو نقصان پہنچانے والے کسی معاملے کو بھی روک سکے گا۔ نئے قوانین میں انسدادِ دہشت گردی ترمیمی ایکٹ 2020  بھی شامل ہے۔‘‘ بلاشبہ قومی وحدت اور خود مختاری پر قدغن جرم ہے، مگر اُسے دہشت گردی نہیں کہاجاسکتا، فقہی لحاظ سے دہشت گردی کے لیے ’’بغي‘‘ کا ضابطہ لاگو ہوسکتا ہے، جس کا یہاں انطباق مشکل ہے۔

۱۰:-’’ ایڈمنسٹریٹر کے کسی حکم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔‘‘کسی بھی حکم کا نان چیلنج ایبل ہونا یہ شریعتِ اسلامیہ اور عالمی قوانین سے متصادم ہے۔

۱۱:-’’ وقف فرد کے نام ہوگا ، ادارہ کے نام پر نہیں ہوگا، یعنی مسجد یا مدرسہ کو رقم نہیں دی جاسکتی، بلکہ نیچر پرسن (اصلی شخص) کو دیں گے۔‘‘ جبکہ شریعت کی رو سے وقف میں یہ پابندی ہرگز نہیں ہے۔ وقف اداروں کے نام بھی ہوسکتا ہے اور افراد کے نام بھی صحیح ہے۔

۱۲:-’’ مسجد ومدرسہ کو رقم دینے والے اپنے منی ٹریل دینے کے پابندہوں گے۔‘‘ جبکہ یہ شخصی مالی عبادت پر قدغن ہے، اور کارِ خیر کے انسداد کا باعث ہے جو شرعاً ظلم بھی ہے۔

۱۳:-’’ مسجد ومدرسہ کے اخراجات کی فنڈنگ کی تفصیلات یا منی ٹریل نہ ہونے پر عمارت سرکاری تحویل میں منتقل ہوجائے گی۔‘‘جبکہ شرعی لحاظ سے یہ ایسی بنیاد نہیں ہے، جس کے باعث خاص اوقاف سرکاری تحویل میں منتقل ہوسکیں۔

۱۴:-’’ وقف ادارے کے تمام عہدیداروں کا مکمل ڈیٹا اور ٹیکس ریکارڈ حکومت چیک کرے گی۔‘‘ اوقاف کی ایسی چیکنگ یا دخل اندازی جو اوقاف کے مطلوبہ مقاصد کی نفی یا تعطل کو مستلزم ہوں جائز نہیں، حکومتی پڑتال کا مبیَّنہ مقصد اور ضرر یہی معلوم ہورہا ہے۔

۱۵:-’’ وقف کی رقم کو منتظمِ اعلیٰ اپنی صوابدید پر کسی بھی مصرف میں استعمال کرسکتا ہے۔‘‘ حالانکہ جہتِ وقف کا لحاظ رکھنا شرعاً لازم ہے۔

۱۶:-’’ ادارے کے منتظم کو ذرا سی شکایت پر وارنٹ اور وارننگ کے بغیر ۶ ماہ کے لیے اُٹھایا جاسکتا ہے۔‘‘ جبکہ شریعت کی رو سے کسی ملزم کو جرم کے شرعی ثبوت کے بغیر قید کرنا جائز نہیں ہے، چہ جائیکہ معمولی سی شکایت پر ۶ ماہ کے لیے لاپتہ کیا جائے، یہ عمل بذاتِ خود شرعی جرم ہے۔

مذکورہ بل کے مندرجات سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اس بل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ا بتدائی طور پر وفاقی دارالحکومت میں واقع مذہبی عبادت گاہوں اور دینی تعلیم گاہوں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے گا، اس تجربہ کے بعد ملک بھر میں موجود عبادت گاہوں اور دینی تعلیم گاہوں کو سرکاری تحویل میں لایا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ کوئی نئی واردات نہیں ہے، اس سے پہلے بھی یہ کوششیں ہوتی رہیں، مگر اس کوشش کے حاملین ایسی حسرتوں کے ہمراہ مدفون ہوگئے اور یہ مساجد ومدارس اسی طرح مصروفِ کار ہیں۔

اصل قضیہ یہ ہے کہ ۲۰۰۰ء کے بعد سے مساجد ومدارس کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی طاقتوں نے مشترکہ طور پر سارے جتن آزمائے ، مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب F.A.T.F کے مطالبات کی آڑ میں مساجد ومدارس کے لیے پرانے مداری نیا جال لے کر میدان میں اُترے ہیں اور وطنِ عزیز کے سرکاری مناصب پر قابض مغربی  ایجنٹ اپنے آقاؤں کی خدمت اُن کے خطوط پر کر رہے ہیں اور مغربی آقاؤں کی ہر طرح کی بلیک میلنگ کا شکارہیں۔ ا

{FATF} یعنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ۔۔۔ طاقتور استعماری ملکوں کا اسلامی ممالک میں تہذیبی اقدار کی مکمل پامالی کے لئے قائم ایک مالیاتی اتحاد ہے جو منی لانڈرنگ کے بہانے اور دہشتگردی کی آڑ میں کمزور اسلامی ممالک جہاں مذہبی شعائر ابھی تک قائم ہیں اور اسلام کے تہذیبی و ثقافتی مراکز و مدارس کا مضبوط کرداد موجود ہے ان ممالک کو پہلے گرے لسٹ میں ڈال کر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور اسلامی ممالک کی آزادانہ تجارت کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے اور آزادانہ ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے اور اس کے بعد گرے لسٹ میں ڈال کر اپنی سرمایہ دارانہ تہذیبی اقدامات کی فہرست تھماکر ناجائز مطالبات کرتا ہے ۔ کمزور اسلامی ممالک کی پارلیمنٹ کو مالیاتی طور پر بلیک میل کرکے ان سے اپنی مرضی کے قوانین بنواتا ہے یعنی اسلامی ممالک کی جمہوریت میں استعماری ممالک کی تنظیمات قانون سازی کرتی ہیں۔اس کی مثال پاکستان میں ایف اے ٹی ایف کے ناجائز غیر اسلامی بلوں کی منظوری ہے جس میں وقف املاک کا ایکٹ بھی شامل ہے۔جسے علماء اور مدارس کے تمام بورڈ غیر اسلامی قرار دے چکے ہیں ۔   تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے تحریک تحفظ مساجدو مدارس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے وقف املاک بل 2020کو غیر آئینی، غیر شرعی اور قرآن و حدیث کے منافی قراردے دیا۔تمام مسالک کے علمااس بل کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کرکے سازشوں کے ناکام بنا چاہے  انگریز نےبھی برصغیر میں آتے ہی مساجد کے ماحول کو متاثر کرنے کیلئے سازشیں کیں،موجودہ حکومت بھی بیرونی سازشوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے وقف املاک بل سے مدارس کی آزادی کو صلب کرنے کی مذموم کوشش کر جا رہی ہے   ایسے بلز آئین پاکستان کے بھی خلاف ہیں کیونکہ آئین پاکستان میں واضح طور پر یہ لکھا ہوا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں کوئی قانون بھی قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا ۔ لیکن ایف اے ٹی ایف سے منسلک طاقتور صیہونی ایجنڈے پر گامزن ممالک پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی دھمکی دے کر گویا گن پوائنٹ پر ہماری حریت، قومی سلامتی ، آئین اور عوام کی امنگوں کے خلاف قانون سازی کروارہے ہیں۔ مذہبی جماعتیں جنہوں نے سالمیت وطن میں  درخشاں کردار ادا کیا ، ان  کے لوگوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالنا ،توہین رسالت کے ملزموں کو باعزت بری کردینا،اور مدادس کے کردار کو محدود کرنا ، یہ سب ایف اے ٹی ایف کی خواہش ہے۔

25 فروری کو پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا تین روزہ اجلاس ہوا جس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔گرے لسٹ میں موجود تمام ممالک اور پاکستان کے کیسز پر غور اور اجلاس کے اختتام پر فیصلہ کیا جائے گا کہ انہیں بلیک لسٹ میں ڈالنا ہے یا ابھی ادھر ہی رکھنا ہے ۔ اکتوبر 2020 کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے لئے مالی معاونت کی روک تھام کے 27 نکاتی ایکشن پلان کے 6 اہداف کے لئے فروری 2021 تک گرے لسٹ میں رہےگا۔پاکستان کے باخبر بڑے اخبارات کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پاکستان بقیہ 6 سفارشات پر بھی عمل کرچکا ہے اور اس کی تفصیلات بھی ایف اے ٹی ایف کو بھجوادی گئی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کو ایک تفصیلی جواب جمع کرایا گیا تھا اور اس وقت بھی انہوں نےاسلام آباد سے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا تھا ہر دفع مطالبہ پورا کرنے اور رپورٹ پیش کرنے پر {ھل من مزید } do more کا مطالبہ کردیا جاتا ہے۔ پیرس میں مقامی میڈیا کے مطابق کچھ یورپی ممالک بالخصوص میزبان فرانس نے پاکستان کو مسلسل گرے لسٹ میں رکھنے کی سفارش کی ہے اور یہ کہا ہے کہ پاکستان نے ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا اور دیگر یورپی ممالک بھی فرانس کے حامی ہیں۔ فرانس گستاخانہ خاکوں کے حالیہ ردعمل سے بھی پاکستان سے خوش نہیں ہے جبکہ پاکستانی عوام نے گستاخانہ خاکوں کے ردعمل کے طور پر احتجاج اور دھرنے دیے۔۔ دوسری جانب امریکی تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ  امریکہ  ڈینیئل پرل قتل کیس میں ایک ملزم کی بریت پر تحفظات کا اظہار کرچکا ہے اسی لئے امریکہ بھی پاکستان کو جون تک گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے لیے اپنا گھناؤنا کردار ادا کرے گا جبکہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے اقدامات کو سراہا ہے جو بڑی حد تک عالمی اقدامات کے مطابق ہیں۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ان نکات پر عمل درآمد کو میرٹ بنا مر فیصلہ ہوا تو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے ضرور نکال دیا جائے گا ۔لیکن اگر مغربی ممالک اور امریکہ نے دباؤ ڈالنا ہوا تو نام برقرار رکھا جائے گا۔ ترکی ، ملائشیا اور چین نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہوئی ہے کہ ان ممالک کے ووٹوں کے  بغیر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ہر گز شامل نہیں کیا جا سکتا۔لیکن گرے لسٹ سے نکلنے کی تگ ودو چل رہی ہے جس کی ہم بھادی معاشی ، معاشرتی اور دینی قیمت ادا کررہے ہیں۔

    دوسری طرف ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو جون تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ آچکا ہے ویب ڈیسک 25 فروری ،   2021   کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا کہنا ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کےضمن میں خامیاں پائی گئی ہیں،  فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو رواں سال جون تک گرے لسٹ میں ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ایف اےٹی ایف نے پاکستان کوبقیہ 3 نکات پر عمل کرنےکے لیے4 ماہ کی مہلت دی ہے۔ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان نے27 میں سے 24 نکات پر عمل درآمد کرلیا ہے، جون تک پاکستان تمام 27 نکات پر عمل درآمد کرے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا کہنا ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کےضمن میں خامیاں پائی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ آپ راضی نہیں ہوگے کیونکہ فرمان باری تعالی ہے :  وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (۔البقره  120 )

مگر ہم وطن عزیز کے حکمرانوں، قومی اداروں کے پالیسی ساز ذمہ داروں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ اپنے پاکستانی بھائیوں کی خدمت میں مدارس کے بارے میں شاعر مشرق، مفکرو محسن پاکستان جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم کے اس قول کو پیش کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ، جو یقیناآبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہےآپ  ہماری  بات نہیں مانتے ہو تو نہ مانو ، اگرآپ اس ملک و قوم کے خیر خواہ اور وفادار ہو تو اپنے محسن اور مفکر وطن کی تو مانو، علامہ صاحبؒ نے فرمایا:  ’’ ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جوکچھ ہوگا میں اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان(اور اب پاکستانی مسلمان بھی)ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آ ثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، برصغیر پاک و ہند میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ (لاہور کے شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد) کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے