جون 1963ء کی بات ہے، مَیں کالج کو خیر باد کہہ کر جامعہ اسلامیہ ڈھلیانہ ضلع اوکاڑہ میں شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ  سے بخاری شریف کا درس لیتا تھا۔ بعض دینی مسائل میں اشکال ہوا۔ کسی نے لاہور میں سید ابوبکر غزنوی کی خدمت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ 4 شیش محل روڈ پر دار العلوم تقویہ الاسلام لاہور میں مین گیٹ کے ساتھ ہی سیڑھیاں چڑھ کر سید صاحب کی رہائش تھی۔ میں نے چند سیڑھیاں چڑھ کر حضرت سید صاحب کو آواز دی، دیکھا کہ حضرت سید صاحب نیچے تشریف لارہے ہیں، ساتھ ہی زبان مبارک سے ’’جی جی‘‘ فرما رہے ہیں۔ بندۂ عاجز نے پہلی دفعہ زیارت کی۔ سفید لباس زیب تن کیے ہوئے، نہایت خوبصورت اور پُر نور چہرہ اور بارعب شخصیت آج بھی میرے سامنے ہے ۔مَیں نے سلام عرض کیا، اُنہوں نے جواب دے کر آنے کا سبب دریافت کیا۔ عرض کیا حضرت! کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کمرے میں لے گئے۔ پانی پلایا اور پھر فرمایا؟ ’’جی آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘ مَیں نے اپنا روحانی مسئلہ گوش گزار کیا۔ فرمانے لگے :’’ہم نے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ وہ سیر ہو کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور اُن کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں، بھائی دیکھو! اللہ تعالیٰ نے سیب بنائے تو کتنی اقسام کے بنائے، آم بنائے تو ان کی کتنی اقسام پیدا فرمائیں، پھولوں کی کتنی انواع و اقسام پیدا کیں اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے روحانی نعمتوں کو تخلیق کیا تو اس کی صفت اخلاقی زوروں پر تھی، یہ روحانیت اور اس کے قرب کی لذتیں ہیں کہ کبھی انسان نماز میں لذت محسوس کرتا ہے، کبھی تلاوت قرآن مجید میں، کبھی نوافل کی ادائیگی میں اور کبھی ذکر میں، روحانی غذاؤں کی لذتیں الگ الگ ہیں دراصل یہ لطف و سر ور قرب خداوندی کا ہے»

اس سے میرے تمام اشکالات دور ہو گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے اُنہوں نے میرے تمام مسائل کا سبب اور حل ارشاد فرما دیا ہو، پھر مجھے لا الہ الا اللہ کے وظیفے کی تاکید کی۔ فرمایا: اللہ کے قرب کے لئے اس کا ذکر نہایت ضروری ہے، ذکر الٰہی بڑی چیز ہے۔ اس کے بعد ایک دو دفعہ پھر اُن کی خدمت حاضر ہونے کا موقع ملا۔ اس دوران 16 دسمبر 1963ء کو ان کے والد گرامی، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے اولین رہبر، سیاست کے سرگرم کردار، مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اس المناک موقع پر تعزیت کے لئے حاضر ہوا۔ ستمبر 1965ء میں اُنہوں نے جہاد کے موضوع پر لاہور میں تقاریر کیں، اس دوران ان کی شخصیت مجھ پر آشکار ہوئی۔ وہ عظیم خطیب تھے، کمال درجے کا جوہر رکھتے تھے . تقریر کے لئے بلیغ اور مؤثر ترین الفاظ کا انتخاب کرتے، دلائل سے مرصع خطاب موقع بہ موقع اُردو، عربی اور فارسی اشعار سے تقویت پاتا اور دلوں میں گھر کرتا جاتا۔

وہ ہر جمعرات کو عصر کی نماز کے بعد ذکر کی محفل منعقد کیا کرتے تھے۔ لوگ حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے، وہ دس منٹ درس دیتے، پھر لوگوں سے کہتے: ’’ سب بھائی اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، اسے یاد کریں ‘‘ راقم بھی ان مجالسِ ذکر میں شریک ہوتا تھا۔ ان کے پاس حاضر ہوتا، سلام عرض کرتا، پھر دعا کی درخواست کرتا اور وہ آمین کہہ دیتے۔ ایک دفعہ ان کی رہائش گاہ آفیسرز کالونی میں ان کی معیت میں حج کے لیے دعا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تو بندۂ عاجز نے یہ دعا کی کہ «اے اللہ ! بندے کو حرم پاک میں سید صاحب کی جوتیاں اُٹھانے کی سعادت نصیب فرما» حضرت بھی دعا کر رہے تھے۔ ان کے جسم پر خشیت الہٰی کی وجہ سے لرزہ طاری تھا۔ بندۂ عاجز کو یقین ہوگیا کہ دعا قبول ہو گئی۔ جب اُنہوں نے دعا کا اختتام فرمایا تو فرمانے لگے «میں نے تو حج کی دعا ہی نہیں کی، مَیں نے تو دعا کی ہے کہ اے اللہ ! تو میرے وجود کے چپے چپے پر اپنی عبودیت کی مہریں نصب فرما:

دلم براہ تو صد پارہ باد

ہر پارہ ہزار ذرہ

وہر ذرہ در ہوائے تو باد

(دِل کے تیرے راستے میں سو ٹکڑے ہوں، ہر ٹکڑے کے ہزار ذرے ہوں اور ہر ذرہ صرف تیری محبت اور تیری رضا میں ہو، ہر ذرے سے صرف تیرے نام کی آواز آرہی ہو)

 محترم سید صاحب رحمہ اللہ  نے دو حج فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے بندۂ عاجز کو بھی 1969ء کے موسم حج میں حضرت سید صاحب کے ساتھ حج کی پر سعادت گھڑیاں گزارنے کا شرف ملا، انہوں نے حج کے ارکان نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع سے ادا کیے۔اللہ نے اس فقیر کو اپنے خاص فضل سے سید صاحب کی معیت کا اعزاز بخشا۔ مَیں ان کی خدمت کے لئے ان کے ساتھ ساتھ رہتا، وہ بیت اللہ آتے، طواف، ذکر و اذکار کرتے، نوافل پڑھتے، جب تھکان محسوس کرتے تو رہائش گاہ چلے جاتے، وہاں بھی ذکر و اذکار میں مشغول رہتے۔ وہ قرآن کی آیت :الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ(آل عمران:191) کی عملی تفسیر بنے ہوئے تھے۔ ایک دن مَیں نے عرض کیا، حضرت بیت اللہ چلیں، اُنہوں نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، پھر عرض کیا تو دوبارہ خاموش رہنے کو کہا، راقم سے صبر نہ ہوسکا تو فرمایا! چلو۔

اس دوران وضو کر کے سیڑھیاں اتر رہے تھے، باب بلال کی طرف سے حرم پاک میں داخل ہوئے اور ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور خانہ کعبہ کی طرف دیکھنے لگے، دیکھتے دیکھتے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور پھر وہ آنسو لگا تار بہنے لگے، ان پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی، جسم پر لرزہ طاری ہوگیا، اس وقت ان کے چہرے پر ایسا نور اور وہ کیفیت تھی کہ مَیں ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس عالم میں ، مَیں نے ان کی زبان سے یہ الفاظ سنے ’’ادھی ادھی ‘‘ اور پھر ’’ ایناں تاریاں توں پوچھ ‘‘! اس وقت ان کے چہرے پر وہ رعب تھا کہ مَیں نہ تو کچھ پوچھ سکا اور نہ ہی سمجھ سکا۔ بعد میں جب ہم واپسی کے لئے حرم پاک سے نکل رہے تھے تو مَیں نے نہایت ادب سے عرض کیا، حضرت یہ کیا کیفیات تھیں؟ فرمایا : ’’مَیں اپنے دل کو الٹا کر کے سو جاتا ہوں ،اگر اسے اللہ کی رحمت کے سامنے کر دوں تو یہ پھٹ جائے، اس کا کرم مجھے ڈھانپ لیتا ہےاور میرے دل کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچالیتا ہے ‘‘

بعد میں مجھے پتہ چلا کہ سید صاحب ؒ کے ادھی ادھی کہنے کا مطلب یہ شعر تھا:

ادھی ادھی راتیں میں باری وچ بہنی آں

رو رو ہنجواں دے ہار پرونی آں

تیرے عشق وچ سڑ کے ہوئی آں سواہ

ایناں تاریاں توں پوچھ نہیں رہے چن وے

ان کی معیت میں غار حرا میں دو رکعت نماز پڑھنے کی سعادت عظمٰی نصیب ہوئی۔ ان کے جسم مبارک پر خشیت کی وجہ سے شدید لرزہ طاری تھا، آنسوؤں کی جھڑیاں برس رہی تھیں اور میرے ذہن میں یہ آیت تازہ ہو رہی تھی

وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ(البقرة:74)

کچھ پتھر ایسے ہیں جن میں سے (اللہ کے ڈر کے سبب ) نہریں پھوٹ پڑتی ہیں۔ غار حرا کے باہر پتھر پر بیٹھ کر ان کے ساتھ دعا کرنے کا شرف بھی اس عاجز کے حصے میں آیا اور دل نے کہا کہ جہاں اس عظیم انسان کے قدم ہیں، وہاں میرا سر بھی نہیں۔

ایک دن بیت اللہ میں ترکوں والے حرم میں رکن یمانی کی طرف تشریف فرما تھے۔ بندۂ عاجز نے عرض کیا، حضرت!کوئی نصیحت فرمائیں، فرمایا! ’’ہر کام اللہ کے لئے کرو، یہ کہنا آسان ہے،لیکن عمل کرنا مشکل ترین کام ہے»

 ان کی معیت میں حطیم میں دو رکعت نماز پڑھنے کی سعادت عظمٰی بھی نصیب ہوئی۔ نماز کے بعد سید صاحب رحمه الله  نے اونچی آواز میں بندۂ عاجز کے لئے یہ عظیم دعا فرمائی جو کہ موسی عليه السلام نے اپنے بھائی ہارون  عليه السلام کے لئے فرمائی تھی :

اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِيْۙ۰۰۳۱ وَاَشْرِكْهُ فِيْۤ اَمْرِيْۙ۰۰۳۲كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًاۙ۰۰۳۳  وَّ نَذْكُرَكَ كَثِيْرًاؕ۰۰۳۴ اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْرًا۰۰۳۵(طه:31تا 35)

’’اے اللہ تو اس کے ذریعے میری پشت مضبوط کر دے اور اسے میرے کام میں شریک کردے تاکہ ہم تیری تسبیح بیان کریں اور تجھے بہت زیادہ یاد کریں، بے شک تو ہمیں خوب دیکھنے والا ہے ‘‘۔

 حرم پاک میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں ان کی زبان مبارک پر یہ شعر جاری ہوتا تھا:

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جوکوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

یہ شعر بھی پڑھتے ہوتے تھے :

اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پہ

تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا

ایک دن مَیں نے عرض کیا: حضرت بندۂ عاجز وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ۰۰۳۷(ابراهيم:37)یہ آیت تلاوت کر کے یہ دعا کرتا ہے: ’’اے اللہ ! مجھے روحانی پھل نصیب فرما‘‘ تو نہایت سخت اور شفقتوں سے معمور بلند لہجے میں ارشاد فرمایا : ’’یہ کیا مشقتیں ڈال رکھی ہیں، اللہ سے سیب مانگو ، کیلے مانگو ، کنو مانگو، اصحاب شکر میں سے ہو جاؤ ‘‘  چنانچہ ان کے ارشاد گرامی کی تعمیل میں بندہ عاجز بھی ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا :

وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ۰۰۳۷(ابراهيم:37)

کی حقیقت اور عمل کی زبان میں مستفید ہونے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔الحمد للہ ثم الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے بندہ عاجز کی عاجزانہ دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔

ایک دفعہ ان کی رہائش گاہ پر ان کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہو رہا تھا۔ حضرت سید صاحب اور بندۂ عاجز ذکر اذکار میں مشغول تھے تو فرمانے لگے ’’یہ کیا ہو رہا ہے جب مجھ پر انوار برس رہے ہوتے ہیں تو آپ پر بھی پڑتے ہیں، لیکن جب آپ پر انوار کا نزول ہوتا ہے تو مجھ پر نہیں ہوتا‘‘۔ ادب کے باعث جواب تو نہ دے سکا تاہم دِل میں سوچا کہ حضرت! آپ بحرِ ناپیدا کنار ہیں اور مَیں ذرا سی آب جو، اسی لیے آپ پر پڑنے والی رحمت کے چھینٹے قریب بیٹھے لوگوں پر بھی پڑتے ہیں، آپ کا فیض متعدی ہے جبکہ میرا صرف اپنے جسم تک محدود۔ 1971ء میں پاکستان جب دولخت ہوا تو بہت غمزدہ ہوئے۔ وہ اکثر اس غم کا اظہار بھی کیا کرتے۔ کہتے تھے کہ پاکستان توڑنے کا سب سے بڑا مجرم دین کا دشمن ہے۔ ایک دفعہ فرمایا : ’’ بھائی ! کچھ کام بھی کرو گے‘‘؟ عرض کیا، ان شا ء اللہ۔ کہنے لگے ’’کب؟ جب یہ پاکستان ٹوٹ جائے گا؟ ‘‘

ایک دفعہ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ان کا خطاب «اسلامی حکومت کے ناگزیر تقاضے» کے موضوع پر تھا۔ بندۂ عاجز کو بھی ان کی معیت کا شرف حاصل تھا۔ اُنہوں نے مدلل اور احسن انداز میں خطاب فرمایا ۔ ان کی وہ تقریر بعد ازاں ایک کتابچے کی شکل میں شائع ہوئی۔ حضرت سید صاحب نے پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی اور ساتھ ٹائی بھی لگائی ہوئی تھی۔ واپسی پر مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھالیا، گھر پہنچ کر سب سے پہلے لباس تبدیل کیا، سادہ شلوار قمیض پہنے ہوئے میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور فرمایا:  ’’مجھے ان چیزوں سے کوئی محبت نہیں ، صرف اللہ کی بات سنانے کے لئے بہرو پیا بن جاتا ہوں‘‘۔

وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے انتہا محبت کیا کرتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ بہت سی دعاؤں میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک جمعرات مجلس ذکر کے اختتام پر یہ دعا فرمائی: ’’ اے اللہ ! اپنی محبت کی وہ زنجیریں پہنا دے جن کی جھنکار سے پورا عالم گونج اُٹھے ‘‘

وہ دعا کیا کرتے تھے تو نہایت خضوع کے ساتھ اور ان کی دعا میں اتنی عاجزی اور تاثیر ہوتی کہ بندے کو یوں لگتا کہ دعا ابھی قبول ہوگئی ہے۔ وہ یہ دعا کیا کرتے: ’’ اے اللہ بے پناہ بے لوث اپنے دین کا کام کرنے کی توفیق عطا فرما ‘‘

ایک موقع پر انہوں نے فرمایا: «آپ یہ دعا بھی کر سکتے ہیں :

أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّيْ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّأَتُوْبُ إِلَيْهِ

اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا: «ہم اللہ کی طرف کیا پرواز کر سکتے ہیں! آپ یہ دعا کیا کریں :

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ(سنن الترمذي:3434)
اور ساتھ یہ الفاظ کہے۔ «مَیں تیری طرف کیا پرواز کر سکتا ہوں، اے اللہ تو ہی اپنی رحمت سے میری طرف متوجہ ہو :
إِلَهِىْ أَنْتَ مَقْصُوْدِى وَرِضَاكَ مَطْلُوْبِى

حضرت سید صاحب اللہ تعالیٰ سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ والہانہ عقیدت رکھتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اُردو، فارسی ،عربی اور بعض دفعہ پنجابی کے شعر پڑھا کرتے تھے:

جٹی نوں تو ہیر بنا دے

تیرا کیہڑا زور لگ دا

’’ اے اللہ مَیں تو ایک عام سا تیرا بندہ ہوں۔ یا اللہ تو مجھے اپنے محبوب اور مقرب بندوں میں شامل فرما لے اور ایسا کرنا تیرے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ‘‘۔

حضرت سید صاحب بندۂ عاجز کے ساتھ نہایت شفقت فرماتے، اپنی صحبتوں میں ساتھ رکھتے، بندۂ عاجز کی اصلاح فرماتے ۔ 1974ء میں میری درخواست پر تحریک احیائے دین سیدین شہیدین کے امیر صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حکومت وقت نے ان کو بڑے بڑے عہدوں کی پیشکش کی مگر انہوں نے ٹھکرا دی۔ انہیں پیشکش ہوئی حضرت! آپ وزارت کا عہدہ قبول فرما لیں۔ فرمانے لگے: ’’وزارت کی زندگی چھ ماہ کی اور فقیر کی زندگی ابدی ہوتی ہے‘‘

1975ء میں حکومت پاکستان نے انہیں پہلے وائس چانسلر کے طور پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں تعینات کر دیا۔ حضرت سید صاحب نے مجھے مکتوب گرامی لکھا، جس میں انہوں نے اپنی نئی ذمہ داریوں کے بارے میں لکھا اور ساتھ فرمایا دعا کریں، اللہ تعالیٰ نئی ذمہ داریاں احسن انداز سے نبھانے کی توفیق دے۔ 1976ء میں حضرت سید صاحب حکومتی وفد کے ساتھ لندن میں تعلیمی کانفرنس میں شریک ہوئے، وہاں پر انہوں نے مقالہ پڑھنا تھا۔۔۔لیکن اچانک سڑک عبور کرتے ہوئے ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ جب مجھے اس سانحہ کی خبر ہوئی تو مَیں نے فوراً تیاری کی کہ لندن اپنے محسن کی تیما رداری کے لئے جاؤں ،لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ، 24 اپریل 1976ءکو ان کی وفات کی افسوس ناک خبر ملی ( انا للہ وانا الیہ راجعون)

پانچ دنوں کے جاں گسل انتظار کے بعد جمعرات 29 اپریل 10 بجے ان کا جسد خاکی لاہور پہنچا، دارالعلوم تقویہ الاسلام میں تابوت میں بند ان کی میت پہنچی تو مَیں وہیں تھا۔ دارالعلوم کا ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، کہرام بپا تھا، مَیں انتہائی غم زدہ دل کے ساتھ ان کی میت کے ایک طرف کھڑا ان کو تک رہا تھا۔ شام تک وہیں کھڑا رہا اور روتا رہا، چہرہ آج بھی یاد ہے، روشن چہرہ ۔ حضرت مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ نے ان کا جنازہ پڑھایا۔ اللہ میرے محسن کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے