موت کا مرحلہ یقینی مرحلہ ہے جس سے کسی کو فرار نہیں ، جو زندہ ہے وہ مرے گا، ہر دیکھنے والی آنکھ ایک دن بند ہوگی، ہر دھڑکنے والا دل ایک دن ساکن ہوگا۔ ہر ایک پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ قبر کی دہلیز پر کھڑا ہوگا، ایک ایسے جہان کوچھوڑ رہا ہوگا جس کی طرف دوبارہ پلٹ کر نہیں آسکتا اور ایک ایسے جہان کی طرف روانگی ہوگی جس سے انکار کی مجال نہ ہوگی۔

اس دنیا میں کتنے لوگ آکر واپس جاچکے ہیں اس کا اندازہ کسی کے بس میں نہیں ہے البتہ بعض نے یہ کہہ دیا کہ ممکن ہے ہمارے دَرودیوار بھی انسانوں کے جسموں سے بنے ہوں۔ لیکن آج اکثر کی قبروں کے نشان زمین پر نہیں ہیں ۔ اور ان کے نام کسی رجسٹر کے ورق پر ثبت نہیں ہیں۔

سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کئی صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

لیکن کچھ ایسے بھی انسان گزرے ہیں کہ مرورِ زمانہ سے ان کے نقوش مٹ نہیں گئے بلکہ اہل دل کے دلوں اور مجلسوں میں آج بھی ایسے زندہ ہیں جیسے وہ خود مجلس میں موجود ہوں۔ انہیں کے بارے میں باری تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ١ؕ بَلْ اَحْيَآءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۰۰۱۵۴ (البقرۃ:154)

انہیں عظیم ہستیوں میں سے ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب رحمہ اللہ بھی ہیں جن کے دِل میں انسانیت کا غم تھا، جو دوسروں کے لیے جیتے تھے اور دوسروں کو جینے کا سلیقہ سکھلاتے تھے۔

وہ حلیم اور وہ تواضع اور وہ طرزِ خود فراموشی

خدا بخشے جگر کو لاکھ انسانوں کا انسان تھا۔

تعارف :

ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا ولد محمد شریف ولد محمد حسین

ان کی ولادت 16 مئی 1935ء کو چک نمبر 4 ج۔ب رام دیوالی (موجودہ رحمان والی) ضلع لائل پور ( موجودہ فیصل آباد) میں ہوئی جو اس وقت فیصل آباد سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔

ڈاکٹر موصوف کے والد محترم چوہدری محمد شریف رندھاوا فیصل آباد کے معروف وکیل تھے جو بعد میں مجسٹریٹ کے عہدہ پر فائز ہوگئے تھے اور لاہور، میلسی، میانوالی اور کالا باغ میں بطور مجسٹریٹ کام کرتے رہے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد فیصل آباد میں دوبارہ وکالت کرتے رہے تھے۔ اور ڈاکٹر صاحب کے دادا چوہدری محمد حسین پٹواری کے عہدہ پر کام کرتے رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف خاندانی اور پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

تعلیم :

ڈاکٹر صاحب کے والد محترم نے اپنی رہائش گاؤں کی بجائے امین پور بازار،گلی نمبر 6 منشی محلہ(فیصل آباد) میں بنالی تھی۔ اس لیے ابتدائی قرآنی تعلیم اسی محلہ کی مسجد جس میں خطبہ جمعہ المبارک حکیم عبد الرحیم اشرف رحمہ اللہ پڑھاتے تھے، اس میں قاری عبد الغفار رحمہ اللہ سے حاصل کی، اور اس محلہ میں ٹاٹ والے پرائمری اسکول سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ، مڈل کلاس سنٹرل ماڈل اسکول (لاہور) میں پاس کی، میٹرک کا امتحان مسلم ہائی اسکول (فیصل آباد) میں پاس کیا ، پھر گورنمنٹ کالج (فیصل آباد) میڈیکل گروپ میں داخلہ لیا اور اچھے نمبروں میں ایف ۔ایس۔ سی کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں 1953 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (لاہور) میں داخلہ لیا اور 1958ء میں میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور ایک سال تک میوہسپتال میں ہاؤس جاب کی۔

پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے 1959ء میں امریکہ کا رُخ کیا اور 1962ء تک ہارورڈ یونیورسٹی سے ہارٹ اورشوگر میں اسپیشلائزیشن کیا۔

پھر 1962ء تا 1964ء تک برطانیہ میں رہ کر ایم۔ آر۔سی۔پی (گلاسکو) اور ایم ۔ آر۔ سی۔پی (ایڈن) اور ایم۔ آر۔سی۔پی(لندن) کا امتحان پاس کیا۔

دینی تعلیم :

ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ابتداء ہی سے صوم وصلاۃ کے پابند رہے ہیں حتی کہ امریکہ وبرطانیہ کے تعلیمی دور میں بھی نماز کی پابندی رہی ہے۔ تاہم دینی تعلیم ایک رسمی تھی۔ دینی تعلیم کی طرف مائل کرنے کا ایک اہم واقعہ پیش آیا۔

ایک امریکی یہودی ڈاکٹر، ڈاکٹر رندھاوا صاحب کا دوست تھا، پاکستان آنے پر بھی اکثر فون وغیرہ پر رابطہ رہتا تھا ، ایک بار 6 ماہ تک کوئی رابطہ نہ ہوا۔ ڈاکٹر رندھاوا کو طرح طرح کے خیالات آتے کہ شاید وہ فوت ہوگیا ہے کہ کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ 6 ماہ بعد اس کا فون آیا اور اس نے لمبا عرصہ فون نہ کرنے کی وجہ بتلائی کہ میں یہودیت کی مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسرائیل گیا تھا…… یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کے دماغ پر عجیب دھچکا لگا کہ وہ ڈاکٹر ہوکر اپنے باطل مذہب کی تعلیم کے لیے لمبا سفر کرکے جاسکتا ہے تو میں سچے مذہب اسلام کی تعلیم کے لیے کیوں پیچھے ہوں چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے عزم صمیم کر لیا کہ وہ قرآن وحدیث کی ضرور تعلیم حاصل کرے گا۔

انہی دنوں میں ڈاکٹر صاحب کو ایک ذاتی مسئلہ پیش آگیا۔ اس کے حل کے لیے رحمت باری تعالیٰ اُسے سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ کے مسکن  پر لے آئی۔ انہوں نے ان کا مسئلہ اس قدر خوش اسلوبی سے قرآن وحدیث کی روشنی میں حل فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کے لیے ان کے ہوکر رہ گئے۔ اور کثرت سے غزنوی رحمہ اللہ کی مجالس میں شرکت شروع کر دی اور چند دنوں میں دل کا طبی معالج، دل کے روحانی معالج کے زیرِ علاج ہوگیا۔ اور ذکر کی ہفت روزہ مجلس کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور یہ سلسلہ سید غزنوی رحمہ اللہ کی وفات 24اپریل 1976ء تک جاری رہا۔

پھر قرآن مجید کا ترجمہ،عربی گرائمر وغیرہ حافظ عبد الرشید گوہڑوی رحمہ اللہ سے پڑھیں اور صحیح البخاری مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی سے پڑھی۔

ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے اخبار میں اعلان پڑھا کہ لوئر مال کے فلاں دفتر میں عربی گرائمر کے ساتھ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانے کا اہتمام کیاگیاہے۔ ڈاکٹر صاحب طالب علم کی حیثیت سے وقتِ مقررہ پر وہاں پہنچ گئے، لیکن مطلوبہ دفتر پر تالا لگا ہوا تھا۔ ایک اور نوجوان بھی دروازہ کھلنے کے انتظار میں وہاں کھڑا تھا۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد ڈاکٹر صاحب نے وہاں موجود نوجوان سے پوچھا کہ آج یہاں قرآن مجید کی تعلیم کے لیے کلاس کا آغاز ہونا تھا، معلوم نہیں یہ کلاس کس وقت شروع ہوگی؟ اس نوجوان نے کہا: میں اس کلاس کا استاد ہوں اور پڑھانے کے لیے آیا ہوں، لیکن انتظام کرنے والے صاحب ابھی تک نہیں آئے۔ جب ڈاکٹر صاحب نے ان سے تعارف کا مطالبہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ مولانا عطاء الرحمن ثاقب رحمہ اللہ ہیں تو ڈاکٹر صاحب مولانا ثاقب صاحب کو اپنے ساتھ جماعت مجاہدین دفتر 9 کوئنز روڈ پر لے آئے اور اس جگہ ترجمہ قرآن کی کلاس کا بہترین انداز میں اجراء کر دیا، جس میں کافی تعداد میں پڑھا لکھا طبقہ شریک ہونے لگا۔

اسی طرح ایک دفعہ رمضان المبارک کا مکمل مہینہ ستیانہ بنگلہ (فیصل آباد) میں دورۂ تفسیر القرآن کیا اور مولانا عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ اور ابو نعمان بشیر احمد سے مکمل قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر پڑھی۔یہ دورۂ تفسیر القرآن 1984 سےتا حال جاری ساری ہے جو 25 شعبان تا 25 رمضان تک جاری رہتاہے۔ اورملک بھر سے تشنگانِ علم سیرابی حاصل کرتے ہیں اور اب آن لائن سہولت بھی میسر ہے۔

قرآن کریم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کو بہت لگاؤتھا، بہت سے اہل علم کے پاس جاکر تلفظ کی درستگی کے لیے قواعد تجوید پڑھتے رہے ہیں اور قرآن مجید کے مشکل الفاظ کے معانی خوبصورت انداز میں تحریر کیے ہوئے تھے اور آخر عمر میں دوپارے حفظ بھی کر لیے تھے۔ صبح کی جماعت اکثر کرایا کرتے تھے تاکہ حفظ شدہ حصے کی بار بار دہرائی ہوتی رہے۔

اور اسی طرح قرآن مجید سے عصرِ حاضر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ اور اس سلسلہ میں علمائے کرام سے دریافت کرتے رہتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی شخصیت:

ڈاکٹر موصوف کو اللہ تعالیٰ نے باطنی وروحانی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی خوبیوں سے بھی وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کی شخصیت کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے۔

قد متوازن لمبا، معتدل جسم، تمام اعضاء متناسب،سرخی مائل گورا گول چہرہ، کشادہ پیشانی، تیکھے نقوش، موٹی آنکھیں، آنکھوں میں حیا کی لہر، کھلا سینہ ، دل میں مروّت کے آثار، پوری داڑھی سرخ مہندی سے رنگین ، پست مونچھیں، پٹے والے گنگھریالے بال، شگفتہ مزاج، شائستہ کلام، نرم زبان، خوش گورا لہجہ، میٹھابول، ٹھہر ٹھہر کر عمدہ کلام، لبوں پر تبسم کا غلبہ، دل میں وسعت، سادہ اور صاف ستھرا لباس، ٹخنوں سے اوپر شلوار، سَر پر اکثر جناح کیپ، بارُعب اور باوقار شخصیت، پہلی نظر دیکھتے ہی دل موہ لینے والی شخصیت۔

ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار عمرہ کے لیے درخواست دی اور عمرہ بند ہونے میں صرف دو دِن باقی تھے اور ٹکٹ وویزہ کا پاس ہونا مشکل تھا۔ کراچی کے ایک ایجنٹ آفسر نے ڈاکٹر صاحب کی تصویر دیکھی تو فوراً ویزہ لگوادیا اور کہنے لگا کہ اس چہرے کو تو پیر ماننے کو دل کرتاہے۔

خدمات :

ڈاکٹر صاحب نے اسلامی تعلیمات پھیلانے اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں بہت زیادہ کوشش کی ہے ، چند خدمات کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے۔

1۔ مرکز تعلیم الاسلام ستیانہ بنگلہ (فیصل آباد)

مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ نے ستیانہ بنگلہ میں چھوٹی سی مسجد میں حفظ القرآن کا مدرسہ قائم کیا تھا۔ اور مولانا صاحب سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ کی مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب بھی اِن مجالس میں بڑے ذوق سے شرکت فرماتے تھے۔ ایک دن دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا :

میں کبھی آپ کے پاس آؤں گا۔ مولانا سلفی صاحب نے سمجھا کہ اتنے بڑے ڈاکٹر ہوکر میرے پاس دیہات میں کہاں آسکتے ہیں۔ لیکن چند ایام بعد واقعی ڈاکٹر صاحب ستیانہ بنگلہ میں تشریف لے آئے۔یہ تقریباً 1979ء کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مسجد کے ساتھ خالی جگہ دیکھ کر پوچھا کہ یہ جگہ کس لیے خالی چھوڑی ہے؟ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ طلباء کے لیے کمرے بنانے کا ارادہ ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ان کمروں کی تعمیر کے تمام اخراجات میرے ذمہ ہوں گے آپ کام شروع کریں۔ اس طرح مستقل دینی ادارہ کی بنیاد ڈاکٹر موصوف کی طرف سے شروع ہوئی۔شعبہ حفظ القرآن میں اچھی کامیابی کے بعد ڈاکٹر صاحب نے درس نظامی کا مشورہ دیا اور پہلے سال کے تمام اخراجات کا ذمہ بھی لی۔

جب درس نظامی میں وسعت ہوئی تو موجوہ مرکز تعلیم الاسلام نزد پُل ستیانہ کی تمام جگہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خرید کر دی، اور اس جگہ کے خریدنے میں بھی ڈاکٹر صاحب کی خاص کرامات شامل ہیں جو تفصیل طلب ہیں۔

اسی طرح ستیانہ بنگلہ میں مسلم ماڈل اسکول سے لے کر سائنس کالج بنانے میں بنیادی کردار ڈاکٹر رحمہ اللہ کا ہے۔ اس میں مال کے ساتھ ساتھ وقت بھی بہت زیادہ دیا، جس کی وجہ سے مسلم ماڈل اسکول ضلع اور صوبہ بھر میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کر رہا ہے۔

ستیانہ بنگلہ میں ڈاکٹر رندھاوا صاحب ہر ماہ تشریف لاتے اور خطبہ جمعۃ المبارک ارشاد فرماتے اور علاقہ بھر کے مریضوں کو بھی چیک کرتے۔ پھر اس سلسلہ کو بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے ’’الشفاء ہسپتال‘‘ قائم کیا، جس میں خود بھی گاہے بگاہے وقت دیتے اور ہسپتال چلانے کے تمام معاملات بھی حل فرماتے رہے۔ آج یہ ہسپتال علاقہ بھر کے علاج ومعالجہ کا بہترین مرکز بن چکاہے۔

2۔ دار العلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور

یہ تعلیم وتربیت کا ادارہ ڈاکٹر صاحب کے روحانی مرشد غزنوی صاحب نے قائم کیا تھا ۔ جس کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو پہلے دن سے عقیدت ومحبت تھی۔ غزنوی صاحب کے بعد آخر دم تک ڈاکٹر صاحب اس ادارے کے معاون رہے اور ہر طرح کا تعاون کرتے رہے ہیں۔

3۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال ، کراچی

اس جامعہ کے بانی فضیلۃ الشیخ پروفیسر محمدظفر اللہ صاحب رحمہ اللہ تھے، جنہوں نے ملکی سطح پر بے مثال دینی تعلیم وتربیت کا جامعہ قائم کیا۔ ان کی وفات کے بعد کچھ عرصہ جامعہ کے مدیر فضیلۃ الشیخ چوہدری حفیظ الرحمن رحمہ اللہ رہے، پھر ان کے بعد آخر وقت ڈاکٹر رندھاوا رحمہ اللہ جامعہ کے مدیر ونگران رہے۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار بھی اولین مؤسسین میں سے ہوتاہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب جامعہ میں ہر ماہ لاہور سے بطور خاص تشریف لاتے اور آنے جانے کے تمام اخراجات بذات خود برداشت کرتے۔جامعہ کے تمام شعبہ جات کے مسؤلین سے فرداً فرداً ملاقات کرتے ، خلوص دل سے ہر ایک کی راہنمائی کرتے ، بہتر سے بہترین کی تلاش میں ہدایات دیتے اور فرماتے کہ اپنا کام احسن طریقہ سے سرانجام دیں کہ آپ سے بہتر کوئی کر نہ سکے۔ اور جامعہ کی تعمیر وترقی کے بہت سے کام احسن انداز میں ترتیب دیئے، خصوصاً مسجد ولائبریری کی تعمیر، جامعہ کے متصل اساتذہ کرام کی رہائشیں اور تعلیم وتربیت کے بہترین انتظامات قابل ذکر ہیں۔

4۔ابن عمر پبلک اسکول چک 4 ج۔ب رحمان والی(فیصل آباد)

چک نمبر 4 ج ۔ب (رحمان والی) ڈاکٹر صاحب کا آبائی گاؤں تھا۔ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب گاؤں گئے تو انہیں پتہ چلا کہ گاؤں میں عیسائیوں کے چرچ میں ایک اسکول قائم کیاگیا ہے، جس میں چالیس کے قریب مسلمان بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً ابن عمر پبلک اسکول کے نام سے ادارہ قائم کیا، جس میں بہترین تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا اور وہ تمام مسلمان بچے عیسائیوں کے اسکول سے اپنے اس اسکول میں داخل کرائے، پھر لڑکیوں کا الگ سے ادارہ اس نام پر قائم کیا۔ لڑکیوں کا اسکول ڈاکٹر صاحب کی ذاتی جگہ پر بنایاگیا اور لڑکوں کے لیے اپنے جیب سے الگ جگہ خرید کر بہترین عمارت تعمیر کرکے دی جو خوبصورت انداز میں چل رہے ہیں۔

5۔ادارہ بحالی معذوراں چونیاں(قصور)

تقریباً 1423ھ رمضان المبارک کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ مرکز اہلحدیث لارنس روڈ (لاہور) میں دینی پروگرام میں شریک تھے کہ ایک مقرر کی تقریر سے ڈاکٹر صاحب بہت متأثر ہوئے۔تقریب کے اختتام پر جب مقرر صاحب کو ملنے کے لیے گئے تو پتہ چلا کہ یہ نابینے ہیں جن کا نام قاری محمد اکبر اسد صاحب ہے۔ لیکن مکمل قرآن اور مشکوۃ المصابیح کے حافظ ہیں۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ معذور بچوں کے لیے دینی تعلیم کا ادارہ ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی اسی طرح تعلیم حاصل کرکے دین کی خدمت کر سکیں، چنانچہ قاری موصوف کے موجود ادارہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے اخراجات پر خوبصورت تعمیر کرکے معذور بچوں کی تعلیم وتربیت کا عمدہ اہتمام فرمایا۔ ڈاکٹر صاحب کی تمنا تھی کہ اس ادارہ کو اتنا وسیع کیاجائے گا  کہ ملک بھر سے معذور بچوں کی تعلیم تربیت کا ذریعہ بن سکے۔

6۔جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات

2، 1۔ایل رینالہ خورد(اوکاڑہ) ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ستیانہ بنگلہ میں رمضان المبارک میں دورۂ تفسیر کے لیے تشریف لائے۔ ایک دن عصر کی نماز کے بعد مجھے فرمانے لگے کہ آپ کے ذہن میں کوئی کام ہو تو بتلائیں، میں نے عرض کی کہ ہمارے گاؤں چک نمبر 2، 1۔ایل رینالہ خورد (اوکاڑہ) میں طالبات کی تعلیم وتربیت کا ادارہ بنانے کا پروگرام ہے۔ اسباب نہ ہونے کی وجہ سے تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ تو ڈاکٹر صاحب نے فوراً فرمایا اس کی تعمیر کے تمام اخراجات میرے ذمہ ہوں گے آپ شروع کریں۔ میں نے اپنے جماعتی ساتھیوں کو نقشہ وخرچہ کا تخمینہ لگانے کا کہا تو ڈاکٹر صاحب نے فوراً پہلی قسط ادا کر دی اور باقی آہستہ آہستہ تمام تعمیر کے جملہ اخراجات خود ادا کیے اور پھر افتتاح کے موقعہ پرگاؤں میں تشریف لائے اور بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔

ڈاکٹر صاحب دورۂ تفسیر کی کلاس میں میرے قریب بیٹھتے تھے اور ہر مسئلہ بڑی وضاحت سے پوچھتے تھے۔ ایک دن فرمانے لگے کہ ہر آدمی کے دل میں کوئی تمنا ہوتی ہے جس کو وہ بعض اوقات پوری نہیں کر پاتا، تو کیا آپ کے دل میں بھی کوئی ایسی تمنا ہے جو ابھی تک کسی وجہ سے پوری نہ کر سکے ہوں۔

میں نے عرض کی! جی ہاں ایک دیرینہ تمنا ہے جو اب تک پوری نہیں ہوسکی اور اس کے اسباب ووسائل بھی قریب نظر نہیں آرہے۔ڈاکٹر صاحب کے پوچھنے پر دلی تمنا بتلائی، جس کا خلاصہ یہ ہے :

ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جس میں مدارس کے فارغ التحصیل ذہین طلباء لیے جائیں اور کم از کم دو سال کا تخصص کر ایا جائے پہلے سال میں ان تمام علوم میں مہارتِ تامہ کرائی جائے جو انہوں نے گزشتہ سات یا آٹھ سالوں میں پڑھے ہوں۔ پھر آئندہ طلباء کے ذوق اور اساتذہ کے مشورہ سے انہیں دو گروپوں میں تقسیم کردیا جائے۔ ایک مدرسین کا ذوق رکھنے والوں کا اور دوسرا خطیب کا ذوق رکھنے والوں کا۔ ان کو اپنے اپنے فن کے علوم کے ساتھ ساتھ سال بھر عملی ٹریننگ دی جائے۔ مختلف کلاسز اور مجالس میں لے جاکر مشق کرائی جائے اور اس قدر تربیت ہو کہ مدرس احسن انداز میں کلاس کو مطمئن کر سکے اور خطیب احسن انداز میں ہر موضوع اور ہر مجلس میں مؤثر ترین انداز میں بیان کر سکے۔ اور مستقبل میں ان کے کام کرنے کے مواقع یقینی بنائے جائیں۔

یقیناً اس کے لیے لاہور جیسے مرکزی شہر میں عمدہ عمارت درکار ہوگی جس میں تمام جدید سہولیات میسر ہوں۔ اور تجربہ کار اساتذہ کرام کی خدمات درکار ہوں گی۔ جس میں مدارس کے تجربہ کار اساتذہ کے ساتھ کالج ویونیورسٹی کے ڈاکٹر وپروفیسر حضرات کی خدمات بھی یقینی ہوں گی۔

ابتداء میں ڈاکٹر صاحب نے عزم صمیم ظاہر کیا اورکافی عرصہ تک گفت وشنید بھی ہوتی رہی۔ لیکن افسوس اس کی تکمیل نہ ہوسکی۔ اور میری تمنا، ایک تمنا ہی رہ گئی۔ کچھ عرصہ قبل حافظ عبد العظیم اسد دار السلام (لاہور) نے اس پروگرام کی تکمیل کا ارادہ فرمایا تھا اور بہترین جگہ اور مناسب تعمیر بھی ہوچکی تھی لیکن وسائل کی قلت کی وجہ سے اس کی اصل صورت میں ابھی تک شروع نہیں کرسکے۔ممکن ہے یہ سعادت کسی اور کی قسمت میں لکھی ہو۔ بہر حال تفصیلی پروگرام تحریری شکل میں میرے پاس موجود ہے۔

7۔ جامعۃ تعلیم الاسلام ماموں کانجن :

یہ جامعہ 1963ء میں صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ نے قائم کیا تھا، جو اس وقت سے تاحال تعلیم وتربیت کا بہترین گہوارہ چلا آرہا ہے اورملک کے معروف ترین اداروں میں شمار ہوتاہے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا اس جامعہ کے ساتھ بھی گہرا ربط وتعلق رہا ہے اور اس کی تعمیر وترقی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔

8۔قرآن انسٹیٹیوٹ :

قرآن مجید کی تعلیم عام کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے ’قرآن انسٹیٹیوٹ‘ دفتر مجاہدین 9 کوئنر روڈ لاہور میں قائم کیا اور عرصہ طویل تک ترجمۂ قرآن کی کلاس کا سلسلہ جاری رہا اور تقریباً بارہ ہزار خواتین وحضرات نے تعلیم قرآن سے فیض حاصل کیا۔ اور پھر مختلف مساجد میں بھی یہ سلسلہ جاری کیاگیا اور اس کی ایک شاخ ڈاکٹر صاحب کے رندھاوا کلینک شادمان(لاہور) میں بھی کافی عرصہ سے جاری ہے۔

اس ادارہ کے تحت پنجاب پریزن سٹاف ٹریننگ انسٹیٹیوٹ (لاہور) اور پولیس کالج چوپنگ (لاہور) جو 2002ء تا حال چل رہے ہیں۔ جس میں اسلامی تعلیم کا اہتمام کیا جاتاہے۔ اور پنجاب یونیورسٹی میں بھی فہم قرآن کے نام سے کافی عرصہ سے کلاس جاری ہے۔

اس طرح ریسکیو 1122 اور پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں عرصہ بارہ سال سے فہم قرآن کی کلاس جاری ہے۔

9۔ قرآن آسان تحریک :

اس پروگرام کے تحت اسلامی کتب ولٹریچر شائع کیا جاتاہے۔ سب سے پہلے سید بشیر احمد رحمہ اللہ کا ترجمۂ قرآن رنگین شائع کیاگیا اور اس کے تمام اخراجات ڈاکٹر صاحب نے خود ادا کیے تھے پھر یہ قرآن مجید متعدد بار چھپ کر تقسیم ہوتا رہا حتی کہ ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ تقسیم کیا ہے۔ اور اسی طرح دس سے زائد کتب بھی چھاپ کر تقسیم کی جاتی رہی ہیں۔

10۔ مساجد کی تعمیر وترقی :

جامع الٰہی مسجدہ ساندہ (لاہور) اور جامع محمدی مسجد ای ۔ او ۔ آر (لاہور) مکمل طور پر ڈاکٹر صاحب نے تعمیر کیں اور کافی عرصہ تک امام وخطیب کے اخراجات بھی خود ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بہت سی مساجد کی ضمنی طور پر مختلف انداز میں خدمات کرتے رہے ہیں۔ کسی بھی علاقہ سے مسجد ومدرسہ کی تعمیر کے سلسلہ میں لوہے کی سستی خرید میں جناب شہباز شریف صاحب کو رقعہ لکھ دیتے اور وہ خصوصی رعائت کرتے تھے۔

11۔ رضیہ شریف ٹرسٹ :

ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لیے ان کے نام پر 1981ء میں ’’رضیہ شریف ٹرسٹ‘‘ قائم کیا۔ اس ادارے کے تحت بہت سے دینی اداروں کی مالی امداد کی جاتی ہے اور رفاہی کاموں میں بھی مختلف انداز میں لوگوں کا تعاون کیا جاتاہے۔ مثلاً : یتیم بچوں وبچیوں کی تعلیم وتربیت، بیوگان کا تعاون، معذور لوگوں کا تعاون، سلائی وکڑہائی سکھلانے کے مراکز قائم کرنا، ہسپتال میں کمزور افراد کا علاج، ہفتہ میں ایک دن ڈاکٹر صاحب نے خود اپنے کلینک پر بھی ایک دن فری چیک اپ کے لیے مقرر کیا تھا۔ جیل میں بند قیدیوں کو سہولیات پہنچانا خصوصاً عیدین اور رمضان میں خصوصی سامان دینا، واٹر سپلائی کا انتظام وغیرہ ۔

12۔ مجلہ اسوۂ حسنہ

2004ء تا حال مجلہ اسوۂ حسنہ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے اور ہر ماہ عمدہ مضامین اورعلمی، اصلاحی اور تحقیقی معلومات کا خزانہ بھی ڈاکٹر راشد رندھاوا رحمہ اللہ کی زیر سرپرستی شروع ہوا۔ اور اس کے متعلق بذات خود یا فون پر مفید مشورے دیتے رہتے تھے اور بہت سے افراد تک پہنچاتے تھے۔ پہلے اس کا نام ’’مجلہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ‘‘ تھا پھررجسٹریشن کے وقت نام میں تبدیلی کی ضرورت پیش آئی تو ڈاکٹر صاحب نے اس کا نام ’’مجلہ اسوۂ حسنہ‘‘ تجویز فرمایا تھا۔الشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی صاحب کو اس کا مدیر بھی انہوں نے ہی مقرر کیا اور مجلہ کے بارے میں اکثر ہی تعریفی کلمات کہا کرتے تھے۔

13 بیت المال :

ڈاکٹر صاحب کے جناب نواز شریف صاحب اور جناب شہباز شریف صاحب کے ساتھ اور ان کے والد محترم کے بہت اچھے تعلقات تھے بلکہ اُن کے فیملی ڈاکٹر تھے۔ اور یہ تمام فیملی ڈاکٹر صاحب کی بہت عزت واحترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نواز شریف صاحب کے پہلے دورِ وزرات عظمیٰ میں انہیں شرعی بیت المال بنانے کا مشورہ دیا اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا تو محترم نواز شریف صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو ہی بیت المال کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ انہوں نے یہ خدمت بغیر کسی وظیفہ ومراعات کے حسن وخوبی کے ساتھ انجام دی۔ اور ایسی امانت ودیانت سے کام کیا کہ اپنے اور پرائے انگشت بدنداں رہ گئے۔

ڈاکٹر صاحب نفاذ اسلام کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہے اور جناب نواز شریف صاحب کو اس پر آمادہ کرتے رہے، آخر ایک دن نواز شریف نے کہا مجھے بتائیں کہ اسلام کا نفاذ کیسے ہوگا؟

تو میں نے چند دن میں نفاذ اسلام کا طریقہ کار لکھ کر دیا، جو دو یا تین دن بعد اخبار نوائے وقت نے پہلے صفحہ پر ہیڈنگ کے ساتھ شائع کیا تھا۔

سفر آخرت :

ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے قابلِ رشک صحت عطا فرمائی تھی۔ تقریباً دو سال قبل نسیان کا عارضہ لاحق ہوگیا اور یہ مرض آہستہ آہستہ کافی بڑھ گیا حتی کہ معمولی بات بھی بھول جاتے تھے اور بار بار یاد دلانا پڑتی تھی ، البتہ جسمانی طور پر ٹھیک تھے۔

وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل سخت بخار ہوا، جس کی وجہ سے کافی کمزوری ہوگئی، بہت کوشش کے باوجود دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکے ۔

اَنْتَ تُرِيْدُ وَأَنَا أُرِيْدُ وَاللهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ

آخر کار 25 جنوری 2021ء بروز سوموار بعد از نماز عصر اس دارِ فانی سے عالَم جاودانی کی طرف سفر کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

مرحوم کی نماز جنازہ مرکز اہلحدیث لارنس روڈ (لاہور) میں رات 10 بجے مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ نے انتہائی رقت سے پڑھائی اور علماء، طلباء، اور عامۃ الناس کی جم غفیر نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی ۔

اللہم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے