راحیل گوہر

انسان دو پہلوؤں کے تحت زندگی گزارتا ہے۔ ایک ہے ’’عدمِ علم‘‘ اور دوسرا ’’ علم عدمِ وجود‘‘۔ عدمِ علم کا خلاصہ کریں تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ دنیا کی دیگر بے شمار چیزوں کی طرح ہمیں خدا کا بھی علم نہیں ، ہمارے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس کی بنا پر ہم خدا کے ہونے کا یقین کر سکیں ۔ تاہم ہمارے علم میں ا یسی بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ خدا نہیں ہے، گویا ہم خدا کے اقرار کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ انکار کرنے کی!  یہ تذبذب ہی انسان کے احساس میں ریب و تشکیک کو جنم دیتا ہے۔اس کیفیت میں انسان یقینی اور غیر یقینی کی کیفیت میں الجھا رہتا ہے۔ یہ کیفیت نفاق کی ہی ایک شکل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ١ۖۗ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى هٰۤؤُلَآءِ

’’ یہ کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ، نہ پورے ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں ، اور نہ ان (کافروں) کی طرف۔‘‘(النساء ۱۴۳)

انسان کی دوسری کیفیت ’’علم عدمِ وجود‘‘کی ہے۔یعنی ہم قطعیت کے ساتھ جانتے ہیں کہ خدا نہیں ہے۔ ہم پر یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ کائنات خود بخود بن گئی ہے اور آپ سے آپ چل رہی ہے، اس کے پیچھے کوئی خالق و مدبر ہستی نہیں ہے۔ہمیں عقلاً اس پر تصدیق با لقب والی کیفیت حاصل ہے۔اسی لیے ہم خد اکا انکار کرتے ہیں۔انسان کی اسی غلط سوچ کی عکاسی قرآن حکیم میں ان الفاظ میں کی گئی ہے:

وَ قَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُ

’’ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ: جو کچھ زندگی ہے ، بس یہی ہماری دنیوی زندگی ہے، (اسی میں) مرتے اور جیتے ہیںاور ہمیں کوئی اور نہیں زمانہ ہی ہلاک کردیتا ہے۔‘‘ (الجاثیہ ۲۴)

اس آیۂ مبارکہ کی تشریح میں فضیلۃ الشیخ عبد الماجد دریا آبادی ’’ تفسیر ماجدی ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ خصوصاً وسطی اور جنوبی عرب میں کثرت سے اس عقیدے اور مشرب کے لوگ تھے کہ نہ کوئی حیات ِ اخروی ہے نہ کوئی جزا و سزا۔ جو کچھ ہورہاہے سب قوانینِ مادّی و طبعی کے لحاظ سے  ہورہا ہے۔ انہیں کی ماتحتی میں انسانیت کو موت آجاتی ہے اور انہیں کے مطابق انسان پیدا بھی ہوتا ہے ۔ان کے بڑے بڑے شاعر یہی مضمون باندھ گئے ہیں۔ گویا جاہلیت کے ’’ روشن خیال‘‘ کا ٹھیک وہی مسلک ہے جو آج کے مہذب ’’ روشن خیال‘‘  فرنگی کا ہے۔ گویا مادّیت (meterialism) کا مسلک دنیا کا جدید ترین نہیں بلکہ بہت قدیم مذہب ہے۔‘‘

مادّیت (materialism) یعنی مادّے(matter)کو قدیم جاننے کی بنیاد پر استوار ہے اور اس میں یونانی ( (Greek سب سے ا ٓگے تھے۔یونانی روایت میں دہریت (materialism)میں ایک فلسفیانہ سیاق و سباق فراہم کیا گیا جو بعد میں الحاد اور دیگر روایتوں کی بھی رہنمائی اور پشت پناہی کرتا رہا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جس میں یونان کی منطق اور فلسفہ نے عالمِ اسلام پر شدید حملہ کیا تھا۔ارسطو کی منطق کو ایسا قبول عام حاصل ہوا کہ اصل ہی یہ ہے، اصل میزان یہی ہے جو شے اس میزان پر پوری اترے وہی قابل اعتبار ہے اور جو چیز اس کے معیار کے برابر نہیں وہ قابل ردّ ہے۔سب جانتے ہیں کہ ہر عمل کا ردّ عمل ضرور ہوتا ہے چنانچہ اس فکری گمراہی نے نئے نئے مسائل کو جنم دیا،یعنی جبر و قدر کا مسئلہ، خلق قرآن کا مسئلہ، اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں تشکیک و ریب کا گھمبیر مسئلہ نے سر اٹھایا۔

 ہے ذاتِ صفاتِ حق ، حق سے جدا یا عینِ ذات؟

امت مرحومہ کی ہے کس عقیدے میں ہے نجات!

اس فکری گمراہی کے برگ و بار پھوٹے انہوں نے الحاد کے نئے نئے فتنے تراشے، یعنی نہ کوئی خالق ہے ، نہ مخلوق اور نہ ہی کوئی مقصد تخلیق!  اجزاء عناصر فضائے بسیط میں ازل سے بے مقصد بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ حسن اتفاق سے اگر انہیں متناسب ترتیب کا موقع ملا تو نئی شے پیدا ہوگئی۔نئی اشیا ء کو قرنوں بھٹکنے کے بعد کبھی اتفاقیہ موزوں ماحول اور متناسب قربت راس آئی تو حیات پیدا ہوگئی، جب تک ماحول سازگار رہا ، حیات کا مظاہرہ رہا ، ماحول ناسازگار ہوگیا تو موت واقع ہوگئی۔مقصد اور ارادے کا تصور انسان کی اپنی خوش فہمی ہے، حقیقت میں جب کوئی خالق ہی نہیں تو مقصد اور ارادے کا تلاش بے محل ہے۔

پھر یہ کہ انسان مجبورِ محض ہے یا وہ اپنے اعمال پر پوری قدرت رکھتا ہے؟وحی کی حقیقت کیا ہے وغیرہ مسائل نے عقیدہ اسلام میں دراڑیں ڈالنا شروع کردیں۔افلاطونیت جدید ایک فلسفیانہ مکتب فکر سامنے آیا جو اخلاقیات ، طبیعیات اور ریاضیات سے صرف نظر کرکے صرف مابعد الطبیعیات (metaphysics ) پر زور دیتا ہے ۔ اس مکتبہ فکر کے نزدیک خدا ایک مکمل اور بے نیاز ہستی ہے جس کا ادراک(perception ) ہمارے حواس نہیں کر سکتے، اس طرزِ فکر کی بڑی خامی یہ ہے کہ انسان کی معاشرتی اور تمدنی زندگی کے مسائل کا کوئی مثبت حل پیش نہیں کرتا بلکہ اسے ترک کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔نو فلاطونیت(Neo-Platonism ) کے زیر اثر ہی سب سے پہلے یونانی فلسفے میں تصوف کی آمیزش ہوئی اور توحید کا سادہ عقیدہ وحدت الوجود کا رنگ اختیار کر گیا۔مامون الرشید کے زمانے میں جب مسلمان علماء نے کتابوں کا عربی ترجمہ کیا تو اسلامی لٹریچر میں اس طرز فکر کو فروغ ملا۔  ان پیچیدہ اور گمراہ کن مسائل کا توڑ کرنے کے لیے جن دو عظیم شخصیتوں کے نام آتے ہیں ا ن میں ایک امام غزالی  رحمہ اللہ  ہیں جنہوں نے ’’ تہافت الفلاسفہ‘ جیسی معرکۃ الآراکتاب لکھ کر اس باطل نظریے کی بیخ کنی کی، اور دوسری شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی متبحرعلمی شخصیت تھی جنہوں نے ’’ الرّد علی المنطقیین ‘‘ تصنیف کر کے ان کی منطق کی نفی ان کے منطق سے ہی کر دی۔ اوریوں عالم اسلام ان یونانی مفکرین کی علمی اور فکری گمراہی کے سحر سے آزاد ہوا۔

اس کے بعد اگلا دور تصوف کا تھا،جس کے ساتھ میں تھوڑی بہت آمیزش ’’’ ہمہ اوست‘‘ (Pentheism)کی بھی تھی۔ تصوف میں اصل معا ملہ تو ’’ وحدت الوجود‘‘ کا تھا مگر کچھ صوفیاء اس کی انتہاء کو پہنچ گئے اور وہ ہمہ اوست تک جا پہنچے،اب چونکہ وحدت الوجود اور ہمہ اوست میں باریک سا فرق ہے جو عوام الناس کے فہم سے بالا تر ہے اس لیے ان تک جب یہ پہنچا تو وہ وحدت الوجود نہ رہا محض ہمہ اوست بن کر رہ گیا۔چنانچہ اس کے منطقی نتیجہ کے طور پر ہمہ اوست کے عقیدے نے خالق و مخلوق کا فرق ہی ختم کردیا۔یعنی     ؎

خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ، خود رندِ سبو کش

خود بر سرِ آں کوزہ خریدار برآمدبشکستِ رواں شد

انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب میں جب بھی بگاڑ پیدا ہوا ہے تو اس کی وجہ وحی الٰہی میں تشکیک اور اس کے مقابلے میں عقل یا وجدان کے استعمال میں افراط و تفریط سے ہوا ہے۔موقف کی غلطی یا اس کے اشتباہ سے سائنس کے میدان میں بھی غلط نتائج نکلتے ہیں اور یہ نتائج دور رس اور عظیم بھی ہوسکتے ہیں، تاہم یہ لازمی نہیں کہ سائنسدانوں کی اس غلطی کا خمیازہ قوم کو ساری زندگی بھگتنا پڑے۔ لیکن اگر یہ غلطی خدا کے ہونے کے مسئلے میں ہوجائے تو اس کے نتائج کتنے ہولناک اورتباہ کن ہوں گے اس کا اندازہ لگانا انسانی  فہم سے بالا تر (beyond of comprehension ( ہے ۔یہ مسئلہ زندگی کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے اثرات پوری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔اس میں غلطی کے معنی ہیں پوری زندگی غلط اور گمراہی کی راہ پر چل پڑے۔زندگی کا ہر شعبہ غلط رخ اختیار کر لے اور تمام مادی ترقیات کے باوجود نوعِ انسانی ہلاکت و خسران کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ جائے۔ اور موجودہ دور میں ہم ان مصیبت و ہلاکت سے دوچار ہیں۔

آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اس دور میں الحاد(atheism ) ، دین خدا کے لیے کوئی جگہ اور گنجائش نہ چھوڑنے کے لیے پوری قوت اور جانفشانی کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔دنیا میں جہاں کہیں بھی دین متین کے لیے کچھ حصہ بچا ہوا تھا وہ علاقہ بھی اب الحاد کے زیر نگیں آچکا ہے۔اور ہم بے دست و پا اس کے پھیلاؤ کو دیکھ رہے ہیں۔کچھ کرنا ہمارے بس میں ہی نہیں رہا ہے۔کیونکہ بلا شبہ ہم مسلمان تو ہیں مگر اسلام ہمارے فکر وعمل میں ایک دھندلے تصور کی مانند ہو کر رہ گیا ہے۔

تاریخ میں اتنا بڑا چیلنج کبھی نہیں درپیش نہیں آیا جتنا آج ہمارے سامنے الحا دکی صورت میں کھڑا ہے۔ہمیں اس کی سنگینی کا ادراک ہونا چاہیے۔اس دنیا میں عقل و تعقل کے لیے ایسے ایسے اسباب پیدا کر لیے گئے ہیں جن میں اللہ کو ماننے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔دنیا جن علوم و نظریات و تصورات پر چل رہی ہے ان کا مجموعی رخ اللہ سے مخالفت کی سمت میں ہے۔ یہ نظام اپنے دلائل کی بنیا د پر اللہ کو نہ ماننے پر اکساتا ہے اور نہ ماننے کے دلائل کو ایک قطار بنا کر لوگوں کے آگے پیش کرتا ہے۔

آج ملحدین(atheists ) کے ہاتھ میں دنیا کی زمام ہے، وہ انکارِ خدا کی اساس پر پوری زندگی اور کل انسانی دنیا کی تعمیر کر رہے ہیںاور اس پر بضد ہے، اس غلط روش کے مہلک نتا ئج نکل رہے ہیں۔بادیٔ نظر میں ا ن کی روش کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ ان کے پاس خدا کے نہ ہونے کے قطعی دلائل ہوں گے،جبھی تو وہ اس عظیم ذمہ داری کو اپنے سر لے رہے ہیں، اور قطعیت و وثوق کے ساتھ عالم ِ انسانیت کو الحاد اور ملحدانہ زندگی اختیار کر نے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ تحقیق اور مطالعہ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔

منکرِ خدا کے تمام دلائل کا حاصل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انھیں خدا کے وجود کا علم نہیں ہے، وہ اپنے حواس یا عقل سے خدا کو نہ   پاسکے ہیں۔ یہ مو قف واضح طور پر ’’ عدمِ علم‘‘ کا مو قف ہے۔مگر انہوں نے ’’ عدمِ علم‘‘ کو ہی’’ عدم ِ وجود ‘‘کا مترادف سمجھ لیا اور قطعیت کے ساتھ خدا کا انکار کر دیا۔حالانکہ نہ جاننے کی صورت میں خدا کے نہ ہونے کا بھی اتنا ہی امکان تھا جتنا اس کے ہونے کا۔اس لیے کہ کسی چیز کا علم نہ ہونا ایک بات ہے اور اس کا نہ ہونا با لکل دوسری بات ہے۔ان کے درمیان فرق کرنا ہی علم کی اصل کلید ہے۔

البتہ دور جدید میںالحاد معاشرے کے نظام کو طے کرنے والی قوت بن چکا ہے۔ان کا سب سے بڑا علمی استدلال یہی ہے کہ انکار کو علمی تائید اور اخلاقی شہادت حاصل ہو۔چنانچہ اگر ہم نے اس چیلنج کا تعلق با للہ کے ساتھ سامنا نہیں کیا تو ہماری آئندہ نسلوں میں مسلمان ہونے کا امکان زیادہ نہیں ہے۔کیونکہ اس دنیا میں علمی، اخلاقی اور ہر نظام کی تشکیل کرنے والا عملی نمونہ مغرب ہی ہے ، بعض اپنے آپ کو مغرب زدہ کر چکے ہیں اور بعض اس کی لگن میں ہیں۔دولت مندصاحبِ ثروت لوگوں میں تو پہلے ہی الحاد کا وائرس داخل ہو چکا ہے۔

تاہم اس چشم کشا حقیقت سے تو انکار نہیں کیا  جاسکتا کہ کفرِ مغرب جدید فلسفیانہ تصورات  کے آلات سے مسلح ہو کر اسلام پر حملہ آور ہو چکا ہے۔اور اس نے ملت کی صفوں کو درہم بر ہم کر دیا ہے۔دنیا بھر میں ہمارے لاکھوں تعلیم یافتہ بھائی ہم سے چھینے جا چکے ہیں اور رات دن چھینے جا رہے ہیں ۔ اس صورت حال نے ہماری قومی زندگی کے لیے شدید خطرہ پید ا کر دیا ہے۔لیکن افسوس کہ ہم اس خطرے کا احساس نہیں کر تے اور نہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر کار روائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاریخ اسلام میںایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جب ہندوستان میں آریہ دھرم اور عیسائیت جیسے مذاہب نے اسلام کو للکارا تھا۔ اس وقت عیسائی مشنریوں اور دیانندی ہندوؤں کی کوششوں سے ہندوستان بھر میں صرف چند پڑھے لکھے مسلمان عیسائی یا آریہ بنے تھے ، لیکن ہم نے شور بپا کر دیا تھا۔ تھوڑے عرصے ہی میں ایسے علماء کی ایک بہت بڑی تعداد سامنے آگئی تھی، جنہوں نے کتابوں، رسالوں اخباروں ، وعظوں ، جلسوں اور مناظروں کے ذریعہ سے مخالفین اسلام کی پے در پے مؤثر تردید کی تھی۔ان علماء نے آریہ دھرم اور عیسائیت کے ماخذ کا بغور مطالعہ کے بعد ان پر سنگین اعتراضات وارد کیے اورجو ا عتراضات ان کی طرف سے اسلام پر وارد ہوتے تھے ان کا مسکت جواب مہیا کیا، یہاں تک کہ غیروں کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ مذاہب کی اس جنگ میں اسلام کا پلڑا بھاری رہا۔ ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کی ارتداد کا فتنہ رک گیا۔

تاہم دگر اعتقادی ہر عقیدے کا تقریباً ضمنی نتیجہ ہوتی ہے۔حق کا فہم بالکل ایک نہیں ہوسکتا۔ ہر مذہب میں ایسے انحراف ضرور رونما ہوتے ہیں جنہیں معتقدین کی بڑی جماعت گمراہی سے تعبیر کرتی ہے۔جب تک انسانی تفکر میں انفرادی رنگ باقی ہے ، تمام نظام اپنے باغی  اور منحرف پیدا کر تے رہیں گے۔ جب کوئی مذہب ایک ایسے وسیع علاقے پر پھیل جاتا ہے جو ثقا فت اور فلسفے کی روایات سے معمور ہوتا ہے ، جیسا کہ اسلام نے ایک قلیل مدت میں کیا، تو وہ گزشتہ عقیدوں کے تمام آثار و علائم کو مٹا نہیں سکا ۔ مصر، ایشائے کوچک ، ایران اور وسط ایشیاکا رابطہ جب اسلام سے قائم ہوا تو ان کی اپنی تہذیبوں کی طویل تاریخیں تھیں۔ ان ممالک میں داخلہ کے پہلے دن سے ، اسلام کو افکار کے ایسے مجموعے سے واسطہ پڑا تھا جسے اس کو مسترد ، برداشت یا جذب کرنا پڑا۔استرداد(veto )  ایک شعوری عمل ہوتا ہے ، جس میں غائر معائنہ اور تشخیص مضمر ہوتی ہے۔مگر انجذاب (absorption ) ہمیشہ شعوری نہیں ہوتا ۔ یہ زیادہ تر تحت الشعوری (subconsciously  ) ہوتا ہے اور نئے تصورات تنقید کی کسوٹی  پر آئے بغیر ہمارے عقائد میں داخل ہوجاتے ہیں۔

دہریت اور الحاد ایک سوچ اور ایک فکر کا نام ہے۔اور اس فکر کے حاملین بہت سمجھداری سے کام کر رہے ہیں کہ وہ ایک مسلمان کو نماز، روزے سے منع نہیں کرتے ، مذہب پر عمل کرنے سے منع نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مذہب پر عمل کرو تاکہ معاشرے میں اجنبی نہ بن جاؤ، اچھے انسان کہلاؤ اور پھر ایک دہریے کی سوچ کے ساتھ زندگی گزارو اور دہریت اور الحاد کی تبلیغ کرو۔

سرسید احمد نے جب رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ نکالا تواس وقت یورپ میں یہ خیال عام ہوگیا کہ مذہب یا تو ایک غیر ضروری چیز ہے یا زیادہ سے زیادہ اس کا مقصد انسانی اخلاق کو درست کرنا ہے، چنانچہ مذہب میں اولین اہمیت اخلاق کی ہونے لگی۔سرسید اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے جو نئے مذہب کے خیالات ہمارے ہاں رائج ہوئے ان کا مرکز خیال بھی یہی تھا کہ مذہب کا مقصد و منتہااخلاقی اعتبار سے اچھے لوگ پیدا کرنا ہے، انسان ایک اتنی پیچیدہ اور گہری حقیقت ہے کہ اس کو صرف اخلاقی پیمانوں سے نہیں نا پا جاسکتا۔اس فکر سے مذہب میں جو ضعف پیدا ہوا وہ آج تک امت مسلمہ میں سرایت کیے ہوئے ہے۔

فرائیڈ نے تو کہا ہے کہ’’ بنیادی جبلتیں دو ہیں ، ایک تحفظ ذات اور دوسرا تحفظ نسل۔ گویا بھوک اور جنس انسان کے بنیادی محرکاتِ عمل ہیں ۔ اور ایک حیاتی وجود کے طور پر اسے ان جبلتوں کی تسکین کے سوا اور کوئی چیز سے غرض نہیں ہے۔‘‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل خود شعوری(self-concious ) کا عمل ہوتا ہے جسم کا عمل نہیں ہوتا، خود شعوری جسم کو اپنے عمل کے لیے ذریعہ یا وسیلہ کے طور پر کام میں لاتی ہے۔ لہٰذا ہر عمل با لآخر ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے اور یہ ذہنی کیفیت یا خود شعوری کو محبوبِ حقیقی کے قریب لاتی ہے یا اس سے دور  ہٹاتی ہے۔چنانچہ وہ بالقوہ (potentiality ) یا راحت کی حامل ہوتی ہے یا رنج کی، یا جنت ہوتی ہے یا دوزخ۔

تقلید انسان کی فطرت کا خاصّہ ہے ، انسان اکثر لاشعوری طور پر دوسروں کے خیالات ا ور نظریات اپنا لیتا ہے۔ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ

’’ اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو  دوست نہ بناؤ ، کیا تم انہیں محبت کی پیش کش کروگےجب کہ وہ دین حق سے انکار کرتے ہیں۔‘‘( سورۃ الممتحنہ ۰۱)

مزید ارشاد فرمایا:

اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَآءً وَّ يَبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَؕ۰۰۲

’’ اگر یہ لوگ تم پر قابو پالیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں گے اور تمہیں ایذا پہنچانے کے لیے اپنے ہاتھ اور زبانیں تمہاری جانب بڑھائیں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ کاش تم کافر ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ ۰۲)

کہا جاتا ہے کہ ’’ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ ‘‘ یعنی خود شناسی میں خدا شناسی ہے۔جتنا جس نے خود جو جانا ، اتنا ہی اپنے ربّ کو جانا۔اگر ہمارا وجود خاکی ہمار ذاتی ہوتا تو ہم کو لازم رہتا ۔کیونکہ ذات سے ذاتیات جسداد منفک نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ ہم بین العَدمین ہیں، یعنی دو عدم کے درمیان ہیں۔ پہلے بھی ہم معدوم تھے اور چند روز ، مہینوں، سالوں بعد پھر معدوم ہوں گے۔اگرچہ ہمارا معدوم ہونا جسمانی اعتبار سے ہے ، ورنہ انسان روحانی حیثیت سے تو کبھی معدوم ہوتا ہی نہیں۔اس عالم میں آنکھ بند ہوئی اور دوسرے عالم میں آنکھ کھلی۔روح کا سفر تو جاری رہتا ہے      ؎

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشیدجیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

انسانی روح میں تخیل کی قوت بھی ہوتی ہے ، انسان کی روح حیوانی (Animal Soul) جسم کے ساتھ ہی پیدا ہوتی ہے اور اس کے ساتھ فنا ہوجاتی ہے لیکن روح عقلی (Rational Soul) ازلی اور ابدی ہے ۔ اس کی کیفیات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ، اور یہ جسم کی موت سے متاثر نہیں ہوتی ۔ ادراک کے ذریعے سے روح محسوس اشیا کا علم حاصل کرتی ہے اور عقل کے ذریعے سے تصورات قائم کرتی ہے ۔فرد کے اندر فکر ہمیشہ حسّی تما ثیل کے ساتھ ہوتا ہے ۔ارسطو دو قسم کی عقلوں  میں امتیاز قائم کرتا ہے ، ایک فعلی (active) اور دوسری انفعالی (passive)ایک وہ جو سب کچھ کرتی ہے اور دوسری وہ جس پر سب کچھ وارد ہوتا ہے۔ادراک (perception )، تخیل(imagination ) اور حافظہ (memory ) کا تعلق جسم سے ہے ، اس لیے اس کے ساتھ ہی فنا ہوجاتے ہیں، انفعالی عقل بھی  جسم کے ساتھ پیدا ہوتی ہے ، لیکن فعلی عقل ازلی اور ابدی ہے ۔فعلی عقل جسم اور انفعالی عقل سے پہلے ہی موجود تھی۔یہ بالکل غیر مادی اور ناقابل فنا ہے۔ فعلی عقل خدائی ذہن کی ایک چنگاری ہے جو خارج سے روح میں آتی ہے۔

دین حق سے لا علم لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حق یا صداقت کوئی مطلق یا مستقل چیز نہیں ،بلکہ اضافی چیز ہے جو آدمی کے ساتھ اور زماں و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ اس لیے انسانی ذہن کی معراج معرفت یا علم کا حصول نہیں بلکہ تشکیک ہے۔سب سے عقل مند آدمی وہ ہے جو ہر چیز اور ہر خیال کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ تشکیک کا یہ فلسفہ موجودہ مغربی ذہن کا لازمی جز بن گیا ہے۔جس کا آخری نتیجہ مادی ضروریات اور نفسانی خواہشات کی تسکین کے سوا ہر چیز سے مکمل بے نیازی ہے۔

مغرب کی ایک فکری گمراہی یہ بھی ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ خدا کے اقرا ر یا انکار کے مسئلے کو ہی ختم کر دیا جائے۔ یہ فلسفہ انگلستان سے شروع ہو اہے ، اور وہاں اس کا نام ’’ منطقی ثنویت‘‘ (Logical Posotiveism)۔ اب تک ہر زمانے میں یہ مسلمہ امر رہا ہے کہ جملے کے تین لازمی اجزاء ہوتے ہیں، اسم ،فعل اور حرف ،  اور یہ بات مسلمہ رہی ہے کہ اسم کسی چیز کے نام پر دلالت کرتا ہے۔مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسم چیز پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ ہر لفظ اور جملہ کسی مخصوص حالت (situation) میں بولا جاتا ہے۔چنانچہ جملے میں پہلے معنی ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں اس حا لت کا تجزیہ کر نا چاہیے جس میں یہ جملہ بولا گیا ہے۔ اس قسم کے تجزیے کے ذریعے سے یہ لوگ یہ ثابت کرتے ہیںکہ روح کے بارے میں جتنے جملے بھی بولے جاتے ہیں وہ نہ سچے ہیں نہ جھوٹے ، بلکہ بے معنی ہیں۔گمراہی اور دہریت کی جتنی شکلیں یورپ میں موجود ہیں ، وہ ہمارے ہاں مسلمانوں میں بھی اتنی ہی عام ہوچکی ہیں کہ اس کی سینکڑوں مثالیں اور شہادتیں روزانہ اخبارات و جرائد میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

اصول یہ ہے کہ کسی بھی دعویٰ یا کسی بھی مو قف کو ماننا  اور تسلیم کرناٹھوس دلائل کے ساتھ مشروط ہے۔کسی بھی دعویٰ یا اظہار رائے کو محض اس لیے نہیں قبول نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ماننے والے یا اس پر عمل کرنے والے کثیر تعداد میں ہیں۔خود قرآن حکیم میں اس طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ارشاد ربانی ہے:

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۰۰۱۱۶

’’ اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے پیچھے چلوگے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر ڈالیں گے۔وہ تو وہم و گمان کے سواکسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے، اور ان کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی اندازے لگاتےرہیں۔( سورۃ الانعام ۱۱۶)

چنانچہ اکثریت کے موقف یا دعوے کو ماننے کے لیے معقول دلائل لازمی ہیں۔قرآن جب کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اس کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس اور معقول دلیل پیش کرتا ہے۔مثلاً قرآن حکیم میں ارشاد ہے ، لا الہ اللہ ( نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے) اس کی دلیل میں ارشاد ہوا:

لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا

’’ اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے‘‘ (سورۃ الانبیاء ۲۲)

قرآن حکیم کی آیاتِ بینات گمراہ انسانوں کی انہیں مسخ شدہ ذہنیتوں اور گرد آلود قلوب و اذہان کو صیقل کرنے کے لیے نازل کی گئی ہیں ۔ اس لیے کہ قرآن کا تو موضوع ہی انسان ہے، فرمان الٰہی ہے:

لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۰۰۱۰

’’ ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے۔کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے؟ (سورۃ الانبیاء ۱۰)

حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذات کو نہیں سمجھتا اور نہ اپنے ربّ کو ، وہ ایک غلط خیال کے سبب اپنے ربّ کے متعلق ایک عقیدہ گڑھ لیتا ہے ، حالانکہ اس کا ربّ فی الحقیقت ایسا نہیں ہے۔ جب روز قیامت حجاب اٹھ جائے گا تو اس کا ربّ اس کے عقیدے کے مطابق  نہ نکلے گا، لہٰذا اس کی مدد نہ کرے گا ۔کیونکہ دنیا میں اس شخص نے اپنے حقیقی ربّ کی اطاعت نہیں کی ، یہی کشمکش سبب عذاب ہوگی اور تمام  عمر کی نادانی دائمی عذاب کا موجب بنے گی۔

اللہ اسمِ ذات ہے لہٰذا اس کا مدّ مقابل کوئی نہیں ، کوئی مظہر نہیں ۔وہ وجودِ محض ہے اس کے مقابل عدم ہے۔ لہٰذا ذات ہمیشہ باطن میں رہے گی ، صفات ظاہر ہوتی ہیں ۔ الہ بمعنی معبود ہے لہٰذا اس کے مقابل عبدہے، ربّ کے مقابل مربوب ہے، خالق کے مقابل مخلوق ہے اور غنی کے مقابل فقیر ہے۔

وہ تمام اشیاء یعنی، انسان، حیات اور کائنات جن کا عقل ادراک کرتی ہے یہ سب کی سب محدود، عاجز، ناقص اور محتاج الی الغیر ہیں۔ مثلاًانسان بھی محدود ہے کیونکہ وہ ہر شے میں ایک حد تک ہی نشوو نما پاتا ہے اور اس سے آگے تجاوز نہیں کرتا، پس وہ محدود ٹھیرا۔ حیات بھی محدود ہے کیونکہ اس کا مظہر فقط انفرادی مظہر ہے اور حیات سے اس کا مشاہدہ ہوتا ہے حیات آخر کار افراط ہی پر جاکر منتہی ہوتی ہے۔لہٰذا معلوم ہوا کہ پوری کائنات ہی محدود ہے،جب ہم محدود پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ازل نہیں ہوسکتا ، کیونکہ اگر وہ ازلی ہوتا تو محدود نہ ہوتا،اس محدود کے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ کسی اور کی مخلوق ہو اور یہ وہی ہے جو کہ انسان، حیات اور کائنات کا خالق ہے،پس یہ خالق یا تو کسی غیر کی مخلوق ہوگا یا وہ خود خالق ہوگا یا وہ ازلی واجب الوجود ہوگا۔

ہر وہ انسان جس کے پاس عقل ہے وہ اس امر کا ادراک کرسکتا ہے کہ ہر شے کا ایک خالق ہے جس نے اسے خلق کیا ہے کیونکہ تمام اشیاء ناقص ، عاجز اور غیر کی محتا ج ہیں، پس یہ قطعی طور پر مخلوق ہیں۔اس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا جو کہ خالق و مدبر ہے اس کے وجود کا قطعی ادراک ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے :

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۰۰۱۹۰ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

’’ بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل مندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ،جو اٹھتے بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں)اللہ کویاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں۔ (سورۃ آلِ عمران ۱۹۰۔191)

اور اس طرح سورۃ روم آیت ۲۲ میں ارشاد فرمایا:

وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْعٰلِمِيْنَ۰۰۲۲

’’ اور اس کی نشانیوں کا ایک حصہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔یقیناً اس میں دانش مندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْٙ۰۰۱۷وَ اِلَى السَّمَآءِ كَيْفَ رُفِعَتْٙ۰۰۱۸وَ اِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْٙ۰۰۱۹وَ اِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْٙ۰۰۲۰

’’ تو کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا ؟ اور آسمان کو کہ اسے کس طرح بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟ اور زمین کو کہ اسے کیسے بچھایا گیا؟ ‘‘ ( سورۃ الغاشیہ  ۱۷،۱۸،۹۱،۲۰)

انسان کی تخلیق کی ابتداء کہاں سے کی گئی ہے ،اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ۰۰۵ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍۙ۰۰۶يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىِٕبِؕ۰۰۷

’’اب انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سےپیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے‘‘ ( سورہ الطارق ۵،۶،۷)

اب یہ وہ نشانیاں ہیںجو انسان کے لیے آفاق و انفس سے ہویدا ہیں۔ان سب چیزوں کا مشاہدہ کر کے بھی اگر انسان کی آنکھیں نہ کھلیں تو اس کی حالت پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے۔انسان کی بندگی ، اخلاص اور اللہ کی فرماں برداری سے جو کمال اور قدرت حاصل ہوتی ہے اس کے کئی مراحل ہیں، پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں انسان اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے اور اس کے اندر ایک ایسی بصیرت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو واضح طور پر دیکھنے لگتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا

’’ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کروگے تو تمہیں (حق وباطل کی) تمیز عطا کر دے گا۔‘‘ (سورۃ لانفال  ۲۹)

اور مزید فرمایا:

وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ ۰۰۶۹

’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم انہیں ضرور با لضرور اپنے راستوں پرپہنچا ئیں گے ، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ ( سورۃ العنکبوت ۶۹)

اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے سے جو چیز انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک خاص قسم کی بصیرت کی بدولت وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پالیتا ہے ، یعنی بندگی کا پہلا نتیجہ نفسِ امّارہ پر ربوبیت اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔دوسرے امر یہ کہ اس کی قوتِ متخیلہ یعنی پراگندہ خیالات پر اسے قابو پانے کی استعداد حاصل ہوجاتی ہے۔ہماری قوتوں میں قوتِ متخیلہ سب سے عجیب ہے۔ اس قوت کی وجہ سے ہمار دماغ ہر لحظہ ہماری توجہ ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی جانب منتقل کر تا رہتا ہے۔ یہ قوت ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔رسول مکرم ﷺ نے اس حوالے سے فرمایا:

’’ انسان کے دل میں ایک ابلتی ہوئی دیگ سے بھی زیادہ ہیجان ہوتا ہے۔‘‘( مسندِ احمد)

انسان کو چاہیے کہ اپنے خیالات کی پرواز کو قابو میں رکھے ورنہ شیطانی قوت اس کی ہر استعداد کو تباہ برباد کردے گی اور اسے قربِ الٰہی سے دور کردے گی اور انسان میں موجود تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو ضائع کردے گی ۔مولانا رومی  رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:

’’ اگر انسان ہر وقت اپنے آرام اور تکلیف اور نفع و نقصان کے خیالات میں غرق رہے تو وہ سکونِ قلب کھو دیتا ہے اور عالم بالا میں پرواز کے قابل نہیں رہتا۔‘‘

الحاد و تشکیک کی شروعات انسانی قلوب و اذہان میں کسی وقتی حادثے کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کے تحت الشعور(sub-conscious)میں غیر محسوس طریقے سے داخل ہوتا ہے۔اور رفتہ رفتہ انسان کی فکری سطح پر زنگ کی طرح پھیل جاتا ہے، اور روح انسان پر اس کا تسلط قائم ہوجاتا ہے ۔نتیجہ کے طور پر انسان کی توحید کی عملی اورفکری قوت مضمحل ہونے لگتی ہے اور پھر طرح طرح کے زیغ و ضلال کی ایک دنیا دل میں

گھر کر لیتی ہے۔نفس اور روح کی مکمل تطہیر اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک انسان ان تمام خواہشات، تمناؤں اور افعال سے اجتناب نہیں کر لیتاجو اس کی فطرت سلیمہ اور عبدیت کے خلاف ہے۔

کتابیات:

۱۔ آسان ترجمہ قرآن ازمفتی تقی عثمانی

۲۔بر عظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ ازڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی

۳۔ فصُو صُ الحِکم از الشیخ اکبر محی الدین ابن عربی

۴۔ تاریخ تصوف ازعلامہ محمد اقبال

۵۔جدیدیت ازحسن عسکری

۶۔فلسفہ ولایت ازمرتضی مطہری

۷۔ عہد حاضر میں الحاد و تشکیک ازاحمد جاوید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے