(ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا ( 1935۔2021)        

ہم زباں چپ ہوگئے ، ہم داستاں چپ ہوگئے

کیسے کیسے محفل آراء ناگہاں چپ ہوگئے

افسوس کہ ہم نے گزشتہ سال میں بھی کئی عظیم المرتبت شخصیات کا داغ مفارقت برداشت کیا، مگر سال نو 2021ءکا ابتدائی ماہ ہی ہمارے لیے شہر الحزن ثابت ہوا۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پر نظر کرم فرمائے۔ آمین

یہ فقید المثال علمی وعملی شخصیات، مشاہیر اسلام، ایثار پیشہ لوگ ، اچانک یکے بعد دیگر داعی اجل کو لبیک کہہ کر اللہ رب العزت کی حضور میں حاضر ہوئے ۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون

دنیا بھی عجیب سرائے فانی دیکھی

ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی

مثلاً : ماہر امراض قلب وذیابیطس ، مسیحاءَ امراض جسمانی وروحانی

ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا              25 جنوری 2021ء

شیخ محمد فاروق                       30 ستمبر 2020ء

پروفیسر حافظ محمد کھٹی               4 جنوری 2021ء

ڈاکٹر ابو سلماں جہاں پوری           2 فروری 2021ء

حافظ مفسر ومحدث مفتی ثناء اللہ مدنی   7 فروری 2021ء وغیرہم

یکے بعد دیگرے ہمیں داغ مفارقت دیتے گئے۔

ایسے المناک اور پُر آشوب حالات میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث بار بار یاد آرہی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عِلم(دین) کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ (بندوں  کےسینوں) سے نکال دے، بلکہ علماء کرام کو موت دے کر اٹھا لے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ پھر جاہلوں کو (اپنا) سردار بنالیں گے اور اُن سے(مسائل شرعیہ) پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتاوے دیں گے پھر وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔(بخاری : 100)

ایک زمانہ تھاکہ ہمارے معاشرہ میں بھی ہرسؤ بابرکت،علمی بارونق بزمیں ہوا کرتی تھیں جن میں بڑی تعداد میں علمی شخصیات نظر آتی تھیں، جن کے دم ،ضم سے اعلیٰ علمی روایات کا سدابھار گلستاں اور کہکشاں پھلا پھولا خوشنما رونق افروز نظر آتا تھا لیکن مرور زمانے کے ساتھ اب تو اصلاح معاشرہ ، تعلیم وتربیت، علم وادب، تہذیب وشائستگی کا وہ پورا نظام ان عبقری شخصیات کے ’’فی ذمۃ اللہ‘‘ میں جانے کے بعد رخصت ہوگیا، اب وہ کاروان سلف، مردان حق کی بابرکت عظیم ہستیاں، اہل علم لوگ ہم کہاں سے لائیں گے؟ ان کی عظمت،استقامت، علم وبصیرت پھر کہاں جاکر ڈھونڈیں گے؟ بس ہم اب دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نسل نُو کو جادۂ مستقیم پر چلنے اور بھٹکنے سے محفوظ ومأمون رکھے۔ آمین

ایسے ملحدانہ پر آشوب ماحول اور دشت تنہائی میں تو ہمارا دم گھٹ رہا ہے ،

            خاموشی گفتگو ہے        بے زبان ہے زبان میری

چونکہ ہم بیک جنبش اپنے تاریخی بے بہا علمی، ادبی اور فکری میراث بھی کھوتے جارہے ہیں چونکہ اب ہم میں وہ اپنے عظیم اسلاف،درویش، صفت مسیحاء مفکرین، مجاہدین، بیدار مغز بہادر حق گو ، کتاب وسنت کی مدں خواں باقی نہ رہے ، ان اسلاف امت کی سچائی،سادگی، اثر انگیزی، صاف گوئی ، مردانگی اور تعلق باللہ کو بھی ہم ترستے جارہے ہیں چونکہ

عطّار ہو ، رومی ہو ، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتاہے آہ سحر گاہی

وہ سالار کارواں لوگوں کی دلوں میں گھر بنانے اور بڑی حکمت وبصیرت سے نشتر چلانے کا ہنر جانتے تھے، ان کی شائستگی،شگفتگی اور علمی وقار اب کہاں سے لائیں گے؟ یقین مانیے ان لوگوں کی مفارقت سے دلوں میں تاریکی اور بڑھی ہے

آب رواں کی لہر ہے

اور ہم ہیں دوستو!

ان اصحاب دعوت وعزیمت مردان حق کے متعلق ہم خطا کاروں کی ۔ اللہ رب العزت حی وقیوم کی ذات والا صفات میں امید ہے کہ وہ اپنے ان صالح بندوں کو متقیانہ مزاج کے باعث بہشت بریں میں آسائشوں آرام اور مغفرت سے سرفراز فرمائے گا۔ آمین

بلاشبہ یہ لوگ نابغہ روزگار تھے، ان کی دین قیم ، مذہب اسلام، قرآن وسنت، ملک وملت سے محبت سب پر عیاں تھی اور ان کو ہمیشہ دنیا وعقبیٰ میں فوز وفلاح کی فکر دامن گیر رہتی تھی چونکہ

کافر کی پہچان ہے آفاق میں گم

مؤمن کی یہ پہچان ہے کہ گم اس میں ہے آفاق

آج کی بزم میں میرا مقصود ہے ہمارے مشفق ومہربان مدیر وسرپرست اعلیٰ جامعہ ابی بکر ودیگر متعدد علمی مدارس وجامعات کے روح رواں اور معاون ومدیر ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا رحمہ اللہ جو بھی ہمیں تازہ داغ مفارقت دے کر عالم جاودانی کے مکین ومسافر بن گئے۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے نامر

وہ لوگ بھی آنکھوں سے اُوجھل ہوگئے

جن کا ہمیشہ نہ صرف جامعہ ابی بکر اسلامیہ سے روحانی تعلق تھا بلکہ وہ ہمیشہ علوم اسلامیہ کے سفیر رہے ، اُن کے طبی،جماعتی اور روحانی تعلقات عالم اسلام تک پھیلے ہوئے تھے، یوں اچانک ان کے جانے سے علوم اسلامیہ کے طلباء ، اساتذہ اور ادارے خود کو بے سہارا تنہائی محسوس کرنے لگے ہیں ۔

انجمن سے کیا گئے کیفی

رونق لے گئے ہیں محفل کی

ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب انتہائی معاملہ فہم ، زیرک، نفیس،شائستہ وشگفتہ مزاج، ہردلعزیز ، مخلص ومہربان ، غریب پرور، متقی انسان تھے، ان کی بے بہا شخصیت میں ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ آپ علماء کرام ،اساتذہ عظام، طلبہ ، منتظمین ومعاونین سب کی ہمیشہ دل سے عزت کرتے تھے۔

اور اداروں کی پوری کارگزاری ہے ہمیشہ نگاہ عمیق رکھتے تھے، پھر حسن کارگزاری پر نہ صرف داد تحسین دیتے بلکہ بے بہا حوصلہ افزاء کلمات سے بھی نوازتے تھے، آپ کا ایک یہ بھی کمال تھا کہ آپ ہمیشہ محتاط اور مستحکم انداز میں دینی اداروں کو ہر قسم کی مخالفانہ تنقید سے بچاتے ہوئے اداروں کو معاشرہ میں نیک نام کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے، اُن کی پر خلوص اور پُر سوز باتوں میں بَلا کی جاذبیت تھی ، عمل وکردار ، نشت وبرخواست ، زہد وتقویٰ میں آپ بلا شبہ ولی اللہ تھے۔ آپ دھیمہ مزاج، سنجیدہ فکر کے مالک تھے، متانت ووقار سے بات کرتے تھے ۔ بھائی چارہ باہم اخوت، اتحاد واتفاق،صبر وتحمل کے ساتھ ہمیشہ خدمت قرآن کا جذبہ تو کوئی اُن سے سیکھے، ان کی فکرمندی،صحت ومحبت ایثار وقربانی سے جامعہ ابی بکر اور دیگر دس کے قریب دینی اداروں نے دنیا میں ایک باوقار اور قابل ستائش اداروں کی شناخت حاصل کر لی تھی۔ بالخصوص کراچی کے جامعہ ابی بکر کی مقبولیت اور معیار میں فضیلۃ الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ (متوفی 30 جون 1997ء) جیسے مردکامل کے کارہائے نمایاں اظہر من الشمس تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطافرمائے۔

ایں خانہ ہَمّہ آفتاب است

ان کے سانحہ ارتحال کے بعد جامعہ کی بھاری بھر ذمہ داریاں مرحوم ومغفور چوھدری عبد الحفیظ کے حوالہ ہوئیں ان کے داغ مفارقت کے بعد پوری ذمہ داری نازیست ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا رحمہ اللہ تعالیٰ نے بحسن خوبی سرانجام دیں ۔

اک ہاتھ تھا جو رہتا تھا دعاء کی طرح سر پر

اک سایہ گھیرا تھا جو اٹھ گیا سر سے

ڈاکٹر صاحب صرف ان چند اداروں تک محدود نہ تھے بلکہ اُن کا فیض وطن عزیز کے چپے چپے تک پھیلا ہوا تھا، مثلاً: جس زمانہ میں ڈاکٹر راشد صاحب زکوٰۃ وعشر پاکستان کے چیئرمین تھے تو ایسے میں آپ نے پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ کی نشاندھی پر وطن عزیز کے انتہائی دور افتادہ،پس ماندہ، صحرائی اور سرحدی علاقہ تھرپارکر میں تحصیل ھیڈ کوارٹر ڈیپلو میں 21 مارچ 1993ء پروفیسر حافظ محمد کھٹی مرحوم (متوفی 4 جنوری 2021ء) کے ذریعے جوقحط زدہ  غریب، مسکین، بے سہارا لوگوں کی بنفس نفیس تشریف لاکر تھر پارکر میں مدد ومعاونت فرمائی ان کی تفصیل کے لیے ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے، جو کسی اور موقع پر تحریر کیا جائے گا۔ إن شاء اللہ

اب قدرے اختصار کے ساتھ مرحوم ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں۔ معتدل مزاج، درمیانہ قد وقامت، متناسب اعضاء، کشادہ پیشانی، گوری رنگت موٹی اور جھاندیدہ آنکھیں، دل میں محبت ومروت کے لازوال نقوش، نرم وشیریں لہجہ، لبوں پر تبسم، مخلص، ملنسار، یہ تھے مرحوم ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا رحمہ اللہ، آپ کے سانحہ ارتحال سے جو نقصان ہوا و دور دور تک پُر ہوتے نظر نہیں آتا۔

صبح دم وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اسے باد صبا

یادگار رونق محفل تھی پروانے کی خاک

آپ مورخہ 16 مئی 1935ء کو فیصل آباد کے گاؤں چک نمبر 4 رام دیوالی میں پیدا ہوئے، ڈاکٹر صاحب کے والد گرامی چوہدری محمد شریف رندھاوا اپنے علاقہ میں ایک نیک نام اور مجسٹریٹ کے عہد پر فائز متقی وپرہیزگار انسان تھے، ڈاکٹر محمد راشد نے پرائمری اور مڈل تک سینٹرل ماڈل اسکول لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، مسلم ہائی اسکول فیصل آباد سے میٹرک پاس کرنے کے بعد پری میڈیکل میں انٹرمیڈیٹ فرسٹ ڈویژن میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے پاس کیا، 1953ء میں کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے میڈیکل بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پھر بحسن وخوبی 1958ء تربیتی کورس ھاؤس جاب بھی مکمل کیا جس کے بعد میڈیکل کی مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے آپ نے 1959ءمیں سفر امریکہ اختیار کرکے 1962ء تک امریکہ سے تکمیل تعلیم کی، اس دوران آپ امریکہ کے مشہور مقام بوسٹن نیویارک میں قیام پذیر رہے امریکہ سے آپ نے امراض قلب وشوگر میں اعلیٰ پوزیشن سے تخصص کی ڈگری حاصل کی، طب میں مزید مہارت تامہ کے خاطر آپ نے 1962ء سے 1964ء تک برطاینہ کے اعلیٰ اداروں میں بھی تحصیل علم فرمائی پھر آخری امتحانات اعلیٰ پوزیشن میں کامیابی سے دے کر رائل کالج آف فزیشن لندن سے بھی امراض قلب میں بڑے اعزاز سے ایم۔آر ۔سی۔پی کی اعلیٰ ڈگری حاصل فرما کر 1964ء میں باقاعدہ وطن عزیز میں تشریف لائے ، جہاں پر مختصر عرصہ یعنی 1964ء سے 1974ء تک محکمہ واپڈا میں میڈیکل ایڈوائزر کے عہدے پر متمکن رہنے کے بعد مستعفیٰ ہوکر اپنی ذاتی کلینک میں خلق خدمت کے خالص جذبہ سے فی سبیل اللہ یا برائے نام معاوضہ پر غریبوں کا علاج کیا، پھر عجیب اتفاق ملاحظہ فرمایئے کہ دنیا کے اتنے بڑے ڈاکٹر نے جب دنیا کی مسیحائی کرتے ہوئے خود قرآن وسنت کی اعلیٰ تعلیم اور روحانیات کے لیے مشہور علمی چشم وچراغ، علوم اسلامیہ کے عظیم اسکالر اورر روحانی امراض کے مسیحاء، دار العلوم تقویۃ الاسلام لاہور کے روح رواں سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ جیسے بطل جلیل سے قربت حاصل کرکے قرآن وسنت کے مطابق ذکر وفکر سے ہفتہ میں دوبار باقاعدہ منعقدہ مجالس علمیہ سے مستفید ہونے لگے جس میں کتاب وسنت کی تعلیمات عالیہ کے ساتھ تطہیر قلب اور اسلامی تعلیمات سے خود کو آراستہ کرنے میں بھی لگ گئے ، جہاں آپ نے حضرت مولانا عبد الرشید مجاہد آبادی سے آگے چل کر صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑہی، جس سے قبل صر، نحو، ادب تفسیر وحدیث وغیرہ کی دیگر کتب باقاعدہ مولانا حافظ عبد الرشید گوھڑوی سے پڑھ کر علوم اسلامیہ میں رسوخ حاصل فرمایا ، اسلامی تعلیمات سے آراستہ وپیراستہ ہوکر ڈاکٹر صاحب نے ایک عہد کیا کہ آئندہ پوری زندگی قرآن عظیم اور حدیث رسول کی تعلیمات گھر گھر تک پہنچاؤں گا۔ جس کی ابتداءآپ نے مشہور ومعروف ادارے ’’قرآن انسٹیٹیوٹ‘ ‘کے سنگ بنیاد رکھی جس کی پھر کئی شاخیں معرض وجود میں آئیں اور جگہ جگہ تعلیم القرآن کا معیاری بندوبست فرمایا۔ اور اس نیک نام ادارے سے ہزاروں افراد نے علمی تشنگی دور کرتے ہوئے علمی کمالات سے جھولیاں پُر کیں، پہر اس کی کامیابی پر آپ نے بس نہ کیا بلکہ پھر آگے بڑھ کر ’’قرآن آسان تحریک‘‘ میں بھی تن من دھن سے جی بھر کر خوب مددومعاونت کرتے رہے ، آہ

تاباں تھیں جن سے غمکدہ جان کی وسعتیں

پلکوں پے وہ چراغ سرِشام بجھ گئے

نہ صرف اتنا بلکہ آپ نے جن متعدد اداروں کی نگرانی اور سرپرستی فرمائی اُن میں دار العلوم تقویۃ الاسلام لاہور ۔ مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ، مسلم ماڈل اسکول ستیانہ بنگلہ، ادارہ بحالی معذوراں، ابن عمر پبلک اسکول، مدرسہ عائشہ صدیقہ کراچی اور پاکستان کا مشہور ومعروف اسلامی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کی بڑی مسرت سے خدمت کرتے رہے اور اسے اپنی جان کی طرح سنبھالے رکھا

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل

وہ دوکاں اپنی بڑھا گئے

(بہادر شاہ ظفر)

ڈاکٹر صاحب ہمیشہ دین قیم، خلق خدمت اور خدمت قرآن کے جذبہ سے ہمیشہ سرشار نظر آتے تھے ، ان کاموں سے تادم واپسیں کبھی نہ تھکے بالخصوص علوم اسلامیہ سے آپ کا والہانہ تعلق تھا۔

آپ نے اتنے بڑے نامور ڈاکٹر ہونے کے باوجود کبھی بھی پیسوںپر نظر نہ رکھی۔ آپ مستحقین کا فی سبیل اللہ علاج معالجہ کیا کرتے تھے، آپ کی صداقت ودیانت کو دیکھ کر اُ س وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے آپ کو پاکستان بیت المال کا چیئرمین بنایا تھا۔ پھر انہوں نے بھی ایک منصف مزاج ، دیانتدار کی طرح ایک ایک پأئی اللہ کی راہ میں خرچ فرمائی۔ اُن کے خوف الٰہی، دیانتداری ، شرافت وشائستگی، زہد وتقویٰ کا کن الفاظ میں تذکرہ کروں۔

بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

بہر حال ان کے سانحہ ارتحال سے کتاب امانت ودیانت، صدق وصفا، اور متانت کا یوں ورق تمام ہوا۔ یہ علم والیان، خوف الٰہی کا مسافر 25 جنوری 2021ء کو عالم جاوداں کا مستقل مکین بن گیا۔ اللہ رب العزت اُن پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائےاور جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔

اب نہ دنیا میں آئیں گے یہ لوگ

کہیں ڈھونڈے نہ پائیں گے یہ لوگ

xxx

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے