(انسائیکلوپیڈیا معاویہ رضی اللہ عنہ)

مصنف : حضرت مولانا طارق محمود نقشبندی حفظہ اللہ

صفحات : 1151          ناشر : الاسلام پبلشرز کویت ، لاہور

تبصرہ : محمد سلیمان جمالی

امیر المومنین کاتب قرآن سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے عظیم صحابی ہیں آپ کو کاتب وحی ہونے کا اعلی اعزاز بھی حاصل ہے ۔

آپ حنین کے دن ان صحابہ میں شامل تھے جن کے متعلق اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَعَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ (التوبة: ٢٦)

پھر ﷲ نے اپنے رسول پر اور مؤمنوں پر اپنا سکون نازل فرمایا ۔

رسول اللہ ﷺ ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھتے تھے ۔

آپ کا فرمان ہے

: اللهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ

اے اللہ اسے ہادی و مہدی بنا اور اس کے ذریعے  لوگوں کو ہدایت دے ۔ (سنن ترمذی : 3842 )

نیز فرمایا

: اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابَ وَالْحِسَابَ ، وَقِهِ الْعَذَابَ

اے اللہ معاویہ کو حساب و کتاب کا علم سکھا اور اسے (اپنے ) عذاب سے بچا ۔(مسند احمد :  17152)

صحابہ کرام ان سے ادب سے پیش آتے اور ان کے متعلق اچھا گمان رکھتے ۔سرخیل اہل بیت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاں ان کے غلام کریب آئے اور کہا : معاویہ نے عشاء کی نماز پڑھی اور بعد میں ایک رکعت وتر پڑھی آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا :

دَعْهُ فَإِنَّهُ صَحِبَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .

کوئی حرج نہیں ہے ! انہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت حاصل ہے۔(صحیح بخاری : 3764)

اسی طرح آپ رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے :

ما رأيت رجلا كان أخلق يعني للملك من معاوية

میں نے حکومت کے لیے معاویہ سے بڑھ کر کوئی مناسب شخص نہیں دیکھا ۔(تاريخ دمشق : 62/121)

مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے تو یہاں تک فرمایا :

ما زال بي ما رأيت من أمر الناس في الفتنة، حتى إني لأتمنى أن يزيد الله عز وجل معاوية من عمري في عمره .

فتنے کے دور میں میری ہمیشہ یہ تمنا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی معاویہ tکو لگا دے۔(الطبقات لابن ابی عروبة الحرانی :41)

حتی کہ سیدنا علی المرتضی tجن سے آپ کی جنگ بھی ہوئی تھی آپ سے بے تحاشا محبت کرتے تھے ۔

سلف صالحین انہیں مومنوں کا ماموں قرار دیتے اور ان کا حد درجہ ادب و احترام کرتے اور ان سے بغض رکھنے والوں سے دور رہنے کا حکم دیتے ۔

ابوبکن بن سندی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام اہل السنہ احمد بن حنبل سے سوال کیا کہ میرے ماموں ہیں جو سیدنا معاویہ tکی تنقیص کرتے ہیں اور میں کبھی کبھی اس کے ساتھ کھا پی لیتا ہوں۔ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا : لا تأكل معه اس کے ساتھ نہ کھاؤ۔ (السنة للخلال : 448/2)

اسی طرح امام صاحب سے سوال کیا گیا کہ یہاں ایک شخص ہیں جو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو سیدنا معاویہ tسے افضل سمجھتا ہے تو آپ نے فرمایا : لا تجالسه ولا تؤاكه ولا تشاربه وإذا مرض فلا تعده

نہ اس کے ساتھ بیٹھو نہ اس کے ساتھ کھاؤ پیو اور جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت بھی نہ کرو ۔(ذیل طبقات : 301/1)

امام معافی بن عمران سے سوال کیا گیا کہ عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا معاویہ ؟ تو آپ نے جواب دیا : کان معاوية أفضل من ستمائة مثل عمر بن عبدالعزيز .

سيدنا معاويہ عمر بن عبدالعزیز جیسے چھ سو بزرگوں سے بھی افضل ہیں۔(السنة للخلال : 435/2)

امام عبداللہ بن مبارک رحمه الله فرماتے هیں :

واللہ إن الغبار الذي دخل فى أنف معاوية مع رسول الله أفضل من عمر بألف مرة .

اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ کی معیت میں سيدنا معاویہ رضي الله عنه کے ناک کی غبار بھی عمر بن عبدالعزیز سے ہزار بار افضل ہے ۔(وفیات الاعیان : 33/3)

زیر تبصرہ کتاب  کے مقدمہ میں مولانا طاہر علی ہاشمی صاحب نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ علامہ ابن حجر عسقلانی اور جمہور علماء  نے صحابی کی اس تعریف کو سب سے زیادہ جامع اور صحیح قرار دیا ہے کہ : ہر وہ شخص صحابی ہے جس نے اسلام کی حالت میں نبی اکرم ﷺسے ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی اس کی موت واقع ہوئی ہو ۔(الاصابة : 158/1)

اور بعض حضرات نے حسب ذیل دیگر شرائط کا بھی ذکر کیا ہے کہ :

1 – اس نے ایک طویل عرصہ (کم از کم ایک سال) تک شرف صحبت حاصل کیا ہو ۔

2 – اس نے نبی ﷺ سے بلا واسطہ حدیث روایت کی ہو ۔

3 – اس نے کسی غزوے میں شرکت کی ہو ۔

4 اس نے نبی کی صحبت حصول علم و عمل کے لیے اختیار کی ہو ۔

5 – اس نے حالت شعور یا حالت بلوغت میں ملاقات کی ہو ۔

سیدنا معاویہ tوہ سعادت مند صحابی ہیں جن پر مذکورہ بالا تمام تعریفات کا اطلاق ہوتا ہے ۔

صحابی کی تعریف کے علاوہ محدثین کرام اور علماء اسماء الرجال نے صحابی کی معرفت کے پانچ اصول یا طریقے وضع کیے ہیں ۔

1 ۔ایسا شخص جس کا صحابی ہونا تواتر سے ثابت ہو ۔

2۔ایسا شخص جس کا صحابی ہونا مشہور ہو یا مشہور روایات سے ثابت ہو اگرچہ تواتر کے درجے تک نہ پہنچا ہو ۔

3۔ کوئی مشہور صحابی کسی شخص کے صحابی ہونے کی شہادت دے ۔

4۔ کسی صحابی کا یہ کہنا کہ میں فلاں شخص کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا یا آپ نے میرے سامنے فلاں شخص سے گفتگو فرمائی ۔

5۔ اس کا صحابی ہونا تابعی کے قول سے ثابت ہو اور وہ شخص ایسے زمانے تک زندہ رہا ہو جس سے اس کے صحابی ہونے کا امکان پایا جاتا ہو ۔

علماء کرام نے یہ زمانہ 110 ہجری تک مقرر کیا ہے ۔ اس کے بعد کوئی شخص صحابی ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا ۔ سیدنا معاویہ tکی صحابیت اگر صحابی کی معرفت کے مذکورہ اصولوں میں سے کسی ایک اصول یا طریقے کے مطابق بھی ثابت ہو جاتی تو وہ بلاشبہ  جماعت صحابہ میں شامل سمجھے جاتے  لیکن آپ تو ان سعادت مند حضرات میں سے ہیں جن کی صحابیت «معرفت صحابی» کے تمام اصولوں اور طریقوں سے ثابت ہے ۔

قارئین کرام ! اس قدر عظمت و رفعت کے باوجود بھی بعض بدبخت اور نامرادوں نے صحابی کی شخصیت کو داغدار کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بعض سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔ ایسی صورت حال میں علماء حق نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور زبانی و قلمی جہاد کرتے ہوئے دل کے کالوں کو بھرپور جواب دیا ہے ۔ آپ کی شخصیت اور عظمت پر کتابیں لکھیں ، مقالے لکھے اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کے دندان شکن جواب دیئے ۔ اس عظیم المرتبت صحابی کی شخصیت پر جو کچھ لکھا گیا اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں کچھ ماہ قبل راقم کا مقالہ بھی شائع ہوا تھا جس میں راقم نے آپ کی دفاع پر لکھی جانے والی 172 کتابوں کی فہرست دی تھی الغرض ان کی زندگی پر بہت سا کام ہوا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن اس ضمن میں کچھ ایسا شاندار کام ہوا ہے کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے  ۔ ایک ایسا ہی  کارنامہ ہمارے دوست مولانا طارق محمود نقشبندی نے انسائکلوپیڈیا معاویہ لکھ کر سرانجام دیا ہے ۔ قارئین کرام آپ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ

1151 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب 88 ابواب پر مشتمل ہے ۔ جس میں صحابی رسول ﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا گیا ۔

ذیل میں ہم آپ کی دلچسپی اور معلومات کے لیے وہ ابواب نقل کر دیتے ہیں جس سے یہ بات بھی بہت اچھی طرح واضح ہو جائے گی کہ مؤلف موصوف نے اس کتاب پر کس قدر محنت کی ہے اور یہ کتاب اپنے موضوع کے حساب سے کس قدر مفید اور اہمیت کی حامل ہے ۔

باب : ( 1 ) خاندان بنو امیہ  ۔

باب :  (2 ) ابتدائے اسلام میں بنو امیہ کی حمایت اور مخالفت ۔

باب : (3 ) حدیبیہ اور اس کے بعد بنو امیہ ۔

باب :  (4 ) بنو امیہ کو عربوں کی حمایت حاصل ہونے کے اسباب۔

باب : ( 5 ) فتح مکہ میں بنو امیہ کا کردار ۔

باب:   ( 6 ) خاندان بنو امیہ کا قبول اسلام ۔

باب : ( 7 )  بنو امیہ نگاہ نبوت میں  ۔

باب : ( 8 ) عہد رسالت میں بنو امیہ کا سیاسی مقام ۔

باب : ( 9 ) عہد صدیقی میں بنو امیہ کا مقام ۔

باب : ( 10) عہد فاروقی میں بنو امیہ کا مقام ۔

باب : ( 11 ) بنو ہاشم اور بنو امیہ کے مابین رشتیداریاں ۔

باب : ( 12 ) سیدنا معاویہ tکا نسب ۔

باب : ( 13) اسلام لانے سے قبل سیدنا ابوسفیان tکے ذات نبوی سے تعلقات ۔

باب : ( 14 ) سیدنا ابو سفیان tکا قبول اسلام ۔

باب : ( 15 ) سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کا قبول اسلام ۔

باب : ( 16 ) سیدنا امیر معاویہ tکا خاندان ۔

باب : ( 17 ) سیدنا امیر معاویہ tکا بچپن اور جوانی۔

باب : ( 18 ) سیدنا معاویہ tکا قبول اسلام  ۔

باب : ( 19 ) سیدنا معاویہ tنے مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ۔

باب : ( 20 ) سیدنا معاویہ tمولفة القلوب میں سے تھے ؟

باب : ( 21) سیدنا معاویہ tکی سیرت و صورت۔

اس باب میں آپ tکا حلیہ مبارک ، وجاہت اور تربیت بیان کیا گیا ہے ۔

باب : ( 22 ) رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سیدنا معاویہ tکا مقام ۔

باب : ( 23) سیدنا معاویہ tنبی کریم ﷺ کے شاگرد رشید ۔

باب : ( 24 ) سیدنا معاویہ tبحیثیت ترجمان ۔

باب : ( 25 ) سیدنا معاویہ tبحیثیت کاتب وحی۔

اس باب میں سلف صالحین کے اقوال اور معتبر ترین حوالوں سے آپ tکو کاتب وحی ثابت کیا گیا ہے ۔ یہ بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔

باب : ( 26 ) سیدنا معاویہ tبحیثیت کاتب رسول ۔

اس بحث میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آپ tکاتب وحی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے کاتب خاص بھی تھے اور اس باب میں وہ تمام مکتوب بھی دیے گئے جو سیدنا معاویہ نے لکھے تھے لہذا یہ باب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

باب ( 27 ) سیدنا معاویہ tکا مقام احادیث کی روشنی میں ۔

باب : ( 28 ) سیدنا امیر معاویہ tاور عشق رسول ﷺ ۔

باب : ( 29 ) سیدنا معاویہ tکا شوق حدیث اور مرویات ۔

اس باب میں وہ تمام احادیث نقل کر دی گئی ہیں جو سيدنا معاویہ tسے مروی ہیں ۔

باب : ( 30) سیدنا معاویہ t نبی کریمﷺ کے برادر نسبتی اور ہم زلف

باب : ( 31) سیدنا امیر معاویہ t سیدنا ابوبکر tکے دور خلافت میں۔

باب : ( 32 ) سیدنا معاویہ tسیدنا فاروق اعظم tکے دور خلافت میں ۔

باب : ( 33 ) سیدنا امیر معاویہ tسیدنا عثمان tکے دور خلافت میں ۔

باب : ( 34 )  سیدنا معاویہ tسیدنا علی t کے دور خلافت میں ۔

باب : ( 35) سیدنا حسن بن علی tکا دور خلافت اور سیدنا معاویہ tکا کردار۔

باب : ( 36 ) سیدنا معاویہ tایک خلیفہ کی حیثیت ۔

باب : ( 37 ) سیدنا معاویہ tکے دور میں برپا ہونے والی شورشیں اور بغاوتیں ۔

باب : ( 38 ) سیدنا معاویہ tبحیثیت خلیفة المسلمين

باب : ( 39 ) خلیفہ یا سربراہ مملکت کی ذمہ داریاں ، فرائض اور اصول ۔

باب : ( 40 ) سیدنا معاویہ tکے دور خلافت میں عہدیداروں کا اجمالی خاکہ ۔

باب : ( 41 )  فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے امیر معاویہ tکی حیرت انگیز خدمات ۔

باب : ( 42 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت کی فتوحات۔

اس باب میں  وہ تمام ملک بیان کیے گئے جو آپ tکی دور خلافت میں فتح ہوئے ۔

باب : ( 43 ) رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے بشارت عظمی ۔

باب : ( 44 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں مقدس مقامات کا تحفظ ۔

باب : ( 45 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں تجارت اور اس کی ترقی کا اہتمام ۔

باب : ( 46 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت کا بیت المال ۔

باب : ( 47 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں عدالتی نظام ۔

باب : ( 48 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں غیر مسلموں سے سلوک ۔

باب : ( 49 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں زرعی اصلاحات ۔

باب : ( 50 ) سیدنا  امیر معاویہ tکے دور خلافت میں عسکری نظام ۔

باب : ( 51 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں تعلیم کی اہمیت ، اس کی ترقی اور اس کا مقام ۔

باب : ( 52 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں صنعت و حرفت ۔

باب : ( 53 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں احتساب کا عمل ۔

باب : ( 54 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں نظم مملکت

باب : ( 55 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔

باب : ( 56 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت کی اصلاحات۔

باب : ( 57 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں آبادکاری ۔

باب : ( 58 ) سیدنا امیر معاویہ tکے ہاں دینی مسائل کی اہمیت ۔

باب 🙁 59 ) سیدنا امیر معاویہ tکا حدیث نقل کرنے اور وعظ گوئی میں احتیاط ۔

باب  : ( 60 ) حفاظت قرآن کا اہتمام قرآن کی خرید و فروخت کا مسئلہ اور اس کا حل ۔

باب : ( 61 ) سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد ۔

باب : ( 62) سیدنا امیر معاویہ tکی طرف سے امہات المومنین اور دیگر صحابہ کرام کی قدردانی ۔

باب : ( 63 ) سیدنا امیر معاویہ tکے بنی ہاشم و اولاد ابی طالب سے تعلقات اور سلوک ۔

باب : ( 64 ) سیدنا امیر معاویہ tکا رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے محبت اور ان کے حصول کی کوشش اور ان کو ذریعہ نجات سمجھنا ۔

باب : ( 65 ) یزید بن معاویہ کی ولی عہدی ۔

باب : ( 66 ) وہ کام جن کی ابتداء سیدنا امیر معاویہ tکے دور خلافت میں ہوئی

باب : ( 67) سیدنا امیر معاویہ tکی صفات خاصہ اوصاف و کمالات  فضائل و مناقب اور محاسن ۔

باب : ( 68 ) استجابت دعا اور غیبی نصرت اور کرامات کا ظہور ۔

باب : ( 69) سیدنا امیر معاویہ tکتاب کی روشنی میں ۔

باب : ( 70 ) سیدنا امیر معاویہ tحضرات صحابہ کرام کی نظر میں ۔

باب : ( 71 ) سیدنا امیر معاویہ tتابعین ائمہ کرام اور اکابر علماء کی نظر میں ۔

باب : ( 72 )  سیدنا امیر معاویہ tکے خطبات ۔

باب : ( 73) سیدنا امیر معاویہ tکے حکیمانہ اقوال ۔

باب : ( 74) سیدنا امیر معاویہ tکی حضرات صحابہ کرام سے ملاقات، مشاورت ، نصیحت ، ہدایات وغیرہ ۔

باب : ( 75 ) سیدنا امیر معاویہ tکی صحابہ کرام سے اور حضرات صحابہ کی سیدنا معاویہ tسے مراسلت۔

باب : ( 76) امیرالمومنین امیر معاویہ tکی شان میں شاعر حضرات کا کلام ۔

اس باب میں سیدنا معاویہ tکی شخصیت پر مختلف شعراء  حضرات کے خوبصورت اشعار پیش کیے گئے ۔

باب : ( 77 ) خاندان بنو امیہ سے خاندان بنو ہاشم کی رشتے داریاں ۔

باب : ( 78 ) سیدنا امیر معاویہ tکی وفات ۔

باب : ( 79 ) سیدنا امیر معاویہ tکی ازواج و اولاد ۔

باب : ( 80 ) مخالفین سیدنا امیر معاویہ tاکابرین امت کی نگاہ میں ۔

باب : ( 81 ) سیدنا امیر معاویہ tمستشرقین کی نظر میں ۔

باب : ( 82) سیدنا امیر معاویہ tشیعہ اکابرین و مجتہدین کی نظر میں  ۔

باب : ( 83) کون معاویہ ؟

باب : ( 84) بغض معاویہ tکا انجام ۔

باب : ( 85) وہ فقہی مسائل جو سیدنا امیر معاویہ tسے منقول ہیں ۔

باب : (86 ) دشمنان معاویہ tکی سچی توبہ ۔

باب : ( 87 ) رافضی رسم بد 22 رجب کے کونڈوں کی حقیقت ۔

باب : ( 88 ) مصادر ۔

قارئین کرام ! کوئی شک نہیں کہ مولانا نقشبندی حفظہ اللہ نے اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سیدنا معاویہ tپر اس جیسا جامع کام اس سے پہلے نظر سے نہیں گزرا ۔ سیدنا معاویہ tاور بنو امیہ سے محبت کرنے والے شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے اور اسے اپنی لائبریری کی زینت بنائے ۔

کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور کاغذ معیاری ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے