علوم اسلامیہ کی بین الاقوامی شہرت یافتہ درسگاہ، جہاں سے تقریباً ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے علم کے جام نوش فرمائے، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی 37ویں سالانہ تقریب تکمیل صحیح بخاری مورخہ 21 مارچ بروز اتوار روایتی تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوئی۔ جس میں اندرون وبیرون شہر سے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے حاضری دی، اس پُر وقار تقریب کی صدارت بقیۃ السلف، ولی کامل،جناب فضیلۃ الشیخ  محمد عائش حفظہ اللہ ورعاہ نے فرمائی جبکہ نظامت کے فرائض حسب سابق فضیلۃ الاستاد ڈاکٹر محمد طاہر آصف صاحب رئیس مجلس ادارت ماہنامہ اسوۂ حسنہ نے اپنے مخصوص انداز میں انجام دیئے۔ انہوں نے روایتی نرم گوئی اور شیریں بنانی سے پوری تقریب میں سماں باندھے رکھا۔ نماز مغرب کے بعد اس پُر رونق تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اس تقریب کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر براہِ راست نشر کیاگیا۔ آغاز کلام رب جلیل سے ہوا جس کی ذمہ داری جامعہ کے ہی طالبعلم قاری نعیم الرحمن نے نہایت ہی احسن طریقے سے ادا کی جس کے بعد کلمۃ ابناء الجامعہ کے لیے حسب روایت جامعہ کے سابقہ طلباء کرام میں سے یاقوت بن عبد اللہ کو مدعو کیاگیا جن کا تعلق یوگنڈا سے تھا۔ان کا اظہار خیال انہی کی زبانی اردو قالب میں ملاحظہ  فرمائیں:

میں آپ کا بیٹا آپ کا بھائی یاقوت میں کون ہوں کہ جو اپنے اساتذہ اپنے مشائخ کے سامنے گفتگو کر سکوں لیکن یہ  ان کی میرے پہ خاص عنایت ہے کہ انہوں نے مجھے یہاں کھڑا ہونے کا موقع دیا تاکہ  اپنے دل کی باتیں آپ کے گوش گزار کر سکوں  میرے مشائخ جن کے سامنے  مجھے زانوئےتلمذکا شرف حاصل ہوا  اور ان سے تفسیر،حدیث ، توحید، وفقہ کا علم حاصل کیا اور پھر اسی علم کی دعوت دینے کے لئے واپس اپنے ملک چلا گیا  میں نے اس جامعہ ابی بکرالاسلامیہ اپنے مادر علمی میں آٹھ سال  تعلیم حاصل کی ہے یہاں پر میں نے محبت پائی،یہاں کی حکومت نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، جامعہ نے ہر طرح ہماری کفالت کی ،کبھی بھی ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں ہوئی اور آٹھ سال پڑھنے کے بعد وطن واپسی کا رخ کیا تاکہ  جو سیکھا اسکی طرف لوگوں کو دعوت دوں لیکن وہاں پر بہت زیادہ مشکلات تھیں،یوگنڈا جو عیسائی ملک ہےنہ ہمارے پاس کوئی مسجد مدرسہ تھا ،بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ہمارے بہت سے ساتھی اس جامعہ کے فارغ التحصیل کچھ جیلوں میں بھی گئے کچھ نے اللہ کی راہ میں شہادت بھی حاصل کی۔ حالات ناساز گار تھے تو میں  ساؤتھ افریقہ چلا گیا 6 سال کے بعد پھر واپس اپنے ملک میں آ کے میں نے ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام جامعہ البانی رکھا مدرسے میں تقریبا پانچ سو کے قریب طلباء ہیں اس میں طالبات بھی ہیں ان کا ایک علیحدہ شعبہ ہے اسی طرح  100 کے قریب یتیم بچوں  کی کفالت کرتے ہیں اور جو نئے مسلمان ہوتے ہیں ان کی بھی ہم کفالت کرتے ہیں اور ان کو دین کی بنیادی تعلیم دیتے ہیں اللہ تعالی اس جامعہ کی حفاظت فرمائے اس کے ساتھ ساتھ میرے بھائیو! جو بھی طالب علم ہے اس کو چاہیےکہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا حصول بھی رکھے کیونکہ یہ دین آپ نے پوری دنیا تک پہنچانا ہے  جس کے لیے ضروری ہے کہ آپ دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ  ہوں تاکہ آپ لوگوں کے اشکالات  کاجواب احسن طریقے دے سکیں اللہ تعالی میرے جو اساتذہ یہاں پر تشریف فرما ہیں ان کی بھی حفاظت فرمائے اور خاص کر شیخ  ظفر اللہ رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔اس کے بعد کلمۃ الطالب کے لیے اس سال کلیۃ الحدیث سے سندِ فراغت حاصل کرنے والے طالب علم علی خالد کو مدعو کیاگیا جن کی گفتگو کا ما حاصل یہ ہے کہ تعلیم تعمیر شخصیت کا نام ہے۔

قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں

اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

ان کے بعد کلمۃ الشکر کے لیے مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ جناب فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیاگیا جنہوں نے آغاز کلام میں ’’ مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللهَ ‘‘ سے کیا، جامعہ کے محسنین ومعاونین کا شکریہ ادا کیا مؤسس جامعہ جناب پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ کے بھائیوں ودوستوں کا شکریہ ادا کیا۔ چند ماہ قبل وفات پانے والے سابق مدیر جامعہ جناب ڈاکٹر راشد رندھاوا رحمہ اللہ کا ذکر خیر کیا، تعلیم کے علاوہ جامعہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کو سراہا، جس میں سرفہرست ادارۃ الاشراف کے تحت چلنے والی نادی الادبی العربی بھی ہے ، جو طلاب الجامعہ کے مابین تقریری وادبی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مصروف عمل ہے اور پھر ماہنامہ مجلہ اسوۂ حسنہ کے مدیر جناب ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ اور ان کی جامعہ کے لیے فقید المثال خدمات پر خراج تحسین پیش کیا، مرکز الاقتصاد الاسلامی کی خدمات میں جناب ڈاکٹر فیض الابرار صدیقی حفظہ اللہ کی سرگرمیوں کو سراہا۔ اساتذہ کرام کے لیے تعمیر ہونے والی نئی عمارت کے معاونین کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور آخر میں جناب شیخ طاہر آصف صاحب،علامہ نور محمد اور سابق مدیر التعلیم الشیخ عمر فاروق السعیدی حفظہم اللہ کا شکریہ ادا کیا۔

اس کے بعد روح تقریب،بقیۃ السلف شیخ الحدیث جناب فضیلۃ الشیخ محمد رفیق اثری حفظہ اللہ کو درس بخاری کے لیے مدعو کیاگیا آغاز میں قراءۃ حدیث کے بعد ذکر کیا کہ صحیح بخاری وہ کتاب ہے جو قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ انسانوں کے ازل سے لیکر ابد تک کے مسائل قرآن مجید میں حل کر دیئے گئے ہیں۔ قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود رب جلیل نے لی ہے۔ قرآن مجید کے احکام ہر مسلمان پر واجب العمل ہیں عین اسی طرح اسوۂ رسول ﷺ کو اپنانا بھی واجب العمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی دونوں اقسام (وحی متلو قرآن کی صورت میں جبکہ وحی غیر متلو احادیث مبارکہ کی شکل میں)کی حفاظت فرمائی ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے گواہی لی کہ ان تک دین کو پہنچادیاگیاہے؟ جس پر انہوں یک زباں ہوکر اثبات میں جواب دیا ۔صحابہ کرام اس اثبات شہادت کے بعد پوری دنیا میں پھیل کر دعوت وتبلیغ کا کام بحسن وخوبی سرانجام دینے لگے۔ قرآن مجید کا تحفظ سیدنا ابو بکراور پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیاگیا۔ جبکہ حدیث کے معاملے میں صحابہ کی شان یہ تھی کہ وہ نبی مکرم ﷺ کی ہر بات پر عمل کرتے تھے اور ان کا عمل سب سے محفوظ ترین طریقہ تھا حفاظت حدیث کے لیے اور اسی کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لکھتے بھی تھے جن میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ، سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔ احادیث دو طریقوں سے محفوظ کی گئیں لکھ کر اور حفظ کرکے۔ احادیث کو صحائف میں جمع کرنے کا سلسلہ عام تھا اور اسی طرح اس طبقہ میں قوت حافظہ باکمال تھا اور یہ اس اعتراض کا جواب بھی جو دوسری صدی کے آخر اور تیسری صدی کے اوائل میں جمع ہونے پر احادیث میں تشکیک کرتے ہیں۔ خلیفۂ خامس عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور میں انہوں نے ابو بکر بن حزام اور دیگر عمال کو خط لکھا کہ جو احادیث صحابہ کرام نے بیان کی ہیں ان کو لکھیں، یوں بہت سے صحائف تیار ہوگئے اور اس وقت یہ ایک فن کے طور پر وجود میں آگیا۔حکومتی مناصب حاصل کرنے کے لیے قرآن وسنت کا علم ضروری ہوتا تھا، حتی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان کرا دیا تھا کہ وہ تاجر ہمارے بازاروں میں تجارت نہیں کرسکتا جو ہمارے دین کے اصول تجارت نہیں جانتا ہو۔

محدثین کرام کے پاس لاکھوں احادیث متن کے اعتبار سے نہیں بلکہ سند کے اعتبار سے موجود تھیں، ایک ایک محدث کا حلقۂ درس لاکھوں افراد پر محیط ہوتا تھا اور اگر ایک حدیث بھی بیان ہو تو اس کو روایت کرنے والے افراد لاکھوں میں ہوجاتے لیکن اس صحیح غلط کا فیصلہ بھی ایک انتہائی ضروری امر تھا۔ محدثین کی ایک جماعت صرف اس مزاج ونظریے کو سامنے رکھ کر کمربستہ ہوگئی اور ملکوں ملکوں سفر کرکے احادیث کو جمع اور پرکھنے کا کام شروع کر دیا۔ اما م اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس احادیث کے ذخائر تو موجود ہیں مگر صحیح اور غلط کا امتیاز نہیں اور عام آدمی اس سے استفادہ نہیں کر سکتا پھر ان کے شاگرد امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کام کو کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ان کی تائید ایک خواب نے بھی کی۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ یوں ترتیب مرتب کی کہ پہلے باب باندھتے،اوپر مسئلہ لکھتے اور اس معیار پر جو حدیث پوری اترتی اسے لکھ دیتے۔ الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وأیامہ

اس کتاب میں انسانی زندگی کی ہر بات ہوگئی جیسے نبی اکرم ﷺ نے سیکھائی۔

مسند میں بات آئی کہ بغیر سند کے کچھ نہیں ہوگا صحیح کا مطلب یہ کہ راوی خلاف العدل یا مدلس نہیں ہوگا، شاذ یا معلل نہیں ہوگا۔ صرف معاصر ہونا ضروری نہیں بلکہ لقاء بھی لازم ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ سندعالی تلاش کرتے تھے، اسی وجہ سے ثلاثی ورباعی اسانید بہت زیادہ ہیں۔ جتنے واسطے کم ہوں گے اتنی تحقیق آسان ہوجائے گی۔ صحابہ اور تابعین کے اقوال اپنی تائید پر لاتے وگرنہ زیادہ تر استدلال کا محور قرآن وحدیث ہی ہوتا ، مثال کے طور پر کچھ علماء وقت نے کہا کہ تازہ مسواک روزہ کی حالت میں استعمال نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی نمی روزہ توڑ سکتی ہے۔ جس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھ کر ذیل میں حدیث الوضوء بیان کردی، گویا سمجھانا یہ چأہتے تھے کہ جب روزہ میں وضوء کرنے سے پانی کی نمی نقصان نہیں دیتی تو مسواک کی نمی کیسے نقصان دے سکتی ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے نئے مسائل کو مختلف مواقع پر ایک ہی حدیث سے مختلف الفاظ سے استدلال کیا ہے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک رات نبی مکرم ﷺ کے گھر ٹھہرنے والے واقعہ کو 11 بار مختلف جگہوں پر استعمال کرکے استدلالات کیئے اور بعض غلط ضوابط کو مسترد کیا۔ قرآنی آیات کو ذہن میں رکھ کر احادیث مبارکہ سے استنباط کرتے تھے۔ خبر واحد کی حدیث کو قبول کرنے کے لیے تحویل قبلہ کا واقعہ ذکرکیا کہ دوران نماز ایک صحابی نے آکر خبر دی کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنا چہرہ مسجد اقصیٰ سے مسجد الحرام کی جانب پھیر لیا ہے تو صحابہ کرام دوران نماز ہی خبر واحد کی تصدیق کرتے ہوئے کعبہ کی جانب پھر گئے اور متواتر عمل کو خبر واحد کی دلیل سےجوڑ دیا۔

جہاں نص آجائے وہاں قیاس باطل ہوجائے گا جہاں اوفوا بالعقود آگیا وہاں عقد نکاح کو قیاس کی حاجت نہیں کیونکہ نص موجود ہے ۔

قیامت کے دن عقیدہ اور اعمال کا وزن ہوگا جس کا پلڑا بھاری رہا وہ اس حساب سے جزاء پائے گا لیکن معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ اعمال تولے نہیں جائیں گے بلکہ جن آیات میں میزان کا تذکرہ ہے ان سے مراد ہے کہ انصاف اور عدل کیا جائے گا۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر (ونضع الموازین القسط ) موازین سے مراد انصاف ہے تو قسط بھی انصاف کو کہتے ہیں سو کیسے انصاف کے ساتھ انصاف کیاجائے گا۔

اگر آج کا انسان اک حرارت بناکر اس کو ناپ تول سکتاہے تو رب کریم اعمال کا وزن کیونکر نہیں کرسکتا۔ رب کریم کے لیے وزن کرنا مشکل کیسے؟

حجر اسود اپنے چومنے اور بوسہ دینے والوں کے اعمال دیکھتاہے اور نیتیں دیکھتاہے کہ کس نے کس نیت سے اس کو چوما یا بوسہ دیا تھا ، ریاکاری تھی یا بااخلاص بندہ تھا۔ رحمن اللہ کا نام ہے کسی کے لیے لائق نہیں کہ خود کو اس نام سے بلوائے، جیسا کہ اکثر لوگ عبدالرحمن کو حرف رحمن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ تو یہ کفر تک کا ارتکاب ہوجاتاہے۔ اللہ کے لیے کچھ صفات ہے جو لازم وملزوم ہیں ان کے بارے میں اہل السنہ نہ تو تأویل کرتے ہیں نہ تعطیل کرتے ہیں نہ کیفیت کا اندازہ لگاتے ہیں نہ ان کی مثال بیان کرتے ہیں وہ صفات جیسی ہیں اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق بس ان کا اقرار کرتے ہیں۔ جس میں سے اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا،اللہ کا آسمان دنیا پر نازل ہونا،اللہ کا چہرہ،اللہ کا ہاتھ، اللہ کا پاؤں، اللہ کی آنکھ وغیرہ

سبحان اللہ وبحمدہ ( وہ پاک ہے اپنی حمد کے حساب سے) سبحان اللہ العظیم ( وہ پاک ہے اور وہ بڑا ہی عظمت والا ہے)

درس حدیث کے بعد مدیر امتحانات جناب ڈاکٹر حافظ افتخار احمد شاہد صاحب کو مدعوکیاگیا جنہوں نے سال 2020۔21 کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا اور بچوں میں انعامات تقسیم کیئے گئے۔جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کلیۃ الرابعہ سے فارغ التحصیل طلباء کرام کو صحاح ستہ مکمل سیٹ اور نضرۃ النعیم 12 جلدوں پر مشتمل مکمل سیٹ اور ہر طالبعلم کو 12 ہزار روپے نقدی ،ایک سوٹ اور سرخ رومال دیاگیا اور اسی طرح معہد الرابع سے متخرج ہر طالبعلم کو 2000 روپے نقدی انعام دیاگیا اور پہلی دس پوزیشن لینے والوں کو کتاب رحمۃ للعالمین دی گئی اور اسی طرح پورے جامعہ میں اول،دوم اور سوم آنے والے طلباء کرام کو بھی انعامات دیئے گئے۔

اس کے بعد صدر تقریب جناب فضیلۃ الشیخ محمد عائش صاحب کو مدعو کیاگیا انہوں نے بتایا کہ جب ایک اکیلا موحد اپنی نیت کو خالص کرکے اٹھتاہے تو فرعونی حکومتیں بھی اس کے سامنے سوکھے پتوں کی مانند بکھر جاتی ہیں جس طرح وہ خندقوں والے جب اس ایک طالبعلم نے یہ نعرہ لگایا کہ

أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ

کہ حکم چلے گا تو اللہ تعالیٰ کا۔ آئین ہوگا تو قرآن وسنت کا۔ باقی اس کے علاوہ جو چیز ہے وہ ردی اور گندگی سے زیادہ کچھ نہیں پھر اس بچہ کی اللہ تعالیٰ نے ایسی مدد کی کہ پہاڑوں پر زلزے بھیج کر اسے محفوظ کردیا۔ سمندروں میں طغیانی مچا کر اسے محفوظ کر دیا یہاں تک کہ وہ فرعونی حکومتیں اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔

آخر میں دعائیہ کلمات بھی شیخ محترم نے اپنے مخصوص انداز میں ادا کیئے، اور یوں اس روح پرور تقریب کا اختتام ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے لیے مزید اس طرح کی محافل میں شرکت کرنے والا بنانے اور ہمیں جنت میں بھی اسی طرح جمع فرمائے۔ آمین 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے