اہل مغرب! مسلمان آپ کے خيرخواہ ہيں ، ہم آپ کو لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ پر ايمان لانے کي دعوت ديتے ہيں ۔

جس طرح ہر انسان کا باپ ايک ہي ہے اسي طرح کائنات کا خالق بھي ايک ہي ہے ۔ جس طرح کسي فيکٹري کارخانہ کے نظم کا اختيار ايک سے زائد ہاتھوں ميں ہو تو فيکٹري ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتي ہے اور رياست کے حتمي فيصلوں کا اختيار ايک سے زيادہ افراد کے پاس ہو تو رياستي نظام درہم برہم ہوجاتاہے اس بنا پر ہمارا موقف ہے کہ کائنات کا نظام چلانے والا اکيلا اللہ ہي ہے اُس کا کوئي شريک نہيں۔

اللہ سبحانہ وتعالي سے ازل سے ہے ابد تک رہے گا اسي کو بقا ہے اور ہر چيز کو فنا ہے۔ اُس کي ذات لم يلد ولم يولدہے اللہ نے نہ کسي سے جنم ليا اور نہ ہي کسي نے اللہ سے جنم ليا۔ ايک طرف آپ کا عقيدہ ہے کہ سيدنا عيسيٰ عليہ السلام اللہ کے بيٹے ہيں جبکہ انجيل ميں مذکور ہے کہ سيدنا عيسيٰ عليہ السلام پر موت طاري ہوئي۔

’’يسوع نے پھر بڑي آواز سے چلا کر جان دے دي۔‘‘ ( متي 27: 49 )

سوچنے کا مقام ہے اگر سيدنا عيسيٰ عليہ السلام اللہ تعاليٰ کي ذات سے نکلے ہوتے تو اُن پر موت طاري نہ ہوتي آپ کے بقول موت طاري ہوئي تو وہ اللہ تعاليٰ کي ذات سے نہيں نکلے۔

اہل مغرب درحقيقت وہ اللہ تعاليٰ کے حکم ’کُن‘ سے پيدا ہوئے جو ’کُن‘ سے پيدا ہوا ہو اس پر موت يقيني اور فنا لازمي ہے۔ اللہ احد سيدنا عيسيٰ عليہ السلام کي پيدائش سے پہلے کائنات کا نظام چلانے ميں يکتا تھا اُن کي پيدائش کے بعد بھي اکيلا ہي چلا رہا ہے  ۔ اللہ تعاليٰ کو ساتھ دينے والا اور سہارا دينے والا اور کوئي نہيں سيدنا عيسيٰ عليہ السلام اللہ تعاليٰ کا بيٹا نہيں بلکہ وہ اللہ سبحانہ وتعاليٰ کے معصوم نبي ہيں۔

کلمہ طيبہ کا دوسرا جزء ’محمد رسول اللہ‘‘ ہے۔ کائنات کے امام محمد ﷺ دعائے خليل اور نويدِ مسيحا ہيں۔ سيدنا ابراہيم وسيدنا اسماعيل عليہم السلام نے مکہ مکرمہ ميں کعبہ کي از سر نو تعمير کے وقت دعا کي :

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۰۰۱۲۹

اے ہمارے رب ان ميں، انہيں ميں سے رسول بھيج جو ان کے پاس تيري آيتيں پڑھے، انہيں کتاب و حکمت سکھائے اور انہيں پاک کرے يقيناً تو غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعاليٰ نے اُن کي دعا کو شرف قبوليت بخشا، مکہ مکرمہ ميں اُن کي اولاد ميں سے جناب محمد ﷺ کو مبعوث فرمايا ، بني اسرائيل کي طرف مبعوث ہونے والے سيدنا عيسيٰ عليہ السلام نے اپنے بعد آنے والے نبي کي بشارت سنائي :

وَ اِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ

اور جب مريم کے بيٹے عيسيٰ نے کہا اے ميري قوم، بني اسرائيل! ميں تم سب کي طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے کي کتاب تورات کي ميں تصديق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ايک رسول کي ميں تمہيں خوشخبري سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔(الصف:6)

نبي کريم ﷺنے اس بارے واضح فرمايا :

أَنَادَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَى(أيسر التفاسير)

ميں اپنے باپ ابراہيم (عليہ السلام) کي دعا اور عيسيٰ (عليہ السلام) کي بشارت کا مصداق ہوں ۔ احمد يہ فاعل سے اگر مبالغے کا صيغہ ہو تو معني ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کي زيادہ حمد کرنے والا۔ اور اگر يہ مفعول سے ہوں تو معني ہوں گے کہ آپ ﷺکي خوبيوں اور کمالات کي وجہ سے جتني تعريف آپ ﷺکي کي گئي اتني کسي کي بھي نہيں کي گئي۔ (احسن البيان)

تورات وانجيل ميں نبي کريم ﷺ سے متعلق پيشين گوئياں موجود تھيں يہي وجہ ہے کہ اہل کتاب شام سے دور دراز کا سفر کرکے کھجوروںوالے شہر کي تلاش ميں يثرب( مدينہ منورہ) آئے۔ يہودي عالم عبد اللہ بن سلام کا اسلام قبول کرنا اسي پيشين گوئي کا نتيجہ تھا۔

سيدنا عبد اللہ بن سلام رضي اللہ عنہ اپنے دو چچازاد بھائيوں سلمہ اور مہاجر سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ تورات ميں اللہ تعاليٰ نے فرمايا ہے کہ ميں سيدنا اسماعيل عليہ السلام کي اولاد ميں ايک نبي پيدا کروں گا جس کا نام احمد ہوگا پس جو شخص اس پر ايمان لائے گا تو وہ ہدايت پر ہوگا اور مراد کو پہنچے گا اور جو منکر ہوگا تو اسي پر لعنت ہوگي اس بات کو سن کر سلمہ ايمان لايا اور مہاجر نے انکار کيا اس پر آيت

وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ (البقرة:130)

نازل ہوئي۔

مولانا عبد الرشيد نے سورة الصف کي آيت 6 مذکورہ کے حاشيہ ميں تحرير کيا ہے ۔

سيدنا عيسيٰ عليہ السلام خود اسرائيلي تھے اور ان کے مخاطب بھي تمام تر اسرائيلي ہي تھے اس ليے تصريح کے ساتھ صرف تورات کا ہي ذکر مناسب تھا ۔ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ ۔ اسي چھوٹے فقرہ ميں بہت سي گمراہيوں کي ترديد آگئي چنانچہ اس کا اثبات ہوا آپ کي بعثت بني اسرائيل کي جانب تھي کل دنيا کي جانب نہ تھي۔ جس سے موجودہ مسيحيت کي ترديد ہوتي ہے ۔  اس کا اثبات کہ آپ حق تعاليٰ کي طرف سے رسول حق تھے ۔ نعوذ باللہ کوئي مفتري نہ تھے اس سے يہود کي ترديد ہوتي ہے۔ آپ حق تعاليٰ کے ايک ممتاز ترين ومقرب ترين بندہ تھے نعوذ باللہ خود الوہيت کے مدعي کسي معني ميں بھي نہ تھے ۔ انجيل احکام ومسائل شريعت يا قانون الٰہي کي دفعات سے يکسر خالي ہے اسي ليے مسيح نے فرمايا کہ ميرے بعد ايک اور رسول آئے گا۔

انجيل حواري پر تايا کي موجود ہے اس ميں يہ پيشگوئياں بہت صاف اور بالکل کھلے لفظوں ميں ہيں اور جو چار انجيليں مسلم ہيں ان ميں سے بھي ايک ميں يہ عبارتيں آج تک مل رہي ہيں اس ميں انکار يا تأويل کي قطعاً گنجائش نہيں ہے۔ انجيل يوحنا ميں تو فارقليط Periclutos  والي بشارت اتني صاف ہے کہ اس کا بے تکلف مطلب سوائے احمد بمعني محمود دستودہ کے کچھ ہوہي نہيں سکتا يہ خاتم النبيين کا معجزہ ہے کہ حق تعاليٰ نے ان تحريف کرنے والوں کو اتني قدرت نہيں دي کہ وہ اس آخري نبي کے متعلق تمام پيش گوئياں کو بالکل محو کرديں اور ان کا کچھ نشان ہي باقي نہ رہے۔ (توضيح القرآن )

اللہ تعاليٰ نے خاتم النبيين ﷺ اور صحابہ کرام کے اوصاف کا تذکرہ فرمايا :

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ١ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ

محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہيں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہيں کافروں پر سخت ہيں آپس ميں رحمدل ہيں، تو انہيں ديکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہيں اللہ تعاليٰ کے فضل اور رضامندي کي جستجو ميں ہيں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کي يہي مثال تورات ميں ہے اور ان کي مثال انجيل ميں ہے۔

ہمارا پختہ يقين ہے کہ نبي کريم ﷺ اور اصحاب رسول کے متعلق پيشين گوئياں تورات وانجيل ميں موجود تھيں جن کو ديکھ کر پادريوں نے بغير جنگ کے بيت المقدس کي چابي خليفہ دوم سيدنا عمر فاروق رضي اللہ عنہ کے حوالے کر دي ۔

تورات اور انجيل کونازل ہوئے دوہزار سال سے زيادہ عرصہ بيت گيا۔ مفاد پرست طبقہ نے ان ميں تحريف کي اس کے باوجود

مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ١ۛۖۚ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ

کي تصديق کے ليے خاتم النبيين ﷺ کي رسالت کے ارشادات اب بھي موجود ہيں ۔

’’خداوند سينا سے آيا اور شعير سے اُن پرآشکار ہوا اور کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور وہ دس ہزار قدسيوں ميں سے آيا۔ اسکے داہنے ہاتھ پر اُن کے ليے آتشي شريعت تھي ۔ وہ بے شک قوموں سے محبت رکھتا ہے اُسکے سب مقدس لوگ تيرے ہاتھ ميں ہيں اور وہ تيرے قدموں ميں بيٹھے ايک ايک تيري باتوں سے مستفيض ہو گا ۔(استثناء 33: 2۔3  طبع : 1906)

کوہِ سينا پر اُتري سے مراد تورات اور کوہِ شعير پر آشکار سے مراد انجيل ہے جبکہ کوہ فاران پر جلوہ گر سے مراد قرآن مجيد ہے۔ تورات کي يہ پيشينِ گوئي حرف بہ حرف پوري ہوئي ۔ کوہ فاران کي غار ميں نبي کريم ﷺ پر پہلي وحي نازل ہوئي اور فتح مکہ کے موقع پر نبي کريم ﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابہ کرام رضي اللہ عنہ تھے ۔ (اب بعض نسخوں ميں اسے لاکھوں سے تبديل کر دياگياہے)

انجيل مقدس( نيا عہد نامہ) ميں شامل متي،مرقس،لوقا اور يوحنا کو صحيح تصور کيا جاتاہے۔ اُن ميں سے نبي کريم ﷺ سے متعلق پيشين گوئي کا جائزہ ليتے ہيں ۔

اِن بارہ کو يِسُوع نے بھيجا اور اُن کو حُکم دے کر کہا۔ غَير قَوموں کي طرف نہ جانا اور سامريوں کے کِسي شہر ميں داخِل نہ ہونا۔ بلکہ اِسرائيل کے گھرانے کي کھوئي ہُوئي بھيڑوں کے پاس جانا۔ اور چلتے چلتے يہ منادي کرنا کہ آسمان کي بادشاہي نزدِيک آگئي ہے۔(متي:10 : 5۔7)

آسمان کي بادشاہي سے مراد رب ذوالجلال کي ذات نہيں ہوسکتي کيونکہ اللہ تعاليٰ کي بادشاہي ازل سے ابد تک ہے۔

سيدنا عيسيٰ عليہ السلام خود خبر دے رہے ہيں اس بنا پر اُن کي اپني ذات بھي نہيں ہوسکتي البتہ يقيناً ان سے مراد نبي کريم ﷺ ہي ہيں جنہوں نے آسماني شريعت کو کائنات ميں نافذ کيا اور قيامت تک آسماني شريعت کے فيصلے عدل وانصاف اور امن وسکون کي ضمانت فراہم کرتے رہيں گے۔

اور يوحنّا کي گواہي يہ ہے کہ جب يہوديوں نے يروشلم سے کاہن اور لاوي يہ پوچھنے کو اس کے پاس بھيجے کہ تو کون ہے؟۔ تو اس نے اقرار کيا اور انکار نہ کيا بلکہ اقرار کيا ميں تو مسيح نہيں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کيا تو ايلياہ ہے؟ اس نے کہا ميں نہيں ہوں۔ کيا تو وہ نبي ہے؟ اس نے جواب ديا کہ نہيں۔ پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون؟ تاکہ ہم اپنے بھيجنے والوں کو جواب ديں تو اپنے حق ميں کيا کہتا ہے؟۔ اس نے کہا ميں جيسا يسعياہ نبي نے کہا ہے بيابان ميں ايک پکارنے والے کي آواز ہوں کہ تم خدا کي راہ کو سيدھا کرو۔يہ فريسيوں کي طرف سے بھيجے گئے تھے۔ انہوں نے اس سے يہ سوال کيا کہ اگر تو نہ مسيح ہے نہ ايلياہ نہ نبي تو پھر بپتسمہ کيوں ديتا ہے؟۔يوحنّا نے جواب ميں ان سے کہا کہ ميں پاني سے بپتسمہ ديتا ہوں تمہارے درميان ايک شخص کھڑا ہے جسے تم نہيں جانتے۔يعني ميرے بعد کا آنے والا جس کي جوتي کا تسمہ ميں کھولنے کے لائق نہيں۔(يوحنا ، باب 1 : 19 تا 28)

يہودي قاصدوں کے پوچھنے پر يوحنا( عيسيٰ عليہ السلام) نے کہا ميں ايلياہ ہوں نہ ميں مسيح اور نہ وہ نبي بلکہ جو ميرے بعد (نبي) آنے والا ہے جس کي جوتي کا تسمہ کھولنے کے لائق بھي نہيں۔

اس سے مراد يقيناً نبي کريم ﷺ ہيں اگر نہيں تو اور کون ہے ؟ ’’وہ نبي‘‘ کا فارسي ميں آنحضرت بنتاہے۔ جب ہم آنحضرت کہتے ہيں تو اس سے نبي کريم ﷺ کا تصور فوراً ذہن ميں آجاتاہے۔

’’اس کے بعد ميں تم سے بہت سي باتيں نہ کروں گا کيونکہ دنيا کا سردار آتاہے اور مجھ ميں اُس کا کچھ نہيں۔‘‘ (يوحنا 14 :30)

’’ليکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو ميں تمہارے پاس باپ کي طرف سے بھيجوں گا يعني سچائي کا روح ۔‘‘ ( يوحنا 15: 26)

’’ اور ميں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہيں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے يعني سچائي کا روح۔‘‘ (يوحنا 14 : 16)

’’ليکن جب وہ يعني سچائي کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائي کي راہ دکھائے گا۔ اس ليے کہ وہ اپني طرف سے نہ کہے گا ليکن جو کچھ سنے گا وہي کہے گا اور تمہيں آئندہ کي خبريں دے گا وہ ميرا جلال ظاہر کرے گا۔‘‘ ( يوحنا 16 : 13۔14)

سيدنا مسيح عليہ السلام نے اپنے بعد فارقليط آنے کي بشارت دي جس کے معني محمد ، محمود ہيں ليکن موجودہ دور کي اناجيل ميں ’’سچائي کا روح‘‘ ، ’’سچائي کي راہ‘‘ ، مدد گار اور سردار لکھا ہوا سوچنے کي بات ہے کہ اس پيشين گوئي کا مصداق کون ہوسکتاہے؟ روح القدس اس ليے نہيں کيونکہ وہ سيدنا مسيح ابن مريم عليہ السلام سے قبل انبياء کرام عليہم السلام کے پاس وحي لے کر تشريف لاتے رہے چنانچہ اُن کے بارے بشارت دينے کا کيا مقصد؟ بلاشبہ سيدنا مسيح عليہ السلام نے قيامت کے قريب آسمان سے نزول فرمانا ہے ليکن يہ شہادت اُن کے اپنے بارے اس ليے نہيں ہوسکتي کيونکہ وہ فرما رہے ہيں ۔

’’ اور ميں اپنے باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہيں دوسرا مددگار بخشے گا۔‘‘ ( يوحنا 14 : 16)

نبي کريم ﷺ کي تشريف آوري سے انجيل کي پيشين گوئي حرف بہ حرف پوري ہوئي۔

سچائي کا روح : نبي کريم ﷺ نے لڑکپن ، نوجواني کي زندگي مکہ معظمہ ميں گزاري آپ کي زبان اطہر سے جھوٹ نہيں نکلا قريش مکہ آپ کو صادق وامين کے لقب سے ياد کرتے تھے۔

’’سچائي کي راہ دکھائے گا‘‘، اللہ کي آخري الہامي کتاب قرآن مجيد گواہي دے رہا ہے ۔

وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍۙ۰۰۵۲صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ

’’(اے پيارے حبيب) اور اس ميں کوئي شک نہيں کہ تم لوگوں کو وہ سيدھا راستہ دکھارہے ہو ، جو اللہ کا راستہ ہے وہ اللہ جس کي ملکيت ميں وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں ميں ہے اور وہ سب کچھ جو زمين ميں ہے۔‘‘(الشورى:52-53)

سرورکائنات محمد ﷺ پتھر کھا کر لہولہان ہوگئے۔ غزوۂ احد ميں دندان مبارک شہيد ہوگئے تاہم زبان اقدس سے دوسروں کو سچائي کي راہ پر گامزن کرنے کي نصيحت کرتے رہے۔

’’وہ اپني طرف سے نہ کہے گا‘‘۔ اللہ تعاليٰ نے قرآن مجيد ميں اعلان فرما ديا کہ ميرا حبيب محمد ﷺ اپني مرضي سے نہيں بولتے۔

وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ۰۰۳اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ۰۰۴

’’ اور يہ اپني خواہش سے کچھ نہيں بولتے يہ تو خالص وحي ہے جو اُن کے پاس بھيجي جاتي ہے۔‘‘(النجم:3۔4)

مددگار : نبي کريم ﷺ ضعيف المعمر مردوں عورتوں کا مددگار بن کر بوجھ خود اٹھاليتے انہيں منزل مقصود تک پہنچا آتے ، کوئي سائل آپ ﷺ کي مدد سے خالي نہ گيا ۔

’’آئندہ کي خبريں دےگا‘‘۔ نبي کريم  ﷺ نے جنت ،دوزخ اور قيامت کي خبروں سے آگاہ فرمايا روزِ محشر کے حساب وکتاب سے مطلع فرمايا ۔

سيدنا عيسيٰ عليہ السلام نے فرمايا کہ ميرے بعد آنے والا ’’ميرا جلال ظاہر کرے گا‘‘۔

مخبر صادق نبي کريم ﷺ نے فرمايا کہ قيامت کے قريب حضرت مسيح دمشق کي مسجد کے مشرقي مينار پر نزول فرمائيں گے۔ اور جلال ميں آکر دجال کو قتل کريں گے۔

انجيل ميں مذکور ہے کہ ’’ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا‘‘۔

سيد نامسيح عليہ السلام  کي يہ پيشين گوئي بھي پوري ہوئي۔ اللہ تعاليٰ نے نبي کريم ﷺ کو رحمة للعالمين اور خاتم النبيين کے القاب سے سرفراز فرمايا :

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۰۰۱۰۷

’’اور (اے پيغمبرﷺ) ہم نے تمہيں سارے جہانوں کے ليے رحمت ہي رحمت بنا کر بھيجا ہے۔‘‘(الانبياء:107)

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا ۰۰۴۰

’’ محمد ﷺ تم ميں سے کسي مرد کے باپ نہيں ليکن اللہ کے رسول اور آخري نبي ہيں اور اللہ ہر چيز سے بخوبي واقف ہے۔‘‘(الاحزاب:40)

سرور کائنات ﷺ پر نازل شدہ دين جامع عام فہم اور ہر قسم کے ردوبدل سے محفوظ ہے ، اللہ تعاليٰ نے مذکورہ آيت ميں ايک لطيف نکتہ بيان کيا ہے کہ قيامت تک کے ليے وحي کي جتني ضرورت تھي ، وہ ہمارے علم ميں ہے اُس کا بيان ہم نے محمد رسول اللہ پر نازل کر ديا۔

مفتي محمد تقي عثماني نے سورة الصف آيت 6 کے حاشيہ ميں واضاحت فرمائي ۔

’’احمد ‘‘ حضور اقدس (ﷺ) کا نام ہے، اور سيدنا عيسيٰ (عليہ السلام) نے اسي نام سے آپ کي بشارت دي تھي۔ اس قسم کي ايک بشارت آج بھي انجيل يوحنا ميں تحريف شدہ حالت ميں موجود ہے۔ انجيل يوحنا کي عبارت يہ ہے کہ سيدنا عيسيٰ (عليہ السلام) نے اپنے حواريوں سے فرمايا : ’’ اور ميں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہيں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ‘‘ (يوحنا : 16)۔ يہاں جس لفظ کا ترجمہ مددگار کيا گيا ہے۔ وہ اصل يوناني ميں ’’ فار قليط ‘‘ (Periclytos) تھا جس کے معني ہيں ’’ قابل تعريف شخص ‘‘ اور يہ ’’ احمد ‘‘ کا لفظي ترجمہ ہے ليکن اس لفظ کو ’’Paracletus ‘‘ سے بدل ديا گيا ہے، جس کا ترجمہ ’’ مددگار ‘‘ اور بعض تراجم ميں ’’ وکيل ‘‘ يا ’’ شفيع‘‘ کيا گيا ہے۔ اگر ’’ فارقليط ‘‘ کا لفظ مد نظر رکھا جائے تو صحيح ترجمہ يہ ہوگا کہ ’’ وہ تمہارے پاس اس قابل تعريف شخص (احمد) کو بھيج دے گا جو ہميشہ تمہارے ساتھ رہے گا ‘‘۔ اس ميں يہ واضح فرمايا گيا ہے کہ پيغمبر آخر الزماں (ﷺ) کسي خاص علاقے يا کسي خاص زمانے کے ليے نہيں ہوں گے، بلکہ آپ کي نبوت قيامت تک آنے والے ہر زمانے کے ليے ہوگي۔(آسان ترجمہ قرآن ، ص:1086)

سيدنا آدم عليہ السلام سے لے کر سيدنا عيسيٰ عليہ السلام تک تمام انبياء کرام قابل احترام ہيں اُن کي نبوت کي تصديق کرنا ايمان کا جزء ہے تاہم ان کي نبوت مخصوص قوم اور علاقہ تک محدود تھي، ليکن خاتم النبيين محمد ﷺ کي رسالت قيامت تک سرخ وسفيد ،عربي وعجمي سب انسانوں کے ليے ہے۔

فرمان الٰہي ہے :

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۲۸

’’ہم نے آپ کو تمام انسانيت کے ليے بشير ونذير بنا کر بھيجا ہے ليکن اکثر لوگ نہيں جانتے۔‘‘(سبأ:28)

اللہ تعاليٰ نے دوسرے مقام پر نبي مکرم ﷺ کو ارشاد فرمايا :

قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا (الاعراف:158)

’’ کہہ ديجيے کہ ميں آپ سب کے ليے اللہ کا رسول ہوں ۔‘‘

صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ اہل عرب کي طرف نہيں مشرق ومغرب کي پوري انسانيت کي طرف مبعوث ہوئے۔ رحمة للعالمين ﷺ پر نازل ہونےوالے ضابطے بھي قيامت تک معاشرہ ميں امن وسلامتي کي ضمانت فراہم کرتے ہيں۔ اسلامي حدود وقيود کا تعين حکيمانہ ہے جن پر عمل کرنے سے شہريوں کي عزت جان ومال کو تحفظ حاصل ہوتاہے۔

خالق کائنات نے عورت ومرد کي فطري خوبيوں وخاميوں کو مدنظر رکھ کر ذمہ داريوں کا تعين کيا ہے۔ جن پر عمل کرنے سے خانداني ماحول پُر سکون رہتاہے۔

سود قوموں کي تباہي کا موجب ہے اللہ تعاليٰ نے اس ليے حرام ٹھہرايا ہے چونکہ تجارت ميں برکت ہے اس کو حلال ٹھہر ايا ہے ۔

جس طرح رحمت کائنات محمد ﷺ کي ذات جامع واکمل صفات سے لبريز ہے اسي طرح آپ پر نازل شدہ ضابطے بھي قيامت تک انسانيت کي فلاح اورمعاشرہ ميں امن وسلامتي کا سرچشمہ ہيں چنانچہ انجيل ميں سيدنا مسيح ابن مريم عليہ السلام کي بشارت کے مصداق محمد ﷺ ہيں ۔

اہل مغرب ! آپ پادريوں سے تحقيق کريں کہ فارقليط لفظ کي بجائے آسمان کي بادشاہي ،وہ نبي ، روح حق ، مددگار اور سچائي کي راہ دکھانے والے وغيرہ کا مصداق کون ہے ؟

اور يوحنا حواري کے مطابق سيدنا مسيح عليہ السلام نے جس شخصيت کے آنے کي خبر دي ہے وہ محمد ﷺ اگر نہيں ہيں تو پھر کون ہے ؟ آپ حق کے متلاشي بن کر تحقيق کريں يقيناً اللہ تعاليٰ آپ کا سينہ ہدايت کے نور سے منورکر دے گا۔

xxx

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے