Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

پیغمبروں کی سرزمین  ارضِ فلسطین لہو لہو

Written by ڈاکٹر مقبول احمد مکی 29 Aug,2021
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

 

سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۰۰۱

پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔(الاسراء:1)

آیت کریمہ میں بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ میں حَوْلَ سے مراد پوری ارض شام ہے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے دریائے فرات تک مبارک زمین بنائی ہے اور اس میں سے فلسطین کی زمین کو تقدس خاص عطا فرمایا ہے (روح المعانی) اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی ،دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور تمام انبیاء علیہم السلام کا مسکن ومدفن ہے اور دنیوی برکات اس کی زمین کا سرسبز ہونا اور اس میں عمدہ چشمے نہریں باغات وغیرہ کا ہونا ہے۔ سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ملک شام تو تمام شہروں میں سے میرا منتخب خطہ ہے اور میں تیری طرف اپنے منتخب بندوں کو پہنچاؤں گا (قرطبی ) اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ دجال ساری زمین میں پھرے گا مگر چار مسجدوں تک اس کی رسائی نہ ہوگی ۔ ١ مسجد مدینہ ٢ مسجد مکہ مکرمہ ۔ ٣ مسجد اقصی ٤ مسجد طور ۔ (معارف القرآن )

فلسطین مسلمانوں کے دِلوں کی دھڑکن ہے۔ مسجدِ اقصیٰ خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسری مقدس مسجد ہے جس کی فضیلت قرآنِ مجید میں آئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی معراج بھی اسی مسجد سے ہوئی اور یہ مسجد مسلمانوں کا پہلا قبلہ بھی تھی۔ اس کی اس حیثیت کی وجہ سے مسلمان ہمیشہ سے اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔اب یہ مسجد اسرائیلیوں کے کنٹرول میں ہے جو اسے گرا کر اس کی جگہ اپنا عبادت خانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے 1949 میں ایک گرین آرمسٹس لائن کھینچ کر فلسطینی اور اسرائیلی ریاست کی حدیں تجویز کی تھیں۔ اس گرین آرمسٹس لائن میں بیت المقدس، جسے انگریزی میں یروشلم کہا جاتا ہے، ایک نیوٹرل ایریا تھا جسےاقوامِ متحدہ کے کنٹرول میں رہنا تھا  ۔ اس وقت تک فلسطین کے یہ علاقے اردن اور مصر کے قبضے میں تھے لیکن 1967 میں اسرائیل نے مصر اور اردن پر حملہ کرکے پورے فلسطین کو مقبوضہ بنا لیا۔ اب بھی اقوامِ متحدہ ان تمام علاقوں کو مقبوضہ (occupied) سمجھتی ہے اور اسرائیل کو تب تک ایک قابض قوت سمجھتی ہے جب تک کہ وہ 1949 کی گرین آرمسٹس لائن پر واپس نہ آجائے جسے اسرائیل ، امریکہ ،روس اور یورپی ممالک نے تسلیم کررکھا تھا۔ 1967 میں اسرائیل نے حملہ کرکے جہاں باقی فلسطین پر قبضہ کرلیا وہیں بیت المقدس کو بھی مقبوضہ بنا لیا۔ مسجدِ اقصیٰ اسی بیت المقدس میں ہے۔ تب سے اسرائیل مختلف بہانوں سے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھیننے کی سازشیں کررہا ہے۔  پہلے تو اس نے بیت المقدس کو تقسیم کیا۔ شہر کا 75فیصد حصہ مغربی بیت المقدس بنا ڈالا جہاں یہودیوں کو مسلمانوں کے مکانات خالی کرکے لاکربسادیا گیا لیکن اب بھی شہر کے اس حصے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آبادہے جسے مختلف بہانوں سے یہاں سے بے دخل کیا جارہا ہے۔ شہر کا مشرقی حصہ مسلمانوں کو دیا گیا جو شہر کا مشکل سے 25فیصد بنتا ہے۔ پھر اس مشرقی حصے کو  چاروں طرف سے کنکریٹ کی ایک دیوار کھڑی کرکے بند کردیا گیااور فلسطینی اس میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مشرقی حصے سے ہزاروں لوگوں کو روزانہ اسکولوں، ہسپتالوں، دفتروں کو جانے کے لیے اس دیوار میں بنائے دروازوں سے تلاشی دے کر جانا  اور آناپڑتا ہےاور اس کے لیے پہلے گھنٹوں لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جس وقت اسرائیلیوں کا جی چاہتا ہے وہ کسی بہانے گیٹ بند کردیتے ہیں۔ اسی طرح مسجدِ اقصیٰ جو شہر کے مغربی حصے میں ہے اس میں جمعہ پڑھنے پر بھی مسلمانوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔عموماً 18 سال سے 40 سال کی عمر کے فلسطینیوں پر مسجد میں داخلے پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور رمضان میں اس طرح کی پابندیوں میں شدت آجاتی ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں! ہر چند ہفتوں میں مذہبی انتہا پسند یہودیوں کا گروہ مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کے لیے اندر داخل ہو جاتا ہے اور بجائے انہیں روکنے کے اسرائیلی فوج ان کی حفاظت کے بہانے اندر داخل ہو کر مسجدِ اقصیٰ میں موجود مسلمانوں پر تشدد کرتی ہے، آنسوگیس کی شیلنگ کرکےمسجد کی بے حرمتی کرتی ہے اور  نمازیوں کو عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کی تمیز کیے بغیر ڈنڈوں سے پیٹتی ہے۔ یہ سب اقوامِ متحدہ کے قوانین اور قراردادوں کے منافی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کے کان پر احتجاجات کے باوجود جوں تک نہیں رینگتی۔

مسجدِ اقصیٰ محض مسجد ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک دارالعلوم اور ایک اسکول بھی قائم ہے۔ ان میں پڑھنے والے بچوں کو آئے روز تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ کو یہودیوں  کے ہاتھوں گرائے جانے کا خطرہ ہر دم رہتا ہے۔1969 میں یہودیوں نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگادی۔ اس آگ کے نتیجے میں اس کا 800 سال قدیم منبر جل گیا جسےنورالدین زنگی نے بنوایا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کرکے مسجدِ اقصیٰ میں رکھوایا تھا۔ اس کے بعد مسجدِ اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے آثارِ قدیمہ کی دریافت کے بہانے اسرائیلی حکومت ہر سال کئی کروڑ ڈالر کے فنڈ approve کرتی ہے جن سے مسجد کے ارد گرد سرنگیں کھودی جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے منصوبوں تک سیاحوں اور بین الاقوامی ماہرینِ آثارِ قدیمہ (Archeologists)کو رسائی نہیں دی جاتی۔ ایسی کئی سرنگیں بیت المقدس کے رہائشیوں نے دریافت کی ہیں اور انٹرنیشنل میڈیا آؤٹ لیٹس پر ان کے بارے میں خبریں آتی رہی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ یہودیوں کے حق میں کوئی تاریخی ثبوت نکال لایا جاسکے اور تاکہ زلزلے کی صورت میں مسجد گر جائے۔  بہت سے مذہبی یہودیوں کا خیال ہے کہ مسجدِ اقصیٰ  کے گر جانے کے بعد ان کے مسیحا کا ظہور ہوگا۔ اس لیے وہ مسجدِ اقصیٰ کو گرانے کے لیے آئے روز مختلف منصوبے عمل میں لاتے رہتے ہیں۔

فلسطینیوں کی جدوجہد میں حالیہ تیزی  اس وجہ سے آئی ہے کیونکہ اسرائیلی حکومت مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں بڑے اور بُرےفیصلے کرنے کے ارادہ کررہی تھی۔ اسرائیلی حکومت مغربی بیت المقدس کو مکمل طور پر ایک یہودی شہر بنانا اور مسجدِ اقصیٰ کو تقسیم کرنا چاہ رہی ہے ۔اس لیے بیت المقدس میں جابجا گلیوں کو بند کیا جارہا ہے ۔ نمازیوں  کا داخلہ روکا جارہا ہے اور مسجدِ اقصیٰ میں نوجوانوں کے داخلے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے بہت سے فلسطینی جن میں لڑکیاں اور خواتین بھی شامل ہیں، مسجدِ اقصیٰ میں رباط (جم کر بیٹھ گئے) ہیں۔ اسرائیلی فوج نے مسجدِ اقصیٰ میں گھس کر ان مرابطین کو مارا پیٹا اور گرفتار کیا تا کہ مسجدِاقصیٰ میں کسی قسم کی مزاحمت کرنے والا کوئی فلسطینی باقی نہ رہ سکے۔ مسجدِ اقصیٰ پر اسرائیلی یلغار نے قابض حکومت کے ان عزائم کو اور بھی زیادہ واضح کیا ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم اس بار مسجدِاقصیٰ کو تقسیم کرنا اور مسلمانوں سے چھیننا چاہتا ہے۔ اس بےحرمتی اور قتل و غارت گری پر احتجاج کرنے والوں پر سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے سیدھی گولیاں چلانے کی اجازت دے دی تھی۔ مسجدِ اقصیٰ کا مسئلہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور یہ ہمارا دینی فرض ہے کہ ہم مصیبت کے اس وقت میں اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کیلئے اگر کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم آواز ضرور بلند کریں۔

 غزہ اور مغربی کنارے پر کئی ماہ سے آگ اور لوہے کی بارش جاری ہے۔ گھر کھنڈر ہو کر رہ گئے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل ستاون مسلم ممالک میں سے ایک دو کے سوا ، سب نے لب سی لیے ہیں۔ مصلحت کی چادر اوڑھ لی ہے اور ایسے میں ایک خبردار کرنے والی آواز بلند ہوتی ہے:

یہ نہ سمجھو تم کہ اپنے گھر میں ہو محفوظ تم

اپنے صحن و سقف و بام و درمیں ہو محفوظ تم

اپنے اپنے بحر میں اور برمیں ہو محفوظ تم

اپنے اپنے خشک میں اور تر میں ہو محفوظ تم

قہر کا بڑھتا ہوا سیلاب تم تک آئے گا

جو تمہارے پاس ہے سب کچھ بہا لے جائے گا

( ڈاکٹر تحسین فراقی )

کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ عالمی ضمیر بے حس ہے اور زبانیں گنگ ہیں۔ صہیونی استعمار کا دیو اپنی قوت پر نازاں ہے۔ ایک عالمی طاقت کی پشت پناہی اسے ہمیشہ حاصل رہی ہے ۔ مغربی استعمار کا خود کاشتہ پودا اسرائیل اب ایک تن آور درخت بن چکا ہے۔ عالمِ اسلام کو ہڑپ کر جانے کا عزم رکھنے والا یہ اژدہا پھنکار رہا ہے اور بہ آوازِ بلند کہہ رہا ہے: اے اسرائیل! تیری حدود دریائے فرات سے نیل تک ہیں۔ دیکھیے عاقبت نااندیش عرب اور دینِ مبین کے حامل دیگر ممالک اس خوفناک عزم اور اعلان پر کب کان دھرتے ہیں۔ لوگ برابر سوال کر رہے ہیں کہ عالمِ اسلام کی وہ مشترکہ فوج کہاں ہےجس کی کمان چند سال پہلے ایک ریٹائرڈ جرنیل کے سپرد کی گئی تھی۔

ایک طرف ہماری عاقبت نااندیشی نے ہمیں مست حال بنا رکھا ہے اور دوسری طرف زمانِ آئندہ کی ہر ہر دھڑکن کو محسوس کرنے والی مستقبل شناس استعماری عالمی قوتیں ہیں جن کے منصوبے خوفناک اور جن کے خواب نیندیں اچاٹ کردینے والے ہیں۔ ایسا ہی ایک خواب تقریباً ایک سو پچیس برس پہلے ۱۸۹۶ء میں آسٹریا کے ایک یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل نے دیکھا تھا، ایک یہودی ریاست کے قیام کا خواب! اس نے ایک پمفلٹ لکھا کہ قوموں کی کسی عالمی کونسل کو ایک یہودی ریاست کے قیام پر توجہ دینی چاہیے۔ اس نے اس یقین کا اظہار بھی کیا تھا کہ دس سے پچاس سال کے اند ر اندر ایک یہودی ریاست قائم ہو جائے گی اور یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ اسی پیش گوئی کو مادرِ استعمار یعنی مملکتِ برطانیہ نے آگے بڑھایا۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن روتھ شیلڈ کے نام خط لکھا جس میں ایک قومی یہودی ریاست کے قیام کی تجویز رکھی گئی تھی۔ ۱۹۱۷ء کے بالفور اعلان کے وقت فلسطین میں یہود کی کل آبادی صرف آٹھ فیصد تھی، اور پھر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی روس، جرمنی اور مشرقی یورپ سے جوق در جوق یہودی یہاں لائے گئے اور ان کی آبادی تیس فیصد ہو گئی۔ عالمی جنگ کے بعد تو فلسطین میں یہود کی آمد کا ایساسیلاب آیا کہ یہاں کے فلسطینی عرب اقلیت میں بدل گئے۔ سچ یہ ہے کہ وہ ہندو استعمار ہو یا یہودی، طریقِ کار ایک ہی ہے۔ کیا ڈیڑھ برس پہلے کا حکومتِ ہند کا یہ اقدام قابلِ فراموش ہے جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی اور وہاں ہندوؤں کی گروہ در گروہ تعداد کی تیزی سے آباد کاری شروع ہوئی تاکہ مسلم اکثریت کے اس علاقے کو اقلیت میں بدلا جاسکے۔ یہ منصوبہ بڑی سرعت سے رْوبہ عمل ہے۔

اے اسرائیلیو! تم پر ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کوقتل کرنے میں کبھی نرم نہ پڑو اور ان پر ترس نہ کھا تاکہ ہم عربی کلچرنام کی چیز ختم کر دیں اور اس کے کھنڈروں پر اپنی تہذیب کھڑی کریں،فلسطینی محض کیڑے ہیں جن کو ختم کر دینا چاہیے۔

یہ الفاظ اسرائیل کے سابق وزیراعظم منانم بیگن کی کتاب ’’انقلاب‘‘  میں درج ہیں۔ اس ظالم و ستم گر کے مرید آج پوری دنیا میں جمہوریت اور سیکولرازم کی آڑ لے کر صیہونی صحیفےProtocol کی گردان کر رہے ہیں۔ اس کی تمہید پر پہلے پروٹوکول کے اندر کہاگیا ہے کہ دنیا کی حکومت کے لئے بہتر نتائج وہ ہوتے ہیں جو تشدد اور دہشت گردی سے حاصل کئے جاتے ہیں نہ کہ اکیڈمک اور علمی بحثوں سے۔ صیہونی غنڈے اس پر پوری طرح سے عمل پیرا ہیں اور اس تشدد اور دہشت گردی سے جو چاہتے ہیں حاصل کرجاتے ہیں۔حاصل کرنے کی چاہت میں نہ ان کی نظروں میں حقوق انسانی کی پامالیاں کچھ معنی رکھتی ہیں اور نہ اپنی جمہوریت کی دھجیاں اْڑنے کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ساری دنیا کا کنٹرول ان کے ہاتھوں میں ہے اور ورلڈ آرڈر لاگو کرنے والے یہ خود ہیں۔ ان سے کوئی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کرے گا کہ بتاؤ تم نے عراق میں تیل پر قبضہ کرنے کے لئے کتنے لاکھ لوگوں کوصفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ افغانستان کو تم نے اس لئے زمین بوس کر دیا کیونکہ اس میں اسلام کے نام لیوا موجودتھے۔یہ تمہاری نظروں میں کھٹکتا تھا ،تم نے34دن اور رات لبنان پر جدید ٹیکنالوجی اور انتہائی تباہ کن ہتھیاروں سے قہر برپا کر کے بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد کر دیں۔ ان سے یہ نہیں کہا جاتا کہ تم نے بگرام، ابوغریب اور گوانتاناموبے کو مسلمان مردوں اور عورتوں سے بھر دیا ہے اور ان پر تشدد کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہیں۔ کبھی مردوں کی داڑھیوں کو ماچس کی تیلی سے جلایا جاتا ہے، کبھی ان چند مسلمانوں کے سامنے قرآن پاک کی توہین کی جاتی ہے اور کبھی عورتوں پر کتے چھوڑ دیتے ہو تاکہ ان کے کپڑے پھٹ کر ان کے پاک جسموں کو بے پردہ کیا جائے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اگر ان کی بلی یا کتا، جس کا یہ باضابطہ جنم دن یہ مناتے ہیں ،اچانک کسی کار ایکسیڈنٹ میں مارا جائے تو اقوام متحدہ کی دیواریں ہلائی جاتی ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے کیونکہ ’’دہشت گردوں ـ‘‘نے مغربی کتے کو مار دیا ہے مگر ان کی طرف سے کسی ملک کے سارے انسانوں کا قتل کیا جائے تو سارے مغرب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ خاموش ہو جاتے ہیںجیسے کچھ ہواہی نہیں۔

دنیا دیکھ رہی ہے ،مسلمان ملکوں کے حکمران خواب خرگوش کی نیند لے رہے ہیں عرب کے حکمران کچھ تو عیش و عشرت میں لگ چکے ہیں اور کچھ مغربی سیکولرازم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ انہیں یہ پریشانی نہیں ہے کہ کشمیر اور فلسطین میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ مسلمان ملکوں کی نام نہاد سربراہ تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس بھی مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کی طرف دیکھناگواراہ نہیں کرتی ہے انہیں معلوم ہے کہ اگر انہوں نے کشمیر اور فلسطین کے حق میں زبان کھولی تو اسرائیل اور بھارت امریکہ کی مدد سے ان کی زبانیں کاٹ لے گا ،اس لئے یہ اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی پیپسی پی کر خاموش رہا جائے اور یہ اپنے لئے یہی کافی سمجھتے ہیں کہ یہ تمام مسلم ملکوں کے سربراہ ہیں لہٰذا تمام عالم اسلام کو چاہئے کہ اپنی بند آنکھیں کھولیںاور دیکھیں کہ فلسطین اور کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔ کیوں ہورہا ہے اور کس وجہ سے ہورہا ہے ورنہ اگر امت مسلمہ کی حالت یہی رہی کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں غفلت کی نیند سوئے رہے ،کشمیر و فلسطین کی طرف کوئی دھیان نہ دیا ،الگ الگ خانوں میں بٹے رہے اور تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم یہ بھی سنیں گے کہ امریکہ اور اسرائیل نے خدانخواستہ حجاز مقدس پر قبضہ کرلیا۔

جبکہ ارشادباری تبارک تعالی ہے : 

وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَهُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ١ؕ قُلْ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰى١ؕ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍؔ۰۰۱۲۰

آپ سے یہودی اور عیسائی ہرگز خوش نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار نہ کرلو۔ آپ  (ان سے)کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے  اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار۔ (البقرۃ:120)

اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کی حقیقت کو کھول کر بیان فرما دیا ہے تمہاری توقع کرنا کہ یہ مسلمانوں کے خیرخواہ بن جائیں گے درست نہیں ،ان کا مسلمانوں کے ساتھ نرم اور لچک بھری گفتگو کرنایہ سرا سر دھوکہ پر مبنی ہے کیونکہ یہودو نصاریٰ اور اہل اسلام کی یہ کشمکش نظریاتی ہے جو ہر دور اور ہر مقام پر رہی اور رہے گی،وہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف بر سرپیکار رہیں گے یہ آپس میں کتنے ہی متحارب کیوں نہ ہوں مگر اسلام  دشمنی میں ایک ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ یہ اسلام دشمنی اور اپنے حصول مقصد کے لیے ایک پلیٹ فارم پرجمع رہیں گے تاکہ اسلام کو مٹایا جا سکے،دشمنان اسلام ہمیشہ فریب اور نفاق کے ساتھ مختلف ناموں اور شکلوں میں اس جنگ اور کشمکش کو برپا رکھتے ہیں  کیونکہ وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ مسلمان عقیدے میں بڑے پرجوش اور پختہ ہیں لہذا وہ اس نظریاتی جنگ کو مختلف نام دے کر مسلمانوں پر مسلط کر دیتے ہیں۔مگر پھر بھی یہ ہر گز راضی نہیں ہونگے جب تک انکے دین کو قبول نہ کر لیا جائے،یعنی اسلام چھوڑ دیا جائے، یہ تم سے کبھی خوش نہیں ہونگے ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ اور ہمارے لئے کچھ نہیں کیا کی رٹ لگاتے رہیں گے۔جبکہ میرے رب رحیم وکریم نے یہ بات قرآن کریم میں 1400 سال پہلے ہی فرمادی تھی کہ کافر کبھی تم سے راضی نہیں ہوں گے،چاہے تم کتنی بھی محبت کا دم بھر لو، تم انکی کتنی ہی مدد نہ کردو، تم انکو فرنٹ لائن اتحادی بنو یا بیک ڈورتم یہ خدمت مفت میں کرو یا پیسوں کے عوض  اس خدمت میں تمہیں دنیاوی نفع ہو یا نقصان تب بھی کافر تم سے کبھی خوش نہیں ہوںگے،مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہود ونصاری تو ایسے معاملہ کے مستحق ہیں جیسا کہ اس حدیث مذکور میں درج ہے:

أَنَّ أَبَا مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَفَدَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَمَعَهُ كَاتَبٌ نَصْرَانِيُّ، فَأَعْجَبَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مَا رَأَى مِنْ حِفْظِهِ، فَقَالَ: قُلْ لِكَاتِبِكَ يَقْرَأْ لَنَا كِتَابًا، قَالَ: إِنَّهُ نَصْرَانِيٌّ، لا يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ، فَانْتَهَرَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَهَمَّ بِهِ، وَقَالَ:  لَا تُكْرِمُوهُمْ إِذْ أَهَانَهُمُ اللهُ، وَلا تُدْنُوهُمْ إِذْ أَقْصَاهُمُ اللهُ، وَلا تَأْتَمِنُوهُمْ إِذْ خَوَّنَهُمُ اللهُ

سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ وفد کے ساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کے ساتھ ایک نصرانی کاتب بھی تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کے حافظے سے کافی متاثر ہوئے اور فرمایا: اپنے کاتب سے کہو ہمارے لیے کوئی کتاب پڑھے۔ انہوں نے فرمایا: وہ تو نصرانی ہے مسجد میں داخل نہیں ہوگا۔  اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سختی سے جھڑکا اور سنانے لگے کہ : ان کی عزت نہ کرو جبکہ اللہ تعالی نے انہیں ذلیل کیاہے، انہيں قریب نہ کرو جبکہ اللہ تعالی نے انہیں دور کیا ہے، انہیں امانت دار سمجھ کر اعتماد نہ کرو جبکہ اللہ تعالی نے انہیں خائن قرار دیا ہے۔

اور اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بالخصوص نصاری کے متعلق فرماتے ہیں:

أهينوهم ولا تظلموهم ، فقد سبوا الله مسبة ما سبه إياها أحد من البشر

’’انہیں ذلیل جانوالبتہ ان پر ظلم نہ کرو، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے ، جس گالی کے ساتھ پوری انسانیت میں سے کسی نے اسے گالی نہیں دی‘‘۔( ارواء الغلیل 8/255)

اسلامی خاندانی نظام کی تباہی بل

بجٹ سیشن کے دوران حکومت نے ایک ایسے بل کو منظور کروا لیا ہے جس کی بیشتر شقوں کو اسلامی نظریاتی کونسل نے شریعت کے خلاف قرار دیا ہے جو کہ پاکستانی قانون کے بھی خلاف ہے کیونکہ قرارداد مقاصد میں لکھا ہوا ہے کہ ملک میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو کہ قرآن و سنت کے خلاف ہو گا گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ کے نام پر جو بل منظور ہوا ہے وہ ملکی کلچر اور اسلامی روایات اور اقدار کے بھی خلاف ہے۔

اس میں سب سے زیادہ شرمناک نکتہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے بچے کو کسی بات سے روکتا ہے یا ڈانٹتا ہے ، چاہے اس کے بھلے کے لیے ہی ہو تو بچہ عدالت میں جاکر باپ پر مقدمہ دائر کروا سکتا ہے ۔اور عدالت اس قانون کی رو سے باپ کو اس بات کا پابند کرسکتی ہے کہ وہ بچے کے پاس نہ آئے ۔اس بالجبر دوری کے لیے باپ کو سرکاری رہائش گاہ میں بھی رکھا جاسکتا ہے جس کو آپ قید کہہ سکتے ہیں ۔مزید شرمناک پہلو یہ ہے کہ بچے کے « تحفظ» کے لئے باپ کے ہاتھ میں ایک ڈیجیٹل کڑا پہنایا جائے گا ، جس میں جی پی ایس سسٹم لگا ہوگا اس سے باپ کی نقل و حرکت کو چیک کیا جا سکے گا ۔عدالت اس بات کا حکم دے سکتی ہے کہ باپ اپنے ہی تعمیر کردہ گھر میں بھی داخل نہ ہو ۔کیا اس سے زیادہ توہین آمیز اور شرمناک سلوک کا تصور کیا جاسکتا ہے ؟

جبکہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :

 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا، وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ ،   (سنن أبي داود 1/ 133)

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں ( اور نہ پڑھیں ) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو ۔ “

اس بل میں مزید بھی  ایسی انتہائی نامناسب شقیں ہیں جو ہمارے اسلامی خاندانی نظام اور روایات کے یکسر مخالف ہیں ۔جیسا کہ خاوند اور بیوی کے معاملات ہیں ، اس قانون کے مطابق خاوند اگر بیوی کے سامنے صرف دوسری شادی کی خواہش کا اظہار بھی کرے گا تو اس کو ذہنی تشدد قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ سراسر اسلام کے خلاف ہے ، دوسری شادی کا حق مرد کو اللہ تعالی نے دیا ہے کوئی کون ہوتا ہے اس حق کو سلب کرنے والا ؟اسی طرح بیوی کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرنا بھی قابل سزا جرم ہوگا ۔اندازہ کیجئے کہ ہمارے قانون بنانے والے لوگ کس قدرسطحیت کا شکار ہیں ۔ان کو اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ گھر اس طرح کے قوانین سے نہیں بسا کرتے بلکہ گھر تو پیار محبت اور صلح سے بسا کرتے ہیں ۔

 رسول کریم ﷺکا فرمان گرامی:

عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ، وَوَعَظَ، فَذَكَرَ فِي الحَدِيثِ قِصَّةً، فَقَالَ: أَلاَ وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ، لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ، إِلاَّ أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً، أَلاَ إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلاَ يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلاَ يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، أَلاَ وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ (سنن الترمذي 2/ 458)

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں:مجھ سے میرے والدنے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی۔اور(لوگوں کو) نصیحت کی اورانہیں سمجھایا۔پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کاذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا:سنو!عورتوں کے ساتھ خیرخواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قید ی ہیں۔تم اس (ہم بستری اوراپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اورکچھ اختیار نہیں رکھتے (اورجب وہ اپنافرض اداکرتی ہوں توپھران کے ساتھ بدسلوکی کاجوازکیا ہے)ہاں اگروہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کاارتکاب کریں (توپھرتمہیں انہیں سزادینے کا حق ہے )پس ا گروہ ایساکریں تو انہیں بستروں سے علیحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مارنہ ہو، اس کے بعداگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو پھر انہیں سزادینے کا کوئی اوربہانہ نہ تلاش نہ کرو، سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بسترپرایسے لوگوں کونہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھانہیں سمجھتے ۔سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہننے میں اچھاسلوک کرو۔

پچھلے دور حکومت میں بھی تحفظ نسواں بل منظور کیا گیاتھا ۔اس شرمناک بل میں بھی اس طرح کے ہی احمقانہ اور حقیقتوں سے دور قوانین بنائے گئے تھے کہ جس میں خاوند اگر بیوی کی نظر میں اس کے ساتھ برے سلوک کا مرتکب ہورہا ہے تو وہ اس کی شکایت کر سکتی ہے اور خاوند کے ہاتھ میں بھی جی پی ایس والا کڑا ڈالا جائے گا ۔اور جب یہ قانون منظور ہوا تھا تو پہلے مہینے میں ہی ایک خاتون اسی طرح کی فضول شکایت لے کر حکومتی ادارے میں جا پہنچی ۔خاوند کو کچھ دن کے لیے قید کروا دیا ۔۔خاوند نے باہر نکل کر رہائی کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اس عورت کو طلاق دے دی ۔۔لیجئے ! آپ کے قانون نے ایک گھر بسا دیا ۔

اسلام میں خاندان کو بنیادی یونٹ قرار دیا گیا ہے ۔یہ یونٹ ٹوٹ جا ئے تو بنی نوع انسان کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے جیسا کہ مغربی معاشرے میں ہمیں نظر آتاہے۔ اسی طرح اسلام میں طلاق مرد اور خلع عورت کا حق ہے۔ لیکن اس بل کی شق چار کے تحت یہ حق بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ طلاق کی دھمکی دینا بھی گھریلو تشدد کے زمرے میں شمار ہوگا ۔ اسلامی خاندانی نظام کے اندر میاں بیوی کے درمیان مسئلہ ہوجائے یا بیوی شوہر کی حکم عدولی پر اُتر آئےتو اسے حل کرنے کے لیے اسلام نے مختلف مدارج رکھے ہیں۔ اول یہ کہ شوہر بیوی کو سمجھائے گا پھربھی وہ نہ مانے تو بیوی کا بستر الگ کر دیا جائے گا اس کے باوجود مسئلہ حل نہ ہو تو شوہر کو بیوی کو ہلکی ضرب لگانے کی اجازت ہے یعنی ایسی چوٹ جس کا نشان نہ بنے اور وہ نازک حصے پر نہ ماری جائے۔ مقصد تشدد نہیں بلکہ بیوی کو انتباہ کرنا ہے ۔ اس کے باوجود بھی میاں بیوی میں صلح نہ ہوسکے تو پھر ثالث مقرر کرنے کا حکم ہے اور یہ کوشش بھی ناکام ہونے پر طلاق یا خلع کا مرحلہ آتاہے لیکن مذکورہ بل میں اسلام سے متعلق ان تمام مدارج کو نظر  انداز کر دیاگیا ہے براہِ راست حکومت اور پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مداخلت کرےجس سے گھر کے بننے سے زیادہ ٹوٹنے کے امکانات ہیں۔

ارشاد ربانی ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا۰۰۳۴ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ اِنْ يُّرِيْدَاۤ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا خَبِيْرًا۰۰۳۵

’’مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔‘‘(النساء:34۔35)

یہ ہے گھریلو تشدد کی روک تھام اور تحفظ  بل جس کے بارہ میں کہا گیا کہ اس سے عورتوں  پر گھریلو تشدد کی روک تھام ہوگی  اور تحفظ  حاصل ہوگا، حالانکہ ایک سنجیدہ اور باشعور آدمی اسے پڑھتے ہی بآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے یہ بل نہیں لایا گیا، بلکہ اس بل سے دین اسلام کے صریح احکامات سے بغاوت کا درس دیا گیا۔ مغرب کی گندی تہذیب کی تقلید کی گئی۔اس کے علاوہ ایک پرامن گھریلو نظام کو توڑنے اور بے حیائی وبے شرمی کو سند جواز دینے کے لیے اس بل میں پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس بل کا ہدف  اسلامی خاندانی نظام کو درہم برہم کرنا، عورت کو تحفظ کے نام پر خاندان کے تحفظ سے نکال کر بے راہ روی کی راہ پر دھکیلنا، آزادی کے نام پر اسے عفت وحیا اور پاکدامنی سے آزاد کرکے کاروباری جنس بنانا، برابری کے نام پر اس پر وہ بوجھ ڈالنا ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا ہی نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری قوم کے ایمان، حیا، عفت، غیرت اور پاک دامنی کی حفاظت فرمائیں ، ان کے گھریلو نظام زندگی کو ٹوٹنے سے محفوظ فرمائیں اور ہمارے حکمرانوں کو ایمانی غیرت اور عقل سلیم عطا فرمائیں۔

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی  نبينا محمد وعلٰی آلہٖ واصحابہ وسلم

 

Read 385 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in جون ، جولائی 2021
ڈاکٹر مقبول احمد مکی

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

Latest from ڈاکٹر مقبول احمد مکی

  • سلسلہ رباعیات الجامع الصحیح البخاری
  • انتخاب الہی و مراد مصطفٰی
  • زکوٰۃ کے احکام ومسائل
  • درس حدیث ، سلسلہ نمبر 26 
  • استقبال وپیغام رمضان

Related items

  • اقصیٰ کی سسکیاں  
    in جون ، جولائی 2021
  • یہود کا بھیانک چہرہ
    in جون ، جولائی 2021
  • قرآن کریم میں یہود کی بری خصلتوں کا تذکرہ  
    in جون ، جولائی 2021
  • قبلہ اول فلسطینیوں کی شہادتیں اور مسلم حکمران
    in جون ، جولائی 2021
  • میں اگر آج زد پر ہوں
    in جون ، جولائی 2021
More in this category: مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرۃ »
back to top

good hits

 

  • About us
  • privacy policy
  • sitemap
  • contact us
  • Disclaimer
  • Term of Condition
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2023 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
شمارہ جات 2021