مغربی ممالک کی سازشوں اور امت مسلمہ کی زبوںحالی انتشار و افتراق اور نیشنلزم کی تحریک کے نتیجے میں اسلام کے قلب پر اسرائیل کا خنجر گڑے ہوئے آج نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے اور روز اول سے اسرائیلیوں کی کوشش رہی ہے کہ خوف، لالچ، دھونس، دھاندلی اور مغربی ممالک کی زیر سرپرستی طاقت کے بے دریغ استعمال کے ہتھکنڈوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فلسطینی سرزمین پر قبضہ جمایا جائے اور مسلم آبادی کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے یہودیوں کو جو پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں یکجا کر کے فلسطین میں آباد کیا جائے۔ اس عمل میں اسرائیل کو اپنے مربی و آقا امریکا، برطانیہ، روس اور دیگر مغربی ممالک کی مکمل تائید حاصل رہتی ہے اگرچہ یہ مغربی ممالک دنیا بھر میں اپنی جمہوریت، انسانیت اور اعلیٰ اقدار کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے۔ انہیں انڈونیشیا کے مشرقی تیمور میں تو ظلم جلدی نظر آ جاتا ہے لیکن فلسطین، برما وکشمیر میں بہتا ہوا انسانی لہو، دہشت گردی نظر نہیں آتی ہے اس پر مستزاد یہ کہ اقوام متحدہ جو ظلم و ناانصافی کے خلاف مظلوموں کی داد رسی کا بین الاقوامی چارٹر اپنے سر پر سجائے پھرتا ہے وہ بھی وہیں کارروائی کرتا ہے جہاں امریکا، برطانیہ و دیگر مغربی ممالک چاہتے ہیں۔ خون مسلم کی ارزانی اقوام متحدہ کی نظر میں بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی کیونکہ آخر کار یہ لوگ مسلمان ہیں اور غلیلوں سے اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کر کے دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں لہٰذا یہ کسی طور بھی انصاف کے لائق نہیں البتہ اسرائیل اگر ٹینکوں اور F-16 سے فلسطینی بستیاں تاراج کرے اور عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنائے تو عین جائز ہے کیونکہ یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نہیں آتا۔ یہی صورتحال کشمیر۔ شیشان،افغانستان اور فلپائن و برما میں بھی درپیش ہے۔ چونکہ وہ سب بھی مسلمان ہیں اور عالم اسلام بے حسی و بے حمیتی کا شکار ہے۔ فلسطین میں جاری تشدد کئی برس قبل بالخصوص تحریک انتفاضہ کے وجود میں آنے کے بعد بہت اضافہ ہو گیا تھا۔

جب یاسر عرفات کے ذریعہ امریکا نے امن مذاکرات کے نام پر اسرائیل اور فلسطین اتھارٹی کو یکجا بٹھانے کا ڈراما کیا تھا۔ یہ مزاکرات محض اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ہوس ملک گیری کے لیے جاری متشددانہ پالیسیوں کی وجہ سے بار آور نہ ہو سکے تھے۔ بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے امریکا کی بش انتظامیہ نے بھی 11 ستمبر کے بعد اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی تھی جس کی وجہ سے آج فلسطین کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر FOCUS ہوگیا ہے اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا منطقی نتیجہ فلسطینیوں میں ایک نیا جذبہ آزادی کی صورت میں پروان چڑھ رہا تھا۔ چونکہ فلسطینی عوام و حکومت اسرائیل کے مقابل کسی قسم کی فوجی طاقت نہیں رکھتے لہٰذا عوام میں یہ شعور پروان چڑھ رہا ہےکہ اپنے آپ کو جہاد کیلئے تیار کر کے اگر اسرائیلیوں کو جانی و مالی تباہی سے دوچار کردیا جائے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اس لیے آج کل فلسطین اگر اسرائیلی فوجی حملوں کی زد میں ہے تو اسرائیل بھی جانثار فلسطینیوں کے ہاتھوں زبردست تباہی و بربادی کا شکار ہو رہا ہے مظلوم فلسطینیوں کا جذبہ جہاد بلند ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ اسرائیل کا بیت المقدس میں نمازیوں پر دہشت گرد حملے اور فلسطینیوں کی شہادتیں 300تک پہنچ گئی جس میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان اور دیگر غیر مسلم اس عالمی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں جس کا سلسلہ پاکستان میں بھی جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشت و خون کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ عالمی ضمیر کب بیدار ہوگا؟ آیا امت مسلمہ کے وجود میں زندگی کی رمق بھی باقی ہے یا نہیں؟ او آئی سی کا کرادار کیا ہے؟ وہ اپنی ذمے داریوں سے کس طرح عہدا برا ہو رہی ہے؟ حالیہ او آئی سی اجلاس بھی صرف اجلاس، قرارداد ایک مذمتی اعلامیہ تک ہی رہا ایسے ماحول میں جبکہ عالم اسلام بحیثیت مجموعی بے حسی اور خوف و دباؤ کا شکار ہے کہ مبادا امریکا بہادر کہیں کسی ملک کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے اتحادیوں کے ہمراہ چڑھ نہ دوڑے اور واحد سپر پاور ہونے کے دعوے کے ساتھ اسلامی ممالک کو تاخت و تاراج نہ کردے۔ آخر کار امریکا نے اپنی وفاداری کا حق ادا کیا۔ اور موجودہ امریکی صدر جو بائڈن کا القدس سے متعلق کردار عالم اسلام کے قلب پر خنجر گھوپنے کے مترادف ہے۔ پوری دنیا میں قبلہ اول میں جنگ مسلط کرنے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے امریکی صدر کا زہریلا کردار اسلام اور مسلم دشمنی کا کھلا اظہار ہے جس کے خلاف عالم اسلام کے حکمرانوں کو متحد ہو کر سخت لائحۂ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ اس فکر کے علی الرغم سعودی سابق فرمارواں عبداللہ بن عبدالعزیز کی تجویز کے مطابق اگر اسرائیل 1967ء کی جنگ اور مابعد قبضہ کیے گئے علاقے خالی کردے اور جنگ سے پہلے کی پوزیشن پر واپس چلا جائے تو عرب ممالک بھی خیر سگالی کے طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، اس طرح اگرچہ بحیثیت امت مسلمہ اسرائیل کے ناجائز و ناپاک وجود کو سند قبولیت حاصل ہو جائے گی، ان سب کے باوجود سعودی امن فارمولا فلسطین اسرائیل تنازع کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک امید کی کرن ثابت ہو سکتا تھا بشرطیکہ اسرائیل بھی اس منصوبہ کو سند قبولیت عطا کرتا اور صدق دل سے امن کا خواہاں ہوتا اگرچہ اب تک اسرائیل کا جو کردار ہمارے سامنے ہے اس کے مطابق تو اس کی طرف سے کسی مثبت پیش رفت کا اظہار ممکن نہیں۔ البتہ اگر امریکا، برطانیہ، فرانس، روس و دیگر مغربی ممالک اس پر دباؤ ڈالیں تو شاید ایسا ممکن ہوتا اور فلسطینی جو اپنے ہی وطن میں بے گھر کر دیے گئے ہیں انہیں کسی حد ریلیف مل سکتا ہے اور آئے دن کی دہشت، درندگی اور قتل و غارت گری کا سدباب ہو سکتا تھا۔ چونکہ اسرائیل کا وزیر اعظم ایرل شیرون بھی فلسطینی مہاجر کیمپوں پر درندگی کا ذمے دار رہا ہے اور اس کے برسر اقتدار آنے کے بعد اسرائیلی فوجی تشدد و درندگی میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا تھا۔ وہ وحشی درندہ مسلمانوں کے خون کا پیاسا رہا اور کسی طور اپنی حقیقی دہشت گردی سے باز آنے والا نہیں تھا مگر پھر بھی اس امید پر سعودی امن فارمولے کی دنیا بھر میں تائید و ستائش کی تھی کہ اس طرح نصف صدی سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار دونوں گروپوں کو امن و سلامتی سے رہنے کا موقع فراہم ہو سکتا تھا۔ مگر اسرائیلی ہٹ دھرمی کا ریکارڈ ماننے والوں کے لیے یہ بات قرین قیاس محسوس ہوتی ہے کہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی کیونکہ اسرائیل اس فارمولے سے اتفاق نہیں کرے گا اور اگر بادل نخواستہ اس پراتفاق کر بھی دے تو جس طرح یاسر عرفات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے