قرآن کریم میں فلسطین کی زمین کو ارض مقدس سے موسوم کیا گیا۔ ادیان ثلاثہ میں اس کی اہمیت دوچند ہے اور اس زمین کو انبیاء کی زمین سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس مقام کے ۱۳۰۰ سال حکمران رہے۔ فتح بیت المقدس (آمد سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ سے) مجموعی طور پر اور پھر ۱۹۱۷ء تک مسلمانوں کے زیر تسلط یہ مقدس خطہ ارض رہا مگر یہود اس عرصہ میں سکوت کا شکار رہے۔ اس کی وجہ ۷۰ء میں طیطس کے ہاتھوں ملنے والی زبردست شکست تھی جس کے سبب ایک عرصہ دراز تک یہود کو اُٹھنے کا موقع نہ ملا اور پھر انہی نازیوں کے ہاتھوں یہود کا قتل عام ہوا جس میں بلا تخصیص یہ چن چن کر قتل کیے گئے۔ ان کی اس خستہ حالی پر ڈاکٹر حمیداللہ کا اظہارِ خیال ہے کہ یورپ کے تمام ممالک میں روس سے انگلستان تک، بشمول فرانس، جرمنی وغیرہ بارہا یہود پر بدترین مظالم ڈھاتے جاتے رہے۔ جب کبھی ایسا خون خرابا ہوتا تو ان کو اسلامی ممالک میں کھلے دل سے پناہ دی جاتی۔ ہسپانیہ سے جلا وطن کیے جانے کے بعد انہیں شمالی افریقہ اور ترکی میں پناہ ملی۔(۱)

نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام کو ہولوکاسٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ سے مراد آگ میں مکمل طور پر جل کر قربانی دینا۔ ۱۹۵۰ء میں یہ لفظ یہودی، نازیوں کے ہاتھ یہودیوں کے قتلِ عام کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہودی ویب سائٹ جو کہ ہولوکاسٹ میں کام آنے والے یہودیوں اور ہیروز کی یاد میں بنائی ہے اس کے مطابق:

’’ہولوکاسٹ سے مراد وہ تمام تر یہود مخالف سرگرمیاں ہیں جو نازیوں نے ۱۹۳۳ء سے ۱۹۵۴ء کے درمیان یہودیوں سے روا رکھیں۔‘‘(۲)

یورپ میں یہودیوں کے لیے زندگی صدیوں سے عذاب کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ بیسویں صدی میں ان کے خلاف متعصبانہ نظریات اپنے عروج پر تھے۔ ۱۹۳۰ء میں ہٹلر کی جماعت برسر اقتدار آ گئی جو کہ انتہائی یہود مخالف تھی۔ نازیوں نے یہودیوں کی معاشی حالت کو ناگفتہ بہ بنانے کے لیے ہر ممکن وسائل اختیار کیے تاکہ ان کو معاشی استحصالی کا شکار کر دیا جائے اور معاشی طور پر یہ مفلوج ہو جائیں جبکہ دوسری طرف یہودیوں کو نوکریوں اور اعلیٰ عہدوں سے بھی محروم کیا گیا۔ رفتہ رفتہ ان کے لیے گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ روزانہ کی بنیاد پر یہودیوں کو ابدی نیند سُلا دیا گیا۔ ان پر ظلم و ستم کا جو بازار گرم ہوا اور زمین ان کے لیے تنگ کر دی گئی اس کی وجہ ان کی حرکات و سکنات تھیں جنہیں بو کر کاٹتے رہے۔ انہوں نے اپنے آبائی ملک سے وفاداری نہ کی بلکہ انفرادی مفاد کو ترجیح دی۔ اس پر ایک یہودی مؤرخ ظلم وجور اس داستان کو کچھ یوں نقل کرتا ہے:

«The recent Lolo-caust which engulfed millions of Jews in Europe, proveel a new need to solve the problem of the homelessness and lack of Independence, the surrivors of the disastorus slaughter in Europe and also Jews from other Lanols have not desistect from their efforts to reach Eretz-Y Israel»(3)

(ہولوکاسٹ جس نے کروڑوں یہود کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے ایک نئی ضرورت کو جنم دیا۔ بے گھر ہونے اور آزادی کے نہ ہونے کے خلاف یعنی مستقل ریاست اور خود مختار ریاست کے تصور نے جنم لیا۔ اس لیے تباہی سے بچ جانے والے جو ذبح ہونے سے بچ نکلے اور دوسری سرزمینوں کے یہود وہ اسرائیل (موجودہ ریاست) آنے پر ان افعال کو مانع نہ سمجھے۔ یعنی یہود کا قتل عام ایک تو ان کی خودمختار اور آزاد ریاست کے تصور کو جنم دیا دوسرا یہ قتل عام ان کے خیالوں کی ریاست کے سامنے آڑے نہ آ سکا اور وہ غیر منقطع کوشش میں لگے رہے۔)

اس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم کی یہودی داستانوں نے ان میں اجتماعیت کی منتشر شدہ سوچ کو دوبارہ احیا بخشی اور یوں ریاست کے حصول کے لیے تحریک صہیونیت مسیحا بن کر اُبھری۔ یہود کی اس مظلومیت نے انہیں علیحدہ وطن کی فکر دی۔ ایک طرف شاندار ماضی اور عیش و عشرت کی بلندیوں میں رہنے والے کس طرح ذلت کی پستیوں میں پھنس گئے۔ یہودیوں کو اس ذلت و مسکنت کی زندگی سے نکالنے کے لیے ۱۸۹۷ء میں صہیونی تنظیم قائم ہوئی۔ یہودیوں کو سکون کی زندگی اور فلسطین کو محفوظ وطن تشکیل دینے کے لیے اس تحریک نے تمام وسائل بروئے کار لائے۔ تھیوڈر ہرزل نے زوال پذیر عثمانی حکومت کے بادشاہ عبدالحمید دوم کو اس شرط پر مالی امداد دینے کی پیشکش کی کہ فلسطین میں یہودیوں کو آنے دیا جائے اس نے انکار کر دیا۔ اس پر انہوں نے متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کر لیا اور اس طرح عثمانی خلافت یہودیوں کے راستے سے دور ہو گئی۔ اسی اثنا میں ایک عالم گیر سیاسی اور معاشی بحران اُٹھا۔ اس نے مشرقی یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیا تو یہاں کے یہودی بہتر زندگی کے لیے ترکی میں رہائش پذیر ہو گئے۔ اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ طور پر ۱۸۹۸ء میں یہودی بینک اور ۱۹۰۱ء میں یہودی بیت المال قائم کر لیا۔ بینک کا مقصد یہودیوں کی منتشر دولت فضول پڑی رہنے کی بجائے ایک جگہ جمع ہو کر سرمایہ کاری میں لگے اور اس سرمایے سے حکومتوں اور اداروں کو قرض فراہم کیے جائیں تاکہ معیشت کا سلسلہ چلتا رہے۔ اس بینک کا منظور شدہ سرمایہ ۳۰ لاکھ پونڈ تھا اور ۴ لاکھ کی رقم اعلان ہوتے ہی جمع ہو گئی۔ اس فنڈ کا مقصد اسرائیلی ریاست کے لیے کی جانے والی کوششوں کو درکار سرمایہ چندہ کے ذریعے ادا کرے گا۔ اس فنڈ کا اوّلین مقصد یہود کو فلسطین میں بسانا تھا جبکہ جنگ عظیم سے قبل یہودی صرف دو لاکھ ایکڑ زمین کے مالک تھے۔ اس فنڈ کا مقصد فلسطین میں زمین خریدنا تھا۔ انہوں نے یہودیوں کو دل کھول کر رقومات دیں اور انہیں فلسطین جا کر رہنے کی ہدایت کی۔ اس زمین کی خریداری کا مقصد نو آبادیاں قائم کرنا تھا۔ ان میں بیرونی یہودیوں کو بسایا گیا۔ ۱۹۳۶ء میں ان کے پاس ایک کروڑ چار لاکھ تیس ہزار ایکڑ زمین آ چکی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں صرف ۱۸۲ خاندان آباد تھے مگر ۱۹۴۱میں یہ نو آبادی شہر کی شکل اختیار کر گیا۔ اس میں ایک لاکھ پچیس ہزار مالدار یہودی آباد ہو چکے تھے۔یہ نو آبادی ’’تل ایب‘‘ تھی جو آج موجودہ اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔(۴) یہودی فنڈاور بینک کا قیام دراصل یہود کی بہت بڑی کامیابی کا مظہر تھا کیونکہ تحریک کے منظم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا معاشی طور پر مستحکم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر کبھی مال کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ آتی تو پھر صہیونی ذیلی تنظیمیں جو اس مشن پر مامور تھیں وہ حرکت میں آ جائیں مثلاً آفیسرز کو رشوت دینے یا شہریوں کو ہراساں کرنے۔ ان تنظیموں نے یہودی آباد کاروں کو بسانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔(۵)

یہود نے فنڈ کے حصول کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ شکست سے دوچار ہونے کے بعد غیروں کے اسیر ہو گئے۔ برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر کے اسے اپنی نوآبادی بنا لیا۔ جنگ کے دوران یہودی اتحادیوں کو بھرپور مالی امداد فراہم کرتے رہے۔ برطانیہ نے معاہدہ کیا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد یہودیوں کو ایک ریاست دے دی جائے گی۔

برطانوی سامراجیت نے خصوصی قوانین تشکیل دیے جن سے یہودیوں کے لیے زمین ہتھیانے کے لیے راہ ہموار ہو گئی اور یوں ان کی آباد کاریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ زمینوں کے ساتھ ساتھ ضروری ساز و سامان بھی دیا گیا۔ ان سہولتوں کی بدولت انہوں نے اپنی نو آبادیات قائم کیں جو کافی حد تک خود مختار تھیں۔ یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں سے امتیازی سلوک برتنے کا آغاز ہوا۔ ان پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ان کی آمد و رفت پر سخت پابندی لگا دی گئیں۔

دراصل جنگ عظیم کے نتیجے میں اتحادیوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح Central power جن میں سلطنت عثمانیہ بھی شامل تھی شکست سے دوچار ہوئیں چنانچہ ۱۹۱۷ء میں فلسطین کا علاقہ لیگ آف نیشن نے برطانیہ کی کمانڈ میں دے دیا جسے برطانوی انتدایے (Britian Mandate) کہتے ہیں۔ یہود بالخصوص صہیونی بہت زیادہ سرگرم تھے پھر انہیں نظر آ رہا تھا کہ اب اتحادیوں سے فلسطین لکھوا لیا جائے چنانچہ صہیونی لیڈروں نے بالفور سے ملاقاتیں کیں نیز انہیں بآور کرایا کہ وہ جنگ میں برطانوی فوجوں کے اتحادی ہیں۔ اس کے علاوہ بالفور کو صہیونی نظریات سے عقیدت بھی تھی۔ وائزمین لکھتا ہے:

’’اگر فلسطین یہودیوں کے ہاتھ میں آ جائے تو برطانیہ کے لیے نہر سویز محفوظ ہو جائے گی۔‘‘(۶)

اس کا مقصد صرف اور صرف سرزمین فلسطین میں آباد کاری کے لیے برطانیہ کی حمایت حاصل کرنا تھا تاکہ برطانوی شاہی خاندان تحریک صہیونیت کی سرپرستی کرے۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد یہودی طاقتیں ترکی کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے لیے یکجا ہو گئیں۔ عربوں کو جنگ عظیم میں ترکوں کے خلاف استعمال کر کے اتحادیوں کے عرب ممالک میں بندربانٹ شروع کر دی۔ فلسطین اور اُردن کے درمیان دریائے اُردن بہتا تھا انگریزوں نے اس سے فائدہ اُٹھا کر اُردن کے شاہ عبداللہ کے سپرد کر دیا اور فلسطین پر اپنا قبضہ جاری رکھا۔ اُس وقت ۷ لاکھ عربوں کے مقابلے میں پچھتّر ہزار یہودی عرب میں آباد تھے۔ ۱۷ برس میں ان کی تعداد پچھتّر ہزار سے تیس ہزار کر دی گئی۔ہٹلر کے غضب سے بچ کر یہودی فلسطین میں پناہ گزیں ہوئے اور حقوق کا مطالبہ کیا تو عرب اپنی زمینوں کی بازیابی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے چنانچہ جو ہٹلر سے تو لڑ نہ سکے مگر عربوں کے مد مقابل کھڑے ہو گئے اس وقت یہود کے پس پردہ استعماری طاقتیں کارفرما تھیں۔ برطانیہ نے عربوں کی آواز کو بغاوت قرار دے کر کچل ڈالا۔

اسی طرح اتحادیوں نے جب دوسری جنگ عظیم کے آثار دیکھے تو وہ عربوں کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ ۱۹۳۷ء میں ایک کمیشن کے ذریعے سے سرزمین فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی گئی جس کے مطابق ۳؍۱ حصہ یہودیوں کو اور ۳؍۲ حصہ فلسطینیوں کو عطا کیا گیا تاکہ دونوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خطرہ کے پیشِ نظر برطانیہ کے فلسطین پر عربوں کی سرپرستی کو تسلیم کیا۔ یہودیوں نے بھی اسے چار و ناچار قبول کر لیا لیکن اس کا راز دوسری جنگ عظیم کے بعد کھلا کہ کس طرح یہود نے انگریز سے مل کر سازش تیار کی تھی۔ فلسطین کی تقسیم سراسر جانبدارانہ اور ناانصافی پر مبنی تھی کہ ۵۵% رقبہ ۳۳% یہودی آبادی کو اور ۴۵% رقبہ ۶۷ فیصد آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت یہودی صرف ۶% حصہ پر قابض تھے۔ ڈاکٹر محسن محمد صالح اس پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں:

’’یہ تقسیم کار بخوبی جانتے تھے کہ یہودی عربوں کے مقابلے میں نہ صرف اقلیت میں ہیں بلکہ باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ امن سے روشناس کرانے والی اقوامِ متحدہ اور اس کے خالقوں کا ترتیب دیا ہوا غیر عادلانہ پلان تھا جس کو عربوں نے مسترد کر دیا۔‘‘(۷)

چنانچہ اس ساری صورتحال میں برطانیہ کو نہر سویز کے حوالے سے خطرہ تھا کہ یہ نہر سوئز اور عراق کے درمیان واقع ہے اور وسطی طاقتوں کی طرف سے حملے کا خدشہ تھا چنانچہ برطانیہ نے عافیت اس میں محسوس کی کہ خط کو مستحکم اور محفوظ بنانے کے لیے یہود کو یہاں آباد کیا جائے۔ ویزمین صہیونی لیڈر اس مسئلے پر گہری نظر رکھے ہوا تھا وہ سمجھ گیا کہ اب اپنے حقوق کی بقا کے لیے برطانیہ کی اس کمزوری کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اس لیے برطانوی حکومت اور صہیونی لیڈر کی ملی بھگت سے یہ اعلامیہ باقاعدہ طے ہوا بلکہ آرتھر جیمز بالفور نے دورہ امریکہ کے دوران صہیونی لیڈروں سے باقاعدہ ملاقات کی اور ان سے کہا:

«Belfour write a minute: I have asued LD Rothschild and Professor Weizmann to submit a formula.»(8)

لہٰذا یہ بات واضح ہو گئی کہ اعلان بالفور حقیقت میں یہودی ریاست کا فلسطین میں قیام پیش خیمہ تھا۔ اس اعلان کے بعد یہودیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ اصولاً یہ برطانیہ کی دو رنگی چال تھی۔ عربوں سے کیے ہوئے وعدے سے سرے سے انحراف کر گئے اور جب وہ یاد دلاتے ہیں تو یہ کہہ کر بات ختم کرتے ہیں کہ فلسطین کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ صہیونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں۔

چنانچہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ یہ اعلان برطانیہ اور صہیونیت کے باہمی مفاہمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے اس پر یوں نقد کیا ہے:

’’فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنانے کے آخر معنی کیا ہیں۔ یہ کوئی ایسا خطہ ارضی تو نہیں جو خالی پڑی اور اس پر کوئی قوم آباد کر دو جبکہ اس خطہ پر یہودیوں کی آبادی ۵% بھی نہ تھی اور پھر تحریری معاہدہ کہ ایک قوم کے وطن میں دوسری قوم کا وطن بتایا جائے جو دُنیا بھر میں ۱۹۰۰ برس سے بکھری ہوئی تھی۔ اس کا مطلب اور مقصود صرف یہ تھا کہ عربوں کی مدد سے ہم نے ان کی زمین پر قبضہ کیا لہٰذا تم بھی عربوں کو نکال کر ان کی جگہ دُنیا کے گوشے گوشے سے اپنے افراد کو لا کر بسا دو۔ یہ ایسا ظلم تھا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔‘‘(۹)

اسرائیل کا قیام

بالآخر جب برطانیہ کو یہ ادراک ہو گیا کہ اب صہیونی کھلم کھلا عربوں پر حاوی ہو جائیں گے تو ۱۴ مئی ۱۹۴۸ے کو عین اس وقت جب کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے مسئلے پر بحث ہو رہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات ۱۰ بجے ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ عرب آبادی کے دفاع کے لیے قریبی ریاستوں نے چڑھائی کی مگر بے سود یہ جنگ عرب ہار چکے تھے اور یوں صہیونیت کا خواب ’’ریاست اسرائیل‘‘ کی شکل میں پورا ہو چکا تھا۔

یہاں تک کہ جو دلائل زیر بحث آئے ان کا لب لباب تو یہ ہے کہ برطانوی سامراج نے صہیونیت کو اپنی گود میں بٹھا کر ہمیشہ کی مکاری و عیاری کے ساتھ گر ےپڑ ےاسرائیل کی بنیاد تو رکھ دی مگر جو امر قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ارض مقدس سے انخلا کیسے ہوا اور کن اسباب کی وجہ سے وہ اپنے آبائی وطن سے محروم کر دیے گئے۔ اس کی ایک صورت تو یہودیوں آبادیوں کا قیام اور صہیونیوں کے مذہبی دعوے اور خصوصاً القدس کے مقدس مقامات پر حملے وغیرہ شامل ہیں۔ یہودیوں کے بقول یہ سرزمین اللہ کی طرف سے انہیں ملی ہے لہٰذا اب انہیں واپس آ جانا چاہیے اور دو ہزار سالہ جلا وطنی کو ختم کر دینا چاہیے۔ عہد نامہ عتیق میں اس کی تفصیل موجود ہے جن میں یہ سرزمین ان کو عطا کرنے کے الفاظ مذکور ہیں۔ عہد نامہ عتیق میں یہودی قول ہے:

’’خداوند نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ وہ اسے اپنی نسل تک پہنچا دیں کہ میں تمہیں وہ سرزمین دے رہا ہوں جو مصر کے عظیم دریا سے فرات تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘(۱۰)

یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ اللہ کا یہ وعدہ یہودیوں کے بجائے مومنین و صالحین سے ہے۔ ارض مقدس پر مذہبی دعویٰ وہ لوگ کر رہے ہیں جو باہر سے وارد ہوئے ہیں اور یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت اس ارض مقدس میں ہوئی اور انہوں نے صالح یہودیوں کو ارض مقدس پر جگہ دی، بعد میں یہودی اپنے پیغمبروں کی لائی ہوئی تعلیمات سے باغی ہو کر گمراہ ہو گئے چنانچہ فلسطین پر دعویٰ تولیت سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

جبکہ دوسری طرف اس خطے کے اوّلین باسی وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی تعلیمات کے وارث اور امین ہیں اور ان کا یہ رشتہ نسلی، قومی نہیں بلکہ اسلامی عقیدے کی بنیاد پر ہے۔ قرآن کریم نے بھی اس کی تائید کی کہ جن سے تم اپنی نسبت جوڑتے وہ نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی تھے۔ یہ سب بعد کی اختراعات ہیں۔ اسی طرح دوسرے مقام پر بھی ارض مقدس میں داخل ہوئے اور توحید پرست رہنے کا حکم دیا۔ بالآخر وہ اپنی روش اور عادت سے نہ ہٹ سکے۔ اسی طرح تاریخ فلسطین کا بغور مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ فلسطین کی تاریخ آمد موسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے شروع ہوئی تھی جس میں ہجری اور نیم ہجری دور کی تاریخ شامل ہے۔ فلسطین کی قدیم تہذیب نطوفی تھی۔ اسی نے اونچا کے نام سے پہلا شہر بسایا تھا۔

فوجی حمایت

اسرائیل اور اس کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے مغرب ہمہ تن گوش رہا۔ اس کے لیے انہوں نے ہر ممکن ذرائع استعمال کیے جس میں خصوصاً فوجی حمایت کو بنیاد بنا کر اسرائیل کے اقدامی افعال کو اسرائیل کے دفاع کے حق میں شامل کیا۔ ان اقدامی افعال سے چاہے فلسطینیوں کے چیتھڑے اُڑ جائیں مگر پھر بھی جدید اسلحہ سے لیس اسرائیلی مدافعین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان فوجی کاروائیوں کی وجہ سے نہتے فلسطینی ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ چند افراد نے اس پر علم حق بلند کیا تو امریکہ نے ان کو اسرائیل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کر دیا جبکہ اسرائیل اس کی مکمل فوجی حمایت کرتا ہے۔ ایک عربی مؤرخ کا نقطہ نظر ہے کہ امریکی انتظامیہ کے بقول اسرائیل کے یہ اقدام ذاتی تحفظ کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار ایک قابض کو اپنے قبضے کے تسلسل کے دفاع کا حق دیا گیا۔(۱۱)

یہ بات تو واضح ہے کہ اسرائل کی نہتے شہریوں پر ظلم و استبداد اور قتل و غارت کی جارحانہ حرکت اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنے کی خاطر ہے کیونکہ وہ ان کو اپنے دفاع میں ایک آڑ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے اس جارحانہ اقدامات کو تقویت دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ یہودی بھی شامل ہیں جو امریکہ میں رہتے ہوئے اپنےوطن کے دفاع کے لیے تنظیمی کام کر رہے ہیں، انہیں سے بعض تنظیمیں تو کھلم کھلا مسجد اقصیٰ کی تباہی کی حمایت کرتی ہیں اور ان کی کثیر منافع بخش رقم اسرائیل کے لیے مختص ہے۔ انسانی حقوق کی عرب تنظیم کی رپورٹ کے مطابق صرف منشیات کی مد میں ۹۶ لاکھ ڈالر یومیہ موصول ہوتے ہیں۔ انہیں مالبرو بینسن، فلپ ماولیس نامی کمپنیوں کا ۱۲% حصہ اسرائیل کے لیے مختص ہے۔ اور یہ سارا فنڈ جارحانہ تخریب کاریوں پر استعمال ہوتا ہے۔

اسرائیل نے جتنی جنگیں لڑی ہیں بالخصوص ۱۹۶۷ء جون کی عرب اسرائیل جنگ میں سے سب سے زیادہ فوجی امداد امریکہ کی طرف سے تھی پھر مصر کی طرف سے جنگ بندی کی تجویز مسترد کر دینے کے بعد اور عرب ممالک کے سوویت یونین USSR کی فوجی امداد نے نکسن انتظامیہ کو اُبھارا کہ اسرائیل کو فوجی ساز و سامان فراہم کیا جائے تاکہ وہ دفاعی حیثیت کو مضبوط کر سکے چنانچہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو شروع کی جانے والی امداد مسلسل ایک مہینہ تک جاری رہی۔ اسرائیل کی بیرونی امداد سے چار گنا اضافہ ہوا۔ مغرب ممالک کی پشت پناہی کے باوجود فلسطینیوں کے عزم کو دبایا نہیں جا سکتا۔

سیاسی حمایت

دفاعی حمایت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت اسرائیل کے ساتھ مغربی دنیا کے فرائض میں شامل ہے۔ اس دفاع کے لیے ایک کوشش براہِ راست کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کی مذمت میں اُٹھنے والی ہر اس آواز کو دبایا جاتا ہے جو کہ اقوامِ متحدہ کے ذریعے اُٹھائی جاتی ہے۔ اس بات کی ترجمانی ایک اخباری رپورٹ سے یوں ہوتی ہے، ۵ دسمبر ۲۰۱۰ء کو پاکستان کے روزنامہ ایکسپریس نے خبر جاری

کی جس کا مضمون یہ تھا:

’’برازیل نے فلسطین کو علیحدہ ریاست تسلیم کر لیا۔ امریکہ کا اظہار افسوس ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر فلسطین کو علیحدہ مملکت تسلیم کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ قابض علاقے بھی واپس دلائے۔ صدر ڈی سلوا کا مطالبہ فلسطینیوں کے یہودی ریاست کو تسلیم کرنے تک ذمہ دار اقوام کو انتظار کرنا چاہیے۔‘‘(۱۲)

امریکی بیان اسرائیل نوازی کا ترجمان ہے کہ جب تک فلسطینی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے تب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد دنیا بھر سے یہودیوں کو ایک منصوبے کے تحت اسرائیل منتقل کیا گیا اور انہیں داخلہ پر اسرائیل کا پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد فلسطینی عربوں کے مقابلے میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب بڑھانا تھا۔ اسرائیل کی بقا کے لیے یہ ناگزیر تھا کہ اسرائیلوں کو کثرت کی جائے تاکہ ریاست کا دعویٰ مضبوط ہو سکے کیونکہ صہیونیوں کی تمام تر کوششوں حتیٰ کہ ہولوکاسٹ کے باوجود فلسطین کی یہودی آبادی اسرائیل کے قیام تک ۳۰% سے زیادہ نہ بڑھ سکی تھی۔ اسی طرح اسرائیلی شہریت کا حامل ایک مورخ لکھتا ہے کہ:

’’یورپی یہودی عرب یہودیوں کو غیر مہذب اور وحشی سمجھتے تھے۔ فلسطینیوں کو نکالنے کے ساتھ ساتھ وہ یہودی ریاست میں عرب کلچر نہ آنے کے خواہاں ہیں۔‘‘(۱۳)

یعنی فلسطین میں یہودی آباد کاری باقاعدہ پلان کے تحت ہوئی تاکہ فلسطین پر قبضہ کرنا آسان ہو سکے چنانچہ برطانیہ نے نہایت مکاری سے اس معاملے کو اپنے گلے سے اُتار کر اقوامِ متحدہ میں دھکیل دیا۔ سب سے پہلی قرارداد ۱۱ دسمبر ۱۹۴۸ء کو پیش کی گئی جو کہ جنرل اسمبلی نے منظور کی۔ اس میں مصالحتی کمیشن کے قیام اور یروشلم کی بین الاقوامی حیثیت نیز فلسطینی مہاجروں کی اپنے گھروں کو واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔

اسی طرح ۱۱ دسمبر ۱۹۶۹ء کو انسانی حقوق کی بحالی کی مذمت میں قرارداد پیش کی گئی۔ ان تمام قراردادوں کا مقصد اسرائیلی جارحیت کو واضح کرنا تھا کہ اسرائیل نے ہمیشہ استحصالی اقدامات کیے مگر کبھی ان پر عمل درآمد نہیں کیونکہ اقوام متحدہ کبھی امریکی دباؤ سے آزاد نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس کی خارجہ پالیسی کے لیے رکاوٹ بن سکا۔ اقوامِ متحدہ امریکی و اسرائیلی لابی کے آگے سرنگوں ہے۔ اسرائیل کی تائید میں اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم کا ناجائز استعمال امریکہ کا معمول بن چکا ہے بالخصوص جب اسلامی خصوصاً فلسطینی احیاء کی تحریکوں پر پابندی کے لیے اقوامِ متحدہ پر دباؤ ڈال کر اس تحریک کو مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں پابندی لگائی جاتی ہے۔ اس طرح دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈوں کے علاوہ امریکہ کے پاس قانونی طرز واردات بھی موجود ہیں جنہیں Veto Power کا حق ہے لیکن اس طاقت کا استعمال صرف اسرائیل کے دفاع کے لیے ہے۔ اس کے خلاف جب بھی کوئی قرارداد لائی گئی تو صہیونی نژاد امریکیوں نے اسرائیل کے حق میں فیصلہ دیا اور قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ کنفلکٹس(Encyclopedia of World Conflicts) کا مقالہ نگار ویٹو پاور اور اس کے استحصال پر یوں روشنی ڈالتا ہے:

«The U.S. have veto power in the U.N secusily council and is able to block resolution it opposes and it has frequently vetoed resolution critical of Israel actions… The Untited States will always stand with Israel.»(14)

’’چنانچہ حال ہی میں اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور کی گئی جسے امریکہ نے ویٹو کر دیا۔‘‘(۱۵)

۱۹۷۲ء میں شام اور لبنان کی اسرائیل کے خلاف جنگ کے بارے اسرائیل مخالف قرارداد آنے پر امریکہ نے ویٹو کا حق استعمال کیا۔ ۱۹۷۳ء سے ۲۰۰۰ء تک سلامتی کونسل میں مشرقِ وسطیٰ (جن میں اکثر اسرائیل مخالف) کے بارے تقریباً ۹۰ قراردادیںپیش کی گئیں جن میں سے ۳۳ کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ ان ۳۳ قراردادوں میں اسرائیل کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا۔ امریکہ نے دوستی نبھانے کا حق ادا کر دیا چنانچہ اس طرح اسرائیل کی سیاسی حمایت کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اسرائیل مسلم ممالک کے مقابلے میں وہ ملک ہے جس نے کبھی بھی اقوامِ متحدہ کے فیصلے کا احترام نہیں کیا۔ اقوامِ متحدہ کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے