الحمد لله الذي أنزل الفرقان على عبده ليكون للعالمين نذيرا والصلاة والسلام على البشير النذير قائد الغر المحجلين محمد بن عبد الله الصادق الأمين صلى الله عليه وعلى آله الأطهاروصحابته الكرام وسلم تسليماً كثيراً إلى يوم الدين، أما بعد :

یہود اس دنیا کے بدترین مخلوق میں سے ہیں کیونکہ روئے زمین یہود سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمان قوم نہ کبھی آئی ہے اور نہ آئے گی اس وقت ارض فلسطین میں یہود نے بدترین تخریب کاری ،نسل کشی کا جوبازار گرم کر رکھا ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ۔

اس وقت یہودی مسلمانوں کی ماوں بہنوں کی عزت سے کھیلنے کو شرف سمجھ بیٹھے ہیں جس کو بے نقاب کرنے کے لئے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کے مؤقر جریدہ بنا م اسوۂ حسنہ نے ارض مقدس ‘‘ کے نام پر خاص شمارہ شائع کرنے کا ارادہ کرکے تمام مسلمانوں کی طرف سے حق ادا کرنے کی بے مثال کوشش کی ہے ۔

میں مجلہ اسوۂ حسنہ کا از تہ دل سے مشکور وممنوں ہوں کہ انہوں نے ایک جرأتمندانہ اقدام اٹھایا ہے جس میں ناچیز بھی اپنا حصہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہاہے  جس کے لئے قرآن کریم میں یہود کی بری خصلت پر چند آیات کریمہ اور اس کا مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس کے طوالت کی خشیت سے مختصر عنوان کی مناسبت سے آیت کریمہ اور اس کا ترجمہ مولانا محمد جوناگڑھی رحمہ اللہ  کے مترجم سے انتخاب کیا ہے

اللہ ہمیں یہود کے تمام بری خصلتوں سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین ۔

مسلمانوں اور مؤمنوں کے ساتھ سب زیادہ سخت بغض رکھنے والے:

قال الله تبارك وتعالى:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّالنَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَهُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۠۰۰۸۲ (المائدة:82)

ترجمہ : یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیاده دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں سے سب سے زیاده دوستی کے قریب آپ یقیناً انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اس لئے کہ ان میں علما اور عبادت کے لئے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وه تکبر نہیں کرتے۔

مومنوں کے ساتھ ان کی سب بڑی دشمنی حق کو پہچانے کے باوجود اس کا انکار کرنا حالانکہ یہود جانتے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ حق پر ہیں مگر ان کی دشمنی نے انکار کردیا جیساکہ قرآن کریم میں آتا ہے۔

قال الله تبارك وتعالى :
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ؕ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَؔ۰۰۱۴۶ (البقرة:146)

جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وه تو اسے ایسا پہچانتے ہیں جیسے کوئی اپنے بچوں کو پہچانے، ان کی ایک جماعت حق کو پہچان کر پھر چھپاتی ہے۔

اور قرآن کریم میں مومنوں سے یہودیوں کی سخت دشمنی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

قال الله تبارك وتعالى :

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۰۰۳۲ (التوبة:32)

ترجمہ: وه چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش رہیں۔

فضول استفسارکرنا :

ان کی بری عادات میں راہ حق کو جاننے کے باوجود کثرت سوال اور استفسار ہیں جیساکہ اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم فرمایا تو ان کے سوالات اور استفسارات ملاحظہ فرمائیں قال الله تبارك وتعالى:

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ۰۰۶۷ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِيَ١ؕ قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكْرٌ١ؕ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذٰلِكَ١ؕ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ۰۰۶۸ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ١ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِيْنَ۰۰۶۹قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِيَ١ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَيْنَا١ؕ وَاِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ۰۰۷۰ قَالَ اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِي الْحَرْثَ١ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّاشِيَةَ فِيْهَا١ؕ قَالُوا الْـٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ١ؕ فَذَبَحُوْهَا وَ مَا كَادُوْا يَفْعَلُوْنَؒ۰۰۷۱ (البقرۃ:67 تا 71)

ترجمہ : اور (حضرت) موسیٰ﴿علیہ السلام﴾ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناه پکڑتا ہوں۔

انہوں نے کہا اے موسیٰ! دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کی ماہیت بیان کردے، آپ نے فرمایا سنو! وه گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ۔ وه پھر کہنے لگے کہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وه کہتا ہے کہ وه گائے زرد رنگ کی ہے، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہے۔ وه کہنے لگے کہ اپنے رب سے اور دعا کیجیئے کہ ہمیں اس کی مزید ماہیت بتلائے، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے۔

ضد بازی:

ان کی ضد بازی کی مثال اللہ تعالی نے یوں بیان کی ہے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍفَادْعُ لَنَارَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا وَقِثَّآىِٕهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا١ؕ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِيْ هُوَ اَدْنٰى بِالَّذِيْ هُوَ خَيْرٌ١ؕ اِهْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ١ؕ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ١ۗ وَبَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَؒ۰۰۶۱ (البقرۃ:61)

 ترجمہ: اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہوسکے گا، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجیئے کہ وه ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز دے، آپ نے فرمایا، بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ تعالی کا غضب لے کر وه لوٹے یہ اس لئے کہ وه اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔

اللہ کی کتابوں میں تحریف کرنا :

یہود نے اللہ تبارک وتعالی کے احکامات اور ان کی ارسال کردہ کتابوں میں من مانی تحریف کی ۔

قال الله تبارك وتعالى:

اَفَتَطْمَعُوْنَ۠ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ۰۰۷۵ (البقرۃ:75)

ترجمہ: کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی جو کلام اللہ کو سن کر، عقل وعلم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالاکرتے ہیں۔

انہوں نے صرف اللہ کی کتابوں میں تحریف کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللہ کے دین طعنے بھی دینے لگے۔

قال الله تبارك وتعالى :

مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ۠ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ١ؕ وَلَوْ اَنَّهُمْ قَالُوْاسَمِعْنَاوَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاَقْوَمَ١ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۰۰۴۶ (النساء:46)

ترجمہ: بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر! (لیکن اس کے کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی اور آپ سنئےاور ہمیں دیکھیئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے انہیں لعنت کی ہے۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔

دنیاوی زندگی سے محبت اور بزدلی دکھانا :

جب اللہ نے انہیں ایک شہر میں داخل ہونے کو کہا تو انہوں نے صاف انکار ہی کردیا جیساکہ فرمایا:

قَالُوْا يٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ١ۖۗوَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى يَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚفَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۰۰۲۲ (المائدۃ:22)

ترجمہ: انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وه وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے ہاں اگر وه وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم (بخوشی) چلے جائیں گے۔

یہود کی بزدلی نے یہاں تک کہلوایا کہ اے موسی تم اور تمہارا رب جاکر لڑو کہا قال الله تبارك وتعالى:

قَالُوْا يٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا فَاذْهَبْ  اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۰۰۲۴ (المائدۃ:24)

ترجمہ: قوم نے جواب دیا کہ اے موسیٰ! جب تک وه وہاں ہیں تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے، اس لئے تم اور تمہارا پروردگار جا کر دونوں ہی لڑ بھڑ لو، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔

جھوٹ کا سننا اور سود لینا :

یہود کی بری خصلت میں سے جھوٹ بولنا اور سود کھانا ہے قال الله تبارك وتعالى

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕفَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَيْـًٔا١ؕوَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۰۰۴۲ (المائدۃ:42)

ترجمہ: یہ کان لگا لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں، اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے خواه ان کے آپس کا فیصلہ کرو خواه ان کو ٹال دو، اگر تم ان سے منھ بھی پھیرو گے تو بھی یہ تم کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، یقیناً عدل والوں کے ساتھ اللہ محبت رکھتا ہے۔

دھوکہ اور خیانت :

دھوکہ بازی اور خیانت ان کی عام عادتوں میں سے تھے قال الله تبارك وتعالى:

وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَاِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۰۰۷۶  (البقرۃ:76)

 جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ظاہر کرتے ہیں اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وه باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس تم پر ان کی حجت ہوجائے گی۔

ان کے دل پتھر سے بھی سخت تھے :

اللہ کی تمام نافرمانیوں کو اپنے نام کرکے یہودیوں کا  دل اتناسخت ہے جیساکہ فرمایا :

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً١ؕ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ١ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَاِنَّ  مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ١ؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۰۰۷۴ (البقرۃ:74)

ترجمہ: پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیاده سخت ہوگئے، بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گرگر پڑتے ہیں، اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔

غرور اور تکبر سے بھرا ہوا :

یہود دیوں میں غرور  اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا  قال الله تبارك وتعالى :

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّآؤُهٗ١ؕقُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ١ؕبَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ١ؕ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ١ؕوَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا١ٞ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ۰۰۱۸ (المائدۃ:18)

ترجمہ: یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ پھر تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث اللہ کیوں سزا دیتا ہے؟ نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو وه جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عذاب کرتا ہے، زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

سیدہ مریم علیہا السلامہ پر بہتان تراشنے والے :

یہود وہ قوم ہے جنہوں حضرت موسی پر بھی الزام لگایا اور بی بی مریم کو بھی نہیں چھوڑا ۔

وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْمًاۙ۰۰۱۵۶ (آل عمران :156)

اور ان کے کفر کے باعث اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث۔

نبیوں کو قتل کرنا :

یہودیوں نے اللہ کی نشانیوں کے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ بعض اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور بعض کو قتل کرنے کی کوشش کی    قال الله تبارك وتعالى

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّبِيّٖنَ بِغَيْرِ حَقٍّ١ۙ وَّيَقْتُلُوْنَ الَّذِيْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۰۰۲۱ ( آل عمران :21)

 ترجمہ:جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اورناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل وانصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں، تو اے نبی! انہیں دردناک عذاب کی خبردے دیجئے۔

عہد شکنی کرنے والے :

یہود شروع سے اب تک عہد شکن قوم ہے قال الله تبارك وتعالى

وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ١۫ وَبِالْوَالِدَيْنِ۠  اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ۰۰۸۳ ( البقرۃ:83)

 ترجمہ:اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعده لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوٰة دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوه تم سب پھر گئے اور منھ موڑ لیا۔

اختلافات اور تفرقہ بازی میں بٹا ہوا :

اللہ تعالی نے اہل اسلام کو تفرقہ بازی سے باز رکھتے ہوئے تنبیہ کی کہ تم بھی یہود کی طرح نہ ہو۔

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ١ؕ وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۱۰۵

 ترجمہ:تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا، اور اختلاف کیا، انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔(آل عمران:105)

 قال الله تبارك وتعالى:

وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ۰۰۱۴

ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا (اور وه بھی) باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت مقرر تک کے لیے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی نہ ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی ہے وه بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔(الشوری:14)

اللہ تعالی کیساتھ بے ادبی کرنے والے :

اللہ تعالی کے پیدا کردہ مخلوق میں یہود سب سے بے ادب مخلوق ہیں :

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ١ۚ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١ٞۚ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۰۰۳۰ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ١ۚ وَمَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۳۱

یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منھ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وه پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔(التوبۃ:30۔31)

امر بالمعروف نہی عن المنکر کا چھوڑ دینا:

یہود کے سب سے بری خصلتوں میں نیکی کا حکم اور برائی سے منع چھوڑنا تھا ۔

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى   ابْنِ مَرْيَمَ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۰۰۷۸ كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۰۰۷۹

بنی اسرائیل کے کافروں پر (سیدنا) داؤد (علیہ السلام) اور (سیدنا) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہودیوں کے معاندانہ رویوں کے اسباب

اقوامِ عالم کی تسخیر کے ساتھ ساتھ معبود برحق نے انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث کیا۔ سلسلہ انبیاء کی آخری کڑی آپﷺ ہیں۔ انبیائے کرام کی اقوام عالم کی طرف بعثت اپنے زمانے تک ہوتی تھی۔ جبکہ بعث نبویﷺ ساری انسانیت اور کائنات کی ہر مخلوق کے لیے ہے۔ آپﷺ کی بعثت اور آمد کی گواہی دیگر کتب سماوی میں موجود تھی۔ چنانچہ اہلِ کتاب آپﷺ کی آمد کے منتظرتھے۔ اہلِ کتاب میں صالح عناصر بھی خاصی تعداد میں تھے جو ایک اللہ ہر پختہ ایمان رکھتے تھے اور اس کے ساتھ کیے گئے عہد و پیماں پورے کرتے تھے۔ نیکی کا کام کرتے اور برائی سے منع کرتے تھے۔ قرآن حکیم نے اہلِ کتاب کے حوالے جہاں ان کی اکثریت کی بدعہدی و بداعتقادی کا تذکرہ کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف ان کے صالح اعمال کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح انبیاء بنی اسرائیل نے ان کو نبی آخر الزماںﷺ کی بشارت دی تھی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی گواہی موجود ہے:

وَ اِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ (۱)

’’اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوں مجھ سے پہلے جوتوراۃ نازل ہوتی تھی۔ میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس رسول کی خوشخبری سنانے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔‘‘

یہود آپﷺ کی بعثت کے مشتاق و منتظر تھے کہ وہ عنقریب مبعوث ہونے والے ہیں اور ان کے ذریعے ہم عرب کے مشرکین پر فتح طلب کریں گے اور جب اللہ نے آپﷺ کو مبعوث کر دیا تو انہوں نے آپ کی تکذیب شروع کر دی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا(۲)

’’اور یہ لوگ پہلے سے کافروں کے مقابلہ میں فتح کی دعا مانگتے ہیں۔‘‘

ابوالعالیہ سے روایت ہے کہ یہود یہ دعا کرتے تھے:

’’خداوند اس نبی کو بھیج جس کو ہم اپنے یہاں لکھا ہوا پاتے ہیں تاکہ ہم مشرکین پر غالب آئیں اور ان کو قتل کریں۔‘‘(۳)

قرآن کریم نے ان کی حقیقت کو واضح کیا کہ پہلے یہود آپﷺ کے منتظر تھے، مگر بعد از بعثت انہوں نے آپﷺ کی مخالفت کا بیڑا اُٹھا لیا اور نجات و سعادت کی اس راہ پر گامزن نہ ہوئے جس کی قرآن حکیم دعوت دے رہا ہے اور اپنی سابقہ روش پر قائم رہے تو اللہ نے بھی ان کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کیا۔

عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ(۴)

’’ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابقہ روش دہرائی تو ہم بھی پھر اپنی سزا دہرائیں گے۔‘‘

حالانکہ رسول اکرمﷺ کی بعثت یہود کے مذہبی صحیفوں کے عین مطابق تھی وہ بخوبی جانتے تھے کہ آپﷺ کی ذات برحق ہے اور آپﷺ سچے اور آخری نبی ہیں۔

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ١ؕ (۵)

’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا کی ہے وہ اس کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے نبیوں کوپہچانتے ہیں۔‘‘

ابن ہشام لکھتے ہیں کہ ایک یہودی عالم شام سے مدینہ ہجرت کر آئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ مدینہ کے خستہ ترین حالات میں یہود ان کے پاس آکر دعا کرواتے تھے انہوں نے قبل از وقت یہودیوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ میں شام سے ادھر اس لیے آیا ہو اتھا کہ ایک نبی کا مجھے انتظار تھا جس کی بعثت کا زمانہ قریب ہے اور وہ ہجرت کر کے یہاں آئے گا۔ میں اگر زندہ رہا تو اس کی اتباع کروں گا دیکھو تم اس کی اطاعت کرنا اور اگر تم نے اس کی روگردانی کی توقید کیے جاؤ گے اور قتل کیے جاؤ گے۔(۶)

صالح اہلِ کتاب نے آپﷺ کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور جب وہ تمام نشانیاں جو ان کی کتابوں میں مذکور تھیں جب وہ چہرہ اطہر سے عیاں ہو گئیں تو بلاتامل وہ لوگ ایمان لے آئے۔ جبکہ آپﷺکی بعثت کے حوالے سے انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا (Encyclopedia of Britannica) کے الفاظ قابلِ غور ہیں:

«Its exact date and its exact place of origin are uncertain, but it appears to date from the later years of the 1st century.»(۷)

رسالت محمدیﷺ کی بعثت مبنی برحق ہے جس کی شہادتیں قرآن اور دیگر کتب سماویٰ سے ملتی ہیں۔ جن صالح اہلِ کتاب نے آپﷺ پر ایمان لانے میں کوئی تردد نہیں کیا ان میںسیدنا زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ تورات میں رسول اکرم ﷺ کی جو نشانیاں بتائی ہیں وہ سب آپ کے چہرے اطہر پر عیاں تھیں۔ اسی طرح سیدنا مخریق رضی اللہ عنہ غزوہ احد کے موقع پر یہود مدینہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ محمدﷺ کی مدد تم پر ضروری ہے اس لیے آج تم سب کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ چنانچہ وہ نبیﷺ کی خدمت میں سربکف حاضر ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔(۸)

اسی طرح سیدنا میمون بن یامین رضی اللہ عنہ بھی ہیں جو احبار یہود میں تھے۔(۹)

ان اصحاب کے علاوہ ایک مشہور نام سیدناعبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا ہے کہ انھوں نے آپﷺ سے سوالات کیے جو کہ انبیاء کو معلوم ہوتے ہیں۔ آپﷺ نے ان کے جوابات دے دیے تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد کہا کہ یہود فتنہ پرداز قوم ہیں آپ جب ان سے میرے بارے میں پوچھیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ وہ ہمارے سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کا اعتراف کر دیا اور کہا کہ تم بخوبی جانتے ہو کہ یہ رسول ہیں اور ان کا مذہب سچا ہے۔ یہود اپنی اس اہانت پر برہم ہوئے اور ان کو جھوٹا اور بدترین شخص کہا۔(۱۰)

یہود من حیث الجماعۃ کفر و انکار کے مرتکب تھے۔ مگر صالح افراد ان سے مستثنیٰ تھے۔ وہ نہ صرف ایمان لاتے بلکہ اس کی دعوت بھی دیتے تھے۔ چونکہ اکثریت کفر و انکار کی بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے اسی وجہ سے وہ کفار مکہ کے ہم نوا اور پشت پناہ بن گئے تھے۔

تکذیب و تضحیک

یہود ایک طرف عہد شکنی کرتے تو ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دیگر انبیاء کرام کی طرح آپﷺ کی بھی تکذیب کی۔ یہود عرب سے شکست کھانے کے بعد اللہ سے آپﷺ کی آمد کی دعا کرتے جس کا ذکر سابقہ سطور میں ہو چکا ہے۔ دکتور وھبہ زوہیلی لکھتے ہیں یہود کو جب دیگر اقوام سے شکست ہو گی تو آپﷺ کا واسطہ دے کر دعا کرتے کہ وہ نبی جو آخری زمانے میں آئے گا اور تیرا وعدہ اور پر ہمیں فتح ملے گی۔(۱۱)

مگر بعثت نبوی کے فوراً بعد یہ لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے منکر ہو گئے۔ حضرات مفسرین نے اس حوالے سے کئی روایات نقل کی ہیں۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اوس و خزرج کے حوالے سے مذکورہ بالا روایات سے ملتی جلتی روایات نقل کی ہے۔(۱۲)

یہود نے جہاں آپﷺ کی تکذیب کی وہاں آپﷺ سے کچھ ایسے سوالات بھی کہے جو کہ عقل سیلم سے بالاتر ہیں۔ مثلاً انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ آپﷺ قرآن کو ایک ہی مرتبہ لے کر آئے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ہی مرتبہ تمام کتاب کو لے کر آئے تھے۔

قرآن کریم کی سورۃ النساء میں اس سوال کا ذکر ہے:

يَسْـَٔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ (۱۳)

’’مطالبہ کرتے ہیں آپ سے اہلِ کتاب کہ آپ اتروا دیں ان پر کتاب آسمان سے۔‘‘

حضرات مفسرین نے اس پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کعب بن اشرف چند یہودیوں کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے کہنے لگا ہم آپ پرایمان لائے کے لیے تیار ہیں۔ بس ہماری چھوٹی سی شرط پوری کر دیں جس طرح حضرت موسیٰ پر لکھی لکھائی کتاب آئی تھی۔ آپ بھی اتروالیں ہم آج ہی کلمہ پڑھ لیتے ہیں۔ حقیقتاً یہ محض حجت بازی تھی۔ اس آیت مبارکہ کے اگلے حصے میں اپنے محبوب علیہ السلام کو اللہ نے تسلی دے دی کہ اس سے بڑے اور انوکھے سوال یہود نے حضرت موسیٰ سے کیے تو پھر اللہ نے ان پر أَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ (بجلی کی کڑک) کو مسلط کر دیا۔(۱۴)

یہود کی فطرت یہ تھی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی ایک طرف یہ اظہار کہ ہم بھی ایمان لے آتے ہیں مگر دوسری طرف شرط۔ نبوت پر ایمان شرطوں کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ نبوت کا اقرار زبان قال و حال دونوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح یہود نے آپﷺ سے سوال کیا کہ اگر آپﷺ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو اپنے رب سے کہو کہ ہم سے خود بات کرے۔ قرآن کریم نے ان کی اس گستاخی کو سورۃ البقرہ میں کچھ یوں بیان کیا ہے۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ لَوْ لَا يُكَلِّمُنَا اللّٰهُ اَوْ تَاْتِيْنَاۤ اٰيَةٌ(۱۵)

’’اور جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے براہِ راست کیوں کلام نہیں کرتا۔ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آجاتی۔‘‘

حضرات مفسرین میں ابن جریر(۱۶)،علامہ قرطبی(۱۷)، ابن کثیر(۱۸)، سیوطی(۱۹)، زحیلی نے سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت نقل کی ہے۔

’’رافع بن حریملہ نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ اگر رسول ہیں تو اللہ سے کہیں کہ ہمارے سے خود بات کرے یا کوئی نشانی دے۔‘‘(۲۰)

اس طرح کے بے تکے مطالبات یہود کی طرف سے کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہی کیا تھا۔ جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے۔ جبکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بدولت ان پر جو نعمت الٰہی کا نزول ہوتا رہا وہ پھر بھی ان کے منکر رہے ۔ اس کی وجہ وہی حسد اور بغض ہے جو وہ محمدعربی ﷺ سے کرتے تھے۔ آپﷺ کی تمام علامات کو دیکھنے کے باوجودبھی آپﷺ کی تکذیب و تضحیک کرتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا واقعہ سابقہ سطور میں گزرا کہ انہوں نے برملا یہود سے ایمان لانے اور ان کے سچے ہونے کا اقرار کیا۔ حالانکہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے مگر قرآن کریم کے اس بول کے حقیقی مصداق بن گئے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا باطل تو مٹنے کے لیے ہے۔ امام ترمذی نے ایک حدیث نقل کی ہے:

’’سیدناعبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کے منہ سے پہلی بات جو سنی وہ یہ تھے اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ۔ لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور اس وقت نماز پڑھو جب سارے سوئے ہوں اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔‘‘(۲۱)

جب حق نے باطل کے تمام بادل دور کر دیے تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ یہود جھوٹے ہیں اور فاسق و فاجر ہیں۔ کیونکہ نبی کا کام اپنا فریضہ ادا کرنا ہے۔ چنانچہ انہوں نے حتی الوسع کوشش کے ساتھ اپنا پیغام پہنچایا مگر یہود اپنی باغیانہ روش پر قائم رہے۔ مورخین نے ایک طویل واقعہ نقل کیا ہے۔ جس کا ماحاصل یہ ہے کہ جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے ایک خیمہ عمرو بن عوف کی اولاد کے پاس قائم کیا۔ آپﷺ کی زوجہ کے والد او ر چچا آپﷺ کے پاس گئے مگر واپس آئے تو میرے چچا نے میرے والد سے پوچھا کہ یہ وہی نبی ہے میرے والد نے اقرار کیا مگر قسم کھا کر اظہار کیا کہ میرے دل میں اس کے لیے نفرت ہے۔(۲۲)ابن کثیر نے ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں یہ بات نقل کی ہے۔(۲۳)

الغرض یہود وہ قوم ہے جن کا ایمان انبیاء علیہم اسلام کی تکذیب کرنا ہے اور ان کی ہدایات سے روگردانی کرنا ہے تاکہ ان کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔

سازشیں

یہود کا معاندانہ رویہ اور باغیانہ روش والی عادات سازشوں اور فریب سے خالی نہیں ان کی یہ عادت ہر ایک کے ساتھ رہی خصوصاً اہلِ حق کے ساتھ اس کی شدت زیادہ تھی کیونکہ یہ ان کو ہمیشہ اس کام سے روکتے تھے جس پر ان کی طبیعت مائل رہتی ہے۔ انبیاء کے ساتھ سازشوں کا سلسلہ اس لیے شدت کے ساتھ تھا کہ عام لوگ ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو کر ان کی بات پر عمل نہ کریں پھر آپﷺ اور دیگر انبیاء سے ایسے سوالات کرتے تھے تاکہ ان کے جوابات نہ ملنے کی صورت میں لوگوں میں شکوک پیدا کیے جائیں۔ صبح کے وقت یہ لوگ ایمان قبول کر لیتے اور شام کو یہ لوگ کافر ہو جاتے۔ پھر کتب مقدسہ میں تحریف کر کے لوگوں کو شکوک میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح آپﷺ کی مجلس میں آکر بھی مختلف قسم کی شرارتیں کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کو تشکیک کا نشانہ بنا جائے۔ ذیل میں ان کی سازشوں کا ذکر ہو گا کہ ان شرپسند لوگوں نے کس طرح سب سے متبرک اور اعلیٰ ہستی انبیاء کے سردار کو قتل کرنے کی سازشیں کی تھیں۔

قتل کی سازش

یہود نے آپﷺ کو قتل کرنے کے لیے ایک سازش یہ کی کہ آپﷺ پر جادو کر دیا جائے اور اس طرح ہمارا مقصد پورا ہو جائے۔ مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آپﷺ پر جادو کر دیا گیا اور اس کے آثار جسم مبارک پر نمودار ہوئے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا اے عائشہ میں نے اللہ سے جو بات معلوم کرنی چاہی وہ اللہ نے مجھے بتادی۔ یعنی بذریعہ وحی بتادیاگیا کہ آپﷺ پر جادو ہے اور لبید بن الاصم نے کہا جو کہ یہودی تھا اور جادو بالوں کے گچھے پر کر کے کنویںمیں رکھا ہے آپﷺ نے اس گچھے کو اس کنویں سے نکلوایا۔(۲۴)

جبکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ بالوں کو گچھے میں باندھ کر اس میں گرہیں لگائی گئیں تھیں تو اس کے توڑ پر اللہ نے آخری دو سورتیں معوذ تین نازل کر دی اور جادو کے اثرات زائل ہو گئے۔(۲۵)

اسی طرح یہود کی آپ کو قتل کرنے کی سازش کے حوالے سے متعدد روایات ہیں جن میں سے دو کا ذکر ہم کریں گے۔ علامہ ابن خلدون نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ غزوہ خیبر کی فتح کے بعد مسلمان قلعہ قموص میں داخل ہوئے تو وہاں ایک یہودی عورت تھی جس کا نام زینب تھا اور سلام بن مثکم کی بیوی تھی اور مرحب کی بہن تھی ۔ اس یہودی عورت نے آپﷺ کو زہر دینے کی سازش تیار کی۔ آپﷺ کو بکری کی دستی پسند تھی تو اس نے اس میں زہر زیادہ ڈال دیا۔ آپﷺ نے ایک ٹکڑا تناول فرمایا لیکن چبانے کے بعد فوراً تھوک دیا اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا اس گوشت نے مجھے خبر دی کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اپنے وصال کے وقت فرمایا تھا کہ خیبر کے گوشت کا زہر آج بھی محسوس ہو رہا ہے۔(۲۶)

ابن ہشام لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی سے دو کافروں کا قتل ہو گیا آپﷺ ان کی دیت کے معاملے میں یہودیوں کے پاس چلے گئے صحابہ ایک جماعت آپﷺ کے ساتھ تھی۔ یہودیوں نے کہا آپ بیٹھیں ہم آپ کی ضرورت پوری کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک طرف ہو کر یہ سازش کی کہ کون اس چکی کے پاٹ کو لے کر اوپر چڑھے گا اور اوپر سے آپﷺ پرپھینک دے گا اور اس سے آپﷺ کا سر کچل جائے گا۔ تو عمرو بن حجاش نے کہا کہ میں پھینکوں گا۔ سلام بن مثکم نے منع کیا کہ اللہ کی قسم اس کو اس سازش کا پتہ چل جائے گا یہ اس معاہدے کے خلاف ہے جو ہمارے اور اس کے درمیان ہے مگر وہ اس ارادے میں پختہ تھے لیکن ادھر وحی الٰہی کے ذریعے خبردار کر دیا گیا اور آپﷺ اور صحابہ اس جگہ سے ایک طرف ہوگئے۔(۲۷)

یہ وہ تمام سازشیں تھیں جو یہود نے رسول اللہ کے خلاف کی تاکہ وہ ان کو قتل کر کے اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہو سکیں مگر اللہ نے ان کو ناکام کر دیا اور اپنے حبیب کی مدد فرمائی۔

جنگیں

آپﷺ جب مدینہ ہجرت کر کے آئے تو آپﷺ نے ایک معاہدہ کیا جس کی زیادہ تر شقیں یہود کے ساتھ تھیں اور دینی اعتبار سے بھی یہود کو مشرکین پر فوقیت دی گئی مگر توحید خالص اور دین کی سعی جو نبی فرما رہے تھے وہ انھیں اور ان کے مشائخ کو پسند نہ آئی ان کی پیہم کو شش تھی کہ اسلام کے اس ٹمٹمائے ستارے کو چمکنے سے قبل بجھا دیا جائے اس کے لیے یہود مدینہ نے اطراف کے قبائل کے ساتھ ساز بازی شروع کر دی۔ قبل از اسلام جو باتیں باہم قتل و غارت کا سبب تھیں انہیں ہوا دے کر بھڑکانے کی کوشش کی جبکہ دوسری طرف میثاق مدینہ ہونے کے باوجود یہ ان لوگوں کی سرگرمیاں تھیں۔ یہود کا گمان تھا کہ معرکہ بدر ہی مسلمانوں کے خاتمے کا سبب بن جائے گا مگر مشیت ایزدی کی طرف سے فیصلہ اس کے برعکس ہوا جس کا ان کو تصور بھی نہیں تھا کعب بن اشرف نے جب قریش مکہ کی شکست معلوم ہوئی تو خود مکہ مکرمہ گیا اور جا کر مرثیے پڑھ کر قریش مکہ کو انتقام کا جوش دلایا اور پھر قبیلہ بنو قینقاع نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عورتوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔

جبکہ بنو قینقاع یہود کا وہ قبیلہ تھا جو کہ تجارت کے پیشے سے منسلک تھا اور یہ لوگ مدینہ شہر کے ایک محلہ میں آبا دتھے۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ ان کا بچہ بچہ مسلح تھا اُس کو اپنی شجاعت پر بڑ اناز تھا۔ سات سو مردانِ جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے سب سے بڑے حامی قبیلہ خزرج کے لوگ تھے۔ قبیلہ خزرج کو عبداللہ بن ابی کی پشت پنائی حاصل تھی۔ غزوہ بدر کے بعد یہ کھلم کھلا بغاوت پر اتر آئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا خاص طور پر عورتوں کو تنگ کرتے تھے۔ کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان قتل ہو گیا۔ تو رسول اللہﷺ خود ان کے پاس گئے ان کو سمجھایا مگر وہ کسی طرح باز نہ آئے۔ اور آگے سے جو جواب دیا۔ مولانا مودودیؒ نے اس کو نقل کیا ہے:

’’اے محمدﷺ! تم نے شاہد ہمیں قریش سمجھا ہے وہ تو لڑنا نہیں جانتے اس لیے تم نے انہیں قتل کر دیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔‘‘(۲۸)

درحقیقت یہ اعلانِ جنگ تھا اس کے باوجود آپﷺ انہیں سمجھاتے رہے مگر وہ باز نہیں آئے تو بالآخر آپﷺ نے دو ہجری کو ان کا محاصرہ کر لیا۔ آخر کار وہ ہتھیار ڈال گئے اور آپﷺ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ خالی ہاتھ مدینہ سے نکل جائیں۔ قرآن کریم نے ان کی جلاوطنی کا ذکر کیا ہے:

كَمَثَلِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيْبًا ذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِهِمْ(۲۹)

’’ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کیے کا مزہ چکھ چکے ہیں۔‘‘

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ بنوقینقاع کی جاہ و جلالت خاک میں مل گئی اور اللہ نے مٹھی بھرمسلمانوں سے انہیں شکست دے دی۔(۳۰)اسی طرح دوسرا قبیلہ بنو نصیر تھا۔ جس نے وعدہ کے باوجود غزوہ احد میں پشت دکھائی اور دشمنوں کے ساتھ مل کر ان کا حوصلہ بڑھایا۔ اورآپﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ مدینہ میں حالات کشیدہ تھے عین ممکن تھا کہ جنگ کسی وقت بھی چھڑ جائے۔ ان کے اس ناپاک ارادہ کا جب نبی کریمﷺ کو علم ہوا تو آپﷺ نے ان کو پیغام دیا کہ دس دن میں مدینہ خالی کر دیں جبکہ عبداللہ بن ابی نے بنونضیر سے کہا کہ تم ہرگز مدینہ نہ چھوڑو تم اکیلے نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ حالانکہ یہ خام خیال تھا۔ اس پر بنو نضیر نے نکلنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ جب ان کا محاصرہ ہوا تو پھر مدینہ چھوڑنے پر تیار ہو گئے اسلحے کے علاوہ باقی سامان ساتھ لے جائیں گے۔ اس طرح دوسرا بڑا قبیلہ یہود مدینہ سے نکال دیا گیا۔ قرآن کریم نے سورۃ الحشر میں ان کی رسوائی تفصیلاً بیان کی ہے۔ ارشاد ہے:

هُوَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ(۳۱)

’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اہلِ کتاب کافروں کو پہلے ہی تاؤ میں ان کے گھروں سے باہر نکال دیا۔‘‘

جمہور مفسرین نے اس پر ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب ایک روز آپﷺ ان کی شرارتوں کی وجہ سے معاملے کا تصفیہ کرانے ان کے محلہ میں گئے تو انہوں نے دیوار کے قریب آپ کی نشست گاہ بنائی۔ جبکہ ان کا مقصد رسول اللہﷺ کو قتل کرنا تھا۔ جب آپﷺ محو گفتگو ہوئے تو انھوں نے آپ پر پتھر گرایا تاکہ آپﷺ اس کی زد میں آکر ختم ہو جائیں مگر ان کی تدبیر کو مدبر اعلیٰ نے خاک میں ملا دیا۔(۳۲)

اسی طرح آپﷺ نے ان کو مدینے سے جلاوطن کر دیا جبکہ تیسرا بڑا گروہ مدینہ منورہ میں غزوہ احزاب میں آپﷺ کے ساتھ تھا۔ بنو قریظہ یہود کا تیسرا بڑا قبیلہ تھا۔ جب قریش کے لشکر کو شکست ہوئی تو پھر صلح صفائی کی طرف آگئے۔ جبکہ مشیت الٰہی ان کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی مگر آپﷺ نے پھر بھی ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر وہ بدتمیزی پر آمادہ ہو گئے اس روش کے خلاف ایک ماہ تک محاصرہ رہا۔ بالآخر اپنا منصف سیدنا سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کو بنا کر بارگاہِ نبویﷺ میں بھیجا۔ اس پر انہوں نے بھی آسمان والے کے مطابق فیصلہ کیا کہ مردوں کو مار دو عورتیں بچے مال و اسباب مال غنیمت بنا لو۔(۳۳)

قرآن کریم نے سورۃ الاحزاب میں اس کا تذکرہ کیا ہے:

وَ اَنْزَلَ الَّذِيْنَ ظَاهَرُوْهُمْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ صَيَاصِيْهِمْ وَ قَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ (۳۴)

’’اور اللہ نے اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا ان کی گڑھیوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔‘‘

مدینہ سے جلاوطنی کے بعد یہود نے خیبر میں پناہ لی۔ آپﷺ نے ان سے معاہدہ کرنا چاہا مگر حسب دستور ہٹ دھرمی ان پر سوار رہی۔ بالآخر پھر جب خیبر کا محاصرہ ہوا او رفتح ایمان والوں کا مقدر بنی تو پھر منت سماجت پر آگئے۔ چنانچہ ان کے ساتھ اب فیصلہ یہ کیا گیا کہ ز مین کی پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوںکو دیں گے حتیٰ کہ دور فاروقی رضی اللہ عنہ میں جب ان کی سرکشی نے دوبارہ سراٹھایا تو امیر المؤمنین نے انہیں حجاز سے نکال دیا۔

حوالہ جات

۱۔الصف ۶۱:۶
۲۔البقرہ۲:۸۹
۳۔طبری، ابن جریر، جامع البیان، ج۲، ص:۳۳۵
۴۔الاسراء ۱۷:۸
۵۔البقرہ ۲:۱۴۶
۶۔ابن ہشام، عبدالمالک، السیرۃ النبویۃ، قاہرہ: مطبعہ حجازی، ۱۹۳۴ء، ج۱، ص:۲۳۳۔۲۳۲

۷.Encyclopedia of Britanica, Vol:3, P:513

۸۔عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، مصر: مصطفی محمد، ۱۳۵۸ھ، ج۳، ص:۳۷۳
۹۔ابن الاثیر، ابوالحسن علی الشیبانی، اسد الغابہ فی تمیز الصحابہ، مصر: جمعیۃ المعارف، ۱۲۸۶ھ، ج۲، ص:۴۲۷
۱۰۔سیوطی، جلال الدین، الدرالمنثور فی التفسیر الماثور، ج۱، ص:۳۵۷
۱۱۔زحیلی، وھبہ، تفسیر المنیر، بیروت: دارالفکر، ۱۴۱۲ھ، ج۱، ص:۲۴۱
۱۱۲۔سیوطی، جلال الدین، الدرالمنثور فی التفسیر الماثور، ج۱، ص:۲۴
۱۳۔النساء ۴:۵۳
۱۴۔الازہری، شاہ ، پیر کرم، ضیاء القرآن، ج۱، ص:۴۱۲
۱۵۔البقرہ۲:۱۱۸
۱۶۔طبری، ابن جریر، جامع البیان، ج۶، ص:۷
۱۷۔قرطبی،ابوعبداللہ محمد بن انصاری، الجامع لاحکام القرآن،ج۲، ص:۹۲
۱۸۔ابن کثیر، عماد الدین، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج۱، ص؛۱۶۱
۱۹۔سیوطی، جلال الدین، الدرالمنثور فی التفسیر الماثور، ج۱، ص:۲۹۸
۲۰۔زحیلی، وھبہ، تفسیر المنیر، ج۱، ص۲۱۱
۲۱۔ترمذی، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ، جامع ترمذی، مصر: المصطفیٰ البابی، ۱۹۷۵ء،رقم الحدیث ۲۴۸۵
۲۲۔ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ،ج۳، ص:۵۲
۲۳۔ابن کثیر، عماد الدین، اسماعیل، البدایہ والنھایہ، ج۳، ص۲۱۲

۲۴۔کاندھلوی، ادریس، معارف القرآن، لاہور: مکتبہ الحرمین، ج۸، ص:۵۷۸۔۵۷۷

۲۵۔ابن کثیر، عماد الدین، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج۳، ص؛۷۳۲۔۷۳۱
۲۶۔ابن خلدون، عبدالرحمن، کتاب العبد و دیوان المبتدا والخبر من احوال العرب والعجم والبربر ومن عاصرھم من ملوک، بیروت: دارالفکر، ۱۹۹۷ء، ج۲، ص:۳۹
۲۷۔ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۱، ص۴۰۱
۲۸۔مودودی، ابوالاعلیٰ، سیّد، مولانا، تفہیم القرآن، ج۵، ص:۳۷۷
۲۹۔الحشر ۵۹:۱۵
۳۰۔مودودی، ابوالاعلیٰ، سیّد، مولانا، تفہیم القرآن، ج۵، ص:۴۰۸
۳۱۔الحشر ۵۹:۲
۳۲۔الازہری، شاہ ، پیر کرم، ضیاء القرآن، ج۵، ص:۱۶۴
۳۳۔ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، ج۳، ص:۱۹۱
۳۴۔الاحزاب ۳۳:۲۶

بقیہ : قربانی کے احکام ومسائل

ذبح کرنے کا طریقہ:

أَنَسٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صَفْحَتِهِمَا وَيَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ (صحيح البخاري کتاب الأضاحي باب وضع القدم على صفح الذبيحة ، الحديث : 5564  وسنن ابي داود کتاب الضحايا باب ما يستحب من الضحايا ، الحديث : 2794)

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم ﷺ سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور رسول اکرم ﷺ اپنا پائوں ان کی گردنوں کے اوپررکھتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے تھے۔

قربانی کا کتنا گوشت کھایا جائےاورکتناجمع کرکے رکھا جائے

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَکْوَعِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ضَحَّى مِنْکُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ فَلَمَّا کَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، نَفْعَلُ کَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ: کُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِكَ العَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا (صحیح البخاری، کتاب الاضاحی،باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی،الحدیث:5569) سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میںسے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اب کھائو ، کھلائو اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے